ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک
انٹرویوز لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
انٹرویوز لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اتوار، 4 اپریل، 2021

● دھوکے بازوں کی پہچان / انٹرویو


       (ایک میگزین کو دیا گیا انٹرویو)

منافق اوردھوکہ باز لوگوں کی پہچان کیسے کی جا سکتی ہے ؟


●میں راولپنڈی سول ہاسپٹل میں
  22 فروری 1971ء میں پیدا ہوئے۔
●پیدائشی نام ۔ ممتازملک
●قلمی نام۔ ممتاز
●تعلیم۔ بی اے پرائیویٹ
راولپنڈی سے ہی پڑھائی کی۔
●پاکستان میں بچوں کو کچھ عرصہ پڑھاہا ۔ پھر ایک پرائیویٹ ادارے تھوڑا عرصہ تجربے کے لیئے  کام کیا ۔
●کچھ کورسز وغیرہ کیئے جیسے ٹائپنگ شارٹ ہینڈ ۔ سلائی ۔ کڑھائی۔ وغیرہ
●میری شادی لاہور کے محمد اختر شیخ سے
 7 جنوری 1996ء میں ہوئی ۔ جو کہ پیرس میں جاب کرتے تھے۔  ●الحمداللہ انہیں کیساتھ پیرس میں 7 مارچ 1998ء سے مقیم ہوں ۔
●میرے 3 بچے ہیں ۔
●دو بیٹیاں اور ایک بیٹا
تینوں ابھی پڑھ رہے ہیں ۔
● میری اب تک
5 کتب شائع ہو چکی ہیں ان میں 4 شعری مجموعے بنام
1۔۔۔ مدت ہوئی عورت ہوئے
(2011ء شعری مجموعہ کلام )

2۔۔۔۔ میرے دل کا قلندر بولے
(2014ء شعری مجموعہ کلام)

3۔ ۔۔۔سچ تو یہ ہے (2016ءمجموعہ مضامین۔ میرے منتخب کالمز)
4۔۔۔ اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم۔ (2019ء پہلا نعتیہ مجموعہ کلام )

5۔۔۔سراب دنیا
(2020ء شعری مجموعہ کلام )

۔اور چھٹی کتاب اب طباعت کے مراحل میں ہے ۔
● شاعری کیا ہے ؟
شاعری کسی انسان پر اللہ کا کرم ہے ۔۔
انسان کی روح کی اس کے دل کی آواز ہوتی ہے ۔ میں ہمیشہ کہتی ہوں پیغمبروں پر وحی اترتی ہے تو عام آدمی پر کوئی عطا ہو تو اسے   ردھم اور ترتیب کے ساتھ محسوسات کو قرطاس پر بکھیر دینے کو شاعری کہتے ہیں ۔
شاعر ،مصور، اداکار ، گلوکار یہ سب پیدائشی ہوتے ہیں ۔ دنیا میں آنے سے پہلے ہی اپنے ساتھ لیکر آتے ہیں ۔
کوئی بھی یہ کام سیکھ یا سکھا نہیں سکتا بس اس کی نوک پلک سنوار سکتا ہے یا اسے پالش کیا جا سکتا ہے ۔
●دنیا سے غربت کبھی بھی ختم نہیں کی جا سکتی ہاں کم کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے ۔ حقداروں کو ان کا حق بروقت پہنچا کر ۔
ختم اس لیئے نہیں کی جا سکتی کہ یہ خدائی راز ہے ۔ اسی میں وہ دے کر شکر کو آزماتا ہے اور لیکر صبر کو آزماتا ہے ۔ دنیا میں نہ کوئی ہمیشہ غریب رہتا ہے اور نہ ہی امیر کبیر ۔ امارت اور غربت دھوپ چھاوں جیسے ہیں۔ آج تیرے سر تو کل میرے سر ۔
●اتنا ادب شائع ہونے کے بعد بھی لوگوں کے دلوں سے نفرتیں نہیں گئیں کیا وجہ ہو سکتی ؟؟
 لکھنے والا جتنا مرضی لکھ لے دنیا پڑھنے والوں نے بدلنی ہے ۔ اور پڑھنے سے ہمیں قومی طور پر شدید پرہیز ہے ۔
کتاب خریدنا ہمارے ہاں فضول خرچی ہے ۔ جہاں ادبی پروگراموں شرکت وقت کا زیاں ہے۔
نصآبی کتب بھی بس پاس ہونے کے لیئے رٹی جائیں
 وہاں آپ نفرتیں اور منافقتیں ہی تو پالیں گے ۔ کیونکہ دنیا منافق کی جنت ہے اور سچے کی امتحان گاہ۔

●منافق اوردھوکہ باز لوگوں کی پہچان کیسے کی جا سکتی ہے ؟
جو بنا کچھ کیئے موج میں ہے۔۔
جو سب کو خوش کرنا جانتا ہے ۔۔
جو سب کی گڈ بک میں ہے ۔۔
 سمجھ جائیں منافقت مقابل ہے ۔
 ●آپ جب مایوس ہوتی ہیں تو کیا کرتی ہیں ؟
میں دکھی تو ہو جاتی ہوں اکثر ہی لوگوں کے رویوں اور جھوٹ اور منافقین سے لیکن مایوس  شاذونادر ہی کبھی ہوئی ہونگی۔ میں بہت مثبت سوچ رکھتی ہوں اور سمجھتی ہوں کہ اللہ کے ہر کام میں ہماری ہی بھلائی پوشیدہ ہوتی ہے ۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ بھلائی ہمیں نظر اور سمجھ ذرا دیر سے آتی ہے لیکن آتی ضرور ہے ۔
انسان ہوں بہرحال تو جب  کبھی مایوسی کا دورہ پڑا تو اپنا محاسبہ کرتی ہوں ۔ اپنے اللہ سے باتیں کرتی ہوں ۔ اپنے وہ کام ڈھونڈنے کی کوشش کرتی ہوں جس کی وجہ سے مجھ پر کوئی مشکل یا آزمائش آئی ہو۔ نہ بھی یاد آئے تو شدت سے استغفار کرتی ہوں۔
۔باقی وہ بڑا معاف کرنے والا ہے ۔

(ممتازملک.پیرس )

منگل، 11 اگست، 2020

باب ‏دعا ‏/انٹرویو ‏


اس سوالنامہ کو مکمل کرکے ہمیں سینڈ کردیں ۔ 

                  انٹرویو   
 بابِ دعا۔۔۔۔۔آپ کا نام
    ممتازملک 
باب دعا ۔۔۔۔ قلمی نام 
     ممتاز
بابِ دعا۔۔۔۔۔لکھنے کی ابتداء کب اور کیسے ہوئی ؟ ۔
راولپنڈی میں میری پیدائش ہوئی ۔ وہیں سے میٹرک گورنمنٹ گرلز ہائی سکول نمبر 2 ۔ مری روڈ سے کیا۔ ایف اے ۔بی اے پرائیویٹ ہی پڑھا ۔  مطالعے کا جنون کی حد تک شوق تھا اور ہے ۔ 
بچپن ہی سے الفاظ کا رکھ رکھاو اچھا لگتا ہے ۔ جب سے شعور کی دنیا میں قدم رکھا خود کو لکھتے پایا۔ 
باب ِدعا۔۔۔۔ ادب سے وابستہ مشاغل ؟ ۔
مختلف اصناف میں لکھتی ہوں ۔ شاعری، کالمنگاری، مختصر کہانیاں ، کوٹیشنز ، افسانے ۔۔۔۔
بلاگر بھی ہوں ۔ نعت گوئی اور نعت خوانی میرا پہلا عشق ہے۔ 
بابِ دعا۔۔۔۔۔۔آپ کے خیال میں اچھا ادب کیا ہے ؟ 
ہر وہ تحریر جو آپ کے پڑھنے والے کو کسی تجربے اور مشاہدے سے کسی دنیا کی خبر دے اور اس کے خیالات میں دنیا کو سمجھنے کی کوئی حس بہتر کر دے یا پیدا کر دے ۔ میں اسے ایک اچھا ادب کہتی ہوں ۔ 
بابِ دعا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اردو زبان کا مستقبل کیسے دیکھتے ہیں ؟
اردو زبان اپنوں کے ہاتھوں خطرے میں ہے جبکہ غیروں  کے ہاتھوں بلندی پر ۔
بابِ دعا۔۔۔۔شاعری کے بارے میں آپکا کیا خیال ہے شاعری کیا ہوتی ہے ؟
حد سے زیادہ حساس دل کی آواز جب موسیقیت کے ساتھ ایک ردھم کیساتھ تال میل رکھتے ہوئے برآمد ہوتی ہے تو اسے شاعری کہتے ہیں ۔
بابِ دعا۔۔۔۔۔ آپ کی نظر میں تخلیق کسے کہتے ہیں ؟
تخلیق وہ چیز ہے جو انسان کے اندر  اس کے جذبات کا خون پی کر پلتی ہے ۔  جس میں کوئی ملاوٹ نہ ہو ۔ جیسی آپ کے ذہن پر اتری ویسی ہی آپ نے قلم کے ذریعے صفحہ قرطاس پر بکھیر دی ۔ یہ ہی اصل تخلیق ہے۔
بابِ دعا۔۔۔۔۔۔ اب تک کتنے افسانے، نظمیں یا غزلیں / کتابیں لکھ چکے ہیں اندازاً؟
میری اب تک 5 کتابیں شائع ہو چکی ہیں ۔ 
1۔ مدت ہوئی عورت ہوئے 
  2011ء/ شعری مجموعہ کلام 
2۔ میرے دل کا قلندر بولے 
2014ء شعری مجموعہ کلام 
3۔ سچ تو یہ ہے 
2016ء منتخب مضامین /کالمز
4۔ اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم
2019ء نعتیہ مجموعہ کلام 
5۔ سراب دنیا 
2020ء شعری مجموعہ کلام 
زیر طبع: 5 کتابیں 
1۔پنجابی مجموعہ کلام 
2۔کوٹیشنز بک بنام چھوٹی چھوٹی باتیں 
3۔کالمز کا مجموعہ 
4۔شعری مجموعہ کلام 
5۔نظموں کا مجموعہ 
بابِ دعا۔۔۔۔۔ کسی ادبی گروہ سے وابستگی ؟
فرانس میں پاکستانی خواتین کی پہلی نسائی ادبی تنظیم
"راہ ادب"کی بانی اور صدر ہوں ۔ ہماری کوشش خواتین لکھاریوں کی رہنمائی کرنا ہے ۔
بابِ دعا۔۔۔۔ ادب تخلیق ہو رہا ہے مگر تہذیب ختم ہو رہی ہے ۔ اس کی کوئی وجہ آپ کے خیال میں ؟
اس کی وجہ ہمارے ہاں اکثریت کا منافقانہ طرز زندگی ہے ۔ جو ہم کہتے ہیں وہ کرتے نہیں ہیں اور جو کرتے ہیں اسے کہنے اور تسلیم کرنے کی ہمت نہیں جٹا پاتے ۔ سو گندم بیجو گے تو گندم ہی پاو گے آم تو نہیں پا سکتے۔
جب آپ خود  تہذیب اور تمیز کے دائروں  کا احترام نہیں کرتے، تو آپ کی اولاد آپ کی باتیں سن سن کر تو مہذب ہونے سے رہی۔  وہ آپ کے اقوال سے زیادہ آپکے اعمال کی پیروکار ہوتی ہے ۔ 
بابِ دعا۔۔۔۔۔ آپ کی نظر میں اک صاحب ِ قلم کا نظریہ کیا ہونا چاہیے ؟ ۔
ایک لکھنے والے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے معاشرے کے تغیرات سے واقف رہے اور اس کی خامیوں سے خبردار کرتا رہے ۔ اور اس کی اچھائیوں کو ابھارتا رہے۔ اس کے پیش نظر ہر صورت انسانیت کی بھلائی رہنی چاہیئے ۔ 
بابِ دعا۔۔۔نوجوان نسل کے لیے کوئی پیغام ۔
   نوجوانوں کو معلوم ہونا چاہیئے کہ جوانی سے زیادہ بیوفا اور کوئی دور نہیں ہوتا ۔ لیکن یہ بہت توانائی بھرا زمانہ بھی ہوتا ہے ۔ اپنی توانائیاں مثبت کاموں ہی میں صرف کیجیئے ورنہ یہ کاش بن کر آپ کی زندگی کا روگ بن جاتے ہیں ۔
                       ۔۔۔۔۔۔



جمعرات، 25 اپریل، 2019

● آپ کی بات/ رقیہ غزل کو انٹرویو












آپکی بات ڈاٹ کام
خصوصی سلسلہ
*"پرسنیلٹی آف دا ویک"*
انچارج: رقیہ غزل
کہنے کو یہ ایک سلسلہ ہے لیکن دراصل یہ ایک کاوش ہے ! ملک کے لکھاریوں اور علم و ادب کے موتی بکھیرنے والے نامور شخصیات کو ان کی زندگی میں خراج تحسین پیش کرنے کی ! اور اس کی بنیاد چند سوالات ہیں ۔آپ کے جوابات آپ کے فن اور خدمت فن کا حوالہ بنیں گے اور نئے لکھنے والے احباب کیلئے مشعل راہ اور ترغیب کا باعث ہونگے ۔
سوال : آپ کو نثر نگاری یا شعر گوئی کا خیال کیسے آیا یا یہ کہ آ پ ایک لکھاری بننے کیلئے کیسے آمادہ و تیار ہوئیں؟
وہی پرانی لیکن سچی بات کہونگی کہ فنکار ، شاعر،  لکھاری ، مصور سب  پیدائشی ہوتے ہیں۔ ان کی صلاحیتوں کو زیادہ سے زیادہ پالش کر کے نکھارا جا سکتا ہے ۔ انہیں بنایا نہیں جا سکتا ۔ بچپن میں کورس کی کتابیں خریدتے ہی دو تین روز میں ہی ساری پڑھ لیا کرتی تھی ۔ صرف یہ ہی ہوتا تھا ذہن میں کہ اس میں  نیا کیا لکھا ہے ۔ یوں جو کتاب سامنے آتی اچھا برا ، بڑوں کا چھوٹوں کا کوئی بھی موضوع ہوتا بلالحاظ و تفریق پڑھنے بیٹھ جاتی تھی ۔ اسی مطالعے نے مجھے بولنے کے لیئے الفاظ کا ذخیرہ عطا کر دیا ۔ جو بعد میں میرے قلم کی سیاہی بن گیا ۔
زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب مجھے لگا ایک ایک بندے کیساتھ کھپ کھپ کے اور اس کے ساتھ بحث کر کے اسے کسی بات پر  قائل کرنے سے کہیں اچھا ہے کہ میں اسے لکھ کر ہزاروں لوگوں کے سامنے بیک جنبش قلم پیش کر دیا کروں ۔ کچھ لوگ مخالف ہونگے تو وہ اس پر سوچیں گے ۔ اور جو اس بات کے حامی ہونگے وہ اسے مزید آگے بڑھائینگے ۔ سو جناب  2008ء میں ایک مذہبی ادارے کی جنرل سیکٹری منتخب ہونے کے بعد مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ یہ مائیک کسقدر اہم ہے جسے لوگ مفاد پرستی اور منافقت کے لیئے استعمال کرتے ہیں جبکہ اسے بہت پاورفل انداز میں مثبت تبدیلیوں کے لیئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ سو میں نے بطور جنرل سیکٹڑی کیساتھ سٹیج سیکٹری کی ذمہ داری بھی سنبھال لی ۔ تین گھنٹے کا پروگرام مکمل مطالعے کے تحت کسی ایک ہی موضوع پر  ہوتا ۔ جس میں اس موضوع پر آیات و احادیث  و واقعات تجربات ،مشاہدات سبھی کچھ شامل ہوتا تھا ۔ جس کے لیئے میں ایک یا دو پروگرامز کے لیئے سارا مہینہ دیوانہ وار تیاری کیا کرتی تھی۔ بس یہ سمجھیں وہ میرا لکھاری بننے کی جانب ایک بڑا بھرپور اور  یقینی قدم تھا ۔
سوال : آپ کتنے عرصہ سے اس میدان میں طبع آزمائی فرما رہی ہیں ؟
بچپن سے کچھ نہ کچھ لکھا ۔ لیکن میں اپنے سکول کے دنوں میں انتہائی شرمیلی سی شرارتی بچی ہوا کرتی تھی ۔ جو کسی کے بھی اپنی جانب متوجہ ہونے پر گھبرا جایا کرتی تھی ۔ اس لیئے اپنی کوئی تحریر کسی کو سنانے کی کبھی جرات نہیں ہوئی ۔ نہ ہی کبھی چھپوانے کا سوچا ۔ ابو جی بھی بہت سخت مزاج تھے ۔ جن کی وجہ سے یہ شوق دل ہی میں کہیں دفن رہا ۔ ان تحریروں کو  سنبھالنے کا خیال بھی تب ہوتا جب وہ مجھے خود بھی اہم لگتا۔ اور یقین ہوتا کہ میں انہیں کبھی کہیں شائع کروا پاونگی ۔ لیکن یہ جراثیم تب سے ہی مجھ میں موجود رہے ۔
لیکن باقاعدہ آغاز 2008 ء ہی میں ہوا۔
سوال : آپ کوئی سے ایسے دو واقعات بتائیں جنہوں نے آپ کو اس مقام پر پہنچنے کیلئے جنونی یا ہمہ تن مصروف بنا دیا ہے ؟
جب مئی 2010 ء میں ایک مذہبی ادارے میں ہی میری مدت  عہدہ بطور جنرل سیکٹری  مکمل ہوئی ۔ اور مجھے لکھنے لکھانے کی پروگرامز  تیار کرنے کی عادت پڑ چکی تھی ۔جبکہ دوسری جانب میرے مخالف گروپ میں خواتین کا وہ گروہ جن سے میری کامیابیاں اور مہمان خواتین کی جانب سے میری  پذیرائی برداشت نہیں ہو رہی تھی ، نے ادارے کے  انتظامی معاملات پر قابض اپنے باپوں بھائیوں ، شوہروں ، کے ذریعے میرا پتہ کاٹنے اور عہدے عہدے کھیلنے کا پروگرام بنایا ۔ حاسدین اور منافقین کے اس گروہ کا مقصد مجھے بے نام کرنا تھا ۔ لیکن ایک مخلص دوست کو جب میں نے  کہا کہ میں  اتنی محنت کی عادی ہو چکی ہوں ۔ تو اب یہ تو میرے کام سے فائدہ اٹھانے کو تیار نظر نہیں آتیں تو  میں کیا کروں گی ۔؟ تو انہوں نے مسکرا کر کہا ۔۔ جس خدا نے تمہیں اتنی صلاحتیں دی ہیں وہ تمہیں اس سے بھی اچھا ان صلاحتیوں کو بروئے کار لانے والا کام بھی دیگا ۔ اور واقعی وہ بات ایک ہی ماہ میں سچ ہو گئی ۔ جب مجھ سے  میری شاعری کو شائع کروانے کی فرمائش کر دی گئی ۔۔اور اسکے  6 ماہ بعد ہی مجھ سے کالمز لکھنے کا اصرار ہوا تو مجھے ہمت کرنا ہی پڑی ۔ 
سوال : آپ کوئی سے ایسے دو واقعات بتائیں کہ جب جب آپ کی حوصلہ شکنی ہوئی یا یہ کہ کسی سینئر لکھاری نے آپ کے فن کی بد تعریفی کرتے ہوئے ۔آپ کو بد دل کرنے کی کوشش کی تو آپ نے کیا رویہ یا انداز اپنایا ؟
جب 2011ء میں میری پہلی کتاب (مدت ہوئی عورت ہوئے ) کی جلد اشاعت کا اعلان ہوا اور کچھ پروگرامز میں مجھے کلام پڑھنے کے لیئے بھی دعوت دی گئی ۔ بارسلونا ریڈیو پر بھی مجھے ٹیلی فونک مہمان بنایا گیا ۔ تو فرانس میں ایک ہی خاتون کا نام بطور شاعرہ کے زیادہ سنا جاتا تھا ۔ انہیں یہ بات کچھ اچھی نہیں لگی جو کہ بعد میں میں کافی عرصے تک خود بھی محسوس کرتی رہی کہ بطور شاعرہ ان کو میرا کام کرنا ہضم نہیں ہو رہا ۔ ایک دوسری خاتون جو کہ بطور کالمنگار کے کام کرتی رہی ہیں اور میری شروع میں انہوں نے ہی بہت ذیادہ حوصلہ افزائی کی ۔ یا سمجھیں مجھے گھسیٹ کر اس میدان میں اپنی شاعری لانے پر مجبور کیا لیکن جیسے ہی مجھے کالمز لکھنے کی دعوت ملی تو انہوں نے بھی اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔ اور مجھے لگے لپٹے اس بات پر قائل کرنے لگیں کہ کہ آپ کی شاعری سے آپ کی توجہ ہٹ جائے گی تو آپ کالمز کی جانب مت جائیں ۔ کیونکہ یہاں شاید انہوں نے مجھے اپنا مدمقابل سمجھنا شروع کر دیا تھا ۔ میں نے انہیں ایک ہی بات کہی تھی کہ نہ تو میں شاعری سوچ سمجھ کر پروگرام بنا کر کرنے بیٹھتی ہوں اور نہ ہی کالم  ۔۔۔
جبکہ میں ذاتی طور پر نہ کل نہ آج کسی کے مد مقابل تھی اور نہ ہوں ۔ ہر ایک  کے کام کرنے کا اپنا انداز ہوتا ہے ۔ ہر ایک کا اپنا انداز بیاں ہوتا ہے ۔ اور ہمیں ان سب کی عزت کرنی چاہیئے اور ہر ایک کو اپنا کام پیش کرنے کا موقع دینا چاپیئے اور اس کی کامیابیوں کو بھی خندہ پیشانی کیساتھ قبول کرنے کا ہم میں حوصلہ ہونا چاہییے ۔
سو اسی سوچ کے تحت میں نے اپنی ساری توجہ اپنے کام پر مرکوز رکھی اور خوامخواہ کی نمبرداری گیم سے خود کو باہر ہی رکھا ۔ فیس بک زندہ باد جس پر مجھے ہزاروں قارئین مل گئے ۔ جو ایک کلک پر میرے ساتھ  موجود تھے ۔ سو میں نے کسی کی منتیں کر کے اپنا کام بھیجنے کے بجائے جن لوگوں نے خود سے مجھ سے رابطہ کیا ، کام بھیجینے کی درخواست کی، انہیں کو کام بھیجا ۔ اور جو ملا اسے خوشی سے قبول کیا ۔ سو آج کی ممتاز ملک اسی مستقل مزاجی اور قناعت کے ساتھ مذید حوصلہ اور جرات لیئے آپ کے سامنے ہے ۔ 
سوال : آپ کوئی سے چند ایسے احباب کا تذکرہ فرمائیں جنھوں نے اس ادبی میدان میں سرگرداں رہنے کے لیے آپ کی سر پرستی فرمائی ؟
مجھے اس میدان میں لانے کی کوشش کرنے والی خاتون کو فرانس میں سبھی جانتے ہیں ان کا نام لینا میں اس جگہ مناسب نہیں سمجھتی   کیونکہ سرپرستی کرنے  والی یہاں  کوئی کہانی نہیں تھی ۔ انہوں نے مجھے  واحد شاعرہ(اپنی مخالفت میں ) کی چپقلش میں اس میدان میں  اتارا جبکہ میرے کالمز کی ابتداء سے وہ خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگیں کہ  فرانس کی واحد کالمنگار  خاتون کا مرتبہ اب ان سے چھن گیا ہے ۔ اس لیئے کسی کی جانب سے ایسی کوئی مدد یا راہنمائی مجھے حاصل نہیں رہی ۔ بلکہ  میرے کام کو جب پذیرائی ملنے لگی تو مجھے لانے والی خاتون خود بھی تحفظات کا شکار ہو کر میری راہ میں ہر قدم پر روڑے اٹکانے اور میرے خلاف لوگوں کو بھڑکانے والے کاموں میں مصروف ہو گئیں اور  یہ مخالفت آج تک جاری ہے
سوال : آپ چند ایسے لکھاریوں کا ذکر فرمائیں جن کی ادبی خدمات یا انداز یا شخصیت سے متاثر ہیں اور اس سے آپ کے فن میں کیا نکھار یا تبدیلی پیدا ہوئی ؟
شاعری میں بڑے ناموں کو تو ہم سب نے ہی پڑھ رکھا ہے اور پسند بھی کرتے ہیں ۔ لیکن مجھے خصوصا جن کے کلام نے ہمیشہ ہی متاثر کیا ہے ان میں حبیب جالب روایت شکن اور انقلابی نظریات لیئے ہوئے ہیں تو محسن نقوی سچ کا آئینہ یوں  دکھاتے ہیں کہ دیکھنے والا اپنے عکس سے بھی انجان لگتا ہے ،منیر نیازی جب لفظوں کی مالا پروتے ہیں تو پڑھنے والا ملنگ ہو ہی جاتا ہے ۔ 
اشفاق احمد کی زندگی کے تجربات ہمیں  روشنی کا مینارہ  دکھاتے ہیں ۔ تو مشتاق احمد یوسفی اور  یونس بٹ کی تحریروں سے تھکی ہوئی  زندگی  کے اندھیرے میں ڈسکو لائٹس کا سواد آ جاتا ہے ۔ یہ سب مجھے متاثر کرتے ہیں ۔ اور مجھے خوشی محسوس ہوتی ہے کہ میں ان کے ساتھ ایک ہی دور میں موجود ہوں ۔ اور ہمیشہ  گنی جاونگی ۔ 
سوال: آپ اپنے چند اہم اور یادگار شعر یا کالم کا تذکرہ فرمائیں جسے بہت زیادہ سراہا گیا ؟
میرے پہلے شعری مجموعے   کی ٹائیٹل نظم "مدت ہوئی عورت ہوئے" بہت زیادہ سراہی گئی۔ اس کے سوا اسی کتاب سے غزل 
جانے کیا بات ہے ہنستے ہوئے ڈر جاتے ہیں 
اب تو ڈرتے ہوئے ہم اپنے ہی گھر جاتے ہیں 
یوں نہ مغرر ہو تو اپنی مسیحائی ہر
زخم کی رسم ہے اک روز یہ بھر جاتے ہیں
اسی طرح
*
محبت بانٹنے نکلے تھے پتھر لے کے گھر لوٹے
بہت سے دشت چھانے اور ہو کے در بدر لوٹے
تمہارے شہر میں ہم نے بڑی رسوائیاں پائیں 
مگر آخر غریباں شہر اپنے شہر لوٹے
                           *
ظلمت شب کو بہرطور تو ڈھلنا ہو گا 
اب ہر اک سیپ سے موتی کو نکلنا ہو گا
سوچکےہیں جوسبھی خواب جگاو لوگو 
دل کوتعبیرکی خواہش پہ مچلناہو گا
اب توگرگرکے سنبھلنے کا روادار نہیں
ٹھوکروں سےتمہیں ہربارسنبھلنا ہو گا
اپنےاعصاب کو،جذبات کو فولادی  کر
دل اگر موم بنا، اس کو پگھلنا ہو گا
۔۔۔۔
کالمز میں بہت زیادہ سراہے گئے جو  
 ہائے بیچارہ مرد، بابائی وبا، بہو ڈھونڈنے کی آڑ میں ۔ علم+روزگار=زندگی۔ نتھ بنی نکیل شادی کی رات دولہا کا پہلا خطاب۔ اسلام کے چوکیدار۔۔۔اور بہت سے دوسرے کالمز 
سوال: کہا جاتا ہے کہ شعر گوٸی قلبی واردات سے مشروط ہے ۔کیا آپ متفق ہیں  ؟
جی ہاں جو بات آپ کے دل تک نہیں پہنچتی آپ کی روح کو  نہیں جھنجھوڑتی وہ کسی اور پر کیا اثر چھوڑے گی ۔  لیکن اگر اس کا اشارا عشق وشق کی ناکامی کی جانب ہے تو میں  اس سے بالکل اتفاق نہیں کرتی۔ پیغمبر پر وحی خدا کی دین ہے تو شاعر پر شعر اللہ کی عطاء ہے ۔ وہ چاہے تو آپ کے دل کو حساسیت کے ساتھ   الفاظ کی ترتیب و ترنم عطاء فرمادیگا۔
وہ نہ دے تو کوئی شعر کوئی نغمہ ترتیب نہیں پا سکتا ۔  
سوال : آپ کس صنف سخن کو اپنے لیے سہل اور موافق طبع پاتی ہیں ؟
میری شاعری اور نثر نگاری دونوں شروع سے ہی  ساتھ ساتھ چل رہے ہیں ۔ کون سی صنف میرے لیئے زیادہ سہل ہے یا موافق ہے اس کا فیصلہ میرے لیئے مشکل ہے ۔ اپنی سمجھ سے بنا کر کریں تو دونوں مشکل اور آمد ہو تو دونوں آسان ۔۔
سوال:اس وقت حکومتی اور نجی سطح پر جو مشاعرے منعقد ہو رہے ہیں ان کے بارے آپ کی کیا راٸے  ہے  ؟
پاکستان میں تو مجھے سرکاری مشاعروں میں جانے کا کوئی اتفاق نہیں ہوا ۔ اس لییے کوئی تبصرہ نہیں کر سکتی ۔ ہاں فرانس میں ہماری ایمبیسی کے تحت جب بھی کوئی پروگرام ہوتا ہے تو اس میں ان کے من پسند قصیدہ گو ہی بلائے جاتے ہیں ۔ جو کہ میں نہیں ہوں ۔
بلکہ مزے کی بات یہ ہے کہ اردو زبان کے نام پر بھی جو دو چار پروگرام ایمبیسی کے تحت ہوئے بھی ان میں فرانس  میں اردو شاعروں اور لکھاریوں میں سے کوئی نمائندگی نہیں تھی
 ان پروگراموں میں کیا ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے یہ ہمارے سفیر صاحب ہی بہتر بتا سکتے ہیں ۔ جو یہاں پر بادشاہ سلامت کا رول ادا کر رہے ہیں۔ 
سوال : آپ اپنی چند ایسی تخلیقات کا ذکر فرمائیں جو ُآپ کو بہت پسند ہوں ؟
مین سماجی اور اخلاقی موضوعات پر لکھنا زیادہ پسند کرتی ہوں ۔ آپ مجھے معاشرتی اور گھریلو مسائل پر بات کرتے ہوئے ذیادہ پائیں گی ۔ کیونکہ میں سمجھتی ہوں ہر گھر معاشرے کی ایک بنیادی اکائی ہے اور جب بہت ساری اکائیاں اکٹھی ہوتی ہیں تو ہی کوئی معاشرہ تشکیل پاتا یے ۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ معاشرے میں ہونے والی
تبدیلیوں پر نظر رکھ کر اپنے معاشرے کی خرابیوں کی نشاندہی کرتے رہنا اور اس کی اصلاح کے لیئے تجاویز پیش کرتے رہنا ہی ایک اچھے لکھاری اور کالمنگار کی ذمہ داری ہے ۔ جو میں بھی پوری کرنے کی کوشش کرتی ہوں ۔ اسی سلسلے میں میری گھریلو مسائل پر لکھی گئی تحاریر اور بچوں کی پرورش اور بڑھتی عمر کیساتھ ان کے مسائل پر لکھی گئی تحاریر میرے دل سے بہت ذیادہ قریب ہیں ۔ جیسے کہ
بچے ،بچپن اور تحمل ۔ پاس نہیں قریب رہو ۔ مائیں بور نسلیں تباہ ۔ گھروں کو گھر ہی رہنے دیں ۔ اور بہت سے دوسرے کالمز میرے دل کی آواز ہیں ۔ 
سوال : اگر آپ کا کالم  یا ادبی شہ پارے پرنٹ ہوتے ہیں تو ان کا نام بتائیں ؟
میرے کالمز چالیس (40) سے زیادہ ویب نیوز پیپرز میں جاتے ہیں ۔ جن میں جنگ اوورسیز، آذاد دنیا،ڈیلی پکار ، سویرا نیوز ، جذبہ نیوز۔ دی جائزہ ، ڈیلی میزبان ، عالمی اخبار اور بہت سے دوسرے۔۔۔
میری اب تک تین کتابیں شائع ہو چکی ہیں ۔
1۔ مدت ہوئی عورت ہوئے
(شعری مجموعہ۔2011ء)
2۔میرے دل کا قلندر بولے
( شعری مجموعہ 2014ء)
3۔سچ تو یہ ہے
مجموعہ مضامین۔2016ء)
اس سال انشاءاللہ نعتیہ مجموعہ متوقع ہے ۔
سوال :آپ پاکستانی سیاست کا کیا مستقبل دیکھتی ہیں اور کیا ہمارے وزیراعظم  کرپشن سے پاک پاکستان کا عہد پورا کرنے میں کامیاب ہو جاٸیں گے   ؟
پاکستانی سیاست میں جب تک اسٹیبلشمنٹ کی دخل اندازی ختم نہیں ہو گی ۔ اور جادوئی فیصلوں کی جگہ منصفانہ اور میرٹ پر  فیصلے نہیں ہونگے تب تک غیر یقینی کی صورتحال برقرار رہیگی۔ وزیر اعظم صاحب سے ہم اچھی توقعات رکھتے ہیں ۔
سوال:پوری دنیا میں خواتین کا عالمی دن منایا جا رہا ہے ۔آپ کی جاٸے پیداٸش پاکستان ہے ۔پاکستان میں خواتین کی جو حالت ہے اس سے آپ بخوبی آگاہ ہیں  مگر اب آپ پیرس میں مقیم ہیں اور مغربی خواتین کسی حد تک آزاد ہیں  تو کیا آپ سمجھتی ہیں کہ پاکستانی خواتین مغربی خواتین کی نسبت مغربی اپنے حقوق کی حفاظت کرنا جانتی ہیں ؟
پاکستانی خواتین کو پاکستان میں  اگر کچھ زیادتیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو انہیں یورپئین خواتین کے مقابلے میں بے شمار سہولتیں اور  فوائد حاصل ہیں ۔ معاشی بوجھ بھی ان کے کندھوں پر اتنا زیادہ نہیں ہے ۔ ایسی صورت میں اگر پاکستانی خواتین ہر شعبے میں ہنر مند نہ ہوں اور پیشہ ورانہ تعلیمی اور
عملی میدانوں میں نام پیدا نہ کریں  تو نہایت افسوس ہو گا ۔ اور یورپ میں زیادہ تر آفس ورک یورپی خواتین ہی کرتی ہیں جو مجھے بہت اچھا لگا ۔ پاکستان میں خواتین کو سکولز کے علاوہ بینکنگ ،پولیس ،ہاسپٹلز،اور باقی تمام شعبہ جات میں بھی صرف آفس ورک کا ہی مکمل سٹاف بنا دیا جائے جن کی ہیڈ بھی اہل قابل خواتین ہی ہوں تو نہ صرف ہمارے آدھی آبادی کو بہترین روزگار میسر آئے گا بلکہ انہیں اپنی بھرپور ذہنی صلاحیتیں  جو کہ ماسٹرز کرنے کے بعد بھی ٹی وی دیکھنے فون پر چغلیاں کرنے، شاپنگ میں پیسہ اڑانے ،بیوٹی پالرز میں اور بوتیکس پر اپنے زندگی کے قیمتی گھنٹے اور میاں اور باپ کی کمائی اڑانے میں  ضائع کرتی ہیں ، کے بجائے موثر انداز میں ملک کی خدمت اور اپنے خاندان کے  لیئے آمدنی کا موثر ذریعہ بن سکتی ہیں ۔ اور فضول کاموں سے بچ سکتی ہیں ۔
رہی بات یورپ میں پاکستانی خواتین کی تو وہ بہت حوصلے اور ہمت والی ہوتی ہیں ۔ لیکن زیادہ تر ان کے گھروں سے ان کے شوہروں کی حمایت نہ ہونے کے سبب وہ اپنی صلاحیتوں کو منظر عام پر کبھی نہیں لا پائی ہیں ۔ شاید اس کی وجہ ان خواتین کا زیادہ تعلیم۔یافتہ ہونا اور ان کے شوہروں کا کم پڑھا لکھا ہونا یا اکثر ان پڑھ ہونا بھی ہے ۔ پیرس اور یورپ کے نام پر ان کو پڑھی لکھی بیویاں تو مل گئی ہیں لیکن ان کا احساس کمتری اور اپنی کم مائیگی کا احساس شدت اختیار کر چکا ہے ۔ جس کا ثبوت کام کرنے کی اجازت  تو چھوڑیئے اپنی پڑھی لکھی بیگمات کو بھی کبھی کسی پبلک پروگرام یا فیملی پروگرام میں بھی نہیں لیکر جاتے ۔ لیکن اب جب اپنی بیٹیاں پڑھ لکھ کر مختلف شعبوں میں کام کرنے کو نکل رہی ہیں تو اب فرماتے ہیں کہ کیا کریں جی وقت کی ضرورت ہے ۔ یعنی  کسی کی بیٹی بیاہ کر لائے تو اس کا کسی کے سامنے آنا بھی وقت کی ضرورت کے خلاف تھا جبکہ اپنے بیٹیاں اب جو مرضی کر لیں سب وقت کی ضرورت ہے ۔ جبکہ سچ یہ یے کہ اب یہاں کی پڑھی لکھی بچیاں اپنے فیصلے خود کرنا پسند کرتی ہیں ۔ جو کسی حد تک بہت اچھی بات ہے ۔ کہ ماں کی حالت دیکھ کر وہ اس حال کو پہنچنا یا اس جیسی زندگی گزارنا پسند نہیں کرتی ہیں ۔ وہ عملی میدان میں بھی اپنے ہنر دکھانا چاہتی ہیں ۔ 
سوال : نیا لکھاری آپ سے کوئی راہنمائی حاصل کرنا چاہے کہ وہ بھی آپ کی طرح معروف و مقبول بن سکے تو آپ کیا مشورہ دیں گی ؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ میرے نزدیک معروف ہونا ایک الگ معاملہ ہے اور مقبول ہونا دوسرا ۔
۔اگر اپ کو معروف ہونا ہے تو قصیدے لکھیئے ۔
قصیدے کامیابی کی پہلی سیڑھی ہوتے ہیں ۔
 اچھا اچھا بولیئے کریلے کے عرق کو جوس بولیئے،
لیکن اگر آپ کو مقبول ہونا ہے تو سچ بولیئے اور سچائی کی خاطر کبھی سمجھوتہ مت کیجیئے۔ اس میں ہو سکتا ہے آپ کو مال تو زیادہ نہیں ملے گا لیکن سکون کی دولت سے آپ کا دامن  کبھی خالی نہیں ہو گا ۔ 
کام کیجیئے پورے خلوص اور صبر کیساتھ  اور سیکھنے کے لیئے ہمیشہ تیار رہیئے ۔ یہ سوچے بنا کہ آپ کو کوئی مشورہ یا سیکھ دینے والا آپ سے جونئیر ہے یا سینئیر ۔ اسی میں کامیابی کا راز پوشیدہ پے ۔ 
سوال : آپ نے اگر کوئی اعزازات ،انعامات یا اسناد حاصل کر لی ہیں تو ان کا ذکر فرمانا مناسب سمجھیں گی ؟

سنا ہی ایوارڈ و اسناد حاصل کرنے کے لیئے ہمارے ملک میں آپکی  بڑی واقفیتیں اور گٹھ جوڑ ہونے چاہیئیں ۔ ایوارڈ کی رقم میں حصہ داریاں دینے والے جلدی جلدی اعلی نام و مقام حاصل کر لیتے ہیں ۔
میری کیونکہ ایوارڈ دینے والوں سے ابھی ایسی کوئی شناسائی نہیں ہوئی اس لیئے جو خود سے ملے اس میں  چکوال پریس کلب کی جانب سے 2016 ء میں دھن چوراسی ایوارڈ۔ اور 2018ء میں ٹونی ٹی وی امریکہ کی جانب سے حرا فاونڈیشن نے ایوارڈ دیا ہے ۔
ممتازملک ۔ پیرس



۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپکی بات ڈاٹ کام
خصوصی سلسلہ
*"پرسنیلٹی آف دا ویک"*
انچارج: رقیہ غزل
https://www.apkibat.com

ہفتہ، 9 مارچ، 2019

● انٹرویو ممتازملک بائے رقیہ غزل کا تبصرہ / انٹرویو ۔ تبصرے



                                 /
اس لنک کو کلک کیجیئے /



8


  




اس بار کی’’ پرسنیلٹی آف دا ویک‘‘ اردو ادب کا ایک معروف روشن ستارہ ممتاز ملک ہے ۔آپ خود توپیرس میں مقیم ہیں مگر دل پاکستان میں ہے۔حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہیں یہی وجہ ہے کہ اپنی گرانقدر سیاسی اور سماجی تحریروں کے ذریعے پاکستانی مسائل کو اجاگر کرتی رہتی ہیں ۔ادبی اور صحافتی حلقوں میں یکساں مقبول ہیں اور فن شعر گوئی میں اپنے منفرد لہجے اور اسلوب کی بدولت نمایاں مقام حاصل کر چکی ہیں ۔بلاشبہ نسوانی جذبات کا اظہار پروین شاکر نے نمایاں طور پر بہت اچھا کیا ہے ۔ویسے بھی نسوانی جذبات کا اظہار ایک عورت سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا کیونکہ وہ عملاً ان تجربات سے گزرتی ہے اس لیے کسی بھی عورت نے جب قلم اٹھایا تو عورت کی بے توقیری ، جذبوں کی پامالی ،مرد کی بے وفائی کے دکھ کو اپنا موضوع سخن بنایا ۔۔ جسے’’ فیمینسٹ ادب‘‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے درحقیقت یہ ادبی شعبدہ بازوں کے مفروضے ہیں کیونکہ مرد بھی اسی قسم کے حالات سے گزر سکتا ہے لیکن پھر بھی فی زمانہ عورت جن مراحل سے گزرتی ہے مرد ان کیفیات اور حالات کا اندازہ بھی نہیں کر سکتا ۔اسی لیے بانو قدسیہ نے لکھا تھا کہ محبت میں مرد مشرک ہے جبکہ عورت مواحد ہے ۔عورت ایک ہی خدا کو دل میں سجا کر تمام عمر اس کی پوجا کرتی ہے جبکہ مرد بے شمار چھوٹی چھوٹی مورتیوں کو پوجتا رہتاہے۔ بس یہی وجہ ہے کہ عورت کی شاعری میں مرد کی بہ نسبت درد ،شکوے اور بے وفائی کے تذکرے زیادہ ملتے ہیں جسے اہل ادب’’ فیمینسٹ ادب‘‘ کا نام دیتے ہیں ممتاز ملک نے بھی انھی جذبات و احساسات کو اپنا موضوع سخن بنایا ہے ۔ ہاں ۔۔ مگریہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ماضی میں اردو ادب میں جو مقام اور احترام مردوں کو حاصل تھا وہ عورتوں کو خال خال ہی ملا مگر اب ایسا نہیں ہے کیونکہ خواتین نے ہر میدان میں خود کو منوایا تو ادب میں بھی بہترین تخلیقات اور وقار کے ذریعے خود کو ثابت کیا ہے بلاشبہ اپنی پہچان بنانے میں خواتین کے لیے انٹرنیٹ بہت مددگار ثابت ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ اچھے اچھے لکھاری سامنے آرہے ہیں اور ذاتی تعلقات کے بل بوتے پر معروف ہونے والے منظور نظر فنکار اوجھل ہوتے جا رہے ہیں ۔ اب سوشل میڈیا کے ذریعے نئے لوگوں کی اچھی شہرت سے تنگ نظر لکھاری خوفزدہ دکھائی دے رہے ہیںاور اکثر و بیشتر اپنی تنگ دلی اور پریشانی کا اظہار کرتے رہتے ہیں کیونکہ وہ نئے لوگوں کے عروج سے سہمے رہتے ہیں کہ یہ کہیں زیادہ عزت حاصل نہ کر لیں ۔بل گیٹس نے تو بہت پہلے کہا تھا کہ :’’انٹرنیٹ ایک طلاطم خیز لہر ہے جو اس لہر میں تیرنا سیکھنے سے احتراز کریں گے ، اس میں ڈوب جائیں گے ‘‘۔بل گیٹس کی بات سچ ثابت ہوچکی ہے کہ آج ہر جگہ انٹرنیٹ کی حکمرانی ہے ۔ سوشل میڈیا بہت حد تک الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو پچھاڑ چکا ہے۔ جس سے بعض مفاد پرستوں کی بلیک میلنگ رک چکی ہے اور نئے لوگوں کی حوصلہ افزائی اور قدر دانی ہوئی ہے ۔اس کا ثبوت گاہے بگاہے ملتا بھی رہتا ہے مگر ادبی طور پر بھی سوشل میڈیا نے لکھاریوں کے کام کو عوام الناس تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے یہی وجہ ہے کہ ممتاز ملک رہتی پیرس میں ہیں مگر ان کا کلام اور کالم ان کے پاکستان میں ہونے کا احساس دلاتے ہیں ۔ 
ممتاز ملک کی شخصیت کا احاطہ تو بہت مشکل ہے کیونکہ وقار و تمکنت ان کا خاصہ اور شائستگی انکی فطرت کا حصہ ہے وہ لفظوں سے کھیلنا خوب جانتی ہیں ۔جہاں ان کے لفظوں کی کاٹ قاری کو بڑھکاتی ہے وہاں رم جھم سے گنگناتے ہوئے اشعار ذہنوں پر مثبت اور روحانی سکون چھوڑتے ہیں ۔ انسان بہتے پانیوں کی طرح ان کے سحر انگیز کلام کے زیر اثر شعری تصور کی رو میں بہتا چلا جاتا ہے ۔اور یوں ایک قاری اور سامع ان کا کلام دل و دماغ میں یوں اٹھا ئے پھرتا ہے جیسے وہ کوئی جاگیر لئے پھرتا ہے کیونکہ ان کا اندازواقعی دلپذیر ہے ۔۔کیا خوب کہا ہے ! 
بہت سی ان کہی باتوں کے افسانے بھی بنتے ہیں 
جو ہوتے ہیں کبھی اپنے وہ بیگانے بھی بنتے ہیں 
ممتاز ملک کا شمار ایسے قلمکاروں میں ہوتا ہے جو اپنے محسوسات ،مشاہدات اور عملی تجربات کو دوسروں تک پہنچانے کا فن جانتی ہیں ۔دو شعری مجموعوں کے بعد ـ’’سچ تو یہ ہے ‘‘ کے نام سے مضامین اور کالموں کی کتاب بھی طبع ہو چکی ہے ۔انھوں نے نہایت سادہ اور عام فہم انداز بیان کو اختیار کر کے مختلف مگر بے شمار موضوعات پر طبع آزمائی فرمائی ہے جو کہ قابل داد ہے ۔وہ اس خوبصورت پہچان پر ہماری مبارکباد کی مستحق ہیں ۔ہماری نیک خواہشات اور دعائیں ان کی نذر ہیں۔ وہ سدا سلامت رہیں ۔آ پ کو ان سے کئے گئے سوال و جواب میں ان کی ذات اور کام سے مزید آگاہی حا صل ہوگی ۔ 
                  ۔۔۔۔۔۔۔۔


سوال : آپ کو نثر نگاری یا شعر گوئی کا خیال کیسے آیا یا یہ کہ آ پ ایک لکھاری بننے کیلئے کیسے آمادہ و تیار ہوئیں؟ 
وہی پرانی لیکن سچی بات کہونگی کہ فنکار ، شاعر، لکھاری ، مصور سب پیدائشی ہوتے ہیں۔ ان کی صلاحیتوں کو زیادہ سے زیادہ پالش کر کے نکھارا جا سکتا ہے ۔ انہیں بنایا نہیں جا سکتا ۔ بچپن میں کورس کی کتابیں خریدتے ہی دو تین روز میں ہی ساری پڑھ لیا کرتی تھی ۔ صرف یہ ہی ہوتا تھا ذہن میں کہ اس میں نیا کیا لکھا ہے ۔ یوں جو کتاب سامنے آتی اچھا برا ، بڑوں کا چھوٹوں کا کوئی بھی موضوع ہوتا بلالحاظ و تفریق پڑھنے بیٹھ جاتی تھی ۔ اسی مطالعے نے مجھے بولنے کے لیئے الفاظ کا ذخیرہ عطا کر دیا ۔ جو بعد میں میرے قلم کی سیاہی بن گیا ۔زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب مجھے لگا ایک ایک بندے کیساتھ کھپ کھپ کے اور اس کے ساتھ بحث کر کے اسے کسی بات پر قائل کرنے سے کہیں اچھا ہے کہ میں اسے لکھ کر ہزاروں لوگوں کے سامنے بیک جنبش قلم پیش کر دیا کروں ۔ کچھ لوگ مخالف ہونگے تو وہ اس پر سوچیں گے ۔ اور جو اس بات کے حامی ہونگے وہ اسے مزید آگے بڑھائینگے ۔ سو جناب 2008ء میں ایک مذہبی ادارے کی جنرل سیکٹری منتخب ہونے کے بعد مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ یہ مائیک کسقدر اہم ہے جسے لوگ مفاد پرستی اور منافقت کے لیئے استعمال کرتے ہیں جبکہ اسے بہت پاورفل انداز میں مثبت تبدیلیوں کے لیئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ سو میں نے بطور جنرل سیکٹڑی کیساتھ سٹیج سیکٹری کی ذمہ داری بھی سنبھال لی ۔ تین گھنٹے کا پروگرام مکمل مطالعے کے تحت کسی ایک ہی موضوع پر ہوتا ۔ جس میں اس موضوع پر آیات و احادیث و واقعات تجربات ،مشاہدات سبھی کچھ شامل ہوتا تھا ۔ جس کے لیئے میں ایک یا دو پروگرامز کے لیئے سارا مہینہ دیوانہ وار تیاری کیا کرتی تھی۔ بس یہ سمجھیں وہ میرا لکھاری بننے کی جانب ایک بڑا بھرپور اور یقینی قدم تھا ۔ 

سوال : آپ کتنے عرصہ سے اس میدان میں طبع آزمائی فرما رہی ہیں ؟ 
بچپن سے کچھ نہ کچھ لکھا ۔ لیکن میں اپنے سکول کے دنوں میں انتہائی شرمیلی سی شرارتی بچی ہوا کرتی تھی ۔ جو کسی کے بھی اپنی جانب متوجہ ہونے پر گھبرا جایا کرتی تھی ۔ اس لیئے اپنی کوئی تحریر کسی کو سنانے کی کبھی جرات نہیں ہوئی ۔ نہ ہی کبھی چھپوانے کا سوچا ۔ ابو جی بھی بہت سخت مزاج تھے ۔ جن کی وجہ سے یہ شوق دل ہی میں کہیں دفن رہا ۔ ان تحریروں کو سنبھالنے کا خیال بھی تب ہوتا جب وہ مجھے خود بھی اہم لگتا۔ اور یقین ہوتا کہ میں انہیں کبھی کہیں شائع کروا پاونگی ۔ لیکن یہ جراثیم تب سے ہی مجھ میں موجود رہے ۔لیکن باقاعدہ آغاز 2008 ء ہی میں ہوا۔ 

سوال : آپ کوئی سے ایسے دو واقعات بتائیں جنہوں نے آپ کو اس مقام پر پہنچنے کیلئے جنونی یا ہمہ تن مصروف بنا دیا ہے ؟ 
جب مئی 2010 ء میں ایک مذہبی ادارے میں ہی میری مدت عہدہ بطور جنرل سیکٹری مکمل ہوئی ۔ اور مجھے لکھنے لکھانے کی پروگرامز تیار کرنے کی عادت پڑ چکی تھی ۔جبکہ دوسری جانب میرے مخالف گروپ میں خواتین کا وہ گروہ جن سے میری کامیابیاں اور مہمان خواتین کی جانب سے میری پذیرائی برداشت نہیں ہو رہی تھی ، نے ادارے کے انتظامی معاملات پر قابض اپنے باپوں بھائیوں ، شوہروں ، کے ذریعے میرا پتہ کاٹنے اور عہدے عہدے کھیلنے کا پروگرام بنایا ۔ حاسدین اور منافقین کے اس گروہ کا مقصد مجھے بے نام کرنا تھا ۔ لیکن ایک مخلص دوست کو جب میں نے کہا کہ میں اتنی محنت کی عادی ہو چکی ہوں ۔ تو اب یہ تو میرے کام سے فائدہ اٹھانے کو تیار نظر نہیں آتیں تو میں کیا کروں گی ۔؟ تو انہوں نے مسکرا کر کہا ۔ جس خدا نے تمہیں اتنی صلاحتیں دی ہیں وہ تمہیں اس سے بھی اچھا ان صلاحتیوں کو بروئے کار لانے والا کام بھی دیگا ۔ اور واقعی وہ بات ایک ہی ماہ میں سچ ہو گئی ۔ جب مجھ سے میری شاعری کو شائع کروانے کی فرمائش کر دی گئی اور اسکے 6 ماہ بعد ہی مجھ سے کالمز لکھنے کا اصرار ہوا تو مجھے ہمت کرنا ہی پڑی ۔ 

سوال : آپ کوئی سے ایسے دو واقعات بتائیں کہ جب جب آپ کی حوصلہ شکنی ہوئی یا یہ کہ کسی سینئر لکھاری نے آپ کے فن کی بد تعریفی کرتے ہوئے آپ کو بد دل کرنے کی کوشش کی تو آپ نے کیا رویہ یا انداز اپنایا ؟ 
جب 2011ء میں میری پہلی کتاب (مدت ہوئی عورت ہوئے ) کی جلد اشاعت کا اعلان ہوا اور کچھ پروگرامز میں مجھے کلام پڑھنے کے لیئے بھی دعوت دی گئی ۔ بارسلونا ریڈیو پر بھی مجھے ٹیلی فونک مہمان بنایا گیا ۔ تو فرانس میں ایک ہی خاتون کا نام بطور شاعرہ کے زیادہ سنا جاتا تھا ۔ انہیں یہ بات کچھ اچھی نہیں لگی جو کہ بعد میں میں کافی عرصے تک خود بھی محسوس کرتی رہی کہ بطور شاعرہ ان کو میرا کام کرنا ہضم نہیں ہو رہا ۔ ایک دوسری خاتون جو کہ بطور کالمنگار کے کام کرتی رہی ہیں اور میری شروع میں انہوں نے ہی بہت ذیادہ حوصلہ افزائی کی ۔ یا سمجھیں مجھے گھسیٹ کر اس میدان میں اپنی شاعری لانے پر مجبور کیا لیکن جیسے ہی مجھے کالمز لکھنے کی دعوت ملی تو انہوں نے بھی اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔ اور مجھے لگے لپٹے اس بات پر قائل کرنے لگیں کہ کہ آپ کی شاعری سے آپ کی توجہ ہٹ جائے گی تو آپ کالمز کی جانب مت جائیں ۔ کیونکہ یہاں شاید انہوں نے مجھے اپنا مدمقابل سمجھنا شروع کر دیا تھا ۔ میں نے انہیں ایک ہی بات کہی تھی کہ نہ تو میں شاعری سوچ سمجھ کر پروگرام بنا کر کرنے بیٹھتی ہوں اور نہ ہی کالم ۔جبکہ میں ذاتی طور پر نہ کل نہ آج کسی کے مد مقابل تھی اور نہ ہوں ۔ ہر ایک کے کام کرنے کا اپنا انداز ہوتا ہے ۔ ہر ایک کا اپنا انداز بیاں ہوتا ہے ۔ اور ہمیں ان سب کی عزت کرنی چاہیئے اور ہر ایک کو اپنا کام پیش کرنے کا موقع دینا چاپیئے اور اس کی کامیابیوں کو بھی خندہ پیشانی کیساتھ قبول کرنے کا ہم میں حوصلہ ہونا چاہییے ۔سو اسی سوچ کے تحت میں نے اپنی ساری توجہ اپنے کام پر مرکوز رکھی اور خوامخواہ کی نمبرداری گیم سے خود کو باہر ہی رکھا ۔ فیس بک زندہ باد جس پر مجھے ہزاروں قارئین مل گئے ۔ جو ایک کلک پر میرے ساتھ موجود تھے ۔ سو میں نے کسی کی منتیں کر کے اپنا کام بھیجنے کے بجائے جن لوگوں نے خود سے مجھ سے رابطہ کیا ، کام بھیجنے کی درخواست کی، انہیں کو کام بھیجا ۔ اور جو ملا اسے خوشی سے قبول کیا ۔ سو آج کی ممتاز ملک اسی مستقل مزاجی اور قناعت کے ساتھ مذید حوصلہ اور جرات لیئے آپ کے سامنے ہے ۔ 

سوال : آپ کوئی سے چند ایسے احباب کا تذکرہ فرمائیں جنھوں نے اس ادبی میدان میں سرگرداں رہنے کے لیے آپ کی سر پرستی فرمائی ؟ 
مجھے اس میدان میں لانے کی کوشش کرنے والی خاتون کو فرانس میں سبھی جانتے ہیں ان کا نام لینا میں اس جگہ مناسب نہیں سمجھتی کیونکہ سرپرستی کرنے والی یہاں کوئی کہانی نہیں تھی ۔ انہوں نے مجھے واحد شاعرہ (اپنی مخالفت میں ) کی چپقلش میں اس میدان میں اتارا جبکہ میرے کالمز کی ابتداء سے وہ خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگیں کہ فرانس کی واحد کالمنگار خاتون کا مرتبہ اب ان سے چھن گیا ہے ۔ اس لیے کسی کی جانب سے ایسی کوئی مدد یا راہنمائی مجھے حاصل نہیں رہی ۔ بلکہ میرے کام کو جب پذیرائی ملنے لگی تو مجھے لانے والی خاتون خود بھی تحفظات کا شکار ہو کر میری راہ میں ہر قدم پر روڑے اٹکانے اور میرے خلاف لوگوں کو بھڑکانے والے کاموں میں مصروف ہو گئیں اور یہ مخالفت آج تک جاری ہے 

سوال : آپ چند ایسے لکھاریوں کا ذکر فرمائیں جن کی ادبی خدمات یا انداز یا شخصیت سے متاثر ہیں اور اس سے آپ کے فن میں کیا نکھار یا تبدیلی پیدا ہوئی ؟ 
شاعری میں بڑے ناموں کو تو ہم سب نے ہی پڑھ رکھا ہے اور پسند بھی کرتے ہیں ۔ لیکن مجھے خصوصا جن کے کلام نے ہمیشہ ہی متاثر کیا ہے ان میں حبیب جالب روایت شکن اور انقلابی نظریات لیئے ہوئے ہیں تو محسن نقوی سچ کا آئینہ یوں دکھاتے ہیں کہ دیکھنے والا اپنے عکس سے بھی انجان لگتا ہے ،منیر نیازی جب لفظوں کی مالا پروتے ہیں تو پڑھنے والا ملنگ ہو ہی جاتا ہے ۔ اشفاق احمد کی زندگی کے تجربات ہمیں روشنی کا مینارہ دکھاتے ہیں ۔ تو مشتاق احمد یوسفی اور یونس بٹ کی تحریروں سے تھکی ہوئی زندگی کے اندھیرے میں ڈسکو لائٹس کا سواد آ جاتا ہے ۔ یہ سب مجھے متاثر کرتے ہیں ۔ اور مجھے خوشی محسوس ہوتی ہے کہ میں ان کے ساتھ ایک ہی دور میں موجود ہوں ۔ اور ہمیشہ گنی جاونگی ۔ 

سوال: آپ اپنے چند اہم اور یادگار شعر یا کالم کا تذکرہ فرمائیں جسے بہت زیادہ سراہا گیا ؟ 
میرے پہلے شعری مجموعے کی ٹائٹل نظم مدت ہوئی عورت ہوئ بہت زیادہ سراہی گئی۔ اس کے علاوہ اسی کتاب سے غزل 
جانے کیا بات ہے ہنستے ہوئے ڈر جاتے ہیں 
اب تو ڈرتے ہوئے ہم اپنے ہی گھر جاتے ہیں 
یوں نہ مغرر ہو تو اپنی مسیحائی ہر 
زخم کی رسم ہے اک روز یہ بھر جاتے ہیں 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
محبت بانٹنے نکلے تھے پتھر لے کے گھر لوٹے 
بہت سے دشت چھانے اور ہو کے در بدر لوٹے 
تمہارے شہر میں ہم نے بڑی رسوائیاں پائیں 
مگر آخر غریباں شہر اپنے شہر لوٹے 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
ظلمت شب کو بہرطور تو ڈھلنا ہو گا 
اب ہر اک سیپ سے موتی کو نکلنا ہو گا 
سوچکےہیں جوسبھی خواب جگاو لوگو 
دل کوتعبیرکی خواہش پہ مچلناہو گا 
اب توگرگرکے سنبھلنے کا روادار نہیں 
ٹھوکروں سےتمہیں ہربارسنبھلنا ہو گا 
اپنےاعصاب کو،جذبات کو فولادی کر 
دل اگر موم بنا، اس کو پگھلنا ہو گا 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
کالمز میں بہت زیادہ سراہے گئے جو ہائے بیچارہ مرد، بابائی وبا، بہو ڈھونڈنے کی آڑ میں ۔ علم روزگار=زندگی۔ نتھ بنی نکیل شادی کی رات دولہا کا پہلا خطاب۔ اسلام کے چوکیدار۔۔۔اور بہت سے دوسرے کالمز 
سوال: کہا جاتا ہے کہ شعر گوئی قلبی واردات سے مشروط ہے ۔کیا آپ متفق ہیں ؟ 
جی ہاں جو بات آپ کے دل تک نہیں پہنچتی آپ کی روح کو نہیں جھنجھوڑتی وہ کسی اور پر کیا اثر چھوڑے گی ۔ لیکن اگر اس کا اشارا عشق وشق کی ناکامی کی جانب ہے تو میں اس سے بالکل اتفاق نہیں کرتی۔ پیغمبر پر وحی خدا کی دین ہے تو شاعر پر شعر اللہ کی عطاء ہے ۔ وہ چاہے تو آپ کے دل کو حساسیت کے ساتھ الفاظ کی ترتیب و ترنم عطاء فرمادیگا۔وہ نہ دے تو کوئی شعر کوئی نغمہ ترتیب نہیں پا سکتا ۔ 

سوال : آپ کس صنف سخن کو اپنے لیے سہل اور موافق طبع پاتی ہیں ؟ 
میری شاعری اور نثر نگاری دونوں شروع سے ہی ساتھ ساتھ چل رہے ہیں ۔ کون سی صنف میرے لیئے زیادہ سہل ہے یا موافق ہے اس کا فیصلہ میرے لیئے مشکل ہے ۔ اپنی سمجھ سے بنا کر کریں تو دونوں مشکل اور آمد ہو تو دونوں آسان ۔ 

سوال:اس وقت حکومتی اور نجی سطح پر جو مشاعرے منعقد ہو رہے ہیں ان کے بارے آپ کی کیا رائے ہے ؟ 
پاکستان میں تو مجھے سرکاری مشاعروں میں جانے کا کوئی اتفاق نہیں ہوا ۔ اس لییے کوئی تبصرہ نہیں کر سکتی ۔ ہاں فرانس میں ہماری ایمبیسی کے تحت جب بھی کوئی پروگرام ہوتا ہے تو اس میں ان کے من پسند قصیدہ گو ہی بلائے جاتے ہیں ۔ جو کہ میں نہیں ہوں ۔بلکہ مزے کی بات یہ ہے کہ اردو زبان کے نام پر بھی جو دو چار پروگرام ایمبیسی کے تحت ہوئے بھی ان میں فرانس میں اردو شاعروں اور لکھاریوں میں سے کوئی نمائندگی نہیں تھی ان پروگراموں میں کیا ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے یہ ہمارے سفیر صاحب ہی بہتر بتا سکتے ہیں ۔ جو یہاں پر بادشاہ سلامت کا رول ادا کر رہے ہیں۔ 

سوال : آپ اپنی چند ایسی تخلیقات کا ذکر فرمائیں جو ُآپ کو بہت پسند ہوں ؟ 
میں سماجی اور اخلاقی موضوعات پر لکھنا زیادہ پسند کرتی ہوں ۔ آپ مجھے معاشرتی اور گھریلو مسائل پر بات کرتے ہوئے ذیادہ پائیں گی ۔ کیونکہ میں سمجھتی ہوں ہر گھر معاشرے کی ایک بنیادی اکائی ہے اور جب بہت ساری اکائیاں اکٹھی ہوتی ہیں تو ہی کوئی معاشرہ تشکیل پاتا یے ۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں پر نظر رکھ کر اپنے معاشرے کی خرابیوں کی نشاندہی کرتے رہنا اور اس کی اصلاح کے لیئے تجاویز پیش کرتے رہنا ہی ایک اچھے لکھاری اور کالمنگار کی ذمہ داری ہے ۔ جو میں بھی پوری کرنے کی کوشش کرتی ہوں ۔ اسی سلسلے میں میری گھریلو مسائل پر لکھی گئی تحاریر اور بچوں کی پرورش اور بڑھتی عمر کیساتھ ان کے مسائل پر لکھی گئی تحاریر میرے دل سے بہت ذیادہ قریب ہیں ۔ جیسے کہ بچے ،بچپن اور تحمل ۔ پاس نہیں قریب رہو ۔ مائیں بور نسلیں تباہ ۔ گھروں کو گھر ہی رہنے دیں ۔ اور بہت سے دوسرے کالمز میرے دل کی آواز ہیں ۔ 

سوال : اگر آپ کا کالم یا ادبی شہ پارے پرنٹ ہوتے ہیں تو ان کا نام بتائیں ؟ 
میرے کالمز چالیس (40) سے زیادہ ویب نیوز پیپرز میں جاتے ہیں ۔ جن میں جنگ اوورسیز، آذاد دنیا،ڈیلی پکار ، سویرا نیوز ، جذبہ نیوز۔ دی جائزہ ، ڈیلی میزبان ، عالمی اخبار اور بہت سے دوسرے۔ 
میری اب تک تین کتابیں شائع ہو چکی ہیں ۔ 
1۔ مدت ہوئی عورت ہوئے (شعری مجموعہ2011) 
2۔میرے دل کا قلندر بولے( شعری مجموعہ 2014) 
3۔سچ تو یہ ہے(مجموعہ مضامین2016) 
اس سال انشاءاللہ نعتیہ مجموعہ متوقع ہے ۔ 

سوال :آپ پاکستانی سیاست کا کیا مستقبل دیکھتی ہیں اور کیا ہمارے وزیراعظم کرپشن سے پاک پاکستان کا عہد پورا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے ؟ 
پاکستانی سیاست میں جب تک اسٹیبلشمنٹ کی دخل اندازی ختم نہیں ہو گی ۔ اور جادوئی فیصلوں کی جگہ منصفانہ اور میرٹ پر فیصلے نہیں ہونگے تب تک غیر یقینی کی صورتحال برقرار رہےگی۔ وزیر اعظم صاحب سے ہم اچھی توقعات رکھتے ہیں ۔ 

سوال:پوری دنیا میں خواتین کا عالمی دن منایا جا رہا ہے ۔آپ کی جائے پیدائش پاکستان ہے ۔پاکستان میں خواتین کی جو حالت ہے اس سے آپ بخوبی آگاہ ہیں مگر اب آپ پیرس میں مقیم ہیں اور مغربی خواتین کسی حد تک آزاد ہیں تو کیا آپ سمجھتی ہیں کہ پاکستانی خواتین مغربی خواتین کی نسبت مغربی اپنے حقوق کی حفاظت کرنا جانتی ہیں ؟ 
پاکستانی خواتین کو پاکستان میں اگر کچھ زیادتیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو انہیں یورپئین خواتین کے مقابلے میں بے شمار سہولتیں اور فوائد حاصل ہیں ۔ معاشی بوجھ بھی ان کے کندھوں پر اتنا زیادہ نہیں ہے ۔ ایسی صورت میں اگر پاکستانی خواتین ہر شعبے میں ہنر مند نہ ہوں اور پیشہ ورانہ تعلیمی اورعملی میدانوں میں نام پیدا نہ کریں تو نہایت افسوس ہو گا ۔ اور یورپ میں زیادہ تر آفس ورک یورپی خواتین ہی کرتی ہیں جو مجھے بہت اچھا لگا ۔ پاکستان میں خواتین کو سکولز کے علاوہ بینکنگ ،پولیس ،ہاسپٹلز،اور باقی تمام شعبہ جات میں بھی صرف آفس ورک کا ہی مکمل سٹاف بنا دیا جائے جن کی ہیڈ بھی اہل قابل خواتین ہی ہوں تو نہ صرف ہمارے آدھی آبادی کو بہترین روزگار میسر آئے گا بلکہ انہیں اپنی بھرپور ذہنی صلاحیتیں جو کہ ماسٹرز کرنے کے بعد بھی ٹی وی دیکھنے فون پر چغلیاں کرنے، شاپنگ میں پیسہ اڑانے ،بیوٹی پالرز میں اور بوتیکس پر اپنے زندگی کے قیمتی گھنٹے اور میاں اور باپ کی کمائی اڑانے میں ضائع کرتی ہیں ، کے بجائے موثر انداز میں ملک کی خدمت اور اپنے خاندان کے لیئے آمدنی کا موثر ذریعہ بن سکتی ہیں ۔ اور فضول کاموں سے بچ سکتی ہیں ۔ 
رہی بات یورپ میں پاکستانی خواتین کی تو وہ بہت حوصلے اور ہمت والی ہوتی ہیں ۔ لیکن زیادہ تر ان کے گھروں سے ان کے شوہروں کی حمایت نہ ہونے کے سبب وہ اپنی صلاحیتوں کو منظر عام پر کبھی نہیں لا پائی ہیں ۔ شاید اس کی وجہ ان خواتین کا زیادہ تعلیم۔یافتہ ہونا اور ان کے شوہروں کا کم پڑھا لکھا ہونا یا اکثر ان پڑھ ہونا بھی ہے ۔ پیرس اور یورپ کے نام پر ان کو پڑھی لکھی بیویاں تو مل گئی ہیں لیکن ان کا احساس کمتری اور اپنی کم مائیگی کا احساس شدت اختیار کر چکا ہے ۔ جس کا ثبوت کام کرنے کی اجازت تو چھوڑیئے اپنی پڑھی لکھی بیگمات کو بھی کبھی کسی پبلک پروگرام یا فیملی پروگرام میں بھی نہیں لیکر جاتے ۔ لیکن اب جب اپنی بیٹیاں پڑھ لکھ کر مختلف شعبوں میں کام کرنے کو نکل رہی ہیں تو اب فرماتے ہیں کہ کیا کریں جی وقت کی ضرورت ہے ۔ یعنی کسی کی بیٹی بیاہ کر لائے تو اس کا کسی کے سامنے آنا بھی وقت کی ضرورت کے خلاف تھا جبکہ اپنے بیٹیاں اب جو مرضی کر لیں سب وقت کی ضرورت ہے ۔ جبکہ سچ یہ یے کہ اب یہاں کی پڑھی لکھی بچیاں اپنے فیصلے خود کرنا پسند کرتی ہیں ۔ جو کسی حد تک بہت اچھی بات ہے ۔ کہ ماں کی حالت دیکھ کر وہ اس حال کو پہنچنا یا اس جیسی زندگی گزارنا پسند نہیں کرتی ہیں ۔ وہ عملی میدان میں بھی اپنے ہنر دکھانا چاہتی ہیں ۔ 

سوال : نیا لکھاری آپ سے کوئی راہنمائی حاصل کرنا چاہے کہ وہ بھی آپ کی طرح معروف و مقبول بن سکے تو آپ کیا مشورہ دیں گی ؟ 
پہلی بات تو یہ ہے کہ میرے نزدیک معروف ہونا ایک الگ معاملہ ہے اور مقبول ہونا دوسرا ۔ 
۔اگر اپ کو معروف ہونا ہے تو قصیدے لکھیئے ۔قصیدے کامیابی کی پہلی سیڑھی ہوتے ہیں ۔ اچھا اچھا بولیے کریلے کے عرق کو جوس بولیے، لیکن اگر آپ کو مقبول ہونا ہے تو سچ بولیئے اور سچائی کی خاطر کبھی سمجھوتہ مت کیجیئے۔ اس میں ہو سکتا ہے آپ کو مال تو زیادہ نہیں ملے گا لیکن سکون کی دولت سے آپ کا دامن کبھی خالی نہیں ہو گا ۔ کام کیجیئے پورے خلوص اور صبر کیساتھ اور سیکھنے کے لیئے ہمیشہ تیار رہیے ۔ یہ سوچے بنا کہ آپ کو کوئی مشورہ یا سیکھ دینے والا آپ سے جونئیر ہے یا سینئر ۔ اسی میں کامیابی کا راز پوشیدہے ۔ 

سوال : آپ نے اگر کوئی اعزازات ،انعامات یا اسناد حاصل کر لی ہیں تو ان کا ذکر فرمانا مناسب سمجھیں گی ؟ 
سنا ہی ایوارڈ و اسناد حاصل کرنے کے لیئے ہمارے ملک میں آپکی بڑی واقفیتیں اور گٹھ جوڑ ہونے چاہیئیں ۔ ایوارڈ کی رقم میں حصہ داریاں دینے والے جلدی جلدی اعلی نام و مقام حاصل کر لیتے ہیں ۔ 
میری کیونکہ ایوارڈ دینے والوں سے ابھی ایسی کوئی شناسائی نہیں ہوئی اس لیئے جو خود سے ملے اس میں چکوال پریس کلب کی جانب سے 2016 ء میں دھن چوراسی ایوارڈ۔ اور 2018ء میں ٹونی ٹی وی امریکہ کی جانب سے حرا فاونڈیشن نے ایوارڈ دیا ہے ۔ 




جمعرات، 7 مارچ، 2019

انٹرویو رقیہ غزل کا ممتازملک سے



https://youtu.be/wY
RZbb-Ibsk

پاکستان میں خواتین ماسٹرز کرنے کے بعد بھی چغلی کرتی ہیں
نامور شاعرہ و کالم نگار ممتاز ملک ںے حیران کن انکشاف کردیا۔
انکشافات سے بھرپور گفتگو پڑھیے آپکی بات ڈاٹ کام کے خصوصی سلسلہ "پرسنیلٹی آف دا ویک" میں
مکمل اور واضح پڑھنے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کریں

https://www.apkibat.com/new.php?id=5529



اتوار، 16 دسمبر، 2018

انٹرویو میگزین باب دعا





سوال نامہ
انٹرویو ثوبیہ خان


1۔ بابِ دعا : آپ کا نام اور آپ کا قلمی نام؟
# ممتازملک
2.باب دعا: تعلیم کہاں تک حاصل کی ؟
# بی اے پرائیویٹ 
3۔بابِ دعا: آپ کے لکھنے کی ابتدا کیسے اور کب ہو ئی ؟
# بچپن میں ہی جب سوچنا شروع کیا تو سمجھنا بھی شروع کیا ۔ اپنے دل کی بات پہلے صرف اپنے لیئے لکھنا ایک مشغلہ تھا جو وقت کے ساتھ جینے کا مقصد لگنے لگا ۔
4۔ بابِ دعا: کیا آپ کے خاندان میں کوئی شاعر یا ادیب ہے؟ ؟
شاید ہاں ۔ لیکن مجھے ان کے بارے میں زیادہ تفصیلات کا علم نہیں ہے ۔
5۔ بابِ دعا: آپ کی اب تک کتنی کتابیں شائع ہوچکی ہیں؟
3 کتب شائع ہو چکی ہیں ان میں 2 شعری مجموعے بنام
1۔ مدت ہوئی عورت ہوئے
2011 میں چھپی۔
2۔ میرے دل کا قلندر بولے
2014 میں چھپی۔
3۔ سچ تو یہ ہے (مجموعہ مضامین)
2016 میں چھپی۔
۔اور چوتھی کتاب طباعت کے مراحل میں ہے ۔
6۔ بابِ دعا : پسندیدہ شاعر کون ہے کس سے متاثر ہوئے ؟
محسن نقوی ، حبیب جالب، منیر نیازی، احمد فراز
7۔ بابِ دعا: زندگی کا فلسفہ
بتائیں ۔ آپکی کی نظر میں؟
زندگی درد کی کہانی ہے
وہ جو ہنس ہنس کے اب سنانی ہے
کتنے ابواب  کو چھپانا ہے 
اور کتنی ہے جو بتانی ہے
(ممتازملک )
8۔ بابِ دعا: معاشرہ کسے کہتے ہیں ؟
#انسانوں کا ایک ہجوم جسے کچھ اصول و ضوابط کے تحت زندگی گزارنے پر آمادہ کیا جائے ۔
9۔ بابِ دعا : آج کے دور میں شعراء بھی ہیں ادیب بھی ہیں کتابیں بھی لکھی جارہی ہیں لیکن تہذیب کم ہوتی جارہی ہے کیوں ؟
کیونکہ اکثر جو لکھا اور  کہا جا رہا ہے وہ لکھنے اور کہنے  والے کے اپنے  کردار میں نظر نہیں آ رہا ۔
10۔ بابِ دعا: آج کل کے ملکی حالات پر آپ کیا کہنے چاہیں گے ؟
اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے ۔
11۔ بابِ دعا : دورِ عروج کے ادب اور زوال یافتہ معاشرے کے ادب میں کیا فرق ہے ؟
دور عروج کے ادب نے لوگوں کو زندگی کے مقاصد سے روشناس کیا ۔ اور دور زوال کے معاشرے کے  ادب نے لوگوں کو حقیقت سے دور مصنوعی دنیا کا باسی بنا دیا۔
12۔ بابِ دعا : آپ کے خیال میں اچھا ادب کیا ہے اور برا ادب کیا ہے ؟
# اچھا ادب مثبت رہنمائی کرتا ہے جبکہ برا ادب بھٹکاتا ہے، برباد کرتا ہے۔ بے چینی پیدا کرتا ہے ۔ 
13 بابِ دعا: پسندیدہ کتاب یا ناول کونسا ہے ؟
ہر کتاب ایک استاد ہے جو کچھ نہ کچھ سکھاتی ہے اس لیئے میں ہر کتاب کو پسند کرتی ہوں ۔
14۔ بابِ دعا: اردو زبان کا مستقبل آپ کیسے دیکھتے ہیں ؟
# اردو کا مستقبل خود پاکستانیوں کے ہاتھ میں ہے ۔ اپنی زبان سے محبت کرنا شروع کریں گے تو اس کا مستقبل بہت روشن ہو گا ۔
15 بابِ دعا : فیس بک کی شاعری کو آپ کیسا دیکھتے ہیں اور فیس بُک کی وجہ سے کیا نقصان پہنچا ہے ادب کو اور کیا فائدہ ہے؟
# فیس بک پر ہر طرح کے لوگ اپنا ذوق سخن آزما رہے ہیں ۔ فیس بک ک طفیل ایڈیٹرز کی من مانیاں یا مجبوریاں اب ختم ہو چکی ہیں ۔ اب ہر انسان اپنا کام براہ راست لوگوں کے سامنے پیش کر سکتا ہے ۔ اس سے پریشان ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ہے شوقیہ شاعر وقت کیساتھ خاموش ہو جاتے ہیں ۔ فضول بے مقصد شاعری خود بخود  رد ہو جاتی ہے ۔ کام وہی باقی رہیگا جس میں دم ہو گا ۔ ہاں لیکن کچھ بے شرم لوگ جو جبری شاعر  ہوتے ہیں وہ چوری کے دم پر اپنا نام بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جس پر سائیبر کرائم کو مذید فعال ہونا پڑے گا اور ایک بار جو شاعری کسی کے نام سے پوسٹ ہو چکی ہو  اسے کسی اور کے نام سے قطعا پوسٹ کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہییے ۔ اس پر ماہرین کو فیس بک والوں کیساتھ مل کر کام کرنا ہو گا۔
مجموعی طور پر فیس بک نے لوگوں کو اپنے خیالات و نظریات کھل کر بیان  کرنے کی ہمت اور حوصلہ افزائی بخشی ہے ۔ اپنا اخلاق اور تہذیب دنیا کے سامنے پیش کرنا اب آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے ۔
16۔ بابِ دعا :شاعری کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے شاعری کیا ہوتی ہے ؟
# شاعری کسی عام انسان پر اللہ کا خاص کرم ہے ۔ پیغمبر پر اللہ کا پیغام وحی بن کر اترتا ہے تو شاعر پر شعر بن کر۔
ایسا نہ ہوتا تو ہر شخص شاعر ہوتا۔ 
17 بابِ دعا : کوئی ایسے لمحات یا دور جس کے آنے کی خواہش ہو ؟
میں اپنی  زندگی ہی میں اپنی تحریروں سے لوگوں کے منفی اذہان  اور رویوں کو مثبت رخ پر بدلتے دیکھنے کی خواہشمند ہوں ۔
18۔ بابِ دعا ادب کے فروغ کے حوالے سے  کیا تجاویز  دیں گے؟
# معاشرے کی برائیوں کو اجاگر کیجیئے اور برے رسوم و رواج  کے خاتمے کے لیئے جہاد سمجھ کر لکھیئے۔ اپنی تحریروں کو صدقہ جاریہ جانیئے ۔ 
19۔ بابِ دعا کمپیوٹر کے آنے سے ادب پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں؟
# سب سے برا اثر تو یہ پڑا کہ پہلے سو میں سے بیس لوگ کتاب خریدتے تھے اب دو خریدتے ہیں ۔ پڑھنے سے چڑ ہماری قوم کو پہلے بھی تھی اب تو وہ اس کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے ۔ ہر ایک اپنے آپ کو بنا پڑھے ہی علامہ سمجھتا ہے ۔
اور اچھا اثر یہ پڑا ہے کہ دنیا بھر کا علم آپ کی ایک کلک پر موجود یے ۔ اب یہ آپ پر منحصر یے کہ آپ اس علم سے مستفید ہونا  چاہتے ہیں یا نہیں ۔
20۔ بابِ دعا:  نوجوان نسل کے لئے کوئی پیغام ؟
# اپنی زبان سے اپنے خاندان کا تعارف پیش کیا جاتا ہے ۔ سو منہ کھولنے سے پہلے اپنے خاندان پر ایک  نظر ڈال لیا کریں ۔ اور یاد رکھیئے
باادب بانصیب بےادب بےنصیب
شکریہ
دعّاعلی

جمعہ، 24 نومبر، 2017

انٹرویو بزم خواتین


     سوالات فیس بک گروپ بزم خواتین
    جوابات.. ممتاز ملک. پیرس


سب ممبرز بتائیں۔کہ اپنے لائف پارٹنر یا محبوب جو بھی ہو آپ کی زندگی میں۔
آپ دونوں ایک دوسرے کو کیسے ٹریٹ کرتے ہیں۔

۱-
اُس کی جیب خالی کرنا یا اُس کے لئے خود حاتم طائی کی قبر پر لات مارنا؟
۲-
اُس کی باتیں سُننا زیادہ مزا دیتا ہے۔یا آپ زیادہ بولتی ہیں۔
۳-
دونوں میں سے کئیرنگ کون ہے؟
۴-
غصہ کس کو زیادہ آتا ہے؟اور کون سے ایشوز پر؟اور لڑائی کے بعد منانے میں پہل کون کرتا ہے۔مطلب کہ منتیں کرنے کی لاٹری ہمیشہ کس کی نکلتی ہے۔
۵-
شاپنگ آپ کرتی ہیں اُس کے لئے یا وہ کرتا ہے آپ کے لئے۔
۶-
ڈائیلاگز آپ زیادہ بولتی ہیں یا وہ؟
۷-
آپ دونوں کو ایک دوسرے میں سب سے زیادہ کیا چیز یا عادت اچھی لگتی ہے؟اور سب سے زیادہ الرجک ایک دوسرے کی کس بات سے ہوتے ہیں۔
۸-
فرمائش زیادہ تر کس چیز کی کرتے ہیں ایک دوسرے سے؟
۹-
دونوں میں نرم مزاج کون اور غصیلا کون؟یعنی کہ گزارا کون کرتا ہے زیادہ۔
۱۰-
ہر بات اور ہر کام میں ایک دوسرے سے صلاح و مشورہ لیتے ہیں۔یا اپنی اپنی مرضی ہوتی ہے؟
۱۱-
مذھبی اور سنجیدہ مزاج کون ہے؟اور آذاد خیال ٹینشن فری اور مست مزاج کون؟
۱۲-
رومانٹک کون ہے زیادہ اور بورنگ کون؟



لو پھر جگر تھام کر سنو بہنو 😜


1-
پیسہ مجھے بس ضرورتا ہی درکار ہوتا ہے ورنہ اکثر گھر سے نکلوں تو جیب میں  ہاتھ ڈالکر معلوم ہوتا ہے کہ دو یورو ٹکٹ کے بھی نہیں ہیں.
اندازہ لگا لیں ویسے مانگوں تو مل جاتے ہیں شوہر سے الحمداللہ
"مانگنا" شرط یے 😜
2- میں زیادہ بولتی ہوں سو میرا کوئی راز نہیں ہے ....نقصان
جبکہ میاں صاحب گھنا ایم اے 😜
3-
میں زیادہ کیئیرنگ ہوں ہر ایک کا ہر موقع مجھے ہی ازبر ہوتا ہے
نک سان 😬
4-
مجھے غصہ اسی لیئے آجاتا ہے جب میرے کسی خاص موقع پر سب کومے میں چلے جاتے ہیں. وہی گھنا شوہر ہر بار  منانے تو آ جاتا ہے پر باز نہیں آتا دل جلانے سے 😨
5-
خود  ہی کرتے ہیں اپنی اپنی شاپنگ
6-
میں ہی بولتی اس امید پر
کہ شاید سچ ہو  جائے یا میری کسی بات کا اس چکنے گھڑے پر اثر ہو جائے.
7-
ہم دونوں ہی بذلہ سنج ہیں اور ہماری شادی بچائے رکھنے میں یہ ہی گرینڈ پاور ہے
بری عادت میری ہر کسی پر رحم کھانے کی عادت انہیں بری لگتی ہے  اور
انکی بات دھیان سے نہ سننے اور ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکالنے کی عادت مجھے
بیحد بری  لگتی ہے.
8-
کوئی خاص نہیں
9-
میں زیادہ نرم بھی ہوں عام طور پر اور غصیلی بھی اصولی باتوں ہے.
مجھے جھوٹ دھوکہ اور نظرانداز کیئے جانا  قطعی پسند نہیں ہے
جبکہ ہمارے شیخ صاحب کو پتہ ہے میرے جیسی اور کوئی نہیں ملنی 😂
10-
اکثر آپس میں مشورہ کر لیتے ہیں جہاں ضروری ہو
11-.
ہم دونوں ہی ...لیکن
مذہبی میں کچھ زیادہ
12-
میں رومینٹک
وہ بورنگ 😄
ہن آرام اے 😂😁😁😁
ممتازملک. پیرس

منگل، 13 جون، 2017

انٹرویو / تفکر ڈاٹ کام . پہچان


http://www.tafacur.com/17731
السلام و علیکم!
امید ہے کہ آپ بخیریت ہوں گے۔ ہم نے تفکر ڈاٹ کام پر ایک نیا سلسلہ شروع کیا ہے، جس کے تحت فیس بک کے گروپ "پہچان" میں پہلے انترویوز لگائے جایں گے  اور پھر تفکر ویب سائیٹ پہ اسی انٹرویو کو شائع کیا جائے گا جو بعد میں کتابی شکل میں بھی دستیاب ہو گا۔
اسی سلسلے میں آپ کے لئے ایک سوالنامہ تیار کیا گیا ہے ۔ ازراہِ مہربانی اسے اپنے جوابات سے نواز کر ہمیں واپس بھیج دیں تا کہ اسے پہچان اور تفکر کی زینت بنایا جا سکے۔
( اگر آپ ان پیج یا یونی کوڈ اردو میںلکھ سکیں تو بہت بہتر ہے ورنہ سادے کاغذ پہ خوشخط تحریر بھی قابلِ قبول ہے)اپنی کچھ تصاویر بھی ارسال کیجئے
             پہچان(سوال نامہ)
1۔آپ کا پورا نام؟
   *ممتازملک
2۔کوئی قلمی نام؟
*ممتاز
3۔کہاں اور کب پیدا ہوئے؟
* 22 فروری 1971ء
  راولپنڈی پاکستان
4۔تعلیمی قابلیت؟
*بی اے
5۔ابتدائی تعلیم کہاں سے حاصل کی؟
  *گورنمنٹ گرلز ہائی سکول نمبر 2
  مری روڈ راولپنڈی
(جو اب ہائر سیکنڈری سکول ہو چکا ہے )
6۔اعلٰی تعلیم کہاں سے حاصل کی؟
*راولپنڈی، پرائیویٹ
7۔پیشہ؟
*ٹیچنگ ، کونسلنگ،سوشل ورک، شاعری،کالمنگاری
8-ادبی سفر کا اآغاز کب ہوا؟
* لکھنے اور شعر کہنے کا آغاز کب ہوا ؟یہ تو یاد نہیں لیکن اپنی تحریریں باقاعدہ عوامی طور ہر پیش کرنے کا آغاز ہوا 2008 جنوری سے .
9۔اگر آپ شاعر ہیں تو نظم اور غزل میں کس شاعر سے متاثر ہوئے؟
*ویسے تو مجھے ہر لکھنے والے کا کلام اچھا لگتا ہے اور دوسرے سے منفرد لگتا ہے لیکن
منیر نیازی ، محسن نقوی، حبیب جالب، فراز میرے پسندیدہ شاعر ہیں .
10۔کسی شاعر یا ادیب کا تلمذ اختیار کیا؟
  *میں کسی شاعر کا انداز اختیار کرنے کے بجائے اس بات پر یقین رکھتی ہوں کہ کسی بھی شعر کو پڑھتے ہوئے اگر اسی کے انداز میں آپ پر  بھی اسی لب و لہجے میں اشعار کی آمد شروع ہوتی ہے تو یہ آپ کا فرض ہے کہ اسے پڑھنے والوں کی امانت سمجھ کر  اپنے حصے کے طور پر پڑھنے والے کے سامنے پیش کر دیا جائے .
11۔ادب کی کونسی صنف زیادہ پسند ہے؟
  *یہ فیصلہ کرنا میرے لیئے مشکل ہے .کسی معاملے کو سنتے ہوئے یا سہتے ہوئے آپ پر کوئی کیفیت اشعار کی صورت اترنے لگتی ہے تو کبھی نثر  کی صورت وہ صفحات پر لفظ در لفظ دوڑنے لگتی ہے ..اس کیفیت سے نکلنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ صفحہ قرطاس پر عطا کرنے والے نے کیا بکھیرا ہے آپ کے ہاتھوں . شعر یا  نثر..
12۔ادب کی کس صنف میں زیادہ کام کیا؟
  *شاعری، نثر، کہانی سبھی ساتھ ساتھ ہی چل رہی ہیں ...کتابیں دیکھیں تو شاعری پر کام زیادہ نظر آئے گا اور کالمز کی تعداد دیکھیں  تو وہ اس سے زیادہ نظر آئیں گے .
13۔شعری تصانیف کی تعداد اور نام؟
  *اب تک میرے دو شعری مجموعے چھپ چکے ہیں جن کے نام ہیں
*مدت ہوئی عورت ہوئے (2011ء)
* میرے دل کا قلندر بولے( 2013 ء )
سات کتابیں چھپنے کی منتظر ہیں .
14۔نثری تصانیف کی تعداد اور نام؟
  *میرے کالمز کا ایک مجموعہ چھپ چکا ہے . جس کا نام ہے
  *سچ تو یہ ہے ( 2016 ء)
جبکہ چار کتابیں ابھی چھپنے کی منتظرہیں.
15۔اپنے خاندان کے حوالے سے کچھ بتائیے؟
میرے والد قطب شاہی اعوان ملک تھے. ملک خالد لطیف ان کا نام تھا  .ان کا انتقال دسمبر 1996ءمیں ہو گیا تھا .
میری والدہ کا تعلق پختون فیملی سے تھا . ان کا انتقال مارچ 1999ء میں ہو گیا تھا .
میں ایک ہی بہن ہوں.  جبکہ میرے چار بھائی ہیں . میں بہن بھائیوں میں دوسرے نمبر پر ہوں . 
16-ازدواجی حیثیت؟
  * 7جنوری 1996 ء میں میری شادی لاہور کی ایک شیخ فیملی میں ہوئی .  الحمداللہ میں اپنے شوہر شیخ محمد اختر صاحب کیساتھ ایک خوشگوار شادی شدہ زندگی گزار رہی ہوں . اوربے شک میری تمام کامیابیوں میں میرے شوہر کی حوصلہ افزائی اور ان کے دیئے اعتماد اور بھروسے کا بڑا ہاتھ ہے . جس کے لیئے میں ہمیشہ انہیں اس کا کریڈٹ دیتی ہوں .
17۔فیملی ممبرز کے بارے میں بتائیے؟
  * میرے ماشاءاللہ تین بچے ہیں . دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ..
بڑی بیٹی نے ابھی گریجوایشن کمپلیٹ کی ہے .
دوسری بیٹی ابھی انٹر کر رہی ہیں  .
چھوٹا بیٹا نویں جماعت میں ہے .
18۔آج کل کہاں رہائش پزیر ہیں؟
میں شادی کے بعد 1998 ء سے ہی پیرس فرانس میں مستقل سکونت پذیر ہوں . میرے بچوں کی پیدائش بھی فرانس میں ہی ہوئی ہے . سوائے بڑی بیٹی کے . وہ ایک سال کی تھیں جب میں اسے لیکر اپنے شوہر  کے پاس فرانس آئی .
19۔بچپن کی کوئی خوبصورت یاد؟
کئی باتوں کے حوالے سے ہمارا بچپن بہت خاص رہا . ہمیں زیادہ گھومتے  پھرنے کی آزادی بلکل نہیں تھی . نہ ہی سہیلیاں بنانے کی اجازت تھی ..ہم حقیقا مارشل لاء میں بڑے ہوئے،  گھر میں بھی اور ملک میں بھی 
20۔ادبی سفر کے دواران میں کوئی خوبصورت واقعہ؟
ادبی سفر کے دوران میرا ہر پل اور ہر ایونٹ میرے لیئے یادگار ہے . جس کے لیئے میں اللہ پاک کی ہر لمحہ شکر گزار ہوں . میں سب کو عزت دیتی ہوں  اور سبھی نے مجھے بھی عزت سے نوازا ہے.  سب کچھ میری امید سے ہمیشہ ہی بڑھ کر رہا ہے . الحمداللہ
21۔آپ کے پسندیدہ مصنفین؟
ابن صفی ، آصف خان، یونس بٹ ، مشتاق احمد یوسفی، اشفاق احمد ، بانو قدسیہ ، عطاء الحق قاسمی اور بھی بہت سے ...
22۔اخبارات یا رسائل سے وابستگی؟
میں ہمیشہ ہی مطالعے شوقین رہی ہوں . اس لیئے مختلف  اخبارات سے وابستگی بھی ہے.
ویسے کتابوں کی دکان یا لائبریری  سے مجھے نکال کر لانا جوئے شیر لانے کے برابر ہے ..
23۔ادبی گروپ بندیوں اور مخالفت کا سامنا ہوا؟
  * بہت زیادہ ...باقاعدہ میرے نام اور فوٹو پر کراس بھی لگائے گئے کچھ محبت کرنے والوں کی طرف سے .
لیکن مجھے ہمیشہ ایک بات پر کامل یقین رہا ہے کہ اللہ نے جسے جس کام کے لیئے بھیجا ہے وہ اس  سے وہ کام جیسے چاہے کروا بھی لے گا اور منوا بھی لے گا
انشاءاللہ.  اور اس کی ایک مثال میں خود ہوں . وہ لوگ جو کبھی میری مخالف صف میں خوف بھڑکا کر کھڑے کیئے گئے تھے . آج وہ محبت سے عزت سے میرا ذکر کرتے ہیں تو یقین مانیئے اللہ کے حضور شرم سے نظریں نہیں اٹھا سکتی میں . بس یہ ہی کہتی ہوں
یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے یہ بڑے نصیب کی بات ہے
جسے چاہے اس کو نواز دے یہ در حبیب کی بات ہے
24۔ادب کے حوالے سے حکومتی پالیسی سے مطمئن ہیں؟
  *جی نہیں  ...
ہم بیرون ملک لکھنے والوں کو حکومت پاکستان نے اپنے کسی باقاعدہ دائرے میں شامل نہیں کیا . ہم اپنی کتابوں کو کیسے آسانی سے میلوں میں پہنچائیں. ہمیں اس کی کوئی رہنمائی حاصل نہیں ہے . ہماری کتابیں سیل کاونٹرز پر کیسے پہنچیں ؟ کچھ علم نہیں . ہم خود ہی پاکستان جائیں تو جو کچھ سمجھ پاتے ہیں وہ ہی اپنے کام اور پہچان کو سامنے لانے کے لیئے کرتے ہیں ورنہ جو نہیں جا سکتے وہ گمنام ہی  رہ جاتے ہیں .  اقرباء پروری کی آگ  نے بہت سے لکھاریوں کے کام کی چتائیں جلا دیں .
25۔اُردو ادب سے وابستہ لوگوں کے لیے کوئی پیغام؟
* ویسے تو میں  خود کو اس قابل نہیں سمجھتی کہ کسی کو کوئی پیغام دے سکوں ...لیکن اگر کوئی مجھے سننا چاہے تو اس سے یہ ہی گزارش ہے کہ اردو ہماری قومی زبان تو ہے ہی لیکن یہ دنیا کی بہت ہی مہذب، خوبصورت اور  مترنم زبان ہے . اس میں کام کرنا ہو تو پلیز اپنی اردو کا لہجہ اور تلفظ سب سے پہلے ٹھیک کیجیئے . اور خود کو ہر پل اپنی  تصیح کے لیئے تیار رکھیں . ورنہ آپ کا برا تلفظ اور برا  لہجہ آپ کی اردو کی خدمت تو کیا کریگا اس زبان کی بربادی کا سہرا ضرور آپ کے سر ہی بندھے گا .
26۔ہماری اس کاوش پر کچھ کہنا چاہیں گے؟
لکھنے والوں کے تعارف اور پہچان کو محفوظ کرنے کا یہ سلسلہ بہت ہی خوب صورت اور ضروری ہے . آپ کی اس کاوش کو میں خراج تحسین پیش کرتی ہوں . اللہ پاک آپکو مزید کامیابیوں سے نوازے . آمین
تاکہ ہم اپنے آنے والے نوجوانوں کے لیئے اپنے کام اور لکھاریوں کی ذاتی معلومات کو محفوظ کر سکیں .
27۔پہچان شعر یا تحریر؟
میرے پہلی کتاب کی ٹائٹل نظم ہی میری پہچان بنی. جو پیش  خدمت ہے .
(مدّت ہوئ عورت ہوۓ )
مجھ سے سہیلی نے کہا
ممتاز ایسا لکھتی جا
جس میں ہوں کچھ چوڑیوں
چھنکارکی باتیں
کچھ تزکرے ہوں چنریوِں کے
اِظہار کی باتیں
اُڑتے سنہری آنچلوں میں
موتیوں کی سی لڑی
پہلی وہ شیطانی میری
پہلی وہ جو میری ہنسی
بالی عمر کی دِلکشی
وہ بچپنے کی شوخیاں
خوابوں میں خواہش کے سراب
دھڑکن کی وہ سرگوشیاں
گوٹا کِناری ٹانکتے
اُنگلی میں سوئیوں کی چُبھن
دانتوں میں اُنگلی داب کر
ہوتی شروع پھر سے لگن
پہلی دفعہ دھڑکا تھا کب
یہ دل تجھے کچھ یاد ہے
وہ خوشبوؤں رنگوں کی دنیا
اب بھی کیا آباد ہے
میں نے کہا میری سکھی
دنیا کیا تو نے نہ تکی
مصروف اِتنی زندگی
کہ چُوڑیاں پہنی نہیں
جو چُنریاں رنگین تھیں
وہ دھوپ لیکراُڑ گیئں
میری عمر کی تتلیاں
اب اور جانِب مڑ گئیں
اب دوپٹوں پر کبھی نہ
گوٹا موتی ٹانکتی ہوں
سوئیاں ہاتھوں پر نہیں اب
د ل کو اپنے ٹانکتی ہوں
خوشبوؤں کے دیس سے
میں دُور اِتنی آگئ
جینے کی خاطر
 مرد سا
انداز میں اپنا گئ
رِشتوں کو ناطوں کو نبھاتے
فرض ادا کرتے ہوۓ
تُو نے جو چونکایا لگا
مدّت ہوئ عورت ......
http://www.tafacur.com/17731
                       -----------

پیر، 10 اپریل، 2017

انٹرویو / ممتاز ملک بائے سید اعظم شاہ


انٹرویو برائے سید اعظم شاہ 
https://www.facebook.com/azam.shah.9212301

Shairi kaisay shuroo kee?
پتہ نہیں 
جب سے شعور کی سیڑھی پر قدم رکھا ہے خود کو لفظوں کو آگے پیچھے گھماتے دیکھا یے . دوستوں نے اسے شاعری  کہا 
کبھی نثر

شاعری کے لیے محبت ضروری ہے؟
محبت تو ہر کام کے لیئے ضروری ہے 
لیکن شاعری کے لیئے حساسیت بہت ضروری ہے

Aap ko kabi mohabbat huwi?
ہاں مجھے میرے ہر رشتے سے محبت رہی ..لیکن جوابی محبت شاید میرے نصیب میں کبھی نہیں لکھی گئی تھی...
میرے حالات زندگی  میں یہ روایتی محبت کے لیئے نہ تو جگہ تھی نہ فرصت

محبت کیا ہے؟
کسی سے اپنے تعلق کو  خاص  محسوس کرنا . ...اس کی خوشی اور غمی آپ کو دل سے محسوس ہو اور آپ پر وہ اثرانداز ہو.
جب کسی کا نہ ہونا آپ کو اپنا آپ ادھورا دکھائے ...تو جان لیں کہ آپ کو اس شخص سے محبت  یو گئی ہے.

اور جب کسی سے سارا دن اور ساری رات باتیں کرنے کا دل کرے تو؟
تو اپنا نفسیاتی معائنہ کروانا چاہیئے کیونکہ یہ محبت کے دائرے سے نکل کر جنون کے دائرے میں داخل ہوتی حالت ہے
آپ کس موضوع پر زیادہ شاعری کرتی ہیں؟
میری شاعری رشتوں کے گرد گھومتی ہے 
یا پھر صوفی رنگ میں  ہے  جو انسان کو کائنات اور اس دنیا میں اپنا مقام اور ذمہ داری یاد دلاتی ہے .

مزاحمتی شاعری کرتی ہیں؟
ہیں وہ بھی ہے

Habibi Jalib ko parha
جی ہاں 
حبیب جالب ، منیر نیازی ، محسن نقوی میرے پسندیدہ شعراء رہے ہیں

مزاحتمی شعرا ہیں.....
جی ہاں خصوصا جالب ..
خاص طور پر اگر وہ 
*ایسے دستور کو میں نہیں مانتا 
*ڈرتے ہیں بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی سے
*پاوں ننگے ہیں بے نظیروں کے علاوہ کچھ نہ بھی لکھتے تو بھی مزاحمتی شاعری میں  ان کا مقام کوئی کم نہی کر سکتا.

مشاغل کیا ہیں آپ کے ؟
لکھنے لکھانے  اور پڑھنے کے علاوہ میں ایک اچھی کک ہوں .
سلائی ، کڑھائی، ڈیکوریشن،
پینٹ کرنا خواہ کاغذ پر یا کپڑے پر ...
مجھے بہت اچھالگتاہے 
گارڈنگ سے بھی مجھے خوشی ملتی ہے
اپنی بات کو نوجوانوں تک پہنچانا اور ان کو ٹھیک باتوں کی جانب راغب کرنا اپنے دلائل سے ..
میں  اسے وقت کا تقاضا بھی سمجھتی ہوں اہم بھی. .
جب سے بڑوں  نے نوجوانوں سے مکالمہ ختم کیا ہے ہماری تہذیب اور دین دونوں کی ہی حالت بگڑ چکی ہے

رنگ کون سا پسند ہے؟
یہ بہت مشکل سوال ہے 
مجھے ہر سال ایک نیا رنگ زرا زیادہ اچھالگتاہے 
لیکن عموما مجھے ہر رنگ اچھا لگتاہے . میں کسی ایک رنگ  کا نام نہیں لے  سکتی.

کھانے میں کیا اچھا لگتا ہے ؟
مجھے ہر صفائی سے بنی اچھی پکی ہوئی ڈش پسند ہے .. 
چاہے دال ہو، سبزی ہو ،گوشت ہو۔الحمداللہ
آپ کیسی کتابیں پڑھنا پسند کرتی ہیں؟ 
میں ہر طرح کی کتابیں پڑھنا پسند کرتی  ہوں.  یوں سمجھیں مجھے الفاظ سے عشق ہے. .
پھول کونسا پسند ہے؟
ویسے تو سبھی پھول خوبصورت اور اللہ کی صناعی کا اظہار ہوتے ہیں .
لیکن مجھے گلاب اور موتیا بہت پسند ہیں .
گلاب پسند ہے ۔
سرخ گلاب؟؟
سرخ، گلابی،پیلا اور سفید کی اپنی شان ہے..
حسن کے بارے میں کیا خیال ہے ؟

حسن کا معیار ہر ایک کے لیئے الگ ہوتا ہے .
میرے لیئے حسن اوورآل پرسنالیٹی میں ہوتا ہے .
kuch khawateen jaldi boori ho jati hain .... magar kuch 50 saal ki honay kay bawujood boht hee khoobsurat hoti hain ... iss ki kiya waja hai?
ایک بات یاد رکھیں جو خواتین اپنے شوہر کی بے توجہی خود پر طاری کر لیتی ہیں اور ان کی ذیادتی کو مقدر سمجھ کر اپنی خداداد صلاحیتوں کو کارپٹ  کے نیچے دبا دیتی ہیں وہ تیس سال کی عمر میں بھی بوڑھی ہو جاتی ہیں .
حدیث پاک ہے کہ
" غم آدھا بڑھاپے ہے " 
جبکہ جو خواتین صرف میاں کے انتظار میں  دروازے پر آنکھیں گاڑ کر بیٹھنے کے بجائے اپنے صلاحتیوں اور اپنے شوق کو عملی طور پر استعمال کرتی ہیں . وہ ایکٹیوو بھی رہتی ہیں اور جوان بھی اور اس کے ساتھ انہیں اپنے شوہر کی پذیرائی اور محبت بھی حاصل رہے تو سمجھیں سونے پر سہاگہ ہے ..
pehla sheir jab likha tau kiya feelings thein?
مجھے یاد نہیں کہ میں نے پہلا شعر کب کہا تھا ...
بلکہ مجھے آج بھی اپنے اشعار اچانک آمد ہوتے ہیں .انہیں میں فورا لکھ لیتی ہوں . اس کیفیت سے نکلنے کے بعد جب میں یہ اشعار پڑھتی ہوں تو خود میں حیران ہو جاتی ہوں کہ یہ واقعی میں نے لکھے ہیں  
zabardast
khawteen ko poora haq milna chahiye kay apni salahiyton ko buroo e kaar laaein

جو باپ بھائی یا شوہر ان خواتین کو یہ حق نہیں دیتے یقین جانیں وہ اللہ کی جانب سے ملے بڑے بڑے تحفوں  سے محروم ہو جاتے ہیں.  جو ان خواتین میں چھپے تھے
konsa dress acha lagta hai?
میرا پسندیدہ لباس ہے .
لمبا کرتا پاجامہ اور کھلا دوپٹہ

nice
aap ko Allah nay boht khoobsurti de rakhi hai
آداب عرض ہے
kabi tanhai ka ehsaas huwa?
ہاں بہت بار 
جب جس کو میری پشت پر ہونا چاہیئے تھا اکثر وہ وہاں  نہیں تھے.
.تو بہت زیادہ تنہائی محسوس ہوئی 
اس چیز نے بھی میرے کلام کو درد سے آشنا کیا.

kabi khayal aaya kay kisi kaa saath hona chahiye?
ہاں میں اکیلی کبھی نہیں تھی 
ہاں تنہا ضرور رہی .
ہمارے ہاں عورت کسی بھی رشتے میں جسم رہی ہے . سوچ اور ذہن کبھی نہیں رہی . اس لیئے ہمارے مردوں کو یہ بات کبھی سمجھ ہی نہیں آئی کہ اس عورت کو جذباتی طور پر کیسے ہینڈل کرنا ہے . یہیں وہ عورت میلے میں بھی تنہا ہو جاتی ہے .
آپ نے سنا ہو گا کہ 
میلے میں یہ دل اکیلا
یہ ہی سچ ہے...

Aurat ko aik mukammal mard chahiye hota hai jo sirf aur sirf usi ka ban kay rahey
عورت کو ہی کیوں ؟؟
ہر مرد کو بھی مکمل عورت چاہیئے جو صرف اس کی بن کر رہے...
سو ہر انسان وفا چاہتاہے اسے صرف عورت کیساتھ نتھی  نہیں کیا جا سکتا .

zabardast
mard ki konsi khoobi achi lagti hai?

اس کا کیرنگ مخلص اور وفادار ہونا
یا آج کی زبان میں 
شریف 
کماو
ٹکاو 
وسیع نظر
اوپن مائنڈڈ
Handsome ho???
اتنا کچھ ہو تو امانت چن بھی ہنڈسم لگنے لگتا ہے 

Do you like pant shirt in wearing?
ہاں ہم پینٹ شرٹ 
یا پینٹ کیساتھ لونگ سویٹر  پہنتے ہیں . 
ہر ملک کا پہناوا اسکے  موسم اور ضرورت کے حساب سے ہوتا ہے . 
یورپ میں یورپ کا لباس اور عرب میں عرب کا لباس. ..
that's good

how about your family?
میری شادی 96 میں ہوئی .
میرے شوہر بہت اچھے اور کوآپریٹوو انسان ہیں .
میری دو بیٹیاں 20/ 17 سال کی  اور ایک بیٹا 14 سال کا  ہے ماشااللہ 
سبھی پڑھ رہے ہیں ابھی

good.
age kiya hai aap ki?  .. exact

22/02/1971
Did anybody praise your beauty?
ہاں ہمیشہ ہر جگہ حسن کو سراہنے والے موجود ہوتے  ہیں 
لیکن مجھے خوشی تب ہوتی یے جب کوئی میرے کام کو سمجھتا اور اس کو پذیرائی بخشتا ہے

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/