ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک
تبصرے ممتازملک کے کام پر لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
تبصرے ممتازملک کے کام پر لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

پیر، 2 ستمبر، 2024

تبصرہ ۔ بشری فرخ



کتاب۔ اور وہ چلا گیا 
شاعرہ۔ ممتازملک
تبصرہ۔ بشری فرخ صاحبہ




اس نیلے اسمان کی چھتری کے نیچے ایک وسیع و عریض کائنات اپنی لامحدود روشنیوں اور تاریکیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے اور اس کائنات آب و گل کا انمول ترین نگینہ بشر ہے ۔ جو اپنے اندر عجائبات کی ایک دنیا سموئے ہوئے ہے۔ یہ بشر جب اس آخرت کی کھیتی پر قدم رکھتا ہے تو اس جہان رنگ و بو کی کسی نہ کسی شے کی جستجو میں ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اس بشر کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بدرجہ اتم ودیعت کی گئی ہے اور اسی بنا پر اللہ جل شانہ نے اسے اشرف المخلوقات کے خطاب سے نوازا اور زمین پر اپنا خلیفہ مقرر فرمایا۔
 یہی تلاش و جستجو جب اظہار کی متقاضی ہوئی تو انسان نے اپنے لیئے نت نئی راہیں استوار کیں کہ جن کے ذریعے باقی دنیا تک اپنا پیغام پہنچا سکے۔ کبھی ایجادات، کبھی دریافت، کبھی مصوری، کبھی موسیقی کی صورت اور جب جذبات و احساسات کی بات ہوئی تو قلم کا سہارا لے کر نثر اور شاعری کی بنیاد رکھ ڈالی۔ وطن عزیز میں اگر شاعری کی بات کی جائے تو ان 75 سالوں میں بہت بڑے بڑے نام ابھر کر سامنے ائے ہیں۔
 لیکن زیادہ تر حضرات کے۔ خواتین کا حصہ اس لیے کم کم رہا۔ کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کا شاعری کرنا اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اس لیئے شروع شروع میں خواتین مردانہ ناموں سے لکھتی تھیں۔  آہستہ آہستہ  معاشرے میں شعور بیدار ہونا شروع ہوا تو بہت ساری اہل قلم خواتین سامنے آتی چلی گئیں اور اج ادا جعفری سے لے کر کشور ناہید تک اور پروین شاکر سے لے کر شبنم شکیل تک آسمان ادب پر ستارے بن کر جگمگا رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ نئے لکھنے والوں میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی اپنی منفرد شاعری سے اپنا مقام بنا رہی ہیں۔
 ممتاز ملک کا شمار بھی ایسی ہی شاعرات میں ہوتا ہے جو علم و ادب سے والہانہ لگاؤ کے سبب شعر و سخن سے وابستہ ہیں اور اپنی منفرد پہچان بنا رہے ہیں ۔ 
سامعین کرام شاعری کی کوئی صنف بھی ہو اس میں اگر شاعر کے گہرے اور سچے جذبات کار فرما نہ ہوں تو شعر دل کی گہرائیوں میں نہیں اتر سکتا ۔
ممتاز کا اپنا اسلوب اور اظہار خیال اپنا پیرایہ ہے۔ ان کا مطالعہ اور مشاہدہ گہرائی اور گہرائی لیے ہوئے ہے۔ انہوں نے اپنے نہاں خانہ احساس سے ابھرنے والے دلکش اور عمیق خیالات کو سلیقے اور کرینے سے نفاست کے ساتھ قلم بند کیا۔ ان کی شاعری ان کے وسیع تجربے اور تیز مشاہدے کا نچوڑ ہے۔ جس میں سلیس زبان اور سادہ الفاظ کی انتخاب میں ایک خاص روانی پیدا کر دی ہے۔ زندگی کی تمام تر تلخیوں حقیقت زمانے کی بے مروتی عداوت نفرت اخلاقی اقدار کی پامالی غرض کہ زمانے کے تمام منفی رویوں نے ان کے قلم کو روانی عطا کی ہے۔ انہوں نے اپنے ارد گرد جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا اسے اس کے اصل روپ میں اپنے قاری کے سامنے رکھ دیا  کیونکہ ممتاز اپنی عملی زندگی میں بھی ایک بے باک،  صاف کو اور کھری انسان ہیں۔ اس لیئے ان کی شاعری بھی رنگ آمیزی کا عمل دخل نہیں ہے۔
 اپنے وطن سے دور پیرس میں بسنے والی اس شاعرہ کی شاعری میں اپنی دھرتی ماں سے محبت کی مہک، انسانیت کے دکھ ، معاشرتی مسائل اور وطن سے محبت کے ساتھ ساتھ ایک سچا مسلمان ہونے کے ناطے اپنے رب اور محبوب رب کی محبت میں غرق ممتاز ملک کا کلام
" اور وہ چلا گیا" یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ ان کا آخری پڑاؤ نہیں ہے۔ 
ان کے چند منتخب اشعار ملاحظہ فرمائیں
 ساری دنیا کو لے کے کیا کرنا
 صرف میرا میرے خدا ہو جا

 جب بھی سجدے میں سر جھکے تو لگے
 جنتوں کی کسی قطار میں ہوں

 یہ بگولوں نے دی خبر ہم کو
 دل کے صحرا میں رقص جاری ہے
 کھردری کھردری اداسی ہے 
مخملی مخملی خماری ہے

 اس نے لفظوں کا صور پھونکا ہے
 اب سنبھلنا تو اضطراری ہے

 بخت والوں کو ملا کرتا ہے آب شیریں
 میٹھے چشموں کا بھی پانی ہوا کھاری ہم پہ

 ممتاز مجھ پہ جانے پتھر کہاں سے برسے 
احساس کے شہر کا لہجہ تو ریشمی ہے 

خود کو دھوکے میں نہ رکھنا ہی سمجھداری ہے
 ساتھ کیا دیں گے نظر مجھ سے چرانے والے

یہی نہیں بلکہ انہیں اس سے بہت آگے جانا ہے۔
ممتاز ملک کو مبارکباد اور بہت ساری دعاؤں کے ساتھ
 بشری فرخ
(پرائیڈ اف پرفارمنس)
 چیئر پرسن 
کاروان حوا لٹریری فورم 
پشاور پاکستان



پیر، 20 نومبر، 2023

جشن ممتازملک رپورٹ ۔ حصہ دوم


موضوع :مختصر افسانہ حیات

بعنوان : "  مشرق کی بیٹی  "                
راولپنڈی کے شہر  کے ایک متومل و قدامت پسند  گھرانے  پیدا ہونے والی انتہائی شوخ  و چنچل لڑکی جس نے  گورنمنٹ گرلز ہائی سکول سے سیکینڈری کی  تعلیم مکمل کی اور اس کے بعد اس دور میں جہاں  ہزاروں لڑکیوں کی طرح  بیٹوں کو بیٹیوں پر ہمیشہ  فوقیت دی جاتی تھی ۔۔۔۔اور بیٹیوں کے تمام جائز حقوق بھی صلب کر دیے جاتے تھے ۔۔۔ وہی حال اس نازک اندام  دوشیزہ کا بھی ہوا ۔۔۔
معاشرے کی روائیتی انداز کو اپناتے ہوئے ماں باپ نے کالج میں داخلہ لینے سے منع کر دیا اور  گھر بٹھا دیا اور ساتھ یہ تنبیہ کی کہ  گھریلو کام کاج میں ماں کا ہاتھ بٹائے  کیونکہ  زندگی میں ہر لڑکی کو فقط امور خانہ داری میں  ہی ماہر ہونا  لازمی ہے ۔۔  کیونکہ ۔۔۔یہی کامیاب زندگی گزارنے کے  سنہری اصول ہیں  ۔۔۔
اس لڑکی نے ماں باپ کے حکم کو سر آنکھوں ہر رکھتے ہوئے اور  روایات کا بھرم نبھاتے ہوئے پرائیوٹ ہی اپنی باقی  تعلیم مکمل  کی  ۔۔  اور ۔ساتھ ساتھ
  گھر کے نزدیک  خواتین کے مستند  پارلر سے سے حسن و زیبائش  کے ہنر میں بھی باقاعدہ  تربیت  و سند حاصل کی 
ابھی مستقبل میں کچھ کرنے کے خوابوں کو آنکھوں میں سجائے اپنی دنیا میں مگن تھی کہ۔۔۔ایک اور پہاڑ سر پر ٹوٹا ۔۔۔۔ اسے بنا اس کی مرضی جانے شادی کے بندھن میں باندھنے پر زور  دیا گیا ۔۔۔اور جیسا کہ عام طور پر ان موقعوں پر  والدین پیٹیوں کو اپنی پرورش اور اپنی عزت کا واسطہ دے کر انھیں  کچھ کہنے سے پہلے خاموش کرا دیتے  ہیں۔۔۔ اور اگر  کوئی لڑکی  پس و پیش کرے  یا اپنے حق کے لیے کچھ کہنے کی کوشش بھی کرے تو اردگرد کے لوگ  اور قدامت پسند معاشرہ اس کی  بھر پور مخالفت کرتے ہیں ۔۔۔اور  ڈانٹ ڈپٹ اور جھڑکیاں دے کر اس  کی فریاد کو ان سنا کردیتے ہیں ۔۔۔ ۔ 
 سوچنے کی بات ہے کہ ۔۔۔۔ایک لڑکی کے لیے اس کے ماں باپ کا گھر ہی تو اس کے لیے ایک محفوظ قلعہ ہوتا ہے اور جب اس قلعہ میں ہی اسے بندی بنا دیا جائے تو وہ کےکرے ۔۔۔کہاں جائے ۔۔۔
۔۔کس سے فریاد کرے ۔۔۔  کیونکہ روایات اور رسومات  پر احتجاج کرنے پر  ۔۔۔۔عورت کے  قانونی اور شرعی کو کی رد کرنے والا زمانہ  ۔۔۔اسے نافرمان ،نا شکری  اور بگڑی اولاد ۔۔۔۔ کے طعنے دیتا ہے۔۔۔۔۔  
۔۔۔ ایک انکار اور نفرتوں اور طعنوں کی بوچھار۔۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔پھر رویوں میں سرد مہری کا ماحول ۔۔۔۔ گزرتے وقت نے جہاں اتنے گھاؤ لگائے وہاں زندگی نے ایک نیا موڑ لیا ۔۔۔۔اور یہ اپنے حق کو منوانے کی ضد پر اڑی لڑکی   شادی کے بندھن میں بندھی۔۔۔۔  اس  لڑکی نے ازدواجی زندگی کی ہر خوشی اپنے ہمسفر کو دی  دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ۔۔۔اب ان کی پرورش ہی اس کی زمہ داری تھی ۔۔۔اس نے پوری جانفشانی سے ماں باپ کے  گھٹے ماحول سے نکل کر جیون ساتھی کی توجہ اور پیار نے اسے جینے کا حوصلہ دیا  ۔۔۔اور  ۔۔۔قدم قدم پر اس کا ساتھ نبھایا  ۔۔۔ ۔۔گو کہ اس کا دل ماضی کی یادوں سے  چھلنی تھا ۔۔۔۔مگر دھیرے دھیرے یہ زخم مندمل ہونے لگے ۔۔۔ 
۔۔۔وہ  اپنے مقدر کے لکھے کو نصیب جان کر  جیون کی بہتی دھارا میں اپنی زندگی کی ڈولتی کشتی پر سوار  پر ایک  پر سکون ساحل کی تلاش میں  آگے بڑھتی  رہی ۔۔۔۔  بابل کا آنگن چھوٹا ۔۔۔۔ پھر گلی چوبارہ چھوٹا ۔۔اور پھر دیس سے پردیس سدھار گئی۔۔۔ 
مغربی طرز کا نیا ملک ۔۔۔ نئے لوگ ۔۔۔ اطراف میں پھیلی زندگی نے ۔۔۔ اس کے اندر  دوبارہ جینے کا حوصلہ پیدا کیا 
۔۔۔بچے اب دھیرے دھیرے بڑے ہو رہے تھے ۔۔۔ گھر کے کام کاج کے بعد اس کے پاس جو بھی وقت تھا اس نے خود پر توجہ دی اور  اپنی شخصیت کو پوری تندہی و  محنت سے سنوارا ۔۔۔۔  علاقے میں ہونے والی دینی و  دنیاوی تمام سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔۔۔ گو کہ یہ مغربی ملک تھا مگر یہاں آکر اسے پتہ چلا کہ عورت  کے حقوق کی وہاں کتنی عزت کی جاتی ہے  اور ۔۔۔۔۔  اپنے دیس میں  عورت کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا ہے ۔۔۔  ابھی تک کئی  پڑھے لکھے قدامت پسند گھرانے  تک بیٹیوں کو بوجھ سمجھتے ہیں۔۔۔ ۔
پردیس آکر اس لڑکی نے جو اب ایک  ماں اور بیوی کے ساتھ ساتھ  ایک زمہ دار فلاحی ادارے کی بانی و سرپرست بھی بنی ۔ 
 دور بدلا 
 ۔وقت و حالات بدلے ۔۔۔اور ۔۔۔۔ دنیامیں اب الیکٹرانک میڈیا کی آمد پر لوگ ایک دوسرے سے رابطے میں آگئے ۔۔۔  اور پھر دنیا گویا سکڑ کر گویا  ہتھیلی میں سما گئی ۔۔۔ ہم خیال اور ہم مزاج لوگوں کے علمی و ادبی گروپ بنتے گئے ۔۔۔

2010 ء سے اس خوصورت باوقار  خاتون خانہ نے  باقاعدہ شاعری اور لکھانے لکھانے کا آغاز کیا  اور اپنی پہلی شعری تخلیق بنام "مدت ہوئی عورت ہوئے" سے اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا ۔ نہ صرف  شاعری میں فن کے عروج کو چھوا بلکہ اپنے قلم کو تلوار بنا کر افسانے، کالم اور معاشرتی اقدار پر  کہانیاں لکھنا شروع کیں۔۔۔ وقت پر لگا کر اڑنے لگا۔۔۔ اپنی علمی و ادبی صلاحیتوں کی بنیاد پر  اب وہ ٹی وی چینلز پر اینکر اور کئی زمینی اور ان لائن پروگراموں اور ادبی محفل کی نظامت میں شب و روز مشغول رہنے لگی ۔۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے اپنا بلاگ بھی بنایا جہاں  سماجی اور اخلاقی موضوعات پر آسان ترین زبان میں ایک عام انداز فکر میں اصلاح معاشرہ کے نقطہء نظر لیکچر بھی دیے 
ان تمام سماجی،فلاحی اور ادبی سر گرمیوں کے ساتھ ساتھ اپنی گھریلو  زمہ داریوں کو بھی بخوبی نبھا رہی ہے
 
 جی یہ تعارف  ہے آج کی شاندار شخصیت جن کے اعتراف کمال فن کے کیے آج ہم سب جشن منا رہے ہیں 
محترمہ ممتاز ملک صاحبہ۔۔۔ تہہ دل سے خراج تحسین پیش کرتی ہوں 
۔۔۔ محترمہ ممتاز ملک صاحبہ کی زندگی کی کہانی ان دیس پردیس میں بسی ان  سینکڑوں لڑکیوں کی کہانی جیسی ہے جو معاشرے میں محض عورت ہونے کی وجہ سے ہر شعبے میں  پیچھے دھکیل دیا جاتی رہیں ۔۔۔
  مگر کہتے ہیں نا کہ وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا ۔۔۔۔ اور ہر انسان کو اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کی آزادی حاصل ہے ۔۔۔۔
۔۔  محترمہ ممتاز ملک صاحبہ  نے بھی  حالات سے گھبرا کر ہار نہیں مانی بلکہ ۔۔۔ "دبنگ"ہو کر ہر مشکل اور  طوفان کا مقابلہ کیا ۔۔۔
اپنے غصہ اور تکلیفوں اور بیتے ماضی  کو اپنی شاعری اور اپنے تحریروں میں اتار دیا۔۔۔۔  
۔۔ گو کے ۔۔۔۔اب  آزمائشوں کا  وقت گزر گیا مگر اپنی بیتی زندگی کے تلخ  تجربات کو یاد کر کے آج بھی انکا لہجہ غمگین اور آنکھوں میں نمی آجاتی ہے۔۔
صنف نازک  کا یہی تو کمال ہے کہ اپنے دکھوں کو پال کر جیتی ہے۔۔ 
مگر اپنے عزم و حوصلے کو آگ کی تپش ہر بھی پگھلنے نہیں دیتی ۔۔۔



درج ذیل نظم کو پڑھ کر  محترمہ ممتاز ملک صاحبہ کی شخصیت پر یہ افسانہ "مشرق کی بیٹی " قلمبند کیا 
(عذرا علیم )

"ہائے"

میں تو پیدا ہوتے ہی
اپنے ہی ماں باپ کے ہاتھوں
دنوں میں بوڑھی کر دی گئی

بچپن کے سب کھیل کھلونے
بے فکری اور چنچل پن
میرا کوئی حق نہیں کہہ کر چھین لی گئی

پڑھنا مجھکو اچھا لگتا تھا تو میری ہر کتاب کبھی جلائی اور کبھی وہ پھاڑی گئی

رنگیں آنچل فیشن شوخی
چوڑیاں میک اپ 
پسند تھیں  لیکن مجھ پر حرام وہ کر دی گئی

اپنی مرضی سے جیون کا ساتھی چننا حق تھا میرا
وہ بھی چاہت مجھ سے چھین کے برتی گئی

جو ترکے میں حق تھا اس پر ماں جائے بھی نوچتے اور کھسوٹتے کتے
 ہر دم چارو چاری گئی

کسکو یہ ممتاز سنائے
ہائے میں کیسے روندی گئی
ہائے میں کیسے ماری گئی 
               ۔۔۔۔۔۔
تاج محل کو پیار نشانی کہنے والو 
عورت کو ہر سال سزا دی چاہت کی 

کیسا ہے یہ عشق کہ ساری عمر اس نے 
بچے جن جن قیمت دی ہے راحت کی 

مجھکو اپنی انسانی آزادی پیاری
نہیں تمنا مر کر ایک عمارت کی

 کیسے لوگ ہیں قبروں کو 
چاہت کی نشانی کہتے ہیں
اک عورت درد زہ میں مر گئی 
جسے پیار کہانی کہتے ہیں 

کیا اس پر بیتی چاہت میں 
کوئی نہ کبھی بتلاتے ہیں 

چاہت کے لاشے تاج محل میں کبھی گھمائے جاتے ہیں 

دولت کی نمائش کو مردے
 اندر دفنائے جاتے ہیں 
ممتاز کے غم کو دفنا کر 
پھر جشن منائے جاتے ہیں 

 قلم
ہمیں عزیز تھی حرمت قلم کی جس دم تک
تمام قوموں میں سرتاج سا مقام رہا

زمانے کے لیئے ہوتے ہیں راہنما وہ ہی 
قلم کا ہاتھ میں جن کے سدا قیام رہا

فروزاں  علم و عمل  کے جہاں چراغ رہے
زمانے میں انہیں قوموں کا احترام رہا 

جنہوں نے جان لٹا دی قلم کی حرمت پر
جہان لفظ میں انکے لیئے سلام رہا

سہل نہیں تھی وفاداری سمجھ کر ممتاز 
لبوں پہ جان نکلنے تک ابتسام رہا
---------------------------

ممتاز ملک صاحبہ ان چند خواتین میں سے ہیں جو زندگی کے مشکل  حالات میں بھی حوصلہ سے آگے بڑھیں اور اپنے مقصد کو پانے میں کامیاب ہوئیں    ۔

اب تک آپکی  7 کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں .
1۔مدت ہوئی عورت ہوئے(-شعری مجموعہ  2011ء)
2- میرے دل کا قلندر بولے 
 (  شعری مجموعہ    2014ء)
3-  سچ تو یہ ہے 
 (  کالمز کا مجموعہ 2016ء )
4- اے شہہ محترم (صلی اللہ علیہ وسلم)  نعتیہ مجموعہ کلام (2019ء)
5-  "سراب دنیا " (اردو شعری مجموعہ کلام (2020ء).
6. "او جھلیا "۔ (پنجابی شعری مجموعہ کلام ۔ (2022ء)
7- "لوح غیر محفوظ" ۔مضامین کا  مجموعہ (2023ء)
زیر طبع کتب: 8
 الحمداللہ  اس وقت چالیس سے زیادہ ویب نیوز  سائیٹس پر آپکے  کالمز شائع ہو رہے ہیں جن میں 
جنگ اوورسیز ، ڈیلی پکار ، دی جائزہ ، آذاد دنیا،  عالمی اخبار ، اور بہت سے دوسرے شامل ہیں ۔  
💐 اعزازات ۔ 
 ممتاز ملک صاحبہ کی  کتاب سراب دنیا پر ایک ایم فل کا مقالہ ۔ طالب علم نوید عمر (سیشن 2018ء تا 2020ء) صوابی یونیورسٹی پاکستان سے لکھ چکے ہیں ۔ 
1 مقالہ بی ایس کے طالب علم مبین  نے بہاوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے لکھا ۔سراب دنیا پر
1۔ دھن چوراسی ایوارڈ 
 چکوال پریس کلب 2015ء/
2۔حرا فاونڈیشن شیلڈ 2017ء/
3۔کاروان حوا اعزازی شیلڈ 2019ء/
4۔ دیار خان فاونڈیشن شیلڈ 2019ء/
 5۔عاشق رندھاوی ایوارڈ 2020ء/
6۔ الفانوس ایوارڈ 2022ء/ گوجرانوالہ 
  اور بہت سے دیگر اسناد۔۔۔۔
 ۔ 
  انٹرنیٹ پر   محترمہ ممتاز ملک کا بلاگ جو آپ کے تمام شائع مواد مفت پیش کرتا ہے .
MumtazMalikPairs.BlogSpot.com
آپکی  ویب سائیٹ 
MumtazMalikParis.com
              ●●●
اردو کی سب سے بڑی ویب سائیٹ "ریختہ "اور "اردو پوائنٹ" پر بھی ان کا  کلام موجود ہے ۔  فیس بک ۔ ٹک ٹاک ۔ یو ٹیوب ، گوگل ، انسٹاگرام ، ٹیوٹر پر انھیں  بآسانی  ڈھونڈا جا سکتا ہے ۔

آپکے کلام سے  منتخب اشعار :
 ​​ 
سامان قہر رب ہے بپا جو نہ پوچھئے
    رشتے گزر رہے یوں دامن درید کر 
رفتار سست ہے تیری گفتار تیز ہے
دعووں میں کچھ عمل کااضافہ مذید کر
اپنے پروں پہ کر کے بھروسہ تو دیکھئیے 
اونچی اڑان کے لئے محنت شدید کر
         ____________ 

شیر و  مکھن میں نہ تھا حصہ کوئی 
میری خاطر  ماں نے لیکن چھاج رکھ لی

ہے محض ممتاز دھوکہ سوچ کا تو 
اک غلامی تھی بنام راج رکھ لی
________________

اسی دعا کے ساتھ کہ اللہ کرے ہو زور قلم اور زیادہ ۔۔۔

عذرا علیم 
مسقط عمان

شاعرہ،ادیبہ،۔نظامت کار ،کالم نویس،افسانہ /افسانچہ نویس،تبصرہ /تجزیہ نگار 
  نائب مدیرہ
(مجلہ "افسانہ نما" )
                ۔۔۔۔۔۔



         

منگل، 7 جنوری، 2020

صدام ساگر /تبصرہ


کالم نویس صدام ساگر کا تبصرہ برائے  نعتیہ مجموعہ کلام
 اے شہہ محترم (صلی اللہ علیہ وسلم)


3

جمعہ، 3 جنوری، 2020

● شفیق مراد۔ تبصرہ ۔ سراب دنیا




تبصرہ:     شفیق مراد۔ جرمنی

قلم کی امین

ادیب اور شاعر قلم کا امین ہوتا ہے جو اس بار امانت کو اپنے کمزور کندھوں پر اٹھائے اپنے مشاہدات و تجربات کو سپردِ قلم کرنے کی غرض سے کئی مرتبہ پُلِ صراط سے گزرتا ہے ۔جب مشاہدات و تجربات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جذبات ،احساس کی بھٹی میں تپ کر کندن بنتے ہیں تو وہ اشعار کا روپ دھارکر رنگ ونور کی شعاعیں بکھیرتے ہیں ۔ جو آنکھوں کو بینائی اور سوچ کو توانائی کے انمول خزانے عطاکرتی ہیں، تو گلستانِ حیات میں پھولوں کی نگہت اور کلیوں کی صباحت محسوس ہوتی ہے ۔
انقلاب کی سر زمین فرانس، خوشبوؤں اور محبتوں کے شہر فرانس میں مقیم ممتاز ملک کا قلم امانت کا حق ادا کرتے ہوئے، کبھی انقلاب کا جذبہ بیدار کرتا ہے تو کبھی وطن کی محبت کی مخملی چادر میں دیار غیر میں رہنے والے ہموطنوں کو پناہ دیتا ہے۔ اس کا قلم رشتوں کے اثبات ، وطن کی محبت، انسان دوستی اورامن و آشتی کا پیغام دیتاہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ خون جگر سے گلستان حیات کی آبیاری کر کے جہالت کے اندھیروں کو ختم کرنے اور علم و ادب کی روشنی سے قلوب کو منور کرنے کا عزم رکھتی ہے ۔وہ کہتی ہے ۔
ظلمتِ شب کو بہر طور تو ڈھلنا ہو گا 
اب  ہر اک سیپ سے موتی نکلنا ہو گا 
وہ حکمت ودانائی کے موتیوں کو سیپ سے نکالنے کا ہنر جانتی ہے اور اسی میں اسکا پیغام پوشیدہ ہے ۔جو انسان کو اسکے اندر پوشیدہ خزانے کی نشاندہی کرتا ہے ۔ زندگی اور زندگی کی رعنائیوں کی نغمہ خواں دنیا کے باغ میں خوبصورتیاں اور مہکتے پھول دیکھنا چاہتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب وہ خارجی تاثرات اور داخلی کیفیات کو اشعار کی مالا میں پروتی ہے تو اس کے اشعار ملک اور رنگ ونسل کی حدود قیود سے آزاد نظر آتے ہیں ۔وہ انسان اور انسانیت کی بات کرتی ہے خواہ اسکا تعلق کسی بھی خطہ ارضی سے ہو ۔ یہی چیز اس کی شاعری کو آفاقی بنا دیتی ہے ۔اس کی شاعری میں خوشی وانسباط کے شادیانے ہیں تو درد وغم کے تازیانے بھی ہیں ۔ اس کی آنکھ معاشرتی مسائل، معاشی ناہمواریوں ،انسانوں کے اذیت ناک رویوں اور انسانوں کی بے بسی کا ادراک رکھتی ہے جو اسے درد آشنا کرتی ہے تو وہ اسی درد کی دولت سے تریاق کشید کرتی ہے جو کبھی دوستانہ ہوتا ہے تو کبھی ناصحانہ اور کبھی ناقدانہ ،وہ کہتی ہیں 
منہ میں زبانیں سنگ کے موافق ہیں دوستو 
نرمی نہیں ہے نرمئ گفتار چاہئیے
چاہت کے واسطے تو زمانے بھی کم ہیں اور 
نفرت کو ہر گھڑی نیا سنسار چاہئیے 
انسانی مسائل کی نمائندہ شاعرہ کے ہاں غم کی آندھیوں میں امید کا روشن دیا ہے۔ جو کاروانِ حیات کے مسافروں کو نئے راستوں اور نئی منزلوں کی خبردیتا ہے ۔
ممتاز ملک، شاعری میں انسانی منفی رویوں کا برملا اظہار کرنا جانتی ہے ۔ایک سچے ،کھرے اورنڈر فنکار کی طرح جو بوجھ وہ قلم پر محسوس کرتی ہے۔ اسے صفحے پر اتار دیتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی شاعری میں زندگی کے حقائق کا گہرا احساس ملتا ہے وہ احساس کی دولت کو قوموں کی زندگی کا سبب قرار دیتی ہے اور اسے اجاگر کرنا نہ صرف اپنا فرض منصبی سمجھتی ہے بلکہ اس پر یقین بھی رکھتی ہے۔
دھڑکن کے بدلے سناٹے 
سوچ میں دقیانوسی جالے
یا
یہ الگ بات لہو میں تیرے دوڑے ہے جفا 
جا مری جان مری ساری وفائیں لے جا 

کسی بھی شاعر کی طرح ممتاز کا دل محبت کے جذبات سے خالی نہیں ۔ اسکی محبت خدائے عزو جل کی محبت سے شروع ہوتی ہے جو مدینے کی گلیوں کا طواف کرتے اور پیارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے پاوں کی خاک کو چھوتے ہوئے اور عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہوئے بنی نوع انسان کی محبت کی طرف رواں دواں ہے ۔
وہ کیا تھی عنایت وہ کیا دلکشی تھی 
جو سب کی عقیدت کی وجہ بنی تھی
وہ حُسن و عمل کا سرورآگئے ہیں 
حضور آگئے ہیں حضور آگئے ہیں 

ہجرت کا مضمون جس قدر درد ناک ہے انسانی تاریخ میں اتنی ہی اہمیت کا حامل ہے ۔ ہجرت کے نوحے بھی لکھے گئے اور ہجرت کو نئی منزلوں کی تلاش اور نئی دنیا کی دریافت کا نام بھی دیا گیا ہے ہے ۔ ممتاز ملک کو پیرس کی حسین وجمیل گلیاں ، فلک بوس عمارتیں ،حیات پرور نظارے اور سکون بخش سیر گاہیں اپنے وطن سے جدا نہ کر سکیں ۔وطن کی محبت اس کے انگ انگ میں سموئی ہوئی ہے اور اس کا دل وطن میں ہے اور وطن کے لئے دھڑکتا ہے جس کا ذکراس کی شاعری اور نثر پاروں میں جا بجا ملتا ہے ۔وہ یورپ کی پر تعیش زندگی کو دیکھتی ہے تو انہیں اپنے وطن کے گلی کوچے یاد آجاتے ہیں  تو بے اختیار سراپا التجا بن جاتی ہے اور یوں اظہار محبت کرتی ہے ۔
میرا تو دن رات ہے وظیفہ مرے وطن کا خیال رکھنا 
خدا کے در پر جھکا کے سر کو یہ ایک ہی تو سوال رکھنا 
جو تیری رحمت سے ہو نہ خالی ترے کرم سے قریب تر ہو 
ہزیمتوں سے بچائے ہم کو ہمارے سر پہ وہ ڈھال رکھنا 

اس کی شاعری میں جہاں معاشرتی اور معاشی مسائل کا ذکر ہے وہاں عالمی حالات پر بھی اس کی گہری نظر ہے وہ ظلم و بر بریت کے خلاف آوازِ حق بلند کرنا اپنا فرضِ منصبی سمجھتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے اشعار تمام تر شعری تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے مقصدیت سے بھر پور ہیں انسانوں کے غیر اخلاقی رویوں اور آداب معاشرت سے بے بہرہ لوگوں کے لئے اس کا رویہ بعض اوقات سخت بھی ہو جاتا ہے ۔جو اس کے جذبوں کی صداقت پر دلالت کرتا ہے وہ ایسے رشتوں کو جومحبت ہمدردی اور دوستی کے جذبات سے عاری ہوں ، لاش کی مانند قرار دیتی ہیں ۔ یعنی چلتی پھرتی لاش۔
ہم نہ پہچان پائے لاشے کو 
دوستی سرقلم ہے کیا کیجیئے
وہ رشتوں کے اثبات کی شاعرہ ہیں ۔اور انکا احترام کرنا جانتی ہیں ۔ایک طرف تو وہ بیٹی بن کر ماں کے لیے کہتی ہے
جنتوں کی کھلی فضا جیسی 
ماں مری مہرباں خدا جیسی 
تو دوسری جانب وہ ماں کے منصب پر فائز ہو کر اپنے بیٹے کو منظوم نصائح کرتی ہیں اس کی نظم ’’سنو بیٹے!میں تیری ماں ہوں ‘‘رشتوں کے تناظر میں ایک شاہکار ہے ۔
عام بول چال کے انداز میں الفاظ کو برتنے کا فن بخیر وخوبی جانتی ہے جذبوں کو اجاگر اور مثبت سوچ کو عام کرنا چاہتی ہے اس یقین کے ساتھ کہ احساس کی دولت اور نیک جذبے انسانی زندگی اور معاشرے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔
جذبہ دشت نوردی میرا اعزاز رہا 
زندگی آج اندھیروں سے نکل آئی ہے 
الغرض ان کی شاعری زندگی کے ہر شعبے کا احاطہ کئے ہوئے ہے اشعار میں خیالات کی فراوانی، مشاہدات کی طغیانی ، کردار کی بلندی اور جذبوں کی طاقت پائی جاتی ہے ۔اس کے پانچویں مجموعۂ کلام ’’سراب دنیا‘‘ کی اشاعت پرمیری نیک تمنائیں اور میری دعائیں اس کے ساتھ ہیں ۔
شفیق مراد
چیف ایگزیکٹو
شریف اکیڈمی جرمنی
18مارچ 2019ء
                        ۔۔۔۔۔۔۔

● تبصرہ ۔ ایاز محمود ایاز ۔ اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم


معروف شاعر اور آٹھ کتابوں کے مصنف جناب ایاز محمود ایاز  کا پیرس ، فرانس سے  تبصرہ 



دورِ صحابہ سے لے آج کے دور تک جہاں صحابہ کرام رض اور علما کرام نے حضورپاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نعتوں کی روایت کو فروغ دیا ،  وہیں اولیاء اللہ نے بھی اسلام کی ترویج و اشاعت کے ساتھ حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عشق کو ایمان کی تکمیل کے لیے ناگزیر قرار دیا اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حصول کے لیے نعت خوانی کو سب سے بہتر ذریعہ قرار دیا۔ 
 نعت گوئی کی ابتداء عربی زبان میں ہوئی ، سب سے پہلے قرآنِ کریم میں ہمیں حضورﷺ کی ہمہ جہت اور کامل شخصیت کا تعارف کرایا گیا۔ ربِّ کائنات نے پیارے نبیﷺ  کوجن جن الفاظ میں یاد فرمایا ہے ، ان پر غور کریں تو ہر لمحہ نعت و مدحت کے نئے باب کھلتے نظر آئیں گے، وما ارسلناک اِلّارحمۃً للعٰلمین، اِنک لعلیٰ خُلقٍ عظیم، خاتم النبیین ، بالمومنین رؤف رحیم ، داعیاً اِلی اللہ، صاحبِ مقامِ محمود ،سراجاً منیر، طٰہٰ، یٰس، شاہد، مبشر، مزمل، مصدق، معلمِ کتاب و حکمت، احمد، محمد اور حامد ، ۔۔۔۔۔خدائے بزرگ وبرتر کی طرف سے یہ تعارف پوری طرح نعت کے زمرے میں آتا ہے۔ 
زیرِ نظر نعتیہ مجموعہ کلام ۔۔ اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔۔اپنے  نبی کریم ﷺ سے عشق ہے۔ محترمہ ممتاز ملک صاحبہ کے حصے میں وہ سعادت آئی جو بڑے بڑے شعراء کو نصیب نہیں ہوتی ۔ میں سمجھتا ہوں نعت لکھی نہیں جاتی لکھوائی جاتی ہے جس پہ نبی کریمﷺ کی نظرِ خاص اور خصوصی کرم ہو وہ ہی نعت لکھ سکتا ہے۔ ممتاز ملک صاحبہ نے جہاں نبی کریم ﷺ سے اپنے عشق کو اپنا موضوع سخن بنایا وہیں انہوں نے بڑی خوبصورتی سے  نبی کریم ﷺ کی اسوہ حسنہ کو بھی موضوع بنایا ممتاز ملک صاحبہ کے لئے دعا گو ہوں کہ آپکا یہ ہدیہ نعت آپ کی بخشش کا سبب ہو اور آپکی عقیدتوں کا یہ سفر ہمیشہ اسی طرح جاری رہے ۔ آمین                                                                 ایازمحمودایاز
                               پیرس ۔ فرانس

شمیم خان صاحبہ کا تبصرہ ۔ اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم



پیرس میں مقیم معروف شاعرہ اور ایسوسی ایشن فم دو موند کی بانی و صدر محترمہ شمیم خان صاحبہ کا تبصرہ 
محترمہ ممتازملک جو نامور شاعرہ  اور خوبصورت  لکھاری بھی ہیں، اور  بہت سی خوبیوں  کے ساتھ بہترین نعت خواں بھی ہیں ان کی کتاب  
"اے شہہ محترم ص "کے نام سے منظر عام پر آرہی ہے حضور صلی علیہ وسلم کی خدمت میں یہ عقیدت مندانہ  نعتیں وہ  اپنی  بے حد خوبصورت آواز میں بھی  پیش  کر رہی  ہیں۔ 
پہلی بار کسی مجموعے میں حمدیہ کلام کو بھی اتنی ذیادہ اہمیت اور جگہ دی گئی ہے ۔ ورنہ ایک ادھ حمد باری تعالی کو  رسما ہی کسی بھی مجموعہ کلام میں پیش کیا جاتا ہے ۔ خصوصا نعتیہ مجموعوں میں حمدیہ کلام کی تعداد بھی ایک دو سے زیادہ کم ہی ہوتی ہے ۔ لیکن ممتاز ملک نے اس کمی کو محسوس بھی کیا ہے اور اسکی تلافی کرنے کی بھی بھرپور کوشش کی ہے جس کے لیئے وہ مبارکباد کی مستحق ہیں ۔ 
 اللہ کے فضل و کرم سے ان کا پیش کردہ  حمدیہ اور نعتیہ مجموعہ بے حد خوبصورت ہے۔  دعائیں اور اہل بیت کے نام  ان کے کلام نے کتاب کو اور زیادہ منفرد بنا دیا ہے ۔  
دعاگو ہوں کہ ممتاز ملک کا یہ  مجموعہ کلام
"اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم " پڑھنے والوں کی بھرپور پذیرائی اور توجہ حاصل کر سکے ۔ آمین 
 بہت سی دعاوں کیساتھ
        شمیم خان 
       پیرس ، فرانس

● تبصرہ ۔ عاشق حسین رندھاوی ۔ اے شہہ محترم(صلی اللہ علیہ وسلم)



عاشق  حسین رندھاوی (سیالکوٹ) کا تبصرہ 

نعت گوئی اہلِ ایمان اور  مذہب اسلام سے وابستہ لوگوں کا ایک فکری اور دلی عقیدت نامہ اور اصناف سخن کا سب سے اعلیٰ اور پاکیزہ حصہ ہے ۔ مگر یہ جس قدر سعادت وخوش بختی بلکہ آپ ﷺ سے بے پناہ عقیدت ومحبت کی دلیل ہے وہیں سب سے مشکل ،دشوار گزار اور بال سے زیادہ باریک راستہ ہے ۔ نعت کا موضوع جتنا اہم ،دل آویز اور شوق انگیز ہے اتنا ہی اس موضوع پر قلم اٹھانا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے ۔
خود شعر و ادب کی تخلیق کوئی کسبی چیز نہیں کہ جس کے مخصوص اوزان وبحور کو رٹ کر کچھ طبع آزمائی کرلی جائے ، بلکہ یہ ایک انعامِ الٰہی ہے جو خالقِ کائنات کی جانب سے بعض مخصوص بندوں ہی کو عطا کیا جاتا ہے۔ 
انہی چند لوگوں میں سے
  ایک ایسی شاعرہ کی نعت گوئی کے حوالے سے تجزیاتی گفتگو کا ارادہ ہے جو علمی و ادبی حلقوں میں شاید بہت زیادہ معروف نہیں ہیں ۔ لیکن  اسے نعت کہنے کا سلیقہ آتا ہے اور اس نے کچھ اس انداز سے اپنے خیالات کو شعروں میں ڈھالا ہے کہ ان کے اشعار سن کر دل جھوم اٹھتا ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ وہ آنے والے دور کی بہت معروف اور پختہ شاعرہ بن کر سامنے آئیں گی ۔ ان کے اشعار سننے کے بعد میرا پہلا تاثر تھا کہ محترمہ نے اگر کچھ اور نہ بھی کہا ہوتا تو بھی یہ نعت انہیں ادب میں زندہ رکھنے کے لئے کافی تھی ۔ میں اپنی پیاری بہن محترمہ ممتاز ملک صاحبہ کی شاعری پر تجزیاتی گفتگو سے قبل ان کی لکھی نعت کےچند  اشعار پیش کرتا ہوں۔  
    دیارِ  نبی کا  ارادہ     کیا   ہے
   کہ خود سے ہی ہم نے یہ وعدہ کیا ہے

سجائیں گے صحنِ حرم آنسوؤں سے
 تو مانگیں گے ان کا کرم آنسوؤں سے

    وہ رکھیں گے اپنا بھرم آنسوؤں سے
   انھیں سب بتائیں  اعادہ کیا ہے

ان اشعار میں محترمہ ممتاز ملک صاحبہ نے اپنا عقیدہ بہت ہی خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے اور تخیل کا یہ عالم ہے کہ عام انسان بھی ان کے اشعار کو پڑھ کر مدینے کی گلیوں میں سیر کرنے لگتا ہے ۔
دعا ہے اللہ تعالیٰ ان کے تخیل کو اور بھی پختہ اور بلند کرے  اور انکے
 نعتیہ مجموعہ کلام  
"اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم "کو بھرپور پذیرائی اور قبولیت عطا فرمائے ۔ 
آمین۔

معروف شاعر جناب عاشق حسین رندھاوی  جن کا تعلق سیالکوٹ سے ہے لیکن روزگار کے سلسلے میں فرانس کے شہر پیرس میں مقم ہیں،  کے اس خوبصوت  تبصرے کے لیئے میں ان کی دلی ممنون ہوں ۔  اور انکی خوشحالی و درازیء عمر  کے لیئے دعا گو ہوں ۔ 
ممتازملک۔ پیرس 

● شاز ملک کا تبصرہ ۔ سراب دنیا

تبصرہ
شاز ملک
پیرس ۔فرانس

کسی بھی شاعر اور ادیب کی تخلیق کا دارومدار اسکے تخیل کی اُڑان 
پر ہوتا ہے ۔ وہ اپنی سوچ کو پر لگا کر تخیل کی اُڑان کو ہموار بناتا ہے 
اسکا قلم اسکی اعلی پرواز کا گواہ ہوتا ہے ۔۔  
محترمہ ممتاز ملک  صاحبہ کا قلم بھی انکی اعلی ذہنی سطح کا گواہ ہے
بحیثیت شاعرہ میں نے انکے احساسات و جذبات میں شدت کو محسوس کیا ہے 
اور وہ اشعار میں اپنا مدعا کہیں سادگی سے بیان کرتی نظر آتی ہیں اور کہیں 
تشبہات و استعارات سے مدد لیتے ہوۓ نہایت خوش اسلوبی سے اشعار میں اپنی جزباتی کیفیات کو بیان کرتی ہیں 
میں نے انکے قلم کو حساسیت کے دائرے میں رہتے ہوئے صنف نازک کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوۓ پایا ہے وہ اپنے گمان میں ماضی سے حال تک کا سفر  کرتے ہوۓ مستقبل کی  خوش گمانیوں پر بھرپور نکاہ رکھتی ہیں۔
ممتاز ملک  سچائی کے علم کو تھامے ہوۓ اپنا ادبی سفر طے کر رہی ہیں 
انکی سوچ کی اُڑان تخیلاتی نہیں بلکہ زمانے کے حقائق اور تلخی کو اجاگر کرتی ہے ۔۔ وہ سچائی کو بلا تامل لکھتی ہیں اور اس سوچ کو عوامی راۓ کے ساتھ منسلک کرنے میں زرہ برابر بھی تامل نہیں کرتیں اور یہی انکی کامیابی کا راز ھے 
دل سے دُعا ہے کہ اللہ پاک انکے قلم کو سچائی کی روشنی سے منور رکھے 
اور وہ ادب کے آسمان پر روشن ستارے کی مانند اپپنے قلم کی روشنی سے چمکتی دمکتی رہیں ۔۔آمین
شاز ملک فرانس

بدھ، 1 جنوری، 2020

● شکیل عادل کا تبصرہ/ تبصرے



قلندر صفت شاعرہ
 ممتاز ملک 
تحریر: (شکیل عادل ۔ پشاور)


معاشرتی برائیوں کو اگر بیماریاں کہاجائے تو شاعر اورادیب ان بیماریوں کی روک تھام کے لئے ڈاکٹرز کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ وہ نت نئے اشعار اوران اشعار میں بیان کئے گئے مضامین کوا نکی بیخ کنی کےلئے استعمال کرتے ہیں ۔ وہ طنز سے، ہلکے پھلکے مزاح سے ، غصے سے ، دکھ سے اور افسوس سے اپنا مافی الضمیر بیان کرتے چلے جاتے ہیں ۔اور ایسا اس لئے ہے کہ رب تعالےٰ نے انہیں یہ وصف دیا ہے کہ وہ چیزوں کو الگ زاویہِ نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہ اعلیٰ دماغ ہوتے ہیں اس لئے معاشرے کے باشعور لوگ ان کی باتوں کا اثر لیتے ہیں اور معاشرہ سدھار کی راہ پر گامزن ہوجاتاہے 
  ممتاز ملک ایک ادیبہ ، شاعرہ اورصحافی ہیں وہ نظم سے بھی ، اور نثر سے بھی ایک عرصے سے اصلاحِ معاشرہ کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں ۔ تمام ادیبوں اور شاعروں کی طرح وہ بھی نیکی کا پرچار کررہی ہیں ۔ اور برائی کی روک تھام کےلئے کوشاں ہیں ۔ اگر بنظرِ غائر جائزہ لیاجائے تو یہ پیغمبرانہ کام ہے کیونکہ ہر پیغمبر نےبھی نیکی کا حکم دیا ہے اور برائی سے روکا ہے ۔ اردو کے شعراءمیں ناصر کاظمی ،احمد فراز ، محسن نقوی، پروین شاکر، اور قتیل شفائی میں ایک قدر یہ مشترک تھی کہ وہ عوامی سطح پر مقبول تھے کیونکہ ان کی شاعری سادگی سے مزیّن تھی اور اس میں عام فہم مضامین وارِد ہوتے تھے ۔ 
 ممتاز ملک نے بھی سادگی کو اپناہتھیار بنایا اور جہاد میں مصروف ہوگئیں۔ ممتاز ملک نے چھوٹے چھوٹے معاملات کو نہایت خوبصورتی سے شہہ سرخیوں میں بدل کر اس انداز میں پیش کیا ہے کہ لوگوں نے اپنے رویّےاگر بدلے نہیں اور بدلنے کا سوچا ضرور ہے ۔ یعنی ممتاز ملک کی شاعری بلا واسطہ طورپر ضمیروں کو جھنجھوڑنے، آنکھوں کو کھولنے اور احساس کو جگانے کا کام کرتی ہے ۔
  ” میرے دل کا قلندر بولے“ممتاز ملک کا شعری مجموعہ کلام ہے جو نظموں پر مشتمل ہے ۔ اس میں پابند نظمیں بھی ہیں اور آزاد نظمیں بھی۔ مگر تمام میں سادگی چھائی ہوئی ہے ، سادہ لفظ ، سادہ مضامین، سادہ باتیں، سادہ کلام ، تمام نے مل کر ایک سماں باندھ دیا ہے ۔ اور ممتاز ملک کی سچائی اورخلوص پر مہر ثبت کردی ہے ۔ 
 رشتوں کی ناقدری کس قدر تکلیف دہ ہے اس کا کامل ادراک اس کو ہی ہوسکتا ہے جواس کا شکار رہا ہو یا وہ جسے ربِ کائنات نے احساس کی بے کراں سے دولت سے نوازا ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ حساس شاعرہ ممتاز ملک نے سب سے زیادہ دکھوں کو بیان کیا ہے اور رشتہ کی ناقدری سے بڑھ کر اور کیا دکھ ہوسکتا ہے ۔
 ” چار بیٹوں کی ماں“ ایک خوبصورت نظم ہے جو انسان کو خون کے آنسو رلاتی ہے اس میں سادگی اور پر کاری سے بتایا گیا ہے کہ ایک ماں اپنی اولاد کے لئے خاص طورپر بیٹوں کے لئے تمام زندگی کیا کیا کرتی ہے ، اپنے من کو مار کر کیا کیا قربانیاں دیتی ہے ۔ اپنی ضرورتوں کو نظر انداز کرکے بیٹوں کی خوشیوں کاخیال رکھتی ہے ۔ اور وہی بیٹے اس کی ناقدری کرکے اپنی دنیا وآخرت بگاڑ لیتے ہیں ۔اور نظم کا اختتامیہ تو اور بھی درد ناک ہے ۔ کہ چار بیٹوں کی ماں کا کفن چاروں بیٹوں کے چندہ کرنے سے آتا ہے ۔ 
” یارب یہ کیسے بیٹے ہیں“ اس نظم میں اسلامی تہذیب کو چھوڑ کر بدیسی تہذیب کے زیر اثر والدین کی ناقدری کو نشانہ بنایا گیا ہے ۔ آئینہ دکھایا گیا ہے ۔ ایسے بیٹوں کو جو والدین کے احسانات ، قربانیوں اور محبتوں کو بھلا کر دنیاوی جاہ و حشم اور دولت کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں ۔ والدین  اور اپنے ذمہ فرائض کو یکسر بھلا دیتے ہیں ۔
”سنو ایسا نہیں کرتے“ ایک ناصحانہ نظم ہے جس میں ان چھوٹے چھوٹے جذبوں کو بیان کیا گیا ہے جن کی ہم پرواہ نہیں کرتے ان معمولی غلطیوں ، کوتاہیوں کی نشاندہی کی گئی ہے جن کی طرف سے ہم آنکھیں بند کئے رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں ان سے کوئی فرق نہیں پڑتا مگر یہ چھوٹی چھوٹی خامیاں انسان کی شخصیت کو داغدار کردیتی ہیں ۔ 
 ممتاز ملک ایک وطن پرست خاتون ہیں اوروطن کی محبت ان کی رگ رگ میں لہو کے ساتھ گردش میں ہے ۔ اپنی اس محبت کا اظہار وہ باقاعدہ اپنے اشعار میں کرتی ہیں وہ نہ صرف وطن کی ترقی و کامرانی کے لئے دعا گو رہتی ہیں بلکہ وطن کو درپیش مسائل اور ملک میں بڑھتی پھیلتی ہوئی برائیوں پر بھی قلم اٹھاتی ہیں ۔ 
”صلیبِ وقت“ میں وطن میں پھیلتی دہشت گردی اورر قتل وغارت کی کھل کر مخالفت کی ہے اور اپنے وطن کو اس سے پاک کرنے کے لئے انہیں ڈھونڈنے کی طرف توجہ دلائی ہے ۔ 
 ” ارفع کریم رندھاوا کے نام “ ایسی خوبصورت نظم ہے جو”میرے دل کا قلندر بولے“ کے ماتھے کا جھومر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔ 
” آﺅ کہ کچھ خواب بنیں“ خوشگوار امیدوں کی خوشبو سے بھری نظم ہے اس نظم میں شاعرہ نے اچھے دنوں کی آمد ، خوشیوں کے زمانوں اور نیک جذبوں کا اظہار خوبصورتی سے کیا ہے ۔
” آئینے “ ایک طنز ہے ، چوروں ، لٹیروں ، ڈاکوﺅں اور خود پسندوں پر خاص طورپر ان پر نفرین کی گئی ہے جو چاپلوسی کرنے سے پہلے مسکینی کا غلاف اوڑھ لیتے ہیں ۔مسلمان ہونے کے باوجود مذہب سے دور ہیں اور برائیوں سے گردن تک ڈوبے ہیں ۔ 
 ” ایک جیب ایک پتھر“ ایک ایسی نظم ہے جس میں شعور کو جگایا گیا ہے کہ اٹھو اپنے حق کو پہچانو جو تمہارے حقوق غصب کررہا ہے اس کے سامنے ڈٹ جاﺅ اس کا پتھروں سے سواگت کرو پھولوں سے نہیں۔عزتوں کے لٹیروں کو ، جھوٹوں کو اور دھوکے بازوں کو ان کی اوقات یاد دلادو ۔
” بستی“ ایک خوبصورت نظم ہے جس میں آج کی محبت اورر کل کی پاکیزہ و سچی محبت کا موازنہ کیا گیا ہے ۔یہ بھی بتایا گیا ہے کہ روح کی محبت دیرپا ، پاکیزہ اور پر خلوص ہوتی ہے جبکہ جسمانی محبت عارضی و بے اعتباری۔
” میرے پیارے شہر کراچی“ روشنیوں کا شہر کراچی کئی دہائیاں گولیوں کی تڑ تڑاہٹ اور بہتے خون کی ندیوں میں ڈوبا رہا یہ نوحہ ہے اس وقت کا جب کراچی ماتمی لباس میں تھا اور شکر ہے کہ اب کسی حد تک ان رویوں اور عملوں میں بہت بہتری آئی ہے مگر شہر کراچی کا ایک سیاہ باب ہے۔  بہر حال تاریخ کا حصہ رہا ہے ۔ممتاز ملک کا ایک ایک لفظ ایک ایک مصرعہ دل کی آنکھوں سے پڑھنے کے لائق ہے کیونکہ ممتاز ملک نے ذاتی دکھ کو بیان کیا ہی نہیں تو دوسروں کے دکھ پر دکھی ہیں اور ہمیں ایسے حساس اور قیمتی لوگوں کی قدر ہی نہیں کرنی چاہئے بلکہ پذیرائی بھی کرنی چاہئے ۔
 ہم دعا گو ہیں کہ ممتازملک یونہی ہمیشہ چمکتی مہکتی رہیں اور اپنی تحاریر سے رنگِ ادب کو نکھارتی ہیں۔

منگل، 9 اپریل، 2019

● شمشاد سرائی / تبصرے


تبصرہ برائے شمشاد سرائی


**عالمی شہرت یافتہ شاعرہ "محترمہ ممتاز ملک۔۔میری نظر میں**
معروف نعت گو شاعرہ،ادیبہ ،کالم نگار اور ہمہ جہت شخصیت کی مالکہ ممتاز ملک ایک عرصے سے پیرس (فرانس) میں ملک کی نمائیندگی کرتے ھوئے سوشل ورکر اور ٹی۔وی پروگرام انچارج کے طور پر کام کررھی ھیں۔تین کتب"مدت ہوئی عورت ھوئے، میرے دل کا قلندر بولے اور سچ تو یہ ھے" منصہء شہود پر آ کر داد و تحسین سمیٹ چکیں ھیں اور آٹھ کتابیں منتظرِاشاعت ھیں۔ آپ نے خواتین کے حوالے سے بھی قابِل ذکر خدمات سر انجام دیں ھیں اور فرانس کی پہلی نسائی تنظیم "راہِ ادب" کی صدر بھی ھیں۔نہایت دردِ دل رکھنے والی رائٹر ھیں۔انسانیت سے محبت اور ملک و قوم کے وقار کی علمبردار ھیں۔آپکے کلام میں وہ تمام خصائص موجود ھیں جو کہ آج کے عالمی ادب کا بیانیہ ھے۔تمام اصناف ِ ادب پر دسترس رکھتی ھیں۔
نمونہء کلام ملاحظہ فرمائیں۔
قدرت کے تحائف ہیں تیری ذات میں شامل۔
قسمت سے ہوئی اپنی ملاقات میں شامل
دکھ درد کی کوئی بھی گھڑی ایسی نہیں ھے
جب نہ ہو تیری یاد بھی حالات میں شامل۔
المختصر ممتاز ملک کا شمار ملک کے نسائی ادب میں ایک معتبر حوالہ ھے  
اللہ کرے زور ِ قلم اور زیادہ۔
مبصر۔۔
شمشاد سرائی 
(چیئر مین ادبی قبیلہ انٹرنیشنل ۔۔                                            پاکستان)
                          ●●●

پیر، 18 مارچ، 2019

تبصرہ نجف علی شاہ صاحب کا ۔ سراب دنیا

  معروف شاعر اور سکالر  جناب نجف علی شاہ کے قیمتی الفاظ میرا سرمایہ 

روح کو عبرانی زبان میں نقش , لاطینی زبان میں اینی ماء  , سنسکرت کی زبان میں آتما , یونانی زبان میں سائیکی , لغت کی زبان میں ھوا کا جھونکا اور اردو زبان میں ”ممتاز ملک  “ کہتے ھیں  یہ روح جب اس جہان میں وارد ھوتی ھے تو زندگی کہلاتی ھے اور بے چینی اس کا مقدر ھوتا ھے اھل فکر اور اھل نظر اس بے چینی کو عشق کا نام دیتے ھیں یہ روح جب واپس لوٹتی ھے تو ”روح کل “ کے حضور میں  پہنچ کر پھر کہیں چین پاتی ھے یہی بھید ممتاز ملک کی شاعری کا بھی  ھے جسے دوام حاصل ھو گا اور یہ شاعری شاعرہ کے نام اور شخصیت کی طرح ممتاز ھو گی .....
( نجف علی شاہ بخاری ایم فل اردو سکالر بھکر پنجاب پاکستان )

جمعہ، 15 مارچ، 2019

تبصرہ ۔ دعا علی ۔ سراب دنیا


تبصرہ :
دعا علی 

ممتاز ملک صاحبہ ادب کی دنیا کا ایک جانا پہچانا نام ہے وہ نہ صرف ایک اچھی شاعرہ بلکہ ایک اچھی کالم نگار  اور ایک بہتریں  نعت خواں بھی ہیں تو ایک بہترین ٹی وی ہوسٹ (انداز فکر پروگرام/ondesi tv) بھی ہیں ۔ 
لکھاری ، کوٹیشن رائٹر ، افسانہ نگاراور شارٹ سٹوری رائٹر بھی ہیں ۔ 
شاعری میں وہ  غزل کے ساتھ ساتھ نظم میں بھی طبع آزمائی کرتی ہیں ۔یقیناً ہر عہد ایک اعتبار سے نئے نئے تجربوں سے گزرتا ہے میری نظر سے اب تک جتنی بھی شاعری ممتاز ملک صاحبہ کی گزری ہیں وہ تمام مضوعات عصر سے جڑے ہوئے ہیں۔ 
مجموعی اعتبار سے ممتاز ملک صاحبہ اکیسویں صدی کی ایک اہم شاعرہ ہیں ۔میں نے ہمیشہ ان میں خوب سے خوب تر کی جستجو  اور لگن دیکھی ہے۔ ان میں ایک جنون ہے کچھ کر دکھانے کا ممتاز ملک صاحبہ کے الفاظ سادہ مگر پر شکوہ ہیں جو  قاری کے دل میں اترنے کے صلاحیت رکھتے ہیں۔  
ان کے چند ایک اشعارملاحظہ کیجیے  

؎ محبت بانٹنے نکلے تھے پتھر لے کے گھر لوٹے
بہت سے دشت چھانے اور ہو کے در بدر لوٹے

؎ ان میں جرات نہ تھی کہ  ہم سے مقابل ہوتے
بات اوروں سے کہی ہم کو نشانہ کرکے

 ؎ ان کی نظم عورت مدت ہوئی کی چند لانئیں 
دیکھیے جس نے مجھے اپنی گرفت سے نکلنے نہیں دیا

پہلی دفعہ دھڑکا تھا کب 
یہ دل تجھے کچھ یاد ہے
وہ خوشبوؤں رنگوں کی دنیا
اب بھی کیا آباد ہے

میں ان کو ان کے بہترین کام پر ڈھیروں مبارکباد پیش کرتی ہوں اور ان کے اس شعری مجموعہ کلام "سراب دنیا " کی کامیابی اور مزید ترقی کے لیے دعاگو ہوں ۔ 
دعاعلی
شاعرہ،  کالمنگار ،لکھاری 
 ایڈیٹر "باب دعا "

ہفتہ، 9 مارچ، 2019

● انٹرویو ممتازملک بائے رقیہ غزل کا تبصرہ / انٹرویو ۔ تبصرے



                                 /
اس لنک کو کلک کیجیئے /



8


  




اس بار کی’’ پرسنیلٹی آف دا ویک‘‘ اردو ادب کا ایک معروف روشن ستارہ ممتاز ملک ہے ۔آپ خود توپیرس میں مقیم ہیں مگر دل پاکستان میں ہے۔حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہیں یہی وجہ ہے کہ اپنی گرانقدر سیاسی اور سماجی تحریروں کے ذریعے پاکستانی مسائل کو اجاگر کرتی رہتی ہیں ۔ادبی اور صحافتی حلقوں میں یکساں مقبول ہیں اور فن شعر گوئی میں اپنے منفرد لہجے اور اسلوب کی بدولت نمایاں مقام حاصل کر چکی ہیں ۔بلاشبہ نسوانی جذبات کا اظہار پروین شاکر نے نمایاں طور پر بہت اچھا کیا ہے ۔ویسے بھی نسوانی جذبات کا اظہار ایک عورت سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا کیونکہ وہ عملاً ان تجربات سے گزرتی ہے اس لیے کسی بھی عورت نے جب قلم اٹھایا تو عورت کی بے توقیری ، جذبوں کی پامالی ،مرد کی بے وفائی کے دکھ کو اپنا موضوع سخن بنایا ۔۔ جسے’’ فیمینسٹ ادب‘‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے درحقیقت یہ ادبی شعبدہ بازوں کے مفروضے ہیں کیونکہ مرد بھی اسی قسم کے حالات سے گزر سکتا ہے لیکن پھر بھی فی زمانہ عورت جن مراحل سے گزرتی ہے مرد ان کیفیات اور حالات کا اندازہ بھی نہیں کر سکتا ۔اسی لیے بانو قدسیہ نے لکھا تھا کہ محبت میں مرد مشرک ہے جبکہ عورت مواحد ہے ۔عورت ایک ہی خدا کو دل میں سجا کر تمام عمر اس کی پوجا کرتی ہے جبکہ مرد بے شمار چھوٹی چھوٹی مورتیوں کو پوجتا رہتاہے۔ بس یہی وجہ ہے کہ عورت کی شاعری میں مرد کی بہ نسبت درد ،شکوے اور بے وفائی کے تذکرے زیادہ ملتے ہیں جسے اہل ادب’’ فیمینسٹ ادب‘‘ کا نام دیتے ہیں ممتاز ملک نے بھی انھی جذبات و احساسات کو اپنا موضوع سخن بنایا ہے ۔ ہاں ۔۔ مگریہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ماضی میں اردو ادب میں جو مقام اور احترام مردوں کو حاصل تھا وہ عورتوں کو خال خال ہی ملا مگر اب ایسا نہیں ہے کیونکہ خواتین نے ہر میدان میں خود کو منوایا تو ادب میں بھی بہترین تخلیقات اور وقار کے ذریعے خود کو ثابت کیا ہے بلاشبہ اپنی پہچان بنانے میں خواتین کے لیے انٹرنیٹ بہت مددگار ثابت ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ اچھے اچھے لکھاری سامنے آرہے ہیں اور ذاتی تعلقات کے بل بوتے پر معروف ہونے والے منظور نظر فنکار اوجھل ہوتے جا رہے ہیں ۔ اب سوشل میڈیا کے ذریعے نئے لوگوں کی اچھی شہرت سے تنگ نظر لکھاری خوفزدہ دکھائی دے رہے ہیںاور اکثر و بیشتر اپنی تنگ دلی اور پریشانی کا اظہار کرتے رہتے ہیں کیونکہ وہ نئے لوگوں کے عروج سے سہمے رہتے ہیں کہ یہ کہیں زیادہ عزت حاصل نہ کر لیں ۔بل گیٹس نے تو بہت پہلے کہا تھا کہ :’’انٹرنیٹ ایک طلاطم خیز لہر ہے جو اس لہر میں تیرنا سیکھنے سے احتراز کریں گے ، اس میں ڈوب جائیں گے ‘‘۔بل گیٹس کی بات سچ ثابت ہوچکی ہے کہ آج ہر جگہ انٹرنیٹ کی حکمرانی ہے ۔ سوشل میڈیا بہت حد تک الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو پچھاڑ چکا ہے۔ جس سے بعض مفاد پرستوں کی بلیک میلنگ رک چکی ہے اور نئے لوگوں کی حوصلہ افزائی اور قدر دانی ہوئی ہے ۔اس کا ثبوت گاہے بگاہے ملتا بھی رہتا ہے مگر ادبی طور پر بھی سوشل میڈیا نے لکھاریوں کے کام کو عوام الناس تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے یہی وجہ ہے کہ ممتاز ملک رہتی پیرس میں ہیں مگر ان کا کلام اور کالم ان کے پاکستان میں ہونے کا احساس دلاتے ہیں ۔ 
ممتاز ملک کی شخصیت کا احاطہ تو بہت مشکل ہے کیونکہ وقار و تمکنت ان کا خاصہ اور شائستگی انکی فطرت کا حصہ ہے وہ لفظوں سے کھیلنا خوب جانتی ہیں ۔جہاں ان کے لفظوں کی کاٹ قاری کو بڑھکاتی ہے وہاں رم جھم سے گنگناتے ہوئے اشعار ذہنوں پر مثبت اور روحانی سکون چھوڑتے ہیں ۔ انسان بہتے پانیوں کی طرح ان کے سحر انگیز کلام کے زیر اثر شعری تصور کی رو میں بہتا چلا جاتا ہے ۔اور یوں ایک قاری اور سامع ان کا کلام دل و دماغ میں یوں اٹھا ئے پھرتا ہے جیسے وہ کوئی جاگیر لئے پھرتا ہے کیونکہ ان کا اندازواقعی دلپذیر ہے ۔۔کیا خوب کہا ہے ! 
بہت سی ان کہی باتوں کے افسانے بھی بنتے ہیں 
جو ہوتے ہیں کبھی اپنے وہ بیگانے بھی بنتے ہیں 
ممتاز ملک کا شمار ایسے قلمکاروں میں ہوتا ہے جو اپنے محسوسات ،مشاہدات اور عملی تجربات کو دوسروں تک پہنچانے کا فن جانتی ہیں ۔دو شعری مجموعوں کے بعد ـ’’سچ تو یہ ہے ‘‘ کے نام سے مضامین اور کالموں کی کتاب بھی طبع ہو چکی ہے ۔انھوں نے نہایت سادہ اور عام فہم انداز بیان کو اختیار کر کے مختلف مگر بے شمار موضوعات پر طبع آزمائی فرمائی ہے جو کہ قابل داد ہے ۔وہ اس خوبصورت پہچان پر ہماری مبارکباد کی مستحق ہیں ۔ہماری نیک خواہشات اور دعائیں ان کی نذر ہیں۔ وہ سدا سلامت رہیں ۔آ پ کو ان سے کئے گئے سوال و جواب میں ان کی ذات اور کام سے مزید آگاہی حا صل ہوگی ۔ 
                  ۔۔۔۔۔۔۔۔


سوال : آپ کو نثر نگاری یا شعر گوئی کا خیال کیسے آیا یا یہ کہ آ پ ایک لکھاری بننے کیلئے کیسے آمادہ و تیار ہوئیں؟ 
وہی پرانی لیکن سچی بات کہونگی کہ فنکار ، شاعر، لکھاری ، مصور سب پیدائشی ہوتے ہیں۔ ان کی صلاحیتوں کو زیادہ سے زیادہ پالش کر کے نکھارا جا سکتا ہے ۔ انہیں بنایا نہیں جا سکتا ۔ بچپن میں کورس کی کتابیں خریدتے ہی دو تین روز میں ہی ساری پڑھ لیا کرتی تھی ۔ صرف یہ ہی ہوتا تھا ذہن میں کہ اس میں نیا کیا لکھا ہے ۔ یوں جو کتاب سامنے آتی اچھا برا ، بڑوں کا چھوٹوں کا کوئی بھی موضوع ہوتا بلالحاظ و تفریق پڑھنے بیٹھ جاتی تھی ۔ اسی مطالعے نے مجھے بولنے کے لیئے الفاظ کا ذخیرہ عطا کر دیا ۔ جو بعد میں میرے قلم کی سیاہی بن گیا ۔زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب مجھے لگا ایک ایک بندے کیساتھ کھپ کھپ کے اور اس کے ساتھ بحث کر کے اسے کسی بات پر قائل کرنے سے کہیں اچھا ہے کہ میں اسے لکھ کر ہزاروں لوگوں کے سامنے بیک جنبش قلم پیش کر دیا کروں ۔ کچھ لوگ مخالف ہونگے تو وہ اس پر سوچیں گے ۔ اور جو اس بات کے حامی ہونگے وہ اسے مزید آگے بڑھائینگے ۔ سو جناب 2008ء میں ایک مذہبی ادارے کی جنرل سیکٹری منتخب ہونے کے بعد مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ یہ مائیک کسقدر اہم ہے جسے لوگ مفاد پرستی اور منافقت کے لیئے استعمال کرتے ہیں جبکہ اسے بہت پاورفل انداز میں مثبت تبدیلیوں کے لیئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ سو میں نے بطور جنرل سیکٹڑی کیساتھ سٹیج سیکٹری کی ذمہ داری بھی سنبھال لی ۔ تین گھنٹے کا پروگرام مکمل مطالعے کے تحت کسی ایک ہی موضوع پر ہوتا ۔ جس میں اس موضوع پر آیات و احادیث و واقعات تجربات ،مشاہدات سبھی کچھ شامل ہوتا تھا ۔ جس کے لیئے میں ایک یا دو پروگرامز کے لیئے سارا مہینہ دیوانہ وار تیاری کیا کرتی تھی۔ بس یہ سمجھیں وہ میرا لکھاری بننے کی جانب ایک بڑا بھرپور اور یقینی قدم تھا ۔ 

سوال : آپ کتنے عرصہ سے اس میدان میں طبع آزمائی فرما رہی ہیں ؟ 
بچپن سے کچھ نہ کچھ لکھا ۔ لیکن میں اپنے سکول کے دنوں میں انتہائی شرمیلی سی شرارتی بچی ہوا کرتی تھی ۔ جو کسی کے بھی اپنی جانب متوجہ ہونے پر گھبرا جایا کرتی تھی ۔ اس لیئے اپنی کوئی تحریر کسی کو سنانے کی کبھی جرات نہیں ہوئی ۔ نہ ہی کبھی چھپوانے کا سوچا ۔ ابو جی بھی بہت سخت مزاج تھے ۔ جن کی وجہ سے یہ شوق دل ہی میں کہیں دفن رہا ۔ ان تحریروں کو سنبھالنے کا خیال بھی تب ہوتا جب وہ مجھے خود بھی اہم لگتا۔ اور یقین ہوتا کہ میں انہیں کبھی کہیں شائع کروا پاونگی ۔ لیکن یہ جراثیم تب سے ہی مجھ میں موجود رہے ۔لیکن باقاعدہ آغاز 2008 ء ہی میں ہوا۔ 

سوال : آپ کوئی سے ایسے دو واقعات بتائیں جنہوں نے آپ کو اس مقام پر پہنچنے کیلئے جنونی یا ہمہ تن مصروف بنا دیا ہے ؟ 
جب مئی 2010 ء میں ایک مذہبی ادارے میں ہی میری مدت عہدہ بطور جنرل سیکٹری مکمل ہوئی ۔ اور مجھے لکھنے لکھانے کی پروگرامز تیار کرنے کی عادت پڑ چکی تھی ۔جبکہ دوسری جانب میرے مخالف گروپ میں خواتین کا وہ گروہ جن سے میری کامیابیاں اور مہمان خواتین کی جانب سے میری پذیرائی برداشت نہیں ہو رہی تھی ، نے ادارے کے انتظامی معاملات پر قابض اپنے باپوں بھائیوں ، شوہروں ، کے ذریعے میرا پتہ کاٹنے اور عہدے عہدے کھیلنے کا پروگرام بنایا ۔ حاسدین اور منافقین کے اس گروہ کا مقصد مجھے بے نام کرنا تھا ۔ لیکن ایک مخلص دوست کو جب میں نے کہا کہ میں اتنی محنت کی عادی ہو چکی ہوں ۔ تو اب یہ تو میرے کام سے فائدہ اٹھانے کو تیار نظر نہیں آتیں تو میں کیا کروں گی ۔؟ تو انہوں نے مسکرا کر کہا ۔ جس خدا نے تمہیں اتنی صلاحتیں دی ہیں وہ تمہیں اس سے بھی اچھا ان صلاحتیوں کو بروئے کار لانے والا کام بھی دیگا ۔ اور واقعی وہ بات ایک ہی ماہ میں سچ ہو گئی ۔ جب مجھ سے میری شاعری کو شائع کروانے کی فرمائش کر دی گئی اور اسکے 6 ماہ بعد ہی مجھ سے کالمز لکھنے کا اصرار ہوا تو مجھے ہمت کرنا ہی پڑی ۔ 

سوال : آپ کوئی سے ایسے دو واقعات بتائیں کہ جب جب آپ کی حوصلہ شکنی ہوئی یا یہ کہ کسی سینئر لکھاری نے آپ کے فن کی بد تعریفی کرتے ہوئے آپ کو بد دل کرنے کی کوشش کی تو آپ نے کیا رویہ یا انداز اپنایا ؟ 
جب 2011ء میں میری پہلی کتاب (مدت ہوئی عورت ہوئے ) کی جلد اشاعت کا اعلان ہوا اور کچھ پروگرامز میں مجھے کلام پڑھنے کے لیئے بھی دعوت دی گئی ۔ بارسلونا ریڈیو پر بھی مجھے ٹیلی فونک مہمان بنایا گیا ۔ تو فرانس میں ایک ہی خاتون کا نام بطور شاعرہ کے زیادہ سنا جاتا تھا ۔ انہیں یہ بات کچھ اچھی نہیں لگی جو کہ بعد میں میں کافی عرصے تک خود بھی محسوس کرتی رہی کہ بطور شاعرہ ان کو میرا کام کرنا ہضم نہیں ہو رہا ۔ ایک دوسری خاتون جو کہ بطور کالمنگار کے کام کرتی رہی ہیں اور میری شروع میں انہوں نے ہی بہت ذیادہ حوصلہ افزائی کی ۔ یا سمجھیں مجھے گھسیٹ کر اس میدان میں اپنی شاعری لانے پر مجبور کیا لیکن جیسے ہی مجھے کالمز لکھنے کی دعوت ملی تو انہوں نے بھی اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔ اور مجھے لگے لپٹے اس بات پر قائل کرنے لگیں کہ کہ آپ کی شاعری سے آپ کی توجہ ہٹ جائے گی تو آپ کالمز کی جانب مت جائیں ۔ کیونکہ یہاں شاید انہوں نے مجھے اپنا مدمقابل سمجھنا شروع کر دیا تھا ۔ میں نے انہیں ایک ہی بات کہی تھی کہ نہ تو میں شاعری سوچ سمجھ کر پروگرام بنا کر کرنے بیٹھتی ہوں اور نہ ہی کالم ۔جبکہ میں ذاتی طور پر نہ کل نہ آج کسی کے مد مقابل تھی اور نہ ہوں ۔ ہر ایک کے کام کرنے کا اپنا انداز ہوتا ہے ۔ ہر ایک کا اپنا انداز بیاں ہوتا ہے ۔ اور ہمیں ان سب کی عزت کرنی چاہیئے اور ہر ایک کو اپنا کام پیش کرنے کا موقع دینا چاپیئے اور اس کی کامیابیوں کو بھی خندہ پیشانی کیساتھ قبول کرنے کا ہم میں حوصلہ ہونا چاہییے ۔سو اسی سوچ کے تحت میں نے اپنی ساری توجہ اپنے کام پر مرکوز رکھی اور خوامخواہ کی نمبرداری گیم سے خود کو باہر ہی رکھا ۔ فیس بک زندہ باد جس پر مجھے ہزاروں قارئین مل گئے ۔ جو ایک کلک پر میرے ساتھ موجود تھے ۔ سو میں نے کسی کی منتیں کر کے اپنا کام بھیجنے کے بجائے جن لوگوں نے خود سے مجھ سے رابطہ کیا ، کام بھیجنے کی درخواست کی، انہیں کو کام بھیجا ۔ اور جو ملا اسے خوشی سے قبول کیا ۔ سو آج کی ممتاز ملک اسی مستقل مزاجی اور قناعت کے ساتھ مذید حوصلہ اور جرات لیئے آپ کے سامنے ہے ۔ 

سوال : آپ کوئی سے چند ایسے احباب کا تذکرہ فرمائیں جنھوں نے اس ادبی میدان میں سرگرداں رہنے کے لیے آپ کی سر پرستی فرمائی ؟ 
مجھے اس میدان میں لانے کی کوشش کرنے والی خاتون کو فرانس میں سبھی جانتے ہیں ان کا نام لینا میں اس جگہ مناسب نہیں سمجھتی کیونکہ سرپرستی کرنے والی یہاں کوئی کہانی نہیں تھی ۔ انہوں نے مجھے واحد شاعرہ (اپنی مخالفت میں ) کی چپقلش میں اس میدان میں اتارا جبکہ میرے کالمز کی ابتداء سے وہ خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگیں کہ فرانس کی واحد کالمنگار خاتون کا مرتبہ اب ان سے چھن گیا ہے ۔ اس لیے کسی کی جانب سے ایسی کوئی مدد یا راہنمائی مجھے حاصل نہیں رہی ۔ بلکہ میرے کام کو جب پذیرائی ملنے لگی تو مجھے لانے والی خاتون خود بھی تحفظات کا شکار ہو کر میری راہ میں ہر قدم پر روڑے اٹکانے اور میرے خلاف لوگوں کو بھڑکانے والے کاموں میں مصروف ہو گئیں اور یہ مخالفت آج تک جاری ہے 

سوال : آپ چند ایسے لکھاریوں کا ذکر فرمائیں جن کی ادبی خدمات یا انداز یا شخصیت سے متاثر ہیں اور اس سے آپ کے فن میں کیا نکھار یا تبدیلی پیدا ہوئی ؟ 
شاعری میں بڑے ناموں کو تو ہم سب نے ہی پڑھ رکھا ہے اور پسند بھی کرتے ہیں ۔ لیکن مجھے خصوصا جن کے کلام نے ہمیشہ ہی متاثر کیا ہے ان میں حبیب جالب روایت شکن اور انقلابی نظریات لیئے ہوئے ہیں تو محسن نقوی سچ کا آئینہ یوں دکھاتے ہیں کہ دیکھنے والا اپنے عکس سے بھی انجان لگتا ہے ،منیر نیازی جب لفظوں کی مالا پروتے ہیں تو پڑھنے والا ملنگ ہو ہی جاتا ہے ۔ اشفاق احمد کی زندگی کے تجربات ہمیں روشنی کا مینارہ دکھاتے ہیں ۔ تو مشتاق احمد یوسفی اور یونس بٹ کی تحریروں سے تھکی ہوئی زندگی کے اندھیرے میں ڈسکو لائٹس کا سواد آ جاتا ہے ۔ یہ سب مجھے متاثر کرتے ہیں ۔ اور مجھے خوشی محسوس ہوتی ہے کہ میں ان کے ساتھ ایک ہی دور میں موجود ہوں ۔ اور ہمیشہ گنی جاونگی ۔ 

سوال: آپ اپنے چند اہم اور یادگار شعر یا کالم کا تذکرہ فرمائیں جسے بہت زیادہ سراہا گیا ؟ 
میرے پہلے شعری مجموعے کی ٹائٹل نظم مدت ہوئی عورت ہوئ بہت زیادہ سراہی گئی۔ اس کے علاوہ اسی کتاب سے غزل 
جانے کیا بات ہے ہنستے ہوئے ڈر جاتے ہیں 
اب تو ڈرتے ہوئے ہم اپنے ہی گھر جاتے ہیں 
یوں نہ مغرر ہو تو اپنی مسیحائی ہر 
زخم کی رسم ہے اک روز یہ بھر جاتے ہیں 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
محبت بانٹنے نکلے تھے پتھر لے کے گھر لوٹے 
بہت سے دشت چھانے اور ہو کے در بدر لوٹے 
تمہارے شہر میں ہم نے بڑی رسوائیاں پائیں 
مگر آخر غریباں شہر اپنے شہر لوٹے 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
ظلمت شب کو بہرطور تو ڈھلنا ہو گا 
اب ہر اک سیپ سے موتی کو نکلنا ہو گا 
سوچکےہیں جوسبھی خواب جگاو لوگو 
دل کوتعبیرکی خواہش پہ مچلناہو گا 
اب توگرگرکے سنبھلنے کا روادار نہیں 
ٹھوکروں سےتمہیں ہربارسنبھلنا ہو گا 
اپنےاعصاب کو،جذبات کو فولادی کر 
دل اگر موم بنا، اس کو پگھلنا ہو گا 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
کالمز میں بہت زیادہ سراہے گئے جو ہائے بیچارہ مرد، بابائی وبا، بہو ڈھونڈنے کی آڑ میں ۔ علم روزگار=زندگی۔ نتھ بنی نکیل شادی کی رات دولہا کا پہلا خطاب۔ اسلام کے چوکیدار۔۔۔اور بہت سے دوسرے کالمز 
سوال: کہا جاتا ہے کہ شعر گوئی قلبی واردات سے مشروط ہے ۔کیا آپ متفق ہیں ؟ 
جی ہاں جو بات آپ کے دل تک نہیں پہنچتی آپ کی روح کو نہیں جھنجھوڑتی وہ کسی اور پر کیا اثر چھوڑے گی ۔ لیکن اگر اس کا اشارا عشق وشق کی ناکامی کی جانب ہے تو میں اس سے بالکل اتفاق نہیں کرتی۔ پیغمبر پر وحی خدا کی دین ہے تو شاعر پر شعر اللہ کی عطاء ہے ۔ وہ چاہے تو آپ کے دل کو حساسیت کے ساتھ الفاظ کی ترتیب و ترنم عطاء فرمادیگا۔وہ نہ دے تو کوئی شعر کوئی نغمہ ترتیب نہیں پا سکتا ۔ 

سوال : آپ کس صنف سخن کو اپنے لیے سہل اور موافق طبع پاتی ہیں ؟ 
میری شاعری اور نثر نگاری دونوں شروع سے ہی ساتھ ساتھ چل رہے ہیں ۔ کون سی صنف میرے لیئے زیادہ سہل ہے یا موافق ہے اس کا فیصلہ میرے لیئے مشکل ہے ۔ اپنی سمجھ سے بنا کر کریں تو دونوں مشکل اور آمد ہو تو دونوں آسان ۔ 

سوال:اس وقت حکومتی اور نجی سطح پر جو مشاعرے منعقد ہو رہے ہیں ان کے بارے آپ کی کیا رائے ہے ؟ 
پاکستان میں تو مجھے سرکاری مشاعروں میں جانے کا کوئی اتفاق نہیں ہوا ۔ اس لییے کوئی تبصرہ نہیں کر سکتی ۔ ہاں فرانس میں ہماری ایمبیسی کے تحت جب بھی کوئی پروگرام ہوتا ہے تو اس میں ان کے من پسند قصیدہ گو ہی بلائے جاتے ہیں ۔ جو کہ میں نہیں ہوں ۔بلکہ مزے کی بات یہ ہے کہ اردو زبان کے نام پر بھی جو دو چار پروگرام ایمبیسی کے تحت ہوئے بھی ان میں فرانس میں اردو شاعروں اور لکھاریوں میں سے کوئی نمائندگی نہیں تھی ان پروگراموں میں کیا ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے یہ ہمارے سفیر صاحب ہی بہتر بتا سکتے ہیں ۔ جو یہاں پر بادشاہ سلامت کا رول ادا کر رہے ہیں۔ 

سوال : آپ اپنی چند ایسی تخلیقات کا ذکر فرمائیں جو ُآپ کو بہت پسند ہوں ؟ 
میں سماجی اور اخلاقی موضوعات پر لکھنا زیادہ پسند کرتی ہوں ۔ آپ مجھے معاشرتی اور گھریلو مسائل پر بات کرتے ہوئے ذیادہ پائیں گی ۔ کیونکہ میں سمجھتی ہوں ہر گھر معاشرے کی ایک بنیادی اکائی ہے اور جب بہت ساری اکائیاں اکٹھی ہوتی ہیں تو ہی کوئی معاشرہ تشکیل پاتا یے ۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں پر نظر رکھ کر اپنے معاشرے کی خرابیوں کی نشاندہی کرتے رہنا اور اس کی اصلاح کے لیئے تجاویز پیش کرتے رہنا ہی ایک اچھے لکھاری اور کالمنگار کی ذمہ داری ہے ۔ جو میں بھی پوری کرنے کی کوشش کرتی ہوں ۔ اسی سلسلے میں میری گھریلو مسائل پر لکھی گئی تحاریر اور بچوں کی پرورش اور بڑھتی عمر کیساتھ ان کے مسائل پر لکھی گئی تحاریر میرے دل سے بہت ذیادہ قریب ہیں ۔ جیسے کہ بچے ،بچپن اور تحمل ۔ پاس نہیں قریب رہو ۔ مائیں بور نسلیں تباہ ۔ گھروں کو گھر ہی رہنے دیں ۔ اور بہت سے دوسرے کالمز میرے دل کی آواز ہیں ۔ 

سوال : اگر آپ کا کالم یا ادبی شہ پارے پرنٹ ہوتے ہیں تو ان کا نام بتائیں ؟ 
میرے کالمز چالیس (40) سے زیادہ ویب نیوز پیپرز میں جاتے ہیں ۔ جن میں جنگ اوورسیز، آذاد دنیا،ڈیلی پکار ، سویرا نیوز ، جذبہ نیوز۔ دی جائزہ ، ڈیلی میزبان ، عالمی اخبار اور بہت سے دوسرے۔ 
میری اب تک تین کتابیں شائع ہو چکی ہیں ۔ 
1۔ مدت ہوئی عورت ہوئے (شعری مجموعہ2011) 
2۔میرے دل کا قلندر بولے( شعری مجموعہ 2014) 
3۔سچ تو یہ ہے(مجموعہ مضامین2016) 
اس سال انشاءاللہ نعتیہ مجموعہ متوقع ہے ۔ 

سوال :آپ پاکستانی سیاست کا کیا مستقبل دیکھتی ہیں اور کیا ہمارے وزیراعظم کرپشن سے پاک پاکستان کا عہد پورا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے ؟ 
پاکستانی سیاست میں جب تک اسٹیبلشمنٹ کی دخل اندازی ختم نہیں ہو گی ۔ اور جادوئی فیصلوں کی جگہ منصفانہ اور میرٹ پر فیصلے نہیں ہونگے تب تک غیر یقینی کی صورتحال برقرار رہےگی۔ وزیر اعظم صاحب سے ہم اچھی توقعات رکھتے ہیں ۔ 

سوال:پوری دنیا میں خواتین کا عالمی دن منایا جا رہا ہے ۔آپ کی جائے پیدائش پاکستان ہے ۔پاکستان میں خواتین کی جو حالت ہے اس سے آپ بخوبی آگاہ ہیں مگر اب آپ پیرس میں مقیم ہیں اور مغربی خواتین کسی حد تک آزاد ہیں تو کیا آپ سمجھتی ہیں کہ پاکستانی خواتین مغربی خواتین کی نسبت مغربی اپنے حقوق کی حفاظت کرنا جانتی ہیں ؟ 
پاکستانی خواتین کو پاکستان میں اگر کچھ زیادتیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو انہیں یورپئین خواتین کے مقابلے میں بے شمار سہولتیں اور فوائد حاصل ہیں ۔ معاشی بوجھ بھی ان کے کندھوں پر اتنا زیادہ نہیں ہے ۔ ایسی صورت میں اگر پاکستانی خواتین ہر شعبے میں ہنر مند نہ ہوں اور پیشہ ورانہ تعلیمی اورعملی میدانوں میں نام پیدا نہ کریں تو نہایت افسوس ہو گا ۔ اور یورپ میں زیادہ تر آفس ورک یورپی خواتین ہی کرتی ہیں جو مجھے بہت اچھا لگا ۔ پاکستان میں خواتین کو سکولز کے علاوہ بینکنگ ،پولیس ،ہاسپٹلز،اور باقی تمام شعبہ جات میں بھی صرف آفس ورک کا ہی مکمل سٹاف بنا دیا جائے جن کی ہیڈ بھی اہل قابل خواتین ہی ہوں تو نہ صرف ہمارے آدھی آبادی کو بہترین روزگار میسر آئے گا بلکہ انہیں اپنی بھرپور ذہنی صلاحیتیں جو کہ ماسٹرز کرنے کے بعد بھی ٹی وی دیکھنے فون پر چغلیاں کرنے، شاپنگ میں پیسہ اڑانے ،بیوٹی پالرز میں اور بوتیکس پر اپنے زندگی کے قیمتی گھنٹے اور میاں اور باپ کی کمائی اڑانے میں ضائع کرتی ہیں ، کے بجائے موثر انداز میں ملک کی خدمت اور اپنے خاندان کے لیئے آمدنی کا موثر ذریعہ بن سکتی ہیں ۔ اور فضول کاموں سے بچ سکتی ہیں ۔ 
رہی بات یورپ میں پاکستانی خواتین کی تو وہ بہت حوصلے اور ہمت والی ہوتی ہیں ۔ لیکن زیادہ تر ان کے گھروں سے ان کے شوہروں کی حمایت نہ ہونے کے سبب وہ اپنی صلاحیتوں کو منظر عام پر کبھی نہیں لا پائی ہیں ۔ شاید اس کی وجہ ان خواتین کا زیادہ تعلیم۔یافتہ ہونا اور ان کے شوہروں کا کم پڑھا لکھا ہونا یا اکثر ان پڑھ ہونا بھی ہے ۔ پیرس اور یورپ کے نام پر ان کو پڑھی لکھی بیویاں تو مل گئی ہیں لیکن ان کا احساس کمتری اور اپنی کم مائیگی کا احساس شدت اختیار کر چکا ہے ۔ جس کا ثبوت کام کرنے کی اجازت تو چھوڑیئے اپنی پڑھی لکھی بیگمات کو بھی کبھی کسی پبلک پروگرام یا فیملی پروگرام میں بھی نہیں لیکر جاتے ۔ لیکن اب جب اپنی بیٹیاں پڑھ لکھ کر مختلف شعبوں میں کام کرنے کو نکل رہی ہیں تو اب فرماتے ہیں کہ کیا کریں جی وقت کی ضرورت ہے ۔ یعنی کسی کی بیٹی بیاہ کر لائے تو اس کا کسی کے سامنے آنا بھی وقت کی ضرورت کے خلاف تھا جبکہ اپنے بیٹیاں اب جو مرضی کر لیں سب وقت کی ضرورت ہے ۔ جبکہ سچ یہ یے کہ اب یہاں کی پڑھی لکھی بچیاں اپنے فیصلے خود کرنا پسند کرتی ہیں ۔ جو کسی حد تک بہت اچھی بات ہے ۔ کہ ماں کی حالت دیکھ کر وہ اس حال کو پہنچنا یا اس جیسی زندگی گزارنا پسند نہیں کرتی ہیں ۔ وہ عملی میدان میں بھی اپنے ہنر دکھانا چاہتی ہیں ۔ 

سوال : نیا لکھاری آپ سے کوئی راہنمائی حاصل کرنا چاہے کہ وہ بھی آپ کی طرح معروف و مقبول بن سکے تو آپ کیا مشورہ دیں گی ؟ 
پہلی بات تو یہ ہے کہ میرے نزدیک معروف ہونا ایک الگ معاملہ ہے اور مقبول ہونا دوسرا ۔ 
۔اگر اپ کو معروف ہونا ہے تو قصیدے لکھیئے ۔قصیدے کامیابی کی پہلی سیڑھی ہوتے ہیں ۔ اچھا اچھا بولیے کریلے کے عرق کو جوس بولیے، لیکن اگر آپ کو مقبول ہونا ہے تو سچ بولیئے اور سچائی کی خاطر کبھی سمجھوتہ مت کیجیئے۔ اس میں ہو سکتا ہے آپ کو مال تو زیادہ نہیں ملے گا لیکن سکون کی دولت سے آپ کا دامن کبھی خالی نہیں ہو گا ۔ کام کیجیئے پورے خلوص اور صبر کیساتھ اور سیکھنے کے لیئے ہمیشہ تیار رہیے ۔ یہ سوچے بنا کہ آپ کو کوئی مشورہ یا سیکھ دینے والا آپ سے جونئیر ہے یا سینئر ۔ اسی میں کامیابی کا راز پوشیدہے ۔ 

سوال : آپ نے اگر کوئی اعزازات ،انعامات یا اسناد حاصل کر لی ہیں تو ان کا ذکر فرمانا مناسب سمجھیں گی ؟ 
سنا ہی ایوارڈ و اسناد حاصل کرنے کے لیئے ہمارے ملک میں آپکی بڑی واقفیتیں اور گٹھ جوڑ ہونے چاہیئیں ۔ ایوارڈ کی رقم میں حصہ داریاں دینے والے جلدی جلدی اعلی نام و مقام حاصل کر لیتے ہیں ۔ 
میری کیونکہ ایوارڈ دینے والوں سے ابھی ایسی کوئی شناسائی نہیں ہوئی اس لیئے جو خود سے ملے اس میں چکوال پریس کلب کی جانب سے 2016 ء میں دھن چوراسی ایوارڈ۔ اور 2018ء میں ٹونی ٹی وی امریکہ کی جانب سے حرا فاونڈیشن نے ایوارڈ دیا ہے ۔ 




جمعہ، 11 جنوری، 2019

خالد دانش کا تبصرہ

تبصرہ کار:خالد دانش 
8جبوری 2019ء 

ممتاز ملک۔۔۔خوشبو میں بسا اک نرم ہوا کا جھونکا۔۔۔
محترمہ ممتاز ملک صاحبہ متعدد شعری مجموعوں کی تخلیق کار۔۔جن کی علمی استعداد اشعار سے عیاں ہے۔۔ممتاز ملک وہ شاعرہ ہیں جو لفظوں کو اہتمام سے برتنے کا سلیقہ جانتی ہیں۔علم،حسن،رعنائی،فکر،دور اندیشی اور شاعری کا شعور انکے اضافی اوصاف ہیں۔۔۔اپنے اشعار میں لفظوں سے کھیلنا اور کرب و طرب،غم و مسرت اور ماحول کی پیچیدگیوں کو اپنے قلم سے قرطاس کی زینت بنانا اور اس احسن اسلوب سے سنوار کر لکھنا کہ پڑھنے والے کی آنکھ سے دل میں سرایت کر جائے۔۔ممتاز ملک کا کہنا ہے کہ۔۔۔۔اس خوبی پر عبور و دسترس حاصل کرنےکے لیے تپتے ہوئے ریگستانوں میں آبلہ پائی کرنی پڑتی ہے۔۔تب کہیں جا کر عرفان نصیب ہوتا ہے۔۔۔۔۔
راقم کے نذدیک ایک سچے شاعر کی پہچان یہ ہے کہ اسکا کلام پڑھ کر یا سن کر کیف و سرور طاری ہو جائے۔۔۔اور یہ خوبی ممتاز ملک کے اشعار میں مضمر پاتا ہوں۔۔دعا ہے کہ ممتاز ملک صاحبہ کے علم میں برکت ہو اور چار سو انکی ناموری کا نقارہ سنائی دے۔۔آمین۔


شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/