ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک
کالمز۔ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
کالمز۔ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

منگل، 2 جنوری، 2024

بھارتی فلموں کے نان سینس اسباق۔کالم


بھارتی فلموں کے نان سینس اسباق
تحریر: (ممتازملک ۔پیرس)

 بھارتی فلموں نے دنیا میں آخر کیا سکھایا؟ 99 فیصد بھارتی فلموں نے دنیا میں بے حیائی اور برائی کے سوا کس چیز کو فروغ دیا ؟ آپ دیکھتے رہیں، ہر فلم کے اندر آپ کا کسی کے ساتھ بھی سو جانا کوئی برائی نہیں ہے۔ ناجائز تعلقات بناؤ۔ ناجائز بچوں کو پیار کی نشانیاں کہہ کر انہیں عام کرو۔ کوئی عیب نہیں۔ کہیں بھی چمی پپی کر لو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کسی بھی رشتے کے ساتھ سو جاؤ، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دوسرا اخلاق و اقدار کا جنازہ بڑے دھوم دھام سے اٹھایا جاتا ہے۔ شادی کے منڈپوں سٹیج سے لڑکیوں کو بھاگ جانے کی ترغیب کھلے عام دی جاتی ہے اور اسے مذاق میں اور ٹن ٹن ٹن ٹن کے میوزک کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ جیسے یہ بہت بڑا لطیفہ، بہت بڑا کارنامہ اس لڑکی نے سر انجام دیا اور وہ بھگانے والا ہیرو واہ کتنا بہادر ہے، کسی کی بیٹی منڈپ سے اٹھا لایا اور اپنی بہن بھی منڈپ سے بھاگنے پہ خوش ہو کے دیکھتا ہے، ارے واہ کیا کمال کیا۔ کتنی جرات مند ہے ہماری بہن ۔۔۔واہ واہ واہ ۔ حیرت ہوتی ہے ایسی فلمیں دیکھ کر۔ آپ کس معاشرے کی نشاندہی کر رہے ہیں؟ آپ کیا سکھانا چاہتے ہیں؟ اپ کا معاشرہ کیا کارٹون کا معاشرہ ہے؟ کیا یہاں انسان نہیں رہتے؟ کیا ان کی ایموشنز کارٹون والے ایموشنز ہیں؟ یعنی ایموشن لیس ہیں وہ سارے۔ جذبات سے عاری ہیں وہ سب لوگ کہ آپ انہیں بتاتے ہو منڈپوں سے بھاگ جاؤ ۔ شادی کا سہرہ بندھا ہے۔ دولہا کا گھوڑا بھاگ گیا جناب ہاہاہا۔۔۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ہر انسان کے ساتھ اس کا خاندان جڑا ہوا ہوتا ہے۔ اس کے بہن بھائیوں پہ اثر انداز ہوتی ہیں اس کی ہر حرکتیں، اور اس کی ہر طرح کی سوچیں ۔ صرف ایک منٹ کے لیے اگر سوچا جائے کہ وہ لڑکیاں جو آپ کی فلموں کی ہیروئنوں کی نقل میں( آپ کی ہیروئن تو پیسے لے کر چار منٹ کے لیے بھاگ رہی ہے نا وہاں سے, لیکن آپ یہ سوچیں کہ وہ لڑکی جو اس ہیروئن کی تقلید میں) اپنے گھر سے اپنے منڈپ سے اپنے رشتوں سے بھاگ گئی, پھر اس کے بعد کیا ہوا ؟ اس کے بعد جس کے ساتھ بھاگی کیا اس نے اسے عزت دی؟ اگر آپ کی فلموں میں دی تو اس سے بڑی ب**** اور کوئی نہیں ہو سکتی ساری عمر وہ لڑکا حقیقت کی زندگی میں نہ تو اس لڑکی پہ اعتبار کرتا ہے نہ اس کو اپنی اولاد کے لیے قابل اعتبار سمجھتا ہے۔ نہ اس کی عزت کرتا ہے جب جی چاہتا ہے زبان یا عمل سے وہ اس کو گھونٹ کے رکھ دے گا کیونکہ تم میرے ساتھ بھاگی تو کسی کے ساتھ بھی بھاگ سکتی ہو۔ یہ ہوا انجام اس بھاگنے والی لڑکی کا۔ اب اس لڑکی یا لڑکے کے گھر والوں پہ نظر ڈالیں۔ کیا ان  کے گھر میں جو باقی بہنیں ہیں، بھائی ہیں انہیں معاشرے میں عزت مل پائے گی؟ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں اس معاشرے کے اندر ان کے لیئے کوئی رشتہ آئے گا یا انہیں کوئی عزت سے بیاہ کر لے کر جائے گا کیا وہ لڑکیاں بغیر طعنہ سنے اپنے گھروں میں چاہے سسرال میں چاہے اکیلی زندگی بھی گزارے تو اپنے شوہر سے کبھی ان کا طعنہ سنے بغیر زندگی گزار سکیں گی؟ کبھی نہیں ناممکن . اس لڑکی کے بھائی کو کس نظر سے دیکھا جاتا ہے؟ اسے کس نام سے پکارا جاتا ہے ؟ مرتے دم تک وہ لڑکا کیا عزت کے ساتھ سر اٹھا کے جی سکتا ہے؟ دوسری طرف اس لڑکے کے گھر والوں کی خبر لیں کہ جو بڑا ہیرو بن کر کسی کی بیٹی بھگا کر لایا . کیا اس کی بہنوں کے لیے کوئی اچھا رشتہ آئے گا؟ اسے کوئی بیاہ کے لے کے جائے گا؟ کوئی سوچے گا کہ ان کا بھائی ہے. چاہے وہ کتنی بھی پڑھی لکھی ہوں .شریف ہوں. ہنر مند ہوں. لیکن یہ ہمیشہ سوچا جائے گا کہ کل کو وہ لڑکا ان کا بھائی ہے ۔جس نے کسی کی بیٹی بھگائی۔ اسے ہم اپنے گھر میں اپنی بہنوں سے ملنے کے بہانے کبھی آنے دیں گے؟ کیا ہم اسے اپنے گھر کی عورتوں کے ساتھ کبھی بٹھانا پسند کر سکتے ہیں یا ہم بے فکری سے اسے اجازت دے سکتے ہیں کہ وہ اپنی بہن سے ملنے کے لیئے آئے؟ نہیں کبھی نہیں. اس کے بھائی کے لیے رشتے عزت والے گھروں سے مل سکیں گے ؟ لوگ کہیں گے ان کا ایک بھائی تو بھگا کے لایا پتہ نہیں یہ بھی کہاں کہاں لڑکیاں ورغلاتا ہوگا۔ یہ ہے سچ یہ ہے اصل آئینہ جو بھارتی فلم نے اور ڈراموں میں بھی ہمیشہ چھپایا گیا ۔ خواب دکھاتے ہیں۔  وہ خواب جو کبھی پورے نہیں ہوتے۔ وہ خواب جو کبھی ممکن ہی نہیں ہوتے۔ بالکل اسی طرح جیسے کسی چڑیا اور کبوتر کو اڑتے ہوئے دیکھوں اور کھڑکی سے میں بھی آرزو کروں ارے میں بھی تو اڑ سکتی ہوں اور میں دونوں ہاتھ کھول کر چھلانگ لگا دوں اور ہوا میں اڑنے کی بجائے اس کا انجام کیا ہوگا زمین پر اوندھے منہ پڑا ہوا لاشہ۔۔۔۔ یہ ہوتی ہے سچ کی موت۔ حقیقت کے خواب کے سامنے سچ کی موت بہت بڑی حقیقت۔ یہی فرق ہے بھارتی فلموں میں اور حقیقت کی زندگی میں کبھی کبھی خواب دیکھنا اچھی بات ہے، لیکن خواب کو خواب کی طرح دکھائیں۔ حقیقت کی زندگی کی جدوجہد کی ہمیشہ تعریف کی جاتی ہے۔ بھارتی فلم میں جب بھی کبھی حقیقت پسندانہ موضوعات پر مبنی پیش کی گئی اسے بہت سراہا گیا جیسے " تمنا " یا "تارے زمین پر" یہ وہ فلمیں تھی جس کو حقیقت میں تسلیم کیا گیا اور اسی طرح بہت ساری ایسے موضوعات پہ جو فلمیں بنی انہیں  بہت زیادہ سراہا گیا ، لیکن جب آپ خواب کے نام پر اس میں ننگا پن لے آتے ہیں۔ اس میں ایک دوسرے کے ساتھ چمن پپن کو غیر ضروری طور پر شامل کر کے ضروری بھی ہو تو ہر کسی کو پتہ ہے کہ کس نے کہاں کس کو ، کس طرح سے استعمال کرنا ہے، بیوی کیسے ہوتی ہے اور باقی رشتے کیسے ہوتے ہیں ہر کوئی جانتا ہے آپ ان کو اپنی فلم کے ذریعے کیا سکھانا چاہتے ہیں۔ لوگوں کے بیڈ روم میں گھس کر آپ ان کو کیا سکھانا چاہتے ہیں کیا بیڈ روم کی اندر صرف ننگ دھڑنگ اور یہی سب کچھ ہوتا ہے۔ اچھے طریقے سے اچھے لفظوں میں آپ کو کوئی بھی ماحول فلمانا نہیں آتا۔ جہاں ایک عورت اور ایک مرد ہوں گے ہمیں ہمیشہ اپنے ریموٹ پہ کنٹرول رکھنا ہوتا ہے کہ جناب اب یہ کہیں بھی کچھ بھی دکھائیں گے، تو اس کو ہٹا دو اور اگر نہیں ہٹایا تو پھر تیار رہیے آفٹر ایفکٹس کے لیئے ۔
                --------

بدھ، 7 دسمبر، 2022

وائرل صرف گندگی/ کالم

 وائرل صرف گندگی
تحریر: 
(ممتاز ملک ۔پرس)

کیا وجہ ہے کہ ہمیشہ غلط بات اور گندگی ہی ہوتی ہے؟ 
ہم نے تو خود کو شریف کو انتہائی نیک اور پرہیز گار دکھاتے ہیں، لیکن قندیل بلوچ جب نعت پڑھتے ہیں تو کسی کو سننا پسند نہیں کیا، اسے ملی نغمہ گاتی تو کسی سے پسند نہیں تھی، لیکن جیسے ہی ہمیں معلوم ہوا ہے کہ قندیل بلوچ آفریدی کے نام پر اپنے کپڑے اتارنے کی آفر کر رہی ہے تو منٹوں میں لوگ آپ کے مداح بن جاتے ہیں، انتظار کرتے ہیں کہ آپ اپنے آپ سے رال ٹپکتے ہیں، اس وقت۔ کی شرافت اور پرہیزگاری جاتی ہے۔ مسلم فالوور وہ شریف النفس ڈرامے بازپر جو اس کے کومنٹس میں جا کر اپنی مردانگی اور اپنے جسم کو اعضاء کو خود دکھاتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں اگر وہ یہ سمجھیں کہ اس نامحرم لڑکی کے بہانے اپنی بہنوں کو بے لباس کرتے ہیں تو ایک نے گویا سب کو دیکھا۔ نہ نظر جھکانی یادگار ہیں نہ حیاداری کا پاس ہے اور تو آج کے ٹک ٹاک پر جا کر ہمارے لوگوں کی مردانگی فرمائیئے کس لچرپنے کے کمرے پر تبصرے کیئے ہیں ۔ان پر اپنی زبان کے خاندانی برسائے ہیں اور پھر اسی طرح باقی بازاری دھڑا دھڑ دیکھنے کے لیے، لائیک کرنے کا فریضہ آخر ممکن ہے۔ کمال کی بات ہے کہ گندگی پر پہلے میرے بے خبر لوگ بھی ڈال دیتے تھے لیکن آج ان کے نام نہاد باخبر اور پڑھے،معزز عزت باخبر،مذہبی تک کہلانے والے لوگ اسی گندگی کو پلیٹ میں سجا کر اس کی قیمت لگاتے ہیں۔ اور کبھی اسے آگے سے مشتہر کرتے ہیں۔ مذہب تو چھوڑیے ہم اخلاقی طور پر اس پر تنزلی میں گر گئے ہیں کہ اب ہمیں گٹر کی بو بھی نہیں لگتی بلکہ "سمیل" لگتی ہے۔ 
انہوں نے کہا کہ آج دیکھنے کیلئے سوشل میڈیا میڈیا ٹک ٹک اور یوٹیوب پر ناچ گانے واہیاتی پر مبنی "کونٹینٹ" مواد بیچ رہا ہے۔ صرف پیسے کمانے کے لیے۔ عزت کی جاتی ہے۔ آپ تو دھڑا دھڑا لگتے ہیں۔ حدیث شریف کا حصہ مکمل ہوا کہ جس میں قیامت کی نشانیوں میں واضح نشانی بتائی گئی کہ "گھر گھر ناچ گانا"۔ آج لوگ خود اپنی مرضی سے خوش ہو جاتے ہیں اپنے ماں بہن بیٹیوں اور نانیاں دادیاں تک مجرا کر کے مشہور اور مالدار ہونا کوئی عیب نہیں سمجھتا۔ ہمارے بزرگ کہتے تھے کہ دولت تو کنجروں کے پاس بھی "بلکہ کنجروں کے پاس" ہی ہوتی ہے لیکن عزت نہیں ہوتی۔ کاش بزرگ آج آپ کو دیکھ نہیں سکتے کہ بابا جی عزت صرف پیسے کی ہی ہوتی ہے۔ کیسے آئے؟ کیوں آئے؟ کوئی نہیں پوچھنا چاہتا۔ وہ میرے بچے سے پوچھتے تھے کہ میں نے تو نہیں لکھا لیکن میرے پاس۔
 کہاں سے آئے ہیں یہ جھمکے؟
 کس نے یہ جھمکے؟ 
کیوں خطرے ہیں جھمکے؟
آج تو خود کئی جہنمی مائیں اپنی بیٹیوں کو جھمکے کمانے اور جھمکے دلانے کو پھانسنے کے طریقے سکھاتی ہیں۔ کیوں کہ وہ بھی مان چکے ہیں کہ کوئی تم سے پوچھے گا کہ یہ جھمکے ہیں؟
                  ●●●

جمعہ، 28 ستمبر، 2018

قومیت کس اصول پر ؟ کالمز


قومیت کس اصول پر؟
ممتازملک. پیرس

دنیا بھر میں لاکھوں لوگ ایک ملک سے دوسرے ملک ہجرت بھی کرتے ہیں اور ایک ملک سے دوسرے ملک کی قومیت بھی حاصل کرتے ہیں.  جیسا کہ کم ترقی یافتہ ممالک سے ترقی یافتہ ممالک میں یہ رجحان بہت زیادہ دیکھنے میں آتا ہوں  . ہر ملک کا کسی دوسرے ملک کے  باسی کو قومیت دینے کے اپنے اپنے اصول و ضوابط ہوتے ہیں.  ان میں کچھ لوگ سیاسی پناہ کی بنیاد پر بھی دوسرے ممالک کی قومیتوں کی درخواست دیتے ہیں. جن پر کافی غوروخوض  اور انکوائری کے بعد فیصلہ دیا جاتا ہے.  عمومی قومیت کے لیئے بھی ایک لمبا عرصہ برائے کاروائی لیا جاتا ہے.  اور کاروائی کیساتھ اس قومیت کے حصول کے لیئے درخواست کنندہ کا کچھ شرائط پر پورا اترنا لازم ہوتا ہے.  جیسا کہ
* اس  شخص کو اس ملک کی قومی زبان کا امتحان پاس کرنا ہوتا ہے. 
*وہ اس ملک میں کیوں رہنا چاہتا ہے اس بات کا اطمینان بخش جواب دینا ہوتا ہے. 
* وہ اس ملک کے جغرافیائی حالات اور تاریخ کے بارے میں خصوصی جوابات دے سکتا ہو.
*وہ اس ملک میں  کسی جرم میں سزا یافتہ  اور پولیس کیس میں ملوث تو نہیں ہے. 
*یہ شخص باقاعدہ ٹیکسز کی ادائیگی کرتا ہے کہ نہیں ؟
*اس کا کاروبار  ملک کے قوانین کے مطابق ڈیکلئیر ہے کہ نہیں ؟
*اس کے اپنے پڑوسیوں سے تعلقات کیسے ہیں ؟
* وہ کتنی جلد رہائش بدلتا ہے ؟
ان تمام شرائط و تحقیقات کے بعد یہ یقین کیا جاتا ہے ک اس درخواست دہندہ برائے قومیت نے آپ کے ملک میں کوئی قانون شکنی نہیں کی, کبھی کوئی جرم نہیں کیا , تب جا کر اسے قومیت یعنی نیشنیلٹی کا اہل قرار دیا جاتا ہے. 
جبکہ پاکستان میں اس میں سے کسی بھی اصول و ضوابط کی پابندی کو کسی بھی فرد واحد سیاستدان کی بیک جنبش قلم یوں مٹا دیا جاتا ہے جیسے یہ کوئی مذاق ہو. جبکہ اصل میں وہ پاکستان کی پوری قوم کیساتھ مذاق کر رہا ہوتا ہے . ان معاملات پر خاموشی اور نظر انداز پالیسی کا مطلب ہے اجتماعی تباہی...
کچھ طرفدار جھٹ سے بیان داغتے ہیں کہ کیوں جناب پاکستانی بھی تو دوسرے ممالک ک قومیت لیئے بیٹھے ہیں تو افغانیوں کو بھی پاکستان کی نیشنیلٹی آنکھیں موند کر کیوں نہ دیدی جائے ؟
ان سب کو شاید اس بات کا علم نہیں ہے کہ پاکستانی جو اپنی معاشی ابتری یا دہشتگردی کی فضا سے باہر جانے پر مجبور ہوئے وہ ان ممالک میں ہر امن ترین شہری کے طور پر سالوں سے ہر قانون کی پاسداری کرتے رہے ہیں کبھی انہیں ان ممالک نے اپنی قومیت دینے پسند کیا ہے اور یہاں کے اقوام نے  انہیں خوشی سے قبول کیا ہے. جبکہ افغانیوں کو دنیا کے دیگر ممالک میں بھی اسی وجہ سے نہ تو پسند کیا جاتا ہے اور نہ ہی قبول.  کہ ان کے مزاج کی درشتی اور قانون شکنی, کسی طور انہیں پرامن شہری  نہیں بنا سکتی.
ہمیں حیرت ہے کہ افغانیوں کے لیئے جب ان اصولوں پر بات کی جاتی ہے تو کچھ لوگ ہمیں عجیب و غریب تاویلیں پیش کرنے لگتے ہیں اور  جن  کتابوں کے وہ بھی  یورپیئن مصنفین کی کتابوں کے حوالے دیکر پڑھنے کا مشورہ دیا جاتا ہے  وہ جو اس جنگ کے اپنے اپنے ملکی مفادات کے تحفظ کے فارمولے کے تحت لکھی گئی ہیں . اب ہم ان پر اعتبار کریں ؟
لیکن
ہم نے جو کچھ اپنی آنکھوں  سے  پاکستان میں ان افغانوں کی وجہ سے بدلتے دیکھا، تباہ ہوتے دیکھا،
اس پر سے آنکھیں بند کر لیں اور اعتبار نہ کریں ..
یہ کیسا مشورہ ہے ...
جبکہ وقت نے ثابت کیا ہے کہ
ہندوستان نے ،ایران نے ، اس وقت اپنے بارڈر  افغانوں کے لیئے نہ کھول کر نہایت دانشمندانہ فیصلہ کیا ..
افغانیوں ک جنگ کا ذمہ دار پاکستان نہیں تھا .
بلکہ افغانیوں کو پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت دینا اور پناہ دینے کا فیصلہ پاکستان کی تاریخی غلطی تھی.  جس کی قیمت ہم نے چالیس سال چکائی ہے.  ہھر بھی  اس قوم کو جب بھی موقع ملا پاکستان کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے سے کبھی باز نہ آئے.
  اب جب ان کے ملک میں حالات بہتر ہو رہے ہیں تو ان کا پاکستان میں قیام کا کیا مطلب ہے؟  پاکستان میں بیٹھ کر پاکستان کو گالیاں دینے سے کروڑ درجے بہتر ہے کہ وہ افغانستان میں بیٹھ کراپنی مرضی کی زندگی گزاریں. 
ویسے بھی قوم کی رائے کے بنا کوئی بھی قانون کیسے بن سکتا ہے؟  چالیس سال سے ان  افغانیوں کی دہشتگردی بھگت کر اب بھی اگر ہم نہ بولے تو کل کو اسی قومیت کے بہانے پاک افغان بارڈر کو بے نام کر کے وہاں کے ہر درندے کے لئے راستہ کھل جائے گا ,جسے اس پار دھکیلنے کے لیئے ہماری قوم اور فوج نے اپنی  ہزاروں قیمتی جانیں قربان کر دی ہیں.  کیا ان کی قربانیوں پر پانی پھیر دیا جائے.....
جبکہ اگر قومیت دینی ہی ہے تو ان بہاریوں کو کیوں بھلا دیا جاتا ہے جو سینتالیس سال سے بنگلہ دیش کے کیمپوں میں سسک سسک کر زندگی گزارنے پر مجبور کئے گئے ہیں.  ان کا جرم ہے پاکستان سے محبت.  مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے باوجود وہ اپنی نسلیں کٹوا رہے ہیں لیکن اپنے سینے سے پاکستانی پرچم کو جدا نہیں کرتے.  پاکستان کے لیئے روتے ہیں اور پاکستان کی خوشی پر خوش ہوتے ہیں. گندی تنگ و تاریک مہاجر بستیوں سے انہیں آذاد کروائیے.  ان سے بڑھ کر پاکستان سے محبت تو خود پاکستان میں رہنے والے پاکستانی بھی ثابت نہیں کر سکتے. خدارا حکومت پاکستان سے دست بستہ ہماری گزارش ہے کہ پاکستان دشمنوں اور دہشتگردوں  کو پاکستانی قومیت (نیشنیلٹی) دینے کی بجائے پاکستان سے محبت کرنے والوں کو اس کا حقدار ہونے کی بنیاد پر پاکستان میں آباد کیجیئے.  کہ آپ کیساتھ رہنے کا پہلا حق محبت کرنے والوں کا ہوتا ہے نہ کہ آپ کی پلیٹ میں کھا کر اسی میں چھید کرنے والوں کا....
                        --------

پیر، 4 مئی، 2015

اٹھو جہاں بدل دو۔ کالم



اٹھو جہاں بدل دو
تحریر:
(ممتازملک۔پیرس)


وقت بہت تیزی سے بدل رھا ہے وقت کے تقاضے بھی بدل رہے ہیں ۔ کل تک جو باتیں اتنی ضروری نہیں سمجھی جاتی تھیں آج وہ زندگی کی ضرورت بن چکی ہیں ۔ اس بات کو اب کم تعلیم یافتہ لوگوں نے بھی قبول کرنا شروع کر دیا ہے ۔ مثلا کل تک ہمارے ہاں جو خاتون گاڑی چلاتی تھی اسے بہت ہی آزاد خیال بلکہ ہاتھ سے نکلی ہوئ عورت سمجھا جاتا تھا ۔ زیادہ دور نہ جائیں بیس سال پیچھے چلتے ہیں ۔ کسی بھی لڑکی نے میٹرک کیا ،ہانڈی روٹی بنانے کے قابل ہوئ تو بہت بڑی بات تھی مناسب رشتے کیۓ اور لڑکی اپنے گھر کی ہوئ ۔اللہ اللہ خیرصلہ ۔لیکن پھر ماحول نے کروٹ لی ۔
میڈیا کا سیلاب آگیا ۔معلومات نے طوفان کی سی تیزی سے گھروں کا رخ کیا ۔ زندگی کا انداز بدلنے لگا ۔ خواہشوں نے نۓ رنگ ڈھنگ اپنانے شروع کیۓ ۔زندگی رو ٹی کپڑا اور مکان کے دائرے سے باہر نکل کر مقابلے کی دوڑ میں شامل ہو گئ ۔خوب سے خوب تر کی جستجو نے اسے اور بھی ہوا دی ۔ آج یہ بات پہلے سے بھی زیادہ ضروری لگنے لگی ہے کہ ہماری آدھی آبادی جو گھر بیٹھ کر یا تو آبادی بڑھاتی ہے یا پھر شام کو تھکے ہارے مردوں کے گھر آنے پر ان کے لیۓ مسائل بڑھانے کی وجہ بنتی ہے اس آدھی آبادی کو بھی اب قومی ترقی کے دھارے میں شامل کیا جاۓ ۔ نوجوانوں سے جب بھی میری ملاقات ہوتی ہے میرے مشاہدے اور تجربے کو ایک نئ راہ ملتی ہے ۔انہی نوجوانوں کی کہانیوں میں سے ایک کہانی آج آپ کے ساتھ بھی بانٹ رہی ہوں جس نے مجھے بھی بہت کچھ سکھایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک نوجوان لڑکی نے مجھے اپنے تجربے سے آگاہ کرتے ہوۓ بتایا کہ
،، میں بہت ہی زیادہ لاڈلی بھی تھی اور فضول خرچ بھی ۔ ہمارے بابا جان نے ہمیں ہر منہ مانگی چیز لا کر دی ، میرے لیۓ یہ بہت ہی آسان سی بات تھی کہ یہاں میں کوئ فرمائش کرتی ہوں وہاں وہ پوری ہو جاتی ہے اس لیۓ کسی چیز کے ملنے کے بعد کبھی تو میں اسے ریجیکٹ کر دیا کرتی تھی تو کبھی وہ مہنگی سے مہنگی چیز بھی کسی کو اٹھا کر دے دیا کرتی تھی ۔ پھر اتفاق سے ایک سال یونیورسٹی کے داخلوں کا ٹائم کسی وجہ سے لیٹ ہو گیا اور بروقت فارم نہ ملنے کی وجہ سے مجھے یونیوورسٹی کا وہ سال داخلہ نہ مل سکا تو میں نے بوریت سے بچنے لیۓ بابا جان کی دکان پر جانے کا فیصلہ کیا ،۔ بظاہر یہ ایک ٹائم پاس فیصلہ تھا مگر میں نہیں جانتی تھی کہ میرے اس فیصلے سے میری سوچ کا دھارا بدل جاۓ گا یا میری زندگی کا انداز بدل جاۓ گا ۔ صبح بابا جان کے ساتھ چھ بجے اٹھناتھا پھر ایک گھنٹے کے اندر دکان کا رخ کیا سارا دن باباجان کے ساتھ دکان کے کاؤنٹر پر کبھی، تو کبھی سامان لگانے کے لیۓ ریک سیٹ کرنے والے کی مدد کرنا، دکان پر آنے والے سامان کا حساب کتاب ، ساتھ ساتھ کسٹمر کو بھی       خریداری میں کسی بھی چیز ک لیۓ گائیڈکرنا۔۔۔۔۔۔ ا اُفففففففففففففففففففففففففففففف
شام تک تو میری ہڈیاں بھی بجنے لگیں ۔ اس روز بابا جان نے مجھے میری دن بھر کی دیہاڑی کے پیسے [جو کہ ہمارے دوسرے ملازم کو بھی جتنے ملتے ہیں اس کے برابر تھے ] میرے ہاتھ پر رکھے تو یقین جانیۓ اس وقت جو میری حالت تھی میں اس خوشی کو بیان نہیں کر سکتی ۔یہ پیسے میری روز کے جیب خرچ کے دسویں حصے کے برابر بھی نہیں تھے ۔لیکن میرے لیۓ وہ پیسے کسی خزانے سے کم نہیں تھے اور اس سے بھی زیادہ وہ پیسے میرے لیۓ کتنے مقدس تھے جو میرے اپنے ہاتھ کی حلال کی کمائ تھے جنہیں دیکھ کر آج مجھے میرے بابا جان سے اور بھی زیادہ محبت اور عقیدت محسوس ہوئ اور ان کی اب تک کی ساری تھکن کوایک ہی پل میں میری رگ و پے نے بھی محسوس کر لیا ۫ ۔ اور اس کمائ کو خرچ کرنے کا خیال میرے لیۓ بلکل بھی اچھا نہیں تھا ۔ اور میں نے اس سے کچھ بھی خریدنے سے انکار کر دیا ۔ یہاں تک کہ باباجان نے اپنے پاس سے بھی کچھ خرید کر دینے کو کہا تو میں نے صاف انکار کر دیا کیوں کہ مجھے اس مشقت کا احساس ہو چکا تھا جو ان پیسوں کو کمانے کے لیۓ اٹھائ جاتی ہے وہ دن میری زندگی میں فضول خرچی کا آخری دن ثابت ہو ا ۔میں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ اگر ایک دن کے کام کا تجربہ جب مجھے اتنا کچھ سکھا سکتا ہے تو پھر مجھے ہر روز زندگی سے کچھ سیکھنا ہے ۔؛ آج میں پڑھ بھی رہی ہوں اور کام بھی کر رہی ہوں اپنے بابا کی کمائ کو ضائع کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی اور ہر کام کرنے والے کی عزت کرتی ہوں ۔ اور اپنے بہن بھائیوں کو بھی پیسہ سوچ سمجھ کر استعمال کرنے کا مشورہ دیتی ہوں ۔ ،،
دیکھاآپ نے ایک تجربہ آپ کی سوچ کو کہاں سے کہاں لے جاتا ہے ۔ یہ ہی تجربہ اب ہماری پوری قوم کو کرنے کی ضرورت ہے ۔جب تک خواتین کام کاج کے میدان میں قدم نہیں رکھیں گی وہ کبھی بھی اپنے باپ بھائ ، شوہر یا بیٹے کی کمائ سے ہمدردی نہیں کر سکتی ہیں ۔بہنوں کو شوق ہوتا ہے کہ سہیلیوں میں شو مارنے کے لیۓ بھائیوں کے پیسوں کو زیادہ سے زیادہ کہاں کھپانا ہے ۔ ماں کو فکر ہوتی ہے کہ بیٹا بہت کما رہا ہے تو کیسے کیسے بیٹیوں کو بھرا جاۓ ۔بیوی کو فکر ہوتی ہے کہ کیسے اپنے میاں کی کمائ میں سے اپنے میکے والوں کو موج کرائ جاۓ ۔گویا قُربانی کا دُنبہ بنتا ہے وہ اکیلا کمانے والا مرد ۔ یہ سب کیا ہے ۔کوئ مانے نہ مانے لیکن 80 فیصد خواتین ہمارے معاشرے میں یہ ہی کچھ کر رہی ہیں لیکن اس میں قصور ان خواتین کا بھی زیادہ نہیں ہے ۔جو بھی شخص جب فارغ بیٹھا ہو اور اسے ہر چیز بنا محنت کے مل رہی ہو تو وہ اسے اجاڑنے میں کبھی بھی کوئ تردد نہیں کرے گا ۔اسے معلوم ہی نہیں ہے کہ یہ سب بنانے کے لیۓ کمانے لیۓ کیا کیا محنت کی گئ ہے ۔ ہم تو اس معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں کہ جہاں لوگ لیڈی ڈاکٹر کا رشتہ بھی صرف لوگوں میں اپنا ایمج بنانے کے لیۓ لیتے ہیں ۔ اور بیاہ کرتے ہی اس لڑکی کو پریکٹس تک کرنے کی اجازت تک نہیں دی جاتی ۔ کیا نرسزز ۔ کیا ٹیچرز، ، ٹیکنیشنز ،ایم بی اے ہو یا ماسٹرز ۔رشتہ لینے کے لیۓ تو یہ ڈگری ایمپورٹنٹ ہے لیکن کام کرنے سے ان کی توہین ہوتی ہے ۔
اب یہ روش بدلنے کا وقت آگیا ہے اگر ہمارے ہاں کے مردوں کو اپنا بوجھ کم کرنا ہے اور اپنے ہاں کی خواتین کو فضول قسم کے جھگڑوں اور مصروفیات سے بچانا ہے تو انہیں نہ صرف تعلیمی میدان میں آگے لائیں بلکہ انہیں پروفیشنل ڈگریز دلوائیں تاکہ انہیں کام کر کے پیسے کی ویلیو کا احساس ہو۔ اس سے فضول خرچی میں بھی خاطر خواہ کمی ہو گی ۔ًمحلّوں اور خاندانوں کے جھگڑوں میں خاطر خواہ کمی ہو گی ۔اور آپ کے گھر کی اور ملک کی آمدنی میں اور سکون میں بھی اضافہ ہو گا ۔ وقت کے ساتھ ہمیں اپنے طرز زندگی میں بھی مثبت تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے ۔ارتقاء اسی کا نام ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہم ہر اچھی چیز کو اپنائیں اور ہر بری عادت اور رواج کو خدا حافظ کہیں ۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو ہمیں اپنا جہاں بدلنے کے لیۓ اور کتنے حادثوں اور قتل و غارت اور مفلسی کی راہ دیکھنا ہے ۔ فیصلہ ہم سب کو کرنا ہے کیوں کہ ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔
  ۔۔۔۔۔

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/