ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک
افسانے لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
افسانے لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

پیر، 15 جولائی، 2024

& فیس ۔ افسانہ۔ قطرہ قطرہ زندگی


          فیس



کل فیس کی آخری تاریخ ہے ۔ لیکن ابھی تک اس کے پاس فیس کے پیسے جمع نہیں ہو سکے تھے اس کی امتحان کی تیاری تو بہت اچھی تھی لیکن فیس جمع کرائے بغیر امتحان میں نہیں بیٹھ سکتی تھی۔
 پریشانی سے اس کا دل بیٹھا جا رہا تھا
 اس نے اپنی دوست رینا سے اپنی پریشانی کا ذکر کیا تو اس نے اسے صلاح دی کہ ہماری ایک کلاس فیلو منیزہ کافی لوگوں کی مدد کرتی ہے۔ تو کیوں نہ اس سے ادھار ہی لے لو۔
 اگر مدد نہیں چاہتی تو ادھار  تو لے لو۔
 مانیہ نے کہا
 نہیں وہ میری کلاس فیلو ہے۔
 کل کو ساری زندگی کے لیئے اس کی سامنے میری انکھیں جھکی رہیں گی۔ میری گردن جھکی رہے گی۔ میں اس کا کوئی احسان نہیں لینا چاہتی اور تم جانتی ہو وہ کتنی بد مزاج بھی ہے کسی بھی وقت منہ پر بات مار دے گی اور میں ہمیشہ کے لیے ذلیل ہو جاؤں گی۔
 نہیں میں ایسا نہیں کر سکتی۔۔۔
 تو پھر تم کیا کرو گی ریحا نے اس کی پریشانی کو محسوس کرتے ہوئے پوچھا 
جو اللہ بہتر کرے وہ کالج کے گراؤنڈ سے اپنے کلاس کے کمرے کی طرف جا رہی تھیں۔
ایسے میں ستون کے پیچھے اتفاقا کھڑی منیزہ نے ان دونوں کی باتیں سن لیں۔۔
 اسے افسوس ہوا کہ اس کی طبیعت کی وجہ سے ایک اچھی اور قابل لڑکی اس سے کسی قسم کی مدد لینے سے ہچکا رہی ہے۔
 لیکن وہ اس کی مدد کرنا چاہتی تھی۔ ایسے کہ اس کی عزت نفس بھی سلامت رہے۔
 وہ سوچنے لگی وہ یہ کیسے کرے۔ کیونکہ کل فیس کی آخری تاریخ تھی۔ 
 وہ چاہتی تو خود جا کر اس کی فیس جمع کروا سکتی تھی۔ کسی کو نام بتائے بغیر لیکن جیسے تیسے کالج میں یہ بات اٹھتی اور بات پھیل ہی جاتی۔ اس تک پہنچ جاتی اور یوں وہ ساری زندگی اس کے سامنے صرف نگوں رہتی اور وہ ایسا نہیں چاہتی تھی۔
 وہ جانتی تھی ک مانیہ ایک خوددار اور ذہین طالبہ ہے۔ وہ کسی قیمت پر اس کا یہ سال ضائع نہیں ہونے دے گی۔
 اس نے کچھ سوچا مسکرائی اور چھٹی کا انتظار کرنے لگی۔
 اس نے گھر جاتے ہوئے سب سے پہلے اپنے بینک سے کچھ رقم نکلوائی اور سیدھی مانیہ کے گھر پہنچ گئی۔ مانیہ اسے اپنے دروازے پر دیکھ کر حیران ہو گئی 
تم یہاں ؟
سب ٹھیک ہے ناں؟
 ہاں ہاں سب ٹھیک ہے ۔
کیوں مجھے دیکھ کر حیران کیوں ہو رہی ہو۔ میں تمہارے گھر نہیں آ سکتی کیا۔
 ہاں ہاں کیوں نہیں آ سکتی۔ ضرور آ سکتی ہو۔۔
مانیہ نے منیزہ کو گھر کے اندر آنے کا رستہ دیا۔
 کون ہے بیٹا ۔۔
ماں نے آواز دی
 امی وہ میری کلاس فیلو ہے۔
 اچھا اچھا آؤ نا بیٹا اندر آؤ بیٹھو۔
 میں ا
آپ لوگوں کے لیے کچھ کھانے پینے کو لاتی ہوں۔
 لیکن آپ تو ابھی اپنی کالج کے یونیفارم میں ہو ۔
گھر نہیں گئی کیا ؟
انہوں نے دیوار  پر لگی گھڑی دیکھتے ہوئے پوچھا
 نہیں آنٹی آج ماما نے ایک کام دیا تھا تو وہ کرنا ضروری تھا اس لیئے میں نے سوچا چلیں کالج کے بعد وہ کام کرتے ہوئے گھر کی طرف نکلوں۔
 اچھا اچھا چلو بیٹا  میں کھانے کا ٹائم ہے کھانا لگاتی ہوں۔
 نہیں نہیں آنٹی تکلیف نہیں کیجیئے گا۔
 میں ابھی گھر جا کر کھانا کھاؤں گی۔
 ارے بیٹا جو دال ساگ بنا ہے تم بھی دو لقمے لگا لینا ۔ ہم نے کون سی یہاں مرغ مسلم کی دیگ دم کرنی ہے تمہارے لیئے الگ سے ۔
وہ ہنستے ہوئے کچن کی طرف چلی گئیں ۔
 مانیہ سوچنے لگی منیزہ کے آنے کا مقصد کیا ہو سکتا ہے۔
 لیکن پھر بھی اس نے خوش دلی سے اسے بیٹھک میں بٹھایا ۔
فرج سے پانی کی بوتل نکالی۔ پانی پلایا۔
 اس کی ماں نے اس وقت تک کھانا میز پر لگا دیا تھا ۔
 دونوں نے مل کر کھانا کھایا آلو گوبھی کی سبزی جس کے ساتھ اس کی ماں نے اسے دیکھتے ہوئے اچار اور چٹنی بھی رکھ دی۔
 گھر کے بنے ہوئے پھلکوں کے ساتھ منیزہ کو واقعی کھانے کا لطف آ گیا۔ اس نے آنٹی کی دل سے تعریف کی۔
 آنٹی آپ نے کھانا بہت اچھا بنایا۔
میں نے بہت دنوں بعد اتنا مزے کا کھانا کھایا ہے۔
ارے بیٹا مذاق کر رہی ہو کیا ۔۔
نہیں نہیں آنٹی کھانا واقعی بہت مزے کا تھا ۔
اس نے منیزہ کو کہا اچھا میں چلتی ہوں لیکن تم سے ایک کام تھا اگر تم کر سکو تو۔۔۔
 مانیہ نے کہا ہاں بتاؤ میں کیا کر سکتی ہوں۔
 اس نے جیب سے  ایک لفافہ نکالا  اور اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔
یہ کیا ہے؟
مانیہ نے سوالیہ نظروں سے اسکی جانب دیکھا
یار تمہیں پتہ ہے میری ماما نے مجھے کچھ لوگوں کے لیئے ضرورت کے پیسے دینے کو کہا تھا۔ اب میں کہاں ڈھونڈتی پھروں گی لوگوں کو کس کس کو دوں۔ ایک دو کو تو میں جانتی تھی کچھ رقم میں نے وہاں پہ ان کو مدد میں دے دی۔
 لیکن یہاں پہ بھی تو طالب علم رہتے ہیں۔ جن کو تم جانتی ہو تو ان کو تم دے دینا۔
 اب میں اپنے کالج کے سوا زیادہ لوگوں کو نہیں جانتی۔
مجھے پتہ چلا کہ تمہاری گلی میں بھی کچھ طالب علم میں رہتے ہیں جن کی فیسز آج کل میں ہی جانے والی ہیں تو پلیز تم سے ایک فیور چاہیئے تھی اگر تمہیں برا نہ لگے تو میری تھوڑی سی مدد کر دو کیسی مدد مانیہ نے حیرت سے پوچھا اصل میں میں کہاں ہے ایک کو ڈھونڈو گی تو میں ایسا کرو یہ لفافہ اپنے پاس رکھو اور یہاں جن کو تم جانتی ہو نا تم ان کو دے دینا بس پلیز باقی مجھے کیا ان سے ملنا ہے اور نہ جاننا ہے۔ میں کیا کروں گی ان سے مل کر۔ تم بس ان کو دے دینا اور ان کی فیسیں جمع ہو جائیں گی تو میری ماما کی جو آرڈر ہے یہ پورا ہو جائے گا ۔
میں قسم تو اٹھا سکوں گی نا سٹوڈنٹس تک پیسے چلے گئے ہیں۔
 کیا تم میری مدد کرو گی
 مانیا حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی یہ سچ ہے یا کوئی ڈرامہ یا خدا کی مدد یا اس کا کوئی پردہ رکھا جا رہا ہے۔۔
 اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کرے۔
 لیکن منیزہ نے اسے زیادہ سوچنے کا وقت نہیں دیا اس نے لفافہ اس کے ہاتھ میں رکھا اور جلدی سے دروازے سے باہر کی طرف ہو لی۔
  بھئی او ہو مجھے بہت دیر ہو گئی اچھا میں چلتی ہوں اوکے بائے کل پھر ملیں گے انشاءاللہ
 اپنا خیال رکھنا اللہ حافظ 
یہ کہتے ہوئے منیرہ تیزی سے گھر سے باہر نکل گئی
 مانیہ ہکی بکی کھڑی تھی۔
 کل اسے ہر صورت فیس کے 25 ہزار روپے جمع کرانے تھے اور ایک لفافہ اس کے ہاتھ میں تھا جو کسی طالب علم کی فیس جمع کرانے کے لیے دیئے گئے تھے وہ حیران پریشان کھڑی تھی ۔
 اس کی ماں نے آواز دی 
کہاں ہو مانیہ کیا منیزہ چلی گئی 
 جی ماما اسے جلدی تھی وہ چلی گئی۔
 تو اندر آ جاؤ۔ دروازے میں کیوں کھڑی ہو۔
تم نے کھانا بھی ٹھیک سے نہیں کھایا جی امی بس آپ کو پتہ ہے۔ پریشانی تھی۔ میرا دل نہیں کر رہا تھا کھانا کھانے کو ۔
کیا پریشانی ہے بیٹا
اسکی ماں نے فکر مندی سے پوچھا

 آپ کو پتہ تو ہے کل فیس کی آخری تاریخ ہے اور میرے پاس فیس جمع کرانے کے پیسے نہیں ہیں اس کی ماں شرمندہ سے ہو گئی  ۔
 اس نے کہا بیٹا پھر اب کیا کریں گے کہیں سے ادھار بھی نہیں لیا جا سکتا اج کل تو کوئی کسی کو 25 پیسے نہیں دیتا ۔
25 ہزار روپے کا انتظام کہاں سے کروں۔
 اس بار تو بلوں نے ہی زندگی عذاب کی ہوئی ہے۔ اتنے بھاری بل تھے کہ اب تو لگتا ہے تن کے کپڑے بیچ کر یہ بل دینے پڑیں گے یا میٹر کٹوانے پڑیں گے۔
 ماں بھی سچ کہہ رہی تھی وہ کیا کرتی بیچاری۔ ایک محدود آمدنی کے اندر تین بچوں کے ساتھ گھر کا گزارا کوئی آسان کام نہیں تھا۔
ابا کی کمائی میں کبھی سر ننگا اور کبھی پاؤں ننگے والا حساب تھا ۔
وہ ان کی مدد کرنا چاہتی تھی۔ اپنے پیروں پہ کھڑا ہونا چاہتی تھی۔ لیکن اپنی ڈگری کو مکمل کیئے بغیر یہ ممکن نہیں تھا ۔
منیزہ کیسے آئی تھی ۔سب ٹھیک تھا نا ۔جی امی ایک کام تھا ۔
کہہ رہی تھی یہاں پہ گلی میں کچھ سٹوڈنٹس کے لیئے ان کی ماں نے کچھ رقم نکالی ہوئی تھی کہ بھئی کس کی مدد کرنا چاہتی ہیں اب وہ سوچ رہی تھی کہ میں کہاں طالب علم کوئی ڈھونڈوں گی تو میں اپنی گلی میں کسی کو دیکھوں اور کسی کے دے دوں۔
 کیا کیا کہہ رہی ہو تم ؟
کیا مطلب 
بچہ بغل میں اور ڈھنڈورا شہر میں،  وہ طالبات اور طلبہ کی مدد کے لیئے تمہیں رقم دے کے گئی  
تم بھی تو کل فیس ہی جمع کرانا چاہتی ہو ۔ دیکھو تو اس میں کتنے پیسے ہیں شاید اللہ نے تمہارے لیئے کوئی مدد ہی بھیج دی ہو ۔
 اس نے لفافہ کھولا اور اس میں رقم دیکھی تو 40 ہزار روپے رکھے تھے ۔
وہ بہت حیران ہوئی اسے 25 ہزار کی ضرورت تھی لیکن اس کے ہاتھ میں 40 ہزار کا لفافہ تھا ۔
ماں بیٹی ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگی۔۔
 اس نے اپنی ماں کی طرف دیکھا تو انہوں نے کہا کہ بیٹا کل کو تم اپنی فیس جمع کرا دینا ۔
اسے اللہ کی مدد ہی سمجھو لیکن امی یہ تو چوری نہیں ہو جائے گی، امانت میں خیانت نہیں ہو جائے گی  کیوں بیٹا اس نے تمہیں خود کہا کہ سٹوڈنٹ کی فیسیں جمع ہو رہی ہیں ان میں سے کسی کی فیس جمع کرا دینا۔
 تو تمہارا پردہ اللہ نے رکھا ہے تمہاری مدد بھیجی ہے ۔کل کو زندگی میں تم اسی طرح کسی کی اور کی مدد کر دینا ۔جب تمہارے پاس رقم ہوگی تو۔  اس نے سوچا 
امی آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں  
جب بھی میں خود کمانے لگی تو پہلی بچت میں سے اسی طرح کسی اور کی پردے کے ساتھ مدد کر دونگی۔
 ہاں امی آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں ۔
لیکن کیا یہ ٹھیک ہوگا۔۔
 کیوں بیٹا اس میں کیا غلط ہے تم اسے بتانا نہیں چاہتی یہ اور بات ہے بتانا چاہتی ہے تو بتا دو۔ وہ اچھی لڑکی ہے۔ اس کی ماں بھی  اچھی عورت ہے جو کسی کے لیئے اس طرح سے مدد کرتی ہے۔
اس نے لفافے کو دیکھا اور آسمان کی طرف نظر اٹھائی۔
 شکریہ پروردگار واقعی تو کیسے کیسے بہانے اور کیسے کیسے حیلے بناتا ہے میں تجھ سے وعدہ کرتی ہوں کہ جب میں کمانے کے لائق ہوں گی تو یہی رقم تجھے ڈبل کر کے کسی اور کی مدد کی صورت ضرور واپس کروں گی  ان شاءاللہ 
شکریہ تیرا اس پردے کے لیے شکریہ
                   ۔۔۔۔۔۔۔

جمعہ، 5 اپریل، 2024

& ہیپی سسرال۔ افسانہ۔ قطرہ قطرہ زندگی



آج وہ بے حد پریشان تھی تھی اس کا سر درد سے پھٹا جا رہا تھا اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر کرے تو کیا کرے ۔
 آج اس کی شادی کو پورے پانچ سال ہو چکے تھے ۔ لیکن اسے ساس کا سکھ کبھی نصیب نہیں ہوا۔ 
ساس بھی کیا چیز تھی۔ وہ جب سے شادی ہو کر آئی۔ بڑے ارمان سے اپنے گھر میں قدم رکھا تھا کہ آتے ہی ساس کو لات مار کر نکالے گی۔ بات بات پر جھگڑا کرے گی۔ لیکن وہاں ایسا کیا  ہوا،
 اس کے تو نصیب ہی پھوٹ گئے ۔
ساس ہے کہ کیا بلا ہے ۔ پہلے دن سے ہی بلکہ شادی سے پہلے سے ہی اس کی کوئی بھی ایسی فرمائش  نہیں تھی جو پوری نہ کی ہو۔ شادی کے بعد گھر میں قدم رکھنے سے لے کر آج تک ہر بات میں صدقے واری جاتی تھی۔ اس نے کئی بار بدتمیزی بھی کی ، جھگڑا کرنے کا موقع بھی بننے دیا  لیکن اس عورت کی فطرت پر حیران ہوں کہ وہاں سے لڑنے کا کوئی موقع نہیں دے پا رہی تھی ۔
بھلا وہ بھی کوئی گھر ہوا ۔جہاں دو برتن ہوں اور کھٹکیں نہ ۔
یا ان کی آواز باہر نہ جائے ۔
لوگ تماشہ نہ دیکھیں اور چار عورتیں بیٹھ کر چغلیاں غیبتیں نہ کریں۔ ساس بہو  کے رشتے کا مزا ہی کیا ہوا۔ 
شادی کے پہلے ہی مہینے بھر میں اس نے جانے کیا کچھ کر کے دیکھ لیا۔
 شادی کے اگلے ہی روز ناشتے کی میز پر میں یہ کھاؤں گی اور یہ نہیں کھاؤں گی کہہ کر انہیں چڑھانے کی خوب کوشش کی لیکن ساتھ ساس صاحبہ نے کون سی چیز تھی، جو میز پر نہیں رکھی پراٹھے، پوریاں، چنے، چائے بھی اور لسی بھی اب بھلا یہاں تک کہ ڈبل روٹی بھی سینڈوچز کی صورت موجود تھی
 یا اللہ وہ نقص کس چیز میں نکالے ۔ پائے بھی نان کے ساتھ میز کی رونق بڑھا رہے تھے۔ کوئی چیز چھوڑ تو دینی تھی تاکہ وہ کہتی کہ وہ نہیں ہے تو مجھے وہ کھانی ہے۔ ابلے ہوئے اور فرائی بھی انڈے تک تو موجود تھے۔
 اس کا موڈ کچھ مکدر سا ہو گیا، لیکن کوئی بات نہیں امید پہ دنیا قائم ہے
 یہ سوچ کر اس نے دن کے کھانے اور رات کے کھانے پر نظر رکھی، لیکن نا جی ہر چیز بہترین لاجواب اس کے کہنے سے پہلے اس کے سامنے موجود تھی۔
 اس نے بھی مسکرا کر ان کا شکریہ ادا کیا۔
 ساسو ماں تو جیسے کسی ٹھنڈی مٹی سے بنی ہوئی تھی۔ اس کی کسی اعتراض کے جواب میں مجال ہے جو ماتھے پر بل ڈالا ہو۔
 حالانکہ اس نے تو اچھا بھلا سنا تھا شادی کے بعد گھر میں قدم رکھتے ہی ساس اور نند کے تیوری کے بل یوں چڑھتے ہیں ۔ جیسے منڈیوں میں بھاؤ لیکن واللہ یہاں تو ساسو بیگم بچھتی چلی جا رہی ہیں۔
 اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔۔ 
شاید گھر میں میری کوئی نند نہیں ہے ۔
 اگر وہ ہوتی تو گھر میں کتنی رونق ہوتی۔
 ادھر سے گھوریاں پڑتیں۔ ادھر سے کان میں کھسر پھسر سنائی دیتی۔ ادھر سے اس میں کیڑے نکالے جاتے۔ یہاں سے میں ترکی بہ ترکی جواب دیتی
 واہ واہ واہ واہ سوچیئے کیا رونق ہوتی گھر میں۔ 
ساسوں ماں نے تو گھر میں اس رونق کا موقع ہی نہیں آنے دیا۔
 بیٹی شادی میں مہمان بنکر آئی تھی  اور ساتھ میں اس کو رخصت کر دیا کہ جاؤ بیٹا رات کو ٹھہرنے کی ضرورت نہیں۔ کل ولیمے میں ملاقات ہوگی اور اسے اپنے گھر رخصت کر دیا ۔ 
یہ کوئی بات ہوئی بھلا۔
 ذرا نہ سوچا کہ گھر میں رونق کون لگائے گا ۔
خیر میں نے بھی آہستہ آہستہ ان کی آزمائش کے امتحان لینے شروع کر دیئے۔
 اس روز تو انہوں نے اپنا پسندیدہ جوڑا استری کے لیئے رکھا تو زینیہ نے جا کر سٹینڈ پر کھڑے ہو کر زبردستی ان سے لے کر استری کرنے کی خواہش ظاہر کی۔
 ساسو جی بھی ہنس کر ، 
ٹھیک ہے بیٹا جیسے تمہاری خوشی
کہہ کے کمرے سے باہر چلی گئیں۔ اور میں نے آج اپنے گھر میں ایک جنگ عظیم کا ماحول بنانے کے لیئے اور اس مزے کو انجوائے کرنے کے لیئے، اس تھرل کو حاصل کرنے کے لیئے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی سوچی۔
 میں جانتی تھی یہ سوٹ میری ساس کو بہت پسند ہے اور آج یہی ہمارے گھر میں رونق کی وجہ بنے گا۔
 یہی سوچ کر میں نے اس نازک سے ریشمی سوٹ کے لیے استری کو فل پہ گرم کیا اور اچھی طرح جب استری کے دھوئیں نکلنے لگے میں نے اس قمیض پر اس طریقے سے استری کو رکھا۔
 بلکہ چپکا دیا کہنا زیادہ مناسب رہیگا کہ واہ واہ واہ واہ لمحوں میں ہی تہوں کی تہوں سے کپڑا غائب ہو چکا تھا۔ پوری استری کا ڈیزائن چھپ چکا تھا اب مجھے پورا یقین تھا کہ 
      اج رولا پوے پوے 
میں نے معصوم سی شکل بنائی اور ساسو ماں کے پاس حاضری دی۔
 ممی جی، ممی جی وہ نا ، وہ نا مجھ سے غلطی ہو گئی۔
 اس نے قمیض انکے سامنے کی اور اس کے استری سے جلے سوراخ میں سے جھانکتے ہوئے بولی
 آپ کی قمیض۔۔۔۔
 ساسو ماں نے غور سے قمیض کو دیکھا اور اس کی شکل کو دیکھا۔ تھوڑا سا افسوس ان کے چہرے پہ لہرایا پھر انہوں نے اسے ایک طرف رکھ دیا۔
 کہا۔۔
 کوئی بات نہیں بیٹا تمہارا ہاتھ تو نہیں جلا
 تم تو ٹھیک ہو نا؟
 بھاڑ میں جائے قمیض۔ دیکھ دیکھ کر ویسے ہی دل بھر چکا تھا کوئی بات نہیں۔
 وہ ممی جی سٹینڈ بھی جل گیا ہے ۔وہاں بھی استری چھپ چکی ہے۔ 
اس نے مزید بم پھوڑا
 اچھا چلو دیکھ لیں گے۔ خیر ہے کوئی بات نہیں۔ تمہیں استری کرنا نہیں آتی۔ تو مت کرو۔ میں تو خود ہی کر رہی تھی تمہاری فرمائش پر تمہیں دے دیا لیکن کوئی بات نہیں۔
 ممی جی آپ غصہ تو نہیں؟
اس نے ڈرامائی پریشانی سے پوچھا
نہیں بیٹا غصے کی کیا بات ہے۔ مجھ سے بھی تو جل سکتی تھی۔ اور تمہاری نند یہاں ہوتی تو اس کے ہاتھوں سے بھی جل سکتی تھی۔ بس اس قمیض کی قسمت ہی یہیں تک تھی۔
 مجھے دل میں شدید افسوس ہوا اتنی خوبصورت قمیض کے جلانے پر ۔
لیکن اس سے زیادہ غصہ اس بات پر آیا کہ ساسو ماں کو ذرا خیال نہیں آیا کہ 
 اتنا نقصان کر دیا میں  انکا سوٹ جلا دیا ۔سٹینڈ جلا دیا ۔سٹینڈ پر پڑا کور تک جل چکا تھا اور یہ اتنی ٹھنڈی مٹی سے بنی ہے ۔
مجال ہے لڑنا تو چھوڑیں ڈانٹ ہی دیا ہو مجھے،
 تاکہ میرے دل کو تھوڑا چین آتا،  قرار آتا ۔
مجھے تو ان کی حس ساسیات پر شک ہونے لگا تھا ۔
یہ واقعی میری ساس ہیں بھی کہ نہیں ۔ ہو سکتا ہے پڑوسن ہو یہ۔
جسے میرا شوہر فیصل ساس بنا کر لے آیا ہو۔
 کھانے میں میں نے نمک زیادہ کر دیا تو خاموشی۔
 پہلے تو مجھے کھانا بنانے نہیں دیتی تھی اور جب میں نے برباد کر دیا تو بھی خاموشی ایک مسکراہٹ۔
 اس روز میں نے جان بوجھ کر باتھ روم کا نل خراب کر دیا پانی بہہ کر ساری طرف پھیلتا رہا تو خاموشی۔
 کوئی بات نہیں بیٹا مجھ سے بھی تو ہو جاتا نا ۔۔
 اور آج میں نے ان کی اتنی خوبصورت مہنگی پیاری شرٹ کو جلا دیا اور پھر خاموشی۔ پیاری سی مسکراہٹ کے ساتھ۔۔ 
 یار یہ کیسی خاتون ہے ان کے ساتھ زندگی کیسے گزاری جا سکتی ہے۔
اس کے دونوں بچوں کی پیدائش کے دورانیہ میں انہوں نے اس کا انتا خیال رکھا ۔ جو منہ سے نکلا وہی پکا ۔ جہاں جانا چاہا ۔ کبھی نہیں روکا ۔ نہ جانا چاہا تو کوئی زبردستی نہیں کی۔ اس کے میکے سے کوئی بھی آ جاتا تو اس کی مثالی آؤ بھگت ہوتی۔ ہر عید تہوار پر وہ اپنے سمدھیانے میں زینیہ کے ہاتھوں ضرور کچھ نہ کچھ تحائف بھواتیں ۔ 
اس کے بچے کب گود سے نکل کر چلنے لائق ہو گئے ۔ اسے پتہ ہی نہیں چلا
وہ کبھی اپنے بچوں کے لیئے راتوں کو نہیں جاگی۔ یہ کام بھی اس کی ساس نے مسکراتے ہوئے خوشی خوشی اپنے ذمے لے لیئے ۔ 
بچے اپنی دادی پھوپھو کی محبت میں اس قدر تمیز دار تربیت یافتہ کہ بچوں کی ننھیال بھی انکی مثال دیا کرتی۔ 
لیکن اس پانچ سال کے عرصے میں اس کے دل میں کپتی جھگڑالو بہو بننے کے سارے ارمان آنسو بہاتے رہے۔ 
آخر صبر کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ اتنی روکھی پھیکی زندگی جینے میں کیا مزا ہے۔
 نہ زندگی میں کوئی اونچی آواز ہے نہ ہنگامہ ہے نہ شور نہ شرابہ ۔ نہ کوئی جھگڑا، نہ ہی رونق رہ گئی میری زندگی میں۔
 یا اللہ جنہیں چاہیئے ان کو ایسی ساس دیتا ۔
میں نے تجھ سے کب مانگی تھی ایسی ٹھنڈی امن کی فاختہ ساس۔ میں تو کسی چڑیل ساس سے مقابلے کی پوری تیاری اور ارمان کیساتھ اس گھر میں نازل ہوئی تھی ۔
 لیکن آج پانچ سال کے صبر کے بعد میں نے فائنل فیصلہ کر لیا تھا مجھے ان کے ساتھ نہیں رہنا اس نے جب فیصل کو یہ بات بتائی تو وہ ہکا بکا ہو گیا 
کیا مطلب تمہاری اس بات سے۔۔۔
 کیا تکلیف ہے تمہیں یہاں۔
 ہر چیز تمہیں کہنے سے پہلے میسر ہے میری ماں جھگڑا کرنے والی نہیں۔ فساد کرنے والی نہیں۔ مقابلہ کرنے والی نہیں۔
 یہی یہی یہی تو تکلیف ہے مجھے کہ کیوں نہیں، کیوں نہیں کیا میرے ساتھ یہ سب کچھ
 کیا میں گھر کی بہو نہیں۔
 کیا میں تمہاری بیوی نہیں۔
 کیا وہ واقعی تمہاری ماں نہیں۔
 کیا وہ میری ساس نہیں۔
 تو پھر کیا وجہ ہے کہ مجھے یہ ساری سہولتیں میسر نہیں۔
 او مائی گاڈ۔۔ کون سی سہولتیں۔ کیا کہنا چاہ رہی ہو۔ اس قسم کی سہولتیں۔یہی جو ابھی آپ نے بتائی

ہر چیز وقت پر میسر ہے ۔کہنے سے پہلے ہر چیز موجود ہوتی ہے ۔کوئی اونچی آواز میں بات نہیں کرتا۔ کوئی چک چک نہیں ۔کوئی چخ چخ نہیں ۔کوئی ہنگامہ نہیں۔ یہ بھی کوئی زندگی ہے بھلا ۔نہ کوئی ڈانٹا ڈپٹ ۔  لڑائی نہ جھگڑا۔
 لے دے کر ایک نند سے امید ہوتی ہے کہ وہ آئے گی۔ تھوڑا سا گھر میں مرچ مصالحے کا تڑکا لگے گا۔
 وہ بھی آتی ہے ۔سب کچھ ہیپی ہیپی ہوتا ہے اور وہ دو چار گھنٹے رک کر سب کچھ گولو گولو کر کے نکل جاتی ہے ۔
نہ کسی چیز میں وہ نقص نکالتی ہے ۔نہ جھگڑا کرتی ہے۔ کیونکہ آپ کی اماں ایسا نہیں چاہتیں۔
 انہیں تو پسند ہی نہیں کہ میں خوش ہوں ۔
کیا مطلب ہے تمہارا؟
 اماں ایسی ہیں؟
 کیسی ہیں اماں؟
یہی کہ اگر وہ خود نہیں لڑتیں جھگڑتیں۔ اعتراض کرتیں۔ تو بیٹی کو ہی کہتیں۔ انہیں ہی تھوڑی پٹی پڑھا کر میرے آکے چھوڑ دیا کریں کہ جاؤ جا کر اس کے ساتھ یہ اعتراض کرو ۔یہ نقص نکالو۔ گھر میں کوئی ہلہ گلہ ہو، رونق ہو، کوئی تھوڑا سا شور شرابہ ہو،
 اتنا ٹھنڈا گھر مجھے نہیں رہنا۔ اتنے ٹھنڈے گھر میں ۔
مجھے ہنگامہ چاہیئے۔ ہلچل چاہیئے شور چاہیئے ۔
زینو مجھے لگتا ہے تمہیں کسی ماہر نفسیات سے یعنی سائیکیٹرس کو ملنا چاہیئے۔ کیونکہ یہ ساری علامات نارمل نہیں ہیں۔ لوگ سکون چاہتے ہیں ۔ خاموشی چاہتے ہیں۔  امن چاہتے ہیں اور تم  انہی سے الرجی ہو۔
 یہ سب کچھ تھا تو تم شادی سے پہلے بتاتی تاکہ ہم سوچتے ہمارے گھر کا آئیڈیل ماحول، محبت کرنے والا ماحول تمہیں راس نہیں آ رہا۔ یہ زیادتی ہے۔
 تمہیں ایسا ماحول میں کہاں سے لا کر دوں۔
 اس کی ساس جو دروازے کے باہر اس کی آواز میں اپنا ذکر سن کر ٹھٹک چکی تھیں۔
 یہ سب سن کر مسکرائی اور الٹے پیروں واپس کچن میں جا چکی تھیں۔
 انہوں نے وہاں جا کر کچھ سوچا ان کی مسکراہٹ مزید پھیل گئی۔
 انہوں نے اپنی تیوری پر بل چڑھائے اور آواز دی۔
 زینو زینو بیٹا کچن میں آؤ
  ان کی اواز سن کر اور تھوڑی سی نارمل سے ہٹ کر آواز سن کر زینیہ حیران تھی 
وہ کچن کی جانب چل دی ۔
جی ممی جی۔۔
کیا کر رہی تھیں 
کچھ نہیں ممی جی بس یونہی۔ فیصل سے بات کر رہی تھی۔
 ٹھیک ہے فیصل کام پر چلا گیا
 جی ممی جی۔
 تو اب تم بھی کام پر لگ جاؤ ۔۔
جی ممی جی
 کیا کام کرنا ہے۔
 یہ کچن کے برتن نکالو اور ان کو اپنی جگہ پہ ٹھیک سے دوبارہ سے صاف کر کے رکھو۔
 لیکن ممی جی یہ تو ٹھیک ہیں
 تو پھر سے ٹھیک کر دو
 لیکن ممی جی اس کی ضرورت نہیں ۔
جب میں نے کہا ضرورت ہے ۔تو ہے۔
 اس نے ذرا سخت لہجے میں کہا زینیہ کے دل میں خوشی سے باجے بجنے لگے
 ارے واہ آواز اونچی ہو رہی ہے۔ شور ہو رہا ہے اور ضد کی جا رہی ہے۔۔۔
 واہ واہ واہ واہ کیا مزیدار ماحول ہے ۔
یہی تو۔۔۔ یہی تو مجھے چاہیئے تھا 
 ساسو جی نے اپنی تیوری پہ بل چڑھائے اس کے ہاتھ میں صفائی کے لیئے کپڑا پکڑا کر وہاں سے یہ کہتے ہوئے روانہ ہو گئی کہ
 یہ سارا صاف ہونا چاہیئے۔ بہت ہو گیا آرام۔ گھر ہے کوئی ہوٹل نہیں ہے یہ۔ 
کہ  دوسرے کام کرتے رہیں گے ۔چلو شاباش
 ارے واہ اور میں کوئی آپ کی نوکرانی ہوں کہ میں یہ سارے کام کروں۔ اس نے بھڑک کر لڑتے ہوئے ہاتھ نچا کر کہا
 کیا مطلب ہے تمہارا ۔۔
جو لوگ اپنے گھر میں کام کرتے ہیں۔ وہ نوکر ہو جاتے ہیں۔ میں یہاں صبح سے شام تک اپنی جان کھپاتی ہوں۔ تو کیا میں نوکرانی ہوں یہاں کی ۔
ایک لمحے کے لیے زینیہ کچھ پریشان سی ہوئی لیکن دوسرے ہی لمحے اس نے اس نوک جھونک سے لطف لینا شروع کر دیا ۔
پورا کام ختم کرو۔ ابھی تو سالن بھی چڑھانا ہے۔۔
 واہ واہ واہ واہ اور ہاں مشین میں کپڑے ڈال لینا ۔
ہفتہ بھر سے مشین میں کپڑے نہیں ڈلے۔۔
 ارے واہ واہ واہ واہ تکرار تھی کہ بڑھتی جا رہی تھی۔ زینیہ کا دل بھنگڑے ڈال رہا تھا۔
 اب لگا نا کہ میں کسی گھر میں ہوں۔ کیا بات ہے واہ واہ واہ ساسو ماں بھلا ہو آپ کا۔
 اس کے دل نے پکارا اور اسی بحث بازی میں وہ کپڑا اٹھائے کچن کی الماری کو درست کرنے لگی ۔ نوک جھونک جاری تھی۔
 اس نے سب سے پہلے موبائل اٹھایا اور فیصل جو پریشان گھر سے نکلا تھا یہ سوچ کر کہ زینیا گھر چھوڑ کر چلی گئی ہو گی۔
 اس کی کال دیکھ کر فورا فون اٹھایا۔
 ہاں زینیا کیا ہوا ۔
فیصل آپ آرام سے آفس جائیں اور آرام سے کام کیجیئے 
 کیوں سب ٹھیک ہے نا
 اجی ٹھیک ؟ ٹھیک سے بھی ٹھیک میرے دل کا راوی چین ہی چین لکھتا ہے .جائیے اور بے فکر ہو جائیے .
مجھے اب اسی گھر میں رہنا اور ساسو ماں منظور ہیں۔ منظور ہیں۔ منظور ہیں۔ 
اس نے کہہ کر قہقہہ لگایا اور فون بند کر دیا
فیصل بیچارا خوشی اور حیرت کے میلے جلے اثرات اور کچھ پریشانی یکجا کیئے ہوئے فون کو دیکھتا رہ گیا ۔
اب یہ کیا تھا
 لیکن زینیہ نہیں جا رہی اس کے لیئے یہی کافی تھا۔
 زینیہ کے لیئے یہ گھر اس کے خوابوں کا عام سا گھر بن چکا تھا۔ 
ساسو ماں نے اپنی سمجھداری سے اسے روز ایک نیا ڈرامہ کرنے کا موقع خوشی خوشی فراہم کر دیا تھا۔
 اب سب ٹھیک ہے۔ 
میں بہت خوش ہوں ۔ میرے گھر میں ہر روز رونق لگتی ہے اور میں اسے انجوائے کرتی ہوں۔
 ہیپی سسرال 😜
                  ------
            







جمعہ، 10 نومبر، 2023

& بلا ہے تنہائی ۔ افسانہ ۔ قطرہ قطرہ زندگی


بلا ہے تنہائی 

تنہائی اسے کاٹنے لگی تھی اتنا بڑا بنگلہ جو کبھی آوازوں سے گونجا کرتا تھا۔ اب سائیں سائیں کرنے لگا تھا ۔اس نے سوچا اس علاقے میں اور بھی تو ایسے گھر ہوں گے جہاں ان کے ساتھ دنیا اور اولادیں الگ گھر بسا چکی ہونگی اور وہ بھی ان کی طرح دیواروں سے باتیں کرنے پر مجبور ہونگے ۔
 کیوں نہ اس بنگلے میں کچھ لوگوں کو آباد کر لیا جائے۔
 یہی سوچ کر اس نے پہلے اپنی سہیلیوں سے رابطہ کیا ان میں سے بیوہ اور مطلقہ دوستوں کے ناموں کی فہرست بنائی۔ 
سب سے پہلے اس نے اپنی بچپن کی سہیلی نجمہ کو فون کیا۔
 اس کی خیر خیریت دریافت کی پوچھا سناؤ کیسی گزر رہی ہے۔
  اس نے بھی اپنے بچوں کی بے توجہی کی شکایت کی ، کہ سب اپنے اپنے گھروں کے ہو گئے کوئی اسے نہیں پوچھتا ، اکیلی اتنے بڑے گھر میں وہ گھبرا چکی ہے۔ 
غرض اس نے جس کو بھی فون کیا کوئی بہو سے خفا، کوئی بیٹے کی وجہ سے پریشان ، کوئی بیٹیوں کی وجہ سے ناراض اور کوئی آسودہ حال بھی تھی۔ تب بھی تنہائی کا شکار اور ڈپریشن کا سامنا کر رہی تھی۔
 کچھ کی مالی حالت بے حد خراب تھی۔
 کچھ کرائے کے گھروں میں رہ رہی تھیں ۔ 
اس نے سبھی سہیلیوں میں سے دو خاص مخیر سہیلیوں کو چنا اور انہیں دعوت دی کہ وہ آ کر کچھ روز اس کے ساتھ رہیں۔
 یہ سن کر دونوں سہلیاں نجمہ اور شاہین بے حد خوش ہوئی کہ بہت سالوں کے بعد انہیں ایک چھت تلے گپ شپ لگانے کا موقع ملے گا اور وہ کچھ دیر ایک دوسرے کا ساتھ انجوائے کریں گی۔
 ایک ہفتے میں اس نے اپنے گھر کا ایک کمرہ دو پلنگ لگا کر اور ضرورت کی کچھ چیزیں رکھ کر تیار کر لیا ۔
وہ چاہتی تھی کہ پہلے اس مہمانداری کے تجربے سے کچھ اندازہ لگائے کہ ایسا کرنا کیسا رہے گا۔
 اگر بہت سی سہیلیاں ایک ہی گھر کے نیچے ایک ہی گھر میں رہیں تو کیا حالات ہو سکتے ہیں ۔
ایک ہفتے بعد حسب وعدہ نجمہ اور شاہین دونوں کی آمد ہوئی ۔
 بچھڑی ہوئی سہیلیاں جو فون پر کبھی کبھار رابطے میں تھیں لیکن اتنے سال کے بعد اب ایک دوسرے کے سامنے تھیں۔
خوب گلے ملیں۔ خوب شکوے ہوئے شکایتیں ہوئیں اور پھر خوب گپ شپ ہوئی۔ بہت سی یادیں تازہ ہوئیں ساتھ مل کر کھانا کھایا گیا۔
 چائے پی ۔ عبادت کی اور پھر بڑے سے لان میں چہل قدمی کرتے ہوئے اپنے بچپن کو یاد کیا گیا ۔
اپنی جوانی کے قصے دہرائے گئے ۔
گویا عید کا سماں تھا ان سب کے لیئے۔
 دو تین روز کے بعد جب واپس جانے کا خیال آیا تو عائشہ بیگم نے نجمہ اور شاہین سے پوچھا 
یہ کہو میرے ساتھ گزارے ہوئے یہ دن کیسے رہے۔
 تو انہوں نے اس کا شکریہ ادا کیا کہ اس کی وجہ سے انہیں اتنا خوبصورت وقت گزارنے کا موقع ملا۔ پتہ نہیں اب ہم دوبارہ کب اکٹھے ہوں گے ۔
انہوں نے اداسی سے بھرپور لہجے سے کہا 
  یہ سن کر عائشہ بیگم نے کہا دیکھو تم دونوں کے شوہر تو ہیں نہیں،  جو تم پر اعتراض کریں یا روکیں گے۔ کہیں جانے یا رہنے سے۔
 بچے اپنے گھر والے ہیں تم دونوں اپنے گھروں میں میری طرح تنہائی کا شکار ہو۔
 اگر تم مناسب سمجھو تو کیوں نہ ہم اسی طرح ایک ہی گھر میں رہیں؟
 میرے شوہر کی پینشن میرے نام پر ہے۔
 بچے بھی جو بھیجتے ہیں اس میں میں تم لوگوں کی اتنی خدمت تو کر ہی سکتی ہوں کہ ہم اپنا کھانا پینا اور ادویات کے اخراجات  پورے کر سکیں اور بدلے میں ایک دوسرے کو اچھی کمپنی دے سکیں۔ 
یہ سن کر نجمہ اور شاہین نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور بولیں
 کیا یہ ممکن ہے کہ ہم ایک ہی جگہ رہیں؟
 ہاں کیوں نہیں۔  ہم سب زندگی کی ذمہ داریوں سے آزاد ہو چکے ہیں۔ اپنے فرائض ادا کر چکے ہیں۔ اب ہمیں اپنی مرضی سے اپنے دوستوں کے ساتھ یا اپنے کچھ شوق پورے کرنے کے لیئے ایک ساتھ رہنا ہے تو اس میں کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟
 لیکن ہم تمہارے ساتھ فری میں نہیں رہیں گے ۔
کیونکہ ہم جانتے ہیں گھر کے افراد بڑھتے ہیں تو اخراجات بھی بڑھتے ہیں۔ ہمیں مالی طور پر تو کوئی تنگی نہیں لیکن اگر تم ہمیں اجازت دو کہ ہم اپنی طرف سے تمہارے ساتھ اخراجات میں حصہ ڈالیں تو ہمیں بھی بہت خوشی ہوگی کہ ہم تمہارے ساتھ ایک ہی گھر میں رہیں۔
 نجمہ اور شاہین دونوں کی رضامندی اس کے لیئے بہت حوصلہ افزا تھی۔ یوں ان تینوں نے صلاح کر کے اسی فہرست میں سے ایک دو سہیلیوں کو وہاں مدعو کیا اور پھر ایک ہفتے کے قیام کے بعد ان کی واپسی پر انہیں وہیں ٹھہرنے کا مشورہ بلکہ دعوت دی گئی۔
 کچھ سہیلیوں کے مالی حالات بھی اچھے نہیں تھے۔
 ان کے لیے تو گویا یہ موقع جہنم سے نکل کر جنت میں رہنے جیسا تھا۔
 یوں دو کنال کا یہ بنگلہ آباد ہوتے ہوتے چھ ماہ کے اندر ہی سہیلیوں کا ایک خوشگوار سا خوابوں کا گھر بن گیا۔
اس کی اور اسکے شوہر کی پنشن کی رقم اور بچے جو کچھ بھیجا کرتے تھے ، اتنا تھا، کہ وہ باآسانی اس گھر کے سارے خرچے نکال کر ایک باورچی، دو ملازمین، ایک ڈرائیور اور ایک چوکیدار کی تنخواہیں نکال سکتی تھیں ۔
اس کے بدلے میں اس گھر میں بچھڑی ہوئی سہیلیوں کے بڑہاپے اور تنہائی کو  قرار مل گیا تھا۔
  وہ سب صبح کی نماز سے لیکر ناشتہ کی میز تک ، دوپہر کے کھانے اور دن کی نمازوں ، سہہ پہر کی چائے رات کے کھانے میں ایک ساتھ ہوتیں ۔
  عشا کے بعد کچھ دیر ٹی وی پر خبریں اور کوئی پروگرام دیکھتیں۔
 قرآن پاک کی تلاوت کرتیں اور ہر کمرے میں لگے چار چار  سلیقے سے لگائے  پلنگوں پر تسبیح کرتے اطمینان سے سوجاتیں ۔ 
ہر روز گھر کے نزدیک والے پارک میں سبھی سہیلیاں اگے پیچھے نکلتیں۔ دو دو تین تین کے گروپ میں۔ 
 گھنٹہ دو گھنٹہ گپ شپ لگاتیں۔
 چہل قدمی کرتیں۔
 واپس آ کر سب اپنی مرضی سے اپنی پسند کا ناشتہ تیار کرتیں یا کوئی ایک دوست سب کی فرمائش پر ان کے لیئے کچھ نہ کچھ تیار کرتی۔
 یوں ہنستے مسکراتے ناشتے کی میز پر رونق رہتی۔
 اس کے بعد سب کمرے میں جا کر نہاتی دھوتیں۔
 کپڑے بدلتیں۔ ہلکا پھلکا سا میک اپ کرتیں اور سب نے سوچا
کافی دن ہو گئے گپ شپ رونق میلہ لگائے ہوئے کیوں نہ ہم سب رضا کارانہ طور پر جو بھی کچھ جانتے ہیں وہ کام سکھانے کے لیئے گھر کے ایک کمرے کو مخصوص کر دیں۔ مختص کر دیں۔
 ایک دوست جو بہت اچھی سلائی جانتی تھی۔ ایک بہت اچھی پینٹنگ جانتی تھی۔  ایک بہت اچھی اون کی بنائی جاتی تھی۔
 انہوں نے سوچا 
دن کے دو تین گھنٹے اگر ہم کچھ بچیوں کے لیے مفت میں کلاسز دے سکیں تو انہیں بھی ایک مفید مصروفیت میسر آ جائے گی اور کچھ بچیوں اور خواتین کو  برسر روزگار بھی کیا جا سکتا ہے ۔
دھیرے دھیرے ایک دوست نے اس میں بیوٹیشن اور بیکنگ کی کلاسز کا بھی اضافہ کر دیا ۔
دیکھتے ہی دیکھتے وہ سب خوشی خوشی اپنے شوق کے کاموں میں اتنی مصروف ہو گئیں کہ انہیں یاد ہی نہیں رہا کہ ان کے بچے کہاں ہیں یا وہ تنہا ہیں یا انہیں کسی کا انتظار ہے۔
 آنے والی بچیوں میں خود انہیں بچوں کی سی محبت بھی ملنے لگی۔
 انہوں نے سیکھنے والی لڑکیوں کی تعداد تھوڑی رکھی لیکن سب کو پوری توجہ ملتی۔
 یوں باری باری کچھ سہیلیاں روز گروسری کے لیے نکلتیں ۔ 
کچھ کھانا بنانے میں ایک دوسرے کی مدد کرتیں
  صفائی کے لیئے رکھی ہوئی ملازمہ گھر کی صفائی ستھرائی کے بعد ضرورت کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹاتی۔ 
عائشہ بیگم نے اس بات کا خاص خیال رکھا کہ ہر مہینے ایک ڈاکٹر آ کر سب کا میڈیکل چیک اپ کرتی رہے۔
 ان کی دوائیوں کے باقاعدگی اور کسی متوقع طبی مسئلے سے بچنے کے لیئے پہلے سے باخبر رہتی۔
 لیکن جو مصروفیات وہ سب اپنا چکی تھیں۔ اس میں وہ چلتی پھرتی ہنستی بولتی اس قدر مصروف ہو چکی تھیں کہ تنہائی کیا ہوتی ہے کسی کو یاد نہیں رہا۔
دو سال ہو چکے تھے اب تو انہیں اپنے بچوں کی یاد بھی نہیں رہی۔ اب جب بچے ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتے تو وہ ہنس کر کہتیں۔۔
 بھئی جلدی جلدی بات کرو۔ اتنا ٹائم نہیں ہے ہمارے پاس کہ تم سے لمبی لمبی ہانکتے پھریں۔ 
ان کی اولادیں ان سے شکوہ کرنا چاہتیں کہ اماں، ماما آپ تو ہم سے ملتی رہیں۔ آپ ہمیں بھول گئی ہیں ۔
 تو وہ یہی کہتیں۔
 جب تم ہمیں بھول سکتے ہو تو ہماری امان اسی میں ہے کہ ہم بھی تمہیں بھول جائیں اپنی زندگیوں میں خوش رہو اور ہمیں عزت سے اپنی باقی زندگی گزار لینے دو۔۔۔
 عائشہ بیگم اپنی تنہائی کے ساتھ بہت سارے لوگوں کی تنہائی دور کر چکی تھیں۔
 وہ خوش تھی ۔ مطمئن تھی اور اللہ کی شکر گزار تھی کہ اس نے انہیں اس قابل کیا کہ وہ اتنے سارے لوگوں کے ساتھ زندگی کو پھر سے شروع کر سکتیں۔ 
                  -------

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/