ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جواب / افسانہپ



(افسانہ)
جواب
(ممتاز ملک. پیرس)

یوں تو سلطان احمد اب ساٹھ  سال کے پیٹھے میں داخل ہو چکے تھے سر تو کیا نتھنے اور سینے کے بال بھی سفید ہو چکے تھے. 
 لیکن اپنے آپ کو کمسن ہی گردانتے تھے.  سو راہ چلتی ہر خاتون کو اس ادا سے دیکھتے جیسے وہ نہ صرف اس دنیا کے آخری گبرو ہیں بلکہ اس کرہ ارض پر گویا  آخری مرد بھی وہی ہیں . 
وجہ شہرت بھی موصوف کی ہر آتی جاتی خاتون کو دیکھ کر سرد آہ بھرنا ہی تھی.  
سلطان احمد کی بیوی آسیہ جو عمر میں نہ صرف اس سے دس  برس  چھوٹی تھیں بلکہ ناک نقشے میں بھی اس سے ہزار درجہ بہتر تھیں.
 لیکن نہ جانے سلطان احمد کون سا نظر باز شربت پیئے بیٹھے تھے کہ راہ چلتی بھنگن کو بھی  تاڑنا نہ بھولتے. جبکہ اپنی بیوی کو نظر بھر کر دیکھنے کا بھی کبھی انہیں خیال نہ آیا.  
ان پر یہ بات سو فیصد لاگو ہوتی تھی کہ حرام ہی میں لذت ہے , حلال تو بس عزت ہے 
گلی کی خواتین کی زبانی آسیہ بیگم آئے دن سلطان احمد کے احوال سے باخبر ہوتی رہتی تھی اور دل ہی  دل میں پیچ و تاب کھا کر رہ جاتی تھیں.  لیکن اس کا کوئی علاج اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا.  
پہلے پہل اسے خیال آیا کہ ہو سکتا وہ اب شوخ ونگ رنگوں سے اجتناب برتنے لگی ہیں اور ہار سنگھار سے بیزار ہو گئی ہیں اور سلطان احمد کو یہ سب اچھا لگتا ہو جبھی وہ ایسی چھچھوری حرکتیں کر رہے ہیں . اسے احساس دلانے کے لیئے..
 آج آسیہ بیگم نے پانچ سال پرانا جامنی رنگ کا جوڑا الماری سے نکالا جو اس وقت اس نے بڑے چاؤ سے بنوایا تھا لیکن ایک دو بار ہی پہنا ہو گا کہ دو چار اس کی امَاں کی عمر کی خواتین کے اسے بوڑھا ہونے کا احساس دلانے اور ہلکے رنگ پہننے کی تنبیہہ پر اس نے الماری میں پیک کر لے رکھ چھوڑا تھا.  لیکن آج اسے احساس ہوا کہ انسان جیسی صحبت میں بیٹھتا ہے رفتہ رفتہ ویسا ہی سوچنے اور کرنے لگتا ہے.  سوچ کا اثر ہی عمل میں چھلکنے لگتا ہے . پینتالیس برس کی عمر میں ستر برس کی اکثر بیوہ اور آدم بیزار بڑھیاؤں کیساتھ  بیٹھنے کا ہی نتیجہ تھا کہ وہ جوانی میں ہی بوڑھی اور سہاگن ہوتے ہوئے بیواؤں سے حلیئے میں رہنے لگی تھی .
 بڑے اہتمام سے اس نے جوڑا استری کیا.  نہا دھو کر بال سنوارے . تو آئینے نے بھی اس کی نظر اتاری.
اس نے سوچا سلطان احمد کو راہ راست پر رکھنے کے لیئے کسی کی چار باتیں بھی سننا پڑیں تو سن لونگی.
اس نے سنگھار میز کے آئینے میں اپنا تنقیدی جائزہ لیا . میرون سرخی اور آنکھوں کے کاجل نے اسے دس برس پیچھے دوڑا دیا تھا.  
سلطان احمد کی ستائشی نظریں ہی اس کی أس تیاری کا انعام تھیں .
یہ ہی سوچ کر وہ اپنے کمرے سے باہر صحن میں آئی تو
کہاں ہو بھئی...
 سلطان احمد کی پکار سن کر
اس نے مڑ کر اپنے شوہر کو دیکھا جو خضاب 
کی کٹوری ہاتھ میں لیئے کھڑا تھا  اور ٹوٹھ برش سے اپنے سر کے بال رنگ رہا تھا .شوہر نے اسے دیکھا
تو اس کی میرون سرخی اور کاجل کی دھار دیکھ کر زور سے ہنسا
 اور نخوت اور طنز کے ملے جلے لہجے میں کاٹ دار انداز میں بولا
 " ہوں بوڑھی گھوڑھی لال لگام"
یہ سنتے ہی غم ،صدمے اور شرمندگی سے اس نےاس کے سامنے رکھا  شیشہ میاں کے منہ پر دے مارا اور خضاب کے کٹوری اس کے ہاتھ سے چھین کر سارا خضاب اسکے منہ پہ مل دیا اور خوب دیوانہ وار بولتی اسے مارتی چلی گئی ....میں بوڑھی گھوڑی جو تیرے سے پورے دس   سال چھوٹی اور تو چھنہ کاکا....بے غیرت
ممتازملک. پیرس

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/