ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک
بچوں کی نفسیات۔ کالمز لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
بچوں کی نفسیات۔ کالمز لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعرات، 28 اکتوبر، 2021

● کیوں اعتبار نہیں /کالم


کیوں اعتبار نہیں ؟
تحریر:(ممتازملک۔ پیرس)

کیا وجہ ہے آجکل کی اولاد اور خاص طور پر ٹین ایج بچے آخر اپنے والدین پر اعتبار کیوں نہیں کرتے؟
اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیئے ضروری ہے کہ آپ اپنے قول و فعل پر غور کیجیئے ۔ یاد کیجیئے کیا آپ اپنے بچوں سے وعدے کر کے انہیں توڑتے رہے ہیں ؟ کیا آپ اپنی باتوں سے مکرتے رہے ہیں ؟ کیا آپ اپنے بچوں پر کسی بھی دوسرے کو خصوصا اپنے بھائی بہنوں کے بچوں کو ترجیح دیتے رہے ہیں ؟
کیا آپ نے کبھی اپنے بچوں کی کوئی خوشی کا  یا کوئی خاص موقع کسی دوسرے کے لیئے ضائع  یا نظر انداز کیا ہے؟
کیا آپ نے کبھی اپنے بچے کی کوئی چیز اس کو بتائے بغیر اٹھا کر اپنے کسی دوست یا عزیز یا اسکے بچے کو دی ہے؟
یہ سب باتیں اور اس جیسی ہی دوسری مختلف باتیں جنہیں آپ شاید  معمولی سمجھ سکتے ہوں یا آپ کے لیئے کوئی اہمیت ہی نہ رکھتی ہوں  لیکن ایک بچہ جو ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے  دنیا میں آیا ہے اس کا ہر منٹ اور ہر لمحہ صرف آپ پر انحصار کرتا ہے ۔ جس کے لیئے دنیا کی ہر بات ہر چیز  نئی ہے ۔ ہر کام اس کے لیئے پہلی بار ہو رہا ہے ۔ جس کی دنیا ہی صرف آپ ہیں۔ اس کے لیئے یہ سوالات اس نتیجے پر پہنچنے والا امتحانی پرچہ ہیں ۔ جو اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ آپ اس کے لیئے قابل اعتبار ہیں یا نہیں ہیں ۔ آپ اسے اپنے محافظ محسوس ہونگے یا پھر غاصب۔ اس  کا نتیجہ بہرحال دو ہی صورتوں میں سامنے آیا ہے یا پاس یا فیل ۔ تیسری کوئی صورت ممکن ہی نہیں ہے ۔آپ کا والدین بننا ہی آپ کو اس امتحان گاہ میں بٹھانے کا آغاز ہوا کرتا ہے۔ یہ امتحان کم از کم 18 سال پر محیط ہونے جا رہا ہے ۔ اس وقت کو بہت سوچ سمجھ کر استعمال کیجیئے۔ یہ وقت آپ کے اور آپ کے بچے کے بیچ پل بننے جا رہا ہے ۔ اور آپ کبھی نہیں چاپیں گے کہ یہ  پل اتنا کمزور ہو کہ اس پر پاوں رکھتے ہوئے آپ کا دل دہلتا رہے کہ اب ٹوٹا کہ کب ٹوٹا۔ 
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بچہ آپ پر اعتبار کرے تو خود کو قابل اعتبار ثابت کیجیئے ۔ کیسے؟  وہ ایسے کہ بچے کے پیدا ہوتے ہیں اس کے وجود کو اور اس بات کو تسلیم کیجیئے کہ اسکی اپنی ایک مکمل شخصیت، سوچ اور ذات ہے ۔ اس کی پرورش آپ کا فرض اور اس بچے کا آپ پر پہلا حق ہے ۔ آپ اپنی استطاعت کے مطابق اسے زندگی کی حقیقتوں سے روشناس کراتے ہوئے پروان چڑہایئے ۔ اس سے کبھی کوئی وعدہ اپنی ہمت سے بڑھ کر مت کیجیئے۔ اسے حفاظت دیجیئے لیکن اسے کاغذ کہ کشتی مت بنایئے جو پانی کے دھاروں میں ہی ملیامیٹ ہو جائے ۔ اسے سخت جان بنایئے یہ بات سمجھاتے ہوئے کہ میرے اس عمل سے تمہیں گزارنے کے پیچھے کیا حکمت کارفرما ہے ۔  اپنی مالی حالت کو بچوں کے سامنے بڑھا چڑھا کر پیش کرنے سے گریز کیجیئے ۔ جو ہے اس میں خوش رہنا سکھایئے ۔ ان کی کوئی بھی بات راز یا چیز جو آپ کے پاس ہے اسے اس کی امانت سمجھ کر ایمانداری کیساتھ محفوظ رکھیئے۔  اس سے پوچھے بنا بلکہ اس کی رضامندی کے بنا اس کی کوئی چیز اس کے ہی کسی بہن بھائی کو بھی مت دیجیئے ۔ اپنے بہن بھائیوں اور دوستوں کے بچوں کو بار بار اس کے سامنے رول ماڈل بنا کر اسکے سامنے پیش کرنے سے اجتناب برتیں کیونکہ آپ اصل میں ان کا وہی روپ دیکھ رہے ہیں جو وہ آپ کے سامنے پیش کرنا چاہ رہے ہیں جبکہ ہو سکتا ہے آپ کا بچہ اس کے ہم عمر ہونے یا دوست ہونے کے سبب وہ اصلیت جانتا ہو جس کے بارے میں آپ سوچ بھی نہ سکتے ہوں ۔ اس لیئے آپ کا اسکے ساتھ اپنے بچے کا تقابل آپ کے بچے کے سامنے آپ کی ہی سمجھداری پر سوالیہ نشان بنا دیتا ہے اور وہ آپ کی صلاح لینا غیر محفوظ سمجھتا ہے ۔ اس کی چیزیں اس کی مرضی کے بغیر کسی کو دینا بھی اسی زمرے میں آتا ہے کہ آپ اس کی حفاظت کے قابل بھی نہیں ہیں ۔ یہی وجوہات ہیں جس کے سبب اس عمر کے بچے اپنے والدین سے خائف رہتے ہیں یا پھر ان سے اپنے معاملات بانٹنا پسند نہیں کرتے ۔ اسی لیئے کہتے ہیں کہ ویسے تو ہر رشتے میں  خود پر اعتبار جیتنا پڑتا ہے اور خاص طور پر اپنے بچوں کا اعتبار جیتنا ہی آپ کی اصل کامیابی ہے۔  
                  ●●●

بدھ، 26 جون، 2019

● تو کون میں کون ۔ کالم


              تو کون میں کون
               (تحریر:ممتازملک۔پیرس)


دیکھو مٹی میں نہیں کھیلنا ، اسے منہ نہیں لگانا ، یہ ہمارے سٹیٹس کا نہیں ہے ، وہ ہمارے سٹینڈرڈ کا نہیں ہے ، دوسرے کو  اگنور کرنا، سیکھو،
اپنے لیول کے لوگوں سے تعلقات بڑھایا کرو، یہ چھوٹے لوگ ہیں ، بڑے لوگوں میں پی آر او بناو،
جی ہاں یہ ہی ہے ہمارے آج کی آدھی تیتر اور آدھی بٹیر ماوں کی اپنے بچوں کو دی ہوئی تربیت ۔
اور آج ہمارے معاشرے میں انسانیت کی جو تذلیل ہے ، خود غرضی کا جو طوفان ہے ،
یہ سب کچھ ہماری ماوں کی ناکام تربیت کا ہی منہ بولتا ثبوت ہے ۔ ماہرین نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ بچے کی تربیت اس کے پہلے پانچ سال میں ہی مکمل ہو جاتی ہے ۔
 آج جب مائیں اپنے پانچ سال تک کی عمر کے بچوں کو دینی اور اخلاقی سبق اور تربیت نہیں دے سکتیں تو انہوں نے حیوان ہی بننا ہے انسان نہیں ۔ جو آج ہمارے معاشرے میں دندناتے نظر آ رہے ہیں ۔  آج ہمارا بچہ ان پانچ سالوں میں نادان ماوں اور حکومتی سسٹم کی بھینٹ چڑھ کر بابا بلیک شیپ اور ٹوئنکل ٹوئنکل لٹل سٹار کے رٹتے رٹتے  ہی میں وہ سنہرا ترین وقت گنوا بیٹھتا ہے ۔ دنیا میں کسی ملک کے بچے پر یہ لسانی ظلم نہیں ہوتا جو ہمارے ہاں  بچوں کو سہنا پڑتا ہے۔
پہلے مشترکہ خاندانی نظام کی وجہ سے بچہ کسی نہ کسی کی نظر میں رہتا تھا تو اسے سکھانا سمجھانا بھی کئی لوگوں کی ذمہ داری میں آ جاتا تھا ۔ گو کہ وہاں بھی کسی کے لاڈلے بننے اور کسی کو نشانے پر رکھ لینے والی ناانصافیوں کے سبب مشترکہ خاندانی نظام کا بھٹہ ہی بیٹھ گیا ۔ کیونکہ وہاں بھی ناانصافیوں کے سبب اور شریف النفس انسان کو قربانی کا دنبہ بنا لینے کی عادتوں کے طفیل اسی کے بچے سب سے زیادہ محرومیوں کا شکار کر دیئے جاتے تھے ۔ اس لیئے اپنے خاندان یعنی اپنے بیوی بچوں کی ذمہ داری ہر انسان کو خود ہی اپنے سر لینے کا فیصلہ کرنا پڑا ۔ جس کے سبب آج جب علیحدہ خاندان (سیپرٹ فیملی) کا رواج ہے ۔ اور مہنگائی اور نت نئی ایجادات کے سبب بچے پالنا ہاتھی پالنے کے برابر ہو چکا ہے ، تو عافیت اسی میں ہے کہ یہ ہاتھی جتنے کم ہوں اتنا ہی بہتر ہے یعنی کہ  بچوں کی تعداد کم ہی رکھیں تو ہی عافیت ہو سکتی ہے ، اور ہر بچے میں کم از کم 3 سال کا وقفہ ہی ہمیں ان کی تربیت کا بہترین وقت فراہم کر سکتا ہے ۔ ماں اور باپ دونوں بچے کے سامنے فساد اور طعنے تشنع سے بچیں ۔ گھر میں عورت کو گالم گلوچ اور مارپیٹ بچے کو یہ ہی کچھ کرنے پر اکساتی ہے ۔
اگر باپ ہی اپنے گھر میں اپنے ہی گھر کی عورت کی اور خصوصا اپنی بیوی اور اپنے بچے کی ماں کی ہی عزت اور حفاظت نہیں کریگا تو اس کی اولاد یہ عزت کا سبق کہاں سے جا کر سیکھے گی ؟
 ماں گھر میں اور باپ باہر کے لیئے بچے کو تیار کرتا یے  ۔ جیسے بیٹا کسی سے بدتمیزی نہیں کرنی ۔ بلا ضرورت  اونچی آواز میں بات کرنا بد تہذیبی ہے ، گالی نہیں دینی ۔ لڑنا بری بات ہے ۔ سلام میں پہل کرو ۔ کسی سے کچھ لیکر نہیں کھانا ۔ ٹوہ میں رہنا بری بات یے ، کسی کے بھی گھر یا کمرے میں دستک دیئے بنا اور اجازت لیئے بنا داخل ہونا بری بات ہے ، دروازے پر دستک دیکر دروازے کے اس رخ پر کھڑے ہو جس پر دروازہ کھلنے کی صورت میں فورا تمہاری نظر اس گھر کے اندر نہ جائے ، شریفانہ اور پسندیدہ عمل ہے ،
فضول باتوں سے کسی کا وقت برباد مت کرو، جو بات کرنی ہو پہلے اس کا مضمون اپنے ذہن میں بنا کر رکھو تاکہ کم وقت میں واضح بات سامنے والے سے کی جا سکے ۔
 بغیر اجازت کسی کی کوئی چیز نہ اٹھانا، نہ استعمال کرنا ۔ کسی کو راستہ دینا ، ہاتھ سے چھو کر مذاق مت کرنا ، کلاس میں ایکدوسرے کی اچھی بات اور کام میں  مدد کرنا، اپنے ساتھ نماز اور دیگر محافل میں لیکر جانا ، انہیں محفل کے آداب سکھانا ، کھانا کھانے کے آداب سکھانا ، کوئی لباس پہن کر اسے کیسے لیکر چلنا ہے ،  ۔۔۔ایسی بہت سے باتیں۔
جبکہ دوسری جانب ایسی ماوں اور ان کے ہاتھوں پروان چڑھے لوگوں کی بھی کمی نہیں یے جو مذہبی حلیئے اور عبادت پر تکبر اور اپنے اوپر  جنت کی واجبیت کے یقین پر ساری دنیا کو اپنے سامنے ہیچ سمجھتے ہیں اور  وہ اسے ساری دنیا پر اپنا احسان گردانتے ہیں ۔ اپنی نمازوں روزوں اور حج و عمرہ کو اپنے معاشرے پر مہر بانی سمجھتے ہیں ۔ جبکہ سمجھنے کی ضرورت یہ ہے کہ کس بات کا فائدہ صرف ہمارا ہے اور کس بات سے ہم اپنے معاشرے کو اپنے مفید ہونے کا احساس دلاتے ہیں ۔ 
ہم لوگوں کو  یہ بات پہلے نمبر پر رکھنی ہو گی کہ بھائی میری نماز ، روزہ ، مذہب خالصتا میرا اور میرے خدا کا معاملہ ہے اس سے سامنے والے کا کوئی حاصل وصول نہیں ہے ۔ مجھے حقوق العباد  (لوگوں کی حقوق) پر اپنے اعمال درست کرنے ہیں کیوں کہ اس پر میری دنیا کا بھی انحصار ہے اور آخرت کی بخشش کا بھی ۔ میں نے کتنی نمازیں پڑھیں، کتنے روزے رکھے، سے زیادہ اس بات پر بخشش کا انحصار ہو گا کہ ہم نے اپنے والدین ، بہن بھائیوں، شوہر ، بیوی، پڑوسیوں کے حقوق ادا کیئے ۔ کسی یتیم کے سر پر ہاتھ رکھا ۔ کسی بیوہ کو اسے کے پیروں پر کھڑا کیا ، کسی کا جھگڑا ختم کرایا  ۔۔۔اور ایسے ہی کام اصل میں ہمارے اعمال ہیں ۔
جن کا نہ صرف پورے معاشرے پر اثر پڑتا ہے بلکہ اللہ پاک نے اس کی بابت ہم پر بھاری ذمہ داریاں عائد کر رکھی ہیں ۔ بات کرتے ہیں تو ہم ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں ۔ کاروباری معاملات ہوں تو صبر تحمل اور برداشت کا نام و نشان نہیں ہے ۔ محلے داری اور پاس پڑوس کا معاملہ ہو ہم لوگوں میں رواداری اور لحاظ نام کو بھی نہیں رہا ۔ پھر ہم کہتے ہیں کہ زمانہ وہ نہیں رہا ۔ زمانہ تو وہی ہے اپنے گریبان میں جھانکیئے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ آپ وہ نہیں رہے ۔ جیسے ہم سے پہلے لوگ ہوا کرتے تھے ۔ آج خود غرضی اس انتہا کو پہنچ چکی ہے کہ بھائی بھائی کو اور بہن بہن کو لوٹنے سے پہلے ایک لمحے کو بھی سوچنا پسند نہیں کرتے ۔ 
ہر ایک کی پہلی سوچ یہ ہی ہوتی ہے کہ موقع غنیمت جانو لوٹ لو ، اٹھا لو فائدہ اور جب کچھ نہ بچے تو آنکھیں ماتھے پر نہیں اب تو پیٹھ پر سجا لو کہ بھائی تو کون میں کون ۔۔
مادہ پرستی اور خود غرضی ہمارے اپنے من چاہے وہ عیوب ہیں جو ہم نے خوشی خوشی اپنے اعصاب پر سوار کیئے ہیں ۔ جب تک ہم انہیں اپنے کندھوں سے نہیں اتاریں گے ہماری منزل کا سفر نہ سہل ہو گا نہ مکمل۔ نہ دنیا میں نہ آخرت میں  ۔۔۔۔۔۔۔
                       ۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعہ، 10 اکتوبر، 2014

ٹین ایج بچیاں اور ماؤں کی ذمہ داریاں۔ کالم ۔



ٹین ایج بچیاں اور ماؤں کی ذمہ داریاں
(ممتازملک۔ پیرس)




عمر کے ساتھ ساتھ ہر انسان کے رویے میں کچھ نہ کچھ تبدیلی ایک قدرتی امر ہے ۔ خاص طور پر بچوں کے معاملے میں یہ بات اور زیادہ اہمیت رکھتی ہے ۔ کیوں کہ یہ ہی وہ عمر ہوتی ہے جب بچوں کی مثال کمہار کے ایک ایسے برتن کے جیسی ہوتی ہے جو بظاہر تو چاک پر ہی ایک شکل اختیار کر چکا ہوتا ہے لیکن ابھی اس کے لچکتے وجود کو پختگی اور سمجھداری کی تپش کی اشد ضرورت ہوتی ہے ۔ورنہ وہ دھڑام سے بنانے والے ہی کے ہاتھ میں مٹی کی ایک ڈھیری کی صورت بھی اختیار کر سکتا ہے ۔                                                            
13 سال سے لیکر 19 سال تک کی عمر بچوں میں جسے ہم ٹین ایج بھی کہتے ہیں،ایک خاص دور ہوتا ہے اس میں ماں  کو بچوں کے لیئے اور باپ کو بیٹوں کے لیئے بہت ذیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے ۔ عمر کا یہ ہی وہ حصہ ہوتا ہے جس میں یا تو آپ اللہ کے کرم سے کامیاب ہو جاتے ہیں یا پھر اپنی ناسمجھی سے ناکام ہو جاتے ہیں ۔                                                                              
 آج ہم خاص طور پر اس عمر کی بچیوں کی مزاجی تبدیلی پر بات کرتے ہیں ۔ اکثر ہم گھروں میں دیکھتے ہیں کہ بچیوں کے شوق لڑکوں سے جدا ہوتے ہیں جیسے انہیں ماؤں کی جیولری ، کپڑوں اور میک اپ کو خود پرٹرائی کرنا بہت پسند ہوتا ہے۔ چاہے وہ ان میں کارٹون ہی کیوں نہ لگیں ۔ بس یہ انکے لیئے کشش کا باعث ہوتا ہے کہ ہماری ماں یہ سب لگاتی ہیں اور اچھی لگتی ہیں تو ہم بھی اچھے لگیں ۔ اچھا لگنے کی یا شاباش لینے کی خواہش بچیوں میں ضرور موجود رہتی ہیں اور اسکا کسی بھی انسان اور خاص طور پر بچوں میں ہونا کوئی عیب نہیں ہے ۔ ہاں انہیں پیار سے یہ بات دوستانہ انداز میں ماؤں کو باتوں باتوں میں بتاتے رہنا چاہیئے کہ بیٹا آپ کی عمر میں کیا چیز آپ کے لیئے اچھی ہے یا آپ پر اچھی لگتی ہے ، یا کس کس چیز یا میک اپ سے آپ کی نازک جلد خراب ہو سکتی ہے ، آپ کے پیارے سے چہرے پر ہمیشہ کے لیئے کوئی بھی میک اپ میں شامل جزو داغ چھوڑ سکتا ہے ۔ اس لیئے آپ کو 20 سال کی عمر سے پہلے وہ چیز چہرے پر ٹرائی نہیں کرنا چاہیئے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔  اس عمر کے بچوں پر بیجا ہاتھ اٹھانے سے پرہیز کرنا چاہیئے ۔ اس عمر میں ہونے والی ذہنی اور جسمانی تبدیلیاں دوران خون کو خاصا تیز کر دیتی ہیں جس کی وجہ سے ہم اکثر یہ سنتے ہیں کہ بچے بہت اتھرے ہیں یا ہائیپر ہیں ، جوشیلے ہیں وغیرہ اس لیئے ایسے بچے اکثر بہت بحث کرتے ہیں یا بہت ذیادہ سوال کرتے ہیں۔ انہیں " یہ نہ کرو "کیوں کہ میں نے کہاہے،کہہ کر مطمئین نہیں کیا جا سکتا ۔ بلکہ انہیں ہر بات کہ وجہ چاہیئے ہوتی ہے ۔ کئی مائیں تو کیا باپ بھی جہالت کی حدوں کو پار کرتے ہوئے بیٹے ہی نہیں جوان بیٹیوں کو بھی دوسروں کے سامنے چھوٹی چھوٹی باتوں پر ذلیل کرنے یا انہیں مارنے پیٹنے سے بھی احتراز نہیں کرتے ۔ کئی گھروں میں تو بیٹیوں کو مارنا غالبٓٓا بڑی شان سمجھا جاتا ہے اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ہماری مار کے ڈر سے ہی ہماری بیٹی کسی برائی میں نہیں پڑی توایسے تمام خوش خیال جاہل والدین کو یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ یہ وہ عمر ہے جس میں جب لڑکی نے آپکو تارے دکھانے ہیںتو وہ پنجرہ توڑ کر بھی فرار ہو سکتی ہے یہ سوچے بنا کہ اس کے ساتھ آگے ہو گا کیا ؟ لیکن جس کی فطرت میں پاکیزگی ہے اسے بے دھڑک بھی چھوڑ دیں تو بھی وہ کسی گندگی میں شامل نہیں ہو گی کیوں کہ عورت کی فطرت میں حیا اللہ نے شامل کی ہے ۔ جبکہ جو لڑکیاں ان برائیوں میں مبتلا ہوتی ہیں اس میں ان کے والدین اور خاص طور پر ماں ہی قصوروار ہوتی ہے ۔ جو بچی کی عمر کی چھوٹی چھوٹی خواہشوں کو سمجھنے کے بجائے اسے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹنا بڑی بہادری سمجھتی ہے ۔                                                        
 پچھلے دنوں فیس بک پر ایک ویڈیو بڑے  ٹھٹھے کیساتھ چلی، جس میں ایک ٹین ایج لڑکی گھر سے کسی اور ڈریس میں نکلی اور باہر آکر اس نے  اپنے کپڑۓ بدل لیئے جبکہ نیچے اس نے پینٹ شرٹ پہن رکھی تھی ۔ ماں نے اسے پیچھے کہیں دیکھ لیا اور گلی ہی میں خوب واویلہ کیا ور اس جوان بچی کو انتہائی ظالمانہ انداز میں مارا پیٹا اور بالوں سے گھسیٹتی ہوئی گھر لے گئی ۔ اس وقت ہمیں بہت افسوس ہوا جب ھاھاھا  لکھ کر اس وڈیو کو شئیر کیا گیا ۔ کیسی بے غیرتی کی بات ہے ان بھائیوں کے لیئے جو بہن کو ایسے شرمسار ہوتا دیکھ رہے ہیں ۔ یہ اس لڑکی کی ایک خواہش تھی کہ وہ پینٹ شرٹ میں سکول جائے تو ماں کو نہیں پسند تو اسے بچی کو پہلے ہی ذہنی طور ہر محبت سے یہ بات سمجھانی چاہیئے تھی کہ بیٹا ہمیں آپ کا یہ لباس پہننا اچھا نہیں لگتا ۔ تو شاید بچی بھی اپنی پسند پر غور کر لیتی یا اسے یہ کہا جاتا کہ اس پینٹ کے ساتھ شرٹ لانگ استعمال کرو تو آپ پر اچھی لگے گی تو بھی بات سمجھ میں آ جاتی ۔ اس عمر کی بچوں کو اپنے منہ پر میک اپ ملنا ہے اور کہنے پر بھی ٹرائی کرنا ہے تو کرنے دیں کیوں کہ ان کا دل جلد ہی اس سے بھر جائے گا اور آپ دیکھیں گے کہ ٹین ایج سے نکلنے تک انکا سارا شوق ختم ہو چکا ہو گا جبکہ آپ نے ان پر بیجا سختی کی تو یہ کام تو انہوں نے کرنا ہی ہے سامنے نہیں تو چھپ کر کریں گی ۔ تو کیا فائدہ ۔ دوسری بات ہماری بہنوں کو بڑا شوق ہوتا ہے کسی بھی بچی کی عمر دیکھے بنا اس پر اعتراض کرنے کا ۔ اپنی بیٹی چاہے ان کی حرکتوں سے باغی ہو کر کہیں بھی منہ کالا کروا لے، وہ اپنی آنکھ کا شہتیر انہیں دکھائی نہیں دیگا لیکن کسی کی بچی نے ٹین ایج میں منہ پر میک اپ نام کا کوئی لال پیلا رنگ لگایا ہو تو فورا اس بچی میں اخلاقی اور شرعی عیب ڈھونڈنے کی مہم پر روانہ ہو جائیں گی ۔اور معذرت کیساتھ آجکل کی نام نہاد تہجد گزار اور وظیفہ پڑھے والی خواتین میں یہ عیب عروج پر ہے ۔ حالانکہ وہ اپنی عمر میں یہ سب کچھ کر چکی ہیں مگر پوچھنے پر خود کو پیدائشی حاجن بی بی ثابت کرنا اپنا حق سمجھتی ہیں ۔    گویا یہ کہنا ہی باقی ہوتا ہے کہ جی  ہم تو '' دامن نچوڑیں تو فرشتے وضو کریں''  کی کسر ہی رہ جاتی ہے ۔  آپ نے اکثر ایسی بزرگ خواتین 50 سال سے اوپر کی بھی دیکھی ہوں گی کہ جو پورا بیوٹی پارلر بن کر باہر نکلتی ہیں ۔ عجیب سے نیلے پیلے کپڑے ، بڑے بڑے بندے ، دونوں کلائیاں ہر طرح کی چوڑیوں سے بھرے ،  خوفناک میک اپ ۔ جی ہاں یہ وہی خواتین ہوتی ہیں جن کا ٹین ایج انتہائی تکلیف میں گزرا ہوتا ہے ۔ انہیں اپنی مرضی سے ننھی منھی خواہشیں  پوری کرنے کی اجازت بھی کبھی نہیں دی گئی ۔ اور وہ حسرتیں ان کے دل میں پلتی رہیں نتیجہ یہ نکلا کہ شادی کے بعد بھی کئی گھروں میں ان پر بیجا پابندیوں نے ان کے اس شوق کو اور ہوا دی اور بڑہاپے میں جب انہیں اختیارات ملے تو انہوں نے اپنے شوق پورے کرنے شروع کر دیئے ۔ ہو سکتا ہے دیکھنے والوں کے لیئے یہ ہنسنے کی بات لگتی ہو ۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں ان کے ایسے شوق کی وجوہات کو سمجھنا چاہیئے ۔ اور ان سے ہمدردی رکھنی چاہیئے ۔ اگر آپ بھی چاہتے ہیں  کہ کل کو اپکی بیٹی کو بھی کوئی دیکھ کر اس کا مذاق نہ اڑائے تو خدارا اپنی ٹین ایج بچیوں کی دوست بنیں اس کوپیار سے اپنی تہذیب سکھائیں۔ انہیں  سوشل ایونٹس میں بھی اپنے سارتھ رکھیں تاکہ انہیں لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا ، بات کرنا ، اور لوگوں کو سمجھنا آئے ۔ کیوں کہ آخر کو انہوں نے نئے لوگوں میں بھی بیاہ کر جانا ہے تو اگر آج وہ لوگوں کو سمجھ سکیں گی تو اپنے گھروں کو جلد اچھے سے سنبھالنے کے بھی قابل ہو جائیں گی کہ یہ خود اعتمادی آپ ہی کی دی ہوئی ہو گی ۔ ماں کی محبت اور سمجھداری عورت کی ہر عمر میں اس کی عادات سے جھلکتی ہے ۔ اگر مائیں بچیوں کی دوست ہوں توانہیں کبھی زندگی میں کسی دوست کی کمی کا احساس نہیں ہوتا۔ اگر آپ کے بچے دوستوں میں رہنا ذیادہ پسند کرتے ہیں یا آپ کیساتھ کہیں جانے پر تیار نہیں ہیں  تو اپنے رویے پر غور کریں کہیں وہ آپ کی صحبت سے نالاں تو نہیں ہیں ۔ غور کریں اور اپنے رویے کا جائزہ لیں ۔ اگر آپ کو اپنے بچوں سے محبت ہے تو۔۔۔۔۔۔۔۔
                   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 





شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/