ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک
افسانے۔ سچی کہانیاں لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
افسانے۔ سچی کہانیاں لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

بدھ، 28 اگست، 2024

& کیسی محبت ۔ افسانہ۔ سچی کہانیاں۔ قطرہ قطرہ زندگی

       
            کیسی محبت


بہت سارے پیسے خرچ کر کے قرضے لیکر اور جانے کہاں کہاں کے دھکے کھانے کے بعد آخر کار وہ فرانس پہنچ ہی گیا۔
 گھر میں جب بھی فون پہ بات کرتا تو وہاں سے پیسے کے مطالبے کے سوا کوئی دوسری بات ہوتی تو صرف یہ اور سناؤ بھئی وہاں پہ کاغذ مل گئے ہیں۔
 امی جی  یہ کاغذ اتنی آسانی سے نہیں ملتے،  یا تو آپ نے یہاں شادی کی ہو یا پڑھائی کر رہے ہو یا کاروبار کر رہے ہو، تب یہاں کے کاغذات ملتے ہیں۔
 تو شادی کرنا کون سا مشکل ہے۔ پھنسا لو کسی میم کو۔
امی جی نے بڑا دانشورانہ مشورہ دیا۔
 امی جی یہاں میمیں  کوئی سڑک پہ نہیں پڑی ہوتیں،  جو ہر کسی کو گھاس ڈالیں۔
وہ جھلا کربولا
تو وہاں پر کسی پاکستانی کو دیکھ لینا ، کسی پاکستانی لڑکی کو پھنسا لے ، وہاں پر انہیں کون پوچھتا ہے؟ 
ہاں امی جی دیکھ رہا ہوں۔ کوشش کر رہا ہوں ۔دیکھو اب۔ دعا کرنا۔
 پچھلے دنوں کسی کی سفارش پر اسے ایک ریسٹورنٹ میں کام تو مل گیا جہاں فی الحال وہ ویٹر کے طور پر لوگوں کو چائے کافی سرو کرتا یا ٹیبل صاف کرتا۔
 ریسٹورنٹ کا مالک اچھا آدمی تھا۔ وہ اس کو اپنے بیٹے کی طرح عزت دیتا اور اس کا خیال رکھتا تھا۔ اس نے کافی عرصہ پہلے  فرانس میں آ کر اپنی فیملی کے ساتھ رہائش اختیار کی تھی ۔
آہستہ آہستہ اپنی محنت سے  ترقی کرتے ہوئے آج وہ ایک ریسٹورنٹ کا مالک تھا۔
 اس کی بڑی بیٹی ابھی 18 سال کی ہو رہی تھی اور یہاں کے مقامی سکول سے اپنی بنیادی تعلیم مکمل کرنے کے آخری سال میں تھی۔ اپنے  لیسے سے چھٹی کے بعد وہ اکثر باپ کا ہاتھ بٹانے کے لیئے ریسٹورنٹ بھی چکر لگا لیتی۔ 
 اس روز رشید کی نظر اس پر پڑی تو اس کے دماغ میں فورا ماں کا جملہ گھومنے لگا کہ کسی لڑکی کو پھنسا کر کاغذ حاصل کر لے تو نے کون سا ہمیشہ رہنا ہے اسکے ساتھ۔
 لیکن یہ لڑکی بھولی بھالی سی 18 سال کی سٹوڈنٹ ، جو اپنے گھر میں سب سے بڑی بیٹی تھی ۔ اسے اپنے لیئے ایک آسان شکار لگی۔
عام طور پر تو کوئی لڑکی یا مقامی عورت اس کے ہاتھ نہیں آئی۔ لیکن اس نے سوچ سمجھ کر  اس لڑکی کی طرف بڑھنے کا فیصلہ کیا ۔
وہ جب بھی آتی یہ جان بوجھ کر اس کے آگے پیچھے گھومتا۔
 اس کی خاطر مدارت کی کوشش کرتا ۔ اس کی تعریفیں کرتا۔  اس کے ساتھ لطیفہ گوئیاں کرتا ۔ رفتہ رفتہ وہ لڑکی اس کے ساتھ کچھ بے تکلف ہو گئی ، تو اس نے اسے شیشے میں اتارنا شروع کیا۔ 
 یہاں تک کہ اسے شادی کی دعوت دے ڈالی۔
 وہ لڑکی اس کی تعریفوں پر پہلے ہی پھولے نہیں سما رہی تھی۔  شکل صورت کا تو رشید اچھا تھا۔  لیکن تعلیم نہ ہونے کے برابر تھی ۔ ہنر بھی کوئی نہیں تھا اس کے پاس۔  بس عام سے لڑکوں کی طرح منہ اٹھا کر کسی نہ کسی طرح دھکے کھا کر فرانس پہنچ چکا تھا ۔
یہ بے وقوف، کم عمر، ناسمجھ، دیسی لڑکوں کی چالاکیوں سے بے خبر لڑکی آسانی سے اس کے جال میں پھنستی چلی گئی۔
 وہ اکثر اس کے لیئے چھوٹے موٹے تحفے لے آتا۔ اس کے دن رات قصیدے بڑھتا اس کی ایسی ایسی باتوں پر تعریف کرتا ۔جس کے بارے میں خود اس نے بھی نہیں سوچا تھا کہ اس میں بھی ایسی کوئی خوبی ہے۔ آہستہ آہستہ وہ مکمل طور پر اس کے شکنجے میں پھنستی چلی گئی۔
 اس نے اس لڑکی عظمی سے شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا، اس کے ماں باپ کو پتہ چلا تو انہوں نے رشید کو نوکری سے نکالنے کی دھمکی دی۔
 لیکن عظمی اپنے ماں باپ کے سامنے کھڑی ہو گئی۔۔
 رشید یہاں کام کرے یا کہیں بھی رہے۔ میں اسی سے شادی کروں گی۔
 ماں نے سمجھایا ۔
باپ نے سمجھایا۔۔
 گڑگڑائے روئے اس کے آگے ۔ لیکن وہ تو جیسے پتھر ہو چکی تھی ۔
جانے کون سا جادو پھونکا تھا اس رشید نے اس پر ،  کہ وہ ہر صورت میں اسی سے  شادی کرنے کے لیئے بے قرار تھی۔ اس کے لیے دنیا میں اس سے بڑھ کر اور کوئی نہیں تھا ۔
 ماں باپ نے سمجھایا۔
 دیکھو اس لڑکے کے پاس یہاں کے پیپرز نہیں ہیں۔ تعلیم نہیں ہے ۔ زبان بھی نہیں ہے۔  برباد کر دے گا تمہیں۔  بچ جاؤ اس سے ۔
 تمہارے لیے اچھے سے اچھا رشتہ یہاں موجود ہے اور یہاں نہیں تو ہم تمہیں پاکستان سے بہترین لڑکا  شادی کر کے لا دیں گے۔ 
 لیکن نہیں محبت میں وہ اندھی گونگی بہری ہو چکی تھی۔ اسے صرف رشید چاہیے تھا اور رشید اسے دن رات اسکے ماں باپ کے خلاف اکساتا رہتا ۔ 
دیکھو وہ تمہاری بات نہیں مانتے۔  دیکھو وہ تم سے محبت نہیں کرتے۔ دیکھو تمہاری کسی خواہش کا احترام نہیں کرتے۔  صرف میں ہوں جو تمہارے پیچھے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں۔ 
 میں تمہارے لیے جان بھی دے سکتا ہوں۔
 ایسی ہی فلمی باتوں سے وہ اس کی ہر کمی کو بھول کر اس پر فدا ہو چکی تھی۔
یہ فرانس میں جوان ہونے والی پہلی نسل سے تعلق رکھنے والی لڑکی تھی۔
 جو سب کچھ بھول کر اس کے ساتھ گھر بسانے کو تیار ہو گئی۔
 یہاں تک کہ اپنے ماں باپ کی اجازت کے بغیر اس لڑکی نے  رشید کے ساتھ نکاح کر لیا۔ 
اسکی ماں کو غشی کے دورے پڑ رہے تھے تو  باپ صدمے سے نڈھال ہو گیا۔
 لیکن عظمی کو  اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔
 اس نے جا کر رشید کے ساتھ ایک کمرے کا  فلیٹ کرائے پر لے کر اس کے ساتھ  فلیٹ میں رہائش اختیار کر لی۔
 نکاح کرتے ہی  رشید کے اطوار ہی بدل گئے۔
 اس نے دیکھا کہ اس کے ماں باپ نے تو اس کو اتنی آسانی سے چھوڑ دیا۔  جو کہہ چکے تھے دوبارہ اس گھر کا رخ نہ کرنا۔ تم مر چکی ہو ہمارے لیئے۔
 اب اس لڑکی کی دولت تو اس کے کام آ نہیں رہی تھی۔ وہ تو سوچ رہا تھا ۔ 
نکاح کرتے ہی وہ مجبورا اسے داماد قبول کر لیں گے اور وہ راتوں رات انکی حسین بیوقوف بیٹی کیساتھ  ان کے پیسے کا بھی مالک بن جائے گا اور ریسٹورنٹ کا بھی مالک بن جائے گا۔
 اب لڑکی تو اس کے ہاتھ آ ہی چکی ہے ۔جو اسے پیپر دلوا دے گی۔
لیکن پیسہ دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔ نوکری بھی ہاتھ سے گئی اور خرچہ بھی بڑھ گیا۔
عظمی کو کام کرنے کی اجازت اس لیئے نہیں دیتا کہ جیسے اس نے اسے بیوقوف بنا کر جال میں پھانسا تھا اب اسے ڈر تھا کہ کوئی اور بھی اسے ورغلا کر اس کے ہاتھ سے نہ لے اڑے۔
 چند ہی روز میں اس نے اپنا اصلی دیسی رنگ دکھانا شروع کر دیا ۔
بات بات پر گالی گلوچ اور اب تو مار پیٹ بھی روز کا معمول بن چکی تھی۔
  چند مہینے کی مارپیٹ اور طعنہ زنی نے ہی عظمی کو پہچانے جانے کے قابل نہ چھوڑا تھا ۔ 
وہ لڑکی جسے والدین کے گھر میں کبھی کسی نے جھڑکا تک نہ تھا۔ اب وہ دن رات اپنی پڑھائی کے زمانے کے بجائے عذاب ناک وقت کو جھیل رہی تھی۔ 
 عظمی  امید سے ہو چکی تھی۔
 اب اس کی ہر بات ہر خوبی رشید کو زہر لگنے لگی۔ 
 اس کی ہر قربانی رائیگاں گئی۔
 رشید اسے ہر بات پر غلیظ گالیاں دیتا ۔ اسے کسی سے ملنے نہ دیتا اور جب دل کرتا اس کی کسی بھی بات کو بہانہ بنا کر اس کی اچھی خاصی مرمت کر دیتا ۔
 پہلے چانٹے سے شروع ہو کر باقاعدہ تشدد کے اوپر بات چلی گئی شادی کے دسویں مہینے اس نے ایک بیٹی کو جنم دیا۔
 لیکن بچی کے ہونے کے بعد رشید کی تکلیف میں اور اضافہ ہو گیا۔
 ایک تو پہلے وہ اس لڑکی کو بہلا پھسلا کے گھر سے بھگا کے لایا تو اسے کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔
اوپر سے بیٹی پیدا ہو گئی ۔
اس پینڈو اور جاہل کے لیئے یہ ایک اور نیا تماچہ تھا بیٹی کا باپ بننا ۔
اس نے اس کی زندگی حرام کر رکھی تھی ۔
وہ  بچی بمشکل ابھی دو تین مہینے کی تھی کہ عظمی پھر سے امید سے ہو چکی تھی ۔
چھوٹی بچی کا ساتھ ، دوبارہ سے پریگننسی، کم عمر لڑکی دوسری بار یہ بوجھ اٹھا رہی تھی اور پھر گھر کا تشدد اس قدر بڑھ گیا کہ وہ کئی بار اس سے مار کھاتے کھاتے بے ہوش ہو جاتی۔
 وہ کسی سے بات کر لیتی تو وہ اسے اس کا عاشق قرار دے دیتا ۔
گھر سے باہر جانے نہیں دیتا کہ تم میری شکایت کر دو گی۔
 گھر کے اندر اسے ہر تنگی میں رکھ کر وہ جانے کون کون سی ذہنی اذیت دے کر اسے وہ اسے تل تل مار رہا تھا۔
 رشید کی حرکتیں بالکل ذہنی مریض جیسی تھیں ۔
عظمی رات دن  اپنے ماں باپ کو یاد کر کے شرم کے مارے رویا کرتی کہ
ماما مجھے معاف کر دیں ۔ میں نے کس جانور کے ساتھ رشتہ جوڑنے کے لیئے اپنی محبت کرنے والے ماں باپ کھو دیئے۔
وہ نہیں چاہتا تھا کہ اب اس کی مرضی کے بغیر اس کی بیوی اپنے ماں باپ سے بھی ملے ۔
چھوٹی سی بچی بلکتی روتی رہتی لیکن وہ اس کے خرچ کے لیئے نہ پیسے دیتا نہ گھر کی ضرورتیں پوری کرتا۔
 کبھی کام کرتا اور کبھی فارغ ہوتا۔ جس دن کام نہ ہوتا اس دن کام نہ ہونے کا غصہ اس پہ اتارتا اور جس دن کام ہوتا اس دن تھکاوٹ کا کہہ کر اس پر اپنا غصہ اتارتا ۔
لگاتار دوسری پریگننسی کم عمری اور خوراک کی کمی نے اس میں خون کی کمی پیدا کر دی ۔
پریگنیننسی کا بوجھ ناقابل برداشت ہوتا جا رہا تھا ۔
وہ اسے کہیں دوا دارو کے لیئے بھی لے جانے کو تیار نہ تھا ۔
ایک روز اس نے اسے اتنا مارا کہ وہ بے ہوش ہو گئی۔
 اس کے مار پیٹ کے شور کو سن کر ساتھ کے پڑوس میں سے کسی نے پولیس کو فون کر دیا ۔ 
پولیس کا سائرن سنتے ہی وہ تو گھر سے غائب ہو گیا کیونکہ وہ جانتا تھا جو کچھ وہ کر رہا ہے وہ کبھی بھی کہیں بھی پکڑا جا سکتا ہے۔
 عظمی کی حالت بیحد خراب تھی۔ نیم بے ہوشی کی حالت میں پولیس نے اسے وہاں سے ریسکیو کیا اور فوری طور پر اسے ہسپتال منتقل کیا گیا ۔
 بیوی کے ہسپتال پہنچنے کا منظر اس نے  اپنی بلڈنگ کے باہر ہی دور سے ہی  دیکھ لیا کہ پولیس اسے لے جا رہی ہے۔
 اب اسے اپنی فکر پڑ گئی
 کہ میں سامنے گیا تو پولیس مجھے ضرور گرفتار کرے گی۔
 اس لڑکی کے بیان پر تو میں جیل چلا جاؤں گا۔
 لہذا اس نے گھر نہ جانا مناسب سمجھا ۔
لیکن چھپ کر ہر بات سے باخبر رہا۔
 ہسپتال میں کسی نے اس کے ماں باپ کو خبر کر دی کہ تمہاری بیٹی اس حالت میں ہے ۔
ماں تھی دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے شوہر کو مجبور کیا کہ جا کر اسے دیکھو۔ 
چلو میرے ساتھ۔
ہسپتال میں عظمی نے قبل از وقت  ایک بیٹے کو جنم دیا۔
عظمی کی ماں نے جب اپنی بیٹی کو دیکھا۔ اس کے زخموں کو دیکھا تو برداشت نہ کر سکی۔
 اسے سینے سے لگایا اور خوب روئی۔ 
دو سال میں دو بچے، جسم اور روح پر بیشمار زخم ، دل پر صدمات ۔۔
یہ تھی اس مجرم صفت دیسی کی کل کارکردگی ۔
 عظمی  بھی اپنی ماں سے لپٹ کر بری طرح روئی اور خوب معافی مانگی۔
 ماں سے منت کی کہ مجھے اپنے گھر لے جاؤ ۔
ہسپتال سے کافی روز کے بعد اسے فارغ کیا گیا ۔
ڈاکٹر نے اسے شدید احتیاط کا کہا اس کے ہاں اس مار پیٹ کے دوران ابھی وہ مشکل سے بیس سال کی نہیں تھی لیکن دو بچوں کی ماں بن چکی تھی ۔
 ذہنی طور پر بھی وہ بکھر چکی تھی۔
 اس کا اعتبار ٹوٹا تھا۔ اس کا یقین ٹوٹا تھا۔ اس کی عزت تو گئی تھی۔ لیکن اپنی نظر میں اس کی وہ قدر بھی نہ رہی۔
 وہ بہت کم بولنے لگی تھی۔
 ماں اسے دیکھتی اور کڑھتی رہتی۔
 وہ اسے اپنے ساتھ اپنے گھر لے گئی۔ لیکن اس روز بچی کے رونے پر وہ چڑ سی گئی۔
 ماں نے کہا بھئی بچے پیدا کرنے کا شوق تھا ۔ عشق لڑا رہی تھی تو سنبھالو اسے۔
 ماں کی یہ بات اس نے خاموشی سے سنی ۔ 
سر نیچے کیئے وہ کتنی دیر آنسو ٹپکاتی رہی۔
 بچی کو گود میں اٹھا کر اس نے بھنبھوڑ ڈالا ۔
وہ اسے اٹھا کر کہیں پھینک دینا چاہتی تھی۔
 کیونکہ وہ خود ابھی بچی تھی 20 سال کی وہ بچی جو ابھی خواب دیکھتی، ابھی یونیورسٹی جاتی۔ اپنی تعلیم مکمل کرتی۔ کچھ بننے کا عزم کرتی۔
 وہ لڑکی دو بچوں کے ساتھ باندھ دی گئی۔
 اس کی ماں نے بچی کو اس کے ہاتھ سے چھین لیا۔
وہ بستر پر پڑی جانے کتنی دیر روتی رہی۔
 اس کی ماں کے لیئے یہ دو چھوٹے چھوٹے معصوم بچے سنبھالنے ، بالکل نو زائیدہ اور ایک سال بھر کی بچی آسان نہیں تھا۔
 اس کے بہن بھائی بھی ان کو دیکھتے لیکن وہ خود صبح جاتے اور شام کو سکولوں سے واپس آتے ۔
وہ زیادہ اس کا ساتھ نہیں دے سکتے تھے۔
 پھر گھر سے بھاگنے کے بعد، من مانی کرنے کے بعد اس کی عزت دو کوڑی کی ہو چکی تھی۔
 وہ کسی سے نظر ملا کر حوصلے کے ساتھ بات نہیں کر سکتی تھی۔ خاموش رہتی تھی کھانا کھاتے ہوئے اسے شرم آتی تھی۔
 کھانے کی میز پر بیٹھی ہوئی اسے لگتا تھا شاید وہ  بھیک کی روٹی کھا رہی ہے۔
 اسے اپنے والدین کا اپنا  گھر اسے پرایا لگتا تھا۔
 لیکن آج ماں بیٹی میں اسی بات پہ  بحث ہوئی۔
 بحث بڑھتے بڑھتے  ماں نے کہا اگر اتنے ہی نخرے تھے تو اپنے میاں کے ساتھ ہی نبھا کر لیتی۔
 ہم تو برے تھے وہ تو تیرا من چاہا تھا نا۔ جب یار بنایا تھا تو ہم سے پوچھ کے بنایا تھا۔ رہتی اس کے ساتھ ۔ نبھا کر کے دکھاتی۔  زندگی گزار کے دکھاتی۔ ہمارے گلے نہ پڑتی۔
 ماں نے یہ کہا اور پیر پٹختے ہوئے اس کے کمرے سے باہر چلی گئی۔
 یہاں عظمی کے دماغ کی حالت غیر ہوتی چلی گئی۔
 ماں کا دیا ہوا طعنہ گولی کی طرح اس کے سینے پر لگا۔ اس کا دل اتھل پتھل ہو رہا تھا۔ بے عزتی کی ایک ایسی شدید لہر تھی جو اس کے رگ و پے سرایت کر گئی۔
 اس نے سوچے سمجھے بغیر کھڑکی کا رخ کیا۔
 کھڑکی کھولی اور گیارویں منزل سے کود گئی۔
 ماں جو بڑبڑاتی ہوئی کچن میں جا چکی تھی۔ اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب اس کی بیٹی اس کے ہاتھوں سے نہیں  بلکہ اس دنیا سے بھی نکل چکی تھی۔ 
 جب کافی دیر تک اسے بیٹی کا کوئی جواب سنائی نہیں دیا تو غصے میں اس کے کمرے کی طرف آئی۔
 میری بات کا جواب کیوں نہیں دیتی۔ لیکن وہاں کوئی نہیں تھا بچے کے رونے پر اس نے اسے ڈھونڈنا شروع کیا.
 سارے کمروں میں دیکھا . سارے فلیٹ میں چھان مارا . لیکن اس کا کوئی اتہ پتہ نہیں تھا ۔ 
اتنی دیر میں اس کی پڑوسن بھاگتی ہوئی آئی اور زور زور سے دروازے کی گھنٹی بجائے جا رہی تھی۔
اس کے دروازہ کھولتے ہیں وہ بولی
 مادام  تمہاری بیٹی کہاں ہے؟
 اس نے کہا یہیں ہو گی۔ کیوں کیا ہوا کیا کہنا ہے اسے؟
 جا کر دیکھو نیچے کیا ہوا ۔
نیچے نیچے کیا ہوا۔۔
 اس پڑوسن کی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ وہ اسے کیا کہتی ہے کہ تمہاری بیٹی کی لاش پڑی ہے نیچے۔
 اس نے کہا
 فورا نیچے جاؤ کافی دیر سے وہاں پولیس آئی ہے۔ 
  الہی خیر کہتے ہوئے 
 وہ جلدی سے لفٹ کے ذریعے نیچے اتری ۔
پہنچی تو ایک ہجوم تھا وہاں پر۔ پولیس بھی تھی۔
 اس نے کہا
 کیا ہوا 
کیا ہوا۔۔
 ایک پولیس افیسر نے اسے روکتے ہوئے کہا
 رک جاؤ
 آپ کون؟
 اس نے اپنا نام بتایا۔
 اس کی پڑوسن اس کے ساتھ تھی۔ انہوں نے کہا اسے جانے دو یہ اس کی ماں ہے۔
 پولیس نے اس کو ایک فاصلے تک جانے دیا 
لیکن یہ کیا اپنی بیٹی کی لاش دیکھ کر وہ اپنے اوسان خطا کر بیٹھی۔۔
 اف میرے خدا یہ کیا ہوا میں تو اس سے باتیں کر رہی تھی۔۔
 مجھے پتہ ہی نہیں چلا ۔
میں تو کچن میں اس سے باتیں کر رہی تھی کھڑے ہو کر، 
 اور یہ کس وقت کود گئی ۔۔
عظمی موقع پر ہی وہ دم توڑ چکی تھی۔
اسکی میت کو لیجایا گیا ۔ اسے غسل دیتے وقت جب ماں نے اپنی لاڈلی بیٹی اپنی پہلی اولاد کو جس نے اسے پہلی بار ماں کہہ کر پکارا اسے اس کے بدن کو دیکھا جہاں جگہ جگہ زخموں کے نشان تھے ۔
وہ یہ سوچتے ہوئے غش کھا رہی تھی کہ اف خدایا میں میں اتنی بے حس کیسے ہو سکتی تھی۔ مجھے میری بیٹی کی آہیں سسکیاں سنائی کیوں نہیں دیں؟
 کیسے مجھے پتہ نہیں چلا کہ وہ ایک درندے کے شکنجے میں پھنس چکی ہے۔
 ہم ماں باپ اپنی بیٹیوں کو ایسے لاوارث کیسے چھوڑ سکتے ہیں ،
کیسے وہ اتنا ظلم اس پر کر  سکتا ہے۔
 وہ ذرا سا ہوش سنبھالنی اور پھر سے بے ہوش ہو جاتی۔
 اس کی ماں کی حالت غیر ہوتی جا رہی تھی۔
 اپنی لاٹری بیٹی کی یہ حالت دیکھ کر ، اس کی میت کو دیکھ کر اس کا خود مر جانے کو جی چاہا، لیکن اس کے بچے اس کی آنکھوں کے سامنے گھومنے لگے۔
 اگر میں بھی نہ رہی ۔۔۔
اس کے شوہر نے کہا اگر تم بھی نہ رہی تو تم کیا سوچتی ہو ان بچوں کا کیا بنے گا۔۔
حوصلہ کرو۔ ہماری بیٹی نہیں رہی لیکن اس کے دوبچے ہماری گود میں ہیں ۔ انکا سوچو
  اپنی بیوی کو ذہنی اذیت کے لیئے اور اس پر گھریلو تشدد کے لیئے اس کے شوہر کو نامزد کیا گیا۔
پولیس نے اسے ڈھونڈ نکالا ۔
گرفتار کیا۔
 اس پر کیس چلا اور اسے جیل ہو گئی۔
سات سال کی جیل کاٹنے کے بعد باہر نکلتے ہی  اس نے اپنے بچوں کی کسٹڈی انکے نانا نانی سے دوبارہ حاصل کر لی ۔
نہ چاہتے ہوئے بھی بچوں کے نانا نانی کچھ نہ کر سکے۔ 
یہ کیسا قانون ہے بچوں کو انکی ماں کے قاتل کے حوالے کر رہا ۔

رشید نے اپنے سات اور آٹھ سال کے  بچوں کو پاکستان ایک دور دراز کے گاؤں میں لیجا کر اپنی ماں کے حوالے کر دیا۔
 اس کی ماں جو پہلے ہی اس کو یہاں سے احکامات بھیج کر چلایا کرتی تھی۔
 اس نے یہ سوچ کر وہ بچے اپنے پاس رکھ لیئے کہ بیٹا اسی بہانے ہر مہینے ایک موٹی رقم اسے بھجوانے پر مجبور رہے گا اور اس کے ساتھ بنا رہے گا۔
 گھر میں ان بچوں کی چچی بھی موجود تھی۔  یوں چچی جو رشید کی اپنی خالہ زاد تھی اور خالہ بھانجی نے جو ساس بہو بھی تھیں۔
مل کر ان بچوں کی ذمہ داری لی۔
 اسے میٹھے میٹھے سپنے دکھائے۔
 اپنا کلچر سکھانے کے بہانے، اپنی تہذیب سکھانے کے بہانے،  ان کو مسلمان بنانے کے بہانے،  انہوں نے وہ بچے اپنے پاس رکھے۔ 
سارا دن ان بچوں کے ذہن میں انکی ماں کی بدکرداری کا زہر بھرا جاتا۔
یہ معصوم بچے جو کسی کو اپنی ضرورت بھی ٹھیک سے نہیں بتا سکتے تھے لیکن ان بچوں کو اس کی ماں اور بھاوج نے لاٹری کا ٹکٹ سمجھا ۔
تھوڑے دن جب تک وہ رہا ان بچوں سے خوب لاڈ پیار ہوتا رہا۔
 اس کے بعد یہ بچے اس دور دراز افتادہ ایسے گاؤں میں جہاں ابھی تک بجلی بھی نہیں تھی اپنے بچے چھوڑ کر  آ گیا اور خود فرانس میں اپنی اسی صبح شام میں گم ہو گیا ۔
کسی نئے شکار کے انتظار میں ۔
اس نے زندگی کا آغاز کیا ۔
وہ بچے اس دور افتادہ گاؤں میں اپنی دادی اور چچی کے ظلم و ستم کا شکار ہوتے رہے ۔
ان دونوں کو پورا کھانا تک نہ ملتا۔ ڈرے سہمے کسی بھی کونے میں سو جاتے۔
 سارا دن چچی اور دادی کی مار پیٹ کا شکار رہتے ہر بات پر انہیں طعنے دیئے جاتے۔
 ان کی ماں کو بھگوڑی کہا جاتا ان کی ماں کو عاشق مزاج کہا جاتا اور وہ معصوم لڑکی جو ان کے بیٹے کے ہاتھوں قبر میں جا سوئی۔ اسے گندے ناموں سے پکارا جاتا۔
 یہ بچے ذہنی طور پر دبتے چلے گئے۔
 کسی سے کھل کر بات نہیں کر سکتے تھے۔
 اپنی تکلیف بیان نہیں کر سکتے تھے۔

وہ دونوں بچے ہسنا بھول چکے تھے۔
 آخر چھ سات سال کی فرانس میں کی ہوئی عیاشی کے بعد اسے جب لوگوں نے احساس دلانا شروع کیا کہ تم اپنے بچے کیوں نہیں بلاتے۔ شادی کیوں نہیں کرتے۔اپنا گھر کیوں نہیں بساتے۔
  اس کی ماں نے اس کا رشتہ اس کے گاؤں کے قریبی شہر میں پکا کر دیا ۔
یوں اس بار وہ پاکستان گیا تو دوستوں نے اسے صلاح دی 
 اگر تم اس بار اپنے بچے لے کر نہیں آئے، 16 سال کی عمر سے پہلے پہلے، تو یاد رکھو ان بچوں کے آنے میں مشکلات بھی پیدا ہو سکتی ہیں۔
 حالانکہ وہ بچے فرانس میں پیدا ہوئے ہیں لیکن بہت سے قوانین تبدیل ہوتے رہتے ہیں، تو بچوں کے لانے میں مشکل ہو جاتی ہے۔
 اس لیے بہتر ہے کہ انہیں لا کے یہاں سکول میں داخل کرواو۔
 لیکن وہ چھوٹے گھر کا ، چھوٹے علاقے کا، چھوٹی سوچ کا ایک ایسا آدمی تھا  جو اس چیز کو ہضم نہیں کر پا رہا تھا.
 کیونکہ جب وہ خود کسی اور کی بیٹی بھگا کر لایا تھا۔ اسے ہر وقت کے دھڑکا رہے گا کہ کوئی اس کی بیٹی بھگا کر نہ لے جائے۔
 مکافات عمل تو ہر وقت آپ کے پیچھے رہتا ہے۔
 لیکن بالاخر اسے شادی کا فیصلہ لینا پڑا ۔ ساری زندگی محض عیاشی پہ نہیں گزاری جا سکتی تھی۔
 اسے بھی اب گھر کا کھانا چاہیئے تھا۔ 
 بالآخر اس کی ماں کے کہنے پر اس نے نزدیک کے شہر سے ایک لڑکی کا رشتہ اس کے لیے پسند کیا۔
 لیکن وہ اس کے بچے اس کے ساتھ بھیجنا نہیں چاہتی تھی۔ بیوی کے لیئے دستاویزات بنانے کے بعد اس نے اسے اپنے پاس فرانس بلا لیا۔
 ڈیڑھ دو سال کی اسی کوشش میں اسکی ماں نے اسے بچے لے جانے سے منع کرنے کے لیے ہر زور لگایا۔ لیکن دوستوں کی بات اس کے ذہن میں سما چکی تھی ، 
کہ بچے یہاں لاؤ گے تو کئی سرکاری فائدے بھی تمہیں ملیں گے۔
 لیکن ابھی بھی وہ جب دوسری شادی کر رہا تھا تو اس کا خیال تھا۔
 میں اور بچے پیدا کر لوں گا مجھے ان بچوں کی کیا ضرورت ہے۔
 لیکن خدا کی لاٹھی بھی بے آواز ہوتی ہے۔
 جس معصوم لڑکی کی موت کی وہ وجہ بن چکا تھا اسے بچوں پہ بچے پیدا کرنے کی ایک مشین سمجھ چکا تھا۔ اب شاید قدرت اسے اس بات کا جواب دینے والی تھی۔
 دوسری بیوی شکل صورت میں اچھی تھی ۔خوبصورت تھی۔ لیکن  بیحد حاسدانہ مزاج رکھتی تھی۔
 پیرس کے نام پر وہ شادی کر کے تو آ گئی تھی لیکن وہ اس کے بچے کبھی بلانا نہیں چاہتی تھی۔
 اسے بھی اسی بات کا انتظار تھا کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ یہاں اپنا گھر بنائے گی۔
 اللہ کی کرنی مہینوں پہ مہینے گزرتے چلے گئے لیکن اللہ نے ان کا دامن خوشی سے نہیں بھرا۔
 کرتے کرتے اس بات کو تین چار سال کا عرصہ گزر گیا اور اللہ نے انہیں اولاد کی نعمت سے محروم رکھا۔
 ڈاکٹرز نے جواب دے دیا 
سوری تم اولاد نہیں پیدا کر سکتی۔
 اب تو رشید کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔
 اس نے جلد سے جلد پاکستان کی ٹکٹ کٹوائی اور پاکستان جا پہنچا۔
  اپنے بچے اپنے ساتھ  لیئے۔ ہر کسی کی مخالفت کے باوجود وہ انہیں مہینے بھر میں اپنے ساتھ واپس فرانس لے آیا۔
یہاں آ کر اس نے بچوں کے کو انکی عمر کے سکول میں (لازمی تعلیم کی سرکاری پابندی کے سبب) داخل کر دیا ۔
لیکن اب اس کی دوسری بیوی شاہانہ کے سینے پر یہ بچے سانپ بن کر لوٹنے لگے۔
 رشید کی بیٹی جو اب 17 سال کی ہو چکی تھی۔ وہ اتنے دکھ اپنی دادی اور چچی کے ہاتھ سے اٹھا چکی تھی اور اپنے بھائی کو اتنے ظلم سہتے ہوئے دیکھ چکی تھی کہ وہ ہر بات میں اپنا حق لینے کے لیے ہر ایک سے مقابلہ کرنے کو تیار ہو جاتی۔
 وہ دوسروں سے ہر خوشی چھین لینا چاہتی تھی ۔
اس کے منہ پر کبھی مسکراہٹ نہیں آتی تھی۔ کسی نے اسے کبھی مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا۔
 ایک عجیب سی سختی اس کے چہرے پر تھی۔ دور سے دیکھنے پر اس کا چہرہ پتھر سے تراشہ ہوا لگتا۔
 دونوں بہن بھائی جیسے ایک ہی سانچے میں ڈھلے ہوئے تھے۔
 ظاہر ہے دونوں نے تکلیفیں جو ایک جیسی اٹھائی تھیں۔ دونوں کی محسوس کرنے کی حس، درد اٹھانے کی حس ، بھی ایک جیسا کام کر رہی تھی۔
 یہاں پر پڑھائی شروع ہوئی۔ اس نے شکر ادا کیا۔
 لیکن اب وہ جب بھی اسے دیکھتی اسے اپنی ماں اور  اپنی ننہیال یاد آتی۔
لیکن ماں کی موت کے بارے میں سننے کے بعد وہ اپنی ننھیال سے ملنے کے لیئے بھی تیار اس لیئے نہیں تھی کہ پہلے تو رشید انہیں ان کی طرف جانے نہیں دیتا تھا اور اگر کسی کے کہنے پر شرما شرمی جانا بھی پڑتا۔ تب بھی وہ اپنی ماں کی قتل کا ذمہ دار اپنی ننہیال کو سمجھ رہے تھے۔
 کیونکہ یہ زہر کتنے سال تک اس کی دادی اور اس کی چاچی نے ان کے کانوں میں بھرا تھا۔
 اس لیئے اس نے اپنا سارا غصہ اور غضب نکالنے کے لیے اپنی سوتیلی ماں شاہانہ کو ٹارگٹ بنا لیا ۔
 شاہانہ بھی کم نہیں تھی جو ایک رنگ کا سوٹ ایک کے لیئے آتا تو دوسری اس میں کٹ لگا کے یا استری رکھ کے بھول جاتی اور وہ اسے پہننا نصیب نہ ہوتا۔
 کبھی اٹھا کر اس کی کوئی چیز کھڑکی سے باہر پھینک دیتی ۔
کبھی ایک دوسرے کی چیزیں پھینکتے، کپڑے پھاڑتے  جلاتے ،گویا حسد کا ایک ایسا عذاب تھا جو رشید کو شام کو گھر آنے کے بعد دونوں کے فساد کی صورت میں سننا پڑتا۔
 بیٹی کو برا بھلا کہتا ہے اور کبھی بیوی کو ایک آدھ لگا دیتا۔
 لیکن یہ مقابلہ ختم ہونے پہ آتا دکھائی نہیں دیتا تھا۔
 آخر کار اس کے بیٹے نے بھی بنیادی پڑھائی کے بعد اپنا سکول چھوڑ دیا۔
 اور یوں زبان تو وہ سیکھ ہی چکا تھا اب  اسے آوارہ گردی میں مزہ آنے لگا۔
 اس کے لیئے پیرس کی ہوا بھی نئی نئی تھی۔
 نئی نئی اس نے موٹر سائیکل چلانا سیکھی۔
 زبان سیکھنے کے بعد وہ اپنے اپ کو بہت زیادہ خود مختار سمجھنے لگا۔
 پچھلی بندشوں کے بدلے اس نے اگلے رشتوں سے لینے شروع کیئے۔
 بہت سی بری صحبتوں کا شکار ہوا۔ جیل تک سے ہو آیا۔
  اس کی بیٹی جو ہر چیز سے بیزار ہو چکی تھی۔ وہ لوگوں کو اپنے غصے کا شکار بناتی ۔
  رشید اب روز پستا تھا ۔ کبھی بیٹی کے ہاتھوں اور کبھی اپنی بیوی کے ہاتھوں۔
کئی کئی دن اپنے گھر نہیں جاتا اپنے دفتر میں ہی سوتا ہے ۔
 کیونکہ خدا نے سکون اس کی زندگی سے الگ کر دیا تھا ۔
وہ حرام حلال طریقوں سے مختلف کمپنیز بنا کر نوٹ تو بہت چھاپ رہا تھا۔
 لیکن سکون اور گھر کا بنا کھانا اس کا خواب ہو چکے تھے۔
 وہ یہی سوچتا کہ کاش وہ سکون اور گھر کے کھانے کی لذت  بھی پیسوں سے خرید سکتا۔۔۔۔
                     ۔۔۔۔۔۔۔۔



ہفتہ، 24 اگست، 2024

& چاچا غیاث۔ افسانہ ۔ سچی کہانیاں۔ قطرہ قطرہ زندگی


             چاچا غیاث

وہ جب سے اس محلے میں آباد تھے۔ ان کی کھڑکی پر نشہ لینے والوں کی ایک لائن لگی رہتی تھی۔
 گھر میں ان کی بیوی بھی پڑیاں بناتی اور یہ کھڑکی کے ذریعے اسے سپلائی کرتے۔
 پورے محلے میں چاچا غیاث کی ایک دھاک تھی۔
دنیا  کہتی تھی وہ ایک منشیات فروش تھا ۔
لیکن عجیب بات تھی کبھی اس محلے کی کسی عورت، کسی بچی یا بچے  پر آنکھ اٹھا کر نظر ڈالنا بھی چاچا غیاث کے اصول کے خلاف تھا۔
 تمیز سے، نرم سے لہجے میں بات کرنے والا ،صلح جو،
 پھر وہ منشیات فروشی میں کیسے اپڑا ۔۔۔
بس ہمارے ہاں کی پولیس کا کمال کہ ایک بار کے چالان میں ان کی جیب میں دو پڑیاں ڈال کر اسے ہتکڑی لگی اور اس کے بعد اسے مجبور کیا گیا۔
 یہاں تک کہ وہ کمبل کو چھوڑتا تھا۔ مگر کمبل اسے چھوڑنے کو تیار نہ تھا۔
 اسے مجبور کیا جاتا اور انکار کرنے کی صورت میں کئی کئی دن حوالات میں بند کیا جاتا۔
 مار پیٹ ہوتی۔ آخر جب جسم میں مزید سزا بھگتنے کی ہمت نہ رہتی تو اقرار کر کے پھر سے وہ غریب واپس باہر آ جاتا۔
یوں پھر سے وہ دھندا شروع ہو جاتا۔
 محلے میں جب تک چاچا غیاث رہے، اس کے باوجود کہ اس کی کھڑکی پر ہمیشہ نشئیوں کا ایک ہجوم رہتا مگر پھر بھی اس محلے کی عورتیں، لڑکیاں خود کو محفوظ  تصور کرتیں۔
کسی کی مجال نہیں تھی کہ کوئی سامنے کی کسی بھی گلی پر یا ان کے ااڑوس پڑوس کی کسی عورت پر نگاہ ڈالتا  
جو بھی وہاں سے ، جو کچھ بھی خریدتا،  خاموشی سے سر  جھکا کر دور تک چلا جاتا۔
 آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی اجازت نہ تھی۔
 کیونکہ یہ چاچا غیاث کا محلہ تھا۔
 لوگ بدمعاشوں کو بدنام کرتے ہیں۔ لیکن وہ کیسا بدمعاش تھا ، جو اپنے محلے کی عورتوں کی چادر تھا۔
 ایک بار چاچا غیاث نے فیصلہ کر لیا کہ وہ کسی اور کاروبار کی طرف منتقل ہو جائے گا چاہے اسے پولیس کو بھتہ ہی کیوں نہ دینا پڑے۔
 لیکن وہ اس گندے کاروبار سے خود کو نکالے گا۔
 جس میں جوانوں کی جوانیاں برباد ہو رہی ہیں۔
 انہوں نے  پیسوں کی سبیل کی ۔ جمع پونجی اور ادھر ادھر سے کر کے اس سے 15 یا شاید 20 بھینسیں خرید لیں ۔
ایک روز ہم بچے سکول سے واپس آئے تو محلے میں میکے کا سماں تھا ۔
 پیچھے کی خالی میدان میں انہوں نے ان کا ایک باڑا بنانے کے لئے تمبو لگائے۔
ان ساری بھینسوں کا پہلے سارے دن کا دودھ اکٹھا کیا اور شام تک وہاں دیگوں کی لائنیں لگی ہوئی تھیں۔
 بچے سکولوں سے آئے اور حیرت سے دیکھنے لگے
 گلی کے خالی میدانوں کے اندر دیگیں ہی دیگیں چڑھی ہوئی ہیں۔
 انہوں نے اپنے گھروں سے پوچھا کہ امی کیا آج گلی میں کسی کی شادی ہو رہی ہے
 انہوں نے کہا
 نہیں تو ۔۔۔پتہ نہیں 
چاچا غیاث کی طرف سے  پھر دو تین گھنٹے کے بعد لاؤڈ سپیکر پہ اعلان ہوتا ہے
 کڑیو منڈیو ونڈی دی کھیر لے جاؤ۔۔۔
 اور پھر یہ کھیر ٹوٹیوں میں نہیں بٹی بلکہ یہ کھیر لوگوں اور بچوں میں دیگچیاں دیگچے گھروں کی بالٹیاں جس کے ہاتھ جو بھی کچھ لگا وہ اپنے ساتھ لے کر گیا 
چاچا غیاث کا حکم تھا کہ کوئی کسی سے یہ نہ پوچھے کہ تم پہلے لے جا چکے ہو۔۔
 اور بھر بھر کر اس دن کی بھینسوں کا سارا دودھ 15 سے 20 بھینسوں کا سارے دن کا دودھ اس دن خیرات کیا گیا
  اس دودھ سے وہ کھیر کی بیشمار دیگیں چڑھیں۔
  ان دیگوں کے ذریعے سارے محلے کو اتنی گھیر بانٹی گئی کہ جہاں جہاں تک یہ آواز پہنچی بالٹیوں میں بھر بھر کے کھیر لوگوں نے کھائی۔
 چاچا غیاث زندہ باد
 آج تک زندگی میں اس واقعے کو شاید 30،  40 سال گزر چکے ہوں گے لیکن اس کے مقابلے پر کبھی کسی کی خیرات ایک فرد واحد کے ہاتھوں گلی محلوں میں بٹتے نہیں دیکھی۔
 نہ ہی یہ آواز دوبارہ سننے کو ملی اس محلے میں ہر ایک کے لیے لازم تھا کہ سر جھکا کر داخل ہوتا اور سر جھکا کے اکیلا کوئی بھی مرد جو اس محلے کا رہنے والا نہیں تھا داخل نہیں ہو سکتا تھا۔
جب تک کہ اس سے کچھ خریدنا ہے تو سر جھکا کر آئے گا اور سر جھکا کر جائے گا۔
 پولیس کے لیے غیاث بدمعاش محلے کا چاچا غیاث کیا کمال کا انسان تھا۔
 اس کی بیٹی گلی کی لڑکیوں کے ساتھ سکول جایا کرتی ۔
دوسری تیسری جماعت کی وہ طالبہ اپنی اس دوست کے لیئے گھر سے دیسی گھی کی پنیاں بنا کر لے جاتی۔ کیونکہ محلے کی باقی بچیاں ان سے ڈرتی تھیں۔
 لیکن اس کی دوست جس کے والد بھی چاچا غیاث کو اچھی طرح جانتے تھے اور اس کی عزت کرتے تھے سوائے اس عیب کے اس میں کوئی عیب نہیں تھا کہ وہ منشیات فروش تھا۔
 لیکن وہ خود اتنے رعب دار تھے کہ محلے میں کوئی ان پر اعتراض نہیں کر سکتا تھا
 کہ تم چاچا غیاث کے ساتھ دوستی میں کیوں ہو ۔
گھروں کا آنا جانا تو تھا بھی نہیں کسی کے ساتھ۔
 لیکن محلے میں باہر سے دعا سلام بہت اچھی تھی۔
 ان کی بیٹی بینو کے ساتھ چاچا غیاث کی بیٹی دل ناز مل کر سکول جاتیں۔
محلے کے کنارے پر ہی سکول تھا اور بینو کے حصے کے لیئے باقاعدہ دیسی گھی کی پنیاں بنا کر اس کا حصہ سکول میں دل ناز کے ہاتھوں جاتا ۔
دل ناز خود بھی دل کی بہت اچھی بچی تھی۔ محنتی تھی اور لائک تھی۔
 لیکن اس پر ایک ٹھپا تھا 
کہ وہ چاچا غیاس کی بیٹی ہے۔
 چاچا غیاس کے ایک عیب سے جو ان سے زبردستی کروایا جاتا۔
ان کی ہر خوبی کو داغدار کرنے کی کوشش کی جاتی۔
 کافی عرصے بعد جب بینو سکول بدل کر دوسرے سکول چلی گئی اور دل ناز اسی سارے ہنگامے میں کہیں گم ہو گئی تو پتہ چلا کہ
  15 سال کی عمر تک جب اسے میٹرک میں ہونا چاہئے تھا اس کی شادی کر کے غیاث چاچا نے اسے پولیس کے روایتی  کردار کے خوف سے اس گھر سے دور کر کیا ۔
 شاید اچھا ہی تو کیا ۔
یہاں ہوتی تو جانے کون کون اس پر کیا نظر ڈالتا ۔
لوگ اس کی کبھی شادی نہیں ہونے دیتے ۔
اس لیے انہوں نے انتظار نہیں کیا۔ خاموشی سے اس کا نکاح کر دیا ۔
 اسے رخصت کر دیا ۔
حالات بھی انسان کو کس کس نہج پہ کیسے کیسے فیصلے کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں ۔
چاچا غیاس کا یہ فیصلہ یقینا اپنے وقت اور اپنے حالات کے لحاظ سے بہت مناسب تھا۔
 اپنی بیٹی کی حفاظت کے لیئے یہی بہتر تھا۔
 بڑا بیٹا جو ویسے ہی سکول سے بھاگ چکا تھا۔
 ان سارے حالات اور لوگوں کی باتوں پر  چاچا غیاث اپنی شرافت بھی نہیں چھوڑتا تھا  نہ وہ پورا بدمعاش بن پاتا نہ پوری طرح شرافت میں آسے آنے دیا جاتا. 
 اس کے دل کا شریف آدمی اس کے نفس کا شریف آدمی اسے لتاڑتا رہتا۔
 پھر ایک روز معلوم ہوا 
چاچا غیاث خاموشی سے اپنا گھر بیچ کر اپنی دوسری چھوٹی بیٹی 12 13 سال کی راشدہ کو  اپنے پڑوس میں آباد اپنے بھائی کے بیٹے کے نکاح میں دے کر خود خاموشی سے وہ گلی چھوڑ گئے ۔
وہ کہاں گئے
 شاید یہ ان کی اپنی بیٹیوں کو بھی معلوم نہیں تھا
 لیکن وہ اب مزید اس کیچڑ میں لت پت نہیں رہنا چاہتے تھے ۔
 چاچا غیاث آج بھی یاد آتے ہیں۔
 بڑے اچھے لفظوں کے ساتھ جھکی ہوئی نظریں دھیمہ لہجہ۔
ہر بیٹی کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھنے والا چاچا غیاث۔
کاش ہمارے ذہنوں میں بدمعاش کا جو تصور ہے۔ آج کا بدمعاش جس گندگی میں لتھڑا ہوا ہے۔
 انہیں پتہ چلے کہ جب باعزت لوگ بدمعاش کی سیٹ پر بیٹھتے تھے تو وہ اپنی محلے کے پہرا دار بن جاتے تھے۔
 اپنے محلے کی عورتوں اور بچوں کے محافظ بن جاتے تھے۔ عورتوں کی عزتوں کے رکھوالے بن جاتے تھے۔
 چاچا غیاث ایک ایسی شخصیت جن پر جتنا جانا جائے کم ہے لیکن وہ جب یاد آتے ہیں۔
عزت سے محبت سے آنکھیں نم ہو جاتی ہیں ۔
                     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اتوار، 11 اگست، 2024

& دیباچہ۔ قطرہ قطرہ زندگی

       دیباچہ
    قطرہ قطرہ زندگی 


السلام علیکم 
ویسے اس سے پہلے میری آٹھ کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ یہ میری نویں کتاب ہے۔ 4 شعری مجموعے بنام 1۔ "مدت ہوئی عورت ہوئے"/ 2. "میرے دل کا قلندر بولے" /3۔ "سراب دنیا"/ 4."اور وہ چلاگیا " بھی شامل ہے۔ 1پنجابی شعری مجموعہ کلام بنام "او جھلیا " بھی شامل ہے۔ 1 ایک کتاب "اے شہہ محترم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)" بھی ہے جس میں حمد و نعت و مناجات شامل ہیں ۔  میرے لکھے ہوئے کالمز کے 2 مجموعے بنام 1۔ "سچ تو يہ ہے" اور 2۔ "لوح غیر محفوظ " کے نام سے آپ تک پہنچ چکے ہیں۔  لیکن کہانیوں کی کتاب ابھی تک مواد کو یکجا نہ کرنے کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوئی۔ تو الحمدللہ آج وہ کمی پوری ہونے والی ہے۔ 
ہم لکھنے والے کسی بھی چیز سے حالات سے بہت جلد متاثر  ہوتے ہیں۔ چاہے وہ اچھا ہو یا برا، یہ ہمارے دل کو چھوئے بغیر نہیں گزر سکتا۔ معاشرے کا وہ طبقہ جسے کچھ زیادہ ہی حساسیت سے نوازا جائے اور اسے خدا نے قلم عطا کیا ہو، اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں۔ ہر ایک کو الگ انداز، الگ لہجہ، شاعری لکھنے یا سنانے کا فن عطا کیا گیا تھا۔ یہ میرا پہلا مجموعہ کلام ہے جو کہانیوں پر مشتمل ہے۔ میں اپنے افسانوں میں صرف افسانوی کرداروں کو بھر کر جو من چاہا  وہ کہنا چاہتی تھی ، لیکن میں چاہنے کے باوجود اپنے افسانوں میں وہ روایتی رنگ نہیں بھر سکی اور میرے افسانے بھی میرے کالم کی طرح سچے ہیں ۔ رنگ میں پینٹ.  میں نے جب بھی کوئی افسانہ ، کہانی یا ناول لکھا، نہ چاہتے ہوئے بھی سچ سامنے آ ہی جاتا ہے۔ اس لیے میں نے سوچا کہ ان افسانوں کو ان کہانیوں سے جوڑا جائے جو تخیل میں بنتی ہیں، جو خواب دکھاتی ہیں۔ اور سچ  جو ہمیں جھٹکا دیتا ہے، ہماری آنکھیں کھولتا ہے اور ہمارے ضمیر کا سامنا کرتا ہے۔ تو پیش ہے آپ سب کی خدمت میں میرے افسانوں اور کہانیوں کا پہلا مجموعہ کلام "قطرہ قطرہ زندگی"۔  ( ان تمام کہانیوں میں اصل نام اور مقام تبدیل کیئے گئے ہیں۔ کسی سے ان کی کسی بھی قسم کی  مماثلت محض اتفاقی ہو گی ۔) واقعی زندگی کے ان لمحات سے اخذ کیا گیا ہے، جو پڑھنے والوں کو ہر لمحہ یہ احساس دلائے گا کہ ہماری زندگی کیسی کہانیاں بنتی ہے اور کیسے کیسے واقعات ہمارے ہی ارد گرد وقوع پذیر ہو رہے ہوتے ہیں۔  میں آپ کی محبت اور توجہ طالب رہوں گی ۔
شکر گزار
کتاب:
      "قطرہ قطرہ زندگی" 
مصنفہ:
            ممتازملک 
        پیرس ۔ فرانس 
@MumtazMalik222
Gmail.Com  
 
MumtazMalikParis.Com
                ........
MumtazMalikPairs.BlogSpot.com 
    ........       https://www.facebook.com/mumtaz.malik.714?mibextid=ZbWKwLk 
             .........
             Tik Tok
       mumtazmalik22@
             ۔۔۔۔۔۔۔

جمعہ، 19 جولائی، 2024

& نامعلوم لاٹریاں۔ افسانے۔ سچی کہانیاں۔ قطرہ قطرہ زندگی





نامعلوم لاٹریاں        




جب سے پاکستان آئی ہوں ہر چوتھے روز کسی نہ کسی نمبر سے مجھے اس لاٹری کی خوشخبری سنائی جاتی ہے جو میں نے کبھی 
خریدی تک نہیں .
شبینہ نے بیزاری سے اپنی دوست عادلہ کو بتایا 
لیکن انہیں نام ، پتہ کیسے ملتا ہے 
عادلہ نے اس سے سوال کیا
بھئی ان کا طریقہ واردات یہ ہے کہ 
ہیلو جی آپ کا فون نمبر فلاں مہینے میں ہمارے پاس میسج کے جواب میں آیا تھا جس پر آپکا پانچ لاکھ روپے اور دس تولے سونا لاٹری میں نکلا ہے...
ایک موٹر سائیکل اور بیس تولے سونا نکلا ہے.....
دس لاکھ روپے کا انعام نکلا ہے ...
تو پھر 
پھر کیا ایک نمبر دیا جائیگا جلدی کریں اپنا انعام وصول کریں جیسے انعام  کسی بم پر رکھا ہے نہ اٹھایا تو دھماکا ہو جائیگا 
اس نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا
پھر ۔۔۔

پھر کیا 
اس نمبر پر فون کرو تو وہاں اںکق ایک ڈاکو بلکہ ڈیجیٹل ڈالو آپ کو پانچ دس پندرہ ہزار روپے فلاں بندے کو بھجنے کے لیئے چکنی چپڑی نصیحت کرے گا ۔ بلکہ جھوٹ بولتے ہوئے اللہ اور قرآن کی قسمیں بھی اٹھا کے گا کہ بی بی ہم فراڈ نہیں ہیں ۔
اچھا۔۔۔
ہاں اور کیا اور ہم بے وقوف لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ دیکھو بھئی اس بندے نے داڑھی رکھی ہوئی ہے قسمیں اٹھا رہا ہے تو یہ فراڈ کیوں کرے گا،  لیکن یہ یاد رکھو سب سے زیادہ قسمیں اٹھانے والا ہی سب سے بڑا دھوکے باز اور فراڈیا ہوتا ہے۔
 اس کے بعد۔۔۔
عادلہ نے تجسس سے پر لہجے میں پوچھا
 اس کے بعد کیا ۔۔۔ اس کے بعد جب اس دوسرے نمبر پر آپ نے پیسے بھیج دیئے پھر وہ آپ کو بتائے گا کہ اچھا جی پہلا مرحلہ طے ہو گیا۔ مبارک ہو ۔ اب آپ اس طرح کریں کہ آپ اس فلانے نمبر پر اس فلانے صاحب کو فون کریں وہاں پر آپ کے انعام کا اگلا مرحلہ انتظار کر رہا ہے۔
 تو۔۔۔۔۔
عادلہ نے بےچینی سے پوچھا
 تو پھر آپ اگلے شکاری کے پاس جاتے ہیں  اور وہ شکاری آپ سے پھر سے 10 یا  15 یا 20 ہزار روپے ایزی پیسہ کے ذریعے بھجوانے کی فرمائش کرے گا۔
 اب جناب آپ کا انعام دوسرے مرحلے میں آ چکا ہے اور آپ کا انتظار ختم۔ہونے کو ہے ۔ آپ کے نام کی پرچی لگ چکی ہے اور ایک مشہور و معروف ٹی وی چینل کا نام لے کر اس کے نیلام گھر کی کہانی سنا کر یہ انعام وہاں سے اپ کے لیئے بھیجا جا رہا ہے اور اس کا لوگو تک استعمال کیا جائے گا اور آپ اس خوشی میں کہ اس کا لوگو کوئی اور کیوں یوز کرے گا آپ بے وقوف بن کر پھر اس کی ایک میٹھی کہانی میں اس کو 10،  15 ہزار روپے بھجوا دیتے ہیں۔
 اس طرح وہ چار پانچ لوگ مل کر کم سے کم از کم ایک لاکھ روپے تو آپ سے نکلوا ہی لیتے ہیں،
   تو پھر جب آپ کو خطرے کا احساس ہوتا ہے کہ آپ اس دلدل میں ڈوبتے چلے جا رہے ہیں اور آپ محتاط ہونے لگتے ہیں۔
 تب تک وہ آپ کو اچھی والی چپت لگا چکے ہوتے ہیں۔
 آپ کے ساتھ بھی ایسا ہوا۔۔
عادلہ نے بے دھڑک پوچھ ہی لیا 
 ارے نہیں یار میں نے پہلے ہی مرحلے میں اسے سمجھ لیا کہ یہ میرے ساتھ دھوکہ ہونے کی کہانی شروع ہو گئی ہے۔
 پھر آپ نے کیا کیا
 میں نے اس دوسرے والے کو کہا کہ بھائی سیدھی سی بات ہے ۔ 
اس انعام کے لیے کتنے پیسے دے کر مجھے وصولی کرنی ہوگی۔۔
 اس نے کہا 
کچھ نہیں میم اتنا سب کچھ نہیں ہے جناب ۔
یہ بیس ہزار روپے بس اس وقت دیں گے۔ تو ساتھ ہی آپ کی اگلے مرحلے کی آپ کی پرچی لگ جائے گی۔
 انعام آپ تک پہنچا دیا جائے گا۔
 میں نے کہا میرے بھائی تو ایسا کر کہ یہ بیس ہزار یا 40 ہزار بلکہ تو ایک دو تین لاکھ روپے اس میں سے نکال لے جو بھی تم سب لوگوں کے آپس کا کمیشن ہے،  بانٹ لو اور میرا انعام مجھے بھجوا دو ۔
جیسے ہی میرا انعام ملتا ہے اس سے پہلے پہلے تم لوگ اپنی رقم کٹوا لو۔
 میری اب بات سن کر وہ بدک گیا اور بولا ارے نہیں نہیں میڈم ایسے نہیں ہوتا ۔ 
یہاں  پہلے پیمنٹ کرنی پڑتی ہے تب یہ کرنا پڑتا ہے تب وہ کرنا پڑتا ہے تب جا کر یہ انعام اپ تک پہنچتا ہے۔
 اس کے شروع کے مرحلے ہوتے ہیں۔۔ 
میں نے کہا
او بھائی مجھے الو مت بنا ۔ یہ ڈرامہ کہیں اور کرنا ۔ اگر یہ لاٹری میں نے خریدی ہی نہیں اور میرے نام سے  نکل سکتی ہے نا تو پھر یہ پہلے ایڈوانس میں پیمنٹ بھی ہو سکتی ہے۔
 ایڈوانس میں اپنا خرچہ نکال کر پیمنٹ کٹوا کر میری رقم اور میرا انعام مجھے بھیج دیں۔
 اور اگر نہیں بھیج سکتا تو بند کرتا ہے فون یا پھر میں کروں پولیس کو کروں فون۔۔۔
 تیرا انعام پتے کا اعلان اور ۔۔۔
جناب پٹخ کر کے فون بند ہو جاتا ہے ۔
اور اس کے بعد اکثر وہ سم تبدیل ہو جاتی ہے۔
 اگر پولیس کا ڈر پڑ جائے تو  پہلے تو وہ نمبر کوئی اٹھائے گا نہیں۔
یا اس بندے کا نمبر بلاک کر دیا جائے گا ۔
جس کے ساتھ وہ ایک بار ہاتھ کر چکے ہیں۔
 لہذا اب دوسرے آدمی کی باری ہوگی کہ وہ یا تو سم تبدیل کر لے گا یا جناب آپ کے نمبر کو بلاک کر دے گا۔
 ہر روز گھر بیٹھے ایسے حرام خور ڈاکو جو روزانہ گھر بیٹھے دوسروں کی جیبوں پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں ۔
اور لوگ اپنی لالچ کے تحت ڈاکہ ڈلوا رہے ہیں لٹ رہے ہیں 
اف میرے خدا۔۔۔۔
عادلہ کی حیرت انگیز لمبی آہ پر اس نے مشکوک نظروں سے اسے دیکھا اور پوچھا 
عادلہہہہہ 
کیا تم نے بھی کوئی  لالچ میں نقصان تو نہیں کروا لیا؟؟
عادلہ کا رنگ ایک دم سے فق ہو گیا۔
 ارے نہیں نہیں یار ایسی کوئی بات نہیں وہ بس ویسے ہی میرے منہ سے نکلا ۔
کیسے کیسے فراڈ ہوتے ہیں دیکھو نا
 اس نے منہ کو ادھر ادھر کرنا شروع کیا ۔۔
وہ نظریں ملانے سے اجتناب کرنے لگی 
شبینہ نے اسے اپنی طرف دیکھنے کو کہا 
میری طرف  دیکھو اور ٹھیک سے جواب دو
 کیا واقعی سچ؟
 عادلہ جیسے پھنس کر رہ گئی
 یار کیا تم بھی نا ایک دم سے نبض پکڑ لیتی ہو انسان کی۔۔
کیا  بتاؤں
 ہاں یار میرے ساتھ یہ چکر ہو چکا ہے
 پھر کتنے لٹے؟
شبینہ نے ماہرانہ انداز میں سوال کیا۔۔
 50 ہزار ۔۔۔
 اف میرے خدا ۔۔۔
میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ میری اپنی دوست،  میرے گھر میں بیٹھا ہوا بندہ ، اتنا بے وقوف ہو سکتا ہے
 تو پانچ ہزار تو تم نے بھی لٹوائے تھے نا
ہاں وہ میں، وہ میں تو,  
شبینہ ہڑبڑا سی گئی
 ہاں لیکن پہلے ہی قدم پر سنبھل بھی تو گئی تھی
 ہاں تو اس وقت میری تم سے بات نہیں ہوئی تھی
 تو کر لیتی نا بات 
کیسے کر لیتی بات
 اتنی بڑی رقم کا سن کر میرے ہاتھ پیر بھول گئے
عادلہ نے شرمندگی سے خجل ہو کر جواب دیا 
 میں نے سوچا چلو آخر لوگوں کی لاٹریاں بھی تو لگتی ہیں نا یار۔۔۔
 لگتی ہیں نا پر کسی پرائز بانڈ پہ لگتی ہیں،
 کسی اور ایسے ٹکٹ پہ لگیں گی جو تم نے خریدا ہوگا ۔
جس میں تم شامل ہو گے لیکن یہاں ٹکٹ خریدے بغیر اگر کوئی تمہیں لاٹریاں دے رہا ہے تو اس پہ مشکوک ہونا تو بنتا ہے نا 
ہاں تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔
ہو گئی نا غلطی اب ہم کسی کو سمجھائیں گے تو وہ ہماری بات تھوڑی مانے گا ۔
ہر آدمی اپنے دھکے سے سیکھتا ہے یہی تو مسئلہ ہے۔۔
پھر ان سے بچنے کے لیے کیا کیا جائے۔
 کرنا کیا ہے بھئی لالچ سے دور رہیں۔
 اپنی زندگی میں حلال کمائی پر صبر کرنا اور شکر کرنا سیکھیں ۔
فضول قسم کے شوق پالنے سے پرہیز کریں اور یہ جو عورتیں اپنے آپ کو ہر وقت دکان بنائے رکھنا چاہتی ہیں نا برینڈ برینڈ برینڈ کر کے آدمیوں کو پاگل کیا ہوا ہے انہیں چاہیئے کہ ہوش میں آئیں ۔۔
 جب تک یہ عورتیں ان برینڈوں کے چکر میں رہیں گی اور زیوروں کپڑوں کے لالچ میں اندھی ہوتی رہیں گی۔۔ وہ اس طرح پھر ڈاکوؤں سے  روزانہ خود کو لٹواتی رہیں گی اور خود نہیں لٹیں گی تو اپنے میاؤں کو لٹواتی رہیں گی۔
 وہ بھی اسی لالچ میں یہ جواء کھیلتے رہیں گے۔
 لو جی یہ دیکھو پھر سے گھنٹی بج رہی ہے 
 ہیلو کون ؟
جی میڈم آپ کا لاٹری میں انعام لگا ہے۔ آپ اس نمبر پر بات کیجئے۔۔۔
 لو جی ہو گیا شروع ڈرامہ
 اس نے فون فورا سے بند کر دیا 
                  ۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات، 11 جولائی، 2024

& اعتبار کی موت۔ افسانہ ۔ سچی کہانیاں۔ قطرہ قطرہ زندگی



اعتبار کی موت       



کاؤنٹر پہ دوائیوں کی پیمنٹ کرتے ہوئے ایک لڑکا انتہائی بےچارگی کے ساتھ اپنی جیبیں ٹٹولتا ہوا سیلز مین کو بتا رہا تھا کہ بھائی میرے پاس اور پیسے نہیں ہے میں آپ کو پھر دے دوں گا ۔
دیکھیں یہ دوائیں بہت ضروری چاہیئیں ۔ میری ماں بہت بیمار ہے۔
 دوسرے سیلز مین کی طرف کھڑی بینا اس کی لاچارگی دیکھ کر کانپ سی گئی۔
 محض دوائی کے لیئے کوئی آدمی کس طرح سے منت سماجت کر رہا تھا۔
 اس سے رہا نہیں گیا اس نے ہاتھ کے اشارے سے سیلز مین سے کہا۔
 اس کی پیمنٹ کتنی ہے؟
سیلزمین نے بتایا 
پانچ ہزار کی دوائیں ہیں۔
 اوکے ٹھیک ہے یہ پیمنٹ میں کر دوں گی ۔ آپ اسے دوائیں دے دیجئے۔
اس نے لڑکے کو اشارے سے کہا  کہ یہ دوائیں لے کر آپ جائیں۔
 وہ لڑکا شکرگزاری اور خوشی میں اس کی طرف دیکھ کر ٹوٹے پھوٹے جذباتی جملوں  میں بولا
میم آپ کا بہت بہت شکریہ ۔ میں آپ کا شکریہ کیسے ادا کروں۔  آپ مجھے اپنا ایڈریس یا  نمبر کچھ بھی دے دیجئے یا جہاں بتائیں میں آ کر وہاں، جب بھی ہوں گے ، میں آپ کو یہ پیسے ادا کر دوں گا۔ آپ نے میری جو مدد کی ہے۔ میں کبھی اس کا احسان نہیں اتار سکتا  اس نے اسے خاموشی کا اشارہ کیا اور جانے کا کہا گاڑی میں اس کی دوست انتظار کر رہی تھی اس لئے اس نے اپنی دوائیاں اٹھائیں اور اپنی گاڑی کی طرف چل دی
 وہ گاڑی میں بیٹھنے لگی تو اسے یاد آیا وہ اپنا فون کاؤنٹر پر بھول آئی ہے تو وہ دوبارہ سے پلٹی۔
 فارمیسی میں جاتے ہی اس کی نظر اسی لڑکے پر پڑی جو ہنس کر اس کاؤنٹر کے دوسرے سیلز میں  سے بات کر رہا تھا وہ تھوڑی متجسس سی ہو گئی کہ وہ دوبارہ یہاں کیوں آیا یا گیا ہی نہیں ؟
ابھی وہ اتنا پریشان تھا اب وہ اتنا ہنستا مسکراتا اس سے گپ لگا رہا ہے۔
 وہ دروازے کی اوٹ میں ہو گئی شیشے کے دروازے کی دوسری طرف سے وہ اندر داخل ہوئی اور دوسرے ریگ کی طرف مڑ گئی۔ جہاں کوئی اسے دیکھ نہیں  سکتا تھا۔ لیکن وہ کاؤنٹر پر ہونے والی گفتگو با آسانی سن سکتی تھی 
 وہ دونوں ہنس رہے تھے اور وہ ضرورت مند لڑکا بولا ارے  یار پانچ ہزار کی دیہاڑی تو  آرام سے لگ گئی ہے۔ پکڑو اپنی دوائیاں اور پیسے  دے دینا۔
 سیلزمین بولا
 اور میرا حصہ۔۔ 
 ارے یار چل تو بھی رکھ لے ہزار روپے کیا یاد کرے گا۔ کس سخی سے پالا پڑا ہے۔
 یہ سنتے ہی بینا شدید صدمے کی کیفیت کا شکار ہو گئی۔
 اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے  
 اس کے خلوص کا، اس کی ہمدردی کا، اس کی سچائی کا کیسے مذاق اڑایا گیا 
 وہ خاموشی سے دوسرے دروازے سے  باہر نکل گئی۔
 اس نے دوست سے پوچھا کیا بات ہے؟
ایک دم سے پریشان کیوں ہو گئی ہو ۔ فون ملا؟
سب ٹھیک ہے نا۔۔۔
 اس نے اپنی دوست سے کہا
 جا کر اندر کاؤنٹر سے میرا موبائل اٹھا لاو۔۔
 لیکن تم گئی تو تھی۔
وہ حیرانی سے بولی
 بس تم جاؤ نا یار جا کر لے آؤ۔۔
میں نہیں جانا چاہ رہی۔
 اس کی دوست نے اندر سے جا کر کاؤنٹر سے اس کا موبائل سیلزمیں کو بتا کر اٹھایا ۔
واپس آ کر گاڑی میں بیٹھتے ہی اس سے پوچھا
 کوئی لڑکا وہاں تھا؟
 ہاں ہنس رہا تھا ؟
ہاں۔  تو۔ ۔
 یہ وہی لڑکا ہے جو ابھی دواؤں کے لیے پانچ ہزار روپے کے لیئے رو رہا تھا اور اب وہ وہاں ٹھٹھے لگا رہا ہے 
کیا مطلب پانچ ہزار روپے کا چونا لگا دیا اس نے تمہیں وہ ہنس دی 
  اف  خدایا میں نے تمہیں کہا تھا نا۔ وہاں کسی پر اس طرح مہربان ہونے کی ضرورت نہیں ہے 
 یار وہ کوئی ہوٹل کا بل نہیں دکھا رہا تھا ۔  دوائیں تھیں ۔ زندگی بچانے کی اور  اس پر بھی کسی کی مدد نہ کی جائے تو اس سے بڑا انسانی جرم کیا ہوگا ؟
تو اب دیکھ لیا نا تم نے۔۔ اس طرح کے بڑی فلمیں پھرتی ہیں یہاں پر ۔
خود کو اس نرم دلی سے باہر نکالو۔
 حقیقت میں جینا سیکھو ۔
بینا کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
چلو میں پانچ ہزار تمہیں دے دوں گی۔
 چھوڑو دفعہ کرو۔
 بات پانچ ہزار روپے کی نہیں ہے  
 بات اس اعتبار کی ہے جو اس لڑکے نے میرا توڑ دیا اور جو اب  کبھی کسی پر قائم نہیں ہو سکے گا۔ کوئی سچا ضرورت مند بھی ہوا تو میں اسے ڈرامے باز کہہ کے گزر جاؤں گی۔
 میں کبھی جاننا نہیں چاہوں گی کہ اسے کیا تکلیف ہے ۔
میں اپنے دل کو جانتی ہوں یہ دل بھی بڑی کتی چیز ہے آ گیا تو آ گیا ، آٹھ گیا تو اٹھ گیا  پھر اسے کوئی واپس نہیں لا سکتا ۔
  اس کمبخت نے میرا اعتبار توڑ دیا ۔جوان جہان یھٹا کٹا اور دھندا کیا ہے؟
 دوائیوں کے نام پر لوگوں کو چونا لگانا ۔
تو ہم اسے پولیس کے حوالے کر دیتے ہیں۔ 420 کا پرچہ کروا دیتے ہیں۔
دوست نے جوش اور غصے سے اس کی تکلیف کو محسوس کرتے ہوئے کہا
 نہیں یار کوئی فائدہ نہیں۔ یہ اور  اس جیسے جانے کتنے لوگ ہوں گے۔ جنہیں  دھوکہ دیتے ہوئے ، فراڈ کرتے ہوئے، یہ یاد ہی نہیں رہتا کہ وہ اپنی ہر حرکت سے اس بے رحم دنیا سے جو گبے چنے ہمدرد، نرم دل کے لوگ ہیں یہ ہر روز ان کا صفایا کرتے جا رہے ہیں، ہر روز اپنے ہر عمل سے ایک نیک انسان کو دنیا سے کم کرتے جا رہے ہیں۔
 وہ ہر ہمدرد معصوم دل انسان  بھی انہیں کی طرح پتھر ہوتا جا رہا ہے۔
 وہ بھی انہیں کی طرح بے رحم ہوتا جا رہا ہے، کیونکہ انہوں نے اسے مجبور کیا کہ ہم پر اعتبار مت کرو۔
 کوئی سچا بھی اس کے سامنے آئے گا تو۔وہ اسے بھی دھتکار کا آگے گزر جائے گا۔
 اس میں قصور اس شخص کا نہیں ہو گا بلکہ  اس میں قصور اس جیسے مکاروں کا ہو گا جو اس نیک انسان کے اخلاقی قتل عام پر نہ نادم ہے نہ شرمندہ اور نہ ہی باز آنے والے ہیں۔
 موٹے موٹے آنسو بینا کی انکھوں سے نکل کر اس کی گود میں جا گرے۔موت جو ہوئی تھی اس کے اعتبار کی۔۔۔۔۔
                  ۔۔۔۔۔۔۔۔                   



شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/