ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک
ممتازقلم لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
ممتازقلم لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

بدھ، 18 نومبر، 2020

● منشیات موت اور مال/ کالم

           
             منشیات موت اور مال 
             ( تحریر: ممتازملک.پیرس)


اس دولت کے حصول کے لیئے انسان نے روز اول سے کیا کیا پاپڑ ہیں جو نہیں بیلے 
کہیں اپنے رشتے قربان کر ڈالے کہیں اپنی محبتیں بیچ ڈالیں اور کہیں دوسروں کے اعتبار کو چور چور کیا ۔ لیکن اس کے  بدلے کیا پایا بہت سی بے سکونی، بہت سا درد اور بہت سی بدعاوں کے ساتھ مزید اور کا بہت سا لالچ ...
کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ حرص کا پیٹ بس قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے۔

دولت کمانے کا شوق جب ایک حد سے بڑھ جاتا ہے تو ایک مرض اور ایک جنون  کی صورت اختیار کر لیتا ہے ۔ اسی جنون میں  لوگ کیسے کیسے ناجائز اور غیر قانونی کام اس کا انجام سوچے بنا ہی سرانجام دے ڈالتے ہیں ۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ گھناونی مثالیں ہمیں دکھائی دیتی ہیں منشیات کی خرید و فروخت اور سمگلنگ کی صورت میں ۔۔

گذشتہ دنوں ایک صاحب نے ایک اور اعتبار کا چورا بناتے ہوئے کمال دکھا دیا ۔ ایئر پورٹ پر ایک صاحب  کو کسی سبب روک کر تلاشی کے دوران چالیس سے زیادہ شادی کارڈز لیجانے پر پوچھا گیا کیونکہ وہ بکس کی صورت میں بنے ہوئے تھے اور کچھ وزنی بھی تھے ۔  سوال و جواب میں آفیسر کو کچھ بات کھٹکی تو انہوں نے وہ کارڈ الٹ پلٹ کر دیکھا ۔ ویسے کارڈذ آجکل شادیوں پر اکثر لوگ بنواتے ہیں ۔ لیکن اس کا وزن زیادہ محسوس ہونے پر آفیسر نے ایک کارڈ کو  چاقو سے چاک کرنا شروع کیا تو اس وقت حیرت کی انتہاء نہ رہی جب اس کے اوپر کی پرت کے  اندر سے بڑی صفائی کیساتھ سفید رنگ کا پاوڈر برابر سائز میں بڑی چالاکی سے پیک کیا گیا تھا ۔ اس شک پر باقی سبھی کارڈز کو ضبط کر کے کھولا گیا تو سبھی میں 125 گرام کی فی کارڈ کے حساب سے برامدگی ہوئی ۔ آپ سوچیئے اس کے بعد وہ معصوم لوگ جو واقعی سیدھے سادھے کارڈز یا کتب لیکر جاتے ہیں وہ بھی کس قدر پابندیوں اور مسکلات کا شکار ہو جائینگے ۔ قوانین ہماری ہی حفاظت کے لیئے بنائے جاتے ہیں لیکن ہمیں میں سے کچھ کالی بھیڑیں ہم سب  کی زندگیوں کو اس وقت تنگ کر  دیتی ہیں جب ان کی قانون شکنی یا لالچ کی سزا باقی ان تمام لوگوں کو بھگتنی پڑتی ہے جن کے خیال سے بھی اس بات کا گزر نہیں تھا ۔ اپنی زندگی سے آر یا پار کا کھیل کھلینے والے خود تو ساری زندگی جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزاریں گے ہی ، باقی لوگوں کے لیئے  بھی قوانین کی سختی کے طور پر گناہگار ہونگے ۔
کیا ہے یہ منشیات کا دھندہ ۔ دوسرے کو موت بیچ کر اپنے لیئے عیش و عشرت خریدنے کا جنون ۔ ۔ کسی کی لاش پر کھڑے ہو کر جام لنڈھانے کا  مرض ۔ 
اپنے ہی دوستوں اور عزیزوں کو سامان زیادہ ہے زرا پکڑ لیجیئے یا  دیدیجیئے کہہ کر اس  کی زندگی کو جوئے کا پانسا بنا دینے کا خوفناک کھیل ۔ جو شخص پانسا بن گیا اس کا قصور صرف یہ تھا کہ اس نے آپ پر اعتبار کر لیا ۔ آپ کو مجبور سمجھ کر آپ کی مدد کرنے کی حامی بھر لی ۔ اب اسے اس بات کی ایسی عبرت ناک سزا دے دی جائے کہ آئندہ وہ تو کیا اس کے ارد گرد بسنے والے بھی   کسی کیساتھ نیکی کرنے کا سوچیں گے بھی نہیں ۔
کبھی تو حیرت ہوتی یے جب ایک خاتون کسی لڑکی یا خاتون کو یہ کہہ کر مدد طلب کرے کہ مجھے واش روم جانا یے ذرا میرا گود کا بچہ تو پکڑ لیجیئے ۔ بھلا وہ کونسی ماں ہو گی جو اپنا گود کا شیرخوار بچہ کسی اجنبی کو یوں پکڑا کر جانے کا رسک لے گی ۔ لیکن دماغ کی گھنٹی بجائیے اور ہوشیار ہو جائیے کہ وہ بچہ اس کا ہو ہی نہی  سکتا ۔ ہو سکتا ہے وہ کسی مردہ بچے کے وجود میں کچھ ڈال کر لیجا رہی ہے ۔ اگر وہ بچہ زندہ ہے تو کیا وہ کسی کا بچہ اسمگل کر رہی ہے ؟ اور  اگر آپ سلامتی سے امیگریشن سے نکل گئے تو آپ سے بچہ وصول کر لیا جائیگا ورنہ بصورت آپ کی گرفتاری کے وہ چپکے سے کھسک لے گی یا  لینگے۔ بہت احتیاط کیجیئے۔ کسی بھی صورت میں اپنا سامان کسی کو نہ دیجیئے اس کے کسی بھی کونے میں کچھ بھی ڈال کر آپکو مشکل میں ڈالا جا سکتا ہے ۔ اور لیجیئے مت ورنہ آپ خود ہی اپنی مشکل کے موجب ہونگے ۔ 
دوران سفر کسی بھی مسافر کو اپنے ذاتی حالات اور معاملات سے باخبر مت کیجیئے ۔ اپنے گھریلو معاملات پر گفتگو مت کیجیئے ۔ اپنے پاس موجود کیش زیورات یا دستاویزات کا ذکر یا معائنہ مت کیجیئے ۔ کسی سےکھانے کی کوئی چیز لیکر کھانے کی غلطی مت کیجیئے ۔ یاد رکھیئے موت کے سوداگر نہ تو ایمان رکھتے ہیں، نہ دل رکھتے ہیں اور نہ ہی جذبات ۔ یہ دولت کے حصول کے لیئے سانپ جیسی فطرت رکھتے ہیں جو وقت پڑنے پر اپنے انڈے بھی پی جاتا ہے اور بچے بھی کھا جاتا ہے ۔ 
                      ۔۔۔۔۔۔۔

پیر، 6 جولائی، 2020

● ڈپریشن ‏علامات ‏وعلاج/ کالم ‏



    ڈپریشن علامات و علاج
          (تحریر: ممتازملک.پیرس)


ڈپریشن کیا ہے ؟ مایوسی ، یاسیت، نآامیدی یہ ہی تو ہے 
بے بسی کا ایک خوفناک دورہ اور اگر  اسے ہر تکلیف اور بیماری کا آغاز کہا جائے تو غلط نہ ہو گا ۔ 
انسان جب خود کو تنہا مان لے ، ہارا ہوا تسلیم کر لے تو گویا اس نے زندگی کی جنگ میں ہتھیار پھینک دیئے۔ اب اسے جیت اور ہار سے کوئی دلچسپی نہیں رہی ۔ 
ان میں سے کسی بھی کیفیت کے شکار انسان پر کسی بھی بیماری کا حملہ بیحد آسان ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ اس کا مدافعتی نظام یعنی ایمیونٹی سسٹم کمزور تر ہوتا چلا جاتا ہے ۔ ایسی صورت میں اس پر معمولی سی بیماری کا حملہ بھی جان لیوا شکل اختیار کر سکتا ہے ۔ 
وہ کسی اور کو نقصان پہنچانے سے زیادہ اپنے آپ کو مٹانے پر تیار ہو جاتا ہے ۔ ایسا انسان خود کو ریزہ رہزہ ہوتا ہوا محسوس کرتا ہے۔ خود کو ہواوں میں بکھرتے ہوئے دیکھتا ہے ۔ اسے کبھی تنہا مت چھوڑیئے ۔ کیونکہ 
وہ باآسانی  خودکشی پر بھی آمادہ ہو سکتا ہے ۔ کیونکہ وہ اپنے آپ کو اس دنیا کا سب سے ناکارہ ترین وجود سمجھنے لگتا ہے ۔۔جس کی کسی کو کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ جس کی کوئی عزت نہیں ہے ۔ جو ایک بوجھ ہے جسے دوسرے مجبورا ڈھو رہے ہیں ۔ 
اپنے اردگرد اپنے رشتوں اور دوستوں کے رویوں پر نظر رکھیئے۔ ایسے انسان کو جس میں اس کی ہلکی سی بھی جھلک محسوس ہو  اس کے دوست احباب اور عزیزوں پر اہم زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اسے تنہا نہ چھوڑیں ۔ اس کا حوصلہ بڑھائیں ۔ اسے یقین دلائیں کہ وہ ان سب کے لیئے اہم ہے ۔ آپ اس سے محبت کرتے ہیں اور اس کی باتوں کو ، اسکے وجود کو اسکے ہونے اور نہ ہونے کو اہمیت دیتے ہیں ۔ اس اس کی کمی کو محسوس کرتے ہیں ۔ 
اسے اس بات کا یقین دلائیں کہ ہر طرح کا وقت ہر انسان پر آتا ہے اور  وہ ان سب کو پار کر جاتا ہے ان کے لیئے جو اس کے لیئے اہم ہوتے ہیں ۔ 
وہ لوگ جو اپنے اندر ان علامات میں سے کوئی ہلکی سی علامت بھی محسوس کریں تو اسے معمولی سمجھنے کی غلطی ہر گز نہ کریں ۔  سب سے پہلے کھلی فضا میں قدرتی ماحول میں سانس لینے کا اہتمام کریں ۔۔اللہ تعالی کا پیدا کیا ہوا سبزہ دیکھے اپنی آنکھوں کو تراوٹ دے ۔ پریشان کن ماحول سے نکلے ۔ کچھ روز کے لیئے اللہ کی بنائی زمین کے سرسبز گوشے میں گزارے لیکن اپنے دماغ کو ہر  نفع نقصان کی پرواہ سے آذاد کر کے ۔  اپنے اللہ سے اپنے تعلق کو مضبوط بنائے 
 باوضو رہے ۔ پبجگانہ نمازوں کا اہتمام کرے ۔ اپنے مقدر پر یقین رکھے ۔ اور خود کو یاد دلائیں کہ ایک وہی ذات ہے جو ہم سے زیادہ ہمارے ارادے بھی جانتی ہے اور ہمیں پسندیدہ شے دے نہ دے لیکن جو دیتی ہے وہ ہی ہمارے لیئے سب سے بہتر ہوتی ہے ۔ اس سے زیادہ ہمارا مددگار ہونے کا نہ کوئی دعوی کر سکتا ہے اور نہ ہی عمل۔ اور سب سے خاص بات کہ اتنا مہربان ہے کہ کبھی ہم سے جدا بھی نہیں ہوتا ۔ جبکہ دیکھیں تو ایک وقت میں ہمارا سایہ تک ہمارے ساتھ نہیں رہتا ۔ لیکن اللہ تو ہم سے کسی ایک پلک چھپکنے جیسے پل کے لیئے بھی ہم سے جدا نہیں ہوتا ۔ ایسے بے مثال محبت کرنے والے کے ہوتے ہوئے اگر ہم مایوس ہو جائیں تو اس محبوب کی محبت کی اس سے بڑی توہین اور کیا ہو سکتی ۔ وقتی طور پر ہمیں یہ تو نظر آتا ہے کہ مالی نقصان ہو گیا ، رشتے کھو دیئے ، کبھی کہیں عزت کم ہو گئی ، کہیں کوئی منصوبہ پورا نہ ہو سکا ، کسی امتحان میں فیل ہو گئے۔۔۔
لیکن اس کے بدلے ہمیں کن کن فوائد سے نوازہ گیا یا اس کے بدلے میں ہمیں کس کس مشکلات سے بچا لیا گیا یہ ہماری نظروں سے اوجھل ہو جانا ہی ہمیں مایوس کر دیتا ہے ۔ جبھی تو مایوسی کو کفر کہا گیا کیونکہ یہ انسان کو ناشکرگزاری کی آخری منزل تک پہنچا دیتی ہے اور انسان اپنے محبوب رب کو ناراض کر بیٹھتا ہے ۔ زندگی بھی گنواتا ہے اور آخرت بھی تباہ کر لیتا ہے ۔ 
اللہ کو اپنے دل کا حال سنائیے آدھی رات کے خاموش سجدوں میں ۔
آنسو بہائیے اپنے دل کا بوجھ اتاریئے اس مہربان کی چوکھٹ پر ۔  اس کی باتیں سنیئے اس کے کلام پاک کی تلاوت میں ۔ اور پا جائیے اپنے دل کا ابدی سکون ۔ 
                   ۔۔۔۔۔ 

پیر، 31 مارچ، 2014

● (3) جبری اسلام/ کالم۔ سچ تو یہ ہے



          (3)جبری اسلام
ممتازملک ۔ پیرس

اسلام کے معنی ہیں سلامتی ۔ تو جس دین کی ملاقات کا آغاز ہی السلام علیکم  کہہ کر کرنے کا حکم ہے وہ د ین جو حالت جنگ میں بھی بچے ،بوڑھے ، عورت اور ہر اس شخص پر بھی کہ جو اپنے گھر کا دروازہ بند کر لے،  وار کرنے کی اجازت نہیں د یتا جو ہرے پیڑ پودوں تک کو جنگ کے دنوں میں بھی کاٹنے کی اجازت نہیں دیتا؟ جو نہتے آدمی پر حملے کی اجازت نہیں دیتا، وہ یوں بے گناہوں کی گردنیں کاٹنے کو تصور ہی نہیں رکھتا ۔اسی اسلام کے نام پر بنے ملک میں اسی اسلامی نظریئے کو بد نام کرنے کے لیئے دنیا بھر کے نفسیاتی مریضوں اور پیشہ ور قاتلوں یا دوسرے لفظوں میں  ایک جنگلی بھیڑیوں کے ریوڑ کو پاکستان کا رخ کروایا گیا ہے  ۔ ہم خود بھی جس اسلام کی پیروی کر رہے ہیں اس کے کتنے احکامات کو بجا لا رہے ہیں ؟ یہ جاننا سب سے ذیادہ ضروری ہے ۔ کیوں کہ میری نظر میں ہم خود اپنے دین سے ، قرآن سے ناواقفیت کی بنا پر جس طرح قران کی تشریح کرتے ہیں وہی سب سے زیادہ فتنوں کا باعث بن رہی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آج 23مارچ 2014ء کو ہم اس بات کی ابتداء کا سال بنا دیں کہ ہم خود کو غیر مسلم سمجھتے ہوئے دین اسلام کا مکمل مطالعہ کریں اور اس کے بعد پھر سے اسے سمجھ کر دوبارہ کلمہ پڑھ کے  ، سمجھ کر اس دین کو اختیار کریں ۔ جس طرح آج کا یورب میں رہنے والا ہر طبقہ مسلمان ہو رہا ہے ۔ کبھی زندگی میں ایسے مسلمان سے ملنے کا اتفاق ہو تب آپ کو معلوم ہو گا کہ مسلمان ہوتا کیاہے؟  اور آج کہ نام نہاد مسلمان بغلیں جھانکنے لگتے ہیں  اور  مجھے بہت پہلے کیسنی ہوئی یہ بات  یاد آجاتی ہے کہ انگریزوں اور یورپیئنز پر ہنسنے سے پہلے ڈرو اس دن سے کہ جب یہ لوگ عورت اور شراب کی دو برائیوں سے نکل کر اسلام قبول کر لیں تو شاید آج کے مسلمانوں کو جنت کے آخری حصے میں بھی جگہ نہ ملے گی ۔ یہ لوگ ہماری طرح کسی عبداللہ یا محمد علی کے گھر میں پیدا ہو کر مسلمان نہیں کہلاتے بلکہ یہ ایک عرصہ بھٹکنے کے بعد جب سکون ڈھونڈے کے لیئے دنیا کا ہر حربہ استعمال کر چکے ہوتے ہیں تو تب یہ اسلام کو پڑھتے ہیں، سمجھتے ہیں ، جانتے ہیں اور اس کے بعد بخوشی و برضا و رغبت اپنا سر پروردگار عالم کے بارگاہ میں ایسا جھکاتے ہیں کہ ایک موروثی مسلمان ،جوپتہ نہیں کہاں سے ، کس زاویئے سے مسلمان ہے حیرت کے سمندر میں غوطے کھانے لگتا ہے ۔  اور باتیں تو ایک طرف اب تو شریعت کے نفاذ کا نام لیکر دین اسلام کا ایک اور مذاق بنانے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے ۔ آج دنیا کے ترقی یافتہ ترین مملک میں جو اصلاحی اور فلاحی لائحہ عمل (پروگرام) رائج ہے ، کون نہیں جانتا کہ یہ سب اسلامی سسٹم ہی ہے جو خلفائے راشدین کے عہد بے مثالی کو سامنے رکھتے ہوئے اور قرآن کی روشنی میں یہاں لاگو کیئے گئے ہیں اور اسی کی روشنی میں ان اقوام نے چاند اور ستاروں پر کمندیں ڈالی ہیں ، جب کہ ہم ابھی تک اس سوچ میں اپنے 67 سال گنوا چکے ہیں کہ کون سا نظام ہو گا اور کون سا نہیں ۔ یہ ہی ہیں کوئی کام نہ کرنے کے حکومتی کام چور ہتھکنڈے ۔ کسی نظام کو لاگو کرنے کے لیئے اسے حکومتی مذہب کہلانا کوئی بڑی بات نہیں ہےبلکہ بات ہے اسکے نفاذ کی ۔ کہ ہم کس طریقہ کار سے اپنا ملک چلانا چاہتے ہیں جہاں پر کسی مجرم کو کوئی سزا دینے کا رواج ہی نہ ہو وہاں پر صرف اور صرف جرائم کی فصلیں ہی کاشت ہوتی ہیں جو کہ ہمارے ہاں ہو رہی ہیں ۔ اس کے لیئے شرعی نظام کے نفاذ پر لڑنے کی بجائے اسے یورپی ممالک کی مثال لیتے ہوئے اسے عملی طور پر نافذ کیا جائے ۔ مجرموں کو اس کے محلے ہی میں پھانسیاں دی جائیں ، مجرم کے گھر کے سامنے ہی اس کو کوڑے لگائے جائیں ، مظلوم کےگھر کے سامنے ہی بدکار کو سنگسار کیا جائے ۔ چور کے ہاتھ اس کے گھر کے سامنے ہی کاٹے جائیں ۔ لیکن اس سے پہلے ہر آدمی اور عورت پر کام کرنا لازم کیا جائے ۔ کام چوری کی سزا بھی دیجائے ۔ کام کے مواقع پیدا کرنا حکومت پر لازم ہونا چاہیئے۔  بھوک کی وجہ سے کوئی شخص نہ مرنے دینا بھی حکومتی ذمہ داری ہے ۔ بوڑھوں  کے لیئے55 سال کی حد کے بعد گزارہ الاؤنس کا اجراء بھی حکومتی ذمہ داری ہے  ، یہ تمام فرائض آپ سے عملی اسلام کا مطالبہ کرتے ہیں نا کہ کاغذی اسلام کا ۔ یہ سب تو آپ نے کرنا نہیں ہے الٹا اب اسلامی نظام کے نام پر کیا لوگوں کو زبردستی مسجدوں میں گھسایا جائے گا یا لوگوں کو زبردستی کلمہ پڑھوایا جائے گا ۔ کیا مذاق ہے یہ ؟  یہ کام تو یہ دین لانے والے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی نہیں کیا ، تو ہم کیا چیز ہیں ۔ نیت عمل کرنے کی ہو تو یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ کوئی بھی دین اس کے ماننے والوں کے حالت ایمانی کو دیکھتے ہوئے لوگوں میں مقبول ہوتا ہے ، نہ کہ زور زبردستی سے ۔اپنے ملک میں اصل اسلام کو قرآن اور سنت کے مطابق تعلیمی نصاب میں شامل کر کے لوگوں کی سوچ کو ایک حقیقی اسلامی رنگ دیجیئے اور قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے ۔ باقی دین کو انسان کا ذاتی معاملہ رہنے دیں جو اس کے اور خدا کے بیچ ہے ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہے نہ کہ ساتھ والے کا ۔                                             
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتےجومسلمان بھی ایک

●●●
تحریر: ممتازملک ۔پیرس
مجموعہ مضامین:
سچ تو یہ ہے
اشاعت:2016ء
●●●

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/