ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک
کالمز ۔ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
کالمز ۔ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

بدھ، 22 مارچ، 2023

پاکستانی بے قابو شادیاں۔ کالم




     پاکستانی بے قابو شادیاں
     تحریر:
      (ممتازملک ۔پیرس)

پاکستان میں اپنی اولاد کی شادی کسی بھی انسان کے لیئے خوشی سے زیادہ پریشانی اور ڈپریشن کا موقع بن چکا ہے ۔ منہ مانگی رسمیں اور پھر ان رسموں کا بوجھ اکثر لڑکی والوں کے سر منڈھ دیا جاتا ہے، پھر پانی کی طرح ان رسموں کو پورا کرنے کے لیئے  پیسہ بہایا جاتا ہے ۔ لڑکے والوں کی اکثریت مصنوعی زیورات پر سونے کا پانی چڑھا کر اور مانگے تانگے کے ایسے ملبوسات کا بکسہ اٹھائے لڑکی کے سر سوار ہو جاتے ہیں جو کھلنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ اس میں سے کون سا کپڑا پہننے لائق ہے ۔ کونسا لڑکے کی باجی نے اپنا مسترد کردہ یا استعمال شدہ جوڑا بھائی پر قربان کیا ہے، اور کونسا لڑکے کی امی جی کی اپنی شادی کے وقت کا تیس سال پرانا نمونہ لڑکی کو جبرا پہنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اور لڑکا بھی بڑی بے شرمی کے ساتھ یہ سارا بری ڈرامہ اسی طرح دیکھ رہا ہوتا ہے جیسے بلی کو دیکھ کر کبوتر آنکھیں بند کیئے پڑا ہوتا ہے۔ یہ بھول کر کہ یہ سوغاتیں جب وہ لڑکی (جو اسکی دلہن بنکر آ رہی ہے ) جب دیکھے گی تو ساری عمر اس کی مٹی پلید کرتی رہے گی ۔ گویا وہ سیج تک پہنچنے کا خواب پورا کرنے کے لیئے اندھادھند اپنی ماں بہنوں کی تقلید میں دنبے کی طرح سر جھکائے ہاں جی، ہاں جی، کی جگالی میں مصروف رہتا ہے ۔ یہاں تک کہ آنکھ کھلنے کے بعد شروع ہوتی ہے اسکی تاحیات "بزتی". تب مائیں بہنیں پھر اپنے مٹھو کو پٹی بازی کی چوری کھلاتی ہیں کہ ہائے ہائے ہمارے بھائی کے تو نصیب ہی جل گئے جو ایسی منہ زور بدتمیز لڑکی بیاہ لائے ۔ اس وقت ان زبان دراز عورتوں کو یہ ہر گز یاد نہیں رہیگا کہ اس لڑکی کے ارمانوں بھرے دن پر جو آپ نے اپنی جوٹھن ، دھوکے اور کمینگی کی جھاڑو پھیری ہے اسے تو اب ساری عمر برداشت کرنا ہی پڑیگا آپکو بھی اور آپکے بھائی اور بیٹے کو بھی ۔ اس کے بعد شروع ہو گا  لڑکی کی جانب سے ملے تحائف میں کیڑے نکالنے کا سلسلہ۔ یوں جیسے انہوں نے تحفے نہیں دیئے بلکہ انکے آگے پیسے لیکر کوئی سودا بیچا ہے جو ناقص نکل آیا ہو۔ اس کے باوجود کہ اعلان کر دیا گیا کہ  لڑکی کے گھر والوں کو دینے دلانے کی کوئی تمیز نہیں ۔ انکا انتخاب بھی بیحد گھٹیا ہے لیکن بے شرمی ہے کہ ہر چوتھے دن کوئی نئی رسم گھڑ کر اس کے نام پر فقیروں کی طرح نئے تحائف کا فرمائشی پروگرام جاری کر دیا جاتا ہے ۔ بیٹی دیکر پاکستان میں لوگ گویا اپنی جان ان سسرالیوں کے ہاتھوں سولی پر چڑھا لیتے ہیں ۔ آئے روز انکی کسی نہ کسی بہانے اب دعوتیں ہوتی رہنی چاہیئیں ۔ جن میں ہر بار کوئی نہ کوئی نئی فسادی شرلی چھوڑی جاتی رہے گی ۔  
ان تمام مسائل کا حل نکالنے کے لیئے ہماری حکومتوں کو مستقل بنیادوں پر قانون سازی کی ضرورت ہے ۔ جسے کسی بھی حکومت کے آنے یا جانے سے کوئی فرق نہ پڑے اور اس میں کسی تبدیلی کو اس وقت تک منظور نہ کیا جائے جب تک اس پر کوئی حقیقی قومی سروے نہ کروا لیا جائے ۔ اس پر عوامی بحث مباحثے نہ کروا لیئے جائیں ۔ خدا کے لیئے شادیوں کو کسی قانون کے تحت لایا جائے جس نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ گھروں میں بیٹھی لڑکیاں لڑکے یا تو بوڑھے ہو رہے ہیں یا پھر بے راہ روی کا شکار ہو رہے ہیں ۔ اور تو اور شادی کے یادگار دن کو بے قابو طوفان مہنگائی و بے حیائی کا موقع بنا دیا گیا ہے ۔ لوگ قرض لے لیکر اس موقع پر اپنی ناک اونچی رکھنے کا اہتمام کرتے ہیں ۔ دیکھا جائے تو خود لڑکیوں نے لمبے لمبے فرمائشی پروگرام بنا بنا کر، لمبے لمبے خرچوں کی فرمائشوں سے اپنے ہی والدین کے ناک میں دم کر رکھا ہے ۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ والدین یہ کب اور کہاں سے لائیں گے انہیں تو ڈراموں اور فلموں کی تھیمز پر اپنی شادی کو بھی پوری فلم ہی بنانا ہے ۔کوئی انہیں بتائے کہ فلمی اور ڈرامے کی شادیوں کے مناظر پر خرچ کیا ہوا پیسہ انہیں ہزاروں گنا کما کر واپس ملتا ہے جبکہ عام شادی پر والدین کا خرچ کیا ہوا پیسہ انہیں کئی سال کے لیئے مقروض اور فقیر کر جاتا ہے ۔اپنے والدین پر رحم کھائیں ۔ اور لوگوں کو اپنی جعلی امارت کے رعب میں ذہنی مریض بننے اور جرائم کی راہ اختیار کرنے پر مجبور مت کریں ۔ شادیوں کے اخراجات کو ایک حد میں لانے کے لیئے ہم حکومت پاکستان کو چند تجاویز پیش کرتے ہیں جس کے لاگو ہونے سے لوگوں کی زندگی کو کافی ریلیف ملنے کا امکان پیدا ہو سکتا ہے ۔ 
1.شادی کو  ٹوٹل سو سے ڈیڑھ سو لوگوں کے اجتماع تک محدود کر دیا جائے ۔ 
2. مخلوط محافل کو بین کیا جائے۔ 
3.شادی میں دس سال سے چھوٹے بچے لانے پر پابندی لگائی جائے۔ (جو تمام پروگرام اور انتظامات کا ستیاناس مار دیتے ہیں۔)
4.ون ڈش کی پابندی کروائی جائے۔ 
5. جہیز میں لڑکی کو اسکے لیئے سات جوڑے ،صرف اسکا  بیڈ روم فرنیچر اور کچھ کچن اور لانڈری کا لازمی سامان دیا جائے ۔ 
6.بری میں سات نئے اور بھاری جوڑے کپڑے لڑکی کے ، حسب توفیق ایک آدھ سونے کا سیٹ
7.ذیادہ سے ذیادہ دس ہزار روپے تک کا شادی اور ولیمے کا جوڑا دلہن اور دولہے دونوں کا۔۔
8. آپ کتنی بھی مالی حیثیت رکھیں لڑکے والے  بارات میں اور لڑکی والے ولیمے میں ذیادہ سے ذیادہ صرف 50 افراد ہی لا سکتے ہیں ۔
9. شادی میں کرائے کے عروسی ملبوسات کو رواج دیا جائے۔ 
10.دولہے کی ماں بہنوں کو سونے کے زیورات تحفے میں دینے پر پابندی لگائی جائے۔ 
11.نکاح مسجد میں کرنے کا رواج عام کریں۔ اور نکاح میں صرف دولہا دلہن انکے والدین سگے بہن بھائی اور دو گواہوں کے سوا کسی کو شامل ہونے کی اجازت نہ ہو۔  رخصتی کے روز باقی سبھی مہمانوں کے سامنے  اس نکاح کی ویڈیؤ چلائی جا سکتی ہے ۔ 
12. شادی کے بعد کسی قسم کے تحائف کے لین دین جیسی تمام رسومات کو بین کیا جائے ۔ جسکے مواقع لڑکے والے آئے دن پیدا کرتے اور لڑکی والوں کی زندگی اجیرن بناتے رہتے ہیں ۔ 
جیسے کے مکلاوہ ، عیدیاں ، گود بھرائیاں ، بچے کی پیدائش وغیرہ وغیرہ ۔ ہم امید کرتے ہیں کہ کوئی بھی بااختیار ان تجاویز کو غور کرنے اور لاگو کرنے میں اپنی ذمہ داری ادا کر کے بیشمار لوگوں کی دعائیں لینے کا وسیلہ ضرور بنے گا ۔     
                  °°°°°

پیر، 18 فروری، 2019

خود ترسی ایک مرض ۔ کالم



    خودترسی
              ایک مرض        
                   (تحریر/ممتازملک ۔پیرس)                     


ایک شدید ذہنی مرض جس میں مبتلا  انسان خود کو دنیا کا سب سے زیادہ مجبور اور قابل ترس انسان سمجھتا ہے ۔ یہ مرض  مرد و زن دونوں ہی میں پایا جاتا یے ۔ اس مریض کا مالی طور پر کوئی طبقہ نہیں ہوتا ۔ یہ کروڑ پتی ہو یا بھکاری ۔ دونوں ہی صورتوں میں اس کے منہ پر بارہ ہی بجے رہتے ہیں ۔ 
خوشی کے مواقع پر بھی اسے اپنے رونے پیٹنے ، مرے ماروں ، اور غم و اندوہ کے واقعات سنانے کا موقع ڈھونڈنا خوب آتا ہے ۔ نہ یہ خوش ہوتا ہے نہ کسی کو ہوتا دیکھ سکتا ہے ۔
وقت کے ساتھ ساتھ اس کے چہرے پر غم کی لکیریں اتنی واضح چھپ جاتی ہیں ۔ کہ ان کا چہرہ دیکھتے ہی سامنے  والا انا للہ پڑھنے کا ذہن بنا لیتا ہے ۔ 
ان میں مختلف ذہن  اور سوچ کے کوگ شامل ہوتے ہیں ۔ جیسے کہ اکثر شادی شدہ لوگ غیر شادی شدہ کوگوں کو دیکھ کر خود ہر ترس کھاتے پائے جاتے ہیں کہ ہک ہائے کیا آزاد زندگی جی رہے ہیں یہ اور ہم کس عذاب میں پڑ چکے ہیں ۔ جبکہ وہ کنوارے یہ۔سوچ کر خود ترسی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ واہ بھئی کیا ٹھاٹھ اور لاڈ ہیں ان کے ۔ جو چاہیں منوا لیتے ہیں دوسروں سے ۔۔مالک یہ سوچ کر خود پر ترس کھاتا ہے کہ ملازم ہونا کتنا اچھا ہے۔۔ کیا کرنا ہے کیا لانا ہے ،کیسے پورا کرنا ہے ہر ٹینشن سے آزاد مہینے بھر مقررہ گھنٹے کام کیا، بندھی ہوئی تنخواہ اٹھائی اور مزے کیئے ۔ جبکہ اسی مرض میں مبتلا ملازم سوچتا ہے کہ یہ بھی کوئی زندگی ہے بھلا، مالک کو دیکھو کتنا مال بناتا ہے ، کتنے لوگوں پر حکم چلاتا ہے ، کتنا خودمختار ہے ،کوئی کام نہیں کرتا ،سب ملازمین سے کرواتا ہے ۔ ۔۔
ایسے خود ترسوں کو سوئی چھبھ جانا کسی اور کو گولی لگ جانے سے بھی زیادہ تکلیف دہ اور بڑا سانحہ ہوتا ہے (اسکی نظر میں )۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں کہ سننے والا اپنی اصل پریشانی کو بھی معمول خیال کرنے لگتا ہے ۔ لیکن ان کا یہ ڈرامہ ان کے ملنے والوں اور جاننے والوں کوجلد ہی ان سے متنفر اور بیزار کرنے کا ہی باعث بنتا ہے ۔ اور ایک روز یہ اپنے جھوٹے اور خودساختہ قصوں اور  اپنی خود ترسی کیساتھ اکیلے ہی  رہ جاتے ہیں ۔غور کیا جائے تو خود ترسی بھی ناشکری کی ہی ایک  شکل ہے ۔ یعنی اپنے حال سے دونوں ہی ناخوش رہتے ہیں خود ترس بھی اور ناشکرے بھی ۔
ایسے  لوگوں میں ہی سب سے زیادہ شرح ڈپریشن یا مایوسی کا شکار ہونے والوں کی ہوتی ہے ۔ یہ عادت اگر وقت پر قابو نہ کی جا سکے تو خدانخواستہ جان لیوا بھی ہو سکتی ہے ۔ 
 ایسے لوگوں کو چاہیئے کہ کوئی ان کی اس عادت کی نشاندہی کروائے تو ناراض ہونے کے بجائے اپنی اس عادت پر غور کرے اور اپنے گھر باہر کسی اچھے دوست کو کہیں کہ وہ آپ کو اس کیفیت میں مبتلا ہوتے ہی کسی اشارے  سے روکے ۔  اس کے علاوہ  ان کے لیئے بہت ضروری ہے کہ اپنی ذات کے قید خانے سے بار نکل کر اللہ کی مخلوق پر نظر ڈالیں ۔ ان کی سنیں ۔ ان کے حالات میں ان چیزوں اور باتوں پر نظر دوڑائیں ۔ جو ان کے پاس نہیں ہیں لیکن اللہ پاک نے آپ کو عطا کر رکھی ہیں ۔ چاہے وہ علم ہو ،رتبہ ہو، ، صحت ہو، گھر بار ہو، رشتے ناطے ہوں ، وقت ہو، رزق ہو، یا فرصت ہو۔۔جب دوسرے کی کمی سے اپنی عطاء کا موازنہ کرنے کی عادت ہو جائے گی ۔ تو شکر گزاری آپ کے مزاج کا ایک خوبصورت حصہ بن جائے گی۔ جس کی روشنی آپ کی روح کو ہی نہیں چہرے کو بھی روشن ،حسین اور مطئن  بنا دیگی ۔ 
                       ۔۔۔۔۔


  

جمعرات، 15 نومبر، 2018

سنت کے نام پر منکرین فرائض .....۔ کالم




سنت کے نام پر منکرین 
ممتازملک. پیرس

ہمارے ہاں مذہب کا چورن بیچنے والے اکثر ہی نیم حکیم کا کردار ادا کرتے ہیں ۔ جس کے ہاتھ جو اپنے مطلب کی دو چیزیں لگیں اس کا اسلام وہیں آکر مکمل ہو گیا ۔ جیسا کی ہمارا ایک طبقہ جسے آ جا کر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہ کرام کی شادیوں میں ہی سارا اسلام پنہاں نظر آتا ہے ۔نہ اس زمانے کے حالات دکھائی دیتے ہیں اور نہ ہی اس وقت کی مسلم آبادی کی تعداد و وسائل نظر آتے ہیں ۔ان سے کوئی تو پوچھے کہ جناب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے شادیوں کے علاوہ بھی بڑے شاندار کام کیئے تھے ....
سچ بولے، انصاف کیا ،پورا تولا، پیٹ پر پتھر باندھے ، حرام سے بچے ، زنا سے بچے ، یتیموں کی سرپرستی کی . بڑوں کی عزت کی،  چھوٹوں پر شفقت کی ، گالی گلوچ سے بچے ، عورتوں بچوں پر ہاتھ نہیں اٹھایا ،معاف کیا وغیرہ وغیرہ وغیرہ 
یہ ساری سنتیں اور اعمال تو ہم نے کسی کو اپناتے نہیں دیکھا . لیکن زمانہ جنگ اور مسلمانوں کی قلیل تعداد کی وجہ سے (جن میں خواتین کی تعداد بھی زیادہ تھی ) انہیں ایک سے زیادہ نکاح کی اجازت دی گئی تو واللہ
آج کے ٹھرکی نام نہاد مسلمانوں نے اپنی عیاشی کے لیئے اسے فرض العین بنا لیا . 
حالانکہ سوچنے اور سمجھنے کی ایک عام فہم بات ہے کہ جہاں کوئی آدمی اپنی ایک بیوی کی ضروریات و خواہشات پوری نہیں کر سکتا اس کے بچوں کو زندگی کا سکھ فراہم نہیں کر سکتا وہ کس منہ سے دوسری عورت اور پھر اس کے بچوں کا بوجھ اٹھائے گا. اس کا تو صاف مطلب یہ ہے کہ پہلے ایک عورت کی زندگی برباد کرنے والے کو دوسری عورت کی زندگی تباہ کرنے کا بھی لائسنس ٹو ڈیمولش یا اجازت نامہ تباہی تھما دیا جائے . ہمارے  ہاں اس بات پر قانون سازی کو بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے اور اسکا عملی نفاذ بھی ہونا چاہیئے.  . 
نبیوں ک نشادیاں  اپنی امتوں کے لیئے عملی مثالیں ہوا کرتی ہیں کہ وہ کن کن خواتین سے بیاہ رچا سکتے ہیں . تاکہ امتوں میں اسکے بارے میں کوئی ابہام نہ رہے .
نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ سے زیادہ حسین اور باکردار جوان بھی اس کائنات نے کہاں دیکھا ہو گا ؟ 
نہ ان سے پہلے نہ ہی ان کے بعد . نہ ہی قیامت تک یہ زمان و مکان کبھی دیکھ سکتے ہیں . لیکن اس اس پاک ترین جوان نے اپنے لیئے جس خاتون کو بطور اپنی شریک زندگی چنا وہ تھیں بی بی خدیجہ رضی اللہہ تعالیٰ عنہا, جو کہ نا صرف آپ سے عمر میں  پندرہ برس بڑی تھیں بلکہ بیوہ بھی تھیں . لیکن ان کے اعلیٰ  کردار کو دیکھتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انکے رشتے کے پیغام کو قبول فرمایا . انہیں سے آپ کی حیات اولاد پیدا ہوئی . ان کی زندگی میں کسی دوسری خاتون کو اپنے نکاح میں نہ لائے .
آپ کی تمام ازدواج میں سوائے اماں عائشہ رضی اللہ تعالٰیٰ عنہا کے  کوئی بیوی نہ تو کم عمر تھی اور نہ ہی کنواری.. 
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی کم عمری کی وجہ کو  بھی اللہ پاک نے حکمت سے بھرپور رکھا. اس زمانے میں جب ابھی تعلیم لڑکیوں کے لئے عام نہ تھی اس زمانے میں ایک ایسی جوان , ذہین, پڑھی لکھی جراتمند خاتون کا آپ کے اتنے قریبی رشتے میں منسلک ہونا  انتہائی ضروری تھا(جس کا خاندان بھی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثاروں کی پہلی صف میں کھڑا تھا)  تا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد آپ کی کوئی ایسی زوجہ موجود ہوں جو آپ کی جانب سے احوال زندگی اور تربیت امت کے لیئے باوثوق حیثیت کی حامل ہوں ۔ اور انکی  کسی بات کو کم علم یابزرگ ہونے کی وجہ سے حافظے کی کمزوری قرار دیکر نظرانداز نہ کیا جاسکے.  سو آپ کے اس تعلق سے مسلمانوں کو آپ کی خانگی زندگی اورآپ کے اپنی بیویوں کیساتھ تعلقات اور رویئے کو بھرپور انداز میں سیکھنے  کا موقع ملتا ہے. کیونکہ واحد آپ ہی کی ہستی تھی جس نے بہت سے حوادث ومعاملات میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنتوں کی گواہی پیش کی.
اللہ تعالی کے احکامات کی بجاآوری ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا نصب العین رہا ہے۔آپ کی ہر بات ایک مسلمان کے لیئے قابل تقلید ہے . 
 لیکن اسے اللہ کے حکم پر فوقیت دیکر سنت کے بجائے  فرض قرار دے دینا انتہائی گمراہ کن مُلاّئی پروپیگنڈہ ہےاور اللہ کا یہ واضح حکم یاد رکھیں جہاں اللہ کا حکم آئے وہاں صحابہ ہی کیا سبھی پیغمبران کی سنتیں ساقط ہو جاتی ہیں .
جب اللہ نے فرما دیا کہ 
"میں جانتا ہوں کہ تم انصاف نہیں کر سکو گے اس لیئے تمہارے لیئے ایک ہی بیوی بہتر  ہے ۔"
تو پھر اس میں کسی بھی انسان کی کیا مجال کہ وہ اللہ کے حکم پر تبصرہ کرے ...استغفار ررر
 ہمارا بحیثیت مسلمان سب سے کمزور پہلو یہ ہی ہے کہ ہمیں ہمارے مطلب اور مفاد کے بنا کبھی فرائض  نہ دکھائی دیتے ہیں نہ سنائی دیتے ہیں. وہاں " اللہ بڑا غفور الرحیم ہے " کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہی. 
لیکن " اللہ بڑا جبار اور قہار  ہے" یہ سمجھ نہیں آتا بلکہ سنت کے نام پر پہلے بیوی بچے بھوکے مر رہے ہوں پیار اور تحفظ کو ترس  رہے ہوں وہ دکھائی نہیں دیگا لیکن 
جیسے ہی کوئی نئی جوان خاتون  نظر آئی ہمارے بابے  سنت کی آڑ لیکر بیٹی کیا پوتی کی  عمر کی لڑکی بھی گھیرنے چل پڑیں گے . 
کیا ہمارے نبی پاک  صلی علیہ وآلہ وسلم پر ایسے لوگ اپنی کسی بھی  بیوی کی حق تلفی اور نا انصافی کا الزام لگانا چاہتے ہیں؟؟؟  نعوذ بااللہ 
اللہ ایسے لوگوں کو ہدایت عطا فرمائے.
آمین
             ۔۔۔۔۔۔                          

اتوار، 14 اکتوبر، 2012

● (11) 23 مارچ کو میری آزادی کا فیصلہ/ کالم ۔ سچ تو یہ ہے


(11)
23 مارچ کو میری آزادی کا فیصلہ
      تحریر:ممتاز ملک ۔ پیرس 





آج کی شام بھی بڑی زبردست رہی 23مارچ کی چھٹی منائی گئی ۔کچھ لوگ پکنک پر گئے ۔کچھ لوگ سیمینارز میں 23 مارچ 1940ء کو پاکستان کی قرارداد منظور ہوئی کا سالانہ سبق پڑھنے گئے اور کچھ اسے سن کے جمائیاں لینے ۔آخر میں خوب پیٹ پوجا بھی ہوئی ۔گویا کوئی        کمی کہیں نہیں چھوڑی گئی دن کو پرلطف دن بنانے میں۔ لیکن آج کی ایک خاموش چیخ بھی کئی لوگوں نے سنی ہو گی ۔ایک اور چانٹا بھی کئی بے ضمیر چہروں پر اپنا ایک بے نشان نقش چھوڑ گیا ۔کئی دنوں سے بلکہ کئی سالوں سے پاکستان کی عورتیں جس ظلم اور بربریت کا شکار ہیں ۔ بچے جن مظالم کی چکی میں پِس رہے ہیں ان کی جانب سے کوئی آج دنیا چھوڑتے ہوۓ بڑی دردناکنظروں سے پاکستان کے بے ضمیر اور عیاش سٹیبلشمنٹ کو دھتکارتے ہوۓ رخصت ہوگیا۔فاخرہ یونس ایک تمانچہ بنکر دنیا سے رخصت ہو گئی ۔اور اپنا مقدّمہ اللہ کے حضور پیش کر رہی ہوگی۔ کیا کہے گی وہ رب سے کہ پروردگار جو زندگی تو نے مجھے عطاکی تھی وہ کچھ شکاریوں کی بھینٹ چڑھا کر آرہی ہوں ۔ جو حسن تو نے مجھے عطا کیا تھا ۔ وہ ایک عیاش زادے کی منشأء پر میلیامیٹ کروا کر آرہی ہوں ۔ 12 سال کا لمبا وقت میں اس انتظار میں گزار کر آ رہی ہوں کہ کوئی تو ہو گا جو اپنے ضمیر کے ہاتھوں مجبور ہو کر مجھے انصاف دلواۓ گا ۔ کسی کو تو میرے زخم دکھائ دیں گے ۔ مگر نہیں ربّا یہاں تو کسی کو کوئی فرق ہی نہیں پڑتا۔ یہاں کوئی کسی کے لیئے نہیں روتا ۔ہر کوئی اپنے لیئے چوٹ لگنے کا منتظر ہے۔ کیا 23 مارچ کو میرا پاکستان بننے کا فیصلہ نہیں ہوا تھا؟ صرف غیرت مند مردوں کا پاکستان بنا تھا ۔ان کی ماں بہنوں اور بیٹیوں کو غیرت مندی کا ، آذادی کا سرٹیفیکیٹ نہیں ملا تھا۔ اور کتنے 23 مارچ عورتوں کی لاشوں پرمناؤ گے۔ ہم عورتوں کو یہ سرٹیفیکیٹ دینے کے لیئے ۔ یا پھر ہم عورتوں کو اپنی لیئے کوئی الگ پاکستان بنانے کی تحریک شروع کرنی ہوگی؟ جہاں ہماری عزت ، ہماری جان اور ہمارے وقار کو کوئی آتا جاتا لات مار کر سلامت نہ نکل سکے ۔جہاں ہمیں تیزاب کی بوتلیں اٹھائے ہوئے اپنے ہی رشتے غنڈوں کی صورت گھیرتے ہوئے نہ نظر آئیں ۔جہاں پر بے غیرتی کو غیرت کا نام نہ دیا جاۓ ۔ جہاں پر زبردستی لڑکیوں کے سر نکاح خواں کے سامنے ہلوا کر اپنے ہی باپ اور بھائی اپنی ہی آبرو کو بدکاری کے لیئے نہ بھیج دیتے ہوں ۔کہ جہاں ہمیں معلوم ہو کہ صبح طلاق طلاق کا کھیل کھیلنے والے شام کو اِنہیں کے ساتھ منہ کالا کرتے ہوئے اور حرام کی اولاد گود میں لیئے ان سے حلالی ثابت ہونے کی توقعات وابستہ نہیں کرنا ہیں ۔ بیٹوں کو بہنوں کی جاسوسیوں پر لگانے والے بھائیوں سے ان کے سروں پر دوپٹے اوڑھانے کی توقع نہیں کرنی ہیں ۔ بلکہ پہلے انہیں اللہ کی بنائی ہوئی حدود کے اندر اپنے ساتھی کو چننے کا اختیار دینا ہو گا اور جب تک وہ اپنی رضا مندی سے اقرار نہ کر لے اسے کسی کے ساتھ بھی رخصت نہیں کرنا ہے ۔اور یہ جاننا ہے کہ یہ حرام ہے۔ اس کے رخصت ہونے کے بعد اس کے جنازے کا انتظار نہیں کرنا ہے کہ بس کفن میں واپس آنا نہیں کہ یہ بذدلی ہے ۔ اسے تربیت اتنی محبّت سے دی جائے کہ وہ آگے جاکر محبت بانٹ بھی سکے ۔اور لے بھی سکے کہ یہ آپ کی تربیت کا امتحان ہے اور جو کسی بد نصیب بیٹی کا واسطہ خدانخوستہ درندوں سے پڑ جاۓ تو اس کو اپنی حفاظت کرنا بھی سکھائیں اور یقین دلائیں کہ بیٹی تیرے باپ اور بھائی  تیری حفاظت کرنے والوں میں نظر آئیں گے ناکہ تجھےشرمسار کرنے والوں میں ۔ اپنے گھر کا کوڑا صاف کرنا ہے ناکہ کارپٹ کے نیچے کرنے کے بعد ہاتھ جھاڑنے ہیں ۔کہ کوڑا بو دینا شروع کر دے اور ہمیں اس بو کے ساتھ رہنے کی عادت ہونے کی وجہ سے وہ بو بھی محسوس نہیں ہوتی۔ کیا کہوں مجھے پہلے میرے سوال کا جواب تو دیں کیا آج میرا ایک عورت کا بھی 23 مارچ ہے ؟ اگر ہے تو کہاں ہیں ہمارے قاتل ہمارے مجرم ۔ پھاڑ دو یہ سارے کالے صفحات جن کی تیار کروانے کے لیئے لوگوں کی
جوانیا ں گلا دی جاتی ہیں اور بھر بھی یہاں سے فاخرہ یونس خالی ہاتھ منتظر آنکھوں کے ساتھ اٹلی میں چھٹی منزل سے چھلانگ لگا کر خود کو خدا کے دربار میں پیش کر دیتی ہے۔ 12 منٹ خدا سے محبّت کی ہوتی تو خدا اس کا ہو جاتا مگر پاکستان کے قانون پر اعتبار کیا جو 12 سال میں بھی اس کا نہ ہو سکا۔
انااللہِ واناالیہِ راجعون۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوۓ ہیں دستانے
●●●
تحریر:ممّتازملک
مجموعہ مضامین: سچ تو یہ ہے
اشاعت: 2016ء
●●●

پُل صراط۔ کالم

پُل صراط
(ممّتازملک۔پیرس)
گزشتہ دنوں پاکستان کے لیۓ شرمین عُبید چناۓ کو آسکر ملنے کے بعد رنگ رنگ کی آراء پڑھنے اور سننے کا موقع ملا ۔خاص طور پر مردوں کے کئ نازیبا کمنٹس بھی پڑنے کا موقع ملا ۔جس کا بہت سے لوگوں کو دلی صدمہ بھی پہنچا۔ہمارے ہاں اول تو کوئ خوشی آتی نہیں ہے اور اگر قسمت کوئ موقع دیتی ہے تو اسے ہم اپنی چھوٹی سوچ کی سولی پر چڑھا دیتے ہیں ۔کئ ایک نے تو آسکر ایوارڈیافتہ شرمین عبید کے لباس تک پر فتوی دے ڈالا۔جب کہ انہیں فتوی دینے والوں نے شایداپنے گھر سے نکلنے والی کسی خاتون کو کبھی غور سے بھی دیکھا ہو گا کہ وہ کیا پہن کر گھر سے نکل رہی ہیں ۔؟وہ لباس کتنا عریاں ہے ؟اِور کتنا مہذب ہے۔ ؟مگر نہیں وہ اتنا ضروری نہیں ہے۔
شادی بیاہ کے مواقع پر کیا خواتین کے لباس پر کوئ نوٹس کیا گیا ہے کبھی؟
دوسری طرف کوئ افسوس نہ کوئ شرمندگی کہ عورت مثلِ بیل جوتی جاۓ یاٹشو پیپر بنا کر کوڑادان میں پھینک دی جاۓ۔عملی طور پر عورتوں اور بچوں کے حقوق کوئ ادا کرے نہ کرے۔ہاں ان کے گھر کی کوئ بات گھر سے باہر نہیں جانی چاہیۓ۔اپنی خود ساختہ غیرت مندی کا ڈھول پیٹ لینا ہی کیا اِس سارے معاملے کا حل ہے؟
کہاں ہوتے ہیں پاکستانی مرد جو خود اپنی ماؤں بہنوں کو غیظ گالیاں دیتے ہیں ۔ان کے بالوں سے پکڑ کر انہیں چوراہوں میں گھسیٹتے ہیں۔ قران پر شادیوںِ کے ڈرامے ہوتے ہوۓ دیکھتے ہیں۔ تیزاب کی بوتلیں جیب میں لیۓ گھومتے ہیں اگر گھر پر ہی مرہم مل جاتا تو یہ ہی زخم غیروں کو دکھانے کی ضرورت ہی کیوں پڑتی۔ افسوس صد افسوس ایسے نام نہاد غیرت مندوں کی غیرت مندانہ چیخیں نکلی بھی تواس بات پر نہیں کہ زخم ہمارا ہے تو مرہم بھی ہم رکھیں گے بلکہ اس بات پرکہ ہم جو مرضی کریں زخم کسی ڈاکٹر کو دکھایا کیوں ؟؟؟؟واہ کیا بات ہے؟
بڑے آرام سے کہہ دیا جاتا ہے کہ کیا امریکہ اور یورپ میں یہ سارا کچھ نہیں ہوتا۔وہاں عورتوں کو مارا پیٹا نہیں جاتا کیا ؟ہمارے ہاں ہی یہ واویلہ کیوں کیا جاتا ہے؟
تو آپ یہ بھی بتا دیجیے نا کہ جن ملکو ں کی آپ مثال دے رہے ہیں وھاں مرد کو کتنی بدمعاشی کی اجازت ہے؟کتنی عورتوں کو تیزاب پھینک کر چہرہ چھپانے پر مجبور کیا جاتا ہے؟کتنی عورتوں پر چولہے پھٹتے ہیں ؟ 64 سال گزار کر بھی آپ اپنے گندے کپڑے اپنے گھر میں کیوں نہیں دھو سکے؟کس عالمی طاقت اور خفیہ ہاتھ نے آپ کو روکے رکھا ہے؟میں 14 سال سے یورپ میں رہتی ہوں ۔آج تک کسی کو مجھے دیکھ کر کوئ الٹی بات کرنے کی ہمت نہیں ہوئ۔کسی نے آج تک ہمیں مڑ کر ٹیڑھی نظر سے نہیں دیکھا ۔حالانکہ یہ غیر مسلم ہیں مگر ہمارے قران کے ہر اصول کو اپنا کر چلتے ہیں جب کہ پاکستان ایک مسلم ریاست ہو کر بچوں اور خواتین کے لیۓ درددستان بن چکا ہے۔افسوس صد افسوس جب تک ہم اپنی غلطیوں پر سینہ چوڑا کر کے اِتراتے رہیں گے یہ مسائل ناسور بن کر رستے رہیں گے۔تنقید براۓ تنقید کے کلچر کو اب دفن کر دیجیۓ اور مسائل کے حل کے لیۓ کمر کس لیجیۓ۔ اسی میں ہم سب کی بقا بھی ہے اور عزت بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ جیسے پڑھے لکھے اور سمجھدار لوگوں سے ہم خواتین بجاطور پر یہ امید رکھ سکتی ہیں کہ آپ لوگ جہاں بیٹھیں اپنی کمیونٹی کے ان ظالم مردوِں کی اصلاح کرنے کی کوشش کریں جو عورت کو اور بچوں کو جانور سمجھ کر غیر انسانی سلوک کرتے ہیں ۔اور ملک وقوم کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں ۔عورتیں بھی یقینا ساری معصوم نہیں ہوتی ہیں ۔لیکن قران کی روشنی میں ہم سب کو معلوم ہونا چاہیۓ کہ جب میاں بیوی ایک دوسرے کے ساتھ خوشی سے ایک ساتھ زندگی نہ گزار سکیں تو احسن طریقے سے ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں اسی لیۓ اللہ پاک نے طلاق کو ناپسندیدہ کہتے ہوۓ بھی حلال کیا ہے ۔تاکہ ہم ایک دوسرے کو نقصان نہ پہنچائیں ۔باقی اللہ ہم پر رحم فرماۓ۔ آمین
آپ نے ٹھیک کہا بھائ اللہ تعالی سے ہماری پہلی دعا اور انسان کی پہلی کوشش یہ ہی ہونی چاہیۓ کہ وہ ہمارے گھروں کو آباد رکھے کیوں کہ میاں بیوی کا جوڑا ہی وہ واحد جوڑا ہے جو جتنا پرانا ہو اتنا ہی حسین بھی ہوتا ہے اور قیمتی بھی ۔لیکن اگر خرابیٔ قسمت کہ اس ساتھ میں ایسے مرحلے آجائیں کہ دونوں ایک دوسرے کی جان کے دشمن بن جائیں تو اللہ نے اسی لۓ اس رشتے میں اس کھڑکی کو کھلا رکھا ہے کہ کہیں ہم اپنے ساتھی کا یا اپنا دم ہی نہ گھونٹ لیں لہذااسے ایک آکسیجن ماسک کے طور پر ہماری ذندگی میں رہنے دیا گیا ہے ۔اور ویسے بھی کوئ عورت چاہے کیسی بھی کیوں نہ ہو جب طلاق کے فیصلے تک پہنچتی ہے تو آپ کیا جانیں کہ وہ کتنے پل صراط پار کرتی ہے ؟بلکہ وہ جانتی ہے کہ ساری ہی زندگی اس کے لیۓ اس فیصلے کے بعد پل صراط بنا دی جاتی ہے۔ کیا ایسا نہیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/