ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک
تبصرے۔ اور وہ چلا گیا لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
تبصرے۔ اور وہ چلا گیا لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعہ، 2 اگست، 2024

تبصرہ ۔ صغیر تبسم۔ اور وہ چلا گیا


حساس جذبوں کی شاعرہ۔۔۔
ممتاز ملک 

کسی کے چھوڑ جانے کا دکھ بھی بڑا عجیب دُکھ ہے، دل کو اس حقیقت سے باور کروانا بے حد اذیت ناک  ہوتا ہے اور پھر یہی ناتواں دل عمر بھر انتظار کے کرب سے گزرتا ہے۔ کسی کے ہجر میں گزرنے والا اک اک لمحہ صدیوں کے برابر محسوس ہونے لگتا ہے، زندگی کی ریل کسی ویران سٹیشن پر رُک سی جاتی ہے، ہجر میں ایک ایک دن، ایک ایک پل انسان کے دل پر اسقدر بھاری گزرتا ہے کہ اندر سے اک درد بھری آواز آتی ہے :

ہاۓ وہ رات کتنی بھاری تھی
 جو ترے ہجر میں گزاری تھی

کہتے ہیں کہ وقت ہر دکھ کا مرہم ہوتا ہے، ہر روگ کا علاج ہوتا ہے، گہرے سے گہرے زخم کو بھی بھر دیتا ہے، وقت ہر تکلیف مٹا دیتا ہے لیکن ہجر کے ایام میں یہی وقت ناسور بن جاتا ہے، کٹتا ہی نہیں اور انسان کو اپنی تیز تیکھی کٹاری سے اندر ہی اندر کاٹ دیتا ہے:

فصل تیار تھی امیدوں کی 
وقت کے ہاتھ میں کٹاری تھی

ممتاز ملک حساس جذبوں کی شاعرہ ہیں، شاعری اترتی ہی حساس دلوں پر ہے اور پھر وہ ایک عورت کا حساس دل ہو تو  ہر ایک کیفیت چاہے وہ دکھ کی کیفیت ہو یا خوشی کی، انتظار کی کیفیت ہو یا بچھڑنے کی، رونے کی کیفیت ہو یا مسکرانے کی، محبت کی کیفیت ہو یا نفرت کی وہ دل ہر کیفیت کو ٹوٹ کر محسوس کرتا ہے۔
 ممتاز ملک کی شاعری کی طرح ان کے الفاظ بھی بہت حساس ہیں، وہ اپنے حساس اور اداسی میں ڈوبے خیالات کو اس طرح سادگی سے الفاظ میں ڈھالتی ہیں کہ شعر پڑھتے ہی دل میں اتر جاتا ہے :

کُھردری کُھرردی اُداسی ہے 
 مخملی مخملی خماری ہے

مضبوط سے مضبوط انسان بھی دکھ جھیلتے جھیلتے اک دن آخر تھک جاتا ہے، زندگی سے اس کا دل اُکتا جاتا ہے، وہ جابجا بھٹکتا ہے، اماں ڈھونڈتا ہے، سکوں ڈھونڈتا ہے، وہ دکھوں کا بوجھ اُٹھاۓ دربدر پھرتا ہے، کہیں کوٸی سہارا، کوٸی پیارا نہیں ملتا، کوٸی ایسا کاندھا نہیں ملتا جہاں وہ سر رکھ کر روۓ اور روتے روتے سو جاۓ بلآخر وہ آسمانوں کی طرف نم آنکھوں سے دیکھ کر، غم سے  بوجھل دل کے ساتھ پورے درد سے پکارتا ہے:

یوں تو دلدار ہے دنیا کی سجاوٹ مولا
 لوگ اخلاص میں کرتے ہیں ملاوٹ مولا
 ہو ترا حکم تو سُستا لیں گھڑی بھر کو کہیں
زندگی بھر کی اتر جاۓ تھکاوٹ مولا 

ممتاز ملک کی شاعری کا ایک ایک لفظ احساس میں گُندھا ہوا ہے، مصرعوں کی سادگی ہی ان کی شاعری کا حُسن ہے، ان کے ہاں ہر اس کیفیت کا بیان ہے جو ایک حساس دل محسوس کرتا ہے مگر کہہ نہیں سکتا:

گُھلی ہیں سِسکیاں ہر ایک لے میں
یہی اس گیت کا رنگِ طرب ہے

ممتاز ملک نے بِلا خوف خطر ہر وہ کیفیت اشعار میں پروٸی ہے جو ان کے حساس دل پر بیتی یا  محسوس کی، ان کی آہیں، سسکیاں، آنسو، کرب، اذیت ان کے اشعار میں واضح محسوس ہوتے ہیں، یہی ایک حساس شاعر کی نشانی ہے۔
ممتاز ملک صاحبہ کو ان کے اس شعری مجموعہ ”اور وہ چلا گیا“ کی اشاعت پر مبارکباد اور ڈھیر دعاٸیں

صغیر تبسم
(معروف پنجابی اور اردو شاعر)

بدھ، 31 جولائی، 2024

تبصرہ۔ ممتاز منور انڈیا۔ اور وہ چلا گیا


ممتاز شاعرہ ممتاز ملک

کرونا وبا کے دوران ایک مثبت بات یہ ہوئی کہ آن لائن مشاعروں کا دور شروع ہو گیا۔ دنیا بھر کے مختلف ممالک کے شعراء سے متعارف ہونےکا موقع ملا۔ انھیں میں سے ایک باوقار شخصیت ہیں ممتاز ملک ۔
جن کا تعلق پیرس سے ہے۔ حسین و جمیل، شگفتہ مزاج ,زندہ دل اور زندگی سے بھر پور۔ بہترین ناظمہ۔
 ان کی نظامت میں مشاعرہ پڑھنے   کا لطف ہی کچھ اور ہے۔ آپ  ادبی تنظیم "راہ ادب فرانس " کی بانی اور روح رواں ہیں۔ جس کے تحت آپ اردو اور پنجابی عالمی مشاعرے منعقد کرواتی رہتی ہیں۔ اپنی خوبصورت ادا سےاور دلفریب ترنم میں جب آپ اپنا کلام پیش کرتی ہیں تو سامعین مسحور ہو جاتے ہیں۔ جتنے خوبصورت  طریقے سے کلام کی ادائیگی ہوتی ہے اتنا ہی خوبصورت ان کا کلام ہوتا ہے۔ ان کا شعری مجموعہ"اور وہ چلا گیا" ابھی ابھی موصول ہوا۔ ممتاز صاحبہ کے حکم کی تعمیل میں اس کتاب کے تعلق سے  اپنے خیالات پیش خدمت ہیں۔
اس کتاب کو ادارۀ اردو سخن ڈاٹ کام نے شائع کیا ہے ۔ 200 صفحات پر مبنی اس کتاب کا انتساب بھی دلچسپ ہے۔ جس کو أپ نے "وطن عزیزکی فلاح و بہبود کے لۓ سوچنے والوں کے نام" کیا ہے۔ کیونکہ آپ خود بھی معاشرے کی فلاح و بہبود کے بارے میں نہ صرف سوچتی ہیں بلکہ اس میدان میں فعال بھی ہیں۔ جس کی جھلک  ان کے کلام میں بھی نظر أتی ہے ۔ وہ کہتی ہیں

ناچتی پھرتی ہے یہ نسل نو
کجھ تو ان میں فنون رہنے دو

یہ شعر بھی ملاحظہ کریں

گھر میں ہی انصاف کی پامالیاں ہونے لگیں
داغ سینے کے زمانے کو دکھانے پڑ گئے

ممتاز صاحبہ اج کے دور کی خاتون ہیں۔ تعلیم یافتہ، اپنا ذہن، اپنی راۓ رکھنے والی۔ اپنے وجود کی اہمیت جتانا خوب جانتی ہیں۔کہتی ہیں

چوڑیاں چھوڑ کے ہتھیار  اٹھایا میں نے 
نہ سمجھ تو اسے بیکار اٹھایا میں نے

 اسی طرح وہ اپنے أپ کو کسی سے کمتر نہیں سمجھتیں۔  بلکہ برابری کا درجہ چاہتی ہیں۔

تمہارے رنج و غم اپنے جگر میں پالتی ہوں
میں ہمدم ہوں محض اک شوق رکھوالی نہیں ہوں

کہیں کہیں ان کی شاعری میں زمانے سے شکایت کا رنگ بھی نظر آتا ہے۔ وہ کہتی ہیں

یہ مطلب پرستوں کی دنیا ہے پیارے
یہاں زندگی کون ہنس کے گزارے
یہاں پر خوشی میں تو ہنستے ہیں سارے
مگرساتھ روتے نہیں ہیں ہمارے

انہیں اپنے دوستوں سے بھی گلہ ہے کہ

اپنے ہی رلاتے ہیں اپنے ہی ستاتے ہیں
غیروں میں کہاں دم تھا کہ آنکھ کو نم کرتے

 آج کل کے حالات پر بھی وہ گہری نظر رکھتی ہیں اورفرماتی ہیں

ہے تم پر فرض پہلا،  پرورش اچھی کرو ان کی
جنم دیتے ہی جن کو تم ، لگاتے ہو کمانے بر

ان شکوے شکایات کے باوجود آپ نہایت پر امید ہیں

جہاں کوئی نیا أباد کر لیں
یہ دنیااب پرانی ہو گئی ہے

 اور یہ بھی ملاحظہ کریں

رات کے بعد ممتاز دن آئیگا 
سوچ نہ دن کے آگے محض رات ہے

آپکی شاعری کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کو پڑھنے کے بعد قاری کے ذہن پر ایک مثبت تاثر چھا جاتا ہے ۔ شاعر کا کمال ہی یہی ہے کہ وہ اپنے قاری کی سوچ کوصحیح اور مثبت سمت دے ۔
اس کتاب کی اشاعت پر میں ممتاز صاحبہ کو دلی مبارک باد پیش کرتی ہوں اور دعا گو ہوں

اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
 ڈاکٹر ممتاز منور
صدر
انجمن ترقی اردو( ہند)
پونے. . . .  انڈیا
                 ۔۔۔۔۔۔۔

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/