ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک
اردو شاعری ۔ اور وہ چلا گیا لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
اردو شاعری ۔ اور وہ چلا گیا لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

پیر، 22 جولائی، 2024

* عمر گزاری ہے/ اردو شاعری ۔ اور وہ چلا گیا


عمر گزاری ہے 

لو یو لو یو کرتے کرتے اس نے عمر گزاری ہے 
جھوٹ کا لو یو سچ کی خاموشی پر ہر دم بھاری ہے

ہر  بات کھلی ہے اور یہاں  ہر راز سے پردہ اٹھا ہے
 دل پھر بھی  تسلیم کرے نہ، ایک عجب لاچاری ہے

راہنما خود بھٹکا ہے اور آقاؤں کی دہشت ہے
 کیسا انتخاب ہے جو غیرت پر ضرب کاری ہے 

حق بات کہو تو غداری کی سندیں ہوتی ہیں جاری
ایمان کا سودا طے کرنا ہی کاہے کی دلداری ہے

بند یہاں بندہ سکتا ہے جو لوٹ مچی ہے ہر جانب  
ایمان سلامت ہو اپنا اور  شرط محض بیداری ہے

حد ہوتی نافرمانی کی حد ہوتی ہے گستاخی کی
یہ بات اسے سمجھانے میں پیش آتی 
ہر دشواری ہے

ان گلیوں میں کیا رکھا ہے ممتاز سوا بہروپیوں کے
نت روز تماشے ہوتے ہیں اک اور کی  اب تیاری ہے
۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات، 18 جولائی، 2024

* عجب ‏بات ‏/ ‏اردو شاعری۔ اور وہ چلا گیا ‏

  
عجب بات 

جس کے بغیر جینا تصور محال تھا 
اسکے بغیر خوش ہوں عجب بات ہے  لوگو

کتنی  طویل کتنی ہو صبر آزما مگر 
کٹ جائیگی کہ رات تو ہے رات دوستو

کوئی بڑائی زیب نہ دے ہم پہ دوستو
سب سے بڑی تو ایک وہی ذات دوستو

مجھکو میرے عدو سے بہت دور کر 
دیا
رحمت لگائے بیٹھے میرے گھات دوستو 

عمروں کی نیکیوں کا صلہ اس طرح ملا
  دکھلائی دشمنوں کی اصل ذات دوستو 

احسان فراموش کے چھینٹوں س بچائے
بدبخت کی زبان کی برسات دوستو
۔۔۔۔


 اسے بھول کر میں خوش ہوں عجب بات ہو گئی

* کبھی برسوں پہلے / اردو شاعری۔اور وہ چلا گیا


کبھی برسوں پہلے 
کلام:
(ممتازملک۔پیرس)


سلسلہ پھر وہیں یادوں کا جڑا ہے میری
جس جگہ ٹوٹ گیا تھا کبھی برسوں پہلے

اب بھی خوشبو ہے میرے ہاتھ میں اس آنچل کی
چھٹ گیا تھا تیرے ہاتھوں کبھی برسوں پہلے


مجھ کو زمزم سا مقدس ہے تیرے ہاتھوں جو
اک گھڑا پھوٹ گیا تھا کبھی برسوں پہلے


رہزنی بھی نہ تیری بھول سکے ہیں اب تک
میری ہر یادکوجو لوٹ گیا تھا کبھی برسوں پہلے


کتنے نادان ہو کیوں سچ کی ہے امید اس سے
بول کے جھوٹ گیا تھا کبھی برسوں پہلے


پرسش غم کے نہ انداز سکھا تو مجھکو
ضبط ممتاز یہاں ٹوٹ گیا تھا کبھی برسوں پہلے
●●●





* سن محرم ميرے ۔ اردو شاعری۔ اور وہ چلا گیا



سُن محرم ميرے 


سُن محرم ميرے آج زرا
تو ركھ لے ميری لاج زرا

نہ رول مجهے مطلب كے لئے
تو بن جا صحيح سرتاج زرا

سن باتيں جاہل لوگوں کی
نه مجهکو کر محتاج زرا

یه دنیا اڑیل ٹٹو ہے
نه سمجه انہیں الحاج زرا

گر میری نظر میں رہنا ہے
تک چهوڑ کے جهوٹا سماج ذرا

کوئی آنکه نہ مجھ پر اٹھ پائے
کر غیرت کا اندراج زرا

ممتاز نه جس میں ره پائے
کس کام محل یه تاج زرا
●●●

* کیا بات ہے/ اردو شاعری ۔ اور وہ چلا گیا


کیا بات ہے

چاروں جانب ہی بکھری خرافات ہے 
 کچھ تحمل کرو ایسی کیا بات ہے

آزمائش سے گھبرانا مت سوچ کر
کچھ تمہارے لیئے اسمیں سوغات ہے 

اسکے اثرات ہی یہ بتا پائینگے
اک ادھوری  سی تشنہ ملاقات ہے

تو دعاؤں سے بیزار سی روح اور 
میرے حصے میں آئی مناجات ہے

رات کے بعد ممتاز  دن  آئیگا
سوچ نہ دن کے آگے محض رات ہے 
۔۔۔۔۔۔۔۔

منگل، 16 جولائی، 2024

* مطلب پرست ۔ اردو شاعری۔ اور وہ چلا گیا


 مطلب پرست


یہ مطلب پرستوں کی دنیا ہے پیارے
یہاں ذندگی کون ہنس کے گزارے

یہاں پرخوشی میں تو ہنستے ہیں سارے
مگر ساتھ روتے نہیں ہیں ہمارے

نہ بھوکے کو دیتا ہےکوئی یہاں پر
مگر کھانے والوں کے چھینیں سہارے 

 نہین ساتھ دیتے جوناکامیوں میں  
مگر کامیابی میں جلتے شرارے 

گروں کو اٹھانا نہیں سیکھتے اور 
بلندی سے لا کر گرائیں بیچارے

ہے ذات مقدس سے نسبت کا دعوی
مگرچیلے شیطان کے ہیں یہ سارے

بےمطلب کسی بات میں یہ کیوں آئیں 
جواب انکو مل جائیں گر کچھ کرارے

نہ دین و دھرم میں کبھی مشتعل ہوں 
کہیں اور جا کر جلائیں حرارے

تعجب ہے ممتاز میں نے نہ سیکھا 
جہاں پر ہو مطلب وہیں دل بچھا رے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

* ڈھم ڈھما ڈھم/ اردو شاعری۔ اور وہ چلا گیا


ڈھم ڈھما ڈھم


زندگی ڈھول ہے پیٹے جا اسے، ڈھم ڈھما ڈھم
 زندگی ڈھول ہے ڈھول ہے، جی ڈھم ڈھما ڈھم 

ہم جو گرتے نہیں، ہے اس کی  وجہ بھی کوئی
ورنہ کہتے ہیں زمیں، گول ہے جی ڈھم ڈھما ڈھم 

اتنے لوگوں کو جہاں سے ہے ،گزرتے دیکھا 
سب نے بیکار کہا زندگی، انمول ہے جی ڈھم ڈھما ڈھم 

یہ کہیں کم تو کہیں، حد سے  زیادہ ہے جناب
اک عجب سا ہی مول تول ہے ،جی ڈھم ڈھما ڈھم 

نام ممتاز خدا کا ، مگر ایمان نہیں 
کیسا مشکوک سا ، ماحول ہے جی ڈھم ڈھما ڈھم
●●●

* میں بہت دیر سے۔ اردو شاعری. حمد ۔ اور وہ چلا گیا



مجھے گویائی دے

میں بہت دیر سے خاموش ہوں طوفاں کی طرح
کوئی تو دیکے بہانہ مجھے گویائی دے

سر پٹخنہ ہی اگر میرا مقدر ٹہرا
پھر کوئی آ کے مجھے کیسے مسیحائی دے

کیسے حرفوں میں بکھیروں میں خدائی تیری
تو تو ہر سمت ہر اک شے میں خود دکھائی دے

تیرے دیدار کو آنکھوں کی ضرورت کیا ہے
میں کروں بند جو آنکھیں تو تو سنائی دے

سرد لمحوں میں تیرے ہونے کا احساس بہت
پھر کوئی درد نہ تکلیف ہی سجھائی دے

ایک تو ہی جو میرے عیبوں پہ پردہ ڈالے
عزتیں میں نے جسے دیں مجھے رسوائی دے

 ہے وہاں اپنی پہنچ بھی نہیں ممتاز جہاں
دوست کیسا جو مجھے طعنہء رسائی دے
۔۔۔۔۔۔۔۔

* موسم نہیں ہے۔ اردو شاعری۔ اور وہ چلا گیا



موسم نہیں ہے

سمندر کی طغیانیاں کہہ رہی ہیں 
ابھی پار اترنے کا موسم نہیں ہے

تواتر سے آتے ہوئے بین سن کر 
سمجھ پاؤں دھرنے کا موسم نہیں ہے

ابھی جنتی موت سے لڑ رہے ہیں 
ابھی سج سنورنے کا موسم نہیں ہے

بہت جان لیوا ہے رخصت کا منظر 
زباں سے مکرنے کا موسم نہیں ہے

یہ کس نے کہا ہے کہ خاموش رہ کر 
کوئی وار کرنے کا موسم نہیں ہے

گلوں کو زبردستی  کچلا گیا ہے 
خوشی سے بکھرنے کا موسم نہیں ہے

ابھی کام کرنے کے کتنے ہیں ممتاز
یہ جاں سے گزرنے کا موسم نہیں ہے 

            -----

پیر، 15 جولائی، 2024

* نینوں کے در ۔ اردو شاعری ۔ اور وہ چلا گیا


نینوں کے در

نینوں کے در وا جو کر دو 
قیدی خواب رہا جو کر دو

ایک دفعہ پھر جی اٹھوں گی
پشت سے آ کر چا جو کر دو

مر کے بھی میں مر نہیں سکتی
میرے نام ہوا جو کر دو

آنکھوں میں یہ نور رہے نہ
مجھ سے جدا تم راہ جو کر دو

کنویں میں سب عیش یہ جائیں 
تم ممتاز جدا جو کر دو
       ۔۔۔۔۔۔
          

اتوار، 14 جولائی، 2024

* نہیں ‏ہو ‏سکتا۔ اردو شاعری۔ اور وہ چلا گیا


نہیں ہو سکتا


اس سے بڑھکر  کبھی اظہار نہیں ہو سکتا
صرف دو لوگوں کا سنسار نہیں ہو سکتا 

 ایک حد سے نہ تجاوز کرو سوچو اس پر
حد سے زیادہ کوئی  حقدار نہیں ہو سکتا 

آدمی پالتو ہے پھر بھی مگر آدمی ہے
سگ سے زیادہ یہ وفادار نہیں ہو سکتا 

خاموشی اپنی جگہ ہم سے وہ ناراض سہی
پر یہ سچ حاصل تکرار نہیں ہو سکتا 

میں نے اک بار لگا دی جو مہر ماتھے پر
اب یہ دشمن میرا دلدار نہیں ہو سکتا

جسکے محبوب بھی شامل ہوئے بدخواہوں میں 
ماسوا رب کے وہ لاچار نہیں ہو سکتا 

اتنے صدمات اگر جھیل کے بھی زندہ ہے
اب میرا دل کبھی بیمار نہیں ہو سکتا 


وہ جو پہلے بھی گیا تھا مجھے رسوا کر کے
وہ میرے پیار کا حقدار نہیں ہو سکتا 

اک زرا ٹھیس پہ ممتاز چٹخ جائے اگر
آبگینہ ہے وہ پندار نہیں ہو سکتا
   ۔۔۔۔۔


* ملا ہے درد مجھے۔ اردو شاعری اور وہ چلا گیا




ملا ہے درد مجھے



ملا ہے درد مجھے جب بھی  تُو قریب ہوا
ہر اک کو کب یہ تیرا پیار یوں نصیب ہوا

نوازشیں جو تیری دیکھیں مسکرانے لگے
کہ جل کے سایہ بھی میرا، میرا رقیب ہوا

دھنک کے رنگ بکھیریں ہیں میرے چاروں طرف
یہ اختیار دیا چن لے جو حبیب ہوا

ہر ایک زخم پہ رکھا ہے پھول چاہت سے
مہک اٹھی ہے میری روح کیا طبیب ہوا

کُھلا تھا چہرہ جو ممتاز ہم نہ جان سکے
عجب ہے رسم شناسائی جو  نقیب ہوا
۔۔۔۔۔۔۔رز


ہفتہ، 13 جولائی، 2024

* پیار سے مارا / اردو شاعری ۔ اور وہ چلا گیا




زندگی تو نے بڑے پیار سے مارا مجھکو
 اب نہ دے آ کے کوئی جھوٹا سہارا مجھکو 
(ممتازملک.پیرس )




زندگی تو نے بڑے پیار سے مارا مجھ کو 
اب نہ دے آ کے کوئی جھوٹا سہارا مجھ کو

مشکلوں میں مجھے ہر روز ہے، گھرتے دیکھا 
قہقہے تو نے لگائے، ہے نکارہ مجھکو 

پہلے دیکر مجھے طاقت  کا نشہ، خوار کیا
رکھدیا کر کے جہاں بھر کا، بیچارہ مجھکو 

 میں جو عادی ہوا تیرا تو پلٹ کر یکدم
ریت ہی ریت دکھائی دی کنارا مجھکو

ساری دنیا نے بتایا کہ تباہ حال ہوں میں
تیرا دعویٰ ہے کہ تو نے تو سنوارا مجھ کو

میرے اوسان خطا ہونے سے پہلے پہلے
بڑھ کے ممتاز نے سولی سے اتارا مجھ کو

------

جمعرات، 11 جولائی، 2024

* آسان نہیں ہوتا۔ اردو شاعری۔ اور وہ چلا گیا

آسان نہیں ہوتا


ہو وقت مسکرانا آسان نہیں ہوتا
دنیا سے غم چھپانا آسان نہیں ہوتا

 گھڑ گھڑ کے روز اپنی خوشیوں کا کوئی قصہ 
مخلوق کو سنانا آسان نہیں ہوتا

جو کچھ گزر رہی ہے اس سے نظر چرا کر 
کچھ اور ہی دکھانا آسان نہیں ہوتا

ہر وقت دل کا موسم اک جیسا نہیں رہتا
 جب بھی اسے منانا آسان نہیں ہوتا

 چوبیس گھنٹے دشمن رہتا ہے جو قریبی
 پل پل اسے لبھانا آسان نہیں ہوتا

ممتاز دھجیاں جو عزت کی یاں بکھیرے
 سر سامنے جھکانا آسان نہیں ہوتا
۔۔۔۔۔۔
ترجمہ کلام۔( آسان نہیں ہوندا )


* غضب ‏داستاں / اردو ‏شاعری ‏۔ اور وہ چلا گیا


غضب داستاں 


عجب ان کہی کی غضب داستاں ہے 
کہ ہر لو کے آگے دھواں دھواں ہی ہے

یہ تقدیر بھی کیا تماشا دکھائے
 کہاں اسکو جانا تھا پہنچا کہاں ہے

کبھی اسکو دیکھا تو سوچا تھا میں نے
نہیں میری منزل  یہ اسکا جہاں ہے 

بنا سوچے سمجھے جو وارد ہوا ہے 
کسی بدگماں کا وہ سچا گماں ہے 

بتاتی ہے ممتاز یہ عمر رفتہ
حقیقت سے ذیادہ تخیل جواں ہے
۔۔۔۔۔۔
 

بدھ، 10 جولائی، 2024

* تیرے نشانے پر۔ اردو شاعری۔ اور وہ چلا گیا


تیرے نشانے پر


ہم نے ڈالی نظر زمانے پر 
 دل میرا ہے تیرے نشانے پر

کیوں ہو حیران یہ تو ہونا تھا
ایک فتنے کے شاخسانے پر

وہ بھی تجھ کو بچا نہیں سکتے
جی اٹھے ہیں جو تیرے آنے پر

وہ نظر ڈالے جسکا نام لکھا
اس جھلکتے ہوئے پیمانے پر

تیر برسے ہیں اشک کی صورت
بات بدلی نہیں گھمانے پر

دھوپ پر بھی خراج لگتا ہے 
بل ہے سورج کے اس خزانے پر

اب نہ ہم سے کرو یہ فرمائش
ٹیکس لگتا ہے مسکرانے پر

قصد کرنا ہے واپسی کا عبث
سزا لازم ہے جی  لگانے پر 

اک دکھاوا بھروسہ مجبوری
رنج ممتاز  آزمانے پر 
۔۔۔۔۔۔



منگل، 9 جولائی، 2024

* سوگ ‏منائینگے ‏ہم/ اردو شاعری ۔ عید کلام ۔ اور وہ چلا گیا



سوگ 

عید کی رت میں اچانک یوں بچھڑنے والے 
عمر بھر سوگ میری جان منائینگے ہم 

دھڑکنیں ہو گئیں ساکت تیرے جاتے جاتے
کسطرح تجھکو میری جان بھلائینگے ہم

اب نگاہوں کے مقدر میں ترسنا ٹہرا
تو نہ آئے گا تجھے روز بلائینگے ہم 

بن تیرے ہم نے گزاری ہے جو لمحہ لمحہ
بعد تیرے وہ کسے حال سنائینگے ہم

زندگی اب تیری صورت ہی میں ڈھل جائیگی 
درد کی جب کوئی تصویر بنائینگے ہم

حال دل تجھ کو سناتے تھے تیرے بعد مگر 

نام لیکر کسے  ممتاز بتائینگے ہم 
-----

عید دی رت چہ اچانک اے بچھڑنے والے
عمر بھر سوگ میری جان  مناواں گے اسی

دھڑکناں رک ہی گئیاں نیں تیرے جاندے جاندے 
کسطرح تینوں میری جان بھلاواں گے اسی

ہوںڑں نگاواں دے مقدر چہ ترسنا لکھیا
تو نہ آویں گا تینوں روز بلاواں گے اسی

بعد تیرے جو گزاری اسی لمحہ لمحہ
بعد تیرے اور کنوں حال سُناواں گے اسی

زندگی ہن تیری صورت وچ ڈھل جائے گی
پیڑ دی جد کوئی تصویر بناواں گے اسی

حال دل تینوں سنڑاندے ساں تیرے باہجوں پر
لیکے ناں کس طرح ممتاز صداواں گے اسی
۔۔۔۔۔۔۔


* احساس کی کمی ۔ اردو شاعری۔ اور وہ چلا گیا


    احساس کی کمی ہے



محرومیوں کا درد یا، احساس کی کمی ہے
سوچوں کے آئینے  پر، گرد سی جمی ہے
ز کر شد نمک کم خود سے

کچھ فیصلے قضاء کے، اپنے بھی حق میں ہونگے
نبضِ حیات کب سے ،اس آس پر تھمی ہے

بیچینیوں کو گھر کا، رستہ دکھا رہے ہیں 
کیاڈھونڈتے ہیں ہم اور،کس چیزکی کمی ہے

اس حادثے کی شدّت،کس طور سے بیاں ہو
آواز رندھ گئی ہے،لفظوں میں بھی نمی ہے

رہنا ہے ساتھ اسکو، مر جائے گا وگرنہ
جو اسکےدل پہ باندھی وہ ڈور ریشمی ہے

ترتیب سے ہراک شے،رکھی ہےاپنی جا پر
پھر کیوں ہمارے اندر،اس درجہ برہمی ہے

ممتاز مجھ پہ جانے، پتھر کہاں سے برسے
احساس کے شہرکا،لہجہ تو شبنمی ہے

      ********

ہفتہ، 22 جون، 2024

* تیرے بغیر ۔ اردو شاعری ۔ عید کلام۔ اور وہ چلا گیا

تیرے بغیر

مہندی کے رنگ ہتھیلی سجائیں  تیرے بغیر
کیسے یہ چاند رات بیتائیں تیرے بغیر

آجاو  عید آ گئی اس سال بھی مگر
آئے نہ تم کیا خود کو  سجائیں تیرے بغیر

ہم نے تو خود کو گوش بر آواز کر لیا 
کیسی ہے چاہ کیسی وفائیں تیرے بغیر 

نظروں سے لوگ پوچھتے ہیں  سجتا دیکھکر
کسکو سنگھار اپنا دکھائیں تیرے بغیر 

پردیس نے تیرے جو ہے مجھ پر حرام کی 
ہر رنگ ہر خوشی جو منائیں تیرے بغیر

یہ چاند رات بھی بڑی بھاری ہے دوستو
کس کس کو دل کی بات بتائیں تیرے بغیر 

اک تیرا ساتھ ہو تو ہر اک روز عید ہے
ممتاز عہد کیسے نبھائیں تیرے بغیر
       
    ------   

پیر، 18 مارچ، 2024

* نبھانے والے. اردو شاعری ۔ اور وہ چلا گیا


ساتھ نبھانے والے 
کلام:ممتازملک۔پیرس

اب کہاں ملتے ہیں وہ ساتھ نبھانے والے
میرے ہاتھوں میں چھپے راز بتاتے والے

مانگ کے جن کے شب و روز گزر جاتے ہیں
خود سے ہو سکتے نہیں نام  کمانے والے 

دل میں تیرے چھپی خواہش کے سراپے جیسی
اک حسینہ سے شباہت میں  ملانے والے

زندہ رہنے کی کچھ امید تو بندھ جاتی تھی
چاہے جھوٹے ہی سہی خواب
دکھانے والے

    خود کو دھوکے میں نہ رکھنا ہی سمجھداری ہے
ساتھ کیا دینگے  نظر مجھ سے چرانے والے

ہم خفا ہو کے بہت دور نکل جاتے ہیں
دیر کر دیتے ہیں اکثر ہی منانے والے

اے تصور تیرے انداز انوکھے کب تھے 
زخم تو نے بھی دیئے ہم کو زمانے والے 

ہم تو ممتاز سمجھتے ہیں اسی کو ہیرو
ڈوبنے والے کو ہر طور بچانے والے
      -----

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/