ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک
MUMTAZ QLAM ممتاز قلم لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
MUMTAZ QLAM ممتاز قلم لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اتوار، 22 اکتوبر، 2017

اچھی رہنمائی اچھا مستقبل / کالم



 اچھی رہنمائی اچھا مستقبل 
ممتازملک. پیرس 

اب  وہ وقت گزر گیا ہے جب بچہ گریجویشن یا ایم اے کرنے کے بعد بڑا آدمی بن جایا کرتا تھا . اب تو مقابلے کا زمانہ ہے جناب . جو شخص اپنے شعبے میں جتنی عملی مہارت رکھتا ہے وہی آگے نکل پاتا ہے . ہر جدید علم اور ٹیکنالوجی سے باخبر رہنا وقت کی اہم ضرورت اور کامیابی کے کنجی ہے. ایسے میں  بچوں کو ان کے مستقبل کے لیئے مضامین کے چناو میں رہنمائی کی اشد ضرورت ہوتی  ہے .  بدقسمتی سے ہمارے  اکثر تعلیمی اداروں میں ایسی کسی کونسلنگ کا کوئی انتظام ہی نہیں ہے 
 اور جن ممالک میں یہ انتظام موجود بھی ہے وہ سو فیصد مثبت رہنمائی پر مشتمل ہی نہیں ہے . کیوں کہ کونسلرز کی اکثریت بچے کو رہنمائی کرنے سے زیادہ اس پر اپنی رائے مسلط کرنے کی فکر میں ہوتی ہے . یہ سوچے سمجھے بنا کہ اس کے نتیجے میں اس بچے کا سارا مستقبل داؤ پر لگ جائیگا .  اس لیئے ضروری ہے کہ ادارے اچھے اور ذمہ دار کونسلرز کا  اپنے اداروں میں تعین کریں . اور انہیں بچے کے رجحان کو سمجھنے کے لیئے اسے کم از کم ایک سال تک چھوٹے چھوٹے مختلف مضامین اور ٹیکنیکس کے ٹیسٹ کے ذریعے  پرکھا جائے . انہیں مختلف سوالنامے حل کرنے کو دیئے جائیں . جسے حل نہ کرنے کی صورت میں  اس پر دباو نہ ڈالا جائے بلکہ سمجھا جائے کہ اسے کس ٹائپ کے سوالنامے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے . گویا بچے کی جانب سے یہ بھی اس مضمون میں عدم دلچسپی کا بھرپور اظہار ہے . سو اگلے مضمون کا سوال نامہ اسے سونپا جائے . یا بہت سے سوالنامے الگ الگ مضامین  پر تیار کیئے جائیں اور طالبعلم کے سامنے ایک ساتھ رکھے جائیں اور اسے مکمل اور خوش کن اختیار دیا جائے کہ  جو چاہو سوال نامہ پر کرنے کے لیئے اٹھا لو . اور اس کے منتخب کردہ سوالنامے پر کسی کو اعتراض کا کوئی حق نہیں ہونا چاہیئے . کیونکہ یہ اس طالبعلم کی پوری زندگی کا دارومدار ہے .اس کے ساتھ نہ تو آنے والی زندگی میں کام تلاش کرتے ، نوکری کرتے یا کاروبار کرتے وقت آپ میں سے یا والدین میں سے بھی کوئی اس کے ساتھ نہیں ہو گا . اسے روزگار کمانے کی جنگ اکیلے ہی لڑنی ہے اور مستقبل بنانے کا سفر اکیلے ہی طے کرنا ہے . سو اس کا اختیار بھی صرف اسی کے پاس ہونا چاہیئے 

بچوں کو پروفیشنل اور ٹیکنیکل  ڈگری کی جانب راغب کیا جانا بھی بے حد ضروری ہے .
ورنہ خالی جولی چار چار ایم اے بھی اس کے روزگار کی ضمانت نہیں ہو سکتے .
ابس لیئے اب یہ بچے کی پسند  اور دلچسپی پر منحصر  ہے کہ وہ  کمپیوٹرز پروگرامز میں ہے یا
تعمیراتی کاموں میں ،فیشن سے متعلق شعبوں میں (جس میں  میک اپ ، سٹچنگ،  ڈیزائننگ اور اس سے متعلق بےشمار موضوعات شامل ہیں)
انٹیرئیر یا ایکسٹیرئیر ڈیکوریشن  کے مشامین. ..
پاکستان اور دنیا بھر میں بہت اچھے ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹس  موجود ہیں . جو آپ کو پروفیشنل اور ٹیکنیکل  تعلیم کیساتھ اپنے پیروں پر  خود مختار طور پر کھڑا کرتے ہیں .
لیکن یاد رکھیں طالب علم کو  جبرا کوئی مضمون اختیار مت کروایئے اس طرح اس کی کامیابی  کے  امکانات آدھے رہ  جاتے ہیں . اسے سارے مضامین سامنے رکھ کر ان میں سے  اس مضمون  کو چننے کی اجازت دیجیئے جس میں کام.کر کے وہ  دلی خوشی محسوس کرے اور اپنے مضمون اور کام کو انجوائے کرے.تبھی وہ اسمیں کمال دکھا پائے گا
. ممتازملک  . پیرس 






ہفتہ، 6 دسمبر، 2014

خدا اور مجازی خدا / کالم


                                

        خدا اور مجازی خدا
        تحریر: ممتاز ملک. پیرس


عورت دنیا کی وہ مخلوق ہے جس میں جذباتی پن باقی تمام مخلوقات سے کہیں ذیادہ پایا جاتا جاتا ہے .مردوں کی دنیا نے عورت کے جذبات کو اپنے مقاصد کے لئے خوب خوب استعمال کیا. جب وه جوان ہوتا ہے تو کسی اور کی بیٹی کو محبت کےدهوکے میں اٹھارہ بیس سال تک پالنے اور پڑھانے لکھانے دنیا میں جینے کے قابل بنانے والے اپنوں کو اپنے ہی ماں باپ کے خلاف کھڑا کر دیتا ہے۔ اسے ہر بات پر بغاوت کے لئیے اکساتا ہے. ہیر رانجھا، سسی پنوں، سوہنی ماہیوال اورلیلی مجنوں کو اس کی زندگی کاآئیڈیل بنا دینا چاہتا ہے. اور اگر وہ اس کےدکهائے رستے پر آنکهیں بند کر کے چلنے پر راضی نہ ہو جائے تو کبهی اسے بیوفائی کا طعنہ دیگا تو کبهی اسے خود غرض کہے گا. ایک وقت آتا ہے کہ وہ لڑکی گوڈے گوڈے اس کے عشق میں مبتلا ہو کر ہر رشتہ ہر تعلق توڑنے کو تیار ہو جاتی ہے اس کے ساته اپنا گهر بار چھوڑ کر نیا جہاں آباد کرنے کو گهر کی دہلیز بهی لانگ جاتی ہے. یہ وہ قدم ہوتا ہے جو کسی بهی عورت کے لیئے عزت اور وقار کیجانب لوٹنے والے سارے دروازے بند کر دیتا ہے.
پهر شروع ہوتا ہے کہانی کا دوسرا حصہ, اب اس لڑکے یا آدمی کی مرضی کہ کبهی تو اسے اپنے مصرف میں لاکر کسی سڑک پر کچرے کے ڈھیر میں پھینک آئے, چاہے تو کسی بازار میں بٹھا کر چار پیسے کهرے کر لے, یا پهر کوئی رتی بھر بهی کبهی لگاؤ رہا تها تو اس کے صدقے اس سے کسی مسجد یا کچہری میں نکاح کر لے گا. لڑکی چار دن کے عشق کے بخار کے بعد اپنے بیوی والے حقوق چاہتی ہے. تو موصوف کی جب اور جتنی مرضی کوئی حق دے یا ہش کہہ کر اسے ایک طرف دھکیل دے. ہر مرد کی یہ دلی خواہش ہوتی ہے کہ اسکی بیوی شادی سے پہلے ایک بڑے اور اعلی خاندان سے تعلق رکهتی ہو لیکن شادی کے بعد اسے بلکل لاوارث ہونا چاہیئے. تاکہ وہ جب اور جیسے چاہے اس لڑکی کی تواضع کر سکے. اس لیئے گهر سے بھاگی ہوئی لڑکی اسے ذیادہ مناسب لگتی ہے. کیونکہ جب بھی یہ لڑکی کوئی گلہ کرے تو پہلا جواب جو اس کی زبان کی نوک پر دھرا ہو گا وہ یہ ہی ہو گا کہ میں کون سا تیری ڈولی اٹھانے آیا تھا یا میں کونسا بارات لیکر تیرے دروازے پر کھڑا تھا کہ آنکهیں دکھاتی ہے. میری مرضی سے رہنا ہے تو رہ ورنہ رستہ لے, کیونکہ وہ اچهی طرح جانتا ہے کہ رستے تو سارے وہ اس کے عشق کےاندهیرے میں گنوا آئی ہے.
دوسری جانب جب خود بیٹی کا باپ بنتا ہے تو چاہتا ہے کہ ہوا بهی اس سے پوچھ کر اس کی بیٹی کو چھوئے. اس کے لئے یہ ہی ہیر رانجھا, سسی پنوں آوارہ لوگ ہو جاتے ہیں. عزت سے گهر پر رشتہ لانےوالوں میں بھی ہزاروں کیڑے نظر آنے لگتے ہیں. بیٹی کا صرف  اپنی مرضی کا اظہار بهی بدبختی قرار دیا جاتا ہے. سمجه میں نہیں آتا کہ جو حق اس نے کسی کی بیٹی کو بیوی بنا کر نہیں دیا اس کا تقاضا وہ کسی اور سے اپنی بیٹی کے لئے کس منہ سے کرتا ہے.
 اس لئے کہ اسے اپنا مجازی خدا ہونا تو یاد رہتا ہے لیکن کاش اسے کسی اور ذات کا خدا ہونا بهی یاد رہے .                     ............

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/