مجرمانہ خاموشی اوربندر بانٹ
(تحریر/ممتازملک.پیرس)
کہتے ہیں کہ کہیں آگ ہوتی ہے جبھی تو دھواں اٹھتا ہے ۔ ہمارے ملک میں این جی اوز کا کردار اور شہرت بھی ہمیشہ سے ایسی ہی رہی ہے ۔ کچھ این جی اوز کو چھوڑ کر باقی سبھی کے ساتھ کوئی نہ کوئی بدنامی اور شکوک و شبہات ہمیشہ ہی منسوب رہے ہیں ۔۔ اس کی یقینا مضبوط اور ٹھوس وجوہات بھی رہی ہیں ۔ پہلی وجہ ان کی چلانے والی اکثریت ان خواتین پر مشتمل ہوتی ہے جن کا اپنا کیریکٹر ریکارڈ زیرو ہوتا ہے۔
اکثر ہی اپنے گھر کو چلانے میں ناکام رہی ہیں ۔
اکثر کی اپنی ہی اولادیں منشیات اور بےراوی کا شکار ہو کر انہیں ناکام مائیں ثابت کرتا ہے ۔
ان کے بینک اکاونٹس کے پیسے کا حساب کتاب حیران کن ہوتا ہے۔
ان کا طرز زندگی اکثر مادر پدر آذاد ہوتا ہے۔
ان کی اکثریت مذہب اور معاشرتی حد بندیوں سے بیزار ہوتی ہے ۔
ان کی اکثریت این جی اوز کی آڑ میں مشکوک سرگرمیوں میں ملوث پائی جاتی ہے ۔
یہ اکثر ملک دشمن لوگوں کی ڈارلنگ ہوتی ہیں ۔
معصوم اور بے سہارا لڑکیوں کی عزتیں ان کے پاس محفوظ نہیں ہوتیں ۔
ان کے پاس کسی بھی مدد کی طلبگار خاتون کے لیئے پہلا مشورہ طلاق لینے کا ہوتا ہے ۔
یہ اصلاحی سے زیادہ تخریبی کاروائیوں میں ملوث پائی جاتی ہیں ۔۔
یہ اور اس سے بھی کہیں ذیادہ شرمناک کاروائیوں میں ان این جی اوز کی مالکان اور کرتا دھرتاوں کے نام لیئے جاتے ہیں ۔ ان کا موجودہ کارنامہ معصوم ، عزت دار ،محنتی اور غریب خواتین کو ان کے حقوق کے نام پر اپنے بے شرمانا اور غلیظ مقاصد کے لیئے 8 مارچ 2019ء کے مارچ میں دھوکے سے شامل کرنا تھا ۔ اس کا ثبوت یی ہے کہ اس مظاہرے میں شامل جس بھی عام عورت سے بات ہوئی تو مظاہرے کے مقاصد ہی کیا انہیں تو یہ تک معلوم نہیں تھا کہ ان کے ہاتھوں میں کون کون سے غلیظ پوسٹرز اور کارڈز پکڑا دیئے گئے ہیں ۔ انہیں بھی یہ خبر شام کو اپنے گھروں کے ٹی وی سیٹ اور اخبارات و سوشل میڈیا سے ہوئی کہ انہیں کس طرح سے معاشرے کی ان غلیظ ہستیوں نے دنیا بھر میں اپنے ملک ، مذہب اور معاشرت کیخلاف بیچا ہے ۔
اس پر شاباش ہے ہمارے حکومتی ٹھیکیداروں کو جنہیں ملک میں ہوتے اس بے حیائی کے سونامی کی تو نہ خبر ہوئی نہ ان پر کوئی بجلی گری ، ہاں اگر کچھ بیحد ضروری تھا تو وہ اس باندر کلے کے کھیل میں اپنی کام چوریوں اور بربادیوں کے عوض اس ملک کے خزانے سے اپنی تنخواہوں کا بے تحاشا اضافہ تھا ۔ جس میں سارے ٹی وی کے نیوز چینل سیاسی مجاہدین (برضا و رغبت لبیک کہتے شیروشکر تھے )قبول ہے ،قبول ہے ،کہتے رہے جو ہر روز میڈیا پر بیٹھے ایک دوسرےکی ماں بہن ایک کر رہے ہوتے ہیں ۔کہ خزانہ خالی ہے ۔ ہم بھوکے ننگے ہو گئے ۔۔دنیا ہمیں بھیک دے ۔ ہم پر ترس کھائے۔ جن کے حکمران ہر روز ایک نئے ملک میں امداد کا پیالہ لیئے گھوم رہے ہیں وہاں ہمارے نمائندگان بیٹھے چوپڑہاں بانٹنے میں مصروف ہیں ۔
گویا پھر سے ثابت ہو گیا کہ جہاں مال و متاع کی ہڈی ہو گی وہاں ہر جماعت کے اراکین بلا۔لحاظ وتفریق
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
کی عملی تفسیر پیش کرتے نظر آئینگے۔
لیکن اس بے حیائی کی نمائندگان کی تادم تحریر نہ ہی کوئی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے ، نہ ہی کوئی حکومتی ایکشن دیکھنے میں آیا ہے ۔ اس کٹی پارٹی ، اور شاپنگ فوبیاز اور جنسی طور پر ترسی ہوئی بیقرار اور بدکار خواتین کے ٹولے کو عبرت ناک سزائیں دینا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کسی دوپٹے کو آگ لگ جائے تو اس پر اور کچھ نہ ملے تو اپنا پاوں رکھ کر ہی بجھا دینا چاہیئے ۔
ہمارا مذہب دنیا کا بہترین مذہب ہے جو ہمیں بحیثت عورت بھی اور انسان بھی وہ حقوق دیتا ہے جس کی بنیاد پر آج ترقی یافتہ اقوام نے اپنے فلاحی محفوظ معاشرے کی بنیاد رکھی ہے اور ہماری معاشرت کی خرابیوں کو ہم خود افہام و تفہیم سے بہتر انداز میں چھانٹ سکتے ہیں ۔ اس کے لیئے ہمیں ان بیمار ذہن اور گھٹیا کردار کی عورتوں کی قطعا کوئی نہیں ضرورت ہے ۔ بطور عورت ہمارے مرد رشتے ہمارا مان بھی ہیں اور ہمارے محافظ بھی ۔ ان میں سے جو بھی اپنی ذمہ داری سے بھاگے گا ہم اسے کان سے پکڑ کر ، چاہے ہاتھ جوڑ کر اپنے صحیح راستے پر واپس لائیں گے۔ ان سے اگر غلطیاں ہوتی ہیں تو دودہ کی دھلی ہم عورتیں بھی نہیں ہوتیں ۔ تو جب غلطیاں دو طرفہ ہیں تو اصلاح بھی دو طرفہ ہی ہونی چاہیئے ۔ محض مردوں کو بدنام کرنے سے نہ کوئی مسئلہ حل ہوا ہے نہ ہو گا ۔ کیونکہ دنیا کو مرد اور عورت دونوں نے ہی مل کر چلانا ہے ۔ اس لیئے ہم ہمارے مذہب اور معاشرت سے باغی کرنے والی ہر انجمن ، ایسوسی ایشن، تنظیم، این جی او کو مسترد کرتے ہیں ۔ اور نہ صرف ان پر بین لگانے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ بلکہ ان کی کرتا دھرتاوں کو قرار واقعی سزا دینے کا بھی مطالبہ کرتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔