ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک
منتخب کالمز لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
منتخب کالمز لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اتوار، 26 جون، 2022

● شدید موسم کا روہوں پر اثر/ کالم



 شدید موسم کا رویوں پر اثر
 (ممتاز ملک ۔پیرس)

 فرانس میں ہفتے بھر سے بہت زیادہ گرمی پڑ رہی ہے درجہ حرارت 40 ڈگری تک جا پہنچا ہے۔ جہاں بھی دنیا بھر میں گرمی شدید ہو چکی ہے وہاں  بلا ضرورت گھر سے نہ نکلیں ۔  باہر نکلنا پڑے تو چھتری پانی کی بوتل  دھوپ کی عینک  لیکر نکلیں ۔ ہلکے  کپڑے جیسے کاٹن لان یا لیلن کے کپڑے پہنیں ۔  بار بار پانی پیئیں ۔ سر پر گیلا چھوٹا تولیہ رکھنے کہ عادت ڈالیں ۔ 
پاکستان ہو یا کوئی بھی ملک ہر جگہ محنت کرنے والوں کو گھروں سے باہر  نکلنا پڑتا ہے۔  موسم اور اپنے شعبے کے حساب سے اپنی حفاظت کرنا پہلی ترجیح ہونی چاہیئے جو کہ خصوصا پاکستان میں تو تصور ہی نہیں ہے  ۔ انکی توجہ بھی دلواتے رہنا چاہیئے۔ ان شدید موسموں میں بھی رزق کی تلاش میں نکلنے والوں کے گھروالوں اور خصوصا انکی بیویوں کو ان کا پیسہ خرچ کرتے وقت خدا کا خوف رکھنا چاہیئے ۔ اور اپنی فضول خرچیوں پر قابو رکھنا چاہیئے ۔ ویسے بھی  بلا ضرورت بازاروں کے چکروں سے پرہیز میں بہت سی حکمتیں پوشیدہ ہیں عقل والوں کے لیئے۔ 
کام سے یا باہر سے واپس آنے والوں کو خاص طور پر اس موسم میں اور عام طور پر بھی گھر میں داخل ہوتے ہی اپنے دن بھر کے رونے سنانا شروع کرنا سب سے بڑی جہالت ہے۔ جس میں ہماری خواتین پہلے نمبر پر ہوتی ہیں ۔ سارے دن بھر کے تماشے ،نقصانات ، عذاب کام سے لوٹنے والے کو سنانے والے یقینا اس کے دوست نہیں ہو سکتے ۔ کیونکہ انکی خواہش یہی ہو سکتی ہے کہ گھر آنے والا پھڑک کر مر جائے۔ اسکا دماغ پھٹ جائے،  ان کے دن بھر کی رپورٹ سنکر۔ خدا کا خوف بس یہ ایک بات ذہن میں بٹھا لیں تو آپ ایسے شیطانی کاموں سے یقینا بچے رہیں گے۔ کام سے  گھر واپس آنے والے/والی کو مسکرا کر سلام دعا کریں ۔  اسے پانی پلائیں ۔ نہانے دھونے کا موقع دیں ۔  چائے کھانے کا پوچھیں ۔  سونا چاہے تو کچھ آرام اور سونے اونگھنے کا موقع دیں ۔  رات کے کھانے کے بعد پھر اچھے  اور محتاط لفظوں میں اسے ضروری مسائل سے آگاہ کریں ، ساتھ میں تسلی بھی دیں کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ بچوں کو بھی سختی سے  اس بری عادت سے بچائیں کہ باپ بھائی گھر آئے تو آتے ہیں اس کے کان کیساتھ چپک کر زمانے بھر جھوٹے سچے قصے صور کی طرح اس کے کانوں میں پھونکنے سے پرہیز کریں ۔ آپ کی نظر میں یہ معمولی بات ہو گی لیکن  عادت بڑے بڑے فسادات اور قتل و غارتگری کا موجب بن سکتی ہے۔  گھروں میں رشتے ٹوٹ جاتے ہیں ۔ کیونکہ گھر سے باہر کام کر کے واپس آنے والا کن کن مسائل سے نپٹ کر آ رہا ہے ؟ اسکی ذہنی حالت کیسی ہے؟  اس کی پریشانی کیا ہے ؟ کسی سے لڑ کر تو نہیں آ رہا؟ اس کا کام تو نہیں چھوٹ گیا؟ آج اس کا کام کاج اچھا گیا کہ نہیں ؟  کہیں جیب تو نہیں کٹ گئی؟ کوئی حادثہ تو نہیں ہو گیا؟ سو معاملات ہو سکتے ہیں لیکن آپ ان سے بلکل انجان ہیں ۔ اور اپنی زرا سے لاپرواہی یا بیوقوفی میں آنے والے کو مزید تلملانے کا موقع فراہم کر دیتے ہیں ۔ اس کا جس پر بس چلے گا وہ اسی پر اکثر بلاوجہ اپنا غصہ نکال دیگا۔ گھر کا ماحول تناو کا شکار ہو جائیگا ۔ ہو سکتا ہے کان بھرنے والی یا والے کو ہی پھینٹی لگ جائے۔ 😜
 اس کے علاوہ پودوں کا خیال رکھیں ان کی دھوپ چھاوں کا خیال رکھیں ۔  انہیں پانی پلاتے رہیں ۔ پرندوں کے لیئے کسی سایہ دار جگہ پر دانے پانی کا انتظام کیجیئے۔ ثواب کمائیے۔ 
یقین کیجیئے  چھوٹی چھوٹی باتیں اور احتیاطیں  بڑے بڑے سکھ لاتی ہیں ۔ 
                    ●●●


ہفتہ، 4 جون، 2022

● عہدوں اور مراعات کی لوٹ سیل/ کالم

عہدوں اور مراعات کی لوٹ سیل
 آئیے اسکی آڑ میں قوم کا خون چوستے ہیں 👺👹☠
         تحریر: (ممتازملک ۔پیرس)

دنیا میں اگر کوئی سب سے باوقار اور باعزت شعبہ ہے تو وہ ہے محافظ کا ۔ جو آپ کو زندگی کا اعتبار وحوصلہ لوٹاتا ہے۔ جینے کی امنگ عطا کرتا ہے ۔ بیمار کی دوا ہوتا ہے محافظ، لیکن اس وقت تک جب تک یہ دوا مرض کی تشخیص کے بعد معالج کے مشورے کے مطابق تجویز کردہ خوراک کے مطابق ہی دی جائے ۔ بصورت دیگر اسی دوا کی خوراک کو بے حساب کر دیا جائے تو اس مریض کے لیئے یہی دوا شفا نہیں بلکہ پاگل پن اور موت کا سبب بھی ہو سکتی ہے ۔
یہی سب کچھ ہماری معیشت کیساتھ سرکاری ملازمین  وزراء ججز اور فوجی عہدیداروں کی صورت میں ہو رہا ہے ۔  جو دوا کے بجائے اس قوم کے لیئے زہر قاتل بن چکے ہیں لہذا اب جب ملک تباہی کی دلدل میں دھنس چکا یے یہ اقدامات اٹھانا اشد ضروری ہو چکے ہیں جیسے کہ
▪︎پاکستان میں فوری طور پر ہر سرکاری عہدیدار جیسے وزراء ججز  اور فوجی عہدیداروں کو مفت بجلی گیس  پٹرول کی فراہمی بند ہونی چاہیئے۔ 
▪︎انہیں ملنے والے مفت کے گھریلو ملازمین کی عیاشی بند ہونی چاہیئے ۔
▪︎انہیں ملنے والے جہازی سائز کے بنگلوں کا کرایہ خزانے سے جانا بند ہونا چاہیئے۔
▪︎انکے اور انکے خاندانوں کے ہسپتالوں کے اور سفری اخراجات کو بند کیا جائے۔
▪︎ دو بار کی ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی بھی سرکاری و غیر سرکاری عہدہ یا نوکری رکھنا غیر قانونی قرار دیا جائے ۔ انہیں صرف رضاکارانہ سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت ہونی چاہیئے۔
▪︎ ریٹائرڈ برگیڈیئرز جرنیلوں کرنیلوں  ججز سے سبھی عہدے فی الفور واپس لے لیئے جائیں جو اس قوم کے حقداروں کی نوکریوں پر قبضہ کیئے بیٹھے ہیں ۔
 پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں ایک ایک آدمی دس دس عہدے دبائے بیٹھا ہے جو نہ صرف جونک بنا قومی خزانہ چوس رہا ہے بلکہ عام عوام پر اپنے عہدوں کی جگہ ریٹائرڈ فوجی عہدوں کی دھونس جما کر بدمعاشی کا مرتکب بھی ہو رہا ہے۔ 
جب یہ تمام مفت خورے اپنے پلے سے اپنا گھر اور گاڑی چلائینگے گے تبھی یہ اس قوم کے عام آدمی کے ساتھ خود کو جوڑ پائینگے اور انکے مسائل سمجھ پائینگے۔ 
ہمارا ملک ابھی ان عیاشیوں کا کسی طور بھی متحمل نہیں ہو سکتا ۔ 
آخر اسی ملک میں یہ تمام شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ کس خوشی میں مفت مہیا کیئے جاتے ہیں ۔ ان عہدوں پر ہوتے ہوئے تو انہیں مراعات کی اندھی بارش میں نہلایا ہی جاتا ہے لیکن مسئلہ اس وقت اور بھی سنگین ہو جاتا ہے جب انکی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان پر بیشمار نوازشات تادم مرگ جاری رہتی ہیں ۔ جیتے جی ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جس ملک میں لوگ ماہانہ ہزاروں روپے بمشکل کما پاتے ہیں وہاں یہ خدائی فوجدار عہدیدار نوکریوں پر ہوتے ہیں تو ہر ماہ  لاکھوں کماتے ہیں اور رہٹائر ہو کر دس دس نوکریوں پر آکاس بیل کی طرح پھیل کر چمٹ جاتے ہیں اور ہر ماہ کروڑوں روپے ملکی معیشت سے چوسنے لگتے ہیں ۔ گویا ان پر یہ کہاوت سو فیصد صادق آتی ہے کہ جیتا ہاتھی لاکھ کا تو مرا ہوا سوا لاکھ کا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر بچے کے پیدا ہوتے ہی اسکے والدین کا پہلا خواب پوتا ہے سرکاری نوکری۔۔ مطلب تاعمر کی مفت روٹیاں ۔ یقین مانیں اگر ان سارے عہدوں سے یہ تمام مالی عیاشیاں نکال دی جائیں تو ہر سال ایک ایک کرسی کے لیئے جو سینکڑوں بھرتی درخواستوں کا بوجھ پڑتا ہے وہ بھی خود بخود کم ہو جائے گا اور بیکار و بے مصرف لوگوں کی چھانٹی بھی ہو جائے گی۔ اس وقت صرف اور صرف اہل اور محنتی افراد ہی اس  نوکری کے لیئے خود کو پیش کرینگے جو اس ملک کی حقیقی خدمت کرنا اپنے ایمان کا حصہ سمجھیں گے ۔ 
                  ●●●

پیر، 30 مئی، 2022

● فوری اور ضروری قانون سازی/ کالم

فوری اور ضروری قانون سازیاں
تحریر: 
(ممتازملک ۔پیرس)


25 مئی 2022ء  کو پاکستان میں ہونے والے ایک سیاسی جماعت کے تماشے نے بہت سے سوالات کھڑے کر دیئے ہیں ۔ عوامی و سرکاری املاک اور انسانی جانیں اس قدر سستی ہیں کہ جس کا جی چاہے دو چار ہزار جرائم پیشہ افراد کو لاکر جلاو گھیراو کریگا اور سپریم کورٹ کے ججز اس کے سامنے بچھتے چلے جائیں گے۔ اس کا فیڈر بنانا شروع کر دینگے۔ ان ججز کو جواب دینا پڑیگا کہ وہ اس عہدے پر اس قوم کو انصاف مہیا کرنے کے لیئے آئے ہیں یا کسی کی جماعت بنکر اسے خوش کرنے کے لیئے؟
کیا ان ججز کے نامناسب اور غیر حقیقی  فیصلوں نے ہی اس قوم کو آج کے حالات تک نہیں پہنچایا ؟ ان کو اتنا ہی شوق ہے سیاست کرنے کا تو ججز کے عہدے چھوڑیں اور کھل کر سیاست کریں قاضی جیسے محترم اور معتبر عہدے کو بدنام تو نہ کریں ۔ کوئی بھی سیاسی جماعت  یا حکومت اس بات کا حق نہیں رکھتی کہ وہ عوامی مفادات اور ملکہ سالمیت کے خلاف کوئی بھی قدم اٹھائے ۔  
حکومت وقت فوری قانون سازی کرے کسی بھی شہر میں آبادی میں کسی بھی قسم کا سیاسی اور مذہبی جلسہ جلوس دھرنا بین کر دیا جائے۔ ہر شہر سے باہر کچھ زمین ان مقاصد کے لیئے مختص کر دی جائے۔ پھر کوئی وہاں جتنے دن بھی اپنے احتجاج ریکارڈ کروانا چاہے، بیٹھنا چاہے،  لیٹنا چاہے اس بات کی اجازت لیکر کرے۔ لیکن ملکی سرکاری  اور عوامی املاک کو نقصان پہچانے والوں کو سخت سے سخت سزائیں دیکر نمونہ عبرت بنایا جائے۔ 
عدلیہ اور افواج پاکستان  کو حکومتی کاموں میں مداخلت سے باز رہنے کا حکم باقاعدہ قانون بنا کر  دیا جائے ۔
پرویز خٹک نے جس طرح وزیر اعلی کے بجائے عمرانڈوز بنکر پنجاب اور اسلام آباد پر چڑھائی اور قتل عام کا پروگرام بنایا اس کا زور ان کی بارود اور اسلحے کی بھری ہوئی گاڑیاں پکڑ کر کسی حد تک حکومت نے توڑ تو دیا لیکن اب اس کی جانب سے اعلان جنگ کا بھرپور جواب دینے کے لیئے ایسے شرپسندوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم دیا جائے۔ ان کے سرکاری عہدے ان سے واپس لیئے جائیں۔ انکے خلاف غداری ایکٹ کے تحت مقدمات درج کیئے جائیں اور فوجداری قوانین ان پر لاگو کیئے جائیں ۔ 
ایسے حالات میں  صوبوں کے بارڈرز سیل کرنے کا حکم دیا جانا چاہیئے ۔ یہ ملک کسی کے باپ کا اکھاڑہ نہیں ہے کہ یہاں کے عوام کی جانیں اور املاک ایسے ملک دشمنوں  کے لیئے پلیٹ میں رکھ کر پیش کر دی جائیں ۔ لہذا سپریم کورٹ اور فوج اس جماعت اور اس کے لیڈر کی نیپیاں بدلنا بند کرے اور پاکستان اور پاکستانی عوام کے حق میں عدل کرنا سیکھے۔ اور اگر ہمارے ججز اور جرنیل اس قابل نہیں ہیں تو استعفے دیں اور جا کر اپنے لوٹے ہوئے خزانوں کے بل پر بنے محلوں میں عیش کریں ۔ خدا کے لیئے پاکستان کو تجربہ گاہ بنانے سے توبہ کر لیں کیونکہ الحمداللہ پاکستان کا برا چاہنے یا کرنے والوں کے مقدر میں صرف اور صرف ذلت اور رسوائی ہی آئی ہے۔ 
                  ●●●

جمعہ، 13 مئی، 2022

● محبت لفاظی نہیں عمل / کالم


محبت لفاظی نہیں عمل 
تحریر: (ممتازملک ۔پیرس)

مجھے ماوں کیساتھ ہونے والی زیادتیوں پر اکثر مردوں سے سننا پڑتا ہے کہ  ایسی بات نہیں ھے ماں کے قدموں میں جنت ھے بدنصیب ھے وہ انسان جو اپنی ماں کی خدمت اور احترام نہ کرے۔ پوچھنا یہ ہے کہ کیا  صرف احترام سے ہی پیٹ بھر جاتا ہے ؟ بدن ڈھک جاتا ہے؟ دوا مل جاتی ہے؟
یہ تو وہی بات ہوئی کہ کسی کے سامنے سات رنگ کے پکوان پروس دیئے جائیں لیکن اس کے ہاتھ اور منہ باندھ دیا جائے۔کس کام کے پھر یہ پکوان اس بھوکے کے لیئے؟
جب بھی اپنی ماں اور اپنے بچوں کی ماں کے سر پر اس کے اپنے نام کی چھت کا مطالبہ کیا جائے تو 
کمال کا جان چھڑاو جواب ملتا ہے ہمیشہ کہ جناب سب کچھ اسی کے لیئے تو ہے ۔ جبکہ سوال وہیں قائم رہتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں کتنے فیصد اپنی بیویاں یا اپنی مائیں ایسی ہیں جن کے سر پر ان کے اپنے نام کی چھت ہے؟ کچھ نے کہا کہ 
 گھر اسے ہمارے باپ نے دے دیا تھا ۔ سوال پھر وہیں کا وہیں ہے کہ اپنے نام سے اس بیچاری کو کیا ملا؟ تمام عمر کی قربانیوں کے بدلے کبھی باپ کا گھر پھر میاں کا گھر پھر بیٹے کا گھر ۔ وہ تو  ہمیشہ غیر محفوظ اور خالی ہاتھ  ہی رہی۔  
سچ تو یہ ہے کہ محبت لفاظی نہیں عمل کی متقاضی ہے۔ 
سو جس ماں کے قدموں میں آپکی جنت ہے۔ اس کے سر پر اس کے  اپنے نام کی محفوظ چھت کیوں نہیں ہو سکتی؟
پھر مجھے (نہ جانے کیا سمجھ کر) پاکستان میں عورت اور خصوصا ماں کے رتبے پر بلند و بانگ دعوے سنائے جاتے ہیں ۔ اس کی عزت و وقار کے گن گائے جاتے ہیں ۔ تو عرض یہ  ہے کہ میں بھی اسی پاکستان سے آئی ہوں ۔ ہر کلاس کی عورت کو جانتی ہوں اور ان کی اس پرسنٹیج کو بھی ۔ جہاں بیٹیاں قران سے  بیاہنے والے جائیداد بچانے  کی فکر لیئے بیٹھے ہیں ۔ 
بھائی بہنوں کی جائیدادیں ہڑپ کر جاتے ہیں۔ باپ بھائی بیٹی کو جہیز دیکر اس کے حصے کی شرعی ملکیت دبا جاتا ہے۔ بیوہ بھابیوں کا مال ان کے دیور جیٹھ ملائی سمجھ کر کھا جاتے ہیں ۔ مائیں گھروں میں بچے پلوانے تک نوکروں جیسی حالت میں رکھی جاتی ہیں  ۔یہ ہے ہماری نوے فیصد اصلیت ۔اس سے نظر مت چرائیں پلیززز۔ مانیں گے مرض
 تو ہی علاج کر پائیں گے اسکا ۔۔
والدین کا گھر صرف باپ ہی کے نام تھا نا۔ کتنے ہیں جن کی اپنی بیوی یا اپنی ماں کے نام کوئی گھر ہے؟
ڈرامے بازی نہ کریں تو  حقیقت کی زمین پر بیچاری گود سے گور تک دوسرے کے گھروں میں در بدر ہی رہتی ہے یہ ہے سچ۔۔۔
ایک بڑا اچھا نقطہ اٹھایا گیا کہ اگر ماں یا باپ کے نام کوئی گھر خرید کر دیا جائے تو باقی سارے مفت خورے بہن بھائی اسے وراثت بنا کر مفت کا حصہ بٹورنے کے لیئے عدالتوں اور قبضوں کے کھیل کھیلنے لگتے ہیں۔ جبکہ اس مکان کی خرید کسی ایک بہن یا بھائی کے پیسے سے ہوئی تھی۔  اس کے علاج کے لیئے پاکستان میں سرکاری طور پر بھی قانون میں  کچھ تبدیلی کی اشد ضرورت ہے ۔ جس کے تحت کسی بھی گھر کی یا کسی بھی جائیداد کی خرید کے وقت کاغذات میں ایک خانہ موجود ہونا چاہیئے جس میں لکھا جائے کہ یہ جائیداد کون اپنے پیسے سے خرید کر اپنے والد یا والدہ کے نام کر رہا ، رہی ہے ۔ اور ان کی وفات کے بعد یہ جائیداد خود بخود خرید کر دینے والے  نام پر منتقل ہو جائے۔ اس کا مضبوط انتظام قانونی کاغذات سے مکان تاعمر انکے نام ہو ۔ انکی وفات کی صورت یہ مکان خرید کر دینے والے کو واپس منتقل ہو جائے ۔
 اور اگر وہ خریدنے والا نہیں رہا تو یہ جائیداد  اس کی بیوی یا شوہر کے نام ہو جائے ۔ اور اگر اس کی بیوی یا  شوہر بھی نہیں رہی، رہا (موت یا طلاق کی صورت) تو اس کی اولاد کے نام ہو جائے۔ ماں کے نام گھر ہو۔ وہ ساری زندگی بلا شرکت غیرے اپنی مرضی سے اسمیں رہے ۔ لیکن اگر وہ گھر اسکی کسی اولاد نے خرید کر دیا ہو تو وہ  گھر وہ کسی کو بھی نہ بیچ سکتی ہے نہ ہی کسی  کے نام کر سکتی ہے۔ اس کی وفات کے بعد یہ گھر جس نے خرید کر دیا اسی کی ملکیت میں واپس چلا جائے گا۔  خودمختاری یہ ہو گی کہ وہ اگر میرے خرید کر دیئے ہوئے گھر میں مجھے بھی نہ آنے دینا چاہے تو مجھے اس کی اس بات کا بھی احترام کرنا ہے ۔ زبردستی اس کی زندگی میں اس گھر میں گھسنے کہ کوشش نہیں کرنی ہے۔ وہ اس کے کسی حصے میں کرایہ دار بھی ساتھ رکھنا چاہے تو رکھ سکتی ہے ۔ اس کی آمدن کو اپنے لیئے استعمال کر سکتی ہے۔ میں امید کرتی ہوں کہ یہ تحریر صاحب اختیار لوگوں تک ضرور پہنچے گی اور وہ اس پر قانون میں تھوڑا بہت ردوبدل کرتے ہوئے عوام کو آسانی مہیا کرنے میں اپنا کردار ادا کرینگے۔ اس وقت تک جائیداد ماں کے نام کرنے والے خود قانونی کاغذات بناتے وقت یہ ضروری شق شامل کروا کر اپنی جائیداد کو محفوظ بنا سکتے ہیں اور عدالتوں میں فاضل مقدمات بننے کی راہ کو روک سکتے ہیں ۔ 
                  ●●●

ہفتہ، 7 مئی، 2022

شرک اور ہمارا تغافل۔ کالم



شرک اور ہمارا تغافل
(تحریر/ممتازملک.پیرس)

آج جب دین کو سمجھنا یا جاننا آوٹ ڈیٹڈ تصور کر لیا گیا ہے ۔ مذہب کو زندگی پر بوجھ سمجھ لیا گیا ہے ۔ ہر ایک خود اپنا اپنا دین ایجاد کرنے میں مصروف ہے۔ اللہ پاک کا بھیجا ہوا دین انہیں ان کی من مرضی کرنے میں رکاوٹ لگنے لگا ہے ۔ ان کی اوارگیوں اور غیر اخلاقی اعمال کو ایک عنوان بھی چاہیئے اور اپنے مردہ ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیئے دین کے نام پر کوئی جواز بھی مہیا کرنا ہے تو ہر من گھڑت بات کو بغیر کسی تصدیق کے اپنے من چاہے کے بیان پر دین کا نام دینے کی کوشش کرنا ایک تباہ کن  رواج بنتا جا رہا  ہے ۔ جس میں ساری دنیا محض مرد اور عورت کا جسم بن کر رہ جائے گی ۔ نہ کوئی رشتہ سلامت رہیگا اور اخلاقی تنزلی کا تو اب بھی کوئی پرسان حال نہیں رہا اور مذید  کیا تباہ ہو گا؟
 یہ بات ہم سب مسلمانوں کو سمجھنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے ۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم  سمیت سبھی انبیائے کرام  اللہ پاک کے محبوب و محترم اور معصومین ہیں ۔ لیکن وہ خدا سے  آگے نہیں ہیں  اور خدا کو  ان کے مشورے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ جبکہ ہمارے تفرقے بازوں اور حلوہ خوروں اور کئی شعراء نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم  کے علاوہ بھی صحابہ اور اولیاء اللہ اور تو اور کئی نے علمائے وقت تک  کو اپنے اپنے لیئے مخصوص کر کے ان کی شان میں وہ وہ  قلابے ملائے ہیں کہ اگر اس پر غور کرنے کی توفیق مل جائے تو ہمیں کسی اور  کو مشرک کہنے کی قطعی کوئی ضرورت ہی نہ رہے ۔
ہر شخص خود کو مسلمان بھی کہتا ہے اور اپنی ہر محب ہستی کو نعوذ باللہ اللہ کے برابر کی کرسی پر بٹھانے کو بھی بےچین نظر آتا ہے ۔۔لیکن وہ شرک نہیں کرتا اس پر بھی اڑا ہوا ہے ۔۔۔خدا کے لیئے خالق اور مخلوق کے فرق کو سمجھو ۔ خالق صرف ایک ہے باقی دنیا کی اچھی سے اچھی اور حسین سے حسین مخلوق ہو ، چاہے بری سے بری اور  بدصورت سے بدصورت مخلوق ہو سب اس کی تخلیقات ہیں ۔ اگر کسی کی عزت اور مقام اللہ پاک نے زیادہ رکھا ہے تو بیان بھی فرما دیا ہے کہ اسکی وجہ صرف اور صرف اس کا تقوی ہے ۔ اور تقوی کیا ہے؟  تقوی یہ ہے کہ اچھائی اور  نیکی کے کاموں میں ایکدوسرے سے آگے ہونا ۔ اپنے قول فعل اور کردار میں بہترین ہونا ۔ حلال کاموں میں بھی جس میں ذرا سا بھی  اللہ کی ناراضگی کا شائبہ تک ہو اس سے بچنے کی کوشش کرنا ۔ یعنی ایک ہی مثال کو کافی سمجھیئے کہ انسان دنیا میں گناہوں سے پاک پیدا ہوتا ہے ۔ اس کا کردار سفید لباس جیسا ہوتا ہے اور جب سفید کپڑوں میں انسان کیچڑ والی جگہ سے  مجبورا بھی گزرتا ہے تو اپنے لباس کو سمیٹ لیتا ہے۔ اپنے پائنچے چڑھا لیتا ہے تاکہ اس کیچڑ کا کوئی چھینٹا اس کے لباس کو داغدار نہ کر دے ۔ بس یہ ہی ہے ایک متقی اور اللہ کی محبت اور قرب پانے کا یہی ہے واحد طریقہ ۔ کہ دنیا کے کیچڑ میں اپنے کردار کے سفید لباس کو داغدار ہونے سے بھی بچایا جائے اور سفر بھی جاری رکھا جائے۔  اسے ہی تقوی کہتے ہیں جو اللہ پاک بار بار قران پاک میں ارشاد فرماتا ہے ۔ 
اس لیئے آج مسلمانوں کو اللہ پاک ، اور نبیوں کے مقام کو سمجھے اور شرک کا مطلب جاننے کی اشد ضرورت ہے ۔ 
اپنے محبوب سے محبوب ہستی سے محبت ضرور کیجیئے ان کا احترام بھی کیجیئے ۔ لیکن یہ یاد رکھیئے کہ پیغمبروں اور  نبیوں کے علاوہ دنیا کی کوئی نیک سے نیک ہستی ایسی نہیں ہے جو گناہوں سے یا غلطیوں سے پاک ہو ۔ یہ سب انسان ہیں ۔ اور اللہ پاک کے عطا کردہ بشری تقاضوں میں مجبور ہوتے ہیں۔
اللہ پاک ہم سب کو اسلام کی سمجھ اور ہدایت عطا فرمائے۔ آمین
                    ●●●

ہفتہ، 10 اپریل، 2021

● روحانیت ‏سے ‏شیطانیت ‏تک/ ‏کالم


       روحانیت سے شیطانیت تک
         (تحریر: ممتازملک۔پیرس)

دنیا میں ہر انسان بیک وقت دو دنیاوں کا سفر کر رہا ہوتا ہے ۔ ایک اس کی جسمانی دنیا اور ایک اس کی روحانی دنیا ۔
ہر ایک کا سفر دوسرے سے جدا ہوتا ہے ۔ ہر ایک کے درجات دوسرے سے الگ ہوتے ہیں ۔
بہت ممکن ہے ایک ہی ماں کی کوکھ سے جنم لینے والا ایک انسان عظمتوں  کے مینارے تعمیر کر رہا ہو اور اسے لمحے میں اسی  ماں کی دوسری اولاد شیطانیت کو  شرمسار کر رہی ہو۔ 
کچھ لوگوں کا سفر دنیا خریدنے  اور اسے مذید سے مذید تر اپنی جیب میں اور پیٹ میں بھرنے کے لیئے وقف ہوتا ہے ایسا انسان نہ کسی رشتے کا سگا ہوتا ہے اور نہ ہی خدا کی لکھی تقدیر کا قائل۔  اسے بدبخت بھی کہا جا سکتا ہے ۔جو اپنے رشتوں کو اپنے لیئے آہنی دیوار بنانے کے بجائے ریت کی ڈھیری میں بدل لیتا ہے ۔ اور جب بھی مٹھی کھولتا ہے خود کو خالی ہاتھ ہی پاتا ہے ۔
اس عمل میں وہ شیطانی دنیا کے وہ وہ گر آزماتا ہے جو کبھی اسے شرک کا مرتکب کر دیتا ہے اور کبھی کفر کی دنیا کا فرد شمار کروا دیتا ہے ۔ وہ سمجھتا یے میری چالبازیاں میرے جادو ٹونے ، میری لمبی زبان اور میرا گندہ کردار لوگوں کو مجھ سے دہشت زدہ رکھے گا اور یہ کسی حد تک سچ بھی ہے۔  آپ نے اپنے ارد گرد ایسے بہت سے چلتے پھرتے شیطان صفت جسم دیکھے ہونگے جن پر ایک حدیث پاک صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ مفہوم سو فیصد صادق آتا ہے کہ " ایک وقت آئے  گا لوگ دوسروں کی عزت ان کے اچھے کردار اور طرز عمل کی وجہ سے نہیں کرینگے بلکہ انکے شر سے محفوظ رہنے کے لیئے کیا کرینگے ۔ "
یہ خود ساختہ اور نام نہاد کامیاب لوگ ہوتے ہیں ۔ انکی جیب میں پیسہ تو کسی اور کا ہوتا ہے ۔ لیکن پھوں پھاں  انکی زوردار ہوتی ہے ۔ یہ وہ خالی غبارے ہوتے ہیں جنہیں وقت کا بچہ جب چاہے حکم خداوندی سے پھونک مار کر پھلا لیتا ہے اور جب چاہے اسے ایک ہاتھ سے مار کر اسکا زبردست پٹاکا نکال سکتا ہے ۔  

دوسری جانب وہ لوگ جن کا سفر خیر کے لیئے روشنی کی لکیر کے لیئے طے ہوتا ہے ۔ وہ دل کے خالص ہوتے ہیں ۔
 اب ان کا نصیب کہ جسے انہوں نے اپنے نورانی منزل کا چراغ سمجھا وہ آخر میں جا کر ایک ٹرک کی بتی نکلا اور انکی راہ کھوٹی کر گیا ۔ وقت کا یہی تو اچھا پہلو بھی ہے اور برا بھی کہ یہ کبھی پلٹ نہیں سکتا سو اس شخص کے خلوص کے سفر کو کیا خاک میں ملا دیا جائے گا ؟ نور کا متلاشی کیا اندھیروں میں اتار دیا جائے گا ؟ 
نہیں۔۔۔ کیونکہ یہ تو رب العالمیں کی شان کے خلاف ہو جائے گا ۔ جبھی تو وہ فرماتا ہے کہ انما الاعمال بالنیات ۔ یعنی اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ۔ اور یہی بات اس نیک فطرت انسان کی روحانی سربلندی اور ذہنی سکون کے لیئے آب حیات کی سی حیثیت رکھتی ہے ۔ ایسے لوگ بے سکون نہیں ہوتے۔ ہار کر بھی مطمئن ہوتے ہیں کہ ابدی جیت کا وعدہ تو ازلی سے ابدی تک کے مالک نے خود ان سے کر رکھا ہے اور بیشک اس سے بڑا کون ہے اپنے وعدوں کو وفا کرنے والا ، حکومت کرنے والا اور راہنمائی فرمانے والا ۔ انتظار اور یقین کا یہ سفر بیحد صبر آزما تو ہے لیکن بے ثمر کبھی نہیں ہوتا ۔ اسی کو ایمان کہتے ہیں ۔۔
                    ●●●   

اتوار، 7 جولائی، 2019

اسمبلیوں میں فیشن پریڈ ۔ کالم



   اسمبلیوں میں فیشن پریڈ 
                       (تحریر:ممتازملک.پیرس)


اسمبلی کی کاروائی کی جھلکیاں دیکھتے ہوئے بار بار یہ خیال پریشان کرتا ہے کہ
خواتین اراکین اسمبلیاں کی تیاریاں
قیمتی سے قیمتی ملبوسات ، برانڈڈ گاگلز ،  لاکھوں کے دستی بیگز اٹھائے کروڑوں کی گاڑیوں میں ملازمین  کے جھرمٹ میں چلتی ہوئی یہ خواتین کس لحاظ سے پسے ہوئے عوام اور طبقات کی نمائندہ تسلیم کی جا سکتی ہیں ؟ 
 انکی فیشن پریڈ دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک غریب ملک کی اسمبلیوں میں بھوکے فقرے لوگوں کا ووٹ لیکر آئی ہیں یا نامعلوم پردوں میں کسی کے سر پر سوار ہو کر نام نہاد عوام کی نمائندگی کرنے آئی ہیں ۔ ہو سکے تو پڑوسی ملک بھارت کی اس بات سے سیکھیئے جہاں بڑی سے بڑے ہیروئن بھی اگر اسمبلی میں منتخب ہو کر پہنچے تو اس نے بھی سستی ترین ساڑھیاں اور قمیض شلوار کا انتخاب کیا ۔ جہاں انہیں عورت ہوتے ہوئے  اندراگاندھی یہ سمجھا کر گئی کہ اسمبلی میں جن لوگوں کے ووٹ سے آئے ہو ان کی نمائندگی تمہارے حلیئے اور لباس سے بھی ظاہر ہونی چاہیئے ۔ تاکہ وہ تمہیں اپنے جیسا اور اپنے مسائل و خواہشات سے آگاہ تصور کریں ۔  سو وہ سستے ترین اور سادہ ترین ملبوسات میں اسمبلی میں اور عوامی مقامات پر نظر  آتی ہیں ۔ جبکہ ہماری اسمبلی یا سینٹ میں آتی خواتین کو دیکھ کر لگتا ہے یا تو یہ رشتہ لینے جا رہی ہیں یا پھر اپنا رشتہ دینے جا رہی ہیں ۔ اندر عوامی مسائل پر بحث نہیں  ہونے  جارہی بلکہ کسی فیشن شو میں انکی ماڈلنگ کا انتظام کیا گیا ہے ۔ یا اپنی امارت اور بناو سنگھار سے دوسرے کو پچھاڑنے کی تیاری ہے ۔ یا پھر معذرت کیساتھ وہاں پر مردوں کو رجھانے کا کوئی  مقابلہ ہونے جا رہا یے ۔ 
کس قدر شرم کی بات ہے کہ جس ملک میں لوگ دو وقت کی روٹی کے محتاج ہو گئے اور اسمبلیوں میں یہ نمائندہ خواتین ایسٹ انڈیا کی میموں کی منظر کشی کر رہی ہیں ۔ 
یہ کون سے ملک سے آتی ہیں اور یہ کیا کر رہی ہیں پاکستان میں  ؟ ان کے حلیئے اور انداز نزاکت سے تو ہمیں یہ محسوس ہوتا یے جیسے ابھی تالی بجا بجا کر حکم دینگی کہ اسے مار ڈالو ،اسے اٹھا لو ، چلو ہمارے جوتے صاف کرو ، چلو ہمیں پنکھا جھلو ۔۔۔
جن خواتین کو دیکھ کر آپ کو ایسی باتیں محسوس ہوتی ہوں ان سے کسی بھی بات کی ہمدردی کی اور انسانیت کی کسی خدمت کی توقع کیسے رکھی جا سکتی ہے ۔ 
پراٹھے کھانے والے کو کیا معلوم بھوک سے انتڑیوں میں بل کیسا ہوتا ہے ؟ 
بطور پاکستانی عام انسان کے ہم سب چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں ہر ایک کو انصاف ملے، تحفظ ملے ، خاص طور پر عورتوں اور بچوں کے خلاف ہونے والے جرائم کا خاتمہ  ہو سکے ۔ اسی لیئے اسمبلی میں خواتین کی نمائندگی بھیجی جاتی ہے کہ جو مسائل ہمارے بھائی ، مرد حضرات نہیں سمجھ سکتے وہ یہ خواتین سمجھیں گی اور اس پر بہتر انداز میں آواز اٹھا سکیں گی ۔ اور اس پر زیادہ بہتر قانون سازی کروا سکیں گی  اور ان پر عملدرآمد ہو سکے گا ۔ لیکن افسوس ہر گزرتے دن کیساتھ  خواتین اراکین اسمبلیان کی جن  کارکردگیوں میں دن دونی اور رات چوگنی اضافہ ہوا ہے وہ ہے کرپشن ، اقربا پروری ، تکبر ،  میک اپ ، فیشن ۔۔۔
کارکردگی ان کی صفر سے بھی نیچے کوئی ہندسہ ہوتا تو وہی قرار پاتی ۔ 
جوں جوں اسمبلیوں میں فیشن کی ماری خواتین کا اضافہ ہوتا گیا توں توں ملک میں عورتوں اور بچوں کے خلاف بھیانک جرائم کہ تعداد بھی ہوشربا ہوتی چلی گئی ۔ انہیں کون بتائے گا کہ ان کا اسمبلی میں پہنچنے یا پہنچانے کا کیا مقصد ہے ۔ خدارا یوں تو سارے ملک  میں خواتین کی بے لگام بے پردگی پر لگام ڈالیئے ۔ اور ملک بھر میں خواتین  کو عموما اور اسمبلیوں میں خصوصا ایک ڈھیلا ڈھالا لبادہ جیسے جبہ یا گاون اور سر پر کوئی رومال یا سادہ دوپٹہ لیکر آنے کا پابند کیا جائے ۔ وہ اپنے گھر میں کیا پہنتی ہیں اور کیا نہیں،  یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے کیونکہ یہ کسی پر اثر انداز نہیں ہوتا ۔ لیکن جہاں یہ معاملہ کسی پر اثر انداز ہونے لگے وہاں اس پر دھیان دینا بیحد ضروری ہے کیونکہ خواتین کے پہناوے اور بناو سنگھار سے ہی کسی ملک کی اقدار  اور شرافت کا اندازہ لگایا جاتا ہے ۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں خواتین اراکین اسمبلیاں  شادی بیاہ کے اور ماڈلز کے ملبوسات زیب تن کر کے پیش نہیں ہوتی ہیں اور نہ ہی عوامی مقامات اور دفاتر میں نظر آتی ہیں ۔ ہر لباس اور ہر بناو سنگھار کا اپنا اپنا موقع اظہار ہوتا ہے ۔ وہ وہیں پر اچھے لگتے ہیں ۔ کہیں اور اسے برتیں گے تو صرف مذاق ہی کا نشانہ بنیں گے۔ اس لیئے تمام سیاسی خواتین سے خصوصی گزارش ہے کہ اپنے حلیئے اور میک اپ میں سے چھچھورپنے کی نفی کیجیئے ۔ باوقار انداز میں اپنے کام کے مقامات پر پہنچیئے تاکہ دیکھے والے مرد بھی آپ کی عزت کرنے پر مجبور ہوں ۔ اپنے آپ کو لال پیلی چھمک چھلو بنا کر تماشا مت بنائیں ۔ یہ  آپ کا ذاتی معاملہ ہر گز نہیں ہے آپ ہماری نمائندگی کرتی ہیں اس لیئے  یہ ہمارے مجموعی قومی وقار کا سوال ہے ۔ اگر آپ ایسا نہیں کر سکتیں تو جا کر اپنے گھر بیٹھیئے یا فلموں میں اپنے نازوانداز کی نمائش کیجیئے ۔ 
                          ●●●

اتوار، 1 جولائی، 2018

سانس لینا میری ضرورت ہے / کالم


سانس لینا میری ضرورت ہے
ممتاز ملک. پیرس



آئے دن سڑکوں پر آنے والی گاڑیوں نے جہاں صوتی آلودگی میں کماحقہ اضافہ کیا ہے وہیں اس کے ایندھن سے نکلنے والی فضائی آلودگی نے اس دنیا کے حسن کو برباد کر ڈالا ہے.  انسانی صحت اور ماحول دونوں ہی خطرے سے دوچار ہیں  . گرمی کی شدت بڑھتی جا رہی ہے.  گلیشئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں. اگر فضا سے دنیا کے مختلف شہروں کا جائزہ لیا جائے.  تودنیا کے سب سے زیادہ فضائی آلودگی  کا میڈل ہمیں بھی ضرور
ملتا ہے. 
ہمارے شہر محض اینٹ پتھروں کے مقبروں کا منظر پیش کرتے ہیں.  جب کے بیچ کسی ہرے بھرے پودے کا نظر آ جانا بلکل ایسا ہی ہے جیسے ہاتھی کے جسم پر بیٹھا کوئی مچھر.  جسے آپ کی آنکھ تلاش کے لے تو آپ کی نظر کا کمال ہے.
اس میں قصور وار اور کوئی نہیں ہمارے اپنے ہی عوام ہیں جنہیں سب کچھ حکومت کر کے دے.  بلکہ کبھی کبھی تو محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے عوام نے ہر احساس ذمہ داری کے حقوق بحق سرکار ضبط کرا رکھے ہیں اور ان کا کام صرف شور مچانا اور آوازیں بلند سے بلند کرنا ہے. 
کام چور عوام کو اس طرف متوجہ کیا جائے توبہانوں کی ایک لمبی فہرست آپ کو سنانے کا بہت وقت ہو گا انکے پاس..  ارے بھائی کیا بتاؤں پودے لگانے کے لیئے جگہ نہیں ہے ..پانی نہیں ہے... وقت نہیں ہے ..پیسے نہیں ہیں.. پودے سنبھالنے نہیں آتے... جبکہ پودے نہ لگانا  کی کوئی وجہ قابل قبول نہیں ہو سکتی.
نہ صرف لانز میں بلکہ چھتوں پر بالکونیوں میں گھروں کے صحن میں گملوں میں ,تھابڑوں میں, اور بوتلوں میں ,دیواروں پر کہیں بھی پودے لگائے جا سکتے ہیں.  ہم نے بہت چھوٹے گھروں میں بڑے ہی سلیقے سے لگے پھول اور پودے دیکھے ہی جو نہ صرف اس گھر کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں بلکہ اس گھر کے رہنے والوں کی صحت اور سوچ پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں.  اور کچھ نہیں تو جہاں کچھ دھوپ میسر ہے اس کھڑکی کے  پاس ہی گملے میں کچن گارڈننگ کے طور پر دھنیا, پودینہ, ٹماٹر, لیموں, مرچیں اور ایسی ہی سبزیاں بو سکتے ہیں . اگر دو چار فٹ لمبی اور دو فٹ چوڑی جگہ میسر ہے تو اسی میں کوئی پھلدار  درخت کا تین چار فٹ کا تیار درخت لا کر لگا دیجیئے.  یہ درخت تھوڑے ہی عرصے میں آپ کو پھل بھی دیتا رہیگا اور سایہ بھی.
عمران خان نے اس سلسلے میں ایک بڑا اعلان کیا  لیکن انہوں نے ایک ارب درخت لگانے کی پھلجھڑی کسی شرارتی مشیر کے کہنے پر چھوڑ دی.  جس سے ایک سنجیدہ کاز بھی مذاق بن گیا.  بات اتنی ہی کرنی چاہیے جو پوری کی جا سکے.  اس میں ہم سب کو بھی حقیقت پسند بننا چاہیئے .
چلیں اربوں نہ سہی لاکھوں درخت تو ضرور خان صاحب نے لگوا ہی لیئے ہونگے. انہوں نے  ایک اچھے کام کی طرف توجہ تو دلائی ہے سب کی .  اس پر ان کی تعریف تو بنتی ہے.  دل بڑا کریں .  ایکدوسرے کے اچھے کاموں کی تعریف کرنا بڑی اعلی ظرفی کی بات ہوتی ہے.
  ویسے بھی درخت لگانا کسی ایک حکومت کی ہی ذمہ داری نہیں ہے  بلکہ یہ ہر باشعور انسان کا فرض ہے کہ وہ ہر سال کم از کم ایک درخت لگائے اور اس کی آبیاری بھی کرے.
کیا ہم اپنی اولادوں کو ایک گنجا , پتھریلا اور ریتیلا پاکستان دیکر جائیں گے. 
پاکستانی قوم نے تو عرب کے صحراؤں کو اپنی محنت سے گل و گلزاز بنا دیا.  چاول اور گندم کا مزا چکھا دیا.  کیا ہم اپنے ملک کو عرب صحرا بنتا دیکھتے رہینگے ؟
کسی نے سچ ہی کہا کہ ہم دنیا کے وہ بدنصیب لوگ ہیں جو اتنا حسین ملک ہرا بھرا کرنے کے بجائے اسے ریگستان بنانے پر تل گئے ہیں.  اللہ پاک ہمیں عقل و ہدایت عطا فرمائے.
دنیا کے وہ تمام خوبصورت اور ہرے بھرے ملک جن کی ہم مثالیں دیتے نہیں تھکتے . وہ اپنے بچوں کو پیدا ہوتے ہی فطرت کے قریب کرنے کا انتظام کرتے ہیں.  انہیں مٹی میں کھیل کر, اس میں گوڈی کر کے بیج بو کر , اس سے محبت کرنا سکھاتے ہیں.  جبکہ ہمارے نودولتیئے اپنے بچوں کو مٹی پر ہاتھ رکھنے سے اس لیئے روکتے ہیں کہ میلے ہو جائیں گے جبکہ غریب مٹی کو غربت کی نشانی سمجھ کر اسے خود سے دور کرنے کی کوشش میں مگن رہتے  ہیں. ایسے میں سانس لینا کیسے آسان ہو سکتا ہے.
درخت لگائیے پھول اور پودے لگائیے خدا کے لیئے. اس دن سے پہلے کہ جب ہر آدمی کو سانس لینے کے لیئے اپنا اپنا سلنڈر اپنی پیٹھ پر لاد کر چلنا پڑے ..
                  ●●●

بدھ، 6 دسمبر، 2017

راستے جدا ٹہرے / کالم


راستے جدا ٹہرے 
ممتازملک. پیرس 

ماں اور باپ کی محبت فطری محبت ہوتی ہے وہ اس کو خون کے لوتھڑے ہونے سے لیکر بھرپور جوان ہونے تک پروان چڑہاتے ہیں اس کی ضروریات اور شوق پورے کرتے ہیں چڑیا کے بچے کی طرح اسے اڑنا سکھاتے ہیں۔
 لیکن جب وہ اڑنا سیکھ لیتا ہے تو کہاں کہاں کس کس شاخ پر بسیرا کرتا ہے، یا کس ماحول  میں جاتا ہے،  کس انداز سے فیصلے کرتا ہے، یہ  سب اکثر انکے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا .
بہن بھائی جن کیساتھ اس کی نسل کا تار فطرت نے جوڑ رکھا ہے . وہ بھی اس کے ساتھ لڑتے جھگڑنے ایک دوسرے سے مفاد حاصل کرتے زندگی کے گول چکر پر آ کر اپنی اپنی پسند کی راہ  منتخب کر کے اپنے اپنے خاندان میں گم ہو جاتے ہیں . وہ آپ کو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا آپ ان سے کبھی کبھار رابطے میں آتے ہیں .
نکاح ایک انتہائی خوبصورت رشتہ ،جس کے دو بول ایک عورت اور مرد کو ایسے تعلق میں باندھ دیتے ہی کہ گویا وہ ایک دوسرے کا لباس ہو گئے۔ دو انسانوں کے دل کے تار ایک دوسرے سے  خالق نے اس طرح جوڑ دیئے کہ ایک تار کو چھیڑنے پر دوسرا تار خود بخود اسی سر میں بجنے لگتا ہے . دونوں کی خوشی، غمی، نفع ، نقصان، عزت اور بے عزتی جتنی اس رشتے میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑ جاتی ہے شاید وہ کسی بھی دوسرے رشتے میں اس طرح وابستہ دکھائی نہیں دیتی.
لیکن کچھ لوگوں کی زندگی میں زندگی کا ساتھی کبھی ایسا مل جائے جو اس کی سوچ اور تصور یا اس کی امید سے  نوے ڈگری کے اینگل  پر کھڑا نظر آتا ہے . یا جب آپ کو اس کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ آپ کی پشت سے  غائب ہی ملتا ہے . آپ کی خوشی اور غم سے اسے کوئی غرض نہیں ہوتی یا آپ کی آنکھ کا آنسو اس کے دل پر نہیں گرتا تو جان لیجیئے کہ دو غلط لوگ ایک مقام پر اکھٹے ہو چکے ہیں . ایسے میں شروع ہوتی ہے روز کی چخ چخ...  ایک دوسرے کو نیچا دکھانا ، شک کر کر کے اس کا خون جلانا، اس کی کامیابیوں سے حسد کرنا ، اس کے ہر کام میں کیڑے نکالنا ،  گھریلو تشدد کا شکار ہونا (مرد و عورت دونوں ہی اس کا شکار ہو سکتے ہیں ) ایکدوسرے کی زندگی سے آرام اور سکون کو تباہ کر دینا، تحفظ کے احساس سے خالی زندگی، اپنے شریک زندگی  کیساتھ دوستی کا فقدان ... .
یہ سب کچھ انسان کو اس بات پر سوچنے پر مجبور کر دیتا  ہے کہ کیا اسے اپنی مرضی اور خوشی سے زندگی گزارنے کا کوئی حق نہیں ہے ؟
لیکن ہمارا معاشرہ  ہمیں نام نہاد عزت کی دہائی دیکر، کبھی بچوں کا واسطہ دیکر ، کبھی  لوگ کیا کہیں گے کا بینڈ بجا کر تاحیات اس ذلت بھری زندگی میں جڑے رہنے پر مجبور کرتا رہتا ہے اور اس فیصلے کو بھی لینے سے روکتے رہتے ہیں جس کا حق ہمیں ہمارا قانون، اللہ کی کتاب اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت بھی دیتی ہے . 
ہمارا دین تو عورت کو پورا پورا حق دیتا ہے کہ اسے اپنے شوہر کی اگر شکل بھی پسند نہیں ہے تو اسے چھوڑ سکتی ہے لیکن ہماری عورت کبھی اپنا یہ حق کسی چھوٹی موٹی بات پر استعمال کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی . اور جب وہ ایسا سوچ لے تو سمجھ لیں وہ صبر کہ آخری منزل تک  آ پہنچی ہے .
شادی پسند نا پسند کا معاملہ ہو تو شادی سے پہلے علم بغاوت بلند بھی کیا جا سکتا ہے لیکن جہاں شادی کے بعد آپ کی زندگی دوذزخ بنا دی جائے تو بھی بڑوں کے طعنے پر عورت  یہ سوچ کر اولاد پیدا کر لیتی ہے کہ چلو یہ آدمی اپنے بچے کی محبت میں ہی ٹھیک ہو جائیگا. لیکن پوتڑوں کے بگڑے بھی کبھی ٹھیک ہوئےہیں کیا؟
اور ویسے بھی اولاد تو چند سال میں ویسے ہی بیاہ کر چھوڑ کرچلی جائے گی تب تک بھی اکثر ماں ہی اور کبھی کبھی اکیلا باپ ہی قربانی دیتا ہے . تو کیا یہ ظلم نہیں ہے .کچھ بھی کر لو بعد میں اولاد سے انعام تو یہ ہی ملتا ہے کہ آپ نے ہمارے لیئے کیا ہی کیا ہے؟
انہیں کون بتائے کہ کس نے اپنی جوانی ،اپنی طاقت، اپنے ہنر، اپنی زندگی ،تمہاری خاطر راکھ کر دی .
اور ذرا سی بھی انسانیت اس مرد میں ہے تو اسے عزت سے اپنی زندگی سے رخصت کر دے . ورنہ یہ حق وہ اپنے پاس تو رکھتی ہی ہے. ہمارےمعاشرے میں بچے پہلے عورت کے پاؤں کی بیڑی بن جاتے ہیں اور جوان ہو کر اسی عورت کے گلے کا پھندا. شادی کو عورت کے لیئے تحفظ اور سکون کے رشتے کے بجائے شاید اسے توڑنے اور اذیت دینے کا ایک ذریعہ بنا دیا جاتا ہے . جہاں نہ اس کی کوئی ذات باقی رہے، نہ اس کا کوئی ہنر بچے، نہ ہی اس کا کوئی شوق سلامت رہنے دیا جائے .اس کی اپنی شخصیت کو مرد اور بچوں کے جوتوں کے نیچے کچل دیا جائے . جبکہ اسے بھی اللہ نے ایک جیتے جاگتے دل دماغ اور کچھ صلاحیتوں کیساتھ اس دنیا میں پیدا کیا ہے .
افسوس اسے انسان سمجھنے اور اس کے جذبات کی قدر کرنے والے دنیا میں بہت کم لوگ پائے جاتے ہیں.  لیکن خدا کو جوابدہ سبھی کو ہونا پڑے گا، اسے انسان سمجھنے والوں کو بھی اور نہ سمجھنے والوں کو بھی ۔                                                              ---------    



اتوار، 22 اکتوبر، 2017

اچھی رہنمائی اچھا مستقبل / کالم



 اچھی رہنمائی اچھا مستقبل 
ممتازملک. پیرس 

اب  وہ وقت گزر گیا ہے جب بچہ گریجویشن یا ایم اے کرنے کے بعد بڑا آدمی بن جایا کرتا تھا . اب تو مقابلے کا زمانہ ہے جناب . جو شخص اپنے شعبے میں جتنی عملی مہارت رکھتا ہے وہی آگے نکل پاتا ہے . ہر جدید علم اور ٹیکنالوجی سے باخبر رہنا وقت کی اہم ضرورت اور کامیابی کے کنجی ہے. ایسے میں  بچوں کو ان کے مستقبل کے لیئے مضامین کے چناو میں رہنمائی کی اشد ضرورت ہوتی  ہے .  بدقسمتی سے ہمارے  اکثر تعلیمی اداروں میں ایسی کسی کونسلنگ کا کوئی انتظام ہی نہیں ہے 
 اور جن ممالک میں یہ انتظام موجود بھی ہے وہ سو فیصد مثبت رہنمائی پر مشتمل ہی نہیں ہے . کیوں کہ کونسلرز کی اکثریت بچے کو رہنمائی کرنے سے زیادہ اس پر اپنی رائے مسلط کرنے کی فکر میں ہوتی ہے . یہ سوچے سمجھے بنا کہ اس کے نتیجے میں اس بچے کا سارا مستقبل داؤ پر لگ جائیگا .  اس لیئے ضروری ہے کہ ادارے اچھے اور ذمہ دار کونسلرز کا  اپنے اداروں میں تعین کریں . اور انہیں بچے کے رجحان کو سمجھنے کے لیئے اسے کم از کم ایک سال تک چھوٹے چھوٹے مختلف مضامین اور ٹیکنیکس کے ٹیسٹ کے ذریعے  پرکھا جائے . انہیں مختلف سوالنامے حل کرنے کو دیئے جائیں . جسے حل نہ کرنے کی صورت میں  اس پر دباو نہ ڈالا جائے بلکہ سمجھا جائے کہ اسے کس ٹائپ کے سوالنامے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے . گویا بچے کی جانب سے یہ بھی اس مضمون میں عدم دلچسپی کا بھرپور اظہار ہے . سو اگلے مضمون کا سوال نامہ اسے سونپا جائے . یا بہت سے سوالنامے الگ الگ مضامین  پر تیار کیئے جائیں اور طالبعلم کے سامنے ایک ساتھ رکھے جائیں اور اسے مکمل اور خوش کن اختیار دیا جائے کہ  جو چاہو سوال نامہ پر کرنے کے لیئے اٹھا لو . اور اس کے منتخب کردہ سوالنامے پر کسی کو اعتراض کا کوئی حق نہیں ہونا چاہیئے . کیونکہ یہ اس طالبعلم کی پوری زندگی کا دارومدار ہے .اس کے ساتھ نہ تو آنے والی زندگی میں کام تلاش کرتے ، نوکری کرتے یا کاروبار کرتے وقت آپ میں سے یا والدین میں سے بھی کوئی اس کے ساتھ نہیں ہو گا . اسے روزگار کمانے کی جنگ اکیلے ہی لڑنی ہے اور مستقبل بنانے کا سفر اکیلے ہی طے کرنا ہے . سو اس کا اختیار بھی صرف اسی کے پاس ہونا چاہیئے 

بچوں کو پروفیشنل اور ٹیکنیکل  ڈگری کی جانب راغب کیا جانا بھی بے حد ضروری ہے .
ورنہ خالی جولی چار چار ایم اے بھی اس کے روزگار کی ضمانت نہیں ہو سکتے .
ابس لیئے اب یہ بچے کی پسند  اور دلچسپی پر منحصر  ہے کہ وہ  کمپیوٹرز پروگرامز میں ہے یا
تعمیراتی کاموں میں ،فیشن سے متعلق شعبوں میں (جس میں  میک اپ ، سٹچنگ،  ڈیزائننگ اور اس سے متعلق بےشمار موضوعات شامل ہیں)
انٹیرئیر یا ایکسٹیرئیر ڈیکوریشن  کے مشامین. ..
پاکستان اور دنیا بھر میں بہت اچھے ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹس  موجود ہیں . جو آپ کو پروفیشنل اور ٹیکنیکل  تعلیم کیساتھ اپنے پیروں پر  خود مختار طور پر کھڑا کرتے ہیں .
لیکن یاد رکھیں طالب علم کو  جبرا کوئی مضمون اختیار مت کروایئے اس طرح اس کی کامیابی  کے  امکانات آدھے رہ  جاتے ہیں . اسے سارے مضامین سامنے رکھ کر ان میں سے  اس مضمون  کو چننے کی اجازت دیجیئے جس میں کام.کر کے وہ  دلی خوشی محسوس کرے اور اپنے مضمون اور کام کو انجوائے کرے.تبھی وہ اسمیں کمال دکھا پائے گا
. ممتازملک  . پیرس 






ہفتہ، 3 دسمبر، 2016

ہمارے بچے ہمارا امتحان/ کالم




کہتے ہیں کہ جب بھی کوئی بچہ اس دنیا میں آنکھ کھولتا ہے تو یہ امید بھی ساتھ لاتا ہے کہ خدا ابھی انسان سے ناامید نہیں ہوا ہے . تو گویا ایک انسان کی پیدائش رب کی امید لیکر آتی ہے اور یہ امید یقینا خیر کے کام کی ہی ہو سکتی ہے،  بے خیری کی تو ہو  نہیں سکتی . کیونکہ یہ امید تخلیق کار   کی اپنی تخلیق سے ہے . 
ہم بار بار اللہ کے بعد اسے دنیا میں  لانے والے کے حقوق تو زورشور سے بتایا ہی کرتے ہیں. لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ آنے والا کوئی چھ فٹ کا کماتا  ہوا طاقتور جوان نہیں ہے بلکہ گوشت پوست کا ایک تین کلو کا معصوم سا وجود ہے جو اپنی ہر ضرورت کے لیئے آپ کی مدد کا محتاج ہے . تو اس کی مدد کیسے کی جائے ؟

اس بچے کو دنیا میں لانے سے پہلے خود کو ذہنی جسمانی اور مالی طور پر اس کی تعلیم و تربیت اور پرورش کے لیئے تیار کیا جائے  اور بچے کو اندھیرے کا تیر سمجھ کر نہ چلایا جائے بلکہ اس کو اس معاشرے کا، بلکہ دنیا کا ایک بہترین فرد بنانے کے لیئے ہر ممکنہ سہولت دی جائے . محبت اور اعتماد کی کھاد اس کی جڑوں میں ڈالی جائے . انصاف کی فضا اپنے گھر سے میسر کی جائے .
جہاں اس کا حق اس کے مانگے بنا ملے گا اور کوئی بہن بھائی یا ماما  چاچا اس کی زندگی کا دخیل نہیں ہو گا تو بچہ بھی کل کو آپ کو ہی نہیں  ساری دنیا کو اس کے حقوق بنا مانگے دینے کا اہل ہو گا .
ہمارے ہاں ہمیشہ بچوں کو یہ سکھانے پڑھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ماں کے یہ حقوق ہیں، باپ کے یہ حقوق ہیں ، بہن بھائیوںکے یہ حقوق ہیں، 
تمہارے انکی طرف یہ فرائض ہیں،وہ فرائض ہیں ..
یہ نہ کیا تو جہنم میں جاو گے....
وہ نہ کیا تو برباد ہو جاو گے..
اور باپ کے حقوق تو مائیں ویسے  بھی بیان کرنا ضروری نہیں سمجھتیں ہیں . حالانکہ ماں اگر جنت ہے  تو اس جنت کا دروازہ تو ہوتا ہی دراصل اس کا باپ ہے . اور ہماری مائیں اپنے بچوں کو بغیر دروازے کی جانے کون سی جنت میں داخل کرنے کا منصوبہ بناتی رہتی ہیں . جس کے لیئے باپ کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے . اور تو اور ایسے میں کبھی کسی نے یہ کیوں نہیں بتایا کہ اس بچے کے اس کے پیدا کرنے والے پر بھی کچھ حقوق ہیں . جو انہیں بھی جہنم میں لے جا سکتے ہیں .  آخرت میں اللہ کے سامنے جوابدہ کرتے ہیں. جبکہ عورتوں اور بچوں کے حقوق اور حفاظت کی بارہا تلقین فرمائی  گئی ہے . 
ہمارے ہاں بدقسمتی سے قرآن پاک کو تعلیمی اور تربیتی نقطہ نظر سے نہ کبھی دیکھا گیا ہے نہ ہی اس سے استفادہ حاصل کیا گیا ہے . 
اسے صرف ڈرانے اور کم علموں کو دبا کر ان سے فوائد حاصل کرنے کے لیئے ہی استعمال کیا گیا ہے . ورنہ ہماری زندگی کا ایک ایک پل اس کی روشنی میں منور ہو سکتا ہے .
ہمارے ہاں عورت اور بچے جس قدر غیر محفوظ ہیں وہ ایک خوفناک صورتحال ہے . کسی بھی خاتون کو رات کیا دن میں کہیں اکیلا (لاکھ پردے میں ہی) کھڑا کر کے دیکھ لیں ....
کسی بچے کو کھڑا کر کے دیکھ لیں ...کیسے گوشت کی بو سونگھتے کتے کی طرح ان کے شکاری پہنچتے ہیں ...
بچے پیدا کرو، یہ تو  ہمیں معلوم ہے لیکن کتنے  پیداکرو ،کہ پال سکو،  یہ کہہ دے کوئی تو سمجھیئے، اپنا ہی سر منڈوانے والی بات ہے . تربیت تو بہت دور کی بات ہے . ہمارے ہاں بچہ ہماری ذمہ داری نہیں، ہماری جاگیر ہوتا ہے ..سو اسے جاگیر کی طرح ہی برتا بانٹا اور کاٹا جاتا ہے .
اللہ پاک ہمیں بچے کو دنیا میں لانے سے پہلے اس کی پرورش اور تعلیم و تربیت کا شعور عطا فرمائے.
یاد رکھیئے ماں باپ کا حق بعد میں شروع ہوتا ہے اس سے پہلے ہم پر بچے کا حق لاگو ہوتا ہے .
جس میں یہ شامل ہے کہ ہم اسے محبت اور حفاظت کیساتھ اچھا طرز ذندگی اور تعلیم و تربیت دے سکیں .
اور اسے یہ بتا سکیں کہ کب ،کہاں کس ، سے ،کس طرح بات کرنی ہے اور کس سے کیسے اور کتنا تعلق رکھنا ہے . اس کی خوشیوں کو اپنی خوشی کی طرح محسوس کیا جائے اور  اسکی  پریشانیوں کو محبت سے  اپنے تجربات کی روشنی میں مشاورت سے حل کیا جائے. 
  ورنہ روز قیامت ہمارے گریبان کو ہمارے بچوں  کے معصوم ہاتھوں سے کوئی  نہیں بچا سکتا .
        ممتازملک. پیرس

جمعہ، 1 جولائی، 2016

آپ کے سر محتاجوں کا قرض / کالم


آپ کے سر محتاجوں کا قرض
تحریر: (ممتازملک. پیرس)


رمضان المبارک کا مہینہ بھی اپنی پوری رونقیں اور برکتیں سمیٹے رخصت ہو رہاہے . اس ماہ مقدسہ کا مقصد جہاں ہمیں دوسروں کی تکالیف کا احساس دلانا ہے وہیں دوسروں کے کام آنے میں بھی ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی ترغیب بھی دلاتا ہے .
اس کے لیئے دوسروں کی بھوک اور پیاس کا احساس کرنا جسمانی قربانی ہے تو مال خرچ کر کے مالی قربانی کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے . جیسے کہ عید کی خوشی میں ماہ رمضان کا چاند دیکھنے سے لیکر شوال  کا چاند نظر آنے تک ہر انسان مرد و زن ، جوان اور بوڑھے مسلمان پر فرض کر دیا گیا ہے . چاہے کوئی رمضان المبارک کا چاند دیکھتے ہی چند منٹ میں ہی وفات پا جائے یا کوئی شوال کی چاند سے چند گھنٹے پہلے پیدا ہوا ہو . ہر ایک پر رمضان المبارک کا فطرانہ ادا کرنا اس کے لیئے لازم ہے . یا وہ خود دے یا اس کی جانب سے اس کے گھر کے افراد دیں .
اور فطرانہ دینے کے لیئے عید کی نماز کے وقت اکثر لوگوں کو پریشان ہوتے دیکھ ہے . بھئ  آخر آپ کو یہ فرض ادا ہی کرنا ہے تو رمضان کے آغاز کیساتھ ہی کسی ضرورت مند کو وہ رقم پہنچا دیجیئے تاکہ وہ اسے رمضان المبارک میں یا عید کے ضروری اخراجات میں استعمال کر سکے .
یوں کسی کی  عزت نفس بھی سلامت رہیگی اور آپ کو بھی اپنی عید اطمینان کیساتھ منانے کا موقع مل سکے گا سو جلدی کریں اور ذہن نشیں کر لیں .کہ
ضروری نہیں ہے کہ فطرانہ عید کے روز ہی ادا کیا جائے بلکہ احسن تو یہ ہے کہ رمضان کا مہینہ پاتے ہی پہلے ہی ہفتے میں اس کی ادائیگی کر دی جائے . تاکہ یہ رقم کسی ضرورت مند کو بھی عید منانے کے قابل کر سکے . اور عید کا چاند دیکھتے یا اعلان ہوتے ہی چآہے کوئی پیدا ہو یا وفات پا جائے، روزہ رکھے یا نہ رکھے فطرانہ کی ادائیگی اس پر واجب ہو گئی .
اور جو لوگ فطرانہ ادا نہیں کرتے نہ تو ان کے روزے قبول ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کی عید کی نماز قبول ہوتی ہے . کیونکہ آپ کے سر محتاجوں کا قرض جو موجود ہے .اور ہر مسلمان پر جس نے یہ ماہ صیام  پایا ان سب پر فطرانہ واجب ہے.

بدھ، 13 مئی، 2015

● پاکستانی مرد اور آئیڈیل شوہر۔۔۔۔۔۔ ہیں جی !!!!!!!!!! / کالم





پاکستانی مرد اور آئیڈیل شوہر۔۔۔۔۔۔
 ہیں جی !!!!!!!!!!
تحریر/ممتازملک ۔ پیرس 



پاکستانی مردوں کو اچھا شوہر سمجھنے والی غیر ملکی خواتین کیساتھ ان مردوں کا رویہ اور اتنی اچھائیوں کی وجہ جاننے کا ہمیں بہت ہی خبط ہوا تو ہم نے اس پر ان تجربات سے گزری خواتین کو اس موضوع پر بات کرنے کے لیئے تیار کرنے کی ٹھانی  ۔ 
میری ملاقات  کئ ایسی غیر ملکی خواتین  سے ہوتی رہتی ہے جو پاکستانی مردوں کو آئیڈیل شوہر سمجھنے کے بھرم میں مبتلا ہو تی ہیں .ہمیں بھی ان پر   ریسرچ   کر نے کا شوق چرایا خاص طور پر اس وقت جب ایک عرب ملک کی خاتون نے فرمایا کہ میرا شوہر پاکستانی ہے اور اب میری بہن جو پینتیس سال کی ہو کر بھی اس لیئے شادی نہیں کر رہی کیونکہ وہ بھی کسی پاکستانی  شوہر کی تلاش میں ہے .ہم نے جب ان کے شوہر کے بارے میں دریافت کیا تو بولیں میں نے اور میری ایک یورپئین دوست نے پاکستانی مردوں کے اخلاق و کردار سے متاثر ہو کر ان سے شادیاں کیں۔
میں پوچھا مثلا کیا خوبیاں دیکھیں ؟تو گویا ہوئیں کہ جیسے میرے میاں نے مجھے کبھی کسی سے ملنے سے نہیں روکا .ہمیں جتنی رقم درکار ہو آج تک دینے سے منع نہیں  کیا .ہمیں کبھی سسرالیوں کے جھنجھٹ میں نہیں ڈالا. یہاں اس کا کوئ عزیز آ بھی جائے تو کیٹرنگ آرڈر کر دیگا اور ہمیں کبھی ان کی خاطروں میں نہیں الجھاتا. ہفتے میں کئی بار اپنے ہاتھ سے کچھ نہ کچھ بنا کر کھلاتاہے .ہمیں اور ہمارے بچوں کو سال میں جب چاہیں چھٹیوں میں ہماری من چاہی جگہ پر بھیجتا ہے .میں جیسا چاہوں لباس پہنوں سلیولیس ہو یا منی سکرٹ اسے کوئ مسئلہ نہیں ہے .ہر خاص دن پر چاہے میری یا میرے بچوں کی یا شادی کی سالگرہ ہو یا عید تہوار نیا سال ہو یا ویلنٹائین کہے بنا ہمارے تحفے اور پروگرام ارینج کرتا ہے . بلا کے خوش لباس ہیں پاکستانی شوہر  . میں کہیں بھی کتنی بھی لمبی سیر کے لیئے جاؤں اس نے مجھے کبھی نہیں روکا ٹوکا. میرے لیئےاور بچوں کے لیئے دنیا کے کسی کونے میں چلا جائے تحائف لائے بنا نہیں رہتا.............
میرے کانوں میں یہ سب سن کر جانے کس کس خیالی مندر کی گھنٹیاں بچتی رہیں اور آنکھوں میں ان تمام پاکستانی مظلوم خواتین کی صورتیں گھومتی رہیں .جنہیں ان کے پاکستانی  آئیڈیل شوہروں نے کھانے میں نمک کم اور زیادہ پر مار مار کر ادھ مُوا کر دیا .کبھی لڑکی پیدا کرنے پر قتل کر دیا یا طلاق دے دی کبھی اپنی امّاں کو خوش کرنے کے لیئے اس کی کھال کے جوتے بنائے. کبھی بھائ کی محبت میں پیٹ ڈالا .کہیں ساری ساری زندگی ان کا اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں سے ملنا روک دیا .کہیں دو وقت کی روٹی کے لیئے عورت کو ایک لونڈی سے بدتر حالات میں رہنے پر مجبور کر دیا .اور میں سوچنے لگی یا اللہ ساری دنیا کو پاکستانی مردوں کا بلند اخلاق اور کردار نظر آ گیا . ہم پاکستانی عورتوں کو بھی ایسے ہی پاکستانی شوہر عطا فرما دے کہ جن کی کہانی ان غیر ملکی خواتین نے سنائی ہے . لیکن اس سے پہلے کہ میں چند ماہ بعد اگلی ملاقات پر ان میں سے ایک غیر ملکی خاتون سے یہ پوچھتی کہ اس برانڈ کے آئیڈیل پاکستانی شوہر کس مارکیٹ سے ملتے ہیں اس خاتون نے چھوٹتے ہی اپنے گھر والوں کی خیریت بتاتے ہوئے خبر دی کہ اس کی اور اس کے آئیڈیل پاکستانی شوہر کی طلاق ہو گئ ہے .
پوچھا کیوں؟ تو بولی اپنے ایک بھائ کو گھر لے آیا تھا اور بولا کہ یہ ایک ہفتہ میرے پاس رہیگا . اس کا خیال رکھنا .تو میں نے جھٹ کہا کہ میاں اسے کسی ہوٹل میں ٹہراؤ . بس اسی پر بات طول پکڑ گئ اور طلاق ہو گئی .  اب اسکا سارا کاروبار اور گھر پچاص فیصد میرے ہیں . ویسے پاکستانی مرد بڑے آئیڈیل شوہر ہوتے ہیں. میں دوسری شادی بھی کسی پاکستانی  سے ہی کرنے کا سوچ رہی ہوں . یہ بہت عیش کراتے ہیں آپ کی ایک یورپئین دوست کا شوہر بھی پاکستانی  ہے نا!
 ہم نے جھجھکتے ہوئے سوال کیا تو ہنس کر بولی ارے ہاں اس کا تو تین سال پہلے ہی طلاق ہو گیا تھا. اس نے تو پہلے ہی سارا بینک بیلنس اپنے نام کروا لیا تھا اب وہ کہیں نوکری کرتا ہے اور سنا ہے کوئ  پاکستانی مسکین سی لڑکی بیاہ کر لایا ہے . .. ..

اور میں  سوچتی رہ گئی کہ سولہ سال عیش کرانے کے باوجود جو عورتیں سولہ منٹ آپ کی خوشی کا کوئی کام نہیں کر سکتیں اور آپ ان کے آئیڈیل بننے کے لیئے ذلالت بھرا آئیڈیل بننے کو تیار ہو جاتے ہیں (کبھی ہو سکے تو جو مردانگی یہ اپنی پاکستانی بیویوں کو دکھاتے ہیں کبھی ایک بار ہی سہی ان بدیسی بیویوں کو بھی  دکھا کر تو دیکھیں کہ ان کے ساتھ ہوتا کیا ہے ) ان پاکستانی مردوں سے کوئ پوچھے کہ بھائ کبھی سولہ دن بھی اپنی پاکستانی بیوی کیساتھ انکی مرضی کے گزارے ہیں ۔ اگر گزارے ہوتے تووہ تاحشر تمہاری غلام ہو جاتی . اور انہیں دنوں کی دید میں تمہاری محبت کی یاد میں ہی تم سے شکوہ کیئے بنا ساری عمر گزار دیتی ۔ جبھی تو کہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
کالے رنگ دا بادام ہوسی 
جیوندیاں وی تیری آں
مویاں مٹی وی غلام ہوسی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔




جمعہ، 2 مئی، 2014

مزدور یا مجبور/ کالم




مزدور یا مجبور
ممتازملک۔ پیرس

مجھکو تھکنے نہیں دیتا یہ ضرورت کا پہاڑ 
میرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے

''مزدور کی مزدوری اسکا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اد کر دو'' ۔ ہم میں سے کون ہے جس نے یہ حدیث پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کبھی کہیں کسی نہ کسی موقع پر کبھی نہ سنی ہو لیکن ہم میں سے ہی کتنے ہیں جنہوں نے اپنی پوری اب تک کی ذندگی میں مزدور کی مزدوری اس کے مانگنے سے پہلے ادا کر دی ہو ۔ ہماری روایت رہی ہے کہ جب تک مزدور ہماری چوکھٹ پر تڑپنے لگے جھولیاں پھیلا پھیلا کر بددعائیں نہ دینے لگے تب تک ہمارا ہاتھ ہماری جیب میں جاتا ہی نہیں ۔ ہم سب کو گھروں میں، دکانوں میں ، فیکٹریوں میں ملاذمین تو چاہیئیں۔ بلکہ ہمارا بس چلے تو ہمیں کروٹ لینے کے لیئے بھی ملازم مل جائے ،لیکن بس مزدوری نہ مانگے ۔ ہمیں ہماری تنخواہ ہو سکے تو بغیر کسی محنت کے ملنی چاہیئے لیکن ہمارے پاس کام کرنے والے کو تنخواہ دینے کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ ملازمین اور خصوصا گھریلو ملازمین کے ساتھ تشدد اور بربریت میں کس قدر تیزی آئی ہے غریب لوگوں کے معصعم بچوں کو کسی نہ کسی مجبوری کے تحت کام  کا جھانسہ دیکر اپنے گھروں میں ملازم رکھا جاتا ہے اسکے بعد ان کے سے اسقدر کام لیا جاتاہے کہ کسی بڑے آدمی کے بھی بھی بس میں وہ سارا کام اتنے وقت میں ممکن نہ ہو ۔ پھر ان بچوں کو ایسی سختیوں سے گزارا جاتا ہے جو کہ خرکار کیمپوں کے حوالے سے ہی سنی جاتی تھیں اور اس پر بھی اذیت ناک بات یہ کہ یہ سب کرنے والے کوئی اجڈ گوار نہیں ہوتے بلکہ خوب پڑھے لکھے ، الٹرا موڈ کہلانے والے  اور انتہائی ماڈرن لوگ ہوتے ہیں ان میں ڈاکٹرز بھی ہیں نامی گرامی وکلاء بھی ہیں تو بڑے بڑے بزنس میں بھی ہیں ۔ پچھلے کچھ عرصے کے ہی انڈوپاک کے اخبارات  اٹھا کر دیکھ لیں نیوز ہی سن لیں کہ کیسے کیسی امیر کبیر اور پڑھے لکھے لوگوں نے اپنے ملازمین کے ساتھ کیسی کیسی شرمناک حرکتیں کی ہین اور کیسی کیسی اذیتناک صورت حالات سے دوچار کر کے ان کو موت کے گھاٹ اتارا ہے ۔  اور ہمارا قانون افیم کھائے سو رہا ہے ۔ نہ تو آج تک ان کے مجرمان کو عملی سزائیں ہوئی ہین نہ ہی کوئی شرمندگی ان کے چہروں سے نظرآئی ۔  ہم لوگ اب بھی خود کو انسان کہتے ہیں اور اس پہ طُرّہ یہ کہ مسلمان بھی کہتے ہیں ۔ ان گھروں میں یا دکانوں میں کام کرنے والے لڑکے لڑکیوں کے ساتھ کیسی کیسی ذیادتیاں کی جاتی ہیں۔یہاں تک کہ پیٹ بھر کھانا تک نہیں دیا جاتا ۔  ایک ایک پیسے کے لیئے انہیں کیسے تڑپایا جاتا ہے یہ سوچ کر ہی ان کی روح کانپ اٹھنی چاہیئے کہ ان کی جگہ ان کی اپنی اولاد ہوتی تو کیا ہوتا ۔ یہ آدھے پیٹ کام کرنے والے مذدور جو آپکے گھروں کو فیکٹریوں کو دکانوں کو رواں رکھتے ہیں یہ ہمیں اس بات کا ہر لمحۃ احساس دلاتے ہیں کہ جگہ بدلتے دیر نہیں لگتی ۔ شکر کیجیئے پیدا کرنے والے کا کہ اس نے آپ کو دینے والوں میں شامل کر رکھا ہے ورنہ مانگنے والوں میں بھی کھڑا کر دیتا تو ہم اور آپ کیا کر لیتے ۔   اور یاد رکھیئے کہ یہ سب لوگ جو ہمارے ماتحت اللہ کی مشیعت سے کیئے گئے ہیں، یہ سب ہماری رعیّت میں شامل ہیں اور ہم انکی ایک ایک تکلیف اور ایک ایک آہ کے لیئے جواب دہ ہیں ۔ یہ آپ سے بھیک نہیں مانگتے اپنی محنت کا عوضانہ طلب کرتے ہیں ۔ تو دل بڑا کیجیئے اور ان سے کام لینے سے قبل اپنی حیثیت اور اپنی جیب میں جھانک لیجیئے کہ آپ میں ان کی اجرت دینے کی سکت موجود ہے ۔ کیوں کہ مذدوری کرنا بھی سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ہے اور آپ مزدور کی اجرت نہ دیکر کہیں سنت رسول کا مذاق تو نہیں اڑا رہے ۔ ہاتھوں کی لگائی یہ گرہیں خدا نہ کرے کہ ہمیں کہیں دانتوں ہی سے کھولنی  نہ پڑ جائیں ۔ گزرا ہوا وقت تو پلٹ کر کبھی نہیں آسکتا لیکن آج ہی ہمیں اپنے آپ سے عہد کرنے کی ضرورت ہے کہ   جب بھی ہم کسی بھی شخص کی خدمات کسی بھی کام کے لیئے حاصل کریں گے اس کی اجرت اس کے کام شروع کرنے سے پہلے طے کریں گے اور مانگے بنا جو بھی ادائیگی طے ہو گی بنا کسی حیل و حجت کے اس کی ہتھیلی پر خوش دلی سے رکھ دیں گے ۔ یہ نہیں کہ 50 روپے پر بات طے ہو اور کام ختم ہونے پر اسکے ہاتھ میں 30 روپے  احسان جتاتے ہوتے بھیک کی طرح ڈال دیئے ۔ یہ ظلم بھی ہے ، تکبر بھی ہے اور وعدہ خلافی بھی ۔ یہ تینوں چیزیں خدا کے عذاب کو دعوت دیتی ہیں ۔ دوسرا گھروں میں کام کرنے والی خواتین اور بچیوں کو بھی اپنی ہی ماں بیٹیوں جیسی نظر سے دیکھیں کہ انہوں نے آپ سے اپنی محنت کا سودا کیا ہے عزت کا نہیں ۔ ان کی عزت بھی اتنی ہی قیمتی ہے جتنی کہ آپ کے گھر کی عورت کی ۔ ان پر زہنی اور جسمانی تشدد سے پرہیز کریں کہ کہیں ان کے آہ آپکے خاندان اور اولاد ہی کو نہ کھا جائے ۔ یہ سزائیں فوری نظر تو نہیں آتی ہیں لیکن ملتی ضرور بالضرور ہیں ۔ اپنے دل میں رحم اور خدا کا خوف پیدا کیجیئے ۔  تاکہ خدائے پاک بھی آپ پر رحم کرنا پسند فرمائے ۔ کیونکہ

کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
 خدا مہر باں ہو گا عرش بریں پر 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اتوار، 14 اکتوبر، 2012

توکّل / کالم

 توکّل
میں نے سیکھا ہے کہ
توکّل کو بھروسہ بھی کہہ سکتے ہو اور یقین بھی ۔
گویا کہ یہ ایک ایسی خوبی ہے کہ جس میں پیدا ہو جاۓاس کی خدا سے شکایتیں ختم ہو جاتی ہیں ۔
وہ جان جاتا ہے کہ جس ذاتِ پاک نے اسقدر پیار سے پیدا کیا ہے اپنی
ہر مخلوق سے زیادہ اختیار اور ذہانت عطاکی ہے۔
کیا وہ میرے حصے کی کوئ بھی خوشی یا کامیابی لکھنا بھول گیا ہو گا؟
نہی نا!!
بلکل ا یسے ہی ہمارے پیدا ہونے سے پہلے ہی ہماری بہت سی باتوں کو ہمارے لۓ طے کر لیا جاتا ہے اور ہم اپنے حصے کی کامیابیوں کو اچھے یا برے جس بھی رستے سے ڈھونڈتے ہیں ایک مقررہ وقت پر ہی اسے پا سکتے ہیں ۔نہ اس سے پہلے نہ اسکے بعد ۔
اور مقدر سے زیادہ تو کسی کو بھی کچھ نہیں ملتا۔تو پھر کسی ک منہ لال دیکھ کر اپنا منہ چانٹا مار کر لال کرنے سے کیا حاصل۔
لہذا جان لینا چاہیۓ کہ توکل ہی سب سے بڑی دولت ہے۔
تحریر۔ممّتاز ملک

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/