ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک
ممتازقلم ‏ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
ممتازقلم ‏ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

بدھ، 3 فروری، 2021

● جبری انگریزی نصاب/کالم


             جبری انگریزی نصاب
               (تحریر: ممتازملک.پیرس)



ہم تارکین وطن پاکستانی خصوصا شعراء اور لکھاری دنیا بھر میں اردو زبان کی حفاظت اور پھیلاو میں تن من دھن وار رہے ہیں اور پاکستان میں ہمارے بچے انگریزی کے رٹے مار مار کر پاگل ہوئے جارہے ہیں ۔ انگریزی کیا قہر خداوندی ہے اس قوم پر؟
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ اردو کے ملک میں اردو کو بے آبرو کرنے والے لوگ تخت نشیں ہیں ۔ دنیا کی ہر زبان سیکھیں لیکن بطور زبان کے ۔
اسے بطور نظام تعلیم قوم پر مسلط نہ کریں ۔ کیونکہ دنیا کی کسی قوم نے کسی دوسرے کی زبان میں کبھی ترقی نہیں کی ۔ اس کی سب سے بدترین مثال پاکستان اور بھارت ہیں ۔ جو ساری عمر  انگریزی سیکھنے اور پھر انگریزی  کی غلطیاں نکالنے میں گزار دیتے ہیں ۔ یا پھر اس کا طرز زندگی سمجھنے اور اپنانے میں آدھے تیتر آدھے بٹیر بن کر نہ گھر کے رہتے ہیں نہ گھاٹ کے ۔ 
جسم پر پورا تھان لپیٹ کر سر کی ٹنڈ کروا کر ایک موٹی سی ماتھے برابر بندیا لگا کر سگریٹ کے کش لگاتی ہوئی خواتین وحضرات انگریزی فرفر جھاڑتے ہوئے خود کو کس جہان کا باسی ثابت کرنا چاہتے  ہیں ؟ 
شاید اس جہان کا نام ہے کنفیوز نگر
کیونکہ زبان بول چال کی سیکھنا اور بات یے اور زبان کا نظام تعلیم رائج کرنا گویا آپ نے اپنے زندگی کے ہر اثاثے کو ،انداز فکر کو، کھانا پینا رہنا اوڑھنا بچھونا سب کچھ اس تہذیب کے حوالے کر دیا ہے اور خود کو زیرو قرار دیدیا ہے ۔ انگریزی کو بطور زبان ضرور سیکھئے لیکن اس کی تہذیب میں ڈبکیاں مت لگایئے ۔ بس یہی سچائی ہے۔
اگر آپ نے کہا کہ انگلش بین الاقوامی زبان ہے جو ساری دنیا میں بولی جاتی ہے تو یہ بھی آپ کی ہی خام خیالی ہے اور آپ کے ہمخیال لوگوں نے ہی ایسا مفروضہ رائج کر رکھا ہے جبکہ حقیقت میں امریکہ کے چند ممالک اور انگلستان کے علاوہ شاذونادر ہی کسی ملک میں انگریزی بولی جاتی ہے ۔ اور نظام تعلیم تو کسی دوسرے کی زبان میں ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ ہمیں ضرورت ہے اسی لنڈے کی سوچ سے باہر نکلنے کی۔ 
 لیکن
 اسے ایک زبان کے طور پر بطور مضمون رکھنے میں کوئی قباحت نہیں ہے جو کہ لازمی نہیں اختیاری مضمون ہونا چاہیئے ۔
دنیا کا کون سا ترقی یافتہ ملک ہے جس نے اپنے ملک کی زبان کے بجائے دوسرے کے زبان  انگریزی میں ترقی کی ہے پلیز رہنمائی فرمائیں 
کیا فرانس ، جرمنی۔ اٹلی، سپین، سوئزرلینڈ، ناروے ،  ڈنمارک ،چین ، جاپان ، انڈونیشیا   وغیرہ وغیرہ 
اور کیا یہ سب ترقی یافتہ ممالک دوسری زبانوں میں اپنے طلبہ کو تعلیم دیتے ہیں ۔۔؟
وضاحت پلیز

اور اگر کسی کو سیکھنی ہے تو وہ بطور زبان سال بھر کا لینگویج کورس کر کے اسے بول چال کے قابل ہو سکتا ہے ۔ پھر اسے بچوں کی نصابی کتب میں ٹھونس کر انہیں زبردستی پڑھانے کی کیا تک ہے؟
یہ بات درست ہے کہ  آج کی نسل کی تباہی کی وجوہات میں دین سے دوری اخلاقی اقدار کا زوال اورمعاشی اور معاشرتی ناانصافی بڑے اہم عوامل ہیں لیکن ان وجوہات و عوامل کی تہہ میں جائیں تو معلوم ہو گا کہ دین سے دوری کا سبب بچوں کی تعلیم جبرا اس زبان میں دلوانا ہے جس کا ہمارے مذہب سے تہذیب سے معاشرت سے ہر گز کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔ وہاں پر انگریزی زبان کا قہر ہم پر قہر خداوندی ہی تو بن چکا ہے جہاں ہماری عقل پر قفل لگ چکا ہے ۔ اور ہم بے عقل، بے رشدو ہدایت بھاگے جا رہے ہیں بنا کسی منزل کے تعین کے ۔ ہم ہزار سال بھی انگریزی یا کسی اور زبان کے نظام تعلیم کیساتھ علم کے حصول میں دوڑتے رہیں تو بھی کبھی اس کی منزل نہیں پا سکتے اور اگر پالیں تو اپنے سارا تہذیبی دینی سماجی ڈھانچہ تباہ و برباد کر کے بلکہ خس و خاشاک کر کے ۔ کیا ہم یہ قیمت ادا کر کے خوش رہ سکتے ہیں یا آذاد قوم کہلا سکتے ہیں ؟ 

سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے پیارے پاکستان میں کوئی اردو بولنا چاہتا ہے ؟ کیا اردو بولنے والے کو ہندوستانی کا نام نہیں دیتے ہم لوگ ؟ کیا اردو زبان میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ جدید علوم کا ترجمہ کر سکے؟
جی ہاں  آپ کا درد دل آپ کی بات سے چھلکتا ہے ۔ پاکستان میں تحریک نفاذ اردو کے نام سے  تحریک بھرپور انداز میں کام کر رہی ہے اور قانونی طور پر اجراء کا فیصلہ بھی لے چکی ہے لیکن کچھ انگریزوں کے ذہنی غلام جو اپنے بچے پالتے ہی گورا صاب بننے کے لیئے ہیں وہ اسکے عملی نفاذ کی راہ میں سب سے بڑا روڑا ہیں کیونکہ انہیں ہر وقت اپنا بچہ گھوڑے پر سوار گورا صاب دیکھنے کا ارمان ہے اور پاکستانی قوم و  نسل ان کے گھوڑے باندھنے اور رگڑنے والے سائیس کے طور پر چاہیئے ۔ اس  وقت پاکستانیوں کی کمائیوں  کا ستر فیصد اپنے بچے کے منہ میں انگریزی ٹھونسنے اور اسے گورا صاب بنانے کی دوڑ پر خرچ ہو رہا ہے ۔ اور یقین مانیئے دنیا کی ہر زبان کے لفظ  کا ترجمہ کرنے کی صلاحیت اردو زبان   میں بدرجہ اتم موجود ہے ۔ ہم سب اسے غالب کے زمانے کی متروک اردو میں نہ ڈھالیں بلکہ اسے جدید اردو زبان میں (جو کہ رائج الوقت ہے میں) ڈھال کر بہت آسانی سے دنیا بھر کا علم اردو میں منتقل کر سکتے ہیں ۔ آج کمپیوٹر کے زمانے میں ایسا سوال کہ کونسی زبان کس زبان میں ڈھل سکتی ہے ترجمہ ہو سکتی ہے بالکل بچگانہ ہو کر رہ گیا ہے ۔ اصل مسئلہ جو زبان سے منسلک ہے وہ ہے ہماری شناخت اور تہذیب بچانے کا ۔ ۔ ہر زبان اپنی تہذیب آپکو سکھاتی ہے ۔ کوئی بھی زبان زبان کے طور پر سیکھیئے تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن اسے اپنی زندگی کا مقصد بنا کر اپنے گرد آکاس بیل بنا کر لپیٹ لیں گے تو یہ آپ کا سارے کا سارا ورثہ نچوڑ کر پی جائے گی ۔ یعنی گہرائی سے سوچیئے تو قومی  زبان کا نفاذ ہماری نسلوں کی ترقی یا  تباہی کا سوال ہے ۔
ہمارے ملک میں ترقی کے نام پر کمائی کا ستر فیصد حصہ انگریزوں کے نام نہاد پاکستانی  ایجنٹ پاکستانیوں سے نچوڑ رہے ہیں ۔ اور اس کی تہذیبی اور دینی بنیادوں میں انگریزی زبان کے زریعہ ان کی تہذیب کے زہریلے ٹیکے لگائے جا رہے ہیں  اور یہ تمام دولت پاکستان سے باہر  بیرون ملک بھیجی جا رہی ہے ۔ جب تک یہ بیرونی رسد نہیں روکی جائے گی ۔ انگریزی زہر طلب کے نام پر  یونہی بکتا رہیگا ۔ ہماری قوم ہر لحاظ سے تباہ و برباد ہوتی چلی جائے گی اور ہمارے دشمن ہمارا خون چوس چوس کر طاقت حاصل کرتے رہینگے ۔ اخلاقی زوال اور مذہبی تنزلی کی مثالیں ہر روز بلکہ ہر لمحہ ہمارے معاشرے میں ماتم کناں ہیں اور ان سب برائیوں کی جڑ تک جائیں تو اخلاقی اور دینی علوم سے دوری اور دوری کی وجوہات میں سب سے بڑا عذاب  جبری انگزیزی نصاب۔ 
                         ●●●

جمعہ، 22 جنوری، 2021

● تارکین ‏وطن کی ‏جائیداد ‏کے ‏لٹیرے/ ‏کالم ‏



   تارکین وطن کی جائیدادوں پر قبضے 
        (تحریر: ممتازملک.پیرس)



حکومت کی جانب سے تارکین وطن کے 
لیئے فاسٹ ٹریک کے نام سے عدالتی نظام وضح کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ جس کے ذریعے پاکستان میں تارکین وطن کی زمینوں پر ہونے والے قبضے چھڑانے کے لیئے تیس روز کے اندر فیصلہ سازی کو یقینی بنایا جائیگا ۔ یہ قبضے اکثر ان لوگوں کے رشتےداروں یا قبضہ مافیاز کے ذریعے کیئے جاتے ہیں ۔ یا پھر تارکین وطن کی جانب سے جائیدادوں کی فروخت کے لیئے جو بیعانہ وغیرہ لینے کا اختیار کے لیئے مختار نامہ عام دیا جاتا ہے ۔ لیکن افسوس یہی مختار نامہ یا اٹارنی حاصل کرنے والے ہی اس اجازت نامے کو مال مفت دل بیرحم سمجھ کر لوٹنے کا منصوبہ بنا لیتے ہیں۔ کہیں تو وہ ان جائیداوں کو مالک بن کر بیچ ڈالتے ہیں کہیں ان جائیدادوں پر کرائے نامے اپنے نام سے بنوا کر وہ کمائیاں کھانے کا منصوبہ بنا لیتے ہیں اور کہیں وہ انہیں اپنے نام کروا کر مالک بن بیٹھتے ہیں ۔ اور ظلم کی حد تو یہ ہے کہ خصوصی اختیارات میں بھی ان جائیدادوں سے ہونے والی کمائی کا دھیلہ بھی اصل مالک اور تارک وطن تک پہنچنے نہیں دیا جاتا ۔ گویا تارکین وطن وہ گنگا ہے جو ان فراڈیئے قابضین اور دوسروں کے مال پر عیاشی کرنے والے ہڈ حرام پاکستانی عزیزوں رشتے داروں  کے گند دھو دھو کر سیاہ ہو چکی ہے ۔ اس لیئے فاسٹ ٹریک عدالتی نظام جو آجکل اپنی تکمیل اور نفاذ کے آخری مراحل میں ہے تو اس بات پر غور کرتے ہوئے اس کے قوانین بنائے جائیں کہ 
بیشک یہ ایک اچھا اقدام ہو گا لیکن اس فاسٹ ٹریک عدالتی نظام کو صرف زمینوں تک ہی محدود نہ رکھا جائے  بلکہ تارکین وطن کے گھروں اور فلیٹس کے بھی قبضے چھڑائے جائیں ۔ اور مختار نامہ عام دینے کی صورت میں بھی فل اور فائنل فروخت کا حق استعمال کرتے وقت اصل مالک  کو ویڈیو کال کے ذریعے مجسٹریٹ کے سامنے کال پر براہ راست بیان دینے کا پابند کیا جائے  اور تارک وطن مختار نامہ عام یا خاص کال پر مجسٹریٹ کو خود پڑھ کر سنائے اور خود اس کے نام پتہ رابطہ نمبرز بیان کرتے ہوئے اس فروخت کی اجازت دے ۔ ویڈیو کال کی ریکارڈنگ اور سکرین شارٹ کو محفوظ کر کے اس کا عکس اس ڈیل اور مجسٹریٹ کے ریکارڈ کے ساتھ نتھی کیا جائے ۔  تبھی یہ سودا فل اور فائنل ہو اور یہ رقم اصل مالک کے بینک اکاونٹ میں اسی وقت مجسٹریٹ کے سامنے  ٹرانفسر کی جائے اس کے بعد وہ اصل مالک تارک وطن جس کے بھی اکاونٹ میں چاہے 3 روز کے اندر اندر اس رقم کو منتقل کر سکتا ہے ۔ 
اس طرح ہر لمحے اصل مالک تارک وطن اپنی پراپرٹی کی ہر ڈیل میں براہ راست ملوث ہو گا اور بہت زیادہ محفوظ ہو جائے گا ۔ حکومت اس طرح کے مقدمات کو عدالت میں جانے سے روک کر عدالتی  بوجھ کو بھی کم کرنے میں معاون ثابت ہو گی ۔ تارکین وطن میں پاکستان میں زمین جائیداد خریدنے کے رجحان میں  میں تیزی سے کمی آنے کا سبب قابضین کا خوف اور یہی غیر محفوظ کمزور قوانین اور عوامی رویہ ہے جس میں نہ تو ان کی کمائی کو تحفظ حاصل ہے اور نہ ہی گھر بار اور زمینوں کو قبضہ گروپس سے اور رشتےداروں سے ۔ لہذا  ضروری ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا اعتماد بحال کیا جائے اور اس سلسلے میں فوری عملی اقدامات اٹھائے جائیں ۔ بصورت دیگر پاکستانی اپنی گاڑھے خون پسینے کی کمائی پاکستانی ہڈحراموں کے ہاتھوں مزید لٹوانے کو تیار نہیں ہیں ۔ 
                   ●●●

پیر، 26 اکتوبر، 2020

● سیاحتی ‏مقامات ‏کی ‏تباہی / کالم


سیاحتی مقامات کی تباہی
تحریر:(ممتازملک.پیرس)















اگر آپ اسلام آباد جانے کا ارداہ کریں اور وہاں موجود حسین پہاڑی چوٹی کے حسین مقام پیر سوہاوہ نہ جائیں تو آپ کی سیر ادھوری ہے ۔۔ یہ چوٹی آپکے سامنے اسلام آباد اور راولپنڈی کا نظارا جیسے ایک تھال میں رکھ کر پیش کر دیتی ہے۔ 
 کچھ سال پہلے جب ہمارا وہاں جانا ہوا تھا تو اس کی چوٹی پر ایک ڈھابہ اسٹائل کا ریسٹورنٹ تھا جہاں چارپائیاں بچھی ہوتی تھیں   یا پلاسٹک کی میز کرسیاں ۔ اور خلق خدا کا خصوصا فیمیلیز کا  رش تھا جس سے اس مقام کی پسندیدگی کا اندازہ کیا جا سکتا  تھا۔ اس ریسٹورنٹ میں ملنے والا چکن ایک بار کھائیں  تو بار بار اسی  کی لذت میں آپ وہاں جانے   پر مجبور ہو جائیں ۔ اور قیمت بھی انتہائی مناسب۔ وہ نظارہ آپکی یادداشتوں میں ہمیشہ لیئے نقش ہو جاتا تھا ۔ ہر غریب امیر کی یہاں تک رسائی بھی تھی اور یہ سیر اسکی جیب پر اتنی بھاری بھی نہیں تھی ۔ 
اس بار چار پانچ سال بعد 2019ء میں جب وہاں جانے کا موقع ملا تو یہ دیکھ کر شدید  صدمہ پہنچا کہ اس ڈھابے کی جگہ ایک بلند و بالا ریسٹورنٹ تعمیر ہو چکا ہے ۔ ساتھ میں ڈیکوریشن پیسز اور جیولری کے سٹال لگ چکے ہیں ۔ جن کی قیمت ہوشربا تھی ۔ جس قیمت میں وہاں سے بہترین چکن تکہ کھا کر لوگ نکلتے تھے اب اسی قیمت میں اس ہائی فائی ریسٹورنٹ سے آپ چائے بھی نہیں پی سکتے ۔ جس پہاڑی کی چوٹی سے لوگ شہر کا دلکش نظارا کیا کرتے تھے اب وہاں اونچی اونچی دیواریں بنا دی گئی ہیں ۔ نیچے نظارا کرنا بیحد مشکل ہو گیا ہے ۔ ظاہر ہے اس ریسٹورنٹ کا فضلہ اس جگہ سے اسی پہاڑی سے نیچے گرا کر اس کے جنگل اور چھوٹی چھوٹی خوبصورت آبگاہوں کو برباد کر رہا ہے۔ عام آدمی کے اس سیاحتی مقام کو ہائی جیک کر کے اشرافیہ اور دو نمبر مالداروں کا  خصوصی ٹھکانہ بنا دیا گیا ہے ۔ جب کہ ان لوگوں کے لیئے وہاں پہلے سے ہی ایک گیسٹ ہاوس موجود تھا ۔  تو اسے عام آدمی کی پہنچ سے دور کیوں کر دیا گیا ہے ۔ ایک عجیب سے نحوست برستی دکھائی دی وہاں ۔ کوئی رش بھی نہیں تھا۔ ظاہر ہے ڈھائی سو روپے کی چائے کی ایک پیالی  پینے ایک عام آدمی تو فیملی کے ساتھ وہاں جانے سے رہا ۔ 
دوسرا سیاحتی مقام جہاں ہر بار ہمارا جانا ہوتا ہے وہ ہے مالاکنڈ (کے پی کے ) مالاکنڈ کا بڑا بس اڈا بٹخیلہ کی خوبصورت اور زور آور نہر کے کنارے واقع ہے ۔ اس کے پل کے آر پار مارکیٹ اور بازار اب کافی زیادہ بن چکے ہیں ۔ یہ ایک مقامی اہم بس اڈا ہے ۔ یہیں سے ہمیں لوکل طور پر کہیں جانے کے لیئے  جہاں بیس سال پہلے تک  تانگے چلا کرتے تھے وہاں اب چینکچی ،رکشہ ، سوزوکیاں اور پرائیویٹ گاڑیاں بھی مل جاتی ہیں ۔ یہاں کی اچھی بات یہ پرائیویٹ آرام دہ گاڑیاں ہیں جنہیں آپ روک کر پوچھ سکتے ہیں کہ آپ فلاں جگہ تک جا رہے ہیں کیا ؟اگر وہ کہے ہاں تو آپ اس سے کرایہ پوچھ کر بے خطر اس کے ساتھ بیٹھ کر سفر کر سکتے ہیں اور وہ آپ کو باحفاظت آپ کے مطلوبہ مقام پر اتار دیتے ہیں ۔ ویسے تو یہاں کے لوگ بیحد مددگار اورمخلص ہوتے ہیں  لیکن اگر آپ  اکیلے ہیں یا زبان نہیں جانتے تو  ایسا رسک نہ ہی  لیں تو اچھی بات ہے۔ کسی زبان جاننے والے کو ساتھ لے لیں تو بہتر  ہو گا  ۔ یہاں کے اکثر نوجوان لوگ اردو جانتے بولتے اور سمجھتے ہیں ۔ اس نہر کے کنارے قانونی طور پر تعمیرات کی اجازت نہیں تھی لیکن اس بار جو دیکھا وہ بیحد افسوسناک تھا ۔ اس نہر کے ساتھ ساتھ کئی مقامات پر گھر اور ہوٹلز بنا دیئے گئے ہیں جس کا فضلہ اس نہر کی جانب گرایا جا رہا ہے ۔ اگر اسے فوری طور پر نہ روکا گیا تو یقین جانیئے یہ خوبصورت رواں دواں تاریخی نہر  راولپنڈی کے نالہ لئی کی صورت اختیار کر جائے گی ۔ خدا کے لیئے اس جانب توجہ دیجیئے اس نہر اورباقی تمام نہروں  اورندیوں کو نالہ بننے سے بچایئے ۔ دنیا سے سیکھیئے کہ وہ اپنی سیرگاہوں ، نہروں اور آبی گزرگاہوں کی کیسے حفاظت کرتی ہیں ۔ حکومت وقت کو اس پر فوری اقدام لینا چاہیئے ۔۔ایک اور اہم ترین مسئلہ  اسی بٹخیلہ سے جب درگئی کی جانب جانے کے لیئے روانہ ہوتے ہیں تو انخلاء پر ہی اس قدر شدید ٹریفک جام  کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ اس وقت میں باآسانی ایک شہر سے دوسرے شہر تک سفر کیا جا سکتا ہے ۔ اس پر توجہ دیجیئے۔ یہاں ٹریفک سگنلز لگائیے۔ گول چکر بنایئے اور باقاعدہ ٹریفک پولیس تعینات کیجیئے ۔ یہیں سے گزر کر مینگوہ، سوات ، کافرستان اور مالم جبہ کی گزرگاہوں تک پہنچا جاتا ہے اسے نظر انداز کرنا سیاحتی نقطہ نظر سے بھی نقصان دہ ہے بلکہ مقامی آبادیوں کے لیئے بھی باعث آزار ہے ۔ سیاحتی مقامات کے حسن کو بچایئے اور اس کے نزدیک آبادیاں  بنانے اور ہوٹلز کی تعمیرات کو روکنے کے لیئے فوری اقدامات کیجیئے ۔ ورنہ خدانخواستہ  یہ قدرتی نظارے بھی "ہیں" سے "تھے" میں جا کر کھو جائینگے ۔ 
                       ۔۔۔۔۔۔۔

پیر، 14 ستمبر، 2020

● ‏وراثت کے ڈاکو / کالم




         وراثت کے ڈاکو
       (تحریر:ممتازملک.پیرس)



جسے کہو کہ بھائی اولاد کم پیدا کرو اس کی تربیت کرنی پڑتی ہے تو جوابا ایک سیدھے سادھے سامنے نظر آنے والے حال احوال  کے باوجود ہمارے ہاں جاہلانہ بحث کا آغاز کر دیا جاتا ہے ۔  پچیس سال سے میں خود  اسی بات پر دلائل دیتے دیتے عاجز آ چکی ہوں لیکن اکثریت کے بھیجے میں اپنی بات نہ اتار سکی ۔ برسوں سے لکھ لکھ کر تھک چکی ہوں کہ بنا تعلیم تو شاید انسان ہنر کے زور پر زندگی گزار لے لیکن بنا تربیت کے انسان کا معاشرے  میں مقام وہی ہے جو جنگل میں درندوں کا ہوتا ہے ۔ یعنی چیرنا پھاڑنا  اور کھا جانا ۔ 
آج   وہی سب کچھ حرف بحرف سچ ثابت ہو رہا ہے ۔ بچوں کی لائنیں تو لگا لیں لیکن نہ انہیں پیٹ بھر روٹی دے سکے نہ ہی کوئی آسائش اور ویسے بھی ہمارے ہاں بچے محبت سے نہیں بلکہ ایک دوسرے پر اپنا غصہ نکالنے کے لیئے پیدا کیئے جاتے ہیں ۔ عورت سمجھتی ہے کہ وہ اپنے مرد کو اس بوجھ کے نیچے دبا رہی ہے اور وہ اس سے بھاگ خر کہیں نہیں جا سکتا  اور مرد سمجھتا ہے کہ وہ اولاد کی لائنیں لگا کر اپنی عورت کی مت مار رہا ہے تاکہ اسے کچھ اور سوچنے سمجھنے کی سدھ بدھ ہی نہ رہے اور وہ جو گل چاہے کھلاتا ۔ نتیجتا دونوں ہی اپنے گھر میں آج کی نسل کی صورت جنگلی درندوں کا جھنڈ پروان چڑھا رہے ہیں ۔ ایسے سانپ پال رہے ہیں جو انکو ہی ڈس کر خود کو زندہ رکھنا جانتے ہیں ۔ کیونکہ اسکے سوا  وہ خود رو جھاڑ جھنکار  اور درندے کسی سے کچھ سیکھ ہی نہیں سکے ۔ 
والدین کے خون پسینے کے مال پر نظریں گاڑے گھر کے ڈاکو ۔ انکی اپنی اولادیں ۔ والدین کے آپسی جھگڑوں اور جہالتوں نے  وہ نفسیاتی مریض اولادیں پیدا کی ہیں ۔ جنہیں نہ تو ڈھنگ کی تعلیم ملی اور نہ ہی باحیا باادب گھر کا ماحول ملا ' نہ ہی والدین خصوصا ماں کی جانب سے کوئی بھی تربیت ملی تو ایسے میں ہم نے جو جنگلی جانور اپنے ہی گھروں میں پروان چڑھا لیئے تو اس کا انجام وہی ہونا تھا جو آج گلی گلی دکھائی دے رہا ہے ۔ اولادیں والدین سے ایسے بات کرتی ہیں جیسے کبھی کوئی اپنے ملازم سے بھی بات نہیں کرتا تھا ۔ اور تو اور والدین سے مارپیٹ اور اب تو انکے قتل کی وارداتیں بھی روزمرہ کا معمول بنتی جا رہیں ۔  
 والدین کے مال پر اولادیں یوں نظریں گاڑے بیٹھی ہیں جیسے ان کو پیدا کرنا ان کے والدین کا حقیقی جرم ہے جس کا تاوان انہیں ہر صورت ادا کرنا ہے ۔ جیسے یہ اولاد نہ ہو بلکہ "نکال دو جو کچھ تمہارے پاس ہے " کہہ کر لوٹ لینے والے ڈاکو ہوں ۔ 
ہمارے ہاں بگڑتا اور تباہ ہوتا ہوا سماجی ڈھانچہ شدت سے اس بات کا متقاضی ہے کہ جائیداد کے لیئے وراثت کے قوانین میں فوری اور قابل عمل تبدیلیاں لائی  جائیں  ۔ ان قوانین کو بہت آسان ، اور قابل عمل ہونا چاہیئے ۔ والدین ساری عمر کی محنت شاقہ کے بعد سر پر ایک چھت یا پیروں کے نیچے زمین بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔ اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر اپنی اولاد پالتے اور جوان کرتے ہیں کہ کل کو وہ ہماری عزت اور گھر بار میں اضافے کا باعث بنیں گے لیکن ان  کمزور اور بوسیدہ قوانین کے طفیل گھر گھر یہ ہی جائیداد اور گھر بار اولادوں کی جوانیوں کے بھینٹ چڑھنے لگا ہے ۔ جہاں دیکھیں  والدین اپنے ہی گھر کی چھت کے لیئے اپنی ہی کم بخت اولادوں کے ہاتھوں قتل ہو رہے ہیں ۔ کہیں گھروں سے نکالے جا رہے ہیں ۔اپنے ہی والدین کے گھروں پر قبضے کے لیئے کیا بہن اور کیا ہی بھائی، ہر ایک گھات لگائے  والدین کی موت کے لیئے منصوبے بنائے بیٹھے ہیں ۔  کہاں کے مسلمان اور کہاں کی اخلاقیات ۔ ہم میں تو اتنی غیرت بھی باقی نہیں بچی کہ اگر ہم شادی کر کے اپنے گھر میں اپنے لیئے جگہ کم سمجھتے ہیں یا ہمیں  پردہ اور پرائیویسی کا مسئلہ ہے تو جائیں جا کر کہیں کرائے پر گھر یا کمرہ لیں اور الگ سے اپنی زندگی کا آغاز کریں 
 لیکن کہاں جناب پھر ہمیں ہمارا "حصہ " کیسے ملے گا ۔ کون سا حصہ ؟ وہی حصہ  جو ہم نے اس ماں کی کوکھ سے پیدا ہو کر اس باپ کے نام سے اپنے نام پیدائشی لمحے میں ہی محفوظ کروا لیا تھا ۔۔۔
 کہیں وہ باقی بہن بھائیوں کے قبضے میں نہ چلا جائے ۔ پھر کون سالہا سال عدالتوں میں دیوانی مقدمات میں دیوانہ ہوتا پھرے گا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ شرعی حصے کو کسی بھی قیمت پر کوئی  بھی بہن یا بھائی ضبط نہ کر سکے ۔ اور والدین کسی مخصوص اولاد کو لاڈلا یا لاڈلی بنا کر اس کی جیب  بھرنے کے چکر میں باقی اولادوں کو بھی اپنا دشمن نہ بنا بیٹھیں ۔اور ایک ایسا قانون ہونا چاہیئے جس میں اگر اولادیں نافرمان نکلیں یا والدین ان کے خلاف اپنے کونسلر کے پاس یا تھانے میں شکایت درج کروائیں تو اسے پوری سنجیدگی سے لیا جائے ۔ 24 گھنٹے کے اندر اس پر نوٹس لیا جانا چاہیئے اور اس کی انکوائری غیر جانبدار اور نیک نام لوگوں سے کروائی جائے جسے وہ والدین بخوشی قبول کریں اور ایسی اولادوں کو اس گھر سے فورا بیدخل کر دیا جائے اور ان والدین میں سے کسی ایک کی موت بھی مشکوک ہو تو اسی نافرمان اولاد کو سب سے پہلے گرفتار کیا جائے اور ان پر سخت  کاروائی کی جائے ۔ تاکہ باقی لوگوں کو عبرت حاصل ہو ۔ 
شادی شدہ اولاد کو الگ رہنے کا حکم دیا جائے ۔ والدین جسے چاہیں (اپنی اولاد کے سوا بھی) اپنی جائیداد اس کے نام کر سکیں کیونکہ یہ ان کی کمائی ہے یہ ان کا حق ہے کہ وہ اس جائیداد کو کیسے استعمال کریں  ۔ اولاد کو اس پر اعتراض کا کوئی حق حاصل نہیں ہونا چاہیئے ۔ 
صرف یہی ایک طریقہ ہے جس کی وجہ سے اگر اولاد والدین سے کسی فائدے کا لالچ دیکھتی ہے تو اسے اپنے والدین کیساتھ حسن سلواک بھی کرنا ہو گا ۔ تاکہ وہ انکے  گھر میں نہیں بلکہ  انکی نظر  میں رہیں ۔ سکولوں اور مساجد میں بچوں کو ہر روز خاص طور پر حسن اخلاق پر تربیتی سبق دیا جائے ۔
انہیں ذہن نشیں کروایا جائے کہ نیکیاں ہی ہماری آخرت کا توشہ ہیں اور یہ نیکی اسی وقت تک نیکی رہتی ہے جب تک اس میں لالچ کا زہر نہ گھولا جائے۔ 
                          ●●●


منگل، 11 اگست، 2020

خودمختار ‏کشمیر ‏ایک ‏فتنہ




      دنیا کی سب سے بڑی جیل 
             ہائے میرا کشمیر 


تاریخ گواہ ہے کہ برصغیر کی تقسیم اسی فارمولے پر ہوئی تھی کہ جن علاقوں میں ہندو اکثریت ہے وہ بھارت میں شامل ہونگے اور مسلم اکثریت کے علاقے پاکستان کا حصہ ہونگے۔ لیکن اس واضح  اصول کے باوجود بھارتی لیڈران نے اندرونی سازباز کے ذریعے کئی مسلم علاقوں پر جبری قبضہ کیا یا ان علاقوں کی عوام سے حق رائے دہی (ووٹنگ)  کو غضب کرتے ہوئے وہاں کے حکمرانوں سے کوڑیوں کے بھاو انسانی زندگیوں اور ان کی سرزمین کا  سودا کیا ۔ اسی کے تحت حیدر آباد ، جونا گڑھ ، بہار ، یوپی ، سی پی ، گجرات اور بہت سے علاقے جو قانونی اخلاقی مذہبی ہر لحاظ سے پاکستان کا حصہ تھے ، لیکن بھارتی ساز باز نے ان علاقوں کو دھمکا کر  یا خرید  کر یا جبرا اپنے قبضے میں لے لیا اور  اس  سے بڑی بے ایمانی  کشمیر کے حکمران کیساتھ مل کر کشمیریوں کی غیر انسانی خریدوفروخت جیسے شرمناک عمل سے کی گئی ۔ کشمیر کا کچھ حصہ ہمارے قبائلی جوانوں کی بہادری سے آذاد کشمیر  کے نام سےحاصل کر لیا گیا لیکن فوجی اسباب  کی کمی کی وجہ سے وہاں بڑی جنگ کے وسائل نہ ہونے کے سبب باقی موجودہ  مقبوضہ جموں و کشمیر پر بھارتی افواج اتار کر اس علاقے پر قبضہ کر لیا گیا ۔ جسے 5 اگست 2019ء کو اس کے ساری انسانی حقوق غصب کرتے ہوئے دنیا کی سب سے بڑی جیل بنا دیا گیا ۔ 
کشمیر کا مسئلہ دنیا بھر کے لیئے تباہی کی ایک گھنٹی ہے جو موقع موقع پر بجائی تو جاتی ہے لیکن اس کے بعد پھر سے ایک معنی خیز خاموشی چھا جاتی ہے ۔  آخر کیا وجہ ہے کہ ستر سال سے اپنی جان مال عزتوں کی بے مثال قربانیوں کی تاریخ رقم کرنے والی کشمیری قوم اپنا حق رائے دہی حاصل نہیں کر سکی ۔ اس علاقے کی قسمت کا فیصلہ اس کی عوام کے ہاتھوں نہ ہو سکا ؟ 
وجہ وہی ہے جودنیا میں ایسی تحریکوں کی ناکامی میں نظر آتی ہے یعنی ان کے رہنماوں میں شامل وہ کالی بھیریں جو آئے دن اپنے ضمیر کا سودا کر کے خود تو عیاشی کر تے  ہیں لیکن آذادی کی تحریکوں میں کیڑے کی طرح لگ جاتے ہیں ۔ روز ایک نیا شوشہ چھوڑتے ہیں اور بنتی بنتی رائے عامہ کو سبوتاژ کر دیتے ہیں ۔ اپنے سینے پر پاکستان کا پرچم لپیٹ  کر آسودہ خاک ہو جاتے ہیں  اور یہ بے ضمیر کالی بھیڑیں ان
 جوانوں کا خون  نالیوں میں بہا دیتے ہیں ۔ عزتوں کے لٹیروں کے ہاتھ مضبوط کر دیتے ہیں ۔ کشمیر میں بھی پاکستان یا بھارت کیساتھ الحاق کے بنیادی اصول کیخلاف ایسے ہی رہنماوں کی زہر فشانیاں عالمی تناظر میں اس کیس کو نہ مضبوط ہونے دیتی ہیں اور نہ ہی  سنجیدگی اختیار کرنے دیتی ہیں ۔ اسی لیئے یہ مسئلہ تصفیہ طلب ہی رکھا جا رہا ہے ۔ اس کے قصور وار اسی سرزمین سے تعلق کی دعوے داری کرنے والے یہی شرپسند نام نہاد رہنما ہیں ۔ جو خود تو کشمیر سے باہر رہ کر دنیا بھر کی نعمتوں سے مستفید ہوتے ہیں لیکن سال میں دو چار بار اس کی پستی ہوئی کشمیری عوام کی تحریکوں کی جڑوں میں زہر ڈالنے کے لیئے منظر پر آ موجود ہوتے ہیں ۔  جبکہ نہ تو کشمیر کے لیئے ہونے والے کسی مظاہرے میں ان کی اولادیں شامل ہوتی ہیں اور نہ ہی۔ان کے گھروں کی خواتین ۔ ان کے لیئے کشمیری مظاہرے کا دن گھروں میں دعوتوں اور پکنک کا دن ہوتا ہے ۔ ایسے مواقع پر مظاہروں میں اگر پاکستانی خواتین کسی کی جانب سے مدعو کرنے یا درخواست کرنے پر آ بھی جائیں تو ان جلسوں میں شامل بیہودہ چھڑے چھانٹ نوجوان ان پر اشارے بازیاں کرتے ہیں ۔ان کی کردار کشی کی جاتی ہیں اور  جانے کیا کیا زہر اگلا جاتا ہے ۔ کیونکہ خود انکے ساتھ انکے اپنے گھر کی خواتین موجود نہیں ہوتیں اور وہ دوسروں کی خواتین ان کے لیئے تماشے کا سامان ہوتی ہیں ۔ انکے یہاں آنے کا مقصد انہیں دکھائی نہیں دیتا جس کے سبب ان کی زیادہ عزت کی جائے کہ وہ اپنے تمام ضروری کام چھوڑ کر اپنے بچوں کو اس مقصد کے لیئے تحریک دلا کر یہاں تک ساتھ لیکر آئی ہیں ۔ 
لیکن یاد رکھیئے دنیا کی ایسی کوئی تحریک کبھی نہ تو  کامیاب ہوئی ہے نہ ہی ہو سکتی ہے جس میں اس کے اپنے رہنماوں کی گھر کی عورتیں ان کے ساتھ نہ کھڑی ہوں ۔ اپنے گھر کہ خواتین کو اپنی ہی تحریک سے الگ کر دینے کا مطلب ہے کہ آپ نے اپنی ہی تحریک کا آدھا بدن مفلوج کر لیا ۔ اب آپ گھسٹ سکتے ہیں کامیاب کبھی نہیں ہو سکتے ۔ 
کشمیر کے لیئے ایک شرپسندانہ نعرہ جسے ہوا دی جا رہی ہے وہ ہے خودمختار کشمیر ۔  جبکہ کشمیر کا محل وقوع، آبادی ، اور دیگر عوامل اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ 
خودمختار کشمیر علاقے کا ایک بہت بڑا فتنہ بن جائے گا ۔  اسکی حیثیت خطے میں ایک بلیک میلنگ پوائنٹ سے زیادہ  ہر گز نہیں ہوگی ۔ بڑی طاقتیں اسے اپنے اڈے کے طور استعمال کرتے ہوئے دنیا کے لیئے ایک بڑا فتنہ بنا دینگی ۔ خود کشمیریوں کا وجود اور نسل خطرے میں پڑ جائے گی ۔ انکی آمدنی کو محظ سیاحت اور قالین بافی سے منسلک کرنا ایسا ہی ہے جیسے کسی مریض کو علاج کے بجائے خود ساختہ طور پر آکسیجن کے سلنڈر پر تمام عمر گزارنے کا مشورہ دیدیا جائے۔ ایسے مشیران اور رہنما ہی کشمیریوں کے سب سے بڑے دشمن ہیں ۔  
 کشمیریوں کو حق رائے دہی ضرور ملنا چاہیئے اسی طرح جس طرح تقسیم ہند کے وقت ریاستوں کے لیئے اصول وضح کیا گیا تھا ۔ جس کی رو سے وہ  تمام علاقے جو مسلم اکثریتی ہیں، پاکستان کا حصہ ہونگے جبکہ تمام ہندو اکثریتی علاقے بھارت کا حصہ ہونگے ۔ اسی اصول کے تحت  کشمیر کو پاکستان کا لازمی حصہ سمجھتے ہوئے پاکستان 73 سال سے بھارت جیسے مکار دشمن کیساتھ حالت جنگ میں ہے ۔ کشمیری  ووٹ کے ذریعے   پاکستان یا بھارت میں سے جس  بھی ملک کیساتھ شامل ہونا چاہیں ہو سکتے ہیں ۔ 
لیکن 5 اگست 2019ء کی بھارتی جآرحیت اور سازش کے بعد وہاں جس طرح سے مسلم کشی کی جا رہی ہے ، وہاں کی زمینوں کو غیر کشمیوں کی ملکیت بنایا جا رہا ہے اور غیر کشمیریوں کو وہاں جبرا آباد کیا جا رہا ہے ۔اس کے بعد اب اس حق رائے دہی کے لیئے مذید مضبوط مقدمے کی ضرورت ہے جس میں 5 اگست 2019ء سے پہلے سے یہاں آباد کشمیریوں کو ہی اس علاقے کے فیصلے کی لیئے ووٹ کا حق دیا جائے اور انہیں کا فیصلہ آخری ہونا چاہیئے ۔ مصنوعی کشمیریوں کو کبھی بطور ووٹر قبول نہیں کیا جا سکتا ۔ ایسا ہونا کشمیریوں کے خون اور لٹی ہوئی عزتوں کیساتھ کھلی غداری ہو گا ۔۔اور سچا کشمیری کبھی غدار نہیں ہو سکتا 
                   ۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات، 2 جولائی، 2020

سچے ‏ساتھی ‏کی ‏تلاش/ کالم


           سچے ساتھی کی تلاش
                (تحریر: ممتازملک.پیرس) 

کچھ عرصہ پہلے تک یا دو تین دہائیوں پہلے تک ہمارے ہاں یہ رنگ برنگی دوستیاں،  مرد و زن کا دوستیوں کے نام پر بے حجابانہ میل ملاپ ، تنہائی میں کہیں بھی کسی کے بھی ساتھ منہ اٹھا کر ملنے چل دینا ۔۔۔ ان سب چیزوں کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا ۔ (جو نہ صرف اسلامی اصولوں  کے خلاف ہیں بلکہ ہمارے معاشرتی اور اخلاقی تقاضوں کا بھی مذاق ہیں ۔)یہ سب بیماریاں اور رویئے ایلیٹ کلاس کے چونچلے اور بدنامیاں سمجھے جاتے تھے ۔ 
لیکن آج وقت نے ایسی کروٹ لی کہ اعتماد کے نام پر کچھ تو والدین نے اولادوں (خواہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں )کو کھلی چھوٹ دیدی کہ ان کے گھر آنے جانے کا کوئی وقت مخصوص نہ رہا اور وہ خود کو والدین کے سامنے جوابدہی سے مبرا سمجھنے لگے  تو وہیں ان کے باہر کے ماحول نے انہیں گھر میں  والدین پر حکم چلانے والا وہ آقا بنا دیا جس نے قیامت کی اس نشانی کو پورا کر دیا جس میں ہمیں خبردار کیا گیا تھا کہ 
"قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک لونڈی اپنی مالکن کو جن نہ لے۔" ۔۔ 
مطلب اولادیں اپنے والدین کے ساتھ ملازموں والا برتاو کرنا شروع نہ کر دیں ۔ 
اسی بے مہار آذادی میں جب اپنے والدین کو ہم اپنا مخلص رازدار ہی نہیں سمجھتے ۔ نہ ہم انہیں عقل والوں میں شامل کرتے ہیں ۔ عجیب بات ہے نا کہ عقل کل تو ہم خود ہی ہو چکے ہوتے ہیں  لیکن جن والدین  کی ہم پیداوار ہیں  انہیں کو دنیا کے سب سے بیوقوف اور جاہل انسان سمجھنے لگتے ہیں اور یوں  سچے دوست کی تلاش کا ایک سراب نما سفر شروع ہو جاتا ہے جہاں  ہر نخلستان پر پہنچ کر معلوم ہوتا ہے کہ نہیں یہ تو سراب تھا یا اس سے بھی اچھا کوئی اور ہو یا پھر یہ تو میرے معیار کا نہیں ۔ 
کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ
"دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا"
دوستیاں پالنے والا انسان کبھی غیر جانبدار نہیں رہ سکتا ۔ وہ کسی نہ کسی جگہ کسی ایک کے پلڑے میں ناجائز طور پر جھک ہی جاتا ہے ۔ اس لیئے وہ اکثر ایماندار بھی نہیں رہتا ۔ سچا دوست ڈھونڈنے کے بجائے عزت کیساتھ اپنے لیئے زندگی کا ہمیشہ کا ساتھی چنیئے ۔ 
اپنے آپ کو ان دوستیوں کے عذاب سے نکالیئے ۔ سب کیساتھ اسی حد تک تعلق رکھیئے جس حد تک اس تعلق کی حقیقی جگہ ہے۔ 
اپنے لیئے کسی سچے ساتھی کی ضرورت ہے  تو عزت کیساتھ شادی کر لیجئے ۔ میاں بیوی کو اللہ پاک نے ایکدوسرے کا لباس قرار دیا ہے  ۔ کیونکہ ان میں سے کسی بھی ایک کا فائدہ دونوں کا فائدہ اور نقصان بھی دونوں کا برابر کا نقصان ہوتا ہے ۔ اس سے زیادہ اور کوئی رشتہ وفادار نہیں ہو سکتا ۔ 
(چند ناکام لوگوں کو چھوڑ کر )
اکثر لوگوں کو پرانے افیئرز اور دوستیاں مستقبل میں ڈراونے خواب لگنے لگتے ہیں ۔ اس لیئے خود کو اس حد تک کبھی گرنے مت دیں کہ آئندہ آپکو پرانے رشتوں یا دوستوں کے ہاتھوں بلیک میل ہونا پڑے ۔ اور شرمساری اٹھانی پڑے ۔
رہ گئی بات پرانے لوگوں کی (جن سے آپ کے کبھی افیئرز  رہے تھے) انکے سامنے آنے پر ان سے کیسا رویہ رکھنے کی،  تو انہیں ہمیشہ اسی طرح ملیئے جیسے آپ سبھی عام لوگوں سے ملتے ہیں ۔ کیونکہ وہ اگر آپ کے لیئے اب بدنامی کا باعث ہو سکتے ہیں تو آپ بھی انکے لیئے اتنے ہی زہریلے اور بدنامی کا باعث بن سکتے ہیں ۔ لہذا دونوں جانب سے اپنی عزت اپنے ہاتھ ہی رہنی چاہیئے ۔ جس بات پر اللہ نے پردہ اور وقت نے مٹی ڈال دی ہے تو آپ بھی ان گڑھے مردوں کو خوامخواہ اکھاڑنے کی کوشش مت کریں ۔ 
جب آپ ان کے لیئے خاص نہیں رہے تو آپ انہیں اپنے دماغ پر کیوں مسلط رکھنا چاہتے ہیں ۔
پرانی غلطیوں اور بیوقوفیوں پر اللہ سے معافی طلب کیجیئے اور خود کو اللہ کے احکامات کی جانب متوجہ کیجیئے۔ وہی ہمیں بہترین راستہ دکھانے والا ہے ۔ وہی ہمارا سچا دوست ہے ۔ 
                     ۔۔۔۔۔۔۔


منگل، 26 مئی، 2020

مسافر ‏جا ‏چکے ‏ہیں ‏/ کالم



     مسافر جا چکے ہیں
     (تحریر:ممتازملک.پیرس)



زمین سے چند سیکنڈ کی دوری پر ، اپنے گھروں کے دروازے پر کھڑے پیاروں کی نگاہوں میں عمر بھر کا انتظار سونپ کر جانے والے جو اب کبھی واپس نہیں آئینگے ۔
کتنی بار دردو پاک کا ورد ہوا ہو گا ۔۔ کتنے استغفار گونجے ہونگے ۔۔
کتنی چیخیں بلند ہوئی ہونگی ۔۔
اور پھر سب کچھ ایک دھماکے کیساتھ خاموش ہو گیا ہو گا ۔ اللہ کو ان سب کا اپنے گھروں تک پہنچنا منظور نہ تھا ۔ یہ سفر ان سب کے لیئے سفر آخر ٹہرا ۔ زندگی کی ڈور بس یہیں تک تھی ۔ نہ اس سے پہلے نہ اس کے بعد ۔ ہم اپنی موت کی گھڑی سے بے خبر اپنی اپنی دوڑ میں انجام سے بےخبر دوڑے چلے جاتے ہیں ۔ اور اچانک ہی زندگی کا میدان ختم ہو جاتا ہے اور موت کی کھائی ہمیں نگل لیتی ہے ۔ 
پی آئی اے دنیا کی وہ فضائی کمپنی ہے جس نے پہلے دنیا بھر کی کامیاب  ائیر لائنز کو بہترین عملے تیار کر کے دیئے ۔ اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے ۔ پھر اس کامیاب ترین ائیر لائن کو اپنوں کی کرپشن کی دیمک لگ گئی ۔ جو اس کمپنی کی ایک ایک چیز اور خدمات کو بری طرح سے چاٹ گئی ۔ ہم نے اپنے کالمز میں پہلے بھی پی آئی اے کے پھٹے پرانے جہازوں اور اس کےعملے کی  بدترین "خدمات " کا بارہا ذکر کیا ہے جو کہ اس کے مسافروں کو ہر بار جھیلنا پڑتے ہیں۔ 
ہمارے پائیلٹس دنیا کے بہترین پائلٹس تھے اور ہیں ۔ جن میں سے اکثریت کے پاس باقاعدہ پائلٹس کی تربیت اور تعلیمی اسناد بھی نہیں ہوتیں ۔ ( یہ ہم نہیں کہتے کچھ عرصہ قبل شائع ہونیوالے ایک رپورٹ میں درج تھا)  
یہ جانے والے مسافر اور اس سے قبل جہاز کی تباہی میں شہید ہونے والے تمام مسافر وہی تھے ، جنہوں نے اپنے اسی پائلٹ کیساتھ پہلے بھی کئی بار سفر کیا ہو گا ۔ کئی بار پرسکون ہوائی سفر کیا ہو گا ۔ جہاز کے کامیابی سے زمین کو چھولینے پر شاباشی کے لیئے تالیاں بھی بجائی ہونگی۔ 
آج بھی اپنے گھروں سے پورے اعتماد کیساتھ اس جہاز کی ٹکٹ اپنے دستی بیگز میں رکھتے ہوئے  ایک بار مسکرا کر سوچا ہو گا کہ چلو ایک بار پھر آیت الکرسی پڑھتے ہوئے پی آئی ائے کی سیڑھیاں چڑھتے ہیں دیکھو منزل پر سلامت گھر پہنچتے ہیں یا پھر اخبار کی سرخیوں پر سفر کرتے ہوئے پہنچتے ہیں ۔ اس کمپنی کا کوئی ملازم غریب نہیں ہے۔ لوڈر سے لیکر مینیجنگ ڈائیریکٹر تک ۔ سبھی دونوں ہاتھوں سے اس کمپنی کی بوغیاں نوچتے ہیں اور ہڈیاں چباتے ہیں  لیکن یہ کمپنی آج غریب ترین کی جا چکی ہے ۔ جس ہانڈی میں سے سالن پہلے ہی چرا لیا جائے تو وہ کبھی کسی کو پوری نہیں پڑتی ۔ یہ ہی حال پی آئی اے کی دیگ کیساتھ ہوا۔  دودھ کی دیگ تھی اور بلوں کو رکھوالی ۔ پھر اس کے ساتھ وہی ہوا جو ایسے میں ہوا کرتا ہے ۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی  تحقیقات کے نام پر کچھ اور بلے دودھ کی رکھوالی پر بٹھائے جائینگے اور ہر بار کی طرح اس بار بھی وہ تحقیقاتی ڈرامہ رپورٹ کسی اندھیرے کنویں میں پھینک دی جائے گی ۔ جس بات کو لوگوں کے غضب سے نکالنا  ہو اس کی انکوائری کا اعلان کر دیجیئے ۔ عوام ٹھنڈے تو انکوائری بھی ٹھنڈی ۔۔
اس ائیر لائن پر ترس کھائیے ۔ کیا مشکل ہے ایماندار ارباب اختیارات کے لیئے کہ  اسے نوچنے کھسوٹنے والوں کے مال اسباب جائیدادیں ضبط کی جائیں  اور اس ائیر لائن کے نئے بہترین بیں الاقوامی میعار کے جہاز خریدے جائیں ۔ عملے کو  مسافروں کے ساتھ  پیش آنے کی باقاعدہ تربیت دی جائے ۔ غیر ضروری عملے کو فارغ کر کے ان مالی وسائل کو دوسرے ضروری اخراجات پر لگایا جائے۔ سیاسی بھرتیاں بند کی جائیں ۔ میرٹ پر بھرتیاں یقینی بنائی جائیں ۔  جانے والے تو واپس تو نہیں آئینگے ۔ لیکن آئندہ ایسے حادثات سے بچنے کے لیئے عملی اقدامات کیئے جائیں تاکہ عوام کا اعتماد اس ائیر لائن پر بحال ہو سکے ۔ 
                     ۔۔۔۔۔۔۔۔



ہفتہ، 30 مئی، 2015

● (4) زندہ قبریں/ کالم ۔ سچ تو یہ ہے



(خاص تحریر ماؤوں کے دن کے حوالے سے)
گھریلو معاملہ؟ 
پرتشدد گھر/
 زندہ قبریں
ممتاز ملک .پیرس



        (4) (پرتشدد گھر) 
                 زندہ قبریں 


ہمارے ہاں 80 فیصد خواتین گھروں میں اپنے ہی گھر والوں کے ہاتھوں تشدد کا 
شکار ہوتی ہیں یہ بات ایک پروگرام میں سنتے ہی دل میں ایک پرانی یاد کا درد 
اٹھا۔ اس وقت میں شاید سکول کی دسویں کلاس میں تھی بہت زیادہ جوشیلی بھی تھی حاضر جواب بھی اور بلا کی جنرل نالج کہ ہر ایک لاجواب ہو جائے۔ اسی لیئے ہر ایک کے پھڈے میں ٹانگ اڑانا ہمارا خاص شغف تھا . چاہے اس کے بدلے گھر والوں سے اپنی کتنی بھی خاطر کروانی پڑ جائے. انہیں  دنوں ایک جاننے والی خاتون کو آئے دن اپنے شوہر کے ہاتھوں اکثر پٹتے دیکھتی تھی مجھے اس بات کی اس وقت سمجھ نہیں آتی تھی کہ یہ خاتون بیٹوں کی ماں ہو کر بھی ہر خوبی رکھتے ہوئے بھی اس سانڈ نما شوہر سے کیوں پٹتی ہیں. کیوں اسے گھما کر ایک ہاتھ رسید نہیں کرتی ،کیوں اس کے دانت نہیں توڑتی بے. کم عمری میں جب عملی زندگی کے تجربات بھی رہنما نہ ہوں تو ایسے سوالات صرف پریشان ہی کرتے ہیں. لیکن ہر بات کی ایک حد ہوتی ہے. اس کا شوہر مارپیٹ میں یہ تک بھول جاتا تھا کہ وہ یہ وار ایک گوشت پوست کی بنی کمزور عورت پر کر رہا ہے یا کسی دیوار پر . خاص بات یہ کے اس مار پیٹ کی وجہ کوئی بڑی بات ہونا بھی ضروری نہیں تھا. کبھی اس بات پر پیٹ دیا کہ سبزی والے سے سبزی لیتے ہوئے بات کیوں کی۔ دودہ والے نے تمہاری آواز کیوں سنی . میرے آتے ہی دروازہ کیوں نہیں کھلا۔ رونی صورت کیوں بنا رکھی ہے ، تیری ماں مر گئی ہے کیا؟ 
ہنس کیوں رہی ہو تیری ماں کا بیاہ ہے کیا؟ 
کھانا میز پر پہلے سے کیوں نہیں لگادیا؟
یا پہلے کھانا کیوں لگا دیا ، یہ تو ٹھنڈا ہو گیا ؟ 
آج فل فرآئی انڈا بنانا تھا ہاف فرائی کیوں بنادیا ؟ 
افوہ ہاف فرائی انڈا کیوں بنایا ہے ؟ 
گلاس میں پانی آدھا کیوں ڈالا ؟ 
گلاس پورا کیوں بھرا، پانی ضائع کرتی ہو؟ یہ سب جان کر آپ کو بھی لگے گا کہ 
ایسی باتوں پر جھگڑنے والا یقینا کوئی ذہنی مریض ہی ہو سکتاہے کوئی نارمل 
آدمی تو یہ سب کبھی نہیں کریگا . 
ہم بھی یہ سب دیکھتے ہوئی اس خاتون کی مدد کا ارادہ کر بیٹھے . اس خاتون کی رام کتھا اور اس پر ہونے والے ظالمانہ تشدد کی رپوٹ ہم نے اس وقت کے ایک 
ادارہ کو(جس کا ان دنوں گھریلو مظالم سے بچانے کے لیئے نام لیا جاتا تھا .) 
بھجوا دیا کہ اس خاتون کو کوئی قانونی تحفظ حاصل ہو سکے اور سرکار اس 
خاتون کے ظالم شوہر کا مزاج ٹھیک کر سکے. بڑے دنوں کے انتظار کے بعد 
آخر کو اس ادارے کی جانب سے ایک دو لائن کا جواب موصول ہوا کہ یہ ایک 
گھریلو معاملہ ہے اور ہم اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتے. یہ سن کر وہ 
خاتون زاروزار روئی اور بولی بیٹا میں نے کہاتھا نا کہ یہ ساری کتابی باتیں ہیں، 
کتابوں میں ہی ہوتی ہیں، مجھ جیسی عام سی گھریلو عورت کو بچانے کے لیئے 
کوئی پاکستانی قانون نہیں آئے گا ،مجھے بچا کر کس کے کندھے کے پھو ل بڑھ 
جائیں گے یا کس کو کون سی بڑی منسٹری مل جائےگی. ہمیں تو ہمارے ماں ماپ 
اس لیئے بیاہ دینے کے بعد ملنے نہیں آتے کہ کہیں شوہر سے لڑ کر ان کا آسرا لینے بیٹی ان کے ساتھ ہی نہ چل پڑے۔ میں نے اسی آدمی کے ہاتھوں مار کھاتے کھاتے مر جانا ہے اور میں سوچنے لگی کہ اسی گھریلو تشدد میں جب کوئی بھی کسی کے ہاتھوں قتل ہو جاتا ہے تو پولیس اور قانون کس منہ سے ٹھیکیدار بن کر آ جاتے ہیں۔ صرف اپنی جیبیں گرم کرنے کے لیئے، جہاں کبھی لاش ضبط کر کے پیسہ بنایا جاتا ہے، کبھی پوسٹ مارٹم کے نام پر تو کبھی خود کشی ظاہر کرنے کے لیئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جاتا ہے کیوں؟ تب بھی تو یہ ایک گھریلو معاملہ ہی تھا۔ آخر یہ گھریلو معاملہ کی پاکستانی قانون میں وضاحت ہے کیا؟ 
آج اتنے سال گزرنے پر بھی میں اسی سوال پر کھڑی ہوں اور اس واقعہ کے چند سال بعد میں نے دیکھا کہ اس کا حسین وجود ایک کمزور بدرنگ سی شے کی طرح ایک کفن میں لپٹا جنازے کی صورت رواں تھا اور اسکی ادھ کھلی آنکھیں جیسے مجھے کہہ رہی ہوں کہ دیکھا میں نے کہا تھا نا 
کہ کوئی پاکستانی قانون کسی عام سی پاکستانی عورت کا بنا کسی مفاد کے کبھی کوئی بھلا کرنے نہیں آئے گا . ان مردہ نظروں میں کچھ ایسا تھا کہ میں اس سے زندہ نظریں بھی نہ ملا سکی اورشرمندگی اور صدمے کے مارے بیساختہ میری 
آنکھ سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی ۔ 
                          ●●●
          تحریر: ممتازملک.پیرس
      مجموعہ مضامین: سچ تو یہ ہے 
                    اشاعت: 2016ء
                          ●●●


ہفتہ، 20 اکتوبر، 2012

● (1) میں اور میرے نبی ص/ کالم ۔ سچ تو یہ ہے

 
(1)  میں اور میرے نبی

        صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

               تحریر۔ ممّتازملک۔پیرس 


میلاد کا مہینہ آن پہنچا ۔ہم سب کوایک بار پھر سے یہ یاد دلانے کہ ایک مسلمان کی حیثیت سے ہم اپنے آپ کو کردارکےایک ایسے آئینے میں دیکھ کر اپنا جائزہ لیں کہ ہم سب ایمان کی کس سیڑھی پر کھڑے ہیں آیا ہم ابھی اسی وقت ربِ کعبہ کے حضور حاضری کے لیۓ تیار ہیں۔ ابھی اگر فرشتةاجل ہمارے سامنے آموجود ہوا تو کیا ہم اس کے ساتھ جانے کے لیۓ بے فکری سے تیار ہیں؟
کون ہے وہ آئینہ ؟حضرت عائشہؓ سے پوچھا گیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا اِخلاق کیسا ہے؟ امّاں عائشہؓ فرماتی ہیں کہ کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا ؟جو قرآن میں لکھا ہے وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خُلق ہےاور جو حضور کا خُلق ہے وہ ہی قرآن میں لکھا ہے ۔ سبحان اللہ کیا ہی ذات ہوگی نہ وہ جس کے لیئے ہر رشتے نے، ہر تعلق نے بہترین گواہی دی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹے تھے تو بہترین اور انمول، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھتیجتے تھے تو بیمثال، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امّاں حلیمہ کی گود کے پالے تھے تو باکمال  آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بابا تھے بیٹیوں کے تو بےمثال ۔کس کس حیثیت  کا ذکر کیا جاۓ۔ اس زمانے میں جب بیٹی کے دنیا میں آتے ہی اس کی پہلی آواز کے ساتھ ہی اسے زندہ درگور کر دیا جاتا تھا اس وقت اور زمانے میں میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹی کو سینے سے لگایا نہ صرف خود بلکہ ہر ایک کو فرمان دیا کہ بیٹی اللہ کی رحمت ہے۔ جس نے ایک بیٹی کو پال پوس کر بڑا کیا اور احسن طریقے سے اس کی زمّہ داریوں کو ادا کیا اس کی بخشش کا سامان ہو گی وہ بیٹی ۔
کہیں فرمایا جس نے دو بیٹیوں کی پرورش کی وہ جنت میں دو انگلیوں کی مانند میرے ساتھ ہو گا۔ جس نے اس سے زیادہ کی پرورش کی وہ جنت میں جس دروازے سے چاہے گا داخل ہو جاۓ گا۔
کیا کیا کہوں ؟ میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیٹی کی آمد پر اپنی چادر اس زمانے میں اس کے لیئے بچھائی، جس زمانے میں ایک شخص خود آکر اقرار کرتا ہے کہ یا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سفر پر جا رہا تھا اور میری بیوی امید سے تھی میں نے اپنی بیوی کو وقتِ رخصت ہدایت کی کہ بیٹا ہوا تو اس کی پرورش کرنا اور بیٹی ہوئی تو اسے درگور کر دینا۔ یا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کچھ سال بعد پلٹ کر آیا تو اپنے گھر کے پاس ایک معصوم بچی کو کھیلتے ہوۓ دیکھا وہ مجھ سے لپٹی میں نے اسے پیار کیا جب بیوی سے پوچھا کہ یہ بچی کس کی ہے تو اس نے کہا یہ تمہاری بیٹی ہے تو میں بھڑک اٹھا کہ تو نے بیٹی کو جنا تو اسے مار کیوں نہ ڈالا؟ اسے پالا کیوں؟ تو اس نے کہا میری ممتا نے مجھے ایسا کرنے سے روک دیا۔ یہ سنتے ہی میں نے نہ بیوی کی آہ وبکا کو دیکھا نہ بچی کی معصوم صورت کو بس اس بچی کو لیا اور اس کی قبر کھودنی شروع کر دی وہ بچی اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے میرا پسینہ پونچھتی جاتی تھی پوچھتی تھی کہ بابا تم تھک تو نہیں گئے اور میں بےحسی کے ساتھ اپنا کام کرتا رہاقبر کھود کر میں نے اسے اسمیں ڈال کر مٹی بھرنی شروع کر دی تو وہ تڑپ تڑپ کر روتی رہی۔ بابا مجھے کیوں مار رہے ہو؟ بابا مجھے مت مارو اور میں نےاس کی ایک نہ سنی اور اسے دفن کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کہہ کر اس نے سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہے میرے سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اتنا روۓ کہ آپکی داڑھی مبارک تک بھیگ چکی تھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کاش میں تیرا سر قلم کر دیتا مگر میں رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں اس لیئے ایسا نہیں کروں گا۔
یاخدا کہاں ہیں میرے سرکارصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس ادا کو سنت سمجھ کر بیٹیوں کی توقیر کرنے والے؟کہ آج بھی بیٹیاں بڑی بے توقیر اور بڑی بے آبرو ہیں آقاصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ میں آپ کو کہاں سے ان لوگوں کے دلوں میں نقش کر دوں؟ جہاں ہر روز بیٹیوں کی عصمتیں لٹ رہی ہیں۔ ۔اوروں ہی کے کیا اب تو اپنے محرم بھی اس گناہ میں دھنستے چلے جارہے ہیں۔ اب کیا گود، کیا گھر ، کیا قبر ۔کوئی جگہ بھی ہمیں امان نہیں دیتی ۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔یہ لوگ بہت ظالم ہیں۔ ہمیں ظلم کے بعد تڑپنے بھی نہیں دیتے ۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا کروں ؟جو تڑپتے ہیں انہیں مذید بے عزت کرنے کے لیئے کمر باندھ لیتے ہیں یہ لوگ۔آپ نے جو سبق ہمیں بھوکا رہ کر پتھر کھا کر اپنے پیاروں کے قاتلوں کو معاف کر کے دیا وہ سب ہم نے بھلادیۓ۔ یاد رکھا تو بس اتنا اسلام جو ہمارے مطلب کے کاموں میں ہمارے لیئے حربے کے طور پر استعمال ہو سکے۔ یا د ہیں تو چار شادیاں۔ یاد ہے تو منہ پر داڑھی اور اس داڑھی کے پیچھے چھپ کر اپنے کیئے ہر گناہ کو پردہ پوش کرنا ۔اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے حلیئے کو اپنانے سے پہلے اعمال کو اپنانے والے کہاں سے لاؤں یا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؟آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے نام پر آپ ہی کی سنت کا مذاق اڑانے والوں کو کیسے احساس دلاؤں کہ محبوب کی اداؤں کو اپنا کر محبوب کی محبت کی سیڑھی پر پہلا قدم رکھا جاتا ہے۔ حلیہ اپنا کر ایک ہی چھلانگ میں محبت کی آخری سیڑھی پر نہیں پہنچا جاتا ۔ اس پہلی اور آخری سیڑھی کے بیچ بہت سے مقام سر کرنا ہوتے ہیں۔ تب محبوب کی قدم بوسی نصیب ہوتی ہے ۔ یوں ہی تو نہیں کہتے ہیں کہ
"یہ عشق نہیں آساں اتنا تو سمجھ لیجئے
اِک آگ کادریا ہےاور ڈوب کےجانا ہے،،
میں تو وہ ہوں جو دیوانوں کی طرح ہوا بن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی  زلفوں کو چھو جانا چاہتی ہوں اور گرد بن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں سے لپٹ جانا چاہتی ہوں ۔سایہ بن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے پیچھے چلنا چاہتی ہوں۔ یہ دنیا مجھے تڑپانا چاہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کملی میں چھپ جانا چاہتی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے سنیۓ۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ کو بہت کچھ سنانا چاہتی ہوں۔ جو مجھ سے میرے باپ نے نہیں سنا ۔جو مجھ سے میرے بھائی نے نہ سنا۔ جو مجھ سے میرے بیٹے نے نہ سنا۔ جو مجھ سے میرے شوہر نے نہ سنا۔ وہ سب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سنانا چاہتی ہوں ۔آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ ہی تو سنتے ہیں ہم کہیں پر ہوں ۔اللہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی تو سنتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی تو مدد کو پہنچتے ہیں اللہ کے بعد سب سے پہلے۔ مجھے پکارنے کا فن عطا فرما دیجیئے  کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے باتیں کرنا چاہتی ہوں ۔کبھی رو کر ، کبھی رلا کر آپ کی محفلیں سجانا چاہتی ہوں ۔اس محفل میں ہر ایک کی تواضح کرنا چاہتی ہوں۔ مجھے اور مجھ جیسے دیوانوں کی توفیق کے لیئے اللہ سے التجا کیجیئے کیوں کہ
"محبوب کی محفل کو محبوب سجاتے ہیں
آتے ہیں وہ ہی جن کو سرکاربلاتے ہیں "
                   ●●●  
         تحریر:ممتازملک 
       مجموعہ مضامین:
             سچ تو یہ ہے  
         اشاعت:2016ء   
             ●●●                                        

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/