- بابائی وباء(تحریر:ممتازملک. پیرس)ساری زندگی محبتیں مشقتیں کر کے ہر ہر طریقے سے مال بنایا ہے. بیویوں کو صبر شکر اور تسبیح کے راستہ دکھا کر اب جب بیرون ملک خصوصا اور یورپی بابے بالعموم بیوی بچوں کے ہوتے ہوئے بھی پاکستان جا جاکر سہرے باندھ رہے ہیں . ان کا ناقص خیال ہے کہ یہ ان کا کوئ کارنامہ ہے کہ وہ جوان جوان لڑکیوں سے شادی شادی کھیل رہے ہیں بیس بیس پچیس پچیس سال کے فرق سے کھیلے جانے والے اس ڈرامے میں کسی بھی جانب سے وفاداری یا محبت بلکہ تھوڑا اور آگے جائیں تو عزت کا بھی کوئ تعلق نہیں ہوتا . بابا جی کی جیب سے مال اور لڑکی کے دماغ سے لالچ نکال دیاجائے تو یہ رشتہ دھڑام سے منہ کے بل آ گرتا ہے .کسی نے ایسے ہی بابے سے شادی کرنے والے نوجوان لڑکی سے پوچھا کہ آپ نے اس باپ کی عمر والے بابے سے شادی کیوں کی ؟تو وہ اٹھلا کے بولیویکھو جی ، بابے سے ویاہ کرنے کے سب سے بڑے دو فیدےایک تو ان کی ان کمدوسرے ان کے دن کم
سوچئے تو جنہیں یہ "دن "کم بابا سمجھ رہی ہوتی ہیں اکثر وہ بابا اس لڑکی کو بھی اپنے ہاتھوں قبر میں اتار جاتاہے کہ بابوں کی گارنٹی کون دیگا . یا شاید اس لڑکی کی لکھی اسی کے ہاتھوں تھی. ایسے ہی ایک بابا جی سے محلے میں لڑکیوں کو آنکھوں آنکھوں میں تاڑنے پر کسی نے پوچھا کہ
بابا جی آپ کو شرم نہیں آتی لتاں تہاڈیاں قبر وچ تے ایسیاں حرکتاں ...تو بابا دوزخی بولا لتاں قبر وچ نے منہ تے ہالی باہر اے...یہ بابے پاکستان میں نوعمر بیوی چھوڑ کر اسے اتنی رقم بھیجتے ہیں جو شاید اپنی عمر کی اپنے بچوں کی اماں کو دس سال میں بھی نہ دی ہو . اور وہاں اس مال پر اس لڑکی کا پورا خاندان عیش کرتاہے . اور بابا جی کو ایک ہنی مون پیریڈ کی نام نہاد بیوی .سچ کہیں تو اگر وہ لڑکی پاکستان میں کسی گناہ میں بھی مبتلا ہو رہی ہے تو یقینا اس کے ذمہ دار یہ ہی بابا جی ہیں . اس پر طرہ یہ کہ دونوں کی ضروریات الگ ، خواہشات الگ ، شوق الگ ۔ ایک کو چائینیز پسند تو دوسرے کو گردے کپورے ، ایک کو کیک کھانا ہے تو دوسرے کو چینی سے پرہیز شوگر فری ، ایک کو برف کا گولہ کھانا ہے تو دوسرے کو کھانسی کا سیرپ .کون سا باہوش سمجھدار انسان اپنی زندگی کیساتھ ایسا مذاق کرنا پسند کریگا.ساتھی ،دوست ، بیوی اور ہمسفر جتنا پرانا ہوتا ہے اتنا ہی آپ اس کو اور وہ آپ کو سمجھنے لگتے ہیں . ایک دوسرے کی عزت اور خواہشوں کا احترام کریں تو یقین جانیئے آپ کو اپنے جیون ساتھی میں کبھی کوئ عیب نظر نہیں آئے گا اور آئے بھی تو یہ سوچیں اور گنیں کہ اس میں کوئ تو ایسی بات بھی ہو گی جو آپ کو بہت اچھی بھی لگتی ہے .اسی بات کی محبت میں ایک دوسرے کو اپنی اپنی زندگی میں سانس لینے کی جگہ دیتے رہیں گے اور سال بھر میں چند روز یا چند ماہ ایک دو سرے سے الگ رہ کر دور رہ کر بھی دیکھیں آپ کو ایک دوسرے کی ایسی بہت سی باتیں معلوم ہوں گی جو آپ کو ایک دوسرے سے مزید محبت دلائیں گی .اور اپنی پرانی بیوی یا شوہر سے بھی آپ کو اپنا رشتہ نہ تو پرانا لگے گا اور نہ ہی بوجھ محسوس ہو گا. یہ بات صرف دو میاں بیوی کے بیچ ہی محدود نہیں ہوتی بلکہ اس رشتے کے اثرات آپ کی اولادوں تک میں سرایت کر جاتے ہیں .
MumtazMalikParis.BlogSpot.com
........

1۔ مدت ہوئ عورت ہوۓ ۔ ممتاز قلم۔ 2۔میرے دل کا قلندر بولے۔ 3۔ سچ تو یہ ہے ۔ کالمز۔ REPORTS / رپورٹس۔ NEW BOOK/ نئ کتاب / 1۔ نئی کتاب / 2۔ اردو شاعری ۔ نظمیں ۔ پنجابی کلام۔ تبصرے ۔ افسانے۔ چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ کوٹیشنز سو لفظی کہانیاں ۔ انتخاب۔ نعتیں ۔ کالمز آنے والی کتاب ۔ 4۔اے شہہ محترم۔ نعتیہ مجموعہ 5۔سراب دنیا، شاعری 6۔اوجھلیا۔ پنجابی شاعری 7۔ لوح غیر محفوظ۔کالمز مجموعہ
بدھ، 15 مئی، 2019
بابائی وباء ۔ کالم ۔ سچ تو یہ ہے

پیر، 1 فروری، 2016
ہم کیسے لوگ ہیں ؟/ کالم . سچ تو یہ ہے
ہم کیسے لوگ ہیں ؟

اتوار، 31 جنوری، 2016
بابائی وباء ۔ کالم۔ سچ تو یہ ہے
MumtazMalikParis.BlogSpot.com
..................

● بہتان کیا ہوتا ہے ؟/ کالم

شکریہ شرمین عبید چنائے ۔

علی بابا چالیس چور

گھروں کو گھر رہنے دیں

● (23) عقائد کا کاروبار /کالم۔ سچ تو یہ ہے
(23) عقائد کا کاروبار

● (12) ٹھوکر /کالم۔ سچ تو یہ ہے

بدھ، 16 دسمبر، 2015
ٹرننگ پوائنٹ
ایک سال گزر گیا اس کالے دن کو جب پشاور کے آرمی پبلک سکول میں انتہائی بے رحمی سے موت کا کھیل کھیلا گیا . خود کو بہادر سمجھنے والوں نے معصوم بچوں کو جس طرح چن چن کر اپنا نشانہ بنایا اسے دیکھ کر کیا سن کر ہی دشمنوں کی آنکھیں بھی بھیگ گئیں . آج سب کے لیئے اس سانحے کا ایک سال مکمل ہو گیا . لیکن پوچھے کوئ ان ماوں سے کہ آج ہی کے دن جب انہوں نے اپنے راج دلاروں کے سکول یونیفارم استری کیئے ہوں گے ان کے بال سنوارنے ہوں گے ان کا ماتھے چوما ہو گا . تو سچ میں اس قیامت کی آہٹ ان کے دلوں نے محسوس نہیں کر لی تھی . کہ آنے والا عذاب پہلے سے اپنی چاپ سنا دیتا ہے . جب کئی بچوں نے سکول نہ جانے کی ضد بھی کی ہو گی . لیکن انہیں راج دلار سے بہلا پھسلا کر کوئی وعدہ کر کے سکول جانے پر تیار کیا گیا ہو گا . سکول کے گیٹ سے گھر تک کے واپسی کے راستے میں کئی بار ماوں کا دل دھڑکا ہو گا . باپوں نے کئی بار نہ جانے کیوں پیچھے مڑ کر دیکھا ہو گا . شاید جدائی کی گھڑی کا ان سے الگ ہونے کا دکھ انہیں بتائے بنا ہی اس درد کے لیئے تیار کر رہا تھا . گھر پر اپنے بچوں کی فرمائش پر کھانا بناتے ہوئے کتنی بار ہاتھ سے برتن چھوٹے ہوں گے کتنی بار دل دروازے کی جانب بلاوجہ ہی لپکا ہو گا . کتنی بار بنا کچھ سمجھے رونے کو دل چاہا ہو گا . یہ معلوم ہوا کہ اس گھڑی میرے پیارے پر کیا گزر رہی تھی . کیسی بے رحمی سے اسے موت کی آغوش میں پہنچایا گیا ہو گا . تو ان کے حسین معصوم وجود خون کے لوتھڑوں میں تبدیل کر کے بڑے فخر سے اپنی داڑھیوں پر ہاتھ پھیرا گیا ہو گا . ایک دوسرے کو شاباش دی گئی ہو گی . دنیا میں ہر قوم پر ایسا وقت آتا ہے جو اس کے لیئے آگے بڑھنے اور بڑے قدم اٹھانے کے لیئے ایک ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوتا ہے . دس سال سے پاکستانیوں کے اٹھتے لاشے اس حساب کے بے باک ہونے کے منتظر تھے کہ کون سا لمحہ ان بدکار قاتلوں سے نقطہ آغاز بنے گا . اور وہ لمحہ ان معصوم بچوں نے اپنے لہو کی ندی پار کر کے اس قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر مہیا کر ہی دیا . ہو گیا نقطہ آغاز . پھندہ ہو گیا یہ ہی لہو ان ضمیر فروش قاتلوں کی گردنوں پر. اور آغاز ہو گیا انہیں کتے کی طرح مار مار کر بے نشان کرنے کا اور اپنی سرحدوں کو ان درندوں سے پاک کرنے کا . 1971 میں ہندوستان نے اسی روز پاکستان کے وجود کو دولخت کرنے کا کارنامہ سرانجام دیکرپاکستان کو ایٹمی طاقت بننے کی راہ پر ڈال دیا تھا . تو 2014 میں ہندوستان نے ایک اور فاش غلطی کر دی . اس نے پشاور سکول کی دہشت گردی کی پشت پناہی کر کے پاکستان کو ایک اور بڑا قدم اٹھانے اور درندوں ، قاتلوں اور دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں نپٹنے اور اپنی سرحدوں کو محفوظ کرنے کے لیئے سوچنے پر مجبور کر دیا . اللہ کا کرم ہے کہ اس سانحے کے ایک سال بعد پاکستان 2014 سے کہیں زیادہ مضبوط بھی ہے اور محفوظ بھی . ہمارے دشمنوں کو ہمیشہ اپنی کرتوتوں پر شرمندہ ہونا ہی پڑتا ہے اور ہونا ہی پڑے گاکہ اس قوم نے اپنی چوٹوں سے ہی مرہم بنانا سیکھا ہے . اور دنیا سن لے کہ ہر چوٹ کو ہم ٹرننگ پوائنٹ بنانا جانتے ہیں .

پیر، 12 اکتوبر، 2015
●(14) ڈومیسٹیک وائیلنس کب تک گھریلو معاملہ / کالم۔ سچ تو یہ ہے
گھریلو معاملہ

ہمارے ہاں 80 فیصد خواتین اپنےہیگھروں میں اپنے ہی گھر والوں کے ہاتھوں تشدّد کا شکار ہوتی ہیں ۔ یہ بات ایک پروگرام میں سنتے ہیں دل میں ایک پرانی یاد کا درد اٹھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب میں شاید نویں یا دسویں جماعت کی طالبہ تھی بہت زیادہ جوشیلی بھی تھی کہ ہر ایک کا مسئلہ میرا ہی مسئلہ لگتا تھا ، حاضر جواب بھی اور بلا کی جنرل نالج بھی تھی کہ ہر ایک لاجواب ہو جائے ۔ حد سے زیادہ خود اعتمادی نے ہر ایک کے پھڈے میں ٹانگ اڑانے کا عادی کر دیا تھا ۔ یہ انہی دنوں کی کربناک یاد ہے جب میں ایک قریبی جاننے والی خاتون کو آئے دن اپنے شوہر کے ہاتھوں اکثر پٹتے دیکھا کرتی تھی ۔ مجھے اس بات کی اس وقت سمجھ نہیں آتی تھی کہ یہ خاتون بیٹوں کی ماں ہو کر بھی ، ہر خوبی رکھتے ہوئے بھی ،اس سانڈ نما شوہر سے کیوں پٹتی ہیں ، کیوں اسے گھما کر ایک ہاتھ رسید نہیں کرتی ، کیوں اس کی ٹانگ نہیں توڑتی. بےگناہ کیوں اتنا تشدّد برداشت کرتی ہیں ۔ کم عمری میں جب عملی زندگی کے تجربات بھی رہنما نہ ہوں تو ایسے سوالات صرف پریشان ہی کرتے ہیں لیکن ہر بات کی ایک حد ہوتی ہے ۔ اس کا شوہر مارپیٹ میں یہ تک بھول جاتا تھا کہ وہ یہ وار ایک گوشت پوست کی بنی کمزور عورت پر کر رہا ہے یا کسی پتھر کی دیوار پر . خاص بات یہ کہ اس مار پیٹ کی وجہ کوئی بڑی بات ہونا بھی ضروری نہیں تھا ۔ کبھی اس بات پر پِیٹ دیا کہ سبزی والے سے سبزی لیتے ہوئے بات کیوں کی . دودہ والے نے تمہاری آواز کیوں سنی . میرے آتے ہی دروازہ کیوں نہیں کھلا . رونی صورت کیوں بنا رکھی ہے ؟ تمہاری ماں مر گئی ہے کیا ؟ ہنس کیوں رہی ہو تمہاری ماں کا بیاہ ہےکیا؟کھانا میز پر پہلے سے کیوں نہیں لگادیا یا پہلے کھانا کیوں لگا دیا ، آج فل فرآئی انڈا بنانا تھا ہاف فرائی کیوں بنادیا . افوہ ہاف فرائی انڈا کیوں بنایا ہے . گلاس میں پانی آدھا کیوں ڈالا . گلاس پورا کیوں بھرا ۔ پانی ضائع کرتی ہو. یہ سب جان کر آپ کو بھی لگے گا کہ ایسی باتوں پر جھگڑنے والا یقینََا کوئی ذہنی مریض ہی ہو سکتا ہے ۔ کوئی نارمل آدمی تو یہ سب کبھی نہیں کریگا ہم بھی یہ سب دیکھتے ہوئے اس خاتون کی مدد کا ارادہ کر بیٹھے اس خاتون کی رام کتھا اور اس پر ہونے والے ظالمانہ تشدّد کی رپوٹ بنا کر ہم نے اس وقت کے ایک ایسے ادارے کے نام بھجوا دی کہ جو ان دنوں ایسے معاملات پر ایکشن لینے کا مجاز تھا تاکہ اس خاتون کو کوئی قانونی تحفظ حاصل ہو سکے اور سرکار اس خاتون کے ظالم شوہر کا مزاج ٹھیک کر سکے ۔ بڑے دنوں کے انتظار کے بعد آخر کو اس ادارے کی جانب سے ایک دو لائن کا جواب موصول ہوا کہ ''یہ ایک گھریلو معاملہ ہے اور ہم اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتے ''یہ سن کر وہ وہ خاتون زاروزار روئی اور بولی'' بیٹا میں نے کہا تھا نا کہ یہ ساری کتابی باتیں ہیں۔ کتابوں میں ہی ہوتی ہیں مجھ جیسی عام سے گھر کی عورت کو بچانے کے لیئے کوئی پاکستانی قانون نہیں آئے گا۔ مجھے بچا کر کس کے کندھے کے پھول بڑھ جائیں گے یا کس کو کون سی بڑی منسٹری مل جائےگی. ہمیں تو ہمارے ماں باپ اس لیئے بیاہ دینے کے بعد ملنے نہیں آتے کہ کہیں شوہر سے لڑ کر ان کا آسرا لینے بیٹی ان کے ساتھ ہی نہ چل پڑے . میں نے اسی آدمی کے ہاتھوں مار کھاتے کھاتے مر جانا ہے ."اور میں سوچنے لگی کہ اسی گھریلو تشدّد میں جب کوئی بھی کسی کے ہاتھوں قتل ہو جاتا ہے تو پولیس اور قانون کس منہ سے ٹھیکیدار بن کر آ جاتے ہیں . صرف اپنی جیبیں گرم کرنے کے لیئے ، جہاں کبھی لاش ضبط کر کے پیسہ بنایا جارھا ہے ، کبھی پوسٹ مارٹم کے نام پر لوگوں کو نچوڑا جاتا ہے ، تو کبھی خود کشی ظاہر کرنے کے لیئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جاتا ہے ، کیوں ؟؟؟؟؟؟ تب بھی تو یہ ایک گھریلو معاملہ ہی ہوتا ہے . آخر یہ گھریلو معاملہ کی پاکستانی قانون میں وضاحت ہے کیا ؟ آج اتنے سال گزرنے پر بھی میں اسی سوال پر کھڑی ہوں اور اس واقعہ کے کچھ عرصے بعد میں نے دیکھا کہ اس کا حسین وجود ایک کمزور بدرنگ سی شے کی طرح ایک کفن میں لپٹا جنازے کی صورت رواں تھا اور اس کی ادھ کُھلی آنکھیں جیسے مجھے کہہ رہی ہوں کہ" دیکھا میں نے کہا تھا نا کہ کوئ پاکستانی قانون کسی عام سی پاکستانی خاتون کا بنا کسی مفاد کے کبھی کوئی بھلا کرنے نہیں آئے گا ". میرا سر جھک گیا اور بیساختہ میری آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی . .....●●● تحریر ۔ممتازملک مجموعہ مضامین: سچ تو یہ ہے اشاعت: 2016ء ●●●

جمعہ، 28 اگست، 2015
● (15) آو کمیشن کمیشن کھیلیں/کالم۔ سچ تو یہ ہے

پیر، 24 اگست، 2015
بابائی وباء۔ کالم۔ سچ تو یہ ہے

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/
- مارچ (4)
- فروری (8)
- جنوری (5)
- دسمبر (6)
- نومبر (3)
- اکتوبر (2)
- ستمبر (2)
- اگست (20)
- جولائی (46)
- جون (6)
- مئی (3)
- اپریل (8)
- مارچ (11)
- فروری (107)
- جنوری (6)
- دسمبر (5)
- نومبر (6)
- اکتوبر (8)
- ستمبر (3)
- اگست (8)
- جولائی (2)
- جون (4)
- مئی (9)
- اپریل (4)
- مارچ (5)
- فروری (4)
- دسمبر (5)
- نومبر (3)
- اکتوبر (4)
- ستمبر (3)
- اگست (3)
- جولائی (3)
- جون (5)
- مئی (10)
- اپریل (4)
- مارچ (3)
- فروری (6)
- جنوری (9)
- دسمبر (3)
- نومبر (2)
- اکتوبر (6)
- ستمبر (2)
- اگست (3)
- جولائی (7)
- مئی (1)
- اپریل (4)
- مارچ (5)
- فروری (4)
- جنوری (12)
- دسمبر (11)
- نومبر (11)
- اکتوبر (13)
- ستمبر (11)
- اگست (16)
- جولائی (8)
- جون (8)
- مئی (11)
- اپریل (8)
- مارچ (19)
- فروری (19)
- جنوری (23)
- دسمبر (4)
- نومبر (3)
- اکتوبر (2)
- ستمبر (6)
- اگست (5)
- جولائی (15)
- جون (4)
- مئی (15)
- اپریل (18)
- مارچ (88)
- فروری (15)
- جنوری (23)
- دسمبر (12)
- نومبر (8)
- اکتوبر (3)
- ستمبر (6)
- اگست (5)
- جولائی (11)
- جون (1)
- مئی (3)
- اپریل (7)
- مارچ (6)
- فروری (7)
- جنوری (4)
- دسمبر (7)
- نومبر (12)
- اکتوبر (6)
- ستمبر (5)
- اگست (14)
- جولائی (7)
- جون (11)
- مئی (22)
- اپریل (8)
- مارچ (33)
- فروری (10)
- جنوری (7)
- دسمبر (8)
- نومبر (11)
- اکتوبر (4)
- ستمبر (11)
- اگست (8)
- جولائی (8)
- جون (10)
- مئی (5)
- اپریل (39)
- مارچ (2)
- فروری (11)
- جنوری (8)
- دسمبر (1)
- نومبر (3)
- اکتوبر (5)
- ستمبر (5)
- اگست (5)
- جولائی (7)
- جون (6)
- مئی (5)
- اپریل (5)
- مارچ (5)
- فروری (5)
- جنوری (8)
- دسمبر (10)
- نومبر (7)
- اکتوبر (8)
- ستمبر (3)
- اگست (2)
- جولائی (10)
- جون (10)
- مئی (6)
- اپریل (5)
- مارچ (6)
- فروری (7)
- جنوری (3)
- دسمبر (1)
- نومبر (2)
- اکتوبر (2)
- ستمبر (3)
- اگست (64)
- جولائی (2)
- جون (1)
- مئی (5)
- اپریل (4)
- مارچ (4)
- فروری (3)
- جنوری (3)
- دسمبر (28)
- نومبر (11)
- اکتوبر (80)