مصرعہ طرح:
دل امید توڑا ہے کسی نے۔۔۔
حساب زیست جوڑا ہے کسی نے
دل امید توڑا ہے کسی نے
وہ گل جو شاخ پر سویا ہوا تھا
اسے جا کر جھنجھوڑا ہے کسی نے
بہت قابل جسے مانا جہاں نے
ناکارہ کر کے چھوڑا ہے کسی نے
نشانے پر رقیب زندگی تھا
نئے رخ اسکو موڑا ہے کسی نے
میری آنکھوں سے جو بہنے لگا ہے
لہو دل کا نچوڑا ہے کسی نے
بہت نازک تھا دل کا آبگینہ
اسے پتھر پہ پھوڑا ہے کی نے
لہو کی باڑ سی کیوں آ گئی ہے
یہاں پر دل نچوڑا ہے کسی نے
درندہ بن وجود آدمیت
تسلی سے بھنبھوڑا ہے کسی نے
پڑے ممتاز بل جب تیوری پر
نگاہوں کو سکوڑا ہے کسی نے
-------