عمر گزاری ہے
لو یو لو یو کرتے کرتے اس نے عمر گزاری ہے
جھوٹ کا لو یو سچ کی خاموشی پر ہر دم بھاری ہے
ہر بات کھلی ہے اور یہاں ہر راز سے پردہ اٹھا ہے
دل پھر بھی تسلیم کرے نہ، ایک عجب لاچاری ہے
راہنما خود بھٹکا ہے اور آقاؤں کی دہشت ہے
کیسا انتخاب ہے جو غیرت پر ضرب کاری ہے
حق بات کہو تو غداری کی سندیں ہوتی ہیں جاری
ایمان کا سودا طے کرنا ہی کاہے کی دلداری ہے
بند یہاں بندہ سکتا ہے جو لوٹ مچی ہے ہر جانب
ایمان سلامت ہو اپنا اور شرط محض بیداری ہے
حد ہوتی نافرمانی کی حد ہوتی ہے گستاخی کی
یہ بات اسے سمجھانے میں پیش آتی
ہر دشواری ہے
ان گلیوں میں کیا رکھا ہے ممتاز سوا بہروپیوں کے
نت روز تماشے ہوتے ہیں اک اور کی اب تیاری ہے
۔۔۔۔۔۔۔