ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک
۔کالمز لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
۔کالمز لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعرات، 23 جولائی، 2015

ہم کیسے لوگ ہیں ؟۔ کالم




ہم کیسے لوگ ہیں ؟
ممتاز ملک ، پیرس


ہم کیسے لوگ ہیں ؟ شاید ہم ویسے ہی لوگ ہیں جن کے بارے میں کہتے ہیں " کہ 
بھوکے کو دے نہیں سکتے اور کھاتے کو دیکھ نہیں سکتے" .
یا شاید ہم ویسے بھی تو لوگ ہیں جن کے لیئے بلے شاہ نے فرمایا کہ
وے بلیا اساں مرنا ناہی  
  گور پیا کوئی ہور 
دنیا کے قانون پر جائیں تو ہر اچھے ملک کا قانون انسانوں میں سب سے پہلے عورتوں اور بچوں کے تحفظ کی بات کرتا ہے .دین پر جائیں تو ایسا بے مثال منشور رکھتا ہے کہ دشمن بھی عش عش کر اٹھے . یعنی امن تو کیا جنگ میں بھی کسے بوڑھے پر .عورت پر بچے پر یا جو نا لڑنا چاہے اس پر ہاتھ نہیں اٹھا یا جا سکتا . ان کے حفاظت کی ذمہ داری ہر فرد پر عائد کر دی گئی.  یہ ذمہ داری خالی خولی زبانی نہیں ہوتی بلکہ اس میں عورت کی یا بچے کی مالی .ذہنی اخلاقی ہر طرح کے تحفظ کی ذمہ داری ہوتی ہے .
لیکن ہم دیکھتے کیا ہیں کہ  ہمارا معاشرہ خصوصا بچوں اور خواتین کے لیئے مجرمانہ خاموشی اور منافقت کا رویہ اپنائے رہتا ہے. 
کوئی کسی کے لیئے کیا خود خواتین بھی کسی خاتون کے لیئے  یہ سوچ کر آواز نہیں اٹھاتی ہیں کہ مبادا انہیں اپنے گھر سے دیس نکالا نہ مل جائے .ان کا میاں انہیں نہ چھوڑ دے .کتنی عجیب بات ہے جو رشتے اللہ نے مقدر کر رکھے ہیں انہیں یہ سوچ کر ہم چلاتے ہیں کہ میں نے ایسا کیا تو یہ چلے گا اور ویسا کیا تو نہیں چلے گا .اگر ایسا ہوتا تو ہم نے بے شمار ایسی خواتین دیکھیں جو حسین بھی تھیں سگھڑ بھی تھیں با ہنر بھی تھیں اور باوصف و باکمال بھی تھیں لیکن پھر بھی ان کے گھر ٹوٹ گئے ان کا ساتھ کسی وجہ سے نہ نبھ سکا . اور ہم نے ایسی بھی خواتین دیکھی ہیں جو بدشکل بھی تھیں ،بدتمیز بھی تھیں ،بدزبان بھی تھیں  ،بے انتہا پھوہڑ کہ انہیں گھر میں جھاڑو دینے کو بھی نہ رکھے لیکن وہ میاں کے ساتھ ساری عمر عیش کرتے گزار دیتی ہیں . اس سے یہ ہی ثابت ہوتا ہے کہ رشتوں کو  ان کی مقررہ مدت سے زیادہ کون چلا پایا ہے اور اگر  لکھے ہیں  تو انہیں کون توڑ پایا ہے .لیکن یہ تو ہم تب مانیں جب ہمارا ایمان سلامت ہو 
.تو ایسے ماحول  میں جب کوئی ایسی خواتین  سامنے آتی ہیں چاہے گھر کے معاملات ہوں یآ گھر سے باہر ملازمتوں عہدوں یا خاص طور پر جب وہ لکھنے لکھانے جیسے شعبے سے وابستہ ہو اورجو اپنا ایمان اتنا مضبوط رکھتی ہیں کہ اس کے لیئے ہاں ہی نہیں نا بولنے کی بھی جرات رکھتی ہیں .تو انہیں جھٹ سے دو نمبر مرد ایک پلاننگ کے تحت بددماغ .بدزبان اور بدکردار  جیسے نام دینے لگتے ہیں .وجہ اس عورت کی خداداد صلاحیتوں سے خوفزدگی.  نام نہاد پڑھے لکھے سو کالڈ ادیب اور لکھاری سبھی اسے بہتی گنگا نہ بننے کے جرم کی سزا دینے کے لیئے میدان میں کود پڑتے ہیں . پھر وہ مرد یورپ  کے متمدن معاشرے میں رہنے والا پی ایچ ڈی پروفیسر ہو یا بظاہر معروف لکھاری اور براڈکاسٹر یا پھر شاعر عرف انٹیلیکچوئیل .یہ سارے بہت سارے دوسرے ادبی دنیا کے بے ادب رخ کے وہ بابے ہیں جن کی ٹانگیں تو قبر میں ہیں مگر یہ سوچ کی غلاظت پھیلانے سے باز نہیں آتے کہ
منہ تے ہالی بار اے
میری اس تحریر کا قطعی یہ مطلب اخذ نہ کیا جائے کہ سارے مردوں کو ہم ایک جیسے لپیٹے میں لے رہے ہیں .بلکہ ہمیں تو ان  حقیقی مردوں کی مدد کی اشد ضرورت ہے جو اس ماحول میں اپنے گھر کی خواتین کو باہر لاتے ہوئے گھبراتے ہیں .  قابلیت ہوتے ہوئے بھی کئی در نایاب  اسی طرح دنیا سے چلے جاتے ہیں .
اور جو خواتین اس میدان میں قدم رکھتی بھی ہیں ان کے لیئے ہر قدم پر ایک نیا امتحان کھڑا کرنا اپنا فرض سمجھا جاتا ہے . یہ خاتون شادی شدہ ہے تو اسے طلاق دلوانے کا پورا انتظام کیا جائیگا اور اگر وہ پہلے ہی اس رشتے سے آذاد ہے تو پھر تو جس سے اس نے بات کی وہ اس کا ...... بنا دیا جائے گا .اور اس خاتون کا ٹھیکیدار بننے کی پوری کوشش کریگا اور اگر خاتون نے ایک دو بار زیادہ عزت سے مسکرا کر کسی بات کا جواب دیدیا توسمجھ لیں بس خاتون تو ان کے خیال میں ان پر مر ہی مٹی ہیں . خاتون مسکرا کر بات کرے تو بدکردار کا سرٹیفیکیٹ اور اگر سنجیدگی سے صرف نپا تلا جواب دے تو بددماغی کا لائیسنس. آخر کوئی بتائے کہ عورت کرے تو کیا کرے .بات کرتی ہے یا جرات مند ہے تو کوئی جینے نہیں دیتا، بات نہیں کرتی  یا کچھ نہیں جانتی تو بھی اجڈ جاہل کے خطابات سے نوازی جاتی ہے.
وہ تمام مرد حضرات جو ان مگر مچھروں سے واقف ہیں ان کی گندی زبانوں سے واقف ہیں ان کی بدکرداری اور خواتین کو کی گئی  بلیک میلنگ سے واقف ہیں تو خدارا  ان پر اپنی یاری دوستی کا پردہ مت ڈالئے. بلکہ انہیں یہ سوچ کر بے نقاب کیجیئے کہ کل کو ان کے نشانے پر آپ کے گھر کی کوئی خاتون بھی ہو سکتی ہے ..صرف کوئی مخصوص خاتون  ہی آخری نشانہ نہیں ہو گی . جس نے ان ٹھرکی بابوں کا سالوں لحاظ بھی کیا اور یہ سوچ کر خاموشی اختیار کی کہ کتے  کتنی دیر  بھونکیں گے . 
لیکن اب جب یہ کاٹنے کے لیئے تیار ہیں تو ان کے دانت توڑنے کا وقت بھی ہو گیا ہے .پبلک میں کام کرنے والی کوئی خاتون کسی کے بھی باپ کا مال نہیں ہے کہ  اسے راہ چلتا کوئی بھی بکواس کرتا اور کمنٹ پاس کرتا گزر جائے . بدکاری خواہ کوئی بھی ہو ،زبان کی ہو یا آنکھوں کی ہو ، سوچ کی ہو یا عمل کی، اسے کرتے ہوئے یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ بدکاری بدکاری ہی ہوتی ہے . اور یہ قانون قدرت ہے کہ مرد کی بدکاری ہمیشہ پلٹ کر اسی کے گھر کی عورت کو شکار کر جاتی ہے . پیشاب کی ایک چھینٹ ہی دودہ کی بھری بالٹی  کو ناپاک کرنے کے لیئے کافی ہوتی ہے. اور ہاں یاد رکھیں دنیا بدمعاشوں کی بدمعاشی کی وجہ سے خراب نہیں ہوتی بلکہ شریفوں کی خاموشی کی وجہ سے تباہ ہو جاتی ہے .ہر دور میں انسانوں کی غیرت کا امتحان ہمیشہ ہی ہوتا رہا ہے .
جیسا کہ پڑھ رکھا ہے کہ انسان کی جوانی کے کام بڑھاپے میں ان کی صورت پر آجاتے ہیں کبھی اچھے کام  نور بنکر تو کبھی برے کرتوت پھٹکار بنکر .  اب خاموشی کا وقت گزر گیا ہے تمام ماں بہنوں.اور بیٹیوں والوں کی ہمت و جرات کا امتحان ہے کہ میدان میں آئیں اور ادب کے نام پر تھرک بازوں اور بدکردار بلیک میلروں کے اس ٹولے کو سبق سکھائیں جو ہر جگہ پاکستان کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں . ہم اپنے اچھے کاموں سے ایک قدم آگے بڑھتے ہیں تو یہںدںخت اپنی کر توتوں سے ہمیں کھینچ کر ایک میل پیچھے دھکیل دیتے ہیں . ہمیں آپ سب کے ساتھ کی جتنی ضرورت  آج ہے اتنی پہلے کبھی نہیں تھی. جب علم حاصل کرنا ہر عورت اور مرد پر برابر فرض ہے تو اس کے عملی میدان پر بھی محض مردوں کی اجارہ داری کا کہیں کوئی حکم نہیں ہے .اس لیئے آگے آیئے. اپنے ضمیر کی آواز کو سنیئے .....
                    ۔۔۔۔۔۔۔۔




جمعرات، 27 مارچ، 2014

یوم پاکستان 23 مارچ 2014 / کالم



  
* یوم پاکستان23مارچ 2014*
ممتازملک ۔پیرس

* یوم پاکستان23مارچ 2014* *انصاف وویمن ایسوسی ایشن کا یومِ پاکستان* *کااعلامیہ تھا کہ ٌٌ انصاف آج سے اپنے گھر سے شروع کیا جائے ـ احتساب اپنی ذات سے شروع کیا جائے جب ہی نیا کامیاب پاکستان ممکن ہے*
اتوار کی ایک سرد دوپہر2 بجے سے دن 6 بجے تک یہ خوبصورت محفل منعقد کی گئی جسکا مقصد خواتین کو پاکستان کے نظریئے ، تاریخ ، اسکے وجود کی
اہمیت اور آذادی کی ضرورت کو اجاگر کرنا تھا ۔ اور پاکستان کے آج کے حالات کی آگاہی دینا تھا ۔ پروگرام کی نظامت پیرس کی معروف شاعرہ ، کالمسٹ ، سوشل ورکر ،اور میزبان محترمہ ممتاز ملک صاحبہ نے کی ۔ جبکہ مہمانان گرامی میں معروف عالمہ محترمہ ریحانہ صاحبہ ،عالمہ محترمہ نوشین اسجد صاحبہ ، حق باہو ٹرسٹ خواتین ونگ کی صدر ،معروف شاعرہ ، شریف اکیڈمی کی فرانس میں سیکٹری و نمائندہ خاص محترمہ روحی بانو صاحبہ ، میگزین در مکنون کی ایڈیٹر اور افسانہ نگار محترمہ وقار النساء صاحبہ ، اور شاہ بانو میر اکیڈمی اورانصاف وویمن ایسوسی ایشن کی بانی و صدر ، چیف اڈیٹر در مکنون ، معروف تجزیہ نگار ، سات کتابوں کی لکھاری ، ناولسٹ ،کالمسٹ محترمہ شاہ بانو میر صاحبہ تھیں ۔ پروگرام کی خاص بات اس میں شامل تمام کی تمام خواتین نہایت پڑھی لکھی اور اچھے ماحول سے تعلق رکھنے والی تھیں جنہوں نے پروگرام کا ایک ایک لمحہ ماحول سے کشید کیا اور اپنے اہل علم اور محب وطن ہو نے کا بھر پور ثبوت کبھی آنسوؤں کے نذرانے سے اور کبھی امید بھری مسکراہٹ کیساتھ دیا ۔ جس نے اس پروگرام کو بلاشبہ ہر ایک کے دل اور روح میں اتار دیا ۔ اور پروگرام کی میزبان ممتاز ملک صاحبہ کو اس بات کا بھرپور احساس دلایا کہ یہاں دھڑکتے اور محسوس کرتے ہوئے زندہ لوگ موجود ہیں نہ کہ کوئی دیواروں سے باتیں کرنے اور لنگر انجوائے کرنے والا ہجوم ۔
پروگرام کا آغاز محترمہ نوشین اسجد کی خوبصورت انداز میں کی گئ سورہ الحجرات کی آیات نمبر 11 اور 12کی تلاوت کلام پاک اور ترجمہ سے ہوا ۔ اور اس کی تفسیر بیان کی ۔ جس کا لب لباب یہ تھا کہ اللہ پاک نے کس قدر سختی سے غیبت ، حسد اور بہتان سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے ۔ اور اس بات سے سخت نارضگی کا اظہار فرمایا کہ کہ کوئی مسلمان کسے دوسرے کا نام برے انداز میں لے یا اس کی تضحیک کرنے کی کوشش کرے ۔ کیوں کہ یہ ہی چیز جب انسان کی عادت بن جاتی ہے تو اسے سب سے بدترین مرض یعنی حسد مین مبتلا کر دیتی ہے جو اس کی نیکیوں کو ایسے کھا جاتی ہے جیسے آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے ۔ لہذا ہمیں ہر ہر لمحہ اس بات کی فکر ہونی چاہیئے کہ ہم اللہ کے عطا کردہ قلب سلیم کو کہیں قلب اثیم یعنی ناپاک دل نہ بنا لیں ۔ اور ہمیں اپنا محاسبہ خود سے کرنا ہے کہ کہیں ہم نہ جانتے ہوئے دل کی اس روحانی بیماری حسد کا شکار تو نہیں ہو رہے ۔ کیوں کہ آج پاکستان جس طرح تباہی کی دلدل مین دھنس رہا ہے وہاں یہ حسد ہی ہے جو ہمیں ایکدوسرے کی ٹانگ کھینچنے پر اور میرٹ کی دھجیاں بکھیرنے پر مجبور کر رہا ہے۔
عالمہ محترمہ ریحانہ صاحبہ نے بھی ہمیں اپنی اصلاح کرنے پر زور دیااور پاکستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ اپنی غلطیوں کو غلطیاں نہ سمجھنے کو ہی قرار دیا جس نے ہماری پوری ملکی سوچ کو مفلوج کر دیا ہے ۔ قرآن کی روشنی میں ہمیں اپنے راستوں کی تاریکی مٹانی ہو گی جبھی ہم منزل کا نشاں پا سکتے ہیں۔ ورنہ تباہی ہمارا مقدر نہ بن جائے ۔ ہمیں پاکستان کے لیئے دی گئی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دینا چاہیئے ورنہ اس کے لیئے جانوں اور عزتوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں کی روحیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔
محترمہ وقار النساء صاحبہ نےاپنے خطاب میں پاکستان کی قرار داد کو مسلمانوں کے لیئے ایک سنگ میل قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں اپنے ذاتی اختلافات کو کسی بھی صورت اپنے ملکی مفاد سے ٹکرانےنہیں دینا چاہیئے بلکہ جہاں ملکی مفاد کی بات ہو وہاں ہمیں ایک جا ہو کر سوچنا چاہیئے ۔ انہوں نے 1857 سے 1940 اور 1947 تک کے تحریک پاکستان کا سفر مختصراََ بیان کیا ۔
محترمہ روحی بانو صاحبہ نے اپنے خظاب میں پاکستان کی تاریخ کو آج کے حالات سے موازنہ کرتے ہوئے فرمایا کہ قائداعظم نے کروڑوں قربانیوں کے بعد یہ پاکستان اس لیئے نہیں حاصل کیا تھا کہ کہ یہاں پر لوگوں کی عزتیں پاؤں میں روندی جائیں ، حقداروں کے حقوق سلب کیئے جائیں ۔ انصاف سرمایہ داروں کے گھر کی لونڈی بن جائے ۔ ہمیں اپنے گھروں سے نکلتے ہوئے اس بات کا ہی یقین نہ ہو کہ ہم سلامتی سے اپنے گھروں کو واپس آئیں گے بھی کہ نہیں ۔ یہ ملک ہماری عزتوں کی حفاظت کے لیئے حاصل کیا گیا تھا ۔ تاکہ ہماری نسلیں اس میں اپنی مذہبی آذادی کیساتھ اپنی زندگی گزار سکیں ۔ یہ ملک اس لیئے حاصل کیا گیا تھا کہ ہمیں انصاف کے لیئے سالوں دربدر نہ ہونا پڑے ۔ جہاں نہ صرف اظہار رائے کی آزادی ہو بلکہ ہمیں ہر ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کے استعمال کے بھرپور مواقع بھی میسر ہوں لیکن آج ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جن لوگوں کو پاکستان کا محافظ ہونا چاہیئے تھا وہی لوگ اس ملک کے مستقبل سے کھیلتے رہے ۔ اور اس ملک کو انہوں نے دنیا بھر میں ایک تماشا بنا دیا ۔ اور جو باقی رہی سہی کسر تھی اسکی تباہی میں وہ ہم عوام نے ہی پوری کر دی ۔ ہمیں اللہ پاک کی بنائی ہوئی حدود کا خیال رکھ کے ہی فلاح مل سکتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میں شاہ بانو میر صاحبہ اور ممتاز ملک صاحبہ کا بطور خاص شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں جنہوں نے ہمیشہ ہی مجھے بہت پیار اور عزت سے نوازہ ہے ۔ میں ان کی کامیابیوں کے لیئے ہمیشہ ہی دعا گو رہوں گی ۔
محترمہ شاہ بانو میر صاحبہ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ روحی بانو صاحبہ کی یہ بات کہ مجھے وہ مقام جو ملنا چاہیئے تھا وہ نہیں ملا تو میں یہ ہی کہوں گی کہ میں نے اکیلے جس سفر کا آغاز کیا تھا الحمد اللہ آج میں اس میں ایک پورے گلدستے کے ساتھ موجود ہوں ، بہت طوفان آئے آندھیاں چلیں کچھ دیر کے لیئے ہم لڑکھڑائے بھی لیکن کیوں کہ ہماری جڑیں غرض کی ریت میں نہیں بلکہ محبت اور اخلاص کی مٹی میں پیوست تھیں اسی لیئے اپنی جگہ سے نہیں ہلیں ۔ پاکستان بنانے والے یہ ادراک کر لیتے کہ یہاں یوں پاکستان کے نام پے دھبے لگائے جائیں گے تو شاید وہ اس تحریک کو ہی منسوخ کر دیتے ۔ آج یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ہم اپنی اپنی فیلڈ میں ایمانداری سے کام کریں اور اس ملک کو اسکا کھویا ہوا وقار واپس دلائیں ۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ نورالقران سے جڑنے کے بعد ہر روز خود اپنا احتساب کرنے کی قوت بھی اللہ نے عطا کر دی ہے جس سے رو زاپنے آپ کو گزرے کل سے بہتر بنانے کی کوشش شروع ہو چکی ہے ۔ اور انشا اللہ مرتے دم تک جاری رہے گی ۔
ممتاز ملک نے اپنے پروگرام کو مکمل طور پر پاکستان کے ماضی حال اور مستقبل کا امتزاج بنا دیا جس میں کئی جذباتی لمحے آئے کئی بار سب کی آنکھیں نم ہوئیں اور کئی بار سب کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی ۔ یہ ہی ایک پیغام رساں کی کامیابی ہوتی ہے اور الحمد اللہ یہ کامیابی یہاں پوری طرح نظر آئی ۔ ممتاز ملک نے اس بات پر ذور دیا کہ عورت کا کردار کسیی بھی ملک کی تحریک کا بنیادی جزو ہوتا ہے یہ عورت ہی تھی جس نے اپنےدوپٹے کو لاہور جیل کی عمارت پر لہرا کر اپنے بھائیوں اور جوانوں کو اس بات کو چیلنج پیش کیا کہ آگے بڑھو تمہاری مائیں بہنیں اپنے آنچل کا کفن بنانے کو تیار ہیں ۔ یہ عورت ہی تھی جس نے قائد اعظم کی بہن فاطمہ جناح بن کر اپنی ذاتی ذندگی اپنی ہر خوشی اپنے بھائی پر قربان کرتے ہوئے ڈینٹسٹ کی پریکٹس کو خیر باد کہتے ہوئے پاکستان کی تحریک میں اپنا تن من دھن تک پیش کر دیا ۔ لیکن اس قوم نے کیا کِِیا اسی عورت کو مادر ملت کا خطاب تو دیا لیکن زہر میں بجھا کر ان کی جان بھی لے لی اور اس پرخاموشی کی سیاہ چادر ڈال دی ۔ جس پر وقت نے لکھا کہ کیا یہ ایک احسان فراموش قوم ہے؟ لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو ہمیں اس ملک کے بنیادی مقصد یعنی انصاف کے حصول کو اپنی ذندگی کا مقصد بنانا ہو گا ، اوریہ ہی پاکستان کی بنیاد ہے ۔ ہمیں انصاف چاہیئے تو ہمیں سب سے پہلے خود منصف بننا ہو گا؛ ہمیں ماں باپ کے طور سے اپنے بچوں کے بیچ انصاف کرنا ہو گا ؛بھائی بہنوں کے بیچ انصاف کرنا ہو گا؛ اپنے گھر کے ملازموں سے انصاف کرنا ہو گا ؛پھر دیکھیئے گا کہ ہمیں انصاف کی تلاش میں کہیں بھٹکنا نہیں پڑیگا ۔ کیوں کہ فرائض کی ادائیگی ہی حقوق کے حصول کا سبب ہوتی ہے ۔ ہم سوچتے ہیں جس ملک کے لوگ اس طرح برائیوں میں گھرے ہوں تو یہ قائم کیسے ہے ؟تو مجھے تو ایک ہی بات سمجھ آتی ہے کہ اس ملک کی سرحدوں پر کروڑوں شہیدوں کی روحیں گھیرا ڈالے بیٹھی ہیں جب
بھی کوئی عذاب ادھر کا رخ کرتا ہے تو یہ شہیداللہ کے حضور سجدہ ریز ہو جاتے ہیں اور فریاد کرنے لگتے ہیں اللہ تو عذاب دیتے ہوئے دیکھنا کہ یہاں یہاں تو میرے بابا کا لاشہ گرا تھا ، یہا ں بھی نہیں؛ نہیں مولا یہاں تو میری بہن نے اپنی عزت اپنے ملک کی بھینٹ چڑھا دی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ یہان بھی نہیں یہاں تو میری بیوی نے اپنے پیدا ہونے سے پہلے کی اولاد بھی نیزوں پر چڑھا دی تھی ۔ خود کو ٹکڑے کروا ڈالا تھا ۔ ۔ ۔ ۔اتنا آہ و فغاں ہوتا ہو گا کہ اللہ پاک بھی اپنے فرشتے کو واپسی کا حکم دے دیتا ہو گا کہ شہید خدا کے پیارے ہوتے ہیں ۔اسی لیئے تو وہ فرماتا ہے کہ شہیدکو مردہ مت کہو یہ زندہ ہیں انہیں ہم رزق دیتے ہیں لیکن تم اس کا شعور نہیں رکھتے ۔ انہیں کی محبت کے صدقے ہم بار بار معاف کر دیئے جاتے ہیں ، لیکن کب تک ؟ ایسا نہ ہو تو جس ملک کے لوگ اپنے قائد اپنےبابا کی قبر کو بدکاری کا اڈا بنا دیں ۔ جہاں 6،6 سال کی بچیاں ریپ ہو رہی ہوں جہاں قران کا درس دینے والے بچوں سے برے افعال کرتے ہوں ، جہاں عورتیں بے پردہ رہنے کو فیشن کہتی ہوں ، جہاں مخلص لوگوں کی ہنسی اڑائی جاتی ہو ۔ جہاں یارانوں دوستانوں میں سرکاری اداروں کے عہدے پیش کیئے جاتے ہوں جہاں قاتل چھوکرے وکٹری کا نشان بناتے ہوئے گردن اکڑا کر مقتول کے سر پر پاؤں رکھ کر بھنگڑے ڈالتے ہوں اسے تو کب کا ختم ہو جانا چاہیئے تھا ۔ اگر یہ قائم ہے تو اسی لیئے کہ یہ شہیدوں کی تڑپ خدا سے ہماری بار بار معافی کرواتی ہے ۔
لیکن کب تک یونہی چلے گا ۔خود کو بدلنے کا وقت آن پہنچا ۔ ہم اب بھی یہ ہی دعا کریں گے کہ
خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اُُُترے
وہ فصل گل جسے اندیشئہ زوال نہ ہو
خدا کرے کہ میرے اک بھی ہموطن کیلیئے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو
اس تمام، پروگرام کا ٹریبیوٹ شہید اعتزاز احسن کو پیش کیا گیا اور ان کے والدین کو خراج تحسین پیش کیا گیا ۔ جس نے اپنے لہوسے اپنی زمین پر لکھا کہ ابھی امید زندہ ہے ۔
یوں یہ پروگراوم سوچوں کے دروازے پر بھرپور دستک دیتا ہوا اختتام پذیر ہوا ۔اپنے انمٹ نقوش زہنوں پر چھوڑتے ہوۓ ۔شکریہ شاہ بانو میر صاحبہ اتنے خوبصورت لوگوں کیساتھ اتنے بھرپور انداز میں بات کرنے کا موقع دینے کے لیۓ۔
                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/