ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک
افسانے۔ سچی کہانیاں لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
افسانے۔ سچی کہانیاں لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعہ، 19 جولائی، 2024

& نامعلوم لاٹریاں۔ افسانے۔ سچی کہانیاں۔ قطرہ قطرہ زندگی





نامعلوم لاٹریاں        




جب سے پاکستان آئی ہوں ہر چوتھے روز کسی نہ کسی نمبر سے مجھے اس لاٹری کی خوشخبری سنائی جاتی ہے جو میں نے کبھی 
خریدی تک نہیں .
شبینہ نے بیزاری سے اپنی دوست عادلہ کو بتایا 
لیکن انہیں نام ، پتہ کیسے ملتا ہے 
عادلہ نے اس سے سوال کیا
بھئی ان کا طریقہ واردات یہ ہے کہ 
ہیلو جی آپ کا فون نمبر فلاں مہینے میں ہمارے پاس میسج کے جواب میں آیا تھا جس پر آپکا پانچ لاکھ روپے اور دس تولے سونا لاٹری میں نکلا ہے...
ایک موٹر سائیکل اور بیس تولے سونا نکلا ہے.....
دس لاکھ روپے کا انعام نکلا ہے ...
تو پھر 
پھر کیا ایک نمبر دیا جائیگا جلدی کریں اپنا انعام وصول کریں جیسے انعام  کسی بم پر رکھا ہے نہ اٹھایا تو دھماکا ہو جائیگا 
اس نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا
پھر ۔۔۔

پھر کیا 
اس نمبر پر فون کرو تو وہاں اںکق ایک ڈاکو بلکہ ڈیجیٹل ڈالو آپ کو پانچ دس پندرہ ہزار روپے فلاں بندے کو بھجنے کے لیئے چکنی چپڑی نصیحت کرے گا ۔ بلکہ جھوٹ بولتے ہوئے اللہ اور قرآن کی قسمیں بھی اٹھا کے گا کہ بی بی ہم فراڈ نہیں ہیں ۔
اچھا۔۔۔
ہاں اور کیا اور ہم بے وقوف لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ دیکھو بھئی اس بندے نے داڑھی رکھی ہوئی ہے قسمیں اٹھا رہا ہے تو یہ فراڈ کیوں کرے گا،  لیکن یہ یاد رکھو سب سے زیادہ قسمیں اٹھانے والا ہی سب سے بڑا دھوکے باز اور فراڈیا ہوتا ہے۔
 اس کے بعد۔۔۔
عادلہ نے تجسس سے پر لہجے میں پوچھا
 اس کے بعد کیا ۔۔۔ اس کے بعد جب اس دوسرے نمبر پر آپ نے پیسے بھیج دیئے پھر وہ آپ کو بتائے گا کہ اچھا جی پہلا مرحلہ طے ہو گیا۔ مبارک ہو ۔ اب آپ اس طرح کریں کہ آپ اس فلانے نمبر پر اس فلانے صاحب کو فون کریں وہاں پر آپ کے انعام کا اگلا مرحلہ انتظار کر رہا ہے۔
 تو۔۔۔۔۔
عادلہ نے بےچینی سے پوچھا
 تو پھر آپ اگلے شکاری کے پاس جاتے ہیں  اور وہ شکاری آپ سے پھر سے 10 یا  15 یا 20 ہزار روپے ایزی پیسہ کے ذریعے بھجوانے کی فرمائش کرے گا۔
 اب جناب آپ کا انعام دوسرے مرحلے میں آ چکا ہے اور آپ کا انتظار ختم۔ہونے کو ہے ۔ آپ کے نام کی پرچی لگ چکی ہے اور ایک مشہور و معروف ٹی وی چینل کا نام لے کر اس کے نیلام گھر کی کہانی سنا کر یہ انعام وہاں سے اپ کے لیئے بھیجا جا رہا ہے اور اس کا لوگو تک استعمال کیا جائے گا اور آپ اس خوشی میں کہ اس کا لوگو کوئی اور کیوں یوز کرے گا آپ بے وقوف بن کر پھر اس کی ایک میٹھی کہانی میں اس کو 10،  15 ہزار روپے بھجوا دیتے ہیں۔
 اس طرح وہ چار پانچ لوگ مل کر کم سے کم از کم ایک لاکھ روپے تو آپ سے نکلوا ہی لیتے ہیں،
   تو پھر جب آپ کو خطرے کا احساس ہوتا ہے کہ آپ اس دلدل میں ڈوبتے چلے جا رہے ہیں اور آپ محتاط ہونے لگتے ہیں۔
 تب تک وہ آپ کو اچھی والی چپت لگا چکے ہوتے ہیں۔
 آپ کے ساتھ بھی ایسا ہوا۔۔
عادلہ نے بے دھڑک پوچھ ہی لیا 
 ارے نہیں یار میں نے پہلے ہی مرحلے میں اسے سمجھ لیا کہ یہ میرے ساتھ دھوکہ ہونے کی کہانی شروع ہو گئی ہے۔
 پھر آپ نے کیا کیا
 میں نے اس دوسرے والے کو کہا کہ بھائی سیدھی سی بات ہے ۔ 
اس انعام کے لیے کتنے پیسے دے کر مجھے وصولی کرنی ہوگی۔۔
 اس نے کہا 
کچھ نہیں میم اتنا سب کچھ نہیں ہے جناب ۔
یہ بیس ہزار روپے بس اس وقت دیں گے۔ تو ساتھ ہی آپ کی اگلے مرحلے کی آپ کی پرچی لگ جائے گی۔
 انعام آپ تک پہنچا دیا جائے گا۔
 میں نے کہا میرے بھائی تو ایسا کر کہ یہ بیس ہزار یا 40 ہزار بلکہ تو ایک دو تین لاکھ روپے اس میں سے نکال لے جو بھی تم سب لوگوں کے آپس کا کمیشن ہے،  بانٹ لو اور میرا انعام مجھے بھجوا دو ۔
جیسے ہی میرا انعام ملتا ہے اس سے پہلے پہلے تم لوگ اپنی رقم کٹوا لو۔
 میری اب بات سن کر وہ بدک گیا اور بولا ارے نہیں نہیں میڈم ایسے نہیں ہوتا ۔ 
یہاں  پہلے پیمنٹ کرنی پڑتی ہے تب یہ کرنا پڑتا ہے تب وہ کرنا پڑتا ہے تب جا کر یہ انعام اپ تک پہنچتا ہے۔
 اس کے شروع کے مرحلے ہوتے ہیں۔۔ 
میں نے کہا
او بھائی مجھے الو مت بنا ۔ یہ ڈرامہ کہیں اور کرنا ۔ اگر یہ لاٹری میں نے خریدی ہی نہیں اور میرے نام سے  نکل سکتی ہے نا تو پھر یہ پہلے ایڈوانس میں پیمنٹ بھی ہو سکتی ہے۔
 ایڈوانس میں اپنا خرچہ نکال کر پیمنٹ کٹوا کر میری رقم اور میرا انعام مجھے بھیج دیں۔
 اور اگر نہیں بھیج سکتا تو بند کرتا ہے فون یا پھر میں کروں پولیس کو کروں فون۔۔۔
 تیرا انعام پتے کا اعلان اور ۔۔۔
جناب پٹخ کر کے فون بند ہو جاتا ہے ۔
اور اس کے بعد اکثر وہ سم تبدیل ہو جاتی ہے۔
 اگر پولیس کا ڈر پڑ جائے تو  پہلے تو وہ نمبر کوئی اٹھائے گا نہیں۔
یا اس بندے کا نمبر بلاک کر دیا جائے گا ۔
جس کے ساتھ وہ ایک بار ہاتھ کر چکے ہیں۔
 لہذا اب دوسرے آدمی کی باری ہوگی کہ وہ یا تو سم تبدیل کر لے گا یا جناب آپ کے نمبر کو بلاک کر دے گا۔
 ہر روز گھر بیٹھے ایسے حرام خور ڈاکو جو روزانہ گھر بیٹھے دوسروں کی جیبوں پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں ۔
اور لوگ اپنی لالچ کے تحت ڈاکہ ڈلوا رہے ہیں لٹ رہے ہیں 
اف میرے خدا۔۔۔۔
عادلہ کی حیرت انگیز لمبی آہ پر اس نے مشکوک نظروں سے اسے دیکھا اور پوچھا 
عادلہہہہہ 
کیا تم نے بھی کوئی  لالچ میں نقصان تو نہیں کروا لیا؟؟
عادلہ کا رنگ ایک دم سے فق ہو گیا۔
 ارے نہیں نہیں یار ایسی کوئی بات نہیں وہ بس ویسے ہی میرے منہ سے نکلا ۔
کیسے کیسے فراڈ ہوتے ہیں دیکھو نا
 اس نے منہ کو ادھر ادھر کرنا شروع کیا ۔۔
وہ نظریں ملانے سے اجتناب کرنے لگی 
شبینہ نے اسے اپنی طرف دیکھنے کو کہا 
میری طرف  دیکھو اور ٹھیک سے جواب دو
 کیا واقعی سچ؟
 عادلہ جیسے پھنس کر رہ گئی
 یار کیا تم بھی نا ایک دم سے نبض پکڑ لیتی ہو انسان کی۔۔
کیا  بتاؤں
 ہاں یار میرے ساتھ یہ چکر ہو چکا ہے
 پھر کتنے لٹے؟
شبینہ نے ماہرانہ انداز میں سوال کیا۔۔
 50 ہزار ۔۔۔
 اف میرے خدا ۔۔۔
میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ میری اپنی دوست،  میرے گھر میں بیٹھا ہوا بندہ ، اتنا بے وقوف ہو سکتا ہے
 تو پانچ ہزار تو تم نے بھی لٹوائے تھے نا
ہاں وہ میں، وہ میں تو,  
شبینہ ہڑبڑا سی گئی
 ہاں لیکن پہلے ہی قدم پر سنبھل بھی تو گئی تھی
 ہاں تو اس وقت میری تم سے بات نہیں ہوئی تھی
 تو کر لیتی نا بات 
کیسے کر لیتی بات
 اتنی بڑی رقم کا سن کر میرے ہاتھ پیر بھول گئے
عادلہ نے شرمندگی سے خجل ہو کر جواب دیا 
 میں نے سوچا چلو آخر لوگوں کی لاٹریاں بھی تو لگتی ہیں نا یار۔۔۔
 لگتی ہیں نا پر کسی پرائز بانڈ پہ لگتی ہیں،
 کسی اور ایسے ٹکٹ پہ لگیں گی جو تم نے خریدا ہوگا ۔
جس میں تم شامل ہو گے لیکن یہاں ٹکٹ خریدے بغیر اگر کوئی تمہیں لاٹریاں دے رہا ہے تو اس پہ مشکوک ہونا تو بنتا ہے نا 
ہاں تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔
ہو گئی نا غلطی اب ہم کسی کو سمجھائیں گے تو وہ ہماری بات تھوڑی مانے گا ۔
ہر آدمی اپنے دھکے سے سیکھتا ہے یہی تو مسئلہ ہے۔۔
پھر ان سے بچنے کے لیے کیا کیا جائے۔
 کرنا کیا ہے بھئی لالچ سے دور رہیں۔
 اپنی زندگی میں حلال کمائی پر صبر کرنا اور شکر کرنا سیکھیں ۔
فضول قسم کے شوق پالنے سے پرہیز کریں اور یہ جو عورتیں اپنے آپ کو ہر وقت دکان بنائے رکھنا چاہتی ہیں نا برینڈ برینڈ برینڈ کر کے آدمیوں کو پاگل کیا ہوا ہے انہیں چاہیئے کہ ہوش میں آئیں ۔۔
 جب تک یہ عورتیں ان برینڈوں کے چکر میں رہیں گی اور زیوروں کپڑوں کے لالچ میں اندھی ہوتی رہیں گی۔۔ وہ اس طرح پھر ڈاکوؤں سے  روزانہ خود کو لٹواتی رہیں گی اور خود نہیں لٹیں گی تو اپنے میاؤں کو لٹواتی رہیں گی۔
 وہ بھی اسی لالچ میں یہ جواء کھیلتے رہیں گے۔
 لو جی یہ دیکھو پھر سے گھنٹی بج رہی ہے 
 ہیلو کون ؟
جی میڈم آپ کا لاٹری میں انعام لگا ہے۔ آپ اس نمبر پر بات کیجئے۔۔۔
 لو جی ہو گیا شروع ڈرامہ
 اس نے فون فورا سے بند کر دیا 
                  ۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات، 11 جولائی، 2024

& اعتبار کی موت۔ افسانہ ۔ سچی کہانیاں۔ قطرہ قطرہ زندگی



اعتبار کی موت       



کاؤنٹر پہ دوائیوں کی پیمنٹ کرتے ہوئے ایک لڑکا انتہائی بےچارگی کے ساتھ اپنی جیبیں ٹٹولتا ہوا سیلز مین کو بتا رہا تھا کہ بھائی میرے پاس اور پیسے نہیں ہے میں آپ کو پھر دے دوں گا ۔
دیکھیں یہ دوائیں بہت ضروری چاہیئیں ۔ میری ماں بہت بیمار ہے۔
 دوسرے سیلز مین کی طرف کھڑی بینا اس کی لاچارگی دیکھ کر کانپ سی گئی۔
 محض دوائی کے لیئے کوئی آدمی کس طرح سے منت سماجت کر رہا تھا۔
 اس سے رہا نہیں گیا اس نے ہاتھ کے اشارے سے سیلز مین سے کہا۔
 اس کی پیمنٹ کتنی ہے؟
سیلزمین نے بتایا 
پانچ ہزار کی دوائیں ہیں۔
 اوکے ٹھیک ہے یہ پیمنٹ میں کر دوں گی ۔ آپ اسے دوائیں دے دیجئے۔
اس نے لڑکے کو اشارے سے کہا  کہ یہ دوائیں لے کر آپ جائیں۔
 وہ لڑکا شکرگزاری اور خوشی میں اس کی طرف دیکھ کر ٹوٹے پھوٹے جذباتی جملوں  میں بولا
میم آپ کا بہت بہت شکریہ ۔ میں آپ کا شکریہ کیسے ادا کروں۔  آپ مجھے اپنا ایڈریس یا  نمبر کچھ بھی دے دیجئے یا جہاں بتائیں میں آ کر وہاں، جب بھی ہوں گے ، میں آپ کو یہ پیسے ادا کر دوں گا۔ آپ نے میری جو مدد کی ہے۔ میں کبھی اس کا احسان نہیں اتار سکتا  اس نے اسے خاموشی کا اشارہ کیا اور جانے کا کہا گاڑی میں اس کی دوست انتظار کر رہی تھی اس لئے اس نے اپنی دوائیاں اٹھائیں اور اپنی گاڑی کی طرف چل دی
 وہ گاڑی میں بیٹھنے لگی تو اسے یاد آیا وہ اپنا فون کاؤنٹر پر بھول آئی ہے تو وہ دوبارہ سے پلٹی۔
 فارمیسی میں جاتے ہی اس کی نظر اسی لڑکے پر پڑی جو ہنس کر اس کاؤنٹر کے دوسرے سیلز میں  سے بات کر رہا تھا وہ تھوڑی متجسس سی ہو گئی کہ وہ دوبارہ یہاں کیوں آیا یا گیا ہی نہیں ؟
ابھی وہ اتنا پریشان تھا اب وہ اتنا ہنستا مسکراتا اس سے گپ لگا رہا ہے۔
 وہ دروازے کی اوٹ میں ہو گئی شیشے کے دروازے کی دوسری طرف سے وہ اندر داخل ہوئی اور دوسرے ریگ کی طرف مڑ گئی۔ جہاں کوئی اسے دیکھ نہیں  سکتا تھا۔ لیکن وہ کاؤنٹر پر ہونے والی گفتگو با آسانی سن سکتی تھی 
 وہ دونوں ہنس رہے تھے اور وہ ضرورت مند لڑکا بولا ارے  یار پانچ ہزار کی دیہاڑی تو  آرام سے لگ گئی ہے۔ پکڑو اپنی دوائیاں اور پیسے  دے دینا۔
 سیلزمین بولا
 اور میرا حصہ۔۔ 
 ارے یار چل تو بھی رکھ لے ہزار روپے کیا یاد کرے گا۔ کس سخی سے پالا پڑا ہے۔
 یہ سنتے ہی بینا شدید صدمے کی کیفیت کا شکار ہو گئی۔
 اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے  
 اس کے خلوص کا، اس کی ہمدردی کا، اس کی سچائی کا کیسے مذاق اڑایا گیا 
 وہ خاموشی سے دوسرے دروازے سے  باہر نکل گئی۔
 اس نے دوست سے پوچھا کیا بات ہے؟
ایک دم سے پریشان کیوں ہو گئی ہو ۔ فون ملا؟
سب ٹھیک ہے نا۔۔۔
 اس نے اپنی دوست سے کہا
 جا کر اندر کاؤنٹر سے میرا موبائل اٹھا لاو۔۔
 لیکن تم گئی تو تھی۔
وہ حیرانی سے بولی
 بس تم جاؤ نا یار جا کر لے آؤ۔۔
میں نہیں جانا چاہ رہی۔
 اس کی دوست نے اندر سے جا کر کاؤنٹر سے اس کا موبائل سیلزمیں کو بتا کر اٹھایا ۔
واپس آ کر گاڑی میں بیٹھتے ہی اس سے پوچھا
 کوئی لڑکا وہاں تھا؟
 ہاں ہنس رہا تھا ؟
ہاں۔  تو۔ ۔
 یہ وہی لڑکا ہے جو ابھی دواؤں کے لیے پانچ ہزار روپے کے لیئے رو رہا تھا اور اب وہ وہاں ٹھٹھے لگا رہا ہے 
کیا مطلب پانچ ہزار روپے کا چونا لگا دیا اس نے تمہیں وہ ہنس دی 
  اف  خدایا میں نے تمہیں کہا تھا نا۔ وہاں کسی پر اس طرح مہربان ہونے کی ضرورت نہیں ہے 
 یار وہ کوئی ہوٹل کا بل نہیں دکھا رہا تھا ۔  دوائیں تھیں ۔ زندگی بچانے کی اور  اس پر بھی کسی کی مدد نہ کی جائے تو اس سے بڑا انسانی جرم کیا ہوگا ؟
تو اب دیکھ لیا نا تم نے۔۔ اس طرح کے بڑی فلمیں پھرتی ہیں یہاں پر ۔
خود کو اس نرم دلی سے باہر نکالو۔
 حقیقت میں جینا سیکھو ۔
بینا کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
چلو میں پانچ ہزار تمہیں دے دوں گی۔
 چھوڑو دفعہ کرو۔
 بات پانچ ہزار روپے کی نہیں ہے  
 بات اس اعتبار کی ہے جو اس لڑکے نے میرا توڑ دیا اور جو اب  کبھی کسی پر قائم نہیں ہو سکے گا۔ کوئی سچا ضرورت مند بھی ہوا تو میں اسے ڈرامے باز کہہ کے گزر جاؤں گی۔
 میں کبھی جاننا نہیں چاہوں گی کہ اسے کیا تکلیف ہے ۔
میں اپنے دل کو جانتی ہوں یہ دل بھی بڑی کتی چیز ہے آ گیا تو آ گیا ، آٹھ گیا تو اٹھ گیا  پھر اسے کوئی واپس نہیں لا سکتا ۔
  اس کمبخت نے میرا اعتبار توڑ دیا ۔جوان جہان یھٹا کٹا اور دھندا کیا ہے؟
 دوائیوں کے نام پر لوگوں کو چونا لگانا ۔
تو ہم اسے پولیس کے حوالے کر دیتے ہیں۔ 420 کا پرچہ کروا دیتے ہیں۔
دوست نے جوش اور غصے سے اس کی تکلیف کو محسوس کرتے ہوئے کہا
 نہیں یار کوئی فائدہ نہیں۔ یہ اور  اس جیسے جانے کتنے لوگ ہوں گے۔ جنہیں  دھوکہ دیتے ہوئے ، فراڈ کرتے ہوئے، یہ یاد ہی نہیں رہتا کہ وہ اپنی ہر حرکت سے اس بے رحم دنیا سے جو گبے چنے ہمدرد، نرم دل کے لوگ ہیں یہ ہر روز ان کا صفایا کرتے جا رہے ہیں، ہر روز اپنے ہر عمل سے ایک نیک انسان کو دنیا سے کم کرتے جا رہے ہیں۔
 وہ ہر ہمدرد معصوم دل انسان  بھی انہیں کی طرح پتھر ہوتا جا رہا ہے۔
 وہ بھی انہیں کی طرح بے رحم ہوتا جا رہا ہے، کیونکہ انہوں نے اسے مجبور کیا کہ ہم پر اعتبار مت کرو۔
 کوئی سچا بھی اس کے سامنے آئے گا تو۔وہ اسے بھی دھتکار کا آگے گزر جائے گا۔
 اس میں قصور اس شخص کا نہیں ہو گا بلکہ  اس میں قصور اس جیسے مکاروں کا ہو گا جو اس نیک انسان کے اخلاقی قتل عام پر نہ نادم ہے نہ شرمندہ اور نہ ہی باز آنے والے ہیں۔
 موٹے موٹے آنسو بینا کی انکھوں سے نکل کر اس کی گود میں جا گرے۔موت جو ہوئی تھی اس کے اعتبار کی۔۔۔۔۔
                  ۔۔۔۔۔۔۔۔                   



شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/