ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک
کالم لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
کالم لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

پیر، 26 دسمبر، 2016

دوسری بیوی یا دوسری عورت۔ کالم





دوسری بیوی یا
 دوسری عورت
تحریر:
(ممتاز ملک. پیرس)





ہماری زندگی کا سچ یہ ہے کہ جہاں جذبات نہیں رہتے وہاں صرف روبوٹ رہا کرتے ہیں ..کسی نے کہا کہ جذبات بیکار شے ہیں ان کیساتھ زندگی نہیں گزاری جا سکتی .
آپ کی بات مان لیں کہ جذبات  ایک بیکار شے کا نام ہے جس پر کوئی نظام نہیں چل سکتا تو اللہ نے یہ بیکار جزبہ پیدا ہی کیوں کیا ؟عورت کو مسئلہ کہنے والا نہ انسان ہے نہ مسلمان. دنیا کی پہلی فرمائشی تخلیق عورت ہے ....
دنیا میں اللہ کے بعد تخلیق کی ذمہ داری عورت کو انہیں جذبات کے بل پر دی گئی . عورت ہی دنیا میں آنے کے بعد شفقت  اور محبت کی پہلی علامت کسی بھی انسان کے لیئے  ہوتی ہے اور اس کی بنیاد ہیں اس کے جزبات. ایک خاتون نے ایک بحث کے دوران  مرد کی دوسری تیسری اور چوتھی شادی کی بڑے دھڑلے سے وکالت کی کہ یہ اللہ کا "حکم" ہے اس میں عورت کو ہلکان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے . تو ہمیں بہت حیرت ہوئی کہ وہ اپنے شوہر کے لیئے شادی بلکہ شادیوں کی ایسی مثال  اور " حکم" کی بات پر باقاعدہ برا بھی مان گئی اور ذاتیات ذاتیات  کا رونا رونے لگیں . تو ہم نے کہا کہ بی بی عورت کو ہلکان ہونے کی ضرورت اس لیئے ہے کہ سڑک پر بچوں کی لائن لیکر وہ کھڑی ہوتی ہے مرد نہیں . دربدر عورت ہوتی ہے مرد نہیں . برا نہ مانیں تو آپ کو بھی ہلکان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے آپ نے اپنے میاں کی کتنی مزید شادیاں کروائی ہیں، دو دو یا تین تین ..آپ تو شاید کماتی بھی ہیں پھر دل تو کافی بڑا ہو گا آپ کا۔ ہم جیسی عام عورت مرد کو یہ حق دینے میں مجاز نہیں تو خلع لیکر اپنی زندگی اپنی مرضی سے کسی اور مرد کیساتھ شروع کرنے کا پورا پورا قانونی اور شرعی حق رکھتی ہے اور اس میں ہمارا کوئی باپ بھائی یا شوہر بات کرنے کے یا اعتراض کا کوئی حق نہیں رکھتا...
موصوفہ کے مطابق مردوں کو اس کی "اجازت کا حکم" ہے۔۔۔"اجازت کا حکم "تو  آپ کی نئی اختراع ہے ..اسے اپنی فرمائش کہیں تو اچھا ہے۔ دین کا حلیہ کیوں بگاڑ رہی ہیں . اور آدھی آیت یا آدھی حدیث بیان کرنا بڑی گمراہی ہے . اس آیت اور اس سے متصل آیت کے اگلے حصے کو مکمل کیجیئے..(اور نکاح کرو ایک ایک  دو دو اور تین تین لیکن عدل کیساتھ ... اور سمجھو تو تمہارے لیئے ایک ہی کافی ہے کیونکہ تم عدل نہ کر سکو گے )
یہاں اجازت دی گئی ہے . اور آگے اس اجازت کی شرائط بھی بیان کی گئی ہیں ..اسے کیوں بیان کرنے کی زحمت نہیں فرمائی  جاتی؟ وگرنہ معاشی اور اخلاقی اعتبار سے تو ایک بیوی اور دو تین بچے بھی سنبھالنے کے قابل نہیں ہے ہمارا آج کا مرد . جبھی اللہ پاک نے ہی  یہ فرما کر بات پوری کر دی کہ "اور میں جانتا ہوں کہ تم انصاف نہیں کر سکو گے۔ سو تمہارے لیئے ایک ہی بیوی بہتر ہے "۔ اب اگر اسلامی مثال ہی دینی ہے تو ...
*کیا صحابہ کرام کی بیگمات نے بہت مالدار زندگی گزاری ؟
*کیا وہ اپنی بیویوں کو ماہانہ خرچ دیتے تھے؟
*کیا ان کے پاس ہر بیوی کو دینے کا ذاتی مکان تھا ؟
*کیا ان کے بچے ان کے خرچ پر بیس بیس سال تک تعلیم حاصل کرتے تھے ؟
اور سب  سے خاص بات ...
*کیا صحابہ نے جیسے صبر شکر پر بیویاں رکھیں ، کیا آج کی کوئی دوسری یا تیسری بیوی بننے کی شوقین خاتون بھی رہ سکیں گی ؟
*کیا یہ خود اپنی ذمہ داری پر کسی سے بچے پیدا کر کے اسے پالیں گی .
* بنا خرچہ مانگے.. اس کی پہلی بیوی کی مشقت سے بنائی جائیداد میں اپنا اور اپنے بچے کا حصہ ڈالے  بنا خوشی سے زندگی گزار لیں گی ؟
کیونکہ آج اگر واقعی کوئی خاتون  محض شوہر کا رشتہ نام کو ہی  مانگ رہی ہے تو کل کو اسے چوبیس گھنٹے وہ اپنے  قدموں میں بھی چاہیئے
* پھر وہ اسے روز فرمائشیں پوری کر کے دے .
*اس کو گھر لیکر دے .
*گاڑی بھی الگ لیکر دے،
*اس کو زیورات کے تحفے دے .
*اسے ماہانہ منہ مانگا خرچ دے .
(بڑے مطالبات اور رولےشروع ہو جاتے ہیں )
*پہلی بات یہ ہے کہ مسئلہ صرف عورت کا مرد کو دوسری شادی سے منع کرنا ہی نہیں ہے بلکہ  مرد بھی معاشی لحاظ سے  آج کسی بیوی کو کجھور اور حجرے میں تو نہیں رکھے گا نہ عورت رہے گی ...
*دوسری بات کہ کتنے مرد ہیں جو کم صورت ، ان پڑھ ، مطلقہ،  اپنے سے بڑی یا ہم عمر ہی سے  شادی ہر تیار ہیں؟
"دو چار نہیں مجھ کو فقط ایک دکھا دو
جس مرد کی آنکھوں میں کوئی ایسی حیا ہو
ہم  نے ایسی کئی تیس پینتیس سال کی خواتین دیکھی ہیں.جو کنوارے مرد کے علاوہ کسی کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہیں . اب کوئی ان سے پوچھے کہ کتنے تیس سے چالیس سال کے مرد ان کو کنوارے ملیں گے ...
عموما اٹھائیس  تیس تک وہ بھی شادی کر چکے ہوتے ہیں .
اور دوسری شادی کے خواہشمند مردوں میں سب سے
* پہلا اور حقیقی حق بدکردار بیوی والوں کا...
*دوسرا حق
پہلی بیوی سے اولاد نہ ہونے والوں کا ہے .
*تیسرا حق بدزبان بیوی ہو جبکہ خود بااخلاق اور اچھے زبان و کردار کا ہو تو. ..
جو خواتین بڑے اونچے معیار کے آئیڈیل کی تلاش میں اپنی شادی کی عمر گنوا چکی ہیں انہیں دوسروں کے شوہروں پر حریص نظریں ڈالنے کی بجائے پہلے سے طلاق یافتہ ، رنڈوے یا بے اولاد دوسری شادی کے خواہشمند لوگوں کی جانب متوجہ ہونا  چاہیئے . اور اگر اولاد والے بھی ہیں تو اسے بھی اپنانے میں کوئی حرج نہیں ہے .
دوسری شادی میں اگر خاتون یا صاحب پہلے سے کوئی اولاد رکھتے ہیں تو  نئے ساتھی کو اللہ کی رضا کے لیئے انہیں بخوشی اپنانا چاہیئے۔ کوئی کام تو محض اللہ کی خوشنودی کے لیئے ہونا چاہیئے . اور ان کے ارد گرد کے لوگوں کو بھی نئی ماں یا باپ کے سوتیلے پن کا خوف اور ہوا ان بچوں کے ذہن میں نہیں پیدا کرنا چاہیئے، بلکہ ان کے دل کو نئے رشتے کے لیئے محبت اور احترام کیساتھ نرم کر کے اپنے نیکی کے موقع کو اپنے نام سے اللہ کے ہاں درج کروانا چاہیئے . اپنی عمر سے دو چار سال  بڑے انسان کو اپنا کر خاتون اپنے لیئے نفسیاتی طور پر تحفظ محسوس کرتی ہے . شادی کی عمر پار کرتی خواتین کو اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیئے ناکہ بسے بسائے ہنستے مسکراتے گھروں پر ڈائن بن کر پنجے گاڑنے چاہئیں۔ انہیں باتوں کے سبب وہ دوسری عورت کے لیبل سے جان نہیں چھڑا پاتی کیونکہ اوپر بیان کی گئی وجوہات سے آنے والی عورت دوسری عورت نہیں کہلاتی . صرف بسے ہوئے گھر میں زبردستی داخل ہونے والی عورت تادم مرگ  دوسری عورت ہی رہتی ہے .

اتوار، 31 جنوری، 2016

● (12) ٹھوکر /کالم۔ سچ تو یہ ہے




   (12)   ٹھوکر               
    تحریر: ممتازملک ۔ پیرس               
                                                 


ٹھوکر زندگی کی سب سے بڑی سچائی ہے. اس سے مفر ممکن نہیں. دنیا کا کوئی انسان ایسا نہیں ہے جو اس بات کا دعویٰ کرے کہ اس نے کبهی ٹھوکر نہیں کهائ. زندگی ٹهوکروں میں لا لا  کر ہی  ایسے ایسے سبق سکھاتی ہے کہ جو مہان سے مہان استاد یا جابر سے جابر حکمران بهی نہیں سکها سکتا. بنا عمر و جنس کی تخصیص کے یہ انسان کو داناؤں یا نادانوں کی فہرست میں کهڑا کر دیتی ہے. ہم کئ بار سوچتے ہیں کہ ہم نے اس شخص سے دوستی کیوں کی ؟ اس شخص سے تعلق کیوں رکها؟ یا اس شخص سے کوئی رشتہ کیوں جوڑا ، لیکن پهر ایک ٹهوکر لگتی ہے۔ ہماری آہ نکلتی ہے اور ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ایک بار پهر ہمارے ساتھ ہاتھ ہو چکا ہے . اور ہم سوچتے ہیں کہ کاشکہ سب کے ماتهے پر لکها ہوتا کہ  وہ کیسا انسان ہے . لیکن نہیں ۔ ایسا ہوتا تو دنیا کاہے کی امتحان گاہ ہوتی. سب کچه کائناتتوں کے رب نے بهید میں رکها . اسی لیئے تو انسان اس کائنات یا شاید سبهی کائیناتوں  کی سب سے مشکل پہیلی کا نام ہے. کبهی یہ ٹهوکر لگاتا ہے اور کبهی یہ ٹهوکر کهاتا ہے. بس یہ سمجه لیں کہ زندگی کا لب لباب ہے ایک ٹهوکر 
ٹھوکر زندگی کا ایک لازم و ملزوم حصہ ہیں تو قابل غور بات یہ ہے کہ ایک ہی جیسی ٹھوکر کا مختلف لوگوں پر مختلف اثر کیوں اور کیسے ہوتا ہے ؟
 مثال کے طور پر ایک حقیقت پیش کرتے ہیں یہ واقعہ تو ایک ہی جیسا ہے لیکن اس کا مختلف لوگوں پر ہونے والا ردعمل نوٹ کیجیئے گا ۔ 
ایک بچہ گلی میں کھیل رہا تھا اس نے آکر اپنے باپ سے شکایت کی کہ ابو مجھے فلاں بچے نے مارا ہے ۔ باپ نے اسے پاس بٹھایا اور پوچھا کیوں مارا ہے پہلے پوری بات بتاؤ ۔ پوری بات سن کر اس کے باپ نے اسے نصیحت کی کہ بیٹا اگر وہ اچھا بچہ نہیں ہو تو آئندہ اس کے ساتھ مت کھیلنا اور اگر وہ اچھا بچہ ہے تو اس کی شکایت اس کی امی یا ابا سے کرنا ۔ بچہ مطمئن ہو گیا ۔ بات ختم
ایک دوسرے گھر میں یہ ہی شکایت بچے نے کی تو باپ نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اپنے ہی بچے کو بے تحاشا پیٹ ڈالا ، خوب گالیاں بکیں اس کی ماں کو اس کا ذمّہ دار قرار دیدیا جس نے اسے یہ ہی سکھایا ہے کہ لوگوں سے پٹ کر آئے۔ اس نے خود کیوں نہیں مارا اس لڑکے کو ؟ گویا اس باپ نے اپنے بیٹے کو یہ سبق دیدیا کہ آئندہ خود بھی فساد کا حصہ بننا ہے اور اگلے کو خوب سبق سکھانا ہے ۔ یہ سوچے بنا کہ اسکا انجام کیا ہو گا ۔
اب ایک تیسرے گھر میں یہ ہی شکایت ایک بچہ اپنے باپ سے کرتا ہے ۔ کہ اسے کسی بچے نے مارا ہے ۔ تو باپ نے آؤ دیکھا نہ تاؤ جھٹ سے کمرے میں جا کر اپنا ریوالور نکالا اور تیزی سے اس دوسرے بچے کے گھر کے سامنے پہنچ کراس کے باپ کو انتہائی فحش القابات سے دروازے پر لات مار کر پکارا ۔ جیسے ہی وہ آدمی اپنے بیٹے سمیت باہر آیا اس نے بنا کچھ سوچے یہ کہتے ہوئے کہ"تیرے بیٹے کی یہ جرات کہ میرے بچے کو مارے" اس بچے پر فائر کر دیا ۔ اس بچے کو بچاتے ہوئے اس کے باپ پر بھی گولی چلا دی ، اس کے پیچھے گولی کی آواز سنکر بھاگتی ہوئی خاتون خانہ بھی نشانہ بن گئی اور تین لوگ قتل ہو گئے ۔ خود تو وہ شخص وقتی طور پر بھاگا لیکن پھر پکڑا گیا اور سزائے موت ہو گئی ۔ بیوی نے دوسری شادی کر لی ۔ سوتیلے باپ نے اسی بیٹے کو جس کی شکایت پر اتنا ہنگامہ برپا ہوا ، کو ایک یتیم خانے میں داخل کر دیا ۔ 
یہ تینوں واقعات ایک ہی جیسے تھے لیکن ان کا انجام ایک دوسرے سے بلکل الگ تھا ۔ کیوں کہ ان واقعات سے نبٹنے کا طریقہ سب کا جدا تھا ۔ لہذا نتیجہ بھی جدا نکلا ۔ یہ سارے واقعات جن کے ساتھ پیش آئے ان کی زندگی کی ایک ایک ٹھوکر تھے ۔ ایک نے اس ٹھوکر پر صبرو تحمل کا مظاہرہ کیا اور اس سے اچھا سبق لیتے ہوئے بات کو مثبت پہلو سے جانچتے ہوئے اس کا اچھا نتیجہ نکالا اور مشکل سے بچ گئے ۔ دوسرے کیس میں باپ نے اپنے جنگلی پن سے معاملے کو سمیٹا اور بچے کے دل میں اسی جنگلی پن اور انتقام پسندی کا بیج بو دیا ۔ اور وہ بچہ مستقبل کا فسادی بن گیا ۔ جبکہ تیسرے گھر کے ہر فرد کو ہی نہیں دوسرے گھر کے  افراد کو بھی ایک چھوٹی سی  بات کی ہولناک قیمت چکانا پڑی اور دو ہنستے بستے گھر برباد ہو گئے ۔ ان تمام واقعات سے یہ ہی بات ثابت ہوتی ہے کہ ایک ہی جیسے ٹھوکر لگنے کے باوجود جو چیز آدمی کو ایک دوسرے سے مختلف نتائج دیتی ہے وہ ہے اس انسان کا ظرف ، اسکی معاملہ فہمی ، اس کا صبرو تحمل  اس کی قوت فیصلہ اور اسکی قوت برداشت ۔  انسان کو ہر معاملہ میں ان خصوصیات کی ضرورت پڑتی ہے ۔ لیکن ٹھوکر لگنے کے بعد پھر سے اٹھنے والا اور مذید آگے کی جانب ترقی کرنے والا انسان ہی اصل میں کامیاب انسان ہوتا ہے ۔ دنیا میں اسی کا نام رہتا ہے جو ٹھوکروں میں ختم نہیں ہو جاتا بلکہ ہر ٹھوکر کو اپنی زندگی میں اعلی مقاصد کے لیئے ایک نئی سیکھ اور سیڑھی سمجھتا ہے جو  اس ٹھوکر کو اس کی سوچ کے بند دروازوں کو کھونے والی چابی بنا لیتا ہے ۔ وہی کامیابی کی منزل پر پہچ پاتا ہے ۔ 
          ●●●
تحریر: ممتازملک.پیرس 
مجموعہ مضامین: سچ تو یہ ہے 
اشاعت:2016ء
       ●●●
                                      

ہفتہ، 5 ستمبر، 2015

اک پھول تیرتا ہوا / شاعری ۔ کالم

 
        اک پھول تیرتا ہوا
     کلام: (ممتازملک. پیرس)


گلدستہ ٹوٹ کر یوں  سمندر میں گر گیا
اک پھول تیرتا  ہو ا ساحل پہ آ گیا

کیسی ہے بے بسی میرے اللہ کیا کروں
خنجر نشانہ لے کے میرے دل پہ آ گیا

شملہ سجا تھاجو کبھی اجداد پہ میرے
ٹھوکر  میں گر کے اب سر قاتل پہ آ گیا

اعزاز تیرے در کی طرف دیکھتا رہا
لیکن تیری وجہ سے وہ باطل پہ آ گیا

ممتاز جیتے جی نہ ہوئے سیر لب کبھی
اتناپیا کہ مرگ مقابل ہی آ گیا

یاد کیجیئے ہم سب نہیں تو اکثر یہ بات بچپن میں اپنے ماں باپ سے سنا کرتے تھے کہ بیٹا کمی اور خاندانی ہمیشہ پہچانے جاتے ہیں .اور ہم اپنی سمجھداری اور عملیت کا رعب  ڈالنے کے لیئے کہتے کہ کہا کہہ رہے ہیں آپ؟  دنیا بہت آگے چلی گئی ہے .آپ پتہ نہیں کس زمانے میں جی رہے ہیں .
لیکن آج دنیا کی اقدار دیکھ کر پھر سے وہ باتیں دل و دماغ پر ہتھوڑے برسا رہی ہیں کہ پھول کی لاش تیرتے ہوئے ساحل پر اوندھی  پڑی ہے .  بے شمار کے جسم زندگی کی تلاش میں موت کی دھاروں  پر بہہ نکلے.  اور دنیا کے چند دہائیوں پہلے تک کے بھوکے ننگے بددوں نے اپنے محلوں میں کئی کئی گز کے دسترخوانوں سے شکم سیر ہو کر مہنگے ترین جبے پہن کر ہزاروں کی پرفیوم  و عطر خود پر چھڑک کر  کروڑوں کے گھروں  سے نکل کر  لاکھوں کی چمچماتی کاروں میں بیٹھ  کرسونے چاندی سے جڑی ہوئی( عظیم الشان نہیں،   کہ یہ لفظ ان مساجد کے قیام اور انتظام  پر پورا نہیں اترتا ) مہنگی ترین   مساجد میں ایک دوسرے کو چومتے چمواتے  ان عربوں نے  بہت ہی بڑی قربانی دیتے ہوئے دکھی دل کے ساتھ  چند سو کلو میٹر پر واقع مسلم عرب  ملک شام کے مسلمانوں  کے لیئے  ( کہ جنہوں نےیہاں  ہونے والے جنگ و جدل ا ور قتل عام سے بچنے اور اپنےمصصوم بچوں کو زندہ رکھنے کی خواہش گناہگارانہ میں زمینوں کے دروازے نہ کھلنے پر سمندروں کو اپنا آپ سونپ دیا ) درد مندانہ دعائیں کیں کہ "یا اللہ ان مسلمانوں کی مشکلات کو دور کر دے .یا اللہ یورپ والوں کو ان پر رحم آ جائے . یااللہ مسلمانوں کے مسائل حل فرما . ان کو امن دے ان کو رزق دے . اسلام کو سربلندی عطا فرما . ........"
اور میرے کانوں میں  سائیں سائیں سا ہونے لگا کہیں دور سے ابا کی آواز کانوں میں آ رہی ہے بیٹا" کمی وہ ہوتا ہے جو سونے کے پہاڑ اور تیل کے کنووں کا مالک بھی ہو جائے تب بھی کسی کو دھیلے  کی مدد دینے سے پہلے سودا کرے گا کہ اسے اس کے بدلے میں کیا ملے گا ، اور خاندانی وہ ہوتا ہے جو چار دن کی بھوک اور روزے  کے بعد  اور بے روزگاری کے بعد  بھی دن  بھر پیٹ پر پتھر باندہ کر مزدوری کرنے کے کے بعد بھی سوکھی روٹی میسر آ جائے اور کوئی ضرورت مند، کوی سائل اس کی چوکھٹ پر صدا لگا دے  تو بھی خالی نہیں جاتا .خود پانی سے حلق تر کر کے اسے اس روٹی سے نواز دیگا .  "
"جو فاتح خیبر اور شیر خدا ہونے کے باوجود اپنے منہ پر تھوکنے  والے کو اس لیئے معاف کر دیتا ہے کہ اگر اب میں نے اسے مار ڈالا تو خداکے  نام پر شروع ہونے والی لڑائی کو میری ذاتی جنگ سمجھ لیا جائے گا "
ہاں ہم نے دیکھ لیا کمی اور پشتی  کا فرق.  بڑے سچ کہتے تھے . آج خزانوں  پر سانپ کی طرح کنڈلی مارے عربی ہے یا عجمی ہر ایک کمی ہے اور خاندانی اپنی سفید پوشی کا بھرم لیئے قدرت کے اس پھیر کو دیکھ رہے ہیں . اور سوچ رہے ہیں ہم کیا کر سکتے ہیں ان مظلوموں کے لیئے کہ ہماری آواز تو نقارخانے کے طوطی سے بھی زیادہ بے وقعت ہو چکی ہے  . کہ فیصلے خاندانی لوگ نہیں بلکہ کمی لوگ کر رہے ہیں اپنے دماغ اور عقل کے اوپر کے فیصلے .
جن کے دماغ عورت ،شراب ،کم سن بچوں ، اونٹوں کی دوڑوں ،تیتر  اور ہرن  کے شکار، بڑی بڑی عمارتوں اور  پرتعیش نئے ماڈل کے جہازوں  ،حرم کے نام پر بنے عیاشی خانوں سے باہر نکلیں  تو انہی یہ سمجھ بھی آئے کہ تاریخ ان کے منہ پر روز ایک نئی کالک ملتے ہوئے رقم ہو رہی ہے .
ماں باپ گریبان چاک کیئے اپنی بے بسی پر آنسو بہا رہے ہیں اور معصوم پھولوں کی لاشیں سمندر پر تیر رہی ہیں . جو خدا سے یہ تو پوچھتی ہی ہو ں گی کہ پروردگار ہمیں اس جہاں میں بھیجنے پر تجھے کیا ملا؟
میری بے بس لاچار موت پر کسی تیل کے کنویں میں آگ نہ لگی اور نہ ہی کوئی سونے کا پہاڑ پھٹا . ایک میں ہی تڑپا ، اک میں ہی چیخا لیکن کسی بھی موسیقی کی دھن پر تھرکتے طوائف کے ننگے بدن پر نوٹوں  کی بوری لٹاتے نہ عربی کے کان پر جوں رینگی نہ عجمی کی غیرت کو جوش آیا . سب بھول جائیں گے. ایک اور اور نیا حادثہ انہیں پچھلے حادثے کی یاد سے بیگانہ  کر دیگا . میں کسی کو یاد نہیں رہونگا.
لیکن ہاں مجھے یقین آ گیا کہ یہ دنیا میرے قابل نہیں تھی جہاں قیامت کی نشانی بننے والے خود اس پر فخر رہے ہیں .
انا للہ وانا الیہ راجعون      
                    ................                   
.

پیر، 22 ستمبر، 2014

لنگوٹیئے یار/ کالم۔ سچ تو یہ ہے



لنگوٹیئے یار
ممتازملک ۔ پیرس

ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ ایک ہی گلی محلے میں کھیل کود کر شرارتیں کرتے ہنستے روتے ،ساتھ بڑے ہونے والے بچے سب کے سب الگ الگ سوچ اور صلاحیتیں لیکر بڑے ہوتے ہیں ۔ اس مین کچھ تو مالی حالات کا اثر ہوتا ہے ۔ اور کچھ میں انکے گھریلو سوچ اور ذہنیت بہت اثر انداز نظر آتی ہے ۔ کوئی بچہ تمام تر مالی وسائل اور سہولتیں ہوتے ہوئے بھی کوئی خاطر خواہ تعلیمی قابلیت نہیں دکھا سکتا تو کچھ بچے ہر طرح کے حالات کا سامنا کرتے ہوئے بھی ذندگی کے شدید تھپیڑوں میں بھی اپنا قد اور مقام وہاں تک لیجاتے ہیں کہ جہاں نہ چاہتے ہوئے بھی انکے مخالفوں کو بھی ان کی جانب دیکھنے کے لیئے سر اٹھانا ہی پڑتا ہے ۔ ایک ہی گلے محلے کے بچے جن میں کوئی ایم اے ، ایم بی اے اور پی ایچ ڈی کرتا ہے ۔تو کوئی اسمبلی میں قوم کی قسمت کے فیصلے کرنے لگتا ہے ۔ اور کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو اسی گلی کی نکڑ پر ریڑھی لگاتا ہے ،تو کوئی اسی گلی کے ہوٹل میں میز صاف کرتا ہے اور کل کے ہمجولیوں کو چائے پیش کرتا ہے ۔ کوئی موٹر سائیکل کی مرمت کرتا نظر ہے ۔ تو کوئی میجر صاحب بن کر ملک قوم کی حفاظت کا بیڑا اٹھا تا ہے ۔                                                             
کتنی عجیب بات ہے ایک ہی زمین ، ایک سی خوراک ، ایک سی آب وہوا ، لیکن نتیجہ کسقدر مختلف ۔ اسے پرورش کا فرق کہیں ، اس بچے کا نصیب کہیں یا خدا کی شان ، سب سچ ہے ۔ لیکن سب سے بڑا سچ یہ ہے کہ رب العالمین جس سے جو کام کروانا چاہے کروا ہی لیتا ہے ۔ چیونٹی سے ہاتھی کومروانا بھی یہ ہی ظاہر کرتا ہے کہ وہ اللہ اپنے سوا کسی کی بھی بڑائی پسند نہیں کرتا ۔ لیکن انسان کے جھکنے اور عاجز ہو جانے سے کسقدر محبت رکھتا ہے ۔ کہ اسے ان سب کے عوض کس کس بلندی پر پہنچا دیتا ہے ۔ کہ وہ انسان خوداپنی اونچائی پر حیران کھڑادیکھتا رہ جاتا ہے ۔ بے عقل اور کم ذات اپنے مراتب کے بعد اپنے انداز و اعمال سے اپنے بدذات اور متکبر ہونے کا اعلان کرتا  گردن اکڑاتا فرعون بنتا نظر آتا ہے ۔ تو عقل وشعور والا ، بانصیب عاجز ہو کر اپنی گردن مالک کے حضور زمین سے جوڑتا اور شکر کے الفاظ اور انداز ڈھونڈتا نظر آتا ہے ۔                  
بچپن کے یہ ساتھی جن میں کچھ تو آگے نکل جانے والوں سے بے انتہاء محبت اور فخر ظاہر کرتے ہیں ۔لیکن ان میں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی ہوتی ہے جو انہیں ان کی ماضی کی محرومیوں کے آئینے میں چھوٹا دکھانے کی کوشش میں دن رات جتے رہتے ہیں ۔ ہم تو اسے حسد ہی کہیں گے ۔ ان کی کم ظرفی کی پہلی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ انہیں بھری محفل میں ان کے کسی بچپن کے کسی نام یا عرفیت ( جسے ہم چھیڑ بھی کہہ سکتے  ہیں )سے  پکار کر اسے شرمندہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو کبھی چُن چُن کر انکی ایسی شرارتیں یا باتیں لوگوں کی موجودگی میں سنانے لگیں گے جن سے انکی محفل میں سُبکی ہو ۔ جسکا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کسی مرتبے پر پہنچنے کے بعد چاہتے ہوئے بھی یہ لوگ اپنے بچپن کے ساتھیوں سے ملنے سے کترانے لگتے ہیں ۔ کیوں کہ ہر انسان وہیں کسی سے ملنے کی خواہش کریگا جہاں اسے اپنی عزت محسوس ہو ۔ بلکہ اکثر ان لوگوں کو گیٹ پر سے ''صاحب گھر پر نہیں ہیں'' کہہ کر بھی ٹرخا دیا جاتا ہے ۔ کیوں کہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ کسی محفل میں یا ٹی وی پر اپنے کسی بچپن کا ساتھی نظر آئے تو بڑی نخوت سے ناکام دوست ساتھ بیٹھے کو یہ جملہ ضرور کہے گا کہ '' ارے یہ تو فلاں فلاں کا بیٹا ہے میرا لنگوٹیا یار تھا  اسے تو میں کبھی منہ بھی نہیں لگاتا تھا ، اسکے پاس تو فیس کے پیسے نہیں ہوتے تھے ،یا اس کے توجوتے بھی پھٹے ہوئے ہوتے تھے  وغیرہ وغیرہ  آج پتہ نہیں کیا سمجھتا ہے ''۔ کہہ کر خود کو اونچا کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں لیکن یہ کہتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ انہیں تو خدا نے اس کی پہنچ سے بھی دور کر دیا اور خود انکے حِصّے میں کیا آیا لنگوٹئے یار کے نام پر چند بوگس جملے ،اور کلیجے سے نکلتی ٹھنڈی آہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/