ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک
خواتین لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
خواتین لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

منگل، 21 مارچ، 2023

عورت کی گھریلو ناکامیاں ۔ کالم ۔ خواتین



   عورت کی گھریلو ناکامیاں 
     (تحریر/ممتازملک ۔پیرس)

ہمارے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں  عورت کو اپنے شوہر اور اپنی سسرال کی نفسیات کے تناظر میں انہیں ہینڈل کرنا آنا چاہئے ۔
ہماری مائیں اپنی بیٹیوں کو یہ تو سکھاتی ہیں کہ میاں کو کیسے قابو کرنا ہے یا عرف عام میں کیسے نیچے لگانا ہے لکن یہ سکھانا بھول جاتی ہیں کہ سب کے دل کو کیسے قابو میں کرنا ہے ۔ میاں کے گھر پہنچتے ہی دنیا بھر کی خبریں اور خصوصا بری خبریں اس کے کان میں پھونکنا، گھر داری سے جان چھڑانا، کھانے پکانے سے جان چھڑانا، مرد کے غصے میں برابر کی زبان چلانا، اپنے اور اس کے گھر والوں کا ہر وقت بلا ضرورت  کا تقابل کرتے رہنا ،اپنے میکے کو بھرنے میں لگے رہنا، اپنی آمدنی سے ذیادہ کے شوق پالنا، ہر عورت کا اپنی بہن کو اچھے عہدے یا کمائی والے دیور سے بیاہنے کے جبری منصوبے، اس کے گھر والوں کو نظر انداز کرنا،
یہ سب باتیں میاں بیوی کے رشتے میں زہر بھرنے کا باعث بنتی ہیں ۔ ہم ہر بات کا الزام مردوں یا شوہر کے  سر پر ڈال کر بری الذمہ نہیں ہو سکتے ۔
ہمارے سامنے آنے والے کئی گھریلو تشدد کے واقعات  بیحد افسوسناک ہیں، لیکن ان سب حالات کا کوئی دوسرا رخ بھی ضرور ہو گا ۔ اگر حالات ایسے خوفناک رخ پر جا رہے تھے ، لوگ اتنے برے تھے، شوہر اتنا جابر تھا تو کیوں طلاق نہیں لی ان بہنوں نے ؟ سو ہر بات پر جذبات کے بجائے عقل  کا استعمال کیا جائے تو بہت کچھ واضح ہو جاتا ہے ۔۔بجائے اس کے کہ طلاق کو ایک کلنک کا ٹیکہ سمجھ کر تو احتراز کیا جائے لیکن قاتل یا قاتلہ کا جھومر سر پر سجا لیا جائے ۔ کیا مطلقہ ہونا یا طلاق دینا  قاتل یا قاتلہ بننے سے بھی زیادہ قابل نفرت ہے ؟ تو کیا اللہ نے ایک قابل نفرت کام کی اجازت دے رکھی ہے ؟
پھر یہ کہنا کہ حالات ایسے تھے، ویسے تھے طلاق نہیں لی جا سکتی تھی تو اس صورت میں دو ہی کام ہو سکتے ہہں یا تو صبر کیجیئے یا قتل کر دے یا  قتل ہو جائے ۔۔۔آپ اسے اگر حل سمجھتے ہیں تو ۔۔ معاشرے کو یہ بات ذہن نشیں کرانی ہو گی کہ طلاق لینا ایکدوسرے کو قتل کرنے سے ہزار گنا بہتر ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیبیوں بیٹیوں اور صحابیات نے جو عمل کیا اسی میں معاشرے کی بقاء ہے ۔ کئی نام نہاد مسلمان جو دین کی بنیاد تک سے نابلد ہیں وہ بہت زور و شور کیساتھ عورت مرد کی بحث میں اپنی ذاتی پسند اور ضرورت کے معاملات پر  غیر اسلامی فتوے تھوپ کر خود کو عالم ثابت کرنے کی کوشش کرنے میں اپنا زور بیان صرف کرنے میں مصروف رہتے ہیں ۔ جو کم علم اور دین سے نابلد لوگوں کے لیئے کھلی گمراہی کا سبب بنتا ہے اور وہ ان نیم ملا جیسی معلومات سے معاشرے میں شر پھیلانے کا سبب بھی بنتے ہیں ۔ جیسا کہ ان کے نزدیک طلاق دینا بس مرد کا حق ہے عورت خود سے اپنے شوہر کو چھوڑنے کا کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی ۔ چاہے وہ کیسا ہی کیوں نہ ہو۔ جو کہ صریحا گمراہی ہے ۔ دین اسلام کو دین فطرت اسی لیئے کہا گیا ہے کہ اس میں صرف مرد یا عورت نہیں بلکہ ہر انسان کی فطرت میں شامل عادات و خصائل کو مد نظر رکھ کر قانون سازی کی گئی ہے اور احکامات مرتب کیئے گئے ہیں ۔ اور کسی کے ساتھ رہنا یا نہ رہنا زندگی کا سب سے بڑا اور سب سے اہم فیصلہ ہوتا ہے اس میں اللہ تعالیٰ کے قوانین میں ناانصافی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ ایسی باتیں کرنے والے خود اللہ پاک پر جانبداری کی تہمت کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ انہیں دن کا علم حاصل کرنا چاہیئے ورنہ کسی قابل عالم سے ایسے معاملات میں رائے لینا چاہیئے ۔ طلاق دینا مرد کا حق ہے تو خلع لینا اس کے برابر کا حق ہے جو اللہ پاک نے عورت کو دے رکھا ہے ۔ اگر وہ اپنے شوہر کیساتھ خوش نہیں ہے یا محفوظ نہیں ہے یا وہ اسکی جانب سے مسائل کا شکار ہے تو وہ اپنا حق خلع استعمال کر سکتی ہے ۔ جیسا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دو صاحبزادیوں کے لیئے انکی رخصتی سے قبل ہی استعمال کروایا ۔ کیونکہ اسلام آ چکا تھا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اعلان نبوت فرما چکے تھے اور جہاں طلاق سے متعلق احکامات نازل ہو چکے تھے وہیں خلع کا حق بھی عورت کے لیئے دیا جا چکا تھا ۔ 
 اسے گالی کی حیثیت دیکر ان سب معزز خواتین کی توہین مت کیجیئے ۔ یہ بات سمجھ کر ہی ہمارے معاشرے سے قتل و غارت کا خاتمہ ہو گا ۔اور یہ کام ہماری ماؤں کو کرنا ہو گا جو اپنے کنوارے تو کیا چار بار بیاہے ہوئے  بیٹے کے لیئے بھی ان ٹچ  18 سالہ دوشیزہ ڈھونڈنے پر تلی رہتی ہیں ۔ لیکن کسی مطقہ یا بیوہ لڑکی کو نا تو باکردار سمجھتی ہیں اور نہ ہی گھر بسانے کے لائق ۔ انہیں یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے  کہ ایک جوڑے میں جدائی کی وجہ ان میں سے کسی کا بدکردار ہونا یا گھر نا بسا سکنا ہو بلکہ اس کی اور بھی بے شمار وجوہات ہو سکتی ہیں ۔ ان کا ذہنی طور پر ایک دوسرے کو قبول نہ کرنا بھی اس کی ایک بڑی وجہ ہے اور ان سب سے بڑی اور مستند وجہ تو یہ ہے کہ اللہ پاک نے اس جوڑے کے درمیان اس رشتے کا وقت ہی اتنا لکھا تھا ۔ پھر وہ چاہتے یا نہ چاہتے انہیں الگ ہو ہی جانا تھا۔ چاہے اس کی وجہ کچھ بھی اور کتنی بھی معمولی بات ہی کیوں نہ بن جاتی ۔۔۔ 
                   ۔۔۔۔۔۔۔  

بدھ، 5 فروری، 2020

قاتل عورتیں اور کشمیر/ کالم۔ خواتین


       قاتل عورتیں اور کشمیر
     (تحریر:ممتازملک.پیرس)

دکان پر کھڑے ہو کر جو خواتین انڈین کپڑے ،  جوتے، جیولری ، مصالحے اور بہت کچھ خریدتے وقت، بھارتی فلمیں دیکھتے وقت ،  بھارتی مصنوعات پر اپنا پرس اور کریڈٹ کارڈ خالی کر رہی ہوتی ہیں وہ دراصل کشمیر اور ہندوستانی ہر مسلمان کے قتل میں برابر کی حصہ دار ہیں ۔ یہ وہی عورتیں ہیں جو ان معصوم شہیدوں کے قتل کے لیئے بارود خرید کر دیتی ہیں ، میزائل اور بم بنا کر دیتی ہیں ، بدکار بھاری فوجیوں کی کھیپ وہاں پہنچاتی ہیں  ، معصوم کشمیری عورتوں کا ریپ کرواتی ہیں ، ان کے بچوں کی آنکھوں کے سامنے انکی ماوں بہنوں کو بے آبرو کرواتی ہیں ، انہیں یتیم و یسیر کرواتی ہیں ، ان کے گھروں کو آگ لگواتی ہیں ، ان کی آزادی کی ہر صبح کو بے نور کرتی ہیں، ہر روز  ان کی منزل کو ان سے دور کرتی ہیں ۔ یہ خود کو پاکستانی کہنے والی دردمند عورتیں جو چاہیں تو ایک ہی مہینے میں بھارت کو بنا ایک گالی دیئے بھی دھول چٹا سکتی ہیں اسے برباد کر سکتی ہیں  صرف اپنی خود پسندی اور بے حسی کو لگام ڈال کر ، اپنے پرس اور کریڈٹ  کارڈ سے بھارتی چیزوں کی ، فلموں کی، سٹج شوز کی ٹکٹوں کی خریداری کا بائیکاٹ کر کے ۔۔ صرف انکی مصنوعات کو رد کر کے۔
کیونکہ اج لڑائی بندوقوں سے نہیں جہتی جاتی ۔ بلکہ نوٹوں سے ھیتی جاتی ہے ۔ نوٹ ہی وہ ایندھن ہیں جو ہم بھارت کو دی دیکر کشمیریوں کے لہو کی دریا بہا رہے ہیں ۔ گھر بیٹھے یہ لڑائی لڑی بھی جا سکتی ہے اور جیتی بھی جا سکتی ہے ۔ کتنا آسان اور چھوٹا سا کام ہے ۔ لیکن کتنی پاکستانی اور آذاد کشمیر کی  عورتیں کشمیریوں  
کے قتل عام میں اپنا حصہ اپنی جیب سے ڈالنے سے باز آئینگی ؟
مجھے تو نہیں لگتا کہ میری اس تحریر سے ان میں سے کسی کو بھی غیرت آئے گی ۔ اور غیرت کوئی بازار سے ملنے والی چیز بھی نہیں ہے کہ میں ان قاتل عورتوں کو خرید کر تحفے میں بھیج سکوں۔۔ تو پھر مجھے اور مجھ جیسی بے چین روحوں کو  کیا کرنا چاہیئے ؟  
میں نے ان سب چیزوں کے بائیکاٹ کے لیئے ہر موقع پر لکھ کر، بول کر ،یہاں تک کہ خود عملی طور پر کر کے آواز اٹھائی ہے ۔۔میں سالہال سے کوئی بھارتی مصنوعات استعمال نہیں کرتی ۔ کوئی دکاندار مجھے بھارتی چیز آفر کرے تو میں اس سے بحث کرتی ہوں، احتجاج کرتی ہوں کہ بھائی اپنی چیزوں کو پروموٹ کرو لیکن وہ فرمائینگے باجی کیا کریں اسی کی ڈیمانڈ ہے ۔ جبکہ انکی کوئی چیز نہ ہماری مصنوعات سے اچھی ہوتی ہیں نہ ہی پائیدار ۔ اور ڈیمانڈ ہوگی کن کی جانب سے ہے ۔ انہیں سو کالڈ پڑھی لکھی خواتین کی جانب سے ۔  یہ ہی  یورپ ، امریکہ ، انگلینڈ،  اور پاکستان میں مقیم عام سے لیکر   بہت سے بڑے بڑے نام اور عہدوں والیاں  ۔۔۔ جب بھارتی دوروں پر جاتی رہی ہیں ان کی سب سے پہلے رال ٹپکتی ہے ہائے بنارسی ساڑھیاں ، ہائے اللہ شالز ، ہائے اللہ یہ ، ہائے اللہ وہ ۔۔۔
اور انکی آوازیں سنیں تو یہاں  کشمیریوں کو رونے والوں  میں بھی سب سے بلند ہونگی ۔ 
ہم منافق لوگ جہاں بھی پٹے ہیں اپنی منافقت کے ہاتھوں ہی پٹے ہیں  ۔  
اللہ پاک ہمارے حالوں پر رحم فرمائے۔ اور ہمیں کشمیریوں کے قتل عام اور آبروریزی میں حصہ دار ہونے سے بچائے۔ ۔۔۔  آمین
                         ۔۔۔۔۔۔۔


شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/