روشنی کی طرف
فون کی گھنٹی کافی دیر سے بج رہی تھی۔
میں نے جلدی سے کچن میں ہاتھ دھوتے ہوئے دوڑتے ہوئے فون اٹھایا
ارے تم نے سنا پلوشہ باجی کی بیٹی کا انتقال ہو گیا ۔
سلام دعا کے بعد نگو آپا نے اسے یہ افسوسناک خبر سنائی
اوہ بہت افسوس ہوا ۔یہ کب اور کیسے ہوا؟ ان کی بیٹی تو ابھی بہت جوان ہے۔ شاید 27 یا 28 سال کی۔
اسے کیا ہوا ؟
میں نے افسوس اور حیرت میں کئی سوال ایک ساتھ کر ڈالے۔ نگو آپا نے کہا
یہ تو مجھے نہیں معلوم۔ بس مجھے خبر ملی ہے۔
تم کیونکہ ہمارے گروپ کی صدر ہو۔ اس لیئے مجھے لگا تمہیں معلوم ہونا چاہئے۔ویسے بھی وہ تمہارے نزدیک ہی رہتے ہیں۔ اگر تم پہنچ سکو تو ۔۔
پلوشہ باجی ہمارے گروپ کی پرانی ممبر رہی ہیں۔ ان کے گھر تعزیت کے لیے جانا چاہیئے۔
جی جی آپا بالکل آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ آپ لوگ پہنچئیے۔ میں بھی پہنچتی ہوں۔
یہ کہہ کر میں نے پلوشہ باجی کا نمبر ملایا ۔ ان سے افسوس کیا اور پوچھا کہ یہ سب کیسے ہوا۔
انہوں نے سرسری سا بتایا کہ ان کی بیٹی کینسر کی مریضہ تھی۔ کچھ عرصے سے اس کی حالت ٹھیک نہیں تھی۔ یوں اپنی 28 ویں سالگرہ سے پہلے اس نے دنیا چھوڑ دی۔
میں شدید افسوس میں تھی۔ کیونکہ یہ دونوں بہنیں بالکل چھوٹی بچیاں تھیں۔جب میں نے انہیں دیکھا تھا ۔
ابھی مشکل سے 18 سال کی ہوئی تھیں ۔ اپنی لازمی تعلیم سے ہی فارغ ہوئی تھیں۔ جب ان کے کزنز کے ساتھ ان کی شادی کے لیئے ان کے والدین انہیں پاکستان لے گئے اور وہاں یہ اپنے عزیزوں میں بیاہی گئیں۔
واپس آ کر ان لڑکیوں نے جنہوں نے اپنے اعلی تعلیم بھی شروع نہیں کی تھی۔ دونوں بہنوں نے دن رات ایک کر کے نوکریاں کیں۔ ان کے کاغذات بنوائے۔ ان لڑکوں کو یہاں بلوایا۔ سیٹل کروایا۔ ان کے بچے پیدا کیئے۔
لیکن رشتہ داروں کی روایتی ہٹ دھرمی کے تحت "جو کرو کم تھا "
میں نے پوچھا باجی اگر آپ کو غسل وغیرہ کے لیے کسی خاتون کی مدد ساتھ میں چاہئے تو میں حاضر ہوں۔ آپ مجھے ساتھ لے جا سکتی ہیں۔
یہ سن کر انہوں نے پہلے شکریہ ادا کیا ۔کچھ تکلف کیا اور پھر بولیں۔
ٹھیک ہے۔ ابھی ہم لوگ اسپتال کی طرف ہی جا رہے ہیں۔ وہیں پر اس کو غسل دیا جائے گا۔
میں نے کہا ٹھیک ہے اگر ہو سکے تو آپ مجھے پک کر لیجیئے گا۔ کیونکہ میرے شوہر ابھی گھر پہ نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا ٹھیک ہے۔ ہم وہیں سے گزریں گے۔ آپ تیار رہیئے گا۔
ٹھیک آدھے گھنٹے میں ہم آپ کو پک کریں گے۔
میں نے فٹافٹ کپڑے تبدیل کیئے۔ گھر کی کچھ چیزیں سمیٹیں۔چابی مخصوص جگہ پر رکھی۔
تاکہ بچے سکول سے آئیں تو دروازہ کھول سکیں۔
ویسے تو بچوں کے پاس اپنی اپنی چابی موجود تھی لیکن وہ جانتے تھے کہاں سے وہ چابی لے سکتے ہیں۔ اس لیئے اگر ان کی چابی کہیں گم بھی ہو جائے تو انہیں چابی مل جاتی۔ سالن تیار تھا ۔ روٹیاں بنا کے ہاٹ پاٹ میں رکھ چکی تھی۔ کیونکہ یہاں بچے ساڑھے گیارہ بجے گھر آ کر کھانا کھاتے ہیں ۔ تو ناشتے کیساتھ ہی ہانڈی روٹی بھی چڑھا دیتی ہوں ۔ اس لیئے جیسے ہی انہوں نے مجھے فون کی بیل دی میں دوڑتے ہوئے بلڈنگ میں اپنے فلور سے نیچے اتری اور ان کے ساتھ روانہ ہو گئی۔
میرے دل میں کھد بد مچی تھی۔ کتنے سوال جواب کے منتظر تھے۔
آخر کیا ہوا؟ اتنی جوان پیاری لڑکی 28 سال کی عمر میں دو بچیوں کی ماں وہ اتنی اذیت ناک تکلیف میں کیسے مبتلا ہوئی۔
گاڑی میں بیٹھ کر علیک سلیگ ہوئی۔
کئی سال سے میں یہاں رہ رہی تھی۔ لیکن پلوشہ باجی کے ساتھ میرا سلام دعا سے زیادہ کبھی اتنا رابطہ نہیں ہوا تھا۔
آج اتفاق سے ہم سفر کر رہے تھے۔ آدھے گھنٹے کے سفر میں میں نے ان کے علاقے کی زبان میں جب ان کے ساتھ بات کی، تو وہ بہت خوش ہوئیں اور یوں بے تکلفی کے ساتھ بات کرنے لگیں۔ اپنی بیٹی کا دکھ وہ بیان کرنا چاہتی تھیں لیکن بیان نہیں کر پا رہی تھیں۔
ان کی دوسری بیٹی جو اگلی سیٹ پر اپنے بھائی کے ساتھ موجود تھی جو ڈرائیونگ کر رہا تھا۔ اس نے بہت تجسس اور خوشی کا اظہار کیا اپنی زبان پر۔
ہم لوگ ہاسپٹل پہنچے ۔
ہمیں اس حصے میں لے جایا گیا جہاں پر لوگ اپنے مرحومین کو آخری غسل دینے کے لیے آتے ہیں۔
اس جیتی جاگتی لڑکی کا حسین چہرہ بار بار میری آنکھوں کے سامنے گھوم رہا تھا۔
اسے اتنی تکلیف کون پہنچا سکتا ہے؟
اتنی پیاری اتنی خوبصورت ، اتنی ذہین لڑکی 18 سال کی عمر میں بیاہ کر دو بچوں کی ماں بن کر بے حد حسین بچیاں ایک پانچ سال کی اور ایک چھ سال کی ، وہ انہیں چھوڑ کر اس دنیا سے کیسے جا سکتی تھی۔
دل بوجھل سا ہوا جا رہا تھا۔
ہم غسل خانے کی طرف روانہ ہوئے۔ اندر ایک لمبا سا پلاسٹک کا بیگ تھا ۔ زپ والا، جو اس نہلانے کے تھڑے پر رکھا ہوا تھا۔
میں نے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ اسے کھولنا چاہا۔ تو خیال آیا ۔میرے ساتھ پلوشہ باجی اسکی ماں یہ سب کیسے برداشت کریں گی۔
وہ میرے ساتھ کھڑی تھیں۔ان کے دل کی کیا حالت ہوگی جبکہ میں اسے برداشت نہیں کر پا رہی تھی۔
عجیب سی بے بسی اور عجیب سا غم تھا ایک زندہ انسان کو کسی پلاسٹک بیگ میں دیکھنا میری زندگی کا یہ پہلا تجربہ تھا۔
انہوں نے کہا سنو میں تمہارے ساتھ رہوں۔
میں نے کہا نہیں باجی آپ باہر جائیں۔
ہمارے ساتھ غسل کے لیئے عرب لڑکیوں کا ایک پورا تربیت یافتہ گروہ آ چکا تھا۔
یہ کام بہت احسن انداز میں انجام دیا کرتی تھیں۔
میرے لیئے پہلا تجربہ تھا۔ میں سیکھنا چاہتی تھی۔ اس لیئے میں نے اپنی خدمات ہر کسی کے لیئے پیش کی تھیں۔ جسے ضرورت ہو وہ مجھے خواتین کے لیے غسل میں اپنے ساتھ مددگار بلا سکتا ہے ۔
میں نے باجی کو درخواست کی۔
باجی آپ باہر جا کر بیٹھ جائیں تھوڑی دیر ۔
ہم کر لیں گے۔ آپ یہاں مت رکیئے ۔
آپ صبر نہیں کر پائیں گی۔ انہوں نے کچھ سوچا ۔
آنکھوں سے آنسو ٹپکے اور وہ باہر کی طرف روانہ ہو گئیں۔
ہم سب نے مل کر جب بسم اللہ الرحمن الرحیم کے ساتھ بیگ کی زپ کو کھولا۔۔۔
اف خدایا کیا منظر تھا۔
ایک عورت جو کل تک ایک سلم سمارٹ خوبصورت لڑکی تھی۔ گوری چٹی حسین جس کے حسن کی مثال دیتے تھے۔ وہ ایک بھاری بھرکم وجود کے ساتھ وہاں پر اس بیگ سے برامد ہو رہی تھی۔
اس کے چہرے پر ایک ایسی بے بسی تھی جیسے کہہ رہی ہو
یا اللہ ہماری بس یہی اوقات ہے۔۔۔ ہمارا یہی سچ ہے۔
وہ جو ایک ایک لمحہ ہماری خبر لیتے تھے۔ آج انہیں پتہ نہیں کہ میں کب سے اس مردہ خانے میں ایک بےبس سافر کی طرح اس انتظار میں ہوں۔ کہ کوئی آئے اور مجھے میری منزل کی طرف روانہ کر دے۔
میری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے,
لیکن میں نے اپنے دل کو اپنے قابو میں رکھا.
اس حسین لڑکی کا وہ چہرہ آنکھوں میں گھوم رہا تھا .
لیکن یہ عورت کون تھی میں نہیں جانتی تھی ۔
10 سال، صرف 10 سال میں اس نے کتنا لمبا سفر طے کر لیا تھا۔
میں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا جیسی
ے اسے دلاسہ دینا چاہتی ہوں لیکن مجھے کون دلاسا دیتا۔
میں نے لڑکیوں کی ساتھ بہت ساری آیات کی تلاوت کے ساتھ اس کے بدن پر پانی ڈالا ۔
اس کے جسم پر تولیا تھا لیکن اس کے بازوں پر اس کے سینے پر جگہ جگہ نیل کے، زخموں کے نشان، آنکھوں کے گرد نشان۔۔۔
اوہ خدایا اس نے کتنی تکلیف سے جان دی ہوگی۔
جسم کے ہر ہر حصے پر کوئی نہ کوئی ٹانکا ، کوئی نہ کوئی زخم ، کوئی نہ کوئی نیل موجود تھا یہ کتنی اذیت میں ہوگی۔ اس نے کتنی تکلیف سہی ہوگی۔
وہ دیکھ کر میرا دل بند ہونے لگا۔ لیکن جیسے جیسے اس کا غسل مکمل ہوا اور اسے کفن پہنایا ہم لوگ پہلے اس کو جب کروٹ دینا چاہتے تھے بڑی مشکل سے ہم چھ سات خواتین نے مل کر اس کو کروٹ دی ۔
اس کا وجود اس قدر وزنی تھا کہ ہم اسے کروٹ نہیں دے پا رہے تھے ۔
کروٹ کے بعد اس کے اوپر پانی بہا کر غسل دینے کے بعد اس کو دوسری طرف سے کروٹ دی اور پاک صاف کیا اور اسے سیدھا پشت پر لٹا دیا۔ اسی طرح سے اس کو کفنانے کے بعد جیسے ہی اس کے جسم پر کفن پہنانا مکمل ہوا تو ہم نے سوچا اس کا وزن بہت زیادہ ہے۔
تابوت ا چکا تھا ہم نے اسے اس میں رکھنا تھا ۔
سب نے کہا بسم اللہ پڑھ کر ایک دم سے اسے اٹھائیں گے تاکہ ہم اسے اٹھا سکیں ۔
چھ سات لوگوں نے مل کر جب سر اور پاؤں کی طرف سے اسے اٹھانا چاہا تو یہ کیا ؟؟؟
پھول سے بھی ہلکا وجود چہرے پہ رونق اور ایسے جیسے آپ نے کسی بچے کو اٹھا کر تابوت میں رکھا۔
ہمیں پتہ ہی نہیں چلا ۔۔
جسے ہم کروٹ نہیں دے پا رہے تھے وہ ایسے دو انگلیوں کے سہارے کے ساتھ۔۔۔
اور ہم چھ سات خواتین ایک ساتھ ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگے۔
اسے تابوت میں کہیں آرام سے لٹانے کے بعد جیسے اس پر نگاہ پڑی
ا اف خدایا۔۔۔
وہ تھکے ہوئے مسافر کا چہرہ جیسے کھل چکا تھا۔ چہرے پر ہلکی سی مسکان، رنگت وہی سفیدی اور گلابی پن
اور ایسا لگا جیسے کسی نے سر سے ٹارچ جلائی ہو اور پاؤں کی انگلی تک اس کی روشنی نکل گئی ہو۔
اسکے چہرے پر روشنی بکھر چکی تھی۔
اف میرے خدا کیا میں خواب دیکھ رہی ہوں۔
یہ بات میں نے سن رکھی تھی لیکن میری زندگی میں پہلی بار میں نے اتنے مطمئن چہرے کے ساتھ کسی کو اس دنیا سے جاتے دیکھا۔
وہ بے بس مسافر اپنی منزل کی طرف باقی روشنی کی طرف روانہ تھی۔
سب سے آیات کا ورد چھوٹ گیا الحمداللہ جاری ہوا
پروشہ باجی کو اندر بلا کر جب انہوں نے اپنی بیٹی کا چہرہ دیکھا۔
ایک طرف ان کی آنسوؤں کی جھڑی تھی اور دوسری طرف سب نے انہیں مبارک دی کہ آپ کی بیٹی جنت کے سفر پر روانہ ہو چکی ہے۔
انہوں نے اس کا ماتھا چوما تابوت کو بند کر دیا گیا
تابوت لے جایا گیا
مسجد میں آج اس کا جنازہ ہوا
جس نے سنا دوڑتا چلا آیا
جس نے جانا وہ حیران ہوا
اس عمر کی لڑکیوں کی تو ابھی شادیاں بھی نہیں ہوئی تھیں اور یہ اپنے پیچھے دو بچے چھوڑ کر دس سال کی عذاب ناک زندگی گزار کر یہ دنیا ہی چھوڑ کر جا چکی تھی۔
یہ ایسا غم اور حیرت انگیز تجربہ تھا جو میں کبھی نہیں بھول سکتی تھی۔
پلوشہ باجی نے اپنے گھر پر دعا کی محفل رکھی اس وقت انہوں نے جب مجھے کہا کہ دعا تم کراؤ کیونکہ میں نے رات کو صوبیہ کو خواب میں دیکھا اس نے کہا یہ آنٹی جب بھی آتی ہے اور میرے لیے دعا کرتی ہیں تو مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔
میں یہاں بہت خوش ہوں انہیں سے دعا کروائیے گا۔
اور میں سوچ رہی تھی جس سے زندگی میں نہیں ملے۔
اس کا تعارف مردہ گھر میں ہوا ہو۔۔ کیا وہ بھی دوست بن جاتے ہیں؟
ہاں اس نے دس سال زندگی کے جس کے ساتھ گزارے جس کے لیئے اس نے محنتیں کیں، نوکریاں کیں، بچے پیدا کیئے، دھکے کھائے ۔۔
خوش نہ رہ سکی اور وہ اس کا دوست نہ بن سکا لیکن جس نے اس کی میت کی بیگ کا زپ کھولا
اس کے چہرے اس کی سر پر ہاتھ پھیرا ۔
ایک میت کو دلاسا دیا
وہ اس کی دوست بن گئی آہ
کتنی عجیب بات تھی۔ زندہ اور مردہ یہ کیسی دوستی تھی ۔
جو ایک اس دنیا سے، ایک اس دنیا سے اور ان دو دنیاوں کے دو لوگوں کی دوستی ۔۔۔اف
عجیب سا تجربہ تھا زندگی کا وہ۔
چھوٹی چھوٹی بچیاں اپنی ماں کے لیئے دعا کی محفل میں بیٹھی جنہیں شاید موت کا مطلب بھی معلوم نہیں تھا۔
ان کے لیئے ایسے ہی تھا جیسے ماں کہیں گئی ہے۔
ابھی آ جائے گی۔
وہ تو اپنی نانی کے گھر تھے اور جس کی بیوی تھی جو دس سال اسے اذیتیں دے کر اپنی ماں کو خوش کرنے کے لیے نت نئے جسمانی اور ذہنی اذیت کے نسخے ڈھونڈا کرتا تھا۔
ان کے ساتھ اسے اپنے بچوں سے بھی کوئی دلچسپی نہیں تھی تھوڑے دنوں کے بعد معلوم ہوا کہ ان بچیوں کا باپ مرحومہ صوبیہ کا شوہر پاکستان جا کر پھر سے سہرا باندھ کر نئی بیوی لانے کی تیاری کر رہا ہے۔
کیونکہ کاغذات اور نیشنلٹی تو بیوی کے صدقے اس کو مل ہی چکی تھی۔
اپنی بیوی کے ساتھ اب دوسرے گھر میں آباد ہو رہا تھا ۔
کسی نے پوچھا بچوں کا کیا ہوگا
کہنے لگا نانا نانی جانیں
اور اج جب زوبیہ کی قبر کی مٹی بھی خشک نہ ہوئی تھی وہ اپنی بیٹیاں اپنے گھر میں اپنی نئی بیوی کی ملازمائیں بنانا چاہتا تو تھا لیکن نانا نانی نے قانونا یہ لڑائی اپنے حق میں کر کے ان سے درخواست کی کہ ہماری بچی کی اولاد ہمیں دی جائے۔
جو آدمی چند مہینوں میں دوسری بیوی لا سکتا ہے وہ ان بچیوں کو کیا پالے گا۔
لہذا آج نانی صوبیہ کی بچیاں اپنے گھر لا چکی تھی کہ ان کا باپ نئی بیوی لا کر نیا گھر بسا چکا تھا۔۔
لیکن میں کیوں رو رہی تھی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔