ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک
سراب دنیا لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
سراب دنیا لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

پیر، 1 مارچ، 2021

● ◇ کہاں پہ حور اور کہاں پہ عورت / نظم۔ سراب دنیا ۔ جا میں نے تجھے آزاد کیا


 کہاں پہ حور اور 
       کہاں پہ عورت          
     
 

وہ جس کو چھو کر ہوا نہ گزری 
غموں کی کوئی گھٹا نہ گزری
نہ میلے ہاتھوں کی وہ پہنچ میں 
نہ گندی نظروں گناہ سے گزری

جمال اس کا کمال ٹہرا 
ادا میں اس کی قتال ٹہرا 
سبک خرامی ہے اس کی واللہ
کوئی نہ اس پر سوال ٹہرا


اسے کیا کس طرح مقابل
جو ایک عورت کا حال ٹہرا

کہاں بھلا یہ دکھوں کی ماری 
غموں میں جکڑی ہوئی یہ ناری
ہر اک قدم پر نیا فسانہ 
ہر اک قدم سوچتی بیچاری

بچائے خود کو کدھر کدھر سے 
کسی کے ہاتھوں سے یا نظر سے 
بچائے جاں یا کہ روح اپنی
یا اپنی عزت کو جھاڑ گھر سے

ادھر مقابل تو آ ذرا تو 
مجِھے اے حور اصل بتا تو 
کبھی ہے کاٹا کوئی بھی فاقہ
کبھی جنا تو نے کوئی بچہ
کبھی دریدہ بدن ہوئی ہے 
کبھی تو سردی میں جا کے سوئی 
کبھی تو کھا کھا کے مار روئی
کبھی اٹھائے ہیں زخم تو نے  
کبھی جو عزت کہیں گنوائی
کہیں پہ لگ کر قطار میں تو 
ملا نہ راشن تو موت آئی
تمہاری چوٹی پکڑ کے بولو
نکالا گھر سے کبھی کسی نے 
خلاف مرضی کبھی کسی نے
نکاح کے بدلے تمہیں رگیدا 
نہیں۔۔۔ نہیں نا
کبھی نہیں نا.... 
کبھی اتر کر زمیں پر آ تُو
جو مجھ پہ گزرے گزار پا تُو
میں مان لونگی مقام تیرا 
تجھے بھی پہنچے سلام میرا 
میرے مقابل نہ آ سکو گی 
مجھے یقیں ہے کہ میرے رب کو 
میرے ہر اک درد کی خبر ہے 
میرے مقابل وہ آئے گا جو 
میرے ہر اک غم کے ہو برابر
خدا ہے منصف وہی ہے عادل
 نہیں ہے ممتاز تو  مقابل
         ●●●


جمعرات، 28 جنوری، 2021

● (1) اے رب ذوالجلال \ حمد ۔ سراب دنیا



(1) حمد باری تعالی 
    اے رب ذوالجلال

اے رب ذوالجلال تیری عظمتوں کے نام
ہر چیز تیرے حکم کے تابع تیری غلام 

 چلتی ہوائیں ہوں کہ ٹہرتی سی سانس  ہو 
ہر پل بتائیں قادر و مطلق کا انصرام

مبہوت عقل رہتی ہے عاجز یہ سوچ کر
کیسے تیرے سوائے چلا پائے انتظام 

 تو نےعطا کیئے ہیں جو شام و سحر ہمیں 
اور پھر دوپہر میں بھی تیرے ذکر کا قیام

ممتاز ہیں یہ رشتے ہمارے سکون کو 
مالک اسی سبب سےہے انساں کا احترام

●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام:
سراب دنیا 
اشاعت: 2020ء 
●●●

جمعہ، 3 جنوری، 2020

● شفیق مراد۔ تبصرہ ۔ سراب دنیا




تبصرہ:     شفیق مراد۔ جرمنی

قلم کی امین

ادیب اور شاعر قلم کا امین ہوتا ہے جو اس بار امانت کو اپنے کمزور کندھوں پر اٹھائے اپنے مشاہدات و تجربات کو سپردِ قلم کرنے کی غرض سے کئی مرتبہ پُلِ صراط سے گزرتا ہے ۔جب مشاہدات و تجربات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جذبات ،احساس کی بھٹی میں تپ کر کندن بنتے ہیں تو وہ اشعار کا روپ دھارکر رنگ ونور کی شعاعیں بکھیرتے ہیں ۔ جو آنکھوں کو بینائی اور سوچ کو توانائی کے انمول خزانے عطاکرتی ہیں، تو گلستانِ حیات میں پھولوں کی نگہت اور کلیوں کی صباحت محسوس ہوتی ہے ۔
انقلاب کی سر زمین فرانس، خوشبوؤں اور محبتوں کے شہر فرانس میں مقیم ممتاز ملک کا قلم امانت کا حق ادا کرتے ہوئے، کبھی انقلاب کا جذبہ بیدار کرتا ہے تو کبھی وطن کی محبت کی مخملی چادر میں دیار غیر میں رہنے والے ہموطنوں کو پناہ دیتا ہے۔ اس کا قلم رشتوں کے اثبات ، وطن کی محبت، انسان دوستی اورامن و آشتی کا پیغام دیتاہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ خون جگر سے گلستان حیات کی آبیاری کر کے جہالت کے اندھیروں کو ختم کرنے اور علم و ادب کی روشنی سے قلوب کو منور کرنے کا عزم رکھتی ہے ۔وہ کہتی ہے ۔
ظلمتِ شب کو بہر طور تو ڈھلنا ہو گا 
اب  ہر اک سیپ سے موتی نکلنا ہو گا 
وہ حکمت ودانائی کے موتیوں کو سیپ سے نکالنے کا ہنر جانتی ہے اور اسی میں اسکا پیغام پوشیدہ ہے ۔جو انسان کو اسکے اندر پوشیدہ خزانے کی نشاندہی کرتا ہے ۔ زندگی اور زندگی کی رعنائیوں کی نغمہ خواں دنیا کے باغ میں خوبصورتیاں اور مہکتے پھول دیکھنا چاہتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب وہ خارجی تاثرات اور داخلی کیفیات کو اشعار کی مالا میں پروتی ہے تو اس کے اشعار ملک اور رنگ ونسل کی حدود قیود سے آزاد نظر آتے ہیں ۔وہ انسان اور انسانیت کی بات کرتی ہے خواہ اسکا تعلق کسی بھی خطہ ارضی سے ہو ۔ یہی چیز اس کی شاعری کو آفاقی بنا دیتی ہے ۔اس کی شاعری میں خوشی وانسباط کے شادیانے ہیں تو درد وغم کے تازیانے بھی ہیں ۔ اس کی آنکھ معاشرتی مسائل، معاشی ناہمواریوں ،انسانوں کے اذیت ناک رویوں اور انسانوں کی بے بسی کا ادراک رکھتی ہے جو اسے درد آشنا کرتی ہے تو وہ اسی درد کی دولت سے تریاق کشید کرتی ہے جو کبھی دوستانہ ہوتا ہے تو کبھی ناصحانہ اور کبھی ناقدانہ ،وہ کہتی ہیں 
منہ میں زبانیں سنگ کے موافق ہیں دوستو 
نرمی نہیں ہے نرمئ گفتار چاہئیے
چاہت کے واسطے تو زمانے بھی کم ہیں اور 
نفرت کو ہر گھڑی نیا سنسار چاہئیے 
انسانی مسائل کی نمائندہ شاعرہ کے ہاں غم کی آندھیوں میں امید کا روشن دیا ہے۔ جو کاروانِ حیات کے مسافروں کو نئے راستوں اور نئی منزلوں کی خبردیتا ہے ۔
ممتاز ملک، شاعری میں انسانی منفی رویوں کا برملا اظہار کرنا جانتی ہے ۔ایک سچے ،کھرے اورنڈر فنکار کی طرح جو بوجھ وہ قلم پر محسوس کرتی ہے۔ اسے صفحے پر اتار دیتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی شاعری میں زندگی کے حقائق کا گہرا احساس ملتا ہے وہ احساس کی دولت کو قوموں کی زندگی کا سبب قرار دیتی ہے اور اسے اجاگر کرنا نہ صرف اپنا فرض منصبی سمجھتی ہے بلکہ اس پر یقین بھی رکھتی ہے۔
دھڑکن کے بدلے سناٹے 
سوچ میں دقیانوسی جالے
یا
یہ الگ بات لہو میں تیرے دوڑے ہے جفا 
جا مری جان مری ساری وفائیں لے جا 

کسی بھی شاعر کی طرح ممتاز کا دل محبت کے جذبات سے خالی نہیں ۔ اسکی محبت خدائے عزو جل کی محبت سے شروع ہوتی ہے جو مدینے کی گلیوں کا طواف کرتے اور پیارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے پاوں کی خاک کو چھوتے ہوئے اور عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہوئے بنی نوع انسان کی محبت کی طرف رواں دواں ہے ۔
وہ کیا تھی عنایت وہ کیا دلکشی تھی 
جو سب کی عقیدت کی وجہ بنی تھی
وہ حُسن و عمل کا سرورآگئے ہیں 
حضور آگئے ہیں حضور آگئے ہیں 

ہجرت کا مضمون جس قدر درد ناک ہے انسانی تاریخ میں اتنی ہی اہمیت کا حامل ہے ۔ ہجرت کے نوحے بھی لکھے گئے اور ہجرت کو نئی منزلوں کی تلاش اور نئی دنیا کی دریافت کا نام بھی دیا گیا ہے ہے ۔ ممتاز ملک کو پیرس کی حسین وجمیل گلیاں ، فلک بوس عمارتیں ،حیات پرور نظارے اور سکون بخش سیر گاہیں اپنے وطن سے جدا نہ کر سکیں ۔وطن کی محبت اس کے انگ انگ میں سموئی ہوئی ہے اور اس کا دل وطن میں ہے اور وطن کے لئے دھڑکتا ہے جس کا ذکراس کی شاعری اور نثر پاروں میں جا بجا ملتا ہے ۔وہ یورپ کی پر تعیش زندگی کو دیکھتی ہے تو انہیں اپنے وطن کے گلی کوچے یاد آجاتے ہیں  تو بے اختیار سراپا التجا بن جاتی ہے اور یوں اظہار محبت کرتی ہے ۔
میرا تو دن رات ہے وظیفہ مرے وطن کا خیال رکھنا 
خدا کے در پر جھکا کے سر کو یہ ایک ہی تو سوال رکھنا 
جو تیری رحمت سے ہو نہ خالی ترے کرم سے قریب تر ہو 
ہزیمتوں سے بچائے ہم کو ہمارے سر پہ وہ ڈھال رکھنا 

اس کی شاعری میں جہاں معاشرتی اور معاشی مسائل کا ذکر ہے وہاں عالمی حالات پر بھی اس کی گہری نظر ہے وہ ظلم و بر بریت کے خلاف آوازِ حق بلند کرنا اپنا فرضِ منصبی سمجھتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے اشعار تمام تر شعری تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے مقصدیت سے بھر پور ہیں انسانوں کے غیر اخلاقی رویوں اور آداب معاشرت سے بے بہرہ لوگوں کے لئے اس کا رویہ بعض اوقات سخت بھی ہو جاتا ہے ۔جو اس کے جذبوں کی صداقت پر دلالت کرتا ہے وہ ایسے رشتوں کو جومحبت ہمدردی اور دوستی کے جذبات سے عاری ہوں ، لاش کی مانند قرار دیتی ہیں ۔ یعنی چلتی پھرتی لاش۔
ہم نہ پہچان پائے لاشے کو 
دوستی سرقلم ہے کیا کیجیئے
وہ رشتوں کے اثبات کی شاعرہ ہیں ۔اور انکا احترام کرنا جانتی ہیں ۔ایک طرف تو وہ بیٹی بن کر ماں کے لیے کہتی ہے
جنتوں کی کھلی فضا جیسی 
ماں مری مہرباں خدا جیسی 
تو دوسری جانب وہ ماں کے منصب پر فائز ہو کر اپنے بیٹے کو منظوم نصائح کرتی ہیں اس کی نظم ’’سنو بیٹے!میں تیری ماں ہوں ‘‘رشتوں کے تناظر میں ایک شاہکار ہے ۔
عام بول چال کے انداز میں الفاظ کو برتنے کا فن بخیر وخوبی جانتی ہے جذبوں کو اجاگر اور مثبت سوچ کو عام کرنا چاہتی ہے اس یقین کے ساتھ کہ احساس کی دولت اور نیک جذبے انسانی زندگی اور معاشرے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔
جذبہ دشت نوردی میرا اعزاز رہا 
زندگی آج اندھیروں سے نکل آئی ہے 
الغرض ان کی شاعری زندگی کے ہر شعبے کا احاطہ کئے ہوئے ہے اشعار میں خیالات کی فراوانی، مشاہدات کی طغیانی ، کردار کی بلندی اور جذبوں کی طاقت پائی جاتی ہے ۔اس کے پانچویں مجموعۂ کلام ’’سراب دنیا‘‘ کی اشاعت پرمیری نیک تمنائیں اور میری دعائیں اس کے ساتھ ہیں ۔
شفیق مراد
چیف ایگزیکٹو
شریف اکیڈمی جرمنی
18مارچ 2019ء
                        ۔۔۔۔۔۔۔

● شاز ملک کا تبصرہ ۔ سراب دنیا

تبصرہ
شاز ملک
پیرس ۔فرانس

کسی بھی شاعر اور ادیب کی تخلیق کا دارومدار اسکے تخیل کی اُڑان 
پر ہوتا ہے ۔ وہ اپنی سوچ کو پر لگا کر تخیل کی اُڑان کو ہموار بناتا ہے 
اسکا قلم اسکی اعلی پرواز کا گواہ ہوتا ہے ۔۔  
محترمہ ممتاز ملک  صاحبہ کا قلم بھی انکی اعلی ذہنی سطح کا گواہ ہے
بحیثیت شاعرہ میں نے انکے احساسات و جذبات میں شدت کو محسوس کیا ہے 
اور وہ اشعار میں اپنا مدعا کہیں سادگی سے بیان کرتی نظر آتی ہیں اور کہیں 
تشبہات و استعارات سے مدد لیتے ہوۓ نہایت خوش اسلوبی سے اشعار میں اپنی جزباتی کیفیات کو بیان کرتی ہیں 
میں نے انکے قلم کو حساسیت کے دائرے میں رہتے ہوئے صنف نازک کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوۓ پایا ہے وہ اپنے گمان میں ماضی سے حال تک کا سفر  کرتے ہوۓ مستقبل کی  خوش گمانیوں پر بھرپور نکاہ رکھتی ہیں۔
ممتاز ملک  سچائی کے علم کو تھامے ہوۓ اپنا ادبی سفر طے کر رہی ہیں 
انکی سوچ کی اُڑان تخیلاتی نہیں بلکہ زمانے کے حقائق اور تلخی کو اجاگر کرتی ہے ۔۔ وہ سچائی کو بلا تامل لکھتی ہیں اور اس سوچ کو عوامی راۓ کے ساتھ منسلک کرنے میں زرہ برابر بھی تامل نہیں کرتیں اور یہی انکی کامیابی کا راز ھے 
دل سے دُعا ہے کہ اللہ پاک انکے قلم کو سچائی کی روشنی سے منور رکھے 
اور وہ ادب کے آسمان پر روشن ستارے کی مانند اپپنے قلم کی روشنی سے چمکتی دمکتی رہیں ۔۔آمین
شاز ملک فرانس

جمعرات، 2 جنوری، 2020

● (77) زمانہ ہو گیا / شاعری ۔ سراب دنیا


(77)   زمانہ ہو گیا 
   

زمانہ ہو گیا اس کو  ملے بھی
کھلا تھا زخم جو اسکو سلے بھی

کوئی رنجش نہ اسکی رکھ سکا دل
بظاہر تو کیئے اکثر گلے بھی
  
نہ کہہ پائے جو اپنا مدعا تھا 
اگرچہ لب یہ  کہنے کو  ہلے بھی

نہیں بھولے ہیں تیری بیوفائی
سبھی دیوانگی کے سلسلے بھی

ہمیشہ آنکھ اس کی نم رہی ہے 
تھے ضرب المثل جسکے حوصلے بھی
  
انہیں راہوں پہ ہے  اپنا بسیرا 
گزرتے ہیں جدھر سے قافلے بھی

لگن سچی ہو گر ممتاز تو پھر 
سمٹ جاتے ہیں اکثر فاصلے بھی

●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام: 
سراب دنیا 
اشاعت: 2020ء
           ●●●                

● سراب دنیا ۔ ٹائیٹل کلام ۔ سراب دنیا


سراب دنیا 
(کلام/ممتازملک.پیرس) 



سراب دنیا 

یہ خواہشوں کا
ہے ایک گہرا کنواں کہ جسمیں
ہے لذتوں کا عذاب دنیا

ٹپک رہی ہے جو قطرہ قطرہ 
یہ آنسووں کی کتاب دنیا

سنائی نہ دے کسی کو ماتم
یہ قہقہوں کا نصاب دنیا 

ہے آنکھ والے کا صرف دھوکا 
اور ایک اندھے کا خواب دنیا 

کبھی یہ بیچے کبھی خریدے
بڑی ہے خانہ خراب دنیا

ہزار رنگوں میں جی کے آخر
سفید اوڑھا سراب دنیا

ہے بھول جانا ہی ریت اسکی
یہ دل جلوں کا عتاب دنیا

ذلیل ہوتے سب اسکی خاطر
نہیں ہے کار ثواب دنیا

کبھی مکمل نہ ہو سکا جو
یہ ایک ایسا ہے باب دنیا

انوکھا ممتاز بھید ہے یہ
سوال دنیا جواب دنیا
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام: 
سراب دنیا 
اشاعت: 2020ء
●●●



●(61) درد کی شام/ شاعری ۔ سراب دنیا



(61) درد کی شام


درد کی شام گزرتی نہیں ہے کیا کیجئے 
سحر خوشی کی ٹہرتی نہیں ہے کیا کیجیئے

اب تو کوشش بھی تھک کے چور ہوئی
وقت کی زلف سنورتی نہیں ہے کیا کیجئے

کون سمجھائے کہ تحمل سے 
بات بنتی ہے بگڑتی نہیں ہے کیا کیجئے

جب نظر ہی میں دم نہیں باقی 
کوئی تصویر نکھرتی نہیں ہے کیا کیجئے 

ہم نے ممتاز بارہا چاہا 
دل سے ہی یاد اترتی نہیں ہے کیا کیجئے 
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام:
سراب دنیا 
اشاعت: 2020ء
●●●

میرا چہرہ کتاب ۔ سراب دنیا



میرا چہرہ کتاب 
(کلام/ممتازملک ۔پیرس) 


وہ جو زیر عتاب ہے لوگو
اس پہ لازم عذاب ہے 

میرے لہجے پہ اعتبار  کرو
میرا چہرہ کتاب ہے لوگو



جو ہے بیخواب خواب دو اسکو
یہ تو کارِثواب ہے لوگو



ایک جھوٹا ہے اک منافق ہے
بہتریں انتخاب ہے لوگو



ایک میں اور ایک تُو ہو مگر
کچھ ادھورا سا خواب ہے لوگو



پشت پہ میری ایسی کی تیسی
ویسے حاضر جناب ہے لوگو



جن سے سیکھا انہیں کو لوٹایا
کچھ پہ میرا حساب ہے لوگو



جیسی کرنی ہے ویسی بھرنی ہے
دائمی احتساب ہے لوگو



جو ہے ممتاز حاسد اوّل
اس کا خانہ خراب ہے لوگو

۔۔۔۔۔


مشکل ہے ۔ سراب دنیا



مشکل ہے
(کلام/ممتازملک۔پیرس)

☀️اتنی  وعدہ خلافیاں کی ہیں 
    اب تیرا اعتبار مشکل ہے

☀️پہلے زخموں کی ٹیس باقی ہے 
     اب کریں پھر سے پیار مشکل ہے


☀️دوسرے کے لیئے جو غم بوئے
      اس کو  آئے قرار مشکل ہے


☀️جو لکھا ہے نصیب میں اپنے 
      اسے سے راہ فرار مشکل ہے


☀️زندگی سے بڑی سزا کوئی 
      ماننا یہ ہی یار
مشکل ہے


☀️خود سے راہیں تلاش کرنی ہیں
      تجھ پہ اب انحصار مشکل ہے


☀️اشک شوئی کریگا وہ ممتاز
     دل کو یہ انتظار
 مشکل ہے
   ......  

بدھ، 1 جنوری، 2020

● نبھاتے گزری ۔ سراب دنیا


              نبھاتے گزری 
              کلام:(ممتازملک ۔پیرس)


درد کی سیج پہ اشکوں کو سجاتے گزری 
کیا گزرنی تھی بھلا جبر نبھاتے گزری

یوں تو ارمان تھے اس دل میں گلستانوں کے 
خارزاروں پہ میرے پاوں بچاتے  گزری

وہ  جو ہر بار بچھاتے ہو محبت کہہ کر 
عمر ساری انہیں کانٹوں کو ہٹاتے گزری

کون کہتا ہے قرار آئے گا آتے آتے 
بیقراری کو دلاسے ہی دلاتے گزری

ہے قریب آپ کے جتنا کوئی اتنا ظالم
اپنے مطلب کے سوا جان چھڑاتے گزری

چھوڑ کراہم تعلق سبھی رشتے ناطے
بے سروپا سے نظریات بچاتے گزری

اپنی تقدیرکےمسکن میں کوئی در نہ ملا
دائرے میں ہمیں ہر چند گھماتے گزی

کوئی پہلونہیں ممتاز جلن سے محفوظ  
راکھ چنگاری کی امید اڑاتے گزری
    
●●●

ہم بھی بادشاہ ہوتے ۔ شاعری ۔ سراب دنیا



         ہم بھی بادشاہ ہوتے
         (کلام/ممتازملک.پیرس)

   محبتوں میں کبھی ہم جو نہ تباہ ہوتے
دیار دل کے کہیں ہم بهی بادشاہ ہوتے


اگر نہ ذات کو اپنی نقاب پہناتے
نہ اس طرح سے یہاں راندہ درگاہ ہوتے

 اگر جو درد کی منزل سے کچھ سبق لیتے
 کسی بهی ٹوٹے ہوئے دل کی ایک آہ ہوتے

رقیب کو یہ بتائو کہ بن تمہارے بهی
ہاں ہوتے کچه بھی مگر ہوتے بے پناہ ہوتے


زہن کو پڑهتے نظر بین اس قدر ہوتے
دلوں کے پار اترنے کا راستہ ہوتے

نظر تمہارے تعاقب میں رائیگاں ٹہری
وگرنہ ہم بهی کہیں مرکز نگاہ ہوتے

عروج کا جو سفر ان کو راس آ نہ سکا
نہ پستیوں میں جو گرتے توانتہا ہوتے

قدم جو وقت کی آواز پہ اٹھتے ممتاز
زمانہ دیکھتا واللہ کیا سے کیا ہوتے 
............



یہ دل بنجر ۔ شاعری ۔ سراب دنیا


یہ دل بنجر

امیدوں کی دوڑ میں اکثر
اپنے آپ سے کھو جاتا ہے 

قطرہ قطرہ رستے رستے 
یہ دل بنجر ہو جاتاہے  


روتے روتے ہنس دیتا ہے 
ہنستے ہنستے رو جاتا ہے

میٹھے زہر جو عریاں ہوں تو
لہجہ خنجر ہو جاتا ہے

خوب ستمگر ہے یہ جوبن
گل پہ خار پرو جاتا ہے  

ہر فقرہ بےفکر ہے کتنا
لٹنے کا ڈر کھو جاتا ہے 

ہاتھ کے تکیئے پر سر رکھ کر
بے فکری سے سو جاتا ہے 

خوش کیسے ممتاز رہے جب
شک وہ دل میں بو جاتا ہے  
۔۔۔۔




پیر، 15 جولائی، 2019

● بٹ گئی ۔ سراب دنیا


  بٹ گئی
(کلام/ممتازملک ۔ پیرس)

رونا ہے احترام کا سچ تو ہے یہ مگر
عزت بڑوں کی آج مکانوں میں بٹ گئی

بیٹی سبھی کی سانجھی ہوا کرتی تھی کبھی
غیرت گلی کی ساری دکانوں میں بٹ گئی

جس کا کبھی جوانوں میں چرچا تھاہاں وہی
مردانگی بھی آج زنانوں میں بٹ گئی

قیمت بٹورے عقل کے والی چلے گئے
بےچینیوں کی بھینٹ دیوانوں میں بٹ گئی

 قربانیاں غریب کے حصے میں رہ گئیں 
دولت شہر کی ساری سیانوں میں بٹ گئی

ممتاز منصفوں کے نہ احوال پوچھیئے
انصاف کی دلیل بیانوں میں بٹ گئی 
                    ●●●                   


جمعہ، 31 مئی، 2019

ذوق نبی ۔ نعت ۔ سراب دنیا


نعت 
             ذوق نبی ص

حضور کے ذوق کے مطابق جو نعت ہوتی تو بات ہوتی
  غلام آقا ہی نام ہوتا  یہی ہماری جو ذات ہوتی تو بات ہوتی 

انہیں کے قدموں میں دن گزرتا کمال ہوتا 
جوانکےجیسےہی رات ہوتی تو بات ہوتی

ہمارا بھی ذکر سن کے سرکار مسکراتے 
وہی مقدس حیات ہوتی تو بات ہوتی 

 ہمارا ہر دن نبی کی سنت  بسر جو ہوتا 
ہماری ہر شب برات ہوتی تو بات ہوتی

اگر میسر ہو انکے احکام پر عمل تو
ہمارے تابع یقین کی کائنات ہوتی تو بات ہوتی 

حضور کے راستے پہ ممتاز ہمیں بھی بخشش نصیب ہوتی
ہمیں جو تقوی نصیب ہوتاحصول راہ  نجات ہوتی تو بات ہوتی 
                       ۔۔۔۔۔۔۔

پیر، 22 اپریل، 2019

● (16) ہر آنکھ تماشائی ہے / شاعری ۔ سراب دنیا



(16) ہر آنکھ تماشائی ہے

 
رنگ ہی رنگ ہے رعنائی ہی رعنائی ہے 
دیکھنے کو جسے ہر آنکھ تماشائی ہے 

جذبہ دشت نوردی میرا اعزاز رہا
زندگی آج اندھیروں سے نکل آئی ہے

کون کہتا ہے کہ محروم تمنا ہو جا
روشنی کے لیئے ترسی ہوئی بینائی ہے 

خوش نہیں تیری محبت میں یہ دنیا گم ہے 
  غم کہ کرنی تھی جسے بس وہی ہرجائی ہے

اے ہوا عشق میرا تیرا قرضدار ہوا
راستے سے  تُو میرے دھول اڑا آئی ہے

درد کی لہر میں دیکھے ہیں کبھی وہ لمحے
موت کے بین میں جب گونجتی شہنائی ہے

فیصلے سارے ہی انصاف نہیں پا سکتے
کچھ تو درپردہ خیالات کی شنوائی ہے

میری گلیوں میں کیا سورج نے چراغاں کرنا
جگنؤوں سے ہی میرے دل نے ضیاء پائی ہے

ہم حیادار تھے الزام یہی تھا تو سن 
بے حیا لوگوں سے ہم نے یہ حیا پائی ہے
اب نہ حیران ہوئی اور نہ نمناک ہوئی
آنکھ سے کتنے حوادث  کی شناسائی ہے

اب تو ممتازبدل جائے مقدر تیرا
ٹوٹنے کو تیرے حالات کی انگڑائی ہے
●●●
    کلام : ممتازملک
      مجموعہ کلام:سراب دنیا
اشاعت:2020ء
●●●


بدھ، 17 اپریل، 2019

اب تو ملتی کہاں ۔ شاعری ۔ سراب دنیا




اب تو ملتی کہاں
       (کلام/ممتازملک۔پیرس)


اب تو ملتی کہاں پر وفا ہے
دل لگانے کی شاید سزا ہے

مسکرا کر اسے دیکھ لینا
ٹوٹے دل کی یہ ہی اک دوا ہے

مجھ سے شاید کچھ ایسا ہوا ہے
جس کے بدلے ملی یہ سزا ہے

دوستوں کی نگاہوں سے جانا
کہ وفاؤں کا بدلہ جفا ہے

ہم نے جسکے لیئے خود کوچھوڑا
آج تنہائی اسکا صلہ ہے

رات بھر سو نہ پائے اگر ہم
پھر سے بجلی گری شور اٹھا ہے

تُو نے ممتاز امید باندھی
اب بھی امید پر وہ کھرا ہے
۔۔۔۔۔۔



● (19) میرا محور بدل گیا / شاعری ۔ سراب دنیا


(19) میرا محور بدل گیا



❤خواہش بدل گئی میرا زیور بدل گیا 
جب سے بنی ہوں ماں میرا محوربدل گیا


❤دکھ دوسروں کے مجھ سے جدا اب نہیں رہے
لہجہ بدل گیا میرا تیور بدل گیا


❤دھڑکن کی گونج میں بڑی طاقت سی آ گئی
انداز ہی دعاؤں کا یکسر بدل گیا


❤اللہ سے کچھ مزید ہی قربت سی ہو گئی
جیسے کہ دوستی کا تصور بدل گیا


❤بھرپور تھا مگر اسی اک پھول کے آتے
جیسے کوئی درخت تناور بدل گیا


❤مجھ کو یقین آنے لگا اپنی ذات پر
پہلے تھا بے یقین جو باور بدل گیا


❤گویا عبادتوں کا ثمر مجھکو مل گیا
چاہت بدل گئی میرا دلبر بدل گیا


❤بہتات تھی جووقت کی قلت میں ڈھل گئی
میری حیات کا سبھی منظر بدل گیا


❤ممتاز ذمہ داریاں بڑھنے لگیں میری 
رکھنا یہ میرے ہاتھ کا سر پر بدل گیا
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام:
سراب دنیا 
اشاعت:2020ء
●●●

بدھ، 20 مارچ، 2019

موم کا زندان ۔ سراب دنیا

موم کا زندان
(کلام/ممتازملک.پیرس)


یوں ہوا محسوس 
جو دیکھا بظاہر
روشنی تو قید میں ہے
 پر موم کے زندان میں ؟
یہ نہیں معلوم  کہ 
زنداں پگھلتا جا رہا ہے 
روشنی کی آنچ سے
ایک جلتا جا رہا ہے
  اک پگھلتا جا رہا ہے
روشنی جلنے سے باز آتی نہیں
 اور 
موم کا زندان بھی تو
قید کرنے کی تمنا سے
 نہ باز آیا کبھی 
۔۔۔۔۔

ڈرتا ہے بیچارہ ۔ سراب دنیا




ڈرتا ہے بیچارہ
(کلام/ممتازملک ۔پیرس)

یہ مرد ہے رونے سے بھی ڈرتا ہے بیچارہ
جلدی ہی اپنی جاں سے گزرتا ہے بیچارہ

اک رشتے کو دیکھے کبھی دوجے کو سنبھالے
اک لمحہ میں کس کس سے نہ لڑتا ہے بیچارہ

ہر روز لیئے آنکھ میں شیشے کا جو تیشہ
سپنے نئے آنکھوں میں یہ بھرتا ہے بیچارہ

سب خوش رہیں یہ سوچ کے ناراض سبھی ہیں 
اپنے ہی مقدر سے یہ بھڑتا ہے بیچارہ

دل قید کسی میں تو کہیں جان اڑی ہے
اندر سے ہےٹوٹا پر اکڑتا ہے بیچارہ

بات اور کہ چل پائے نہ ہر ایک سخن میں
حیلے تو بہت اپنے سے کرتا ہے بیچارہ

ہر بار یہ سوچے کہ یہ ہے آخری مشکل
جینے کی اسی چاہ میں مرتا ہے بیچارہ

میدان میں یہ جیت کے نکلے گا تو ممتاز
گھر کی ہی لڑائی میں یہ ہرتا ہے بیچارہ
۔۔۔۔۔۔۔






● انسان ہونا ۔ سراب دنیا



انسان ہونا
(کلام/ممتازملک.پیرس)


سیانے سے مشکل ہے نادان ہونا 
فرشتے سے مشکل ہے انسان ہونا

جسے درد ہوتا ہے نہ موت آتی
اسے کیا پتہ کیا ہے قربان ہونا

جنہیں خواہشوں کا نہ مطلب پتہ ہو 
انہیں  کیا پتہ دل کا ارمان ہونا

سدا ماتحت جو رہے ہیں رہینگے
نہ جانیں گے وہ کیا ہے سلطان ہونا

جو اپنے گھروں سے کبھی بھی نہ نکلے
وہ کیا جان پائینگے  مہمان ہونا

انہیں دکھ سے ممتاز کیا لینا دینا 
نہ دیکھا کبھی گھر کا ویران ہونا
●●●

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/