ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک
کالم۔ لوح غیر محفوظ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
کالم۔ لوح غیر محفوظ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

منگل، 26 جولائی، 2022

✔ پاکستان میں محفوظ سرمایہ کاری۔۔/ کالم۔ لوح غیر محفوظ

پاکستان میں محفوظ سرمایہ کاری کیسے؟
تحریر: 
         (ممتازملک ۔پیرس)

عموما تارکین وطن اور پردیسیوں کے پیسے کو لوٹ کے مال کے طور پر خیال کیا جاتا ہے ۔ کبھی آپ غور کریں تو وہ ترسے ہوئے  عزیز اقرباء کے کے تحائف کو جس طرح استعمال کرتے ہیں اسی سے آپکو اندازہ ہو جائیگا کہ دل بیرحم نے مال مفت کیساتھ کیا کیا نہ کیا ہو گا ۔ ہماری گاڑھے خون پسینے کی کمائی کو چوری کے مال کی طرح خرچنے اور برتنے والے جب ہاتھ کرنے پر آتے ہیں تو ہمارے یہ سوچ کر بنائے گئے گھر اور جائیدادوں کو کہ اس سے ہمیں بھی کچھ آمدنی کا ذریعہ مل جائیگا ، ہمارے عزایزان یہ جتا کر قابض ہو جاتے ہیں کہ بھائی تم تو باہر رہتے ہوں تمہیں کیا کمی ہے ؟ تم کیا کرو گے یہاں پر جائیداد زمین ؟ کہنے والے کا انداز آپکو یہ بتاتا ہے کہ اس کے والد صاحب نے جو فیکٹریاں اور کارخانے ملک سے باہر آپکو بنا کر دے رکھے ہیں اس پر عیش کرو یہ اپنے ملک میں بنائی جائیدادوں سے اب دور رہو ۔ ہم ہیں نا ان کا مال کھانے والے۔۔۔۔یہ سوچ کسی ایرے غیرے کی نہیں بلکہ ساری عمر آپ کے ٹکڑوں پر پلنے والے ان سنپولیوں کی ہوتی ہے جنہیں آپ خود بیچارے کہہ کہہ کر خود اپنی ہی آستینوں میں پالتے رہے ہیں ۔ اور اب وہ اژدھے بن کر آپ کی زندگی بھر کی کمائی کو ہڑپنے کے لیئے کھل کر سامنے آ چکے ہیں ۔ لیکن کیوں۔ ؟ کیونکہ آپ نے اپنی جائیداد گھر بار بیچنا چاہا ہے یا اپنی کمائی کا حساب مانگ لیا ہے ؟ یا اپنی کوئی شراکت داری ختم کرنا چاہی ہے ؟ کچھ بھی کر لیں لیکن پاکستانیوں سے اپنا مال واپس مت مانگیئے گا یہ آپکو دینا گویا خزانے پر بیٹھے سانپ سے پنگا ہو گیا۔  پیسہ تو جائیگا ہی عزت بھی ایسے ایسے اچھالی جائے گی کہ آپ کو خود اپنے اس دنیا کے سب سے خبیث آدمی ہونے کا گمان ہونے لگے گا ۔ رشتے پر تو ایسے بےضمیر پہلے ہی  چار حرف بھیج چکے ہوتے ہیں ۔ آپ اس وقت انکے لیئے پان کی پیک سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اگر آپکی قسمت اچھی ہے اور ساتھ کسی پرخلوص مشیر کا مل گیا تو شاید آپ کچھ بچا پائیں لیکن پھر بھی رشتے عزت احترام سب کچھ گنوانا لازم ہے ۔کیونکہ آپ تو بیرون ملک مقیم ہیں بھائی آپکو کیا کمی آپ کو پیسہ کیا کرنا ہے؟
آئے دن نت نئے تعمیراتی منصوبے آپکے سامنے پیش کیئے جاتے ہیں ۔ آپ بھی وطن کی محبت میں بیقرار ہیں تو ہمارا مشورہ ہے کہ 
جو لوگ پاکستان  جا کر رہنا چاہتے ہیں وہ تو ضرور ان تعمیراتی  منصوبوں میں پیسہ لگائیں لیکن جو لوگ  صرف سیر کرنے ملنے ملانے پاکستان جاتے ہیں انہیں ہماری صلاح ہے کہ آپ پیسہ جن ممالک میں آپ رہتے ہیں صرف وہیں لگائیں کیونکہ پاکستانی رشتے دار ان جائیدادوں کو لوٹ کر ہڑپ کر جائینگے ۔ قبضے کر لینگے ۔ یا پھر آپ نے کوئی محفوظ طریقہ  اپنایا بھی تو اس جائیداد کا کوئی فائدہ اور منافع کبھی آپ تک نہیں پہنچ پائے گا ۔ یہ ہمارے سالہا کا تجربات بھی ہیں اور مشاہدات بھی۔
اگر پاکستان میں پیسہ لگانا ضروری ہی ہے تو بہتر ہے کہ آپ پاکستان میں صرف قومی بچت کی محفوظ سکیموں میں اپنا پیسہ لگائیں ۔ ملک کی بھی خدمت ہو گی اور آپکا پیسہ منافع بھی دیتا رہیگا ۔ رشتے دار سانپوں سے بھی پردہ رہیگا اور رقم آپکے بعد آپکے نامزد شوہر یا بیوی بچوں کو باآسانی مل بھی جائے گی۔
پاکستان میں اپنے مال کو لگانے سے  پہلے اپنی عزت اور اپنے رشتوں کو بچانے پر غور کیجیئے ۔
                   ●●●

✔ سائیکو کیوں ؟کالم ۔ لوح غیر محفوظ





سائیکو کیوں ؟
ممتازملک ۔ پیرس   



ایک کیس سامنے آتا ہے کہ ایک صاحب کی بیگم نے ان سے علیحدگی لیکر کہیں اور شادی کر لی ہے اور بچے بھی ان کے پاس چھوڑ گئی ہے ۔ وہ صاحب اب اس قدر دلگیر ہیں کہ انہوں نے دو تین بار خودکشی کی کوشش بھی کی ہے اور ان کے  چاہنے والوں کی نظر میں یہ صاحب بے حد معصوم اور وہ خاتون کافی ہلکے کردار کی ،خود غرض اورسائیکو ہے ۔ وہ ایک بہت بری ماں ہے وغیرہ وغیرہ وغیرہ  
لیکن پھر کچھ لوگوں نے اس صاحب کی محبت بھری زندگی کا تجزیہ بھی کیا اور ان کی خودکشی کی اسل وجوہات جاننے کی کوشش کی کی جس میں بہت ہی مختلف صورتحال بھی سامنے آئی اور سوات بھی پیدا ہوئے ۔
پہلی بات خاتون خوش ہوتی مطمئن ہوتی تو  الگ ہی کیوں ہوتی ؟
مان لیا وہ سائیکو  تھی ،اسے دوسری شادی کا شوق تھا،  اس لیئے چلی گئی تو اس کامطلب یہ ہوا کہ وہ اچھی خاتون نہیں تھی،
تو اس کے جانے پر تو شکرانے کے نوافل پڑھنے چاہیئیں موصوف کو،جیسے آج کل خواتین میں '' کم بخت ٹائیپ میاؤں '' سے طلاق کے بعد پارٹی شارٹی کرنے
 کا رجحان پیدا ہو رہا ... یہ بھی پارٹی شارٹی کریں ۔ اپنی زندگی سے بیوی نام کا دکھ دور ہونے کی خوشی منائیں ۔ آخر 
تھوڑے لطیفے تو شئیر نہیں کیئے ہوں گے انہوں نے بھی بیوی کے ظلم اور خرچوں کے ..
تو اب توراوی چین ہی چین لکھتا ہے ان کے مقدر میں . منجھی کے دونوں طرف سے اترسکتے ہیں آپ .
اب رہ گیئے بچے. ... تو خاتون واقعی بڑی سیانی تھی . اسنے موصوف کو ساتھ رھ کر دی ہوئی تکلیفوں کا خوب بدلہ لیا کہ لو سنبھالو اپنی نسل . کل بھی تو انہوں  نے تمہارے پاس ہی آنا ہے تو ابھی لو .کیوں عدالتوں میں جا جا کر بچوں کو بھی خوار کرنا اور خود بھی ذلیل ہونا. ساری دنیا کو تماشا دکھانے کی ضرورت بھی کیا ہے ؟
اور اصل موت صاحب کو پڑی ہی اسی بات کی ہے کہ ان کی رنگینیوں کے آگے بڑا سا بلیک اینڈ وائٹ بورڈ بچوں کی صورت وہ لگا گئی . ورنہ یہ اکیلے ہوتے تو اب تک سہرا باندھ چکے ہوتے .. اب کوئی خاتون تو ان کی بیوی بننے کو شاید مل ہی جائے لیکن وہ ان کے بچے بھی قبول کرے نوے فیصد نو ....
تو اپنے ہی بچے اپنے پاس رکھنے پر موصوف فوت ہونے کو تیار ہیں اسے کہتے ہیں کہ
شرم ان کو مگر نہیں آتی 
عورتیں تو ساری زندگی بچوں کے چکر میں تباہ کر لیتی ہیں اور چند ایک مردوں کو ایسی سیانی خاتون آزمائش میں ڈال دے تو یہ تماشے.......
...........حد ہے بھئی 
ویسے مجھے ان صاحب سے کوئی ہمدردی نہیں. ان کی سابقہ بیگم نے بہت اچھا کیا کہ اپنا گھر آباد کر لیا . کیونکہ ان کے خودکش رجحانات وہ پہلے بھی کئی معاملات میں ضرور بھانپ اور بھگت چکی ہو گی . اس لیئے میری  نظر میں  نہ وہ بے وفا ہے، نہ بے ایمان ، اسے اپنی زندگی اپنی مرضی اور خوشی کیساتھ گزارنے کا پورا پورا قانونی اور شرعی حق ہے . جو اس نے استعمال کیا . بچے لیجا کر انہیں سوتیلے باپ کے پاس غیر محفوظ کرنے سے اچھا ہے سوتیلی ماں کے پاس ان کی عزت تو محفوظ ہو گی .کہ باپ تو سگا  ہی اچھا ہوتا ہے. 
اللہ پاک رحم فرمائے .    
ممتازملک

ہفتہ، 29 جنوری، 2022

✔ خون اور دودھ ضرور بولتا ہے/ کالم۔ لوح غیر محفوظ


دودہ اور خون ضرور بولتا ہے
تحریر: (ممتازملک ۔پیرس)

ہم فرانس میں رہتے ہیں جو دنیا کے سب سے جدید اور ترقی یافتہ ممالک میں سے ایک ہے۔ لیکن ہماری پاکستانی کمیونٹی کی اکثریت  یہاں تک آ کر بھی نہ اپنے دماغ کا گند دھو پائے ہیں اور نہ ہی اس ملک کے لوگوں سے کوئی اچھی بات سیکھنا چاہتے ہیں ۔ خصوصا خواتین کے حوالے سے یہاں کی چھوٹی اور گھٹیا ذہنیت نہ بدلنے کی تو گویا اکثر لوگوں نے قسم کھا رکھی ہے ۔ یہ  ان لوگوں کے بارے قران پاک کی قسمیں اٹھا کر گواہیاں دیتے پائے جاتے ہیں جن سے نہ یہ کبھی زندگی بھر ملے ہیں اور نہ ہی کبھی کسی حوالے سے ان کے روبرو آئے ہیں ۔ لیکن پھر بھی بقول انکے یہاں پر کام کرنے والی عورت بدکردار ہے اور ہر لکھاری عورت دو نمبر ہے۔ جس عورت کا فیس بک پر اکاونٹ ہے وہ بازاری عورت ہے ۔ جو سامنے کھڑی ہو کر جرات سے بات کرتی ہے وہ تو پیدائشی بے غیرت ہے ۔۔۔ یہ فتوے لگانے والے وہ مرد ہوتے ہیں جن کے گھروں کی نانیوں دادیوں اور ماوں  نے گھرں میں پردوں میں بیٹھے ہوئے گونگے بنے رہنے کے باوجود بھائیوں کے آپس میں سر پھڑوائے ۔ گریبان چاک کروائے۔ ایکدوسرے کی بیٹیوں کو طلاقیں دلوائیں ۔ جیتے جی دوسروں کی زندگیاں موت سے بھی بدتر کر دیں لیکن پھر بھی وہ شرفاء اور معززین کی فہرست میں شامل رہیں کیونکہ وہ یہ سب کرتی تھیں لیکن گھر کے اندر پردہ دار اور گونگی بیبیاں بن کر کیا کرتی تھیں ۔ انہیں کے سپوت آج یورپ اور امریکہ میں بیٹھ کر یہی فریضہ دوسری خواتین پر تہمتیں اور فتوے لگا کر سرانجام دے رہے ہیں ۔ کیونکہ یہ سوچیں ماوں کے خون اور دودہ سے سفر کرتی ہوئی آپ کے دماغ تک پہنچتی ہیں ۔ سچ کہتے ہہں ایک اچھی ماں اور ایک بری ماں کی پہچان اس کے بیٹے کی کسی بھی عورت کے لیئے کی گئی گفتگو اور الفاظ کے چناو  سے چھلکتی ہے ۔ وہ بولتا ہے تو گویا اپنی ماں کے کردار اور گفتار کی پرتیں کھولتا ہے ۔ کسی بھی عورت پر گند اڑانے والا گندے تبصرے کرنے والے مرد کی اکثر اپنی جوانی اسی ملک میں رنگ رنگ کا پانی پی کر گزری ہوتی ہے جس کے لیئے ہر عورت ویسی ہی ہے جیسا وہ خود ہے ۔ اسی لیئےجب وہ کسی میدان عمل میں کام کرنے والی خاتون یا اپنا نام اور مقام بناتی ہوئی خاتون کو دیکھتا ہے تو فورا اپنی اصلیت دکھانے پر اتاولا ہو جاتا ہے ۔ پھر اس کا ساتھ دینے کے لیئے وہ نکمی اور بیکار عورتیں بھی اس کے ساتھ "راون کے سروں "کی طرح اس کے بیانیئے کو پھیلانے میں شیطانی کردار ادا کرنے کے لیئے پھیل جاتی ہیں ۔ یہاں وہ اپنے احساس کمتری کے تحت اپنی قبریں بھلا کر کام کرنے والی لکھنے لکھانے والی خواتین کی کردار کشی میں پیش پیش ہوتی ہیں ۔ اپنے گھروں میں ان شیطان خواتین کے ٹولے کبھی ون ڈش پارٹی کے نام سے اکٹھی ہوتی ہیں تو کبھی میلاد پاک کے نام پر باریاں رکھ کر یہ مشن سرانجام دینا ہوتا ہے ۔ یہاں اکھٹے ہو کر ایک ہی  میز پر کھانا کھانے کے بعد وہ اسی گھر سے نکلتے وقت غیبتیں اور الزام تراشی کرنا اور تو اور اکثر میزبان خاتون کی کردار کشی کرنا بھی کبھی نہیں بھولتیں ۔ پھر گھر پہنچ کر ہاتھوں میں تسبیحیں پکڑے فون پر ایک دوسرے کی ذات پر اور کل کے پروگرام میں ملنے والیوں پر خوب مرچ مصالحے لگا کر خبریں گھڑی جائینگی ۔ اس کی بیٹی اس کے ساتھ بھگائی جائے گی ۔ اس کا بیٹا اس غیر مسلم کیساتھ رہتا ہے سنایا جائے گا ۔ اور پھر استغفار کی تسبیح پڑھنے اور دعاوں میں یاد رکھنے کی درخواست اور پھر " نماز کا وقت ہو گیاہے" کہہ کر فون رکھا جائیگا ۔  لیکن کہتے ہیں نا کہ جھوٹ کے پاوں نہیں ہوتے اس طرح اللہ پاک نے عزت و ذلت کو اپنے ہاتھ میں رکھا اور ان کی تسبیحیں، نمازیں، سجدے اور تلاوت قران کو ان کے منہ پر مارنے کا اعلان بھی کر دیا ۔ کیونکہ واقعی جو ہم نہیں جانتے وہ ہمارا رب جانتا ہے ۔ 
ایسے تمام خواتین و حضرات بیچارے ہوتے ہیں۔ کیسے؟ وہ ایسے کہ نیکیاں تو وہ اپنی ان الزام تراشی و بہتان تراشی میں ویسے ہی اس کے نام کر چکے ہوتے ہیں دوسرا اپنا پردہ بھی اپنی ہی زبان سے کھول چکے ہوتے ہیں کیونکہ جو کچھ انہوں نے اپنے گھروں میں دیکھا سنا وہ ہی انکی  زبان سے دوسری خواتین کے نام سے نکل گیا ۔ ابکی نشانی یہ  ہوتی ہے کہ نہ یہ سکون سے سو سکتے ہیں ۔ نہ یہ اپنی اولادوں کی جانب سے سکون پاتے ہیں ۔ نہ ہی انکے چہروں پر نور ہوتا ہے نہ ہی ان کے دلوں میں سکون ہوتا ہے۔ نہ انکے گھر میں برکت ہوتی ہے اور نہ ہی انکے رشتوں میں محبت اور عزت ہوتی ہے۔ 
 سو دنیا و آخرت دونوں جہانوں کی ذلتوں کا طوق اپنے گلے میں اپنے ہی ہاتھوں لٹکانے والوں کو بیچارہ نہیں کہیں گے تو کیا کہیں گے ؟ جن کے سامنے آپکی لمبی زبانیں کھلتی ہیں وہ چاہے کسی بھی وجہ سے اس وقت یہ باتیں سن تو لینگے لیکن آپ کے بارے میں جو تبصرہ آپ کی پیٹھ پیچھے ہو گا وہ تو آپ نے کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا ۔  سو خلاصہ یہ ہوا کہ جو آپ نہیں کر سکتے اس پر حسد کرنے کی بجائے اس پر دوسروں کی حوصلہ افزائی کرنا سیکھیں ۔ ان کا حوصلہ بڑھائیں ہو سکتا ہے کہ آپ کے لہو میں اور سوچوں میں دوڑتی ہوئی اس گندگی کی کچھ صفائی ہو سکے اور آپ کی پرورش کرنے والیوں کی قبروں کا عذاب کچھ کم ہو سکے ۔ آمین
                  ●●●

جمعرات، 16 دسمبر، 2021

✔ ● بہاریوں کو سلام محبت ❤/ کالم۔ لوح غیر محفوظ






16 دسمبر 1971ء 
خون آشام تاریخ ۔۔۔کسی نے کیا ۔۔۔۔کسی نے بھگتا۔۔۔

سقوط ڈھاکا کے 50 سال مکمل ہوئے۔
مکتی باہنی کی بھارتی سازشوں کی کامیابی کے 50 سال
بنگلہ دیش میں اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور لاکھوں بہاریوں کی پاکستان سے محبت کے جرم میں لازوال قربانیوں کے 50 سال 
سر کٹائے۔۔۔۔سولی چڑھے۔۔۔۔ عزتیں لٹوائیں ۔۔۔ کیڑوں مکوڑوں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیئے گئے مگر نعرہ ایک ہی رہا۔۔۔۔۔
پاکستان زندہ باد
دنیا بھر میں آباد بہاریوں کو سلام محبت❤
پاکستان سے محبت کے معاملے  میں ہم آپ سے مقابلے میں صفر سے بھی نیچے کھڑے ہیں ۔ کاش اس محبت اور وفاداری کا ہزارواں حصہ بھی ہمیں نصیب ہو جاتا تو آج ہمارے نام نہاد کارٹون لیڈران ہماری غیرت و حمیت و معیشت سے فٹبال کبھی نہ کھیل رہے ہوتے ۔
1971 ء میں بھارتی سازشوں نے اپنی زرخرید جماعت مکنی باہنی کے ذریعے دنیا کی تاریخ کا  سب سے غلیظ کھیل کھیلا ۔ پاک فوج کے خلاف بنگالیوں کو سالہا سال تک بھڑکایا گیا ۔ رہی سہی کسر مغربی موجودہ پاکستان کے سیاسی پتلی تماشا کرنے والوں کی بیوقوفیوں اور  خود سری نے پوری کر دی۔ بزدل اور عیاش جرنیلوں نے فوج کی ضروریات کے بجائے نئی ٹیکنالوجیز اور فن حرب پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے اپنے شراب و کباب عاشقیوں معشوقیوں پر ایسی توجہ دی کہ اس گھر پاکستان کا آدھا حصہ انکی شراب کے ریلے میں بہہ گیا اور گھنگھرووں کی چھنکار میں بنگالیوں کی مظلوم چیخیں دفن ہو گئیں ۔ ہائےےےےےے کیا ظلم ہوا ۔ 
جب نوے ہزار بہادر پاکستانی فوج نے اپنے جرنیلوں کی بےغیرتی اوربزدلی کی قیمت اپنے سر جھکا کر ہتھیار پھینک کر چکائی تھی۔ 
مکتی باہنی پاک فوج کی وردی میں مظلوم بنگالیوں کی عزتوں اور جانوں سے خون کی ہولی کھیلتی رہی اور گالی پاک فوج کے حصے میں لکھی گئی۔ بی بی سی ریڈیو کے جھوٹے پروپیگنڈوں نے ساری دنیا کی رائے کو پاکستان کے خلاف خوب ہموار کیا ۔ بھارت کی پشت پناہی کی۔ اس کے جنگی جرائم پر مکاری کے پردے ڈالے ۔ اور ان کے نمائندگان کانوں میں روئی ٹھونس کر جانے کیسے سو بھی جاتے تھے؟ 
کیسے نیند آ جاتی ہو گی انہیں اس بے ضمیری میں ؟ لیکن قدرت کا کھیل دیکھیئے  ہر سچ کو ایک دن بے نقاب ہونا ہی ہوتا ہے۔ سو آج  یہ سچائیاں جان کر ہی تو آج بھی وہ بنگالی پاکستان سے محبت کرتے ہیں ۔ اردو سے محبت کرتے ہیں ۔ ان کے گلے لگ کر سیاسی شعبدہ بازوں کے ضمیر کی موت کا پرسہ دیتے ہیں ۔ ایکدوسرے کی  ہر تکلیف پر یہ دونوں آج بھی دکھی ہوتے ہیں ۔ اور اس محبت کو انکے دلوں سے نہ مکتی باہنی نکال پائی۔ نہ  بنگلہ دیشی حکومتوں کی بھارتی ایجنڈے کی پاسبانی نکال پائی۔ 
دل سے ایک ہی  آواز  دونوں جانب سے ابھرتی رہی۔۔۔
ہم کہ ٹہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد 
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
ہم چالیس لاکھ افغانیوں کو انکی تمام تر بے وفائیوں سمیت اپنی زمین پر پناہ دے سکتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ہماری ہر حکومت نے 3 لاکھ بہاریوں کو پاکستان لا کر آباد کرنے کا وعدہ کبھی وفا نہیں کیا ۔ انکی لازوال محبت ہماری زمین پر اپنی جگہ نہیں پا سکی لیکن ہمارے دلوں میں ہمیشہ تڑپ جگاتی رہی ہے۔ اب بھی اگر انہیں پاکستان کی زمین نے قبول نہ کیا تو انکے بہت سے آباء جو منوں مٹی تلے جا سوئے انکی دوسری نسل بھی ان اذیتوں کا شکار ہو کر ہماری وفا پر  سوالیہ نشان  نہ لگا جائیں ۔
               ●●●

جمعہ، 9 اکتوبر، 2020

✔ ● اقبال ‏جب ‏اتا ‏ہے ‏/ ‏کالم۔ لوح غیر محفوظ





اقبال جب آتا ہے                     
           (تحریر:ممتازملک.پیرس)



کچھ لوگ دنیا میں پیدا ہی خاص مقاصد سے کیئے جاتے ہیں جن کے آنے سے جانے تک کی ہر گھڑی کسی خاص تاریخ کو رقم کرتی چلی جاتی ہے۔ 
شیخ نور محد اور فاطمہ بی کی جوڑی بھی ایک ایسی جوڑی تھی جن کی جھولی میں ان کا ایک خواب حقیقت بن کر 9 نومبر 1877ء  اقبال کی صورت آن گرا
 اور پھر اسی تارے نے آسمان کی بلندیوں تک کا سفر طے کرنا تھا ۔ بچپن میں ایک پرہیز گار باپ اورمتقی ماں کی گود نصیب ہوئی تو میر حسن جیسے گوہر شناس استاد  کا ان کے سر پر دست شفقت انہیں دین کیساتھ دنیاوی علوم کے سفر پر نصیب ہوا ۔ بہترین نمبروں سے اپنے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور شعرو شاعری سے شغف ہوا تو اپنے زمانے کے سب سے بڑے اور مانے ہوئے شاعر داغ کے آستانے پر جا پہنچے ۔ جہاں استاد داغ نے انہیں یہ کہہ کر روانہ کر دیا کہ میاں سیکھنے کی گنجائش ہوتی تو ضرور سکھاتا لیکن آپ تو خدا دا صلاحیتوں سے سکھائے ہوئے ہیں ۔ اس لیئے مذید کی گنجائش نہیں سمجھتا ۔ لیکن اس کے باوجود اقبال و داغ ایکدوسرے کی چند روزہ استادی شاگردی پر تاحیات متفخر رہے ۔
لاہور میں ہی اپنے ایم اے کی پڑھائی مکنل کرتے ہیں کئی کالجز میں عربی اور انگریزی کے استاد بھی رہے ۔ اور پھر 1905ء میں مزید اعلی تعلیم کے لیئے انگلستان کا رخ کیا ۔ جہاں سے وکالت کی تعلیم حاصل کی ۔ ایک اقبال وہ تھا جو غلام بھارت میں وطنیت ہی کو سب کچھ سمجھتا تھا ۔ جو دین کو عمل سے الگ کرتا تھا ۔ لین یورپ سے لوٹنے کے بعد ایک نئے اقبال کا جنم ہو چکا تھا ۔ یہ اقبال وطنیت سے امہ تک کا سفر ان تین سالوں میں طے کر چکا تھا ۔ 1908ء میں اقبال کی مشترکہ  ہندوستان واپسی نے مسلمانوں کی سیاسی راہ متعین کرنے کا آغاز کر دیا ۔ ایک ریوڑ کو قوم بنانے کے کام کا آغاز ہو گیا ۔ اقبال کے فلسفے اور آفاقی شاعری نے اپنا رنگ دکھانا بلکہ جمانا شروع کر دیا ۔ قائد اعظم محمد علی جناح سے ان کہ دوستی کا آغاز ہوا ۔ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ اقبال کے الہ آباد میں پیش کیئے گئے اپنے خواب اور دو قومی نظریئے نے مسلمانوں کو اپنی منزل کا نشان دیدیا ۔ 
اقبال کی شاعری اور پرجوش خطابات نے مسلمانوں کے جمے ہوئے خون کو گرما کر رگوں میں دوڑنے پر مجبور کر دیا ۔ اپنے وقت کے بہترین علماء،  شعراء ، اساتذہ اور سیاست دانوں کیساتھ ان کا تعلق رہا ۔ نہایت سادہ زندگی گزارتے ۔ تکلفات کے قائل نہ رہے ۔ کبھی کسی سے کوئی امید نہیں لگائی۔ اپنی محنت اور لیاقت کے بل پر اپنا نام اور مقام بنایا ۔ دنیا بھر میں اقبال کے کلام کے تراجم شائع ہوئے ۔ مقالات لکھے گئے ۔ پی ایچ ڈیز ہوئیں ۔ 11 نومبر 1938ء کو سیالکوٹ کا  یہ سورج لاہور میں غروب ہو گیا ۔ ان کا مزار لاہور میں موجود ہے ۔ جہاں ہر پاکستانی ہی نہیں دنیا کا ہر باشعور انسان جانا اور سلام کرنا باعث افتخار سمجھتا ہے ۔ 
چاہے اقبال کو پاکستان بنتے دیکھنا نصیب نہیں ہوا ۔ لیکن اس قوم نے اپنے محسن کے خواب کو اپنے سینے سے لگائے رکھا آج دنیا سے جانے کے 82 سال بعد بھی اگر ہم اقبال کو یاد کر رہے ہیں تو  ان کے کردار و فن اور ان کی سیاسی رہنمائی اور بصیرت کا اس سے بڑا اعتراف اور کیا ہو سکتا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اقبال کی خودی کے پیغام کو عملی طور پر اپنایا جائے ۔ تاکہ ان کے مقاصد اور سوچ کو عملی جامہ پہنایا جا سکے ۔ 
                     ۔۔۔۔۔۔

اتوار، 6 ستمبر، 2020

✔ ● پاکستان ‏کو ‏بدلنا ہے ‏تو ‏۔۔۔/ ‏کالم۔ لوح غیر محفوظ




پاکستان کو بدلنا ہے تو
 پہلے خود کو بدلنا ہو گا ۔۔۔💚
پھر بدلے گا پاکستان


بھائی کب بدلو گے پاکستان ؟ 
پہلے پاکستانیوں کی سوچ اور طرز زندگی کو بدلو ۔ اپنے میڈیا کی طاقت کو  کو ایکدوسرے کے خلاف محاذ آرائی اور پگڑیاں اچھالنے  کے لیئے استعمال کرنے کے بجائے انکی اخلاقی تربیت اور معاشرتی اقدار کی بلندی کے لیئے استعمال کیجیئے ۔ ڈراموں فلموں اور گیتوں کے  ذریعے انہیں قوانین کی پاسداری کی جانب راغب کیجیئے اور سزاوں پر بلا تفریق عمدرامد کروا کر قانون اور یقینی انصاف  پر لوگوں کا اعتماد بحال کیجیئے ۔ ۔ 
پاکستان کو بدلنا ہے تو اسے اپنے ہر محکمے میں  کالی بھیڑوں کا صفایا کرنا ہو گا ۔ "کل کیا ہوا تھا" کے بجائے  "آج کیا ہو رہا ہے " سے ہی شفافیت کا یہ عمل قانون سازی اور عملدرامد کے ذریعے شروع  کروایا جا سکتا ہے ۔ 
بیس تیس اور پچاس سال پہلے کے حسابات اور ریسیدیں رسیدیں  کھیلنے کا عمل ویسا ہی ہے کہ نہ نو من تیل ہو گا اور نہ رادھا ناچے گی ۔  کیونکہ جس زمانے میں پاکستان میں نکاح تک زبانی ہوا کرتے تھے اس زمانے کے آدمی سے آپ جائیدادوں کی رسیدیں مانگ کر صرف اس قوم کا وقت اور مذید پیسہ  برباد کر رہے ہیں ۔ سو جس زمانے میں کھاتے لکھنے اور رسیدیں دینے کا رواج ہی نہیں تھا ان وقتوں سے سر پھوڑنے اور عوام کا پیسہ ان کے کیسز پر مذید برباد کرنے سے کہیں زیادہ  بہتر ہے کہ پاکستان میں دولت جمع کرنے اور جائیدادوں کے عشق میں علت کی طرح مبتلا ہونے والوں کے لیئے  اس کی ایک حد مقررکر دی جائے ۔ جس میں یہ نکات شامل ہوں کہ 
● انکے  گھروں کا حدود اربعہ زیادہ سے زیادہ دس مرلے مقرر کیا جائے ۔
● ہر فوجی و سول آفیسر یا عام آدمی کے نام و ملکیت میں  ایک وقت میں صرف ایک ہی گھر رہ سکتا ہے۔
●زرعی زمین کی ملکیت ایک آدمی کے پاس دس ایکڑ سے زیادہ کبھی نہیں ہو سکتی ۔
●گاڑی کی مالیت  اسکی تین سالہ تنخواہ سے زیادہ ہر گز نہیں ہو سکتی ۔ 
●ایک وقت میں ایک ملازم رکھنے کی اجازت ہو گی ۔ جس کی تنخواہ پر وہ اپنی جیب سے 10 فیصد ٹیکس بھرے گا ۔ 
● صحت کارڈ ہر پاکستانی کو جاری کیا جائے جس پر اس کی سالانہ ظاہر کی گئی آمدن کے حساب سے کم آمدنی والے کو زیادہ اور زیادہ آمدنی والے کو کم مراعات کے ساتھ مکمل علاج معالجہ فراہم کیا جائے ۔ جیسا کہ دنیا بھر کے ترقیاتی ممالک میں اے، بی، سی ، ڈی۔۔۔۔ کے آمدنی گریڈ مقرر کر کے فراہم کیا جاتا ہے ۔ 
●سال میں ایک بار سے زائد بیرون ملک دورے کی صورت میں ادائیگی کا ذریعہ ظاہر کرنا لازمی ہو۔ 
● ہر عمرہ کرنے واالے کو اگلے پانچ سال کے لیئے دوبارہ عمرہ کرنے سے روک دی جائے ۔ اور ہر حج کر لینے والے کو اگلے پندرہ سال تک دوبارہ حج کرنے سے منع کر دیا جائے ۔ تاکہ وہ یہ پیسہ کسی دوسرے کو وہاں بھیجنے یا کسی اور فی سبیل اللہ مقاصد پر خرچ کر سکے ۔ 
●فوج اور اسٹیبلشمنٹ  کے ہر اعلی عہدیدار کو ریٹائرمنٹ کے وقت اپنی جائیدادوں کا حساب کتاب پیش کرنے کا قانون بنایا جائے ۔ اس کی جائز آمدن کے سوا باقی سب کچھ بحق سرکار و پاکستانی عوام ضبط  کر لیا جائے ۔ 
● ایک فوجی اعلی عہدیدار کے لیئے ایک دس مرلے کا گھر ایک گاڑی اور ماہانہ 18 گریڈ آفیسرز  کے مساوی وظیفہ تاحیات مقرر کیا  جائے۔ 
● ایک آدمی کا صرف ایک ہی بینک اکاونٹ ہونا چاہیئے ۔ دوسرے اکاونٹ کے کھلوانے کے  مطالبے پر اس سے اس کی تسلی بخش وجہ دینے کا پابند کیا جائے ۔ 
● بینک میں اس کی ملکیت میں پچاس لاکھ روپے سے زائد رقم کبھی نہیں ہونی چاہیئے ۔ 
●ریٹائرمنٹ کے بعد وہ کم 5 سال تک بیرون ملک سفر نہیں کر سکتا ۔ 
اگر واقعی پاکستان کو اور پاکستانیوں کو  بدلنا ہے تو انہیں کچھ حدود و قیود میں زندگی گزارنے کا عادی ہونا پڑیگا ۔ جہاں دنیا بھر میں ترقی یافتہ ممالک کے سربراہان اور اعلی فوجی قیادت ریٹائرمنٹ کے بعد  تین تین کمروں والے فلیٹ میں  عام سی گاڑی اور سائیکل لیکر بسوں اور میٹروز میں سفر کرتے ہیں اور عزت پاتے ہیں ۔ وہاں پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک کہ جس کا سپہہ سالار اور مٹھی بھر اشرافیہ پاکستان بھر کی رجسٹریاں اپنی جیب میں لیئے گھومتا ہے ۔ دنیا میں جزیرے خریدتا پھرتا ہے  قومی رازوں کی تجارت کرتا پھرتا ہے ۔۔۔کو یہ بتانے اور سمجھانے کی ضرورت آن پڑی ہے کہ پاکستان کسی کے باپ کی جاگیر نہیں ہے ۔ کہ جس کا جی چاہے وہ اس کی بولی لگواتا پھرے اور غریب آدمی کے خون پسینے کی کمائی کو اپنی عیاشی پر اڑاتا پھرے ۔ 
اگر آپ نے اپنے ملک کی خدمت کی ہے تو اس کے بدلے میں دوسروں سے زیادہ عزت اور مال بھی کمایا ہے ۔ اب کچھ اجر اگلی دنیا کے لیئے بھی جمع ہونے دیجیئے ۔ یا وہاں بھی ڈنڈے کے زور پر جنت کی رجسٹری اپنے نام کروانے کا ارادہ ہے ؟؟؟؟ 
                     ۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعہ، 10 مئی، 2019

✔ کینسر کا جن ہمارے ہاتھ میں۔ کالم۔ لوح غیر محفوظ

                 

    کینسر کا جن ہمارے ہاتھ میں 
      تحریر/ ممتازملک.پیرس  

دنیا میں آئے روز نت نئی بیماریوں کا غلغلہ مچا رہتا ہے ۔ حالانکہ ہم سوچتے ہیں کہ ہم تو پہلے زمانوں سے زیادہ نہاتے دھوتے ہیں ۔ خوشبوئیں لگاتے ہیں ۔ جلدی کپڑے بدلتے ہیں ، گھروں میں پہلے سے زیادہ صفائی کا خیال رکھتے ہیں ۔ جدید ترین طریقے اور  ادویات سے صفائی کا انتظام کرتے ہیں ۔ پھر بھی کیا وجہ ہے کہ آج جسقدر خوفناک بیماریاں سننے اور دیکھنے میں آتی ہیں وہ اس سے پہلے کبھی نہیں تھیں ۔۔تو ذرا غور کیجیئے جو لوگ جتنے بڑے رتبے اور مقام پر ہوتے ہیں وہ ملئینرز ہوں، سٹارز ہوں ، انہیں کو یہ سب بڑی اور خطرناک بیماریاں زیادہ تر کیوں ہوتی ہیں ۔ خاص طور پر کینسر کی مختلف اقسام ۔۔۔
وجہ یہ ہے ہم جتنے ناموراور امیر ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ اتنا ہی ہم فطرتی  اطوار سے دور ہونے لگتے ہیں ۔ ہمارے کھانے  پکانے، پہننے ،صفائی کرنے کے انداز میں مصنوعی کیمیکلز کا استعمال زیادہ ہوتا چلا جاتا ہے ۔ 
سب سے پہلے گھر میں داخل ہوئے ائیر فریشر سے گھر کی فضا مہکائی گئی بجائے پھولوں اور عطر کے۔ پھر ہاتھ منہ دھوئے یا نہائے دھوئے کیمیکل سے بنے مصنوعی کیمکل صابن ، شیمپو، باڈی کریم ، لوشنز اور بلا بلا بلا  سے خود کو مہکایا۔ اس کے بعد کھایا پکا بہترین  برتنوں میں جو اکثر نان اسٹک ، اور المونیم کے ہوتے ہیں ۔  روسٹ ہوا۔فوائل پیپر یا المونیم میں ۔ جن میں پکنے والا کھانا پہلے ہی اس کا زہر اپنے اندر جذب کر چکا ہے ۔ اس کے بعد ہمارے کھانا بنانے کے چمچ بھی اکثر نان اسٹک ۔  کھانے  کے برتن پلاسٹک یا کسی بھی قیمتی دھات سے بنے ہوئے۔ 
 کھانے کے بعد یہ برتن کسی بھی کیمیکل لیکوئڈ سے ہی دھلیں گے ۔ جس کا گاڑھا پن تو ہمیں پسند ہے لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اس برتنوں کی دھلائی کے لیکوئڈ نے سو فیصد کبھی بھی برتن پر سے نہیں اترنا ۔ اور وہ ایک ادھ تہہ آپ کے کھانے کے ساتھ پھر آپ ہی کے اندر جائے گی ۔ جو کینسر کا سب سے بڑا موجب ہے ۔ اس پر پانی بے تحاشا بہایا جائے گا لیکن صاف نہیں ہو سکتا ۔ اس کا بہتر طریقہ دیسی اچھے برتن دھونے کے صابن جو پہلے استعمال ہوتے تھے۔ لوکل بنا کرتے ہیں استعمال کیئے جائیں ۔ اگر لیکوئڈ استعمال کرنا بھی پڑے تو اس کے ایک حصے کو خالی بوتل میں ڈال کر اس میں تین حصے پانی کے ڈال کے اچھی طرح ہلا کر استعمال کریں اور برتن دھوتے وقت ہاتھ کو برتن پر تیزی سے پھینٹنے کے انداز میں ملئیے ۔ تاکہ سو فیصد کیمیکل اتر جائے۔ ایسا ہی اپنی شیمپو ، اور نہانے کے لیکوئڈ کیساتھ کیجیئے ۔انہیں خالص استعمال کرنا خود اپنے ہاتھوں موت خریدنے جیسا ہے ۔ اس سے آپ کا پانی بھی کم استعمال ہو گا ۔وقت بھی بچے گا ۔ یہ مٹیریل ذیادہ چلے گا ۔ پیسہ بھی بچے گا اور جان  بھی بچے گی بیماریوں سے ۔ 
گھروں کے اندر خوشبو کے لیئے دیسی اچھے عطر کا استعمال کیجیئے ۔ کیونکہ مصنوعی ائیر فریشنر آپ کی سانس کیساتھ آپ کے اندر خطرناک امراض جیسے کینسر بھی پہنچا رہا یے ۔ ظاہر ہے آپ ہوا میں موجود فریشنر کو سانس میں لیجانے سے تو روک نہیں سکتے ۔ یا پھر گھر میں گملے ہی میں پھولوں کے جیسے گلاب ، موتیا ، چنبیلی (یا جو بھی خوشبو آپ کو پسند ہو )کے پودے لگانے کا رواج پھر سے ڈالیئے جو آپ کے گھر کو قدرتی طور پر مہکائے رکھے گا ۔ 
اسی طرح آتے ہیں میک اپ کی جانب جو ہر خاتون اور صاحب نے ضرور ہی استعمال کرنا یے پرفیوم لازمی اور بہت ذیادہ اس کلاس کے لوگوں میں چھڑکے جاتے ہیں جو کہ نرا زہر ہوتے ہیں ۔ کیونکہ ایک تو یہ چیزیں جیسے پرفیوم، باڈی لوشنز ، ہینڈ کریمز، چہرے پر لگایا جانے والا میک اپ جیسے فلوئڈ یا بیس، فیس پاوڈر،جو آپ کے منہ کے اندر بھی کسی نہ کسی صورت کچھ نہ کچھ جا رہا ہوتا ہے ۔ یہ سب زہریلے مواد آپ کو مصنوعی خوبصورتی تو دے رہے ہیں لیکن اصلی کینسر جیسی  بیماری کیساتھ ۔ ان چیزوں کا استعمال کم سے کم کریں ، ہاتھوں پر لگے کریم اور لوشنز کو صابن سے اچھی طرح دھوئے بنا کبھی کھانے کی کوئی چیز اس سے اٹھا کر اپنے یا کسی کے منہ میں مت رکھیں ۔ آپ کے ہاتھ سے یہ زہر اس منہ تک بھی پہنچ رہا ہے ۔ اسی طرح ایکدوسرے کو پیار کرتے ہوئے خیال رکھیئے کہ اس کے یا آپ کے چہرے کا میک اپ ہونٹوں ہا زبان  سے لگ کر آپ کے منہ میں کسی صورت تو نہیں پہنچ رہا ۔ یہ بھی زہر ہے ۔ 
رات کو میک اپ صاف کرنے کے بعد تازہ پانی سے منہ دھو کر سوئیے۔ کیونکہ آپ کے چہرے کا یہ میک اپ صاف کرنے والا مواد بھی مصنوعی زہر سے لبریز ہے ۔ 
ان باتوں کا خیال رکھیئے اگر آپ کو اپنی اور اپنے سے جڑے لوگوں کی جان اور صحت بھی عزیز ہے تو ۔۔
                    ۔۔۔۔۔۔۔

جمعہ، 12 اپریل، 2019

✔ کچھ مختلف ہوں لیکن انسان تو ہوں میں ۔ کالم۔ لوح غیر محفوظ


کچھ مختلف ہوں لیکن
انسان تو ہوں میں 
     (تحریر/ ممتازملک.پیرس)  



 ہر انسان میں اسکی جنس کے ہارمونز ہی اسے دوسری جنس سے مختلف صورت میں پیدا کرنے کا باعث ہوتے ہیں ۔ جیسے میل ہارمونز ایک بیٹے کی صورت میں انسانی وجود عطا کرتا ہے تو اسے طرح فی میل ہارمونز بیٹی کی صورت میں دنیا پر ایک وجود کو لاتے ہیں 
 گویا کھیل ہے سارا ایکس اور وائی کروموسومز کا ۔ پھر جب کہیں یہ ہارمومونز اور کروموسومز اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پاتے تو دنیا میں آنے والا بچہ  بطور انسان کچھ مختلف مزاج اور عادات اور کبھی جسمانی ساخت کی کسی کمی بیشی کیساتھ  تولد ہوتا ہے ۔
 اس  میں اہم بات یہ ہوتی ہے کہ وہ بیک وقت لڑکے کے وجود میں لڑکی کے ہارمونز کیساتھ پیدا ہوتا ہے یا پھر لڑکی کے وجود میں لڑکوں جیسے ہارمونل عناصر کو لیکر پیدا ہوتی ہے ۔ 
ان بچوں میں جو وہ دکھائی دیتے ہیں ان کہ عادات اور انداز اس سے  مختلف جنس کو ظاہر کرتی ہے ۔ یوں ان کا جسم اور ذہن دو دنیاوں کو لیکر سفر کر رہا ہوتا ہے ۔ 
ہم انہیں خواجہ سرا، ہیجڑا ، کھسرا ، کراس جینڈر کے ناموں سے پکارتے ہیں اور ایسے ناموں سے عجیب سے گھٹیا سی لذت بھی حاصل کرتے ہیں ۔ کیوں ؟  یہ بات آج تک ہمارے پلے نہیں پڑی ۔ کیا ان کا جسمانی اور روحانی  کشمکش کا یہ کھیل انہیں انسانوں کی فہرست سے خارج کر دیتا ہے ؟ کیا ان کی رگوں میں خون کا رنگ سرخ نہیں ہے ؟  کیا ان کے سینے میں بھی دل موجود نہیں ہے یا سر میں دماغ موجود نہیں ہے؟ انہیں بھوک نہیں لگتی یا انہیں چوٹ لگنے پر درد نہیں ہوتا ؟ انکی آنکھ سے تکلیف میں آنسو نہیں بہتے؟
ان کی کوئی عزت نفس نہیں ہوتی ؟
یا ان کی کوئی کمی انہیں اچھوت بناتی ہے جو آپ کو بھی لگ جائے گی ؟
یہ بات سارے معاشرے کو تو سمجھنی ہی چاہیئے لیکن سب سے پہلے یہ باتیں اس کے والدین کو سمجھ آنی چاہیئیں ۔ کہ کسی ایک عادت یا رویئے  یا جسمانی کمی بیشی سے اس کے باقی سب جذبات و احساسات سن نہیں ہو جاتے ۔ بلکہ وہ جس امتحان کیساتھ پیدا ہوا ہے اسے زیادہ تحفظ اور محبت کی ضروت ہے ۔ کبھی آزما کر دیکھیئے آپ کے بڑھاپے اور بیماری میں ساری نارمل اولادوں سے کئی گنا زیادہ یہ آپ کی خدمت بھی کرتے ہیں اور آپ سے محبت بھی کرتے ہیں ۔ 
ان بچوں کو اللہ کی رضا سمجھ کر جس رخ پر ان کا جھکاو ہے اس سے بدل کر جس وجود میں وہ دکھتے ہیں، اسمیں لانے کے لیئے انہیں اسی طرح کے کاموں اور مشاغل میں  مصروف رکھنا بھی ایک کوشش ہو سکتی ہے۔
ان کے حقوق کی حفاظت کرنا والدین اور بہن بھائیوں کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے ۔ 
ان بچوں کو بھرپور تعلیم اور تربیت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ۔تاکہ یہ معاشی طور پر بھی خود مختار ہو سکیں ۔ اور کسی کی بھی محتاجی سے محفوظ رہیں ۔ یہ دل کے بیحد نازک ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کی دوسری خرابیوں میں یہ بھی سر فہرست ہے کیونکہ یہ بچے  دوسروں کی نظروں کے تیر بھی سہتے ہیں ، ان کے مذاق کو بھی جھیلتے ہیں ۔ شاید سامنے والے اپنے عورت اور مرد ہونے کو اپنا ہی کوئی کارنامہ سمجھتے ہیں  اور یہ ان کے لیئے کوئی لطیفہ ہے ۔ لیکن وہ والدین خصوصا والد جو ایسے بچے کو اپنے لیئے خدا کی رضا سے زیادہ اپنی بدنامی پر تعبیر کرتے ہیں ۔  وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ خود ان کے مرد ہونے میں بھی ان کا اپنا کوئی کمال نہیں ہے ۔ یہ بچہ خود سے اس کشمکش کی زندگی کو منتخب کر کے نہیں آیا ۔ آپ سے زیادہ وہ آزمائش میں ہے ۔ جو کبھی اپنی روح کو فالو کرنا چاہتا ہے اور کبھی اپنے جسم کو ماننے کی کوشش کرتا ہے ۔ ایسے بچوں کے والدین اور بہن بھائیوں کو ان کے ساتھ خاص محبت اور لگاو کی ضرورت ہوتی ہے ۔ انہیں خود سے دور مت کیجیئے ۔ ورنہ ہمارا معاشرہ انہیں نہ تو کوئ عزت دیتا ہے اور نہ ہی تحفظ ۔ ان کو بھی نارمل بچوں کیساتھ پڑھنے کا پورا حق ہے ۔ لیکن ایسا تبھی ممکن ہو گا جب ہمارے معاشرے کے بالغ افراد اپنی بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی اولادوں کو یہ تربیت دیں کہ کسی کی کسی کمی پر، مذہب پر،  عقائد پر کبھی آپ بات نہیں کرینگے ۔ یا کہیں بات یو تو اس کا مذاق نہیں اڑائینگے۔ 
ہمیں اس بات کی آج تک سمجھ نہیں آ سکی کہ پیدا کرنے والے ماں باپ اپنی ہی اولاد سے کسی کمی یا اس کے کچھ مختلف ہونے پر اس سے  نفرت کیسے کر لیتے ہیں ۔ اللہ پاک نے یہ اولاد آپ کی تربیت اور آپ کی محبت پر برابر کے حق کیساتھ عطا فرمائی یے ۔ 
بلکہ کچھ مختلف بچوں کو آپ کی زیادہ محبت اور رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے ۔
 یہ اولاد آپ سے باقی اولادوں سے کہیں زیادہ محبت کرتی ہے ۔ آپ کے لیئے دعا گو ہوتی ہے ۔
 خدا کے لیئے انہیں دھتکاریں مت ۔ ورنہ یہ معصوم برے اور بدکار لوگوں کے ہتھے چڑھ کر کیسے کیسے کاموں میں ملوث کر دیئے جاتے ہیں کہ آپ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے ۔
یاد رکھیئے آپ کو خدا کے سامنے  اس اولاد کے بارے میں  بھی برابر کا جوابدہ ہونا ہو گا ۔ 
                         ۔۔۔۔۔

ہفتہ، 6 اپریل، 2019

✔ ● ہم پاکستانی کدو ۔ کالم ۔ لوح غیر محفوظ


            ہم پاکستانی کدو
              (تحریر/ممتازملک.پیرس)



            ہم پاکستانی کدو
          تحریر: ممتازملک.پیرس 

ابھی ابھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ایک ویڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا جو کہ  ایک امریکی نوجوان کی پاکستان کے دورے پر مبنی تھی ۔ جسے  دیکھ کر ہمارا تو ہنس ہنس کر رونا ہی نکل گیا  سچ میں ۔ جس میں ہر دکاندار انہیں ہر چیز مفت میں بانٹ رہا ہے ۔ کیا قلفیاں  ،کیا ٹوپیاں ، کیا جوتے ، کیا ہی کھابے، کیا رکشے ، کیا سواریاں ۔
کہ اس نوجوان اور اسکے گروپ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور وہ بتا رہا ہے کہ وااااااو پاکستانی کتنی مہان قوم ہے۔ یہ مہمانوں کی کیا بےمثال میزبانی کرتی ہے ۔ کیا ملک ہے پاکستان ۔۔۔۔ واقعی جناب پاکستان جیسا ملک دنیا میں اور کہیں نہیں ہو گا ۔
 لیکن پاکستانیوں جیسی ڈرامہ باز قوم بھی کہیں نہیں ہو گی۔ جو انگریزوں امریکیوں اور انڈینز کے آگے تو باقاعدہ حاتم طائی بن کر اپنے خزانے کے منہ کھول دیتے ہیں اور اس کے کیش کرائے 28 ہزار روپے بھی دس دن میں خرچ نہیں ہونے دیئے ۔ لیکن جناب یہ ہم پاکستانی مہمانوں سے پوچھیئے جنہیں ثواب سمجھ کر کند چھری سے ذبح کرنا بھی یہ ہی پیارے پاکستانی اپنا اولین فریضہ سمجھتے ہیں۔ ہم باہر ہوں تو بھی بریانی کی پلیٹ سے انصاف کرتا ہوا ملک میں بیٹھا ہوا پیارا یا پیاری فون کی گھنٹی سنتے ہیں باقاعدہ ماتمی انداز میں، ہائے میں رڑ گیا ، ڈوب گیا ، بھوکا مر گیا ،کے بین سنائے گا/گی ۔ اور وہاں سامنے بیٹھے یا بیٹھی کو آنکھ مار کر اپنی ایکٹنگ پر داد لینے کو  فخریہ مسکراہٹ اچھالے گا/گی۔۔ جبکہ بیرون ملک سے فون کرنے والے ہم جیسے احمق کدو گھر کے راشن کے پیسے بھی اٹھا کر فورا اپنی بیوی یا شوہر کو بتائے بنا ہی اسے منی گرام کرنے کو دوڑ پڑے گا کہ اف خدایا کہیں دیر ہو گئی تو واقعی کسی کے مرگ کی خبر ہی نہ آ جائے ۔ پاکستان جانے کے لیئے ایک ایک کے لیئے کوئی نہ کوئی تحفہ نہ رکھا تو گویا آپ کی شکل دیکھنا ان کے لیئے حرام ہو جائے گی ۔ ہم وہاں مہمان نہیں ہوتے بلکہ ہم ہی وہاں بیٹھوں کے میزبان قرار دے دیئے جاتے ہیں۔ 
 بھئی آپ لوگ آئے ہیں تو ہماری بھی  آوٹنگ ہو جائے گی ھی ھی ھی ۔ ورنہ ہم کہاں جا پاتے ہیں کہیں، چلو بیٹا ماموں ، چاچا  تایا ، پھپھو آئی ہیں شاباش تیار ہو جاو ان کو کمپنی دینے کو۔ اور اس دس پندرہ لوگوں کی  کمپنی میں یہ ایک میزبان کدو ہوتا ہے جس کے سر پر اب پاکستان آنے کے جرم کی پاداش میں پوری پوری سزا کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ یعنی ہم جیسے باہر سے گئے پاکستانی کدو کا اب بھجیا بھی بنے گا اور حلوہ بھی۔ اس امریکی کے اٹھائیس ہزار بچانے والی قوم کے سیانے رشتہ دار اور ملاقاتیئے ہمارے ایک ماہ میں اٹھائیس لاکھ لگوا کر بھی ہم سے کبھی راضی نہیں ہوتے ۔ ہمارے ہی تحفے کو" ایک ہی "گننے والے کو وہ ایک ہزار لوگ کبھی نظر نہیں آئینگے جنہیں یہ ایک ایک کر کے تحفہ نوازی کی گئی ہے ، اس کی شادی ہے ارے آپ باہر سے آئے ہیں کچھ دے دیجیئے گا پہلی بار مل رہے ہیں نا، ان کا عقیقہ ہے ارے کچھ دیدیجیئے نا آپ تو باہر سے آئے ہیں ، اس کی سالگرہ ہے ،یہ پیدا ہو گیا ہے ، وہ مر گیا ہے ۔۔۔۔بس کسی نہ کسی بہانے کچھ دیدیجیئے نا 
 اب بندہ پوچھے تم لوگ یہاں رہتے ہو ۔یہ تمہیں تمہارے مواقع پر لوٹائیں گے ہماری کونسی خوشی غمی یہ بانٹنے آئینگے کہ ہم ان کو دے دیکر جائیں۔  
 تو سمجھ میں آیا کہ ہم کدو ہی تو ہیں ان سیانے پاکستانیوں کی کمیٹیاں ۔ ہم سے ہزاروں روپے بھروائے جاتے ہیں جو بعد میں وہ رشتہ دار اپنے گھر کی تقریبات میں کمیٹی اور بی سی کے طور پر کھلوائیں گے ۔ اسے کہتے ہیں آم کے آم گٹلیوں کے دام ۔ 
ہم تو ان کے موٹر سائیکل سے گاڑی اور تانگے سے رکشہ اور چنگچی کے کرائے اور پٹرول بھی بھرتے ہیں ۔ سارے گھر میں بیس بندوں کا راشن میں بھرواتے ہیں اور ہر روز ایک دو ہزار روپے  کہیں نہ بھی نکلیں تو مذاق ہی مذاق میں جھڑوا لیئے جاتے ہیں ، کس مد میں یہ آپ کو کبھی سمجھ نہیں آئے گی ۔ بل آیا ہے تو ان کے ٹبر کا بل بھی آپ ہی بھریں کیونکہ آپ نے غلطی سے ان کے ہاں انٹری جو دے دی ہے ۔ سو گھر کی ساری گیس اور بجلی آپ نے چوس لی ہے جو اب آپ کو نچوڑ نچوڑ کا نکلوائی جائے گی ۔ آپکو گنے کی طرح دوہرا چوہرا کر کے خرچوں کی مشین میں سے گزارا جائے گا ۔ جب تک آپ کا پھوک بھی بکری کے کھانے کے لائق نہ رہے ۔ جب تک آپ کی جیب کی زبان باہر آکر لٹک نہ جائے یہ سب آپکو جونک کی طرح چمٹے رہینگے ۔ جیسے ہی آپ کی جیب سے "خالی ہے" اور کارڈ سے  "نو بیلنس" کا نعرہ بلند ہو گا سب اسی طرح اپنی تاثرات اور رنگ بدلیں گے کہ آپ کو گرگٹ بھی معصوم نظر آنے لگے گا ۔ 
اس ویڈیو میں جو چالاک ٹولہ بیان دیتا ہے کہ ہم پیسے کو کچھ نہیں سمجھتے ۔ ہم سمجھتے ہیں رشتوں کو ویلیوز کو  اور روایات کو ۔ تو اس فلمی ٹولے سے کہیں خدا کو منہ دکھانا ہے کیوں پیچھے سے جا کر دکانداروں کو پیسے دیتے ہو۔ اور دنیا کی آنکھ میں مرچیں جھونکتے ہو ۔ کبھی تو سچ بول لیا کرو ۔ اگر ہمدردی اور میزبانی ہی کرنی ہے تو اپنے پاکستانی مہمانوں کیساتھ بھی یہ مہربانی کر دیا کرو ۔ جن کا خون چوسنے کی کیا رشتہ دار ، کیا دوست احباب،  کیا ملاقاتیئے ، کیا ہی دکاندار سب نے ہی  قسم کھا رکھی ہوتی ہے ۔ اللہ کے ہاں  کسی انگریز اور امریکی کو مفتے بانٹنے پر انعام نہیں ملنا کیونکہ وہ کوئی غریب غرباء اور محتاج نہیں ہیں بلکہ اپنے پردیسی پاکستانیوں پر ترس کھانے اور ان کی میزبانی کرنے پر ملنا ہے ۔ اگر ہمارے یہ تجربات جھوٹے ہیں تو پلیززززز مجھے بھی اسی ویڈیو والے مفتے پاکستان میں جانا ہے ۔۔کوئی بھیجے مجھے اس کا پتہ پلیززززز
اور ہاں ہم جیسے سارے کدو 
اپنے بچے سرکاری سکولوں میں سرکاری وظیفے لے لیکر پڑھانے والے کدو یاد سے اپنے پچھلوں کے انگلش میڈیم سکولوں کی فیس بھروانا نہ بھولیں ۔ آخر کو آپ کی قبر ہر چراغاں یہ ہی بھانجے بھتیجے ہی تو کروائیں گے ۔ اپنی اولاد تو خیرات پر پل ہی جائےگی ۔ 
واپس جائیں اور اپنے اندر نوٹوں کا پیڑ اگائیں اور فون کی گھنٹی بجا کر یا اٹھا کر اپنا پھر سے حلوہ بنوائیں 😁😁😁۔
لیکن یاد رکھیں پاکستان کے کلچر کو، اس کے حسن کو آپ کے جھوٹے تڑکے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں یے ۔ یہ بےمثال ملک اپنی سچی خوبیوں ہی کی وجہ سے دوسروں کو متاثر کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے ۔ اسے جھوٹ کی بیساکھیوں پر کھڑا کر کے معذور مت کہلوائیں ۔ یہ ملک اپنے پیروں پر کھڑا ہونا جانتا یے ۔ ضرورت ہے پاکستانیوں کو اپنی حیا ، خود داری اور محنت کشی کو جگانے کی ۔  اور اپنی لالچ ، شارٹ کٹس ،حرام خوری اور مفت خوری کو سلانے کی ۔۔۔
پاکستان زندہ باد 
                        ●●●

                      





جمعہ، 29 مارچ، 2019

✔ زیادتی کے واقعات کی شرح ۔ لوح غیر محفوظ


زیادتی کے واقعات کی شرح 
  (تحریر/ممتازملک.پیرس)



میں حیران ہوتی ہوں ان خواتین پر جو ہندو پاک میں رہ کر خصوصا پاکستان میں رہ کر ادھ ننگے لباس میں ،کھلے سر ، کھلے گلے ، بنا آستین یا برائے نام آستین  اور باریک لبادوں میں خود کو گھر سے باہر لاتی ہیں اور پھر شکایت کرتی ہیں کہ ہم محفوظ نہیں ہیں اور خود کو ڈھانپنے کا کہو تو فرماتی ہیں کہ ہم پردہ کیوں کریں تم پردہ اپنی آنکھوں پر باندھ لو ۔ 
سچ کہوں تو یہ پردہ ان بے پردہ  خواتین  کی عقل پر پڑ چکا ہوتا ہے جبھی تو ایک آذادی اور بےپردگی پسند گروہ کی خواتین کبھی یورپ امریکہ کی مثال دیتی ہیں کہ وہاں تو عورت بے لباس بھی گھومتی ہے وہاں کے مردوں پر تو عورتوں پر یوں جھپٹنے کے دورے  نہیں پڑتے  تو کبھی دوسری پردہ پسند خواتین امریکہ اور یورپ میں ہونے والے ہیرسمنٹ اور زیادتی کے واقعات پر فخر سے بیان فرماتی ہیں کہ دیکھو کیونکہ ہم پردے میں ہیں اس لیئے ہمارے ہاں ہیرسمنٹ اور زیادتی کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہیں ۔۔۔۔
تو احترام سے ان دونوں گروہوں کی خواتین سے عرض ہے کہ پیاری بہنوں 

 ۔ ان (یورپ اور امریکہ ) کی مٹی میں اور ہماری مٹی میں،  آب و ہوا میں زمین آسمان کا سا فرق ہے ۔ وہ ٹھنڈے مزاج کے پرسکون لوگ ہیں ۔ وہ تو اپنی بیویوں پر نہیں ٹوٹ پڑتے تو کسی اور پر کیا ٹوٹ پڑیں گے ۔ اور ادھر  ہمارے مرچ خور گرم مزاج مرد تو جھاڑی پر دوپٹہ پڑا دیکھ کر اسے تاڑنے سے باز نہیں آتے ۔ کھسروں کے پیچھے پاگل ہو کر پری جیسی بیوی گھر میں بٹھا کر دوست کو قتل کر دینے والے ان  لوگوں کو یورپ اور امریکہ کے لوگوں سے مت ملائیں ۔ آپ میں سے وہ خواتین جو امریکہ یورپ میں رہ چکی ہیں کیا آپ کو عادات و مزاج کی یہ سردی گرمی محسوس نہیں ہوئی ؟
بالفرض میں غلط بھی کہہ رہی ہوں تو  بحیثیت مسلمان کے اللہ پاک کے احکامات کی لوجک سمجھ میں نہ آئے تو کیا ہم اسے رد کر دیں ؟
عصمت دری کے جو ریشو ہم پاکستان میں بیٹھے لوگ خوشی سے بیان کرتے ہیں ہمیں تو یہ ہی نہیں معلوم کہ وہاں زیادتی کہتے کس کو ہیں ؟  
یہاں یورپ اور امریکہ میں آدمی اپنی ہی بیوی کو اس کی مرضی کے بنا چھو لے تو وہ بھی اس پر ہیرسمنٹ اور زیادتی کا پرچہ کروا دیتی یا کروا سکتی ہے ۔ کسی کا ہاتھ اس کی مرضی کے بغیر پکڑنے پر اس پر یادتی کا کیس بنا دیتی ہیں ۔ اور نہ بنائیں تو اپنی مرضی سے کسی کے ساتھ بے نکاحے رہنے پر بھی کوئی اعتراض نہیں کرتی ہیں ۔ اسی لیئے یہاں کہتے ہیں کہ اگر کسی خاتون کیساتھ کوئی بات ہوئی ہے تو اس میں اس خاتون کی اپنی رضامندی کے بنا کچھ نہیں ہو سکتا ۔۔اسی لیئے یہاں پر سوئی جیسی بات بھی رپورٹ کی جاتی ہے جسے ہم عصمت دری کے واقعات کہہ کر خوش ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ واہ واہ ہم تو صاف ستھرے ماحول میں ہیں ہمارے ہاں تو ایسے کیسز برائے نام ہیں ۔ جبکہ معاملات اتنے خوفناک ہیں کہ پاکستان میں اگر ہر کیس یورپ اور امریکی قانون اور آذادی کے حساب سے درج کروانے پر آئیں تو ہم دنیا میں ہیرسمنٹ اور عصمت دری کا ورلڈ ریکارڈ بنا سکتے ہیں ۔ یقین نہیں آتا تو  آپ اکیلی عورت کو برقعے ہی میں کسی سڑک کے کنارے کسی کے انتظار میں بھی  دس منٹ کھڑا کر کے دیکھ لیں آپ ایسا  نہیں کر سکتے ۔۔مردوں کا جم غفیر اسے گدھوں کے طرح گھیر کر جھپٹنے کو بیقرار ہو جائے گا ۔ اچھے بھلے شریف گھر کی شریف عورت بھی اس وقت خود کو پراسٹیٹیوٹ سمجھنے لگتی پے ۔ بس میں ،ٹرین میں ، بھرے بازار میں کہیں بھی سب کو بتا کر کہ میں اکیلی سفر کر رہی ہوں یا یہ لڑکی اکیلی سفر کر رہی ہے ۔ اس کی حفاظت سے باعزت پہچنے کی گارنٹی نہیں دی جا  سکتی ہے ۔ رہی بات ریشو کی تو جس معاشرے میں شریف اور گھر بیٹھی کنواری  لڑکیاں رشتوں کے انتظار میں بوڑھی ہو رہی ہیں وہاں اگر وہ کہیں اپنے ساتھ کسی کی زیادتی کا کیس بھی رپورٹ کروا دے تو ایمان سے بتائیں کتنے جرات مند و غیرت مند مرد ہوں گے جو اس سے شادی کرنے کو تیار ہونگے ؟ بلکہ سچ پوچھیں تو ہمارے منافق معاشرے میں ایسی عورت کو دھندے پر تو بٹھانے میں کسی کو کوئی عار نہیں ہو گا لیکن اسے بیوی بنا کر عزت کی چادر اوڑھانے والا کوئی نہیں ہو گا ۔ اس لیئے ہمارے ہاں ہر کیس کو مٹی ڈال کر زبان سی لی جاتی ہے ۔  صرف وہ کیسز منظر عام پر آتے ہیں جو چھپانے ناممکن ہو جاتے ہیں ۔ اس لیئے میں ممتاز ملک بیس  سال سے یورپ میں رہتے ہوئے ان یورپئین مردوں کی شرافت اور اعلی کردار کی گواہی دیتی ہوں اور  افسوس کیساتھ 26  سال پاکستان میں گزار کر پاکستانی مردوں کی اکثریت کی گھٹیا کردار اور گھٹیا سوچ ہونے کی گواہی دیتی ہوں ۔ ۔۔۔ سب نہیں لیکن اکثریت ۔۔۔۔باقی جو رہ جاتے ہیں یہ بھی وہ ہیں جنہیں یا تو موقع نہیں ملتا یا پھر ۔۔۔۔۔
میں یورپ میں  اپنی بیٹی کو رات کے دو بجے دو تین بسیں اور ٹرینیں لیکر ایک جگہ سے دوسری جگہ کام پر آنے جانے کی اجازت دیتی ہوں ۔ ایمانداری سے حلفا بتائیے کیا آپ پاکستان میں ایسا کر سکتی ہیں ؟ 
                        ۔۔۔۔۔۔

بدھ، 20 مارچ، 2019

✔ مجرمانہ خاموشی اور بندر بانٹ ۔ لوح غیر محفوظ


    مجرمانہ خاموشی اوربندر بانٹ
         (تحریر/ممتازملک.پیرس)


کہتے ہیں کہ کہیں آگ ہوتی ہے جبھی تو دھواں اٹھتا ہے ۔ ہمارے ملک میں این جی اوز کا کردار اور شہرت بھی ہمیشہ  سے ایسی ہی رہی ہے ۔ کچھ این جی اوز کو چھوڑ کر باقی سبھی کے ساتھ کوئی نہ کوئی بدنامی اور  شکوک و شبہات ہمیشہ ہی منسوب رہے ہیں ۔۔ اس کی یقینا مضبوط اور ٹھوس وجوہات بھی رہی ہیں ۔ پہلی وجہ ان کی چلانے والی اکثریت ان خواتین پر مشتمل ہوتی ہے جن کا اپنا کیریکٹر ریکارڈ زیرو ہوتا ہے۔ 
اکثر ہی اپنے گھر  کو چلانے میں ناکام رہی ہیں ۔
اکثر کی اپنی ہی اولادیں منشیات اور بےراوی کا شکار ہو کر انہیں ناکام مائیں ثابت کرتا ہے ۔
ان کے بینک اکاونٹس کے پیسے کا حساب کتاب حیران کن ہوتا ہے۔
ان کا طرز زندگی اکثر مادر پدر آذاد ہوتا ہے۔
ان کی اکثریت مذہب اور معاشرتی حد بندیوں سے بیزار ہوتی ہے ۔ 
ان کی اکثریت این جی اوز کی آڑ میں مشکوک سرگرمیوں میں ملوث پائی جاتی ہے ۔
یہ اکثر ملک دشمن لوگوں کی ڈارلنگ ہوتی ہیں ۔ 
معصوم اور بے سہارا لڑکیوں کی عزتیں ان کے پاس محفوظ نہیں ہوتیں ۔
ان کے پاس کسی بھی مدد کی طلبگار  خاتون کے لیئے پہلا مشورہ طلاق لینے  کا ہوتا ہے ۔
یہ اصلاحی سے زیادہ تخریبی کاروائیوں میں ملوث پائی جاتی ہیں ۔۔
یہ اور اس سے بھی کہیں ذیادہ شرمناک کاروائیوں میں ان این جی اوز کی مالکان اور کرتا دھرتاوں کے نام لیئے جاتے ہیں ۔ ان کا موجودہ کارنامہ معصوم ، عزت دار ،محنتی اور غریب خواتین کو ان کے حقوق کے نام پر اپنے بے شرمانا اور غلیظ مقاصد کے لیئے 8 مارچ 2019ء کے مارچ میں دھوکے سے شامل کرنا تھا ۔ اس کا ثبوت یی ہے کہ  اس مظاہرے میں شامل جس بھی عام عورت سے بات ہوئی تو مظاہرے کے مقاصد ہی کیا انہیں تو یہ تک معلوم نہیں تھا کہ ان کے ہاتھوں میں کون کون سے غلیظ پوسٹرز اور کارڈز پکڑا دیئے گئے ہیں ۔ انہیں بھی یہ خبر شام کو اپنے گھروں کے ٹی وی سیٹ  اور اخبارات و سوشل میڈیا سے ہوئی کہ انہیں کس طرح سے معاشرے کی ان غلیظ ہستیوں نے دنیا بھر میں اپنے ملک ، مذہب اور معاشرت کیخلاف بیچا ہے ۔ 
اس پر شاباش ہے ہمارے حکومتی ٹھیکیداروں کو جنہیں ملک میں ہوتے اس بے حیائی کے سونامی کی تو نہ خبر ہوئی نہ ان پر کوئی بجلی گری ، ہاں اگر کچھ بیحد ضروری تھا تو وہ اس  باندر کلے کے کھیل میں اپنی کام چوریوں اور  بربادیوں کے عوض اس ملک کے خزانے سے اپنی تنخواہوں کا بے تحاشا اضافہ تھا ۔ جس میں سارے ٹی وی کے نیوز چینل سیاسی مجاہدین  (برضا و رغبت لبیک کہتے شیروشکر تھے )قبول ہے ،قبول ہے ،کہتے رہے جو ہر روز میڈیا پر بیٹھے ایک دوسرےکی ماں بہن ایک کر رہے ہوتے ہیں ۔کہ خزانہ خالی ہے ۔ ہم بھوکے ننگے ہو گئے ۔۔دنیا ہمیں بھیک دے ۔ ہم پر ترس کھائے۔ جن کے حکمران ہر روز ایک نئے ملک میں امداد کا پیالہ لیئے گھوم رہے ہیں وہاں ہمارے نمائندگان بیٹھے چوپڑہاں بانٹنے میں مصروف ہیں ۔
گویا پھر سے ثابت ہو گیا کہ  جہاں مال و متاع کی ہڈی ہو گی وہاں ہر جماعت کے اراکین بلا۔لحاظ وتفریق
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
کی عملی تفسیر  پیش کرتے نظر آئینگے۔
 لیکن اس بے حیائی کی نمائندگان کی تادم تحریر نہ ہی کوئی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے ، نہ ہی کوئی حکومتی ایکشن دیکھنے میں آیا ہے ۔ اس  کٹی پارٹی ، اور شاپنگ فوبیاز اور جنسی طور پر ترسی ہوئی بیقرار اور بدکار خواتین کے ٹولے کو عبرت ناک سزائیں دینا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کسی دوپٹے کو آگ لگ جائے تو اس پر اور کچھ نہ ملے تو اپنا پاوں رکھ کر ہی بجھا دینا چاہیئے ۔ 
ہمارا مذہب دنیا کا بہترین مذہب ہے جو ہمیں بحیثت عورت بھی اور انسان بھی وہ حقوق دیتا ہے جس کی بنیاد پر آج ترقی یافتہ اقوام نے اپنے فلاحی محفوظ معاشرے کی بنیاد رکھی ہے اور ہماری معاشرت کی خرابیوں کو ہم خود افہام و تفہیم سے بہتر انداز میں چھانٹ سکتے ہیں ۔ اس کے لیئے ہمیں ان بیمار ذہن  اور گھٹیا کردار کی عورتوں کی قطعا کوئی نہیں ضرورت ہے ۔ بطور عورت ہمارے مرد رشتے ہمارا مان بھی ہیں اور ہمارے محافظ بھی ۔ ان میں سے جو بھی اپنی ذمہ داری سے بھاگے گا ہم اسے کان سے پکڑ کر ، چاہے ہاتھ جوڑ کر اپنے صحیح راستے پر واپس لائیں گے۔  ان سے اگر غلطیاں ہوتی ہیں تو دودہ کی دھلی ہم عورتیں بھی نہیں ہوتیں ۔ تو جب غلطیاں دو طرفہ ہیں تو اصلاح بھی دو طرفہ ہی ہونی چاہیئے ۔ محض مردوں کو بدنام کرنے سے نہ کوئی مسئلہ حل ہوا ہے نہ ہو گا ۔ کیونکہ دنیا کو مرد اور عورت دونوں نے ہی مل کر چلانا ہے ۔  اس لیئے ہم ہمارے مذہب اور معاشرت سے باغی کرنے والی ہر انجمن ، ایسوسی ایشن، تنظیم، این جی او  کو مسترد کرتے ہیں ۔ اور نہ صرف  ان پر بین لگانے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ بلکہ ان کی کرتا دھرتاوں کو قرار واقعی سزا دینے کا بھی مطالبہ کرتے ہیں ۔ 
                      ۔۔۔۔۔


بدھ، 6 فروری، 2019

■ اسلام کے چوکیدار / کالم ۔ لوح غیر محفوظ




اسلام کو کسی چوکیدار کی ضرورت نہیں ہے 
                              (تحریر/ممتازملک ۔پیرس)

اسلام محبت اور بھائی چارے کا مذہب  ہے ۔ لیکن فی زمانہ مسلمان گھرانوں میں پیدا ہونے والے خوش نصیب ہی  ان بدنصیب لوگوں میں شامل ہیں جنہیں اسلام کے نہ بنیادی فرائض کا علم ہے اور نہ ہی اسلامی اصولوں کا ان کی زندگیوں میں کوئی گزر ہے ۔ ہم مسلمان ہیں اس لیئے کہ ہم مسلمان باپ کے گھر میں پیدا ہوئے ۔ 
زیادہ سے زیادہ ہم میں سے کوئی  کبھی کبھار یا دن  میں کبھی نماز ہی پڑھ لیتا ہے۔ پیسہ ہوا تو حج اور عمرہ ادا کر لیا ۔
 وہ بھی محض دنیا دکھاوے کے لیئے، ورنہ ہر سال 40 پچاس لاکھ مسلمان حج ادا کر کے بھی واپسی پر اپنے کردار میں کسی قسم کی کوئی مثبت تبدیلی کیوں نہیں لا پاتے ۔ کیونکہ انہوں نے یہ نماز ، حج اور روزے محض رسما ادا کیئے ۔ اس کی روح سے ناواقف اس کے فیوض و برکات سے محروم ۔ ہم اس وقت تک خود کو مسلمان نہیں کہہ سکتے جب تک ہمارے کردار ،قول و فعل سے متاثر ہو کر کسی غیر مسلم کو  اس مذہب کی جانب رغبت حاصل نہ ہو سکے ۔ 
 اس کی تازہ مثال ہالینڈ کا وہ ممبر پارلیمنٹ جو سالوں سے اسلام دشمنی میں پیش پیش رہا ۔ مسلم دشمنی میں ان کے  شدت انگیز بیانات جن کی شناخت رہے ہیں ۔ یہاں تک کہ انہوں نے اپنے ان اسلام مخالف خیالات کو کتابی شکل دینے کا آغاز کر دیا ۔ اسلام کے ہر نکتے پر اعتراضات ڈھونڈنے کے ارادے سے انہوں  نے اسلام کو پڑھنا شروع کیا ۔ جیسے جیسے اسلام میں اندھیرے ڈھونڈنے والے نے اس کے جس نکتے کو ہاتھ لگایا وہ ایک چراغ کی صورت اس کے دل میں روشن ہوتا چلا گیا ۔۔ اندھیرے کی یہ کتاب کیا مکمل ہوتی اس کی روح میں ایمان کا فانوس روشن ہو گیا ۔  
وہ خود اس بات پر حیران ہے کہ وہ کس ارادے سے اسلام کو پڑھنے بیٹھا اور کیا لیکر واپس لوٹا ۔ تو ثابت ہوا کہ دین کو پڑھنے اور سچے دل سے پڑھنے کی شرط بھی ہے اور ضرورت بھی۔  آپ کے دل و دماغ کیا آپکی روح تک میں پہنچنے کے سارے راستے وہ خود ہی بنا لیگا ۔ 
ہم پیدائشی مسلمان ساری عمر خود کو دوسرے سے بہتر ثابت کرنے کے گمان میں ہر ایک کو کافر قرار دینے میں گزار دیتے ہیں ۔ فرقہ بازیوں نے ہمیں کبھی اللہ کی کتاب کھولنے کی توفیق ہی نہ ہونے دی ۔ اور ہم نے اپنا دین مولویوں اور علماء کی زبانوں کے سپرد کر دیا ۔ گویا ہمارے حصے کا دین بھی انہوں نے پڑھنا ہے اور ہمارے حصے کی سزائیں بھی انہوں نے ہی کاٹنی ہیں ۔ بس جب وہ ہمیں آواز دینگے ہم اندھے،گونگے،بہرے بن کر، دین کے چوکیدار بن کر وہ جس پر کہیں اس پر حملہ کر دیں ۔ اسے کاٹ دیں ۔ اسے تباہ کر دیں ۔ کیونکہ 
 اس طرح ہمیں اللہ کے دین کی چوکیداری کے بدلے میں جنت ملے گی ۔ کیا واقعی ؟؟؟
جس اللہ نے کن کہہ کر یہ کائناتیں تخلیق کیں، وہ ہماری ہی چوکیداری کے سہارے اپنے دین کو بچائے ہوئے ہے ؟ 
وہ ابابیلوں سے ہاتھیوں کو مروانے والا ہم جیسے کمزور ایمان اور رنگ برنگے عقائد کے سوداگروں کے ذریعے اس دین کو باقی رکھے ہوئے ہے ؟
انا للہ وانا الیہ راجعون ہماری ایسی سوچ اور گمان پر بھی ۔۔
دنیا بھر میں آج بھی  جب بھی کوئی ایمان لاتا یے تو اسلام دشمنی ہی میں اللہ کے کلام کو کھنگھالنے بیٹھتا ہے اور پھر اس بحر بیکراں میں نایاب موتی چنتے چنتے اتنی دور، اتنی حسین اور مکمل دنیا میں گم ہو جاتا ہے کہ نہ اسے اپنی تاریک آذادیاں یاد رہتی ہیں اور نہ کھوکھلی خوشیاں ۔۔۔
سو ہم سب کو بھی اللہ کی کتاب کو خود سے کھول کر صرف اپنے ایمان کی اصلاح کرنے کی شدید ضرورت ہے ۔ تاکہ ہم بھی اس سمندر سے موتی نہیں تو نہ سہی کچھ سیپ ہی چن سکیں ۔ اس دین کو اللہ نے مکمل کر دیا ہے ۔ اس کی حفاظت کا وعدہ اس نے کیا ہے اور اس سے بڑھکر کوئی وعدے نبھانے والا بھی نہیں ہے ۔ اس لیئے اس کے دین کے چوکیدار بننے سے اچھا ہے کہ ہم اپنے ایمان اور کردار ، اپنے اعمال اور اپنے نفس کی چوکیداری کریں ۔ اسی میں ہماری بخشش و فلاح دونوں پوشیدہ ہیں ۔ 
                    ●●●



اتوار، 23 جولائی، 2017

✔ علم +روزگار=زندگی ۔ کالم۔ لوح غیر محفوظ



علم+روزگار =زندگی 
ممتازملک. پیرس


کسی نے سوال کیا...
کیا علم صرف پیسہ کمانے کے لیئے حاصل کیا جاتا یے ایسی سوچ کس نظام کو فروغ دے رہی ہے ؟
تو جناب علم صرف پیٹ پالنے کے لیئے اور پیسہ کمانے کے لیئے تو نہیں ہے یہ بات کوئی بھرے پیٹ والا ہی کہہ سکتا یے . ورنہ انسان کی سب سے پہلی اور بنیادی  ضرورت ہے روٹی جو  روزگار سے وابستہ ہے.
جس علم سے روزگار نہ مل سکے پیٹ نہ پل سکے وہ علم بھی بیکار ہے . کسی روز فاقہ  کر کے کتابیں پڑھ کر دن رات بتا  کر دیکھیئے گا . سمجھ میں آ جائے گا .
کہتے ہیں کہ
پنج رکن اسلام دے تے چھیواں رکن ٹک
جے کر چھیواں نہ ہووے تے پنجے جاندے مک.....
کہتے ہیں کہ ہمارے بزرگوں نے تو علم کو روزگار کے کیئے حاصل نہیں کیا .
جی ہاں انہوں نے نہیں کیا لیکن انہوں نے  جنہوں نے بچے اور خاندان نہیں پالے.
اور اسلام رہبانیت کو دھتکارتا ہے. اور رشتوں اور خاندان کو اہمیت دیتا ہے . حقوق العباد کو اللہ کے حقوق پر فضیلت دیتا ہے ...
تو ان سب کا محور و مرکز کیا ہے ؟
صرف سر پر شاباش کا ہاتھ رکھ دینے سے ماتھا چومنے  سے بھوکے کے پیٹ کی آگ بجھ جائے گی ؟
کیا کسی کو محبت سے دیکھنے اور میٹھا میٹھا بولنے سے اس کے بدن کی ستر پوشی کا انتظام ہو جائے گا ...
کیا جی جی کرنے سے بیمار کی دوا آ جائے گی ؟
کیا میرے اچھے اخلاق سے کسی ضرورت مند کی ضرورت پوری ہو جائے گی ؟
نہیں ہر گز نہیں ...
میں کتنی بھی نیک اور صالح ،نرم دل، مہذب ہو جاوں یہ سب پیسے کے بنا نہ  روٹی خرید سکتے ہیں نہ کپڑے نہ دوا نہ گھر ...
ان سب کے لیئے پیسہ چاہیئے
پیسے کے لیئے روزگار
اور روزگار کے لیئے ہنر اور تعلیم وہی اور اتنی سب سے زیادہ اہم ہے جو مجھے وہ ہنر سکھا سکے.
مولوی صاحب  بہت کھاتے ہے لیکن وہ کھانے کا انداز مانگنے والا ہوتا ہے.
سو کوئی بھی شخص اپنے بچے کو مولوی دوسرے لفظوں میں مانگنے والا  نہیں بنانا چاہتا .
اگر وہ ایک باقاعدہ ادارے کے تحت اچھی تنخواہ پر کام کرے مولانا کے عہدے پر، تو ہر ایک اپنے  بچے کو مولانا بنانا چاہے گا .
کیونکہ پھر وہ ایک باقاعدہ کام اور روزگار شمار ہو گی.
لیکن آپ نے یہ نہیں بتایا کہ علم آپ کی نظر میں کسے کہتے ہیں ...
علم کا مطلب ہے جاننا..
کیا جو لوگ ہنر سیکھتے ہیں .یہ علم نہیں ہے کیا ؟
علم صرف کتابوں کے رٹے  لگا کر ڈگری لینے ہی کا نام ہے ؟
بلاشبہ اللہ نے انسان کو سب سے پہلے اقراء کہہ کر پڑھنے کا حکم دیا لیکن
اقراء کہنے والے نے رزق کمانا بھی تو فرض کر دیا نا . ورنہ گھر بیٹھ کر  اقراء کرنے والے کی  چوتھے دن لاش ہی برآمد  ہو گی جناب 
پھر تو ہمارے انبیاء خوامخواہ ہی اینٹ پتھر توڑتے تھے. مشقت کرتے تھے اور رزق کما کر کھانا عین عبادت ویسے ہی فرما گئے کیا؟
آرام سے ایک کونے میں بیٹھ کر جنت سے طباق  اترنے کا انتظار کرتے  .
اس طرح تو پھر آج کے پیر فقیر ڈرامہ باز  زیادہ سمجھدار ہو گئے . نعوذاباللہ
توکل بہترین چیز ہے لیکن
توکل اللہ یہ نہیں ہے کہ آپ ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جائیں  اور معجزات کا انتظار کریں.
بلکہ یہ ہے کہ آپ اپنی بھرپور کوشش  کے بعد جو کچھ کم یا زیادہ حاصل کر پائیں اسی پر اللہ سے راضی ہو جائیں .
جو علم آپ کو رزق پیدا کرنا اور ڈھونڈنا نہیں سکھا سکتا ایسے  علم سے تو انسان جاہل ہی بہتر ہے .
علم سے رزق کو کبھی الگ نہیں کیا جا سکتا .
کیا کوئی کھائے بنا علم حاصل کرنے نکل سکتا ہے ...
کبھی نہیں...
تو کھائے گا کہاں سے؟ کمایا ہو گا یا کسی نے کما کر کھلایا ہو گا جبھی کھا کر زندہ رہیگا اور علم حاصل کریگا نا . ویسے کتنی عجیب بات ہے جناب ...
جنہیں ہم جاہل ان پڑھ کہتے ہیں انہیں کی کمائی پر ہم ڈگریاں حاصل کرتے ہیں . اور پھر انہیں زندگی کا سبق بھی پڑھاتے ہیں اور انہیں انکی جہالت اور ڈگری نہ ہونے کا طعنہ بھی دیتے ہیں جبکہ اس کی جہالت آپ کے پیٹ کا دوزخ بھر کر آپ کو کنگھی پٹی کر کے سکول کالج اور یونیورسٹی بھیجتی رہی کہ کب  میرا بچہ میرا بھائی میری بہن مجھے علم کا مطلب سکھا سکے اور یہ بتا سکے کہ آپ جاہل لوگ آپکو کیا پتہ یہ کپڑے میلے کر کے مشقتیں کرنا لوہے ،لکڑی اور گارے یا مشینوں کیساتھ روزگار کرنا جاہلوں  کا کام ہے . کام تو ہمارے پاس ہے یہ دیکھو کتنی بڑی ڈگری  ہے میرے پاس ..ہم ڈگری والے ہواوں  میں قلعے بناتے ہیں.  خیالی پلاو پکاتے ہیں .. اور کیا چاہیئے .
زندگی بھی اک لطیفہ ہو گئی ہے
اور میری بحث کا نچوڑ یہ ہے جناب
کہ
علم کے مختلف درجے ہوتے ہیں
اس میں سب سے افضل درجہ وہ ہے جو آپ کو باعزت روزگار کمانے میں بھی مدد کر سکے .
کیونکہ ہم سب کچھ کر سکتے ہیں اگر زندہ ہیں تو ....
اور زندہ تب رہتے ہیں جب رزق روٹی کھاتے ہیں .
اور روٹی تب ملتی ہے جب جیب میں پیسے ہوں .
اور پیسے تب ملتے ہیں جب ہم روزگار والے ہوں
اور روزگار تب ملتا ہے جب ہمارے پاس اس روزگار کے کرنے کا علم ہو.
یعنی
علم+روزگار=زندگی 
●●●

بدھ، 17 مئی، 2017

✔ ڈرپوک ،آدھی گواہی۔ کالم۔ لوح غیر محفوظ


ڈرپوک، آدھی گواہی 
ممتازملک. پیرس 

عورت کو  ڈرپوک کہہ کر اس کی کھلی اڑانے والے شاید یہ نہیں جانتے کہ
شکر کریں کہ عورت اپنے نازک دل کے سبب ڈرپوک ہوتی ہے تو آپ لوگوں کی من مانیاں چل جاتی ہیں . اس کی اسی خصلت نے دوسروں کے بڑے بڑے گناہ اور عیب بھلانے اور نظر انداز کرنے میں اس کا ساتھ دیا .
کبھی تنہا رہ جانے کے ڈر سے ،
کبھی لاوارث  ہو جانے کے ڈر سے ،
کبھی بدنامی کے ڈر سے،
کبھی محبتوں کے کھو جانے کے ڈر سے، وہ ڈرپوک ہو جاتی ہے .عورت کی یہ ڈرپوکی مرد کو مرد کے رتبے پر براجمان رکھتی ہے .
تاریخ گواہ ہے کہ جہاں جہاں خواتین نے اپنے بے خوفی  دکھائی ہے وہاں وہاں اس نے قیامت تک کے لیئے اچھی یا بری جیسی بھی کہیں مثالیں قائم کر دیں ...
دور نہ جائیں ہم عربوں میں چلے جائیں تو
خدیجہ الکبری رض
اماں عائشہ رض
بی بی فاطمہ رض
بی بی صفیہ رض (نبی پاک کی پھوپھی )
ذینب سلام اللہ علیہ
ملکہ زبیدہ
 انڈوپاک کی ہی بات کر لیں تو
رضیہ سلطان
چاند بی بی
ملکہ نور جہاں
جھانسی کی رانی 
اندرا گاندھی
پھولن دیوی
فاطمہ جناح
بلقیس ایدھی
بے نظیر بھٹو 
عاصمہ جہانگیر
بندرا نائیکے
اور بے شمار خواتین مردوں کا پتہ پانی کرنے کو کافی تھیں...
عورت کا ڈرپوک ہونا ہی مردوں کو بہادر کم اور ظالم زیادہ بناتا ہے . دونوں ایک سی بہادری جھاڑتے  رہتے تو کبھی کوئی گھر نہ بستا. 
 اور اس سے بھی بڑی مثال دیکھنا ہو عورت کے ڈرپوکی سے بہادری کی جانب کو اٹھتے ہوئے قدم کی ، تو اس طلاق یافتہ کو دیکھیئے یا اس بیوہ کو کہ جس نے کبھی اکیلے اپنی گلی میں بھی نہ جھانکا ہو وہ وقت پڑنے پر کیسے اپنے بچوں کی پرورش اور ان کے تحفظ کے لیئے ساری دنیا سے لڑ جاتی ہے ،جبکہ انہیں حالات سے دوچار مرد چار دن میں ہی اپنے سر پر سہرا سجانے کی تیاری میں جت جاتا ہے ۔
..
رہی بات عورت کی آدھی گواہی کی تو
عورت کی گواہی کو قانون کا حکم سمجھنے والوں کو غورو خوض کرنا چاہیئے کہ قرآن پاک  ہمیں  بار بار غوروفکر کی دعوت دیتا ہے .
اللہ نے اگر عورت کی گواہی  کو آدھا کہا ہے  یا اسے دو عورتوں کی ایک گواہی بنا دیا تو اس میں عورت کی تذلیل ڈھونڈنے والوں کو یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ
یہ قانون کی ہی بات  نہیں،  اللہ کی جانب سے حکمت بھی ہے اور عورت پر گھریلو  اور معاشرتی بوجھ کا اعلانیہ اظہار بھی ..
کہ جن حالات میں وہ دبی  رہتی ہے  ان حالات میں عورت کچھ باتیں بھول بھی سکتی ہے اور مختلف واقعات اسکے ذہن میں گڈ مڈ بھی ہو سکتے ہیں .
اس میں کوئی حیرت کی یا شرم کی  بات نہیں ہے. اللہ پاک نے عورت کی آسانی اور تسلی کے لیئے دوسری عورت کیساتھ مل کر گواہی دینے کو کہا . تاکہ بعد میں وہ کسی بات کو یاد کر کے کسی ندامت کا سامنا نہ کرے .
ویسے بھی اکثر مردوں کی طرح اپنے مطلب کے لیئے اکیلے پوری جھوٹی گواہی دینے سے کہیں اچھا ہے کہ عورت حق بات کے لیئے اپنی آدھی سچی  گواہی ہی پیش کر دے.
کیونکہ تھوڑی سی خوشبو بھی بہت ساری بدبو کا زور توڑ دیتی ہے .

جمعہ، 15 جولائی، 2016

◇ شاہراہ مرگ نیس / کالم۔ لوح غیر محفوظ


  (NICE ) شاہراہِ مرگِ نِیس
ممتازملک. پیرس




ایک بار پھر  زلالت  کی انتہاء پر کھڑے دہشت گرد معصوم زندگیوں سے کھیلنےمیں کامیاب ہو گیا.....
فرانس کے حسین اور پرامن شہر نیس میں ہمیشہ کی طرح ملک بھی بھر کے باقی علاقوں کی طرح ہر علاقے کے پارک میں سمندر کے کنارے کھلی جگہوں پر رات دس بجے کے بعد آتش بازی کا دلکش مظاہرہ کیا جا رہا تھا . فرانس میں جون جولائی اگست لمبے دن اور چھوٹی راتیں ، یا یوں کہیئے انیس گھنٹے دن  اور پانچ گھنٹے کی رات رہتی ہے . دس بجے مغرب کے بعد جب سیاہی پھیلنے لگتی ہے تو چراغاں کے لیئے منتظر مردوزن اپنے ننھے منھے بچوں کو بچہ گاڑی میں بٹھا یا کندھے پر اٹھائے اپنے گھروں کے نزدیک زیادہ تر پیدل ہی پارکوں  کا رخ کرتے ہیں جہاں پہلے سے میونسپل کی جانب سے پولیس کے چاک و چوبند اہلکار تعینات کر دیئے جاتے ہیں جو ہر طرح سے راستوں کے بارے میں یا کسی مدد کی ضرورت ہو تو بلا تفریق رنگ و نسل و مذہب و ملت آپ کو اپنی خدمات پیش کرتے ہیں اور آپ کی رہنمائی کرتے ہیں . 

ایسی ہی ایک خوبصورت شام لوگ جوق در جوق فرانس  کے قومی دن  14 جولائی کی خوشی  میں شامل ہونے کے لیئے پارک کا رخ کر رہے تھے آتش بازی کا حسین مظاہرہ دیکھتے شرارتیں کرتے بچوں نے اور ان کے ماں باپ میں سے کسی نے یہ سوچا بھی نہیں ہو گا کہ یہ ان کی زندگی کے آخری لمحات ہیں اور  کوئی خبیث شیطان ان پر موت کا تاریک سایہ بنے ان کی تاک  میں انہیں کے ساتھ مجمے میں موجود ہے ، جس نے نہ جانے کس وقت سڑک پر کھڑے 25  ٹن سے زیادہ وزنی ٹرالے کو سٹارٹ  کیا اور لوگوں کے خوش گپیاں کرتے بچوں کو اٹھائے گیٹ سے باہر نکلتے دکھتے ہی ٹرالا  ہجوم پر ستر کلو میٹر کی رفتار سے چڑھا دیا .  نزدیک ترین لوگ تو فوری طور پر اس کے لپیٹے میں آگئے.  چند لمحوں  میں سڑک پر جان بچا کر بھاگنے والے معصوم لوگوں کے جسم کے لوتھڑے اور خون ٹپکاتی شاہراہ انسانیت کو شرمانے  کو رہ گئی . ..

ٹرالے  کے آگے لگے ایک ایک ٹائر کی چوڑائی کم از کم ایک گز کے قریب ہوتی ہے . چار ٹائر آگے چار ٹائر بیچ میں اور چار ٹائر پیچھے لگے ہوتے ہیں . اور اگر اسے  ایک گاڑی پر بھی چڑھا دیا جائے تو اس کا چورابنتے ایک آدھ منٹ ہی لگے گا . اس کے لپیٹے میں آئے ہوئے معصوم لوگوں اور بچوں کو زمین پر بچھے ہوئے لاشے بننے میں  چند منٹ ہی کافی تھے . پولیس کے فورا حرکت میں آنے کے باوجود یہ سپیڈ اتنی تھی کہ چند منٹوں کے اندر ہی بہت زیادہ انسانی جانوں کا نقصان ہو چکا تھا . پولیس کے ٹرالر کے سامنے سے آکر براہ راست گولیاں چلانے پر وہ قاتل کتا اپنے انجام کو پہنچا دیا گیا. لیکن کتنے گھروں کو بیٹے بیٹیاں بچے اور ماں باپ سے  ہمیشہ کے لیئے محروم کر گیا . کئی چراغ گل کر دیئے گئے.
فوری طور پر نہ تو کسی کو کچھ  سمجھ آئی اور نہ ہی کچھ سوچنے کا موقع ملا     ایک شر پسند نے   اب تک کی خبروں کے مطابق 85 انسانوں کا خون چاٹ لیا . اور سینکڑوں افراد شدید زخمی  ہو گئے . 
دنیا میں کہیں بھی ہونے والا قتل افسوسناک ہے اور ہم اس کی بھر پور مزمت کرتے ہیں . 
فرانس ہمارا وطن ہے اس کے آنسو بھی ہماری  آنکھ  سے ٹپکتے ہیں . مرنے والوں سے ہمارا کوئی خونی رشتہ تو نہیں لیکن ہے تو درد کا رشتہ، محبت کا رشتہ اور احترام کا رشتہ ہے  . ہم لوگوں کو ان اموات کا اتنا ہی غم ہے جتنا اپنے کسی بے حد پیارے کی موت کا غم ہو سکتا ہے . 
خدا کے لیئے کوئی تو یہ دنیا بھر سے موت کا کھیل کھیلنے والوں کے ہاتھ روک دے، بلکہ توڑ دے .ہر واقعے میں دل سے پہلی دعا یہ ہی نکلتی ہے کہ یا اللہ ایسا کرنے والا مسلمان نہ ہو اور پھر پاکستانی نہ ہو . پاکستان پہلے ہی دنیا بھر میں بہت سے محاذوں پر اپنے آپ کو سرخرو کرنے میں مصروف ہے ایسے میں خدارا نظر رکھیئے.

ہمارے بچے اب بڑے ہو رہے ہیں.
  یہ کن کی صحبت میں بیٹھتے ہیں ؟
یہ نیٹ پر کن دلچسپیوں میں مصروف ہیں ؟ 
کہیں یہ اپنی فیملی سے دور اور تنہائی پسند تو نہیں ہو رہے ؟
یہ کون سی کتابیں اور مواد پڑھ رہے ہیں 
کن مساجد میں کس کے زیر اثر ہیں ؟
خاص طور پر اگر وہ عربی مساجد میں جا رہے ہیں تو اور زیادہ محتاط  ہو جائیں . کہ کہیں یہ فرنچ زبان میں آسان بیان کے پیچھے داعش  اور طالبان تو تیار نہیں کر رہے . کہیں نوجوان لڑکے لڑکیاں ان کا نیا شکار تو نہیں بن رہے.
آپ جود اپنے بچوں سے کسی ملا سے بڑھ کر خود بہتر انداز میں بات کر سکتے ہیں . 
یاد رکھیں اللہ نے ایسی کوئی جنت نہیں بنائی جس تک پہنچنے کے لیئے کسی معصوم کے لاشے پر پاوں رکھنا پڑے . ایسا ہوتا تو اللہ اپنی مخلوق کو اپنی کتاب میں کبھی مخاطب نہ کرتا صرف مخصوص گروہ کو ہی مخاطب کرتا . 
بوجھل دل کیساتھ اور کچھ لکھنا ممکن نہیں دعاوں میں یاد رکھیئے. 
                    ...................





............................

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/