ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک
اشعار لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
اشعار لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعہ، 1 جنوری، 2021

● مہاجری انسائیکلوپیڈیا - 2.


       2018ء میں مہاجری انسائیکلوپیڈیا کے لیئے دیا گیا تعارف ۔ جو ورلڈ اردو ایسوسیشن کے روح رواں پروفیسر خواجہ اکرام الدین کو ارسال کیا گیا ۔ 
                           ۔۔۔۔۔


تصانیف / تخلیقات - 3
دو شعری مجموعے 
1- مدت ہوئی عورت ہوئے (2011ء)
2- میرے دل کا قلندر بولے  (2014ء)
ایک مجموعہ برائے مضامین 
1- سچ تو یہ ہے (2016ء )
* پسندیدہ مضمون, غزل, نظم, نعت, افسانہ, انشائیہ, خاکہ 
میں اس وقت جن مضامین پر کام کر   رہی ہوں وہ سبھی میرے پسندیدہ بھی ہیں.  جن میں غزل, نظم, نعت, کالمز, افسانے, مختصر تحریریں معقولے  وغیرہ شامل ہیں.  

غزل کا نمونہ پیش خدمت ہے :


تیرادل میرا گھر
تیرے دل کے راستے میں میرا گھر کہیں نہیں تھا
جو تجھے عزیز ہوتا وہ ہنر کہیں نہیں تھا 

تجھے ڈھونڈنے نکلتے کسی روز پا ہی لیتے
مگر ان ہتھیلیوں میں وہ سفر کہیں نہیں تھا
  
یوں تو وقت ہے مقرر کسی کام کا مگر کیوں
میری روح کو شاد کرتا وہ گجر کہیں نہیں تھا 

نہ ہی دلنواز ادائیں نہ ہی شوق جاں سوزی
میرے دل کا یہ مسافر کہیں دربدر نہیں تھا 

میں ہوں خوش گمان ورنہ مجھے سوچنا تھا لازم
میرے جانے سے اُجڑتا وہ شہر کہیں نہیں تھا

نہ تو جسم کی طلب ہے نہ ہی حسن کی تمنا
یہ معیار نہ تھا میرا میں بھی منتظر نہیں تھا 

مجھے ہے تلاش اس کی جو ہے قدرتوں سے باہر
مجھے اس سے اور بہتر کوئ چارہ گر نہیں تھا 

میری ساری آرزوئیں ممتاز پوچھتی ہیں
تُو یہ کیسے کہہ سکے گاتیرا راہبر نہیں تھا
(کلام / ممتازملک .ہیرس)
مجموعہ کلام /میرے دل کا قلندر بولے
                     ..............                   
  

پیر، 22 اپریل، 2019

● (16) ہر آنکھ تماشائی ہے / شاعری ۔ سراب دنیا



(16) ہر آنکھ تماشائی ہے

 
رنگ ہی رنگ ہے رعنائی ہی رعنائی ہے 
دیکھنے کو جسے ہر آنکھ تماشائی ہے 

جذبہ دشت نوردی میرا اعزاز رہا
زندگی آج اندھیروں سے نکل آئی ہے

کون کہتا ہے کہ محروم تمنا ہو جا
روشنی کے لیئے ترسی ہوئی بینائی ہے 

خوش نہیں تیری محبت میں یہ دنیا گم ہے 
  غم کہ کرنی تھی جسے بس وہی ہرجائی ہے

اے ہوا عشق میرا تیرا قرضدار ہوا
راستے سے  تُو میرے دھول اڑا آئی ہے

درد کی لہر میں دیکھے ہیں کبھی وہ لمحے
موت کے بین میں جب گونجتی شہنائی ہے

فیصلے سارے ہی انصاف نہیں پا سکتے
کچھ تو درپردہ خیالات کی شنوائی ہے

میری گلیوں میں کیا سورج نے چراغاں کرنا
جگنؤوں سے ہی میرے دل نے ضیاء پائی ہے

ہم حیادار تھے الزام یہی تھا تو سن 
بے حیا لوگوں سے ہم نے یہ حیا پائی ہے
اب نہ حیران ہوئی اور نہ نمناک ہوئی
آنکھ سے کتنے حوادث  کی شناسائی ہے

اب تو ممتازبدل جائے مقدر تیرا
ٹوٹنے کو تیرے حالات کی انگڑائی ہے
●●●
    کلام : ممتازملک
      مجموعہ کلام:سراب دنیا
اشاعت:2020ء
●●●


بدھ، 17 اپریل، 2019

● (19) میرا محور بدل گیا / شاعری ۔ سراب دنیا


(19) میرا محور بدل گیا



❤خواہش بدل گئی میرا زیور بدل گیا 
جب سے بنی ہوں ماں میرا محوربدل گیا


❤دکھ دوسروں کے مجھ سے جدا اب نہیں رہے
لہجہ بدل گیا میرا تیور بدل گیا


❤دھڑکن کی گونج میں بڑی طاقت سی آ گئی
انداز ہی دعاؤں کا یکسر بدل گیا


❤اللہ سے کچھ مزید ہی قربت سی ہو گئی
جیسے کہ دوستی کا تصور بدل گیا


❤بھرپور تھا مگر اسی اک پھول کے آتے
جیسے کوئی درخت تناور بدل گیا


❤مجھ کو یقین آنے لگا اپنی ذات پر
پہلے تھا بے یقین جو باور بدل گیا


❤گویا عبادتوں کا ثمر مجھکو مل گیا
چاہت بدل گئی میرا دلبر بدل گیا


❤بہتات تھی جووقت کی قلت میں ڈھل گئی
میری حیات کا سبھی منظر بدل گیا


❤ممتاز ذمہ داریاں بڑھنے لگیں میری 
رکھنا یہ میرے ہاتھ کا سر پر بدل گیا
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام:
سراب دنیا 
اشاعت:2020ء
●●●

بدھ، 20 مارچ، 2019

● (81) یہ دنیا کی نشانی ہے / شاعری ۔ سراب دنیا


       

      (81)  دنیا کی نشانی ہے
          

جہاں امید ہوتی ہے وہیں پر ٹوٹتا ہے دل 
اسی کا نام دنیا ہے یہ دنیا کی نشانی ہے

ہماری ماں کہا کرتی تھی اکدن جان جاو گے
اسی سچ کو جسے سمجھا کہاوت اک پرانی ہے

نہیں تھے ہم تو وہ سب تھے نہیں ہونگے تو بھی ہونگے  
یہ سورج چاند اور تارے  مگر جاں آنی جانی ہے

تمناؤں کے شیشے پر جمی ہے دھول  برسوں کی 
جوانی میں سمجھتے ہو کہ جیون جاودانی  ہے

نئی صبحییں طلوع ہونگی نئے اب رت جگے ہونگے
پرانی یاد کاہے کو تمہیں دل سے لگانی ہے

ہر اک یہ ہی سمجھتا ہے وہی تو بس انوکھا ہے 
انوکھا ہے سفر اسکا ، انوکھی زندگانی ہے 

یہ عزت تھال میں رکھ کر کسی کو بھی نہیں ملتی 
 تمہیں گر چاہیئے تو پھر تمہیں یہ خود کمانی ہے 

وہ جس کے بل پہ جیتی تھی کبھی ہاری لڑائی تب
 تمہیں اک بار پھر سے اب  وہی  ہمت  دکھانی ہے

نہیں تھا وقت جس کے پاس ہم سے بات کرنے کا 
 ہمارا سوچنا اسکو  کہانی اک سنانی ہے 

اگر ہم سے صلاح کرتے کبھی وہ مشورہ کرتے 
بتاتے بات الجھی ہو تو بھر کیسے بنانی ہے 

اسی دھرتی پہ رہتے ہو، مسائل پیش آئینگے
نہ تم راجہ ریاست کے نہ ہی وہ ماہ رانی ہے 

یہ ہی تو سوچ کر ممتاز آتی ہے ہنسی ہمکو 
ہمیں  احمق سدا ٹھہرے یہ دنیا تو سیانی  ہے
                   ●●●

کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام:
سراب دنیا 
اشاعت:2020ء
●●●

اتوار، 11 ستمبر، 2016

ڈر گئے سارے






اک قلندر سے ڈر گئے سارے 
موت پہ اس کی مر گئے سارے 

جیتنا چاہتے ہیں لوگوں کو 
دل سے لیکن اتر گئے سارے 

Add caption

منگل، 18 فروری، 2014

● (72) آنکھیں بیچیں / شاعری ۔ سراب دنیا


             آنکھیں بیچیں 
            (کلام/ممتازملک۔پیرس)

میں نے اپنی آنکھیں بیچیں 
مجھ کو خوابوں میں رہنا تھا 

میں نے اپنے سپنے بیچے 
مجھ کو سپنا سچ کرنا تھا 

پھر میں نے سچ کو بھی بیچا
سچ سے مجھ کو کیا ملنا تھا 

سچ کو بیچا جھوٹ خریدا
جھوٹ کی منزل سرکرنا تھا

جھوٹ کی بنیادوں میں مجھ کو
سچائی کا خوں بھرنا تھا  

اب تک نہ ممتاز یہ سمجھے 
ہم کو آخر کیا کرنا تھا
●●●

جمعہ، 16 اگست، 2013

● (74) اپنے حق کے لیئے/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے



(74) اپنے حق کیلیئے




اپنے حق کیلیئے آواز اُٹھائی ہوتی
کاش یہ شرم کے پردے تو اتارے ہوتے 

زیست بنتی نہ کبھی جستجوۓ لاحاصل
پھر یہ ممکن تھا کہ طوفاں میں کنارے ہوتے

رات کی گود سے گر مانگ کے لاۓ ہوتے 
چاند تارے بھی تیرے دوش پہ وارے ہوتے

روشنی کم نہیں گھر میں تیر ے ہونے دیتے
کاش آنچل میں میرے اتنے ستارے ہوتے

آنکھ کے پانی کو شبنم کا سا عنواں دیکر
چند پھولوں کے ہی چہرے تو نکھارے ہوتے

دوسروں کیلیئے جو درد کا درماں بنتے
خود بھلا درد میں ممّتاز بیچارے ہوتے
●●●
کلام: مُمتاز ملک 
مجموعہ کلام:
 میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: 2014ء
●●●

● (70) گُل نہ مار/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے



(70) گُل نہ مار


کانٹوں کا احتساب ہے پھولوں کا انتظار
یوں گل اُٹھا کے نہ تُو میرے زخمی دل پہ مار

گر آج ہیں نصیب سے راہیں جُدا جُدا
ممکن ہے کل یہ وقت نگاہوں کو کر دے چار 

کچھ تو لحاظ بات میں لہجے میں چھوڑیئے
اس سے ذیادہ جھیل نہ پائیگا دل بیمار

سوچوں کو انتخاب کا موقع تو دیجیئے
جس میں حقیقتوں کے مناظر ہیں بیشُمار

وابستہ تیری ذات سےغم پہلے کم نہ تھے
مجھ کوتیرے وجود سے ملتی ہےصرف ہار

انہونیوں نے راستے گھر کے بتا دیئے
ممتاز ہونیوں نے کبھی کا دِیا تھا مار

●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: 2014ء 
●●●  

● (68) خود کو بڑا کر/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے




(68) خود کو بڑا کر


محبوب ہیں جو اسکے کبھی ان میں جگہ پا 
لاچار سے لوگوں میں نہ یوں خود کو بڑا کر

جو کہ ہیں طلب گار جاہ و ہشم انہیں کہہ
ان عاشق دنیا کے نہ تو در پہ پڑا کر

بے مایہ یہ جھنجھٹ ہیں تو بے فیض کلامی
بچنا ہے تو تُو ذہن پہ پہرے کو کڑا کر

ہر چیز اپنی جا پہ ہی اچھی نظر آئے
ہیرے کو کبھی جا کے نہ پیتل میں جڑا کر 

ہاتھوں کو بنا کاسہ نہ آ نکھوں کو سوالی
نہ اپنی خودی کو یوں فقیروں میں کھڑ اکر

ہر ایک کو ہے اپنے اصل پر ہی پلٹنا
دیوار کے لکھے کو شب و روز پڑھا کر

جتنا بھی ہے منظور خدا وہ ہی ملے گا
مُمتاز مقدر کی لڑائی نہ لڑا کر

●●●
کلام: مُمتازملک
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: 2014ء
●●●

● (67) سچا ہی تو تنہا ہے/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے



(67) سچا ہی تو تنہا ہے


سچا ہی تو تنہا ہے جھوٹے کے ہیں یار کئی 
پھر بھی اس سے ڈرتے ہیں کتنے ہیں لاچار بھئی

بے پیندے کے لوٹوں جیسا ان کا حال سدا رہتا ہے 
پھر بھی جون نہ بدلیں اپنی ذہنی ہیں بیمار کئی

جیسی ہیں بے وقت نمازیں ایسی ان کی توبہ ہے
راتوں کو بھی اٹھ اٹھ کر ہیں کتنے ٹکریں مار کئی

اک بات انہیں سمجھادے کوئی اک رستہ دکھلا دے کوئی
اک تنہا ہی ہے سچا ہے نہیں اسکے لیئے منجدھار بھئی

بس فرض ادا کرتے جاؤ یہ حکم ہے جسکا اسکے لیئے
ان لوگوں نے کیا دینا ہے ہر روز کریں تکرار نئی

یا بیٹھے گا یا بہہ جائیگا بس آگ کی لو کو کم کر دو
یہ جوش ابلتے شیر سا ہے نہ ان میں پھونکیں ماربھئی

  بدمست جوانی میں انکو کب ہوش ہے یہ ڈھل جائے گی    
  ممّتاز جو اچھی بات کرے یہ لے آئیں تلوار نئی    
         
  ●●●    
     کلام/مُمّتازملک 
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
                  ●●●                                                                         

● (56) فطری دھمال/ شاعری ۔میرے دل کا قلندر بولے




(56) فطری دھمال


ہر کوئی گھومتا ہے زمانے کی چال پر
شاید ہے محورقص وہ فطری دھمال پر 

  وہ کہہ رہا ہے خوبیاں اپنی تلاش کر 
  دوجے کو دیکھ اپنا نہ چہرہ گلال کر  

 بے پر کی اڑاتا ہے جو لفظوں کے کھیل میں 
  کوئی تجھے پرکھے ہے مصیبت میں ڈال کر 

  آئیگا کسی روز مجھے لینے سنا ہے  
اس دن کا انتظار کروں دل سنبھال کر 

  آئیگا وہ تو ساتھ مجھے لیکے جائے گا 
 تیار نہ اسکے لیئے حیلوں کے جال کر

   لمبی اڑان بھر کے بہت تھک گیا ٹہر
  تو اڑ چکا پر پُرزے بہت سے نکال کر 

 پُرکاریاں تیری جو کسی کام آسکیں  
 ممتاز انکو گدڑی میں رکھنا سنبھال کر
●●●
 کلام:ممتاز ملک 
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: 2014ء
 ●●●   

● (55) سلسلے/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


(55) سلسلے


کتنے بےربط سلسلے ہیں سبھی 
 پھر بھی لگتا ہے ہم ملے ہیں کبھی  

 کوئی رشتہ ہے آنسوؤں  سے کہیں
   اس لیئے اتنے دل جلے ہیں سبھی  

 اک عجب سا جمود طاری ہے  
زخم بھی کچھ تو ان سلے ہیں ابھی 

  موت کی آرزو بھی کیا کرتے   
 زندگی سے کئی گلے ہیں ابھی

   دل کی کشتی ہے وقت کا طوفاں
پھر بھی ساحل سے جا ملے ہیں کبھی  

 کانچ کا زخم سے جو رشتہ ہے
  بس اسی طور مرحلے ہیں ابھی

  میں ہوں مُمتاز چُپ وہ جان تو لے
دل سے دل کس طرح ملے ہیں کبھی 

●●●
 کلام: مُمتازملک 
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
●●●

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/