ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک
افسانے۔ سچی کہانیاں ۔ قطرہ قطرہ زندگی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
افسانے۔ سچی کہانیاں ۔ قطرہ قطرہ زندگی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعرات، 4 جولائی، 2024

& سردرد ۔ افسانہ۔ سچی کہانیاں۔ قطرہ قطرہ زندگی

 
              سر درد


آج بھی وہ کھانا کھانے کے لیئے گھر آیا تو اس کے سامنے کھانا رکھتے ہوئے شازیہ نے اپنے سر درد کی شکایت کی۔
 سنو میرا سر درد سے پھٹا جا رہا مجھے ڈاکٹر کے پاس لے جاؤ۔
 ارے تم عورتوں کا تو کام ہی یہی ہے جب دیکھو تمہارے ڈرامے ہی ختم نہیں ہوتے۔ سر درد،  سر درد ہمیں تو نہیں ہوتا سر درد۔۔
 عزیز خدا کے لیئے مجھے ڈاکٹر کے پاس لے جاؤ۔ آج تیسرا دن ہے میرا سر پھٹنے والا ہے۔
 ابھی میرے پاس اتنے فالتو پیسے نہیں ہیں  کہ میں ڈاکٹر کو جا کر 30 30 یورو کی فیس دوں اور تمہیں ڈاکٹر کے پاس لے جا کر اپنا اتنا وقت ضائع کروں ابھی مجھے کام کے لیئے نکلنا ہے دوبارہ۔
وہ تڑپ رہی تھی لیکن وہ بہت اطمینان کے ساتھ بیٹھا کھانا ٹھونسنے میں مصروف تھا۔
 یہاں تک کہ اسے الٹی بھی ہو چکی تھی ۔
میں تمہیں کبھی نہ کہتی ساتھ چلنے کو ۔لیکن تم جانتے ہو مجھے زبان نہیں آتی یہاں کی، اور یہ لوگ میری زبان نہیں سمجھتے۔ اس لیئے مجھے ساتھ لے جاؤ تاکہ میری تکلیف بیان کر سکو۔
 بکواس بند کرو اور اپنی یہ ڈرامے نا  اپنی ماں کو سناؤ۔ جو فون کر کر کے تمہیں روزانہ پٹیاں پڑھاتی ہے۔۔
 کون سی پٹیاں؟
 کیا ہو گیا تمہیں۔۔
 میرا سر درد سے پھٹا جا رہا ہے اور تمہیں نئی نئی کہانیاں سوجھ رہی ہیں۔
 اتنی دور پردیس میں تمہیں ہر وقت میری ماں کہاں سے یاد آ جاتی ہے۔
 وہ کون سی یہاں میرے ساتھ رہ رہی ہیں۔ ہفتوں ہفتوں  فون کارڈ نہیں لا کے دیتے کہ میں اپنی ماں سے بات کر سکوں ۔
خدا کے لیئے مجھے کوئی دوائی لا دو۔
 مجھے ڈاکٹر کے پاس لے جاؤ۔
 اس نے ایک موٹی سی گالی دی اور اسے پیچھے دھکا دے کر دروازہ بھیڑتے ہوئے بڑ بڑ کرتا ہوا باہر نکل گیا ۔
شازیہ سر کے درد کے ساتھ دیوانہ وار اپنا سر پٹخ رہی تھی۔
 اس کی حالت غیر ہوتی جا رہی تھی۔
 اس نے بڑی مشکل سے فون کر کے پڑوس میں ایک عورت کو خبر کی۔
 ٹوٹی پھوٹی زبان میں اسے سمجھایا کہ میری مدد کرو ۔
اس دوران کیا ہوا ۔
وہ زمین پر گر کے بے ہوش ہو چکی تھی۔
 پڑوسن نے جلدی سے اس کے گھر کی طرف دوڑ لگائی۔
 اس بلڈنگ میں اس کی سلام دعا تھی اور جانے کس وقت انہوں نے ایک دوسرے کو ٹیلی فون کا نمبر بھی دیا ۔
بچوں کو سکول لاتے لے جاتے وقت۔
 لیکن دروازہ پیٹتے ہوئے جب اس نے اسے آوازیں دیں تو شازیہ بے ہوش ہو چکی تھی۔
 ڈوبتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ اس نے دروازے کی طرف دیکھا۔
 بڑھنا چاہا 
لیکن آنکھیں بند ہوتی چلی گئیں
 باہر کھڑی عورت کو خطرے کا احساس ہو چکا تھا ۔
اس نے ایمرجنسی نمبر کے اوپر پولیس کو فون کر  دیا اور مددگار طلب کیئے۔
 نزدیک ترین مددگاروں نے چند منٹ میں ہی پہنچ کر اس کے دروازے کا لاک توڑا اور جیسے ہی اندر داخل ہوئے۔
 شازیہ زمین پر بے سدھ پڑی تھی ۔
اسے سٹریچر پر ڈالا گیا
ایمرجنسی ڈاکٹر نے اسے چیک کیا اسے فورا ہسپتال لے جانے کے لیئے روانہ کیا۔
اس کی حالت بہت خراب تھی۔
 ہسپتال پہنچنے تک اس کے میاں کو خبر دے دی گئی۔
 پولیس نے اس کو اطلاع دی کہ تمہاری بیوی کی حالت ٹھیک نہیں تو تم اسے ایسے چھوڑ کے کیسے جا سکتے ہو۔
 اس نے آئیں بائیں شائیں کی اور پولیس کا نمبر دیکھ کر ویسے ہی اس کی جان نکل گئی۔
 پولیس نے اسے فورا ہسپتال پہنچنے کی تاکید کی۔۔
 لیکن ہسپتال پہنچنے سے پہلے پہلے اسے سکول سے اپنے بچے لینے کی ہدایت کی اور انہیں ان کی پڑوسن کے حوالے کرنے کا کہہ کر اسے ہسپتال آنے کا حکم دیا گیا۔
 جب تک وہ ہسپتال پہنچتا 27 سالہ شازیہ دماغ کی رگ پھٹنے کے سبب دم توڑ چکی تھی۔
 پڑوسن نے بتایا یہ تین دن سے سر درد کی شکایت کر رہی تھی۔
 لیکن زبان نہ جاننے کی وجہ سے یہ اپنے شوہر کو مجبور کر رہی تھی کہ مجھے لے کر جاؤ لیکن وہ اس کی بات نہیں سن رہا تھا۔
 یہ بات اس نے مجھے ٹیلی فون پر اپنی ٹوٹی پھوٹی فرانسیسی زبان میں بتائی۔
 کہ ابھی ابھی وہ نکل کر گیا ہے ۔
 میری حالت خراب ہے۔ وہ مجھے نہیں لے کر گیا ۔مجھے ڈاکٹر کے پاس لے جاؤ ۔
جب تک میں پہنچتی بہت دیر ہو چکی تھی۔
 شاید یہ تھوڑی دیر پہلے باہر نکلنے کے بجائے اسے ہسپتال لے جاتا تو اسے بچایا جا سکتا تھا۔
 پولیس نے فورا ایکشن لیتے ہوئے اسے ڈھونڈ نکالا۔
 ہتھکڑی لگائی اور تھانے لے گئے۔
 یہ ایک مجرمانہ غفلت تھی جو اس نے اپنی بیوی کے ساتھ برتی اور اس کی موت میں اہم کردار ادا کیا۔ 
اس کے بچوں کو الگ لے جا کر کونسلنگ کرنے والی آفیسر نے بہت پیار سے اچھے ماحول میں ان سے یہ پوچھا کہ
 ان کے گھر میں کیا ہوتا ہے؟
 سارا رویہ، سارا ماحول پوچھنے کے بعد انہوں نے رپورٹ دی کہ
 یہ اپنی بیوی کے ساتھ انتہائی بے رحمانہ سلوک کرتا تھا۔
 کبھی اس سے محبت سے بات نہیں کرتا تھا۔
 اس کی تکلیفوں کو نظر انداز کرتا تھا۔
 اس کی ضرورتوں کے لیئے اسے ترساتا تھا ۔
کیونکہ یہ اپنے ملک میں موجود اپنے خاندان کو اپنے سارے سورسز بھیجنے پر زور لگاتا تھا اور اس کی بیوی یہاں اس کے گھر میں صرف ایک آیا،  ایک نوکرانی کا کردار ادا کر رہی تھی۔
 نہ اسے کہیں ملنے دیتا تھا نہ اس کی کہیں ملاقات تھی۔
 مدد کرنے کے لیئے آنے والی پڑوسن  سے بچوں کو سکول لانے لیجانے کے دوران اسکی علیک سلیک ہوئی۔
بعد میں اس کی واقف بن گئی اور ایمرجنسی کے لیے ایک دوسرے کو انہوں نے اپنے  فون نمبرز کا تبادلہ کر لیا ۔ جو کہ اکثر وہاں کی خواتین اور پڑوسی ایک ہی سکول یا کلاس میں پڑھنے والے بچوں کی مائیں اور والدیں کر لیا کرتے ہیں ۔
کہ اگر بچے کہیں لیٹ ہو جائیں یا والدین اپنے گھر سے دور ہوں تو ہم ایک دوسرے کے بچوں کو لے سکیں۔
 وہی ایک ایمرجنسی نمبر آج اسے گھر سے نکال کر ہسپتال پہنچانے کا باعث بنا۔
 لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔
 عزیز کو پولیس نے عدالت میں پیش کیا ۔
اسے اپنی بیوی کے ساتھ غیر انسانی سلوک پر کئی سال کی سزا سنائی گئی۔
 اس کے بچوں کو حکومت نے اپنی تحویل میں لے کر بچوں کے ہاسٹل میں منتقل کر دیا ۔ 
                  ۔۔۔۔۔۔۔

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/