ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک
قطرہ قطرہ زندگی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
قطرہ قطرہ زندگی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

بدھ، 28 اگست، 2024

& کیسی محبت ۔ افسانہ۔ سچی کہانیاں۔ قطرہ قطرہ زندگی

       
            کیسی محبت


بہت سارے پیسے خرچ کر کے قرضے لیکر اور جانے کہاں کہاں کے دھکے کھانے کے بعد آخر کار وہ فرانس پہنچ ہی گیا۔
 گھر میں جب بھی فون پہ بات کرتا تو وہاں سے پیسے کے مطالبے کے سوا کوئی دوسری بات ہوتی تو صرف یہ اور سناؤ بھئی وہاں پہ کاغذ مل گئے ہیں۔
 امی جی  یہ کاغذ اتنی آسانی سے نہیں ملتے،  یا تو آپ نے یہاں شادی کی ہو یا پڑھائی کر رہے ہو یا کاروبار کر رہے ہو، تب یہاں کے کاغذات ملتے ہیں۔
 تو شادی کرنا کون سا مشکل ہے۔ پھنسا لو کسی میم کو۔
امی جی نے بڑا دانشورانہ مشورہ دیا۔
 امی جی یہاں میمیں  کوئی سڑک پہ نہیں پڑی ہوتیں،  جو ہر کسی کو گھاس ڈالیں۔
وہ جھلا کربولا
تو وہاں پر کسی پاکستانی کو دیکھ لینا ، کسی پاکستانی لڑکی کو پھنسا لے ، وہاں پر انہیں کون پوچھتا ہے؟ 
ہاں امی جی دیکھ رہا ہوں۔ کوشش کر رہا ہوں ۔دیکھو اب۔ دعا کرنا۔
 پچھلے دنوں کسی کی سفارش پر اسے ایک ریسٹورنٹ میں کام تو مل گیا جہاں فی الحال وہ ویٹر کے طور پر لوگوں کو چائے کافی سرو کرتا یا ٹیبل صاف کرتا۔
 ریسٹورنٹ کا مالک اچھا آدمی تھا۔ وہ اس کو اپنے بیٹے کی طرح عزت دیتا اور اس کا خیال رکھتا تھا۔ اس نے کافی عرصہ پہلے  فرانس میں آ کر اپنی فیملی کے ساتھ رہائش اختیار کی تھی ۔
آہستہ آہستہ اپنی محنت سے  ترقی کرتے ہوئے آج وہ ایک ریسٹورنٹ کا مالک تھا۔
 اس کی بڑی بیٹی ابھی 18 سال کی ہو رہی تھی اور یہاں کے مقامی سکول سے اپنی بنیادی تعلیم مکمل کرنے کے آخری سال میں تھی۔ اپنے  لیسے سے چھٹی کے بعد وہ اکثر باپ کا ہاتھ بٹانے کے لیئے ریسٹورنٹ بھی چکر لگا لیتی۔ 
 اس روز رشید کی نظر اس پر پڑی تو اس کے دماغ میں فورا ماں کا جملہ گھومنے لگا کہ کسی لڑکی کو پھنسا کر کاغذ حاصل کر لے تو نے کون سا ہمیشہ رہنا ہے اسکے ساتھ۔
 لیکن یہ لڑکی بھولی بھالی سی 18 سال کی سٹوڈنٹ ، جو اپنے گھر میں سب سے بڑی بیٹی تھی ۔ اسے اپنے لیئے ایک آسان شکار لگی۔
عام طور پر تو کوئی لڑکی یا مقامی عورت اس کے ہاتھ نہیں آئی۔ لیکن اس نے سوچ سمجھ کر  اس لڑکی کی طرف بڑھنے کا فیصلہ کیا ۔
وہ جب بھی آتی یہ جان بوجھ کر اس کے آگے پیچھے گھومتا۔
 اس کی خاطر مدارت کی کوشش کرتا ۔ اس کی تعریفیں کرتا۔  اس کے ساتھ لطیفہ گوئیاں کرتا ۔ رفتہ رفتہ وہ لڑکی اس کے ساتھ کچھ بے تکلف ہو گئی ، تو اس نے اسے شیشے میں اتارنا شروع کیا۔ 
 یہاں تک کہ اسے شادی کی دعوت دے ڈالی۔
 وہ لڑکی اس کی تعریفوں پر پہلے ہی پھولے نہیں سما رہی تھی۔  شکل صورت کا تو رشید اچھا تھا۔  لیکن تعلیم نہ ہونے کے برابر تھی ۔ ہنر بھی کوئی نہیں تھا اس کے پاس۔  بس عام سے لڑکوں کی طرح منہ اٹھا کر کسی نہ کسی طرح دھکے کھا کر فرانس پہنچ چکا تھا ۔
یہ بے وقوف، کم عمر، ناسمجھ، دیسی لڑکوں کی چالاکیوں سے بے خبر لڑکی آسانی سے اس کے جال میں پھنستی چلی گئی۔
 وہ اکثر اس کے لیئے چھوٹے موٹے تحفے لے آتا۔ اس کے دن رات قصیدے بڑھتا اس کی ایسی ایسی باتوں پر تعریف کرتا ۔جس کے بارے میں خود اس نے بھی نہیں سوچا تھا کہ اس میں بھی ایسی کوئی خوبی ہے۔ آہستہ آہستہ وہ مکمل طور پر اس کے شکنجے میں پھنستی چلی گئی۔
 اس نے اس لڑکی عظمی سے شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا، اس کے ماں باپ کو پتہ چلا تو انہوں نے رشید کو نوکری سے نکالنے کی دھمکی دی۔
 لیکن عظمی اپنے ماں باپ کے سامنے کھڑی ہو گئی۔۔
 رشید یہاں کام کرے یا کہیں بھی رہے۔ میں اسی سے شادی کروں گی۔
 ماں نے سمجھایا ۔
باپ نے سمجھایا۔۔
 گڑگڑائے روئے اس کے آگے ۔ لیکن وہ تو جیسے پتھر ہو چکی تھی ۔
جانے کون سا جادو پھونکا تھا اس رشید نے اس پر ،  کہ وہ ہر صورت میں اسی سے  شادی کرنے کے لیئے بے قرار تھی۔ اس کے لیے دنیا میں اس سے بڑھ کر اور کوئی نہیں تھا ۔
 ماں باپ نے سمجھایا۔
 دیکھو اس لڑکے کے پاس یہاں کے پیپرز نہیں ہیں۔ تعلیم نہیں ہے ۔ زبان بھی نہیں ہے۔  برباد کر دے گا تمہیں۔  بچ جاؤ اس سے ۔
 تمہارے لیے اچھے سے اچھا رشتہ یہاں موجود ہے اور یہاں نہیں تو ہم تمہیں پاکستان سے بہترین لڑکا  شادی کر کے لا دیں گے۔ 
 لیکن نہیں محبت میں وہ اندھی گونگی بہری ہو چکی تھی۔ اسے صرف رشید چاہیے تھا اور رشید اسے دن رات اسکے ماں باپ کے خلاف اکساتا رہتا ۔ 
دیکھو وہ تمہاری بات نہیں مانتے۔  دیکھو وہ تم سے محبت نہیں کرتے۔ دیکھو تمہاری کسی خواہش کا احترام نہیں کرتے۔  صرف میں ہوں جو تمہارے پیچھے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں۔ 
 میں تمہارے لیے جان بھی دے سکتا ہوں۔
 ایسی ہی فلمی باتوں سے وہ اس کی ہر کمی کو بھول کر اس پر فدا ہو چکی تھی۔
یہ فرانس میں جوان ہونے والی پہلی نسل سے تعلق رکھنے والی لڑکی تھی۔
 جو سب کچھ بھول کر اس کے ساتھ گھر بسانے کو تیار ہو گئی۔
 یہاں تک کہ اپنے ماں باپ کی اجازت کے بغیر اس لڑکی نے  رشید کے ساتھ نکاح کر لیا۔ 
اسکی ماں کو غشی کے دورے پڑ رہے تھے تو  باپ صدمے سے نڈھال ہو گیا۔
 لیکن عظمی کو  اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔
 اس نے جا کر رشید کے ساتھ ایک کمرے کا  فلیٹ کرائے پر لے کر اس کے ساتھ  فلیٹ میں رہائش اختیار کر لی۔
 نکاح کرتے ہی  رشید کے اطوار ہی بدل گئے۔
 اس نے دیکھا کہ اس کے ماں باپ نے تو اس کو اتنی آسانی سے چھوڑ دیا۔  جو کہہ چکے تھے دوبارہ اس گھر کا رخ نہ کرنا۔ تم مر چکی ہو ہمارے لیئے۔
 اب اس لڑکی کی دولت تو اس کے کام آ نہیں رہی تھی۔ وہ تو سوچ رہا تھا ۔ 
نکاح کرتے ہی وہ مجبورا اسے داماد قبول کر لیں گے اور وہ راتوں رات انکی حسین بیوقوف بیٹی کیساتھ  ان کے پیسے کا بھی مالک بن جائے گا اور ریسٹورنٹ کا بھی مالک بن جائے گا۔
 اب لڑکی تو اس کے ہاتھ آ ہی چکی ہے ۔جو اسے پیپر دلوا دے گی۔
لیکن پیسہ دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔ نوکری بھی ہاتھ سے گئی اور خرچہ بھی بڑھ گیا۔
عظمی کو کام کرنے کی اجازت اس لیئے نہیں دیتا کہ جیسے اس نے اسے بیوقوف بنا کر جال میں پھانسا تھا اب اسے ڈر تھا کہ کوئی اور بھی اسے ورغلا کر اس کے ہاتھ سے نہ لے اڑے۔
 چند ہی روز میں اس نے اپنا اصلی دیسی رنگ دکھانا شروع کر دیا ۔
بات بات پر گالی گلوچ اور اب تو مار پیٹ بھی روز کا معمول بن چکی تھی۔
  چند مہینے کی مارپیٹ اور طعنہ زنی نے ہی عظمی کو پہچانے جانے کے قابل نہ چھوڑا تھا ۔ 
وہ لڑکی جسے والدین کے گھر میں کبھی کسی نے جھڑکا تک نہ تھا۔ اب وہ دن رات اپنی پڑھائی کے زمانے کے بجائے عذاب ناک وقت کو جھیل رہی تھی۔ 
 عظمی  امید سے ہو چکی تھی۔
 اب اس کی ہر بات ہر خوبی رشید کو زہر لگنے لگی۔ 
 اس کی ہر قربانی رائیگاں گئی۔
 رشید اسے ہر بات پر غلیظ گالیاں دیتا ۔ اسے کسی سے ملنے نہ دیتا اور جب دل کرتا اس کی کسی بھی بات کو بہانہ بنا کر اس کی اچھی خاصی مرمت کر دیتا ۔
 پہلے چانٹے سے شروع ہو کر باقاعدہ تشدد کے اوپر بات چلی گئی شادی کے دسویں مہینے اس نے ایک بیٹی کو جنم دیا۔
 لیکن بچی کے ہونے کے بعد رشید کی تکلیف میں اور اضافہ ہو گیا۔
 ایک تو پہلے وہ اس لڑکی کو بہلا پھسلا کے گھر سے بھگا کے لایا تو اسے کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔
اوپر سے بیٹی پیدا ہو گئی ۔
اس پینڈو اور جاہل کے لیئے یہ ایک اور نیا تماچہ تھا بیٹی کا باپ بننا ۔
اس نے اس کی زندگی حرام کر رکھی تھی ۔
وہ  بچی بمشکل ابھی دو تین مہینے کی تھی کہ عظمی پھر سے امید سے ہو چکی تھی ۔
چھوٹی بچی کا ساتھ ، دوبارہ سے پریگننسی، کم عمر لڑکی دوسری بار یہ بوجھ اٹھا رہی تھی اور پھر گھر کا تشدد اس قدر بڑھ گیا کہ وہ کئی بار اس سے مار کھاتے کھاتے بے ہوش ہو جاتی۔
 وہ کسی سے بات کر لیتی تو وہ اسے اس کا عاشق قرار دے دیتا ۔
گھر سے باہر جانے نہیں دیتا کہ تم میری شکایت کر دو گی۔
 گھر کے اندر اسے ہر تنگی میں رکھ کر وہ جانے کون کون سی ذہنی اذیت دے کر اسے وہ اسے تل تل مار رہا تھا۔
 رشید کی حرکتیں بالکل ذہنی مریض جیسی تھیں ۔
عظمی رات دن  اپنے ماں باپ کو یاد کر کے شرم کے مارے رویا کرتی کہ
ماما مجھے معاف کر دیں ۔ میں نے کس جانور کے ساتھ رشتہ جوڑنے کے لیئے اپنی محبت کرنے والے ماں باپ کھو دیئے۔
وہ نہیں چاہتا تھا کہ اب اس کی مرضی کے بغیر اس کی بیوی اپنے ماں باپ سے بھی ملے ۔
چھوٹی سی بچی بلکتی روتی رہتی لیکن وہ اس کے خرچ کے لیئے نہ پیسے دیتا نہ گھر کی ضرورتیں پوری کرتا۔
 کبھی کام کرتا اور کبھی فارغ ہوتا۔ جس دن کام نہ ہوتا اس دن کام نہ ہونے کا غصہ اس پہ اتارتا اور جس دن کام ہوتا اس دن تھکاوٹ کا کہہ کر اس پر اپنا غصہ اتارتا ۔
لگاتار دوسری پریگننسی کم عمری اور خوراک کی کمی نے اس میں خون کی کمی پیدا کر دی ۔
پریگنیننسی کا بوجھ ناقابل برداشت ہوتا جا رہا تھا ۔
وہ اسے کہیں دوا دارو کے لیئے بھی لے جانے کو تیار نہ تھا ۔
ایک روز اس نے اسے اتنا مارا کہ وہ بے ہوش ہو گئی۔
 اس کے مار پیٹ کے شور کو سن کر ساتھ کے پڑوس میں سے کسی نے پولیس کو فون کر دیا ۔ 
پولیس کا سائرن سنتے ہی وہ تو گھر سے غائب ہو گیا کیونکہ وہ جانتا تھا جو کچھ وہ کر رہا ہے وہ کبھی بھی کہیں بھی پکڑا جا سکتا ہے۔
 عظمی کی حالت بیحد خراب تھی۔ نیم بے ہوشی کی حالت میں پولیس نے اسے وہاں سے ریسکیو کیا اور فوری طور پر اسے ہسپتال منتقل کیا گیا ۔
 بیوی کے ہسپتال پہنچنے کا منظر اس نے  اپنی بلڈنگ کے باہر ہی دور سے ہی  دیکھ لیا کہ پولیس اسے لے جا رہی ہے۔
 اب اسے اپنی فکر پڑ گئی
 کہ میں سامنے گیا تو پولیس مجھے ضرور گرفتار کرے گی۔
 اس لڑکی کے بیان پر تو میں جیل چلا جاؤں گا۔
 لہذا اس نے گھر نہ جانا مناسب سمجھا ۔
لیکن چھپ کر ہر بات سے باخبر رہا۔
 ہسپتال میں کسی نے اس کے ماں باپ کو خبر کر دی کہ تمہاری بیٹی اس حالت میں ہے ۔
ماں تھی دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے شوہر کو مجبور کیا کہ جا کر اسے دیکھو۔ 
چلو میرے ساتھ۔
ہسپتال میں عظمی نے قبل از وقت  ایک بیٹے کو جنم دیا۔
عظمی کی ماں نے جب اپنی بیٹی کو دیکھا۔ اس کے زخموں کو دیکھا تو برداشت نہ کر سکی۔
 اسے سینے سے لگایا اور خوب روئی۔ 
دو سال میں دو بچے، جسم اور روح پر بیشمار زخم ، دل پر صدمات ۔۔
یہ تھی اس مجرم صفت دیسی کی کل کارکردگی ۔
 عظمی  بھی اپنی ماں سے لپٹ کر بری طرح روئی اور خوب معافی مانگی۔
 ماں سے منت کی کہ مجھے اپنے گھر لے جاؤ ۔
ہسپتال سے کافی روز کے بعد اسے فارغ کیا گیا ۔
ڈاکٹر نے اسے شدید احتیاط کا کہا اس کے ہاں اس مار پیٹ کے دوران ابھی وہ مشکل سے بیس سال کی نہیں تھی لیکن دو بچوں کی ماں بن چکی تھی ۔
 ذہنی طور پر بھی وہ بکھر چکی تھی۔
 اس کا اعتبار ٹوٹا تھا۔ اس کا یقین ٹوٹا تھا۔ اس کی عزت تو گئی تھی۔ لیکن اپنی نظر میں اس کی وہ قدر بھی نہ رہی۔
 وہ بہت کم بولنے لگی تھی۔
 ماں اسے دیکھتی اور کڑھتی رہتی۔
 وہ اسے اپنے ساتھ اپنے گھر لے گئی۔ لیکن اس روز بچی کے رونے پر وہ چڑ سی گئی۔
 ماں نے کہا بھئی بچے پیدا کرنے کا شوق تھا ۔ عشق لڑا رہی تھی تو سنبھالو اسے۔
 ماں کی یہ بات اس نے خاموشی سے سنی ۔ 
سر نیچے کیئے وہ کتنی دیر آنسو ٹپکاتی رہی۔
 بچی کو گود میں اٹھا کر اس نے بھنبھوڑ ڈالا ۔
وہ اسے اٹھا کر کہیں پھینک دینا چاہتی تھی۔
 کیونکہ وہ خود ابھی بچی تھی 20 سال کی وہ بچی جو ابھی خواب دیکھتی، ابھی یونیورسٹی جاتی۔ اپنی تعلیم مکمل کرتی۔ کچھ بننے کا عزم کرتی۔
 وہ لڑکی دو بچوں کے ساتھ باندھ دی گئی۔
 اس کی ماں نے بچی کو اس کے ہاتھ سے چھین لیا۔
وہ بستر پر پڑی جانے کتنی دیر روتی رہی۔
 اس کی ماں کے لیئے یہ دو چھوٹے چھوٹے معصوم بچے سنبھالنے ، بالکل نو زائیدہ اور ایک سال بھر کی بچی آسان نہیں تھا۔
 اس کے بہن بھائی بھی ان کو دیکھتے لیکن وہ خود صبح جاتے اور شام کو سکولوں سے واپس آتے ۔
وہ زیادہ اس کا ساتھ نہیں دے سکتے تھے۔
 پھر گھر سے بھاگنے کے بعد، من مانی کرنے کے بعد اس کی عزت دو کوڑی کی ہو چکی تھی۔
 وہ کسی سے نظر ملا کر حوصلے کے ساتھ بات نہیں کر سکتی تھی۔ خاموش رہتی تھی کھانا کھاتے ہوئے اسے شرم آتی تھی۔
 کھانے کی میز پر بیٹھی ہوئی اسے لگتا تھا شاید وہ  بھیک کی روٹی کھا رہی ہے۔
 اسے اپنے والدین کا اپنا  گھر اسے پرایا لگتا تھا۔
 لیکن آج ماں بیٹی میں اسی بات پہ  بحث ہوئی۔
 بحث بڑھتے بڑھتے  ماں نے کہا اگر اتنے ہی نخرے تھے تو اپنے میاں کے ساتھ ہی نبھا کر لیتی۔
 ہم تو برے تھے وہ تو تیرا من چاہا تھا نا۔ جب یار بنایا تھا تو ہم سے پوچھ کے بنایا تھا۔ رہتی اس کے ساتھ ۔ نبھا کر کے دکھاتی۔  زندگی گزار کے دکھاتی۔ ہمارے گلے نہ پڑتی۔
 ماں نے یہ کہا اور پیر پٹختے ہوئے اس کے کمرے سے باہر چلی گئی۔
 یہاں عظمی کے دماغ کی حالت غیر ہوتی چلی گئی۔
 ماں کا دیا ہوا طعنہ گولی کی طرح اس کے سینے پر لگا۔ اس کا دل اتھل پتھل ہو رہا تھا۔ بے عزتی کی ایک ایسی شدید لہر تھی جو اس کے رگ و پے سرایت کر گئی۔
 اس نے سوچے سمجھے بغیر کھڑکی کا رخ کیا۔
 کھڑکی کھولی اور گیارویں منزل سے کود گئی۔
 ماں جو بڑبڑاتی ہوئی کچن میں جا چکی تھی۔ اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب اس کی بیٹی اس کے ہاتھوں سے نہیں  بلکہ اس دنیا سے بھی نکل چکی تھی۔ 
 جب کافی دیر تک اسے بیٹی کا کوئی جواب سنائی نہیں دیا تو غصے میں اس کے کمرے کی طرف آئی۔
 میری بات کا جواب کیوں نہیں دیتی۔ لیکن وہاں کوئی نہیں تھا بچے کے رونے پر اس نے اسے ڈھونڈنا شروع کیا.
 سارے کمروں میں دیکھا . سارے فلیٹ میں چھان مارا . لیکن اس کا کوئی اتہ پتہ نہیں تھا ۔ 
اتنی دیر میں اس کی پڑوسن بھاگتی ہوئی آئی اور زور زور سے دروازے کی گھنٹی بجائے جا رہی تھی۔
اس کے دروازہ کھولتے ہیں وہ بولی
 مادام  تمہاری بیٹی کہاں ہے؟
 اس نے کہا یہیں ہو گی۔ کیوں کیا ہوا کیا کہنا ہے اسے؟
 جا کر دیکھو نیچے کیا ہوا ۔
نیچے نیچے کیا ہوا۔۔
 اس پڑوسن کی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ وہ اسے کیا کہتی ہے کہ تمہاری بیٹی کی لاش پڑی ہے نیچے۔
 اس نے کہا
 فورا نیچے جاؤ کافی دیر سے وہاں پولیس آئی ہے۔ 
  الہی خیر کہتے ہوئے 
 وہ جلدی سے لفٹ کے ذریعے نیچے اتری ۔
پہنچی تو ایک ہجوم تھا وہاں پر۔ پولیس بھی تھی۔
 اس نے کہا
 کیا ہوا 
کیا ہوا۔۔
 ایک پولیس افیسر نے اسے روکتے ہوئے کہا
 رک جاؤ
 آپ کون؟
 اس نے اپنا نام بتایا۔
 اس کی پڑوسن اس کے ساتھ تھی۔ انہوں نے کہا اسے جانے دو یہ اس کی ماں ہے۔
 پولیس نے اس کو ایک فاصلے تک جانے دیا 
لیکن یہ کیا اپنی بیٹی کی لاش دیکھ کر وہ اپنے اوسان خطا کر بیٹھی۔۔
 اف میرے خدا یہ کیا ہوا میں تو اس سے باتیں کر رہی تھی۔۔
 مجھے پتہ ہی نہیں چلا ۔
میں تو کچن میں اس سے باتیں کر رہی تھی کھڑے ہو کر، 
 اور یہ کس وقت کود گئی ۔۔
عظمی موقع پر ہی وہ دم توڑ چکی تھی۔
اسکی میت کو لیجایا گیا ۔ اسے غسل دیتے وقت جب ماں نے اپنی لاڈلی بیٹی اپنی پہلی اولاد کو جس نے اسے پہلی بار ماں کہہ کر پکارا اسے اس کے بدن کو دیکھا جہاں جگہ جگہ زخموں کے نشان تھے ۔
وہ یہ سوچتے ہوئے غش کھا رہی تھی کہ اف خدایا میں میں اتنی بے حس کیسے ہو سکتی تھی۔ مجھے میری بیٹی کی آہیں سسکیاں سنائی کیوں نہیں دیں؟
 کیسے مجھے پتہ نہیں چلا کہ وہ ایک درندے کے شکنجے میں پھنس چکی ہے۔
 ہم ماں باپ اپنی بیٹیوں کو ایسے لاوارث کیسے چھوڑ سکتے ہیں ،
کیسے وہ اتنا ظلم اس پر کر  سکتا ہے۔
 وہ ذرا سا ہوش سنبھالنی اور پھر سے بے ہوش ہو جاتی۔
 اس کی ماں کی حالت غیر ہوتی جا رہی تھی۔
 اپنی لاٹری بیٹی کی یہ حالت دیکھ کر ، اس کی میت کو دیکھ کر اس کا خود مر جانے کو جی چاہا، لیکن اس کے بچے اس کی آنکھوں کے سامنے گھومنے لگے۔
 اگر میں بھی نہ رہی ۔۔۔
اس کے شوہر نے کہا اگر تم بھی نہ رہی تو تم کیا سوچتی ہو ان بچوں کا کیا بنے گا۔۔
حوصلہ کرو۔ ہماری بیٹی نہیں رہی لیکن اس کے دوبچے ہماری گود میں ہیں ۔ انکا سوچو
  اپنی بیوی کو ذہنی اذیت کے لیئے اور اس پر گھریلو تشدد کے لیئے اس کے شوہر کو نامزد کیا گیا۔
پولیس نے اسے ڈھونڈ نکالا ۔
گرفتار کیا۔
 اس پر کیس چلا اور اسے جیل ہو گئی۔
سات سال کی جیل کاٹنے کے بعد باہر نکلتے ہی  اس نے اپنے بچوں کی کسٹڈی انکے نانا نانی سے دوبارہ حاصل کر لی ۔
نہ چاہتے ہوئے بھی بچوں کے نانا نانی کچھ نہ کر سکے۔ 
یہ کیسا قانون ہے بچوں کو انکی ماں کے قاتل کے حوالے کر رہا ۔

رشید نے اپنے سات اور آٹھ سال کے  بچوں کو پاکستان ایک دور دراز کے گاؤں میں لیجا کر اپنی ماں کے حوالے کر دیا۔
 اس کی ماں جو پہلے ہی اس کو یہاں سے احکامات بھیج کر چلایا کرتی تھی۔
 اس نے یہ سوچ کر وہ بچے اپنے پاس رکھ لیئے کہ بیٹا اسی بہانے ہر مہینے ایک موٹی رقم اسے بھجوانے پر مجبور رہے گا اور اس کے ساتھ بنا رہے گا۔
 گھر میں ان بچوں کی چچی بھی موجود تھی۔  یوں چچی جو رشید کی اپنی خالہ زاد تھی اور خالہ بھانجی نے جو ساس بہو بھی تھیں۔
مل کر ان بچوں کی ذمہ داری لی۔
 اسے میٹھے میٹھے سپنے دکھائے۔
 اپنا کلچر سکھانے کے بہانے، اپنی تہذیب سکھانے کے بہانے،  ان کو مسلمان بنانے کے بہانے،  انہوں نے وہ بچے اپنے پاس رکھے۔ 
سارا دن ان بچوں کے ذہن میں انکی ماں کی بدکرداری کا زہر بھرا جاتا۔
یہ معصوم بچے جو کسی کو اپنی ضرورت بھی ٹھیک سے نہیں بتا سکتے تھے لیکن ان بچوں کو اس کی ماں اور بھاوج نے لاٹری کا ٹکٹ سمجھا ۔
تھوڑے دن جب تک وہ رہا ان بچوں سے خوب لاڈ پیار ہوتا رہا۔
 اس کے بعد یہ بچے اس دور دراز افتادہ ایسے گاؤں میں جہاں ابھی تک بجلی بھی نہیں تھی اپنے بچے چھوڑ کر  آ گیا اور خود فرانس میں اپنی اسی صبح شام میں گم ہو گیا ۔
کسی نئے شکار کے انتظار میں ۔
اس نے زندگی کا آغاز کیا ۔
وہ بچے اس دور افتادہ گاؤں میں اپنی دادی اور چچی کے ظلم و ستم کا شکار ہوتے رہے ۔
ان دونوں کو پورا کھانا تک نہ ملتا۔ ڈرے سہمے کسی بھی کونے میں سو جاتے۔
 سارا دن چچی اور دادی کی مار پیٹ کا شکار رہتے ہر بات پر انہیں طعنے دیئے جاتے۔
 ان کی ماں کو بھگوڑی کہا جاتا ان کی ماں کو عاشق مزاج کہا جاتا اور وہ معصوم لڑکی جو ان کے بیٹے کے ہاتھوں قبر میں جا سوئی۔ اسے گندے ناموں سے پکارا جاتا۔
 یہ بچے ذہنی طور پر دبتے چلے گئے۔
 کسی سے کھل کر بات نہیں کر سکتے تھے۔
 اپنی تکلیف بیان نہیں کر سکتے تھے۔

وہ دونوں بچے ہسنا بھول چکے تھے۔
 آخر چھ سات سال کی فرانس میں کی ہوئی عیاشی کے بعد اسے جب لوگوں نے احساس دلانا شروع کیا کہ تم اپنے بچے کیوں نہیں بلاتے۔ شادی کیوں نہیں کرتے۔اپنا گھر کیوں نہیں بساتے۔
  اس کی ماں نے اس کا رشتہ اس کے گاؤں کے قریبی شہر میں پکا کر دیا ۔
یوں اس بار وہ پاکستان گیا تو دوستوں نے اسے صلاح دی 
 اگر تم اس بار اپنے بچے لے کر نہیں آئے، 16 سال کی عمر سے پہلے پہلے، تو یاد رکھو ان بچوں کے آنے میں مشکلات بھی پیدا ہو سکتی ہیں۔
 حالانکہ وہ بچے فرانس میں پیدا ہوئے ہیں لیکن بہت سے قوانین تبدیل ہوتے رہتے ہیں، تو بچوں کے لانے میں مشکل ہو جاتی ہے۔
 اس لیے بہتر ہے کہ انہیں لا کے یہاں سکول میں داخل کرواو۔
 لیکن وہ چھوٹے گھر کا ، چھوٹے علاقے کا، چھوٹی سوچ کا ایک ایسا آدمی تھا  جو اس چیز کو ہضم نہیں کر پا رہا تھا.
 کیونکہ جب وہ خود کسی اور کی بیٹی بھگا کر لایا تھا۔ اسے ہر وقت کے دھڑکا رہے گا کہ کوئی اس کی بیٹی بھگا کر نہ لے جائے۔
 مکافات عمل تو ہر وقت آپ کے پیچھے رہتا ہے۔
 لیکن بالاخر اسے شادی کا فیصلہ لینا پڑا ۔ ساری زندگی محض عیاشی پہ نہیں گزاری جا سکتی تھی۔
 اسے بھی اب گھر کا کھانا چاہیئے تھا۔ 
 بالآخر اس کی ماں کے کہنے پر اس نے نزدیک کے شہر سے ایک لڑکی کا رشتہ اس کے لیے پسند کیا۔
 لیکن وہ اس کے بچے اس کے ساتھ بھیجنا نہیں چاہتی تھی۔ بیوی کے لیئے دستاویزات بنانے کے بعد اس نے اسے اپنے پاس فرانس بلا لیا۔
 ڈیڑھ دو سال کی اسی کوشش میں اسکی ماں نے اسے بچے لے جانے سے منع کرنے کے لیے ہر زور لگایا۔ لیکن دوستوں کی بات اس کے ذہن میں سما چکی تھی ، 
کہ بچے یہاں لاؤ گے تو کئی سرکاری فائدے بھی تمہیں ملیں گے۔
 لیکن ابھی بھی وہ جب دوسری شادی کر رہا تھا تو اس کا خیال تھا۔
 میں اور بچے پیدا کر لوں گا مجھے ان بچوں کی کیا ضرورت ہے۔
 لیکن خدا کی لاٹھی بھی بے آواز ہوتی ہے۔
 جس معصوم لڑکی کی موت کی وہ وجہ بن چکا تھا اسے بچوں پہ بچے پیدا کرنے کی ایک مشین سمجھ چکا تھا۔ اب شاید قدرت اسے اس بات کا جواب دینے والی تھی۔
 دوسری بیوی شکل صورت میں اچھی تھی ۔خوبصورت تھی۔ لیکن  بیحد حاسدانہ مزاج رکھتی تھی۔
 پیرس کے نام پر وہ شادی کر کے تو آ گئی تھی لیکن وہ اس کے بچے کبھی بلانا نہیں چاہتی تھی۔
 اسے بھی اسی بات کا انتظار تھا کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ یہاں اپنا گھر بنائے گی۔
 اللہ کی کرنی مہینوں پہ مہینے گزرتے چلے گئے لیکن اللہ نے ان کا دامن خوشی سے نہیں بھرا۔
 کرتے کرتے اس بات کو تین چار سال کا عرصہ گزر گیا اور اللہ نے انہیں اولاد کی نعمت سے محروم رکھا۔
 ڈاکٹرز نے جواب دے دیا 
سوری تم اولاد نہیں پیدا کر سکتی۔
 اب تو رشید کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔
 اس نے جلد سے جلد پاکستان کی ٹکٹ کٹوائی اور پاکستان جا پہنچا۔
  اپنے بچے اپنے ساتھ  لیئے۔ ہر کسی کی مخالفت کے باوجود وہ انہیں مہینے بھر میں اپنے ساتھ واپس فرانس لے آیا۔
یہاں آ کر اس نے بچوں کے کو انکی عمر کے سکول میں (لازمی تعلیم کی سرکاری پابندی کے سبب) داخل کر دیا ۔
لیکن اب اس کی دوسری بیوی شاہانہ کے سینے پر یہ بچے سانپ بن کر لوٹنے لگے۔
 رشید کی بیٹی جو اب 17 سال کی ہو چکی تھی۔ وہ اتنے دکھ اپنی دادی اور چچی کے ہاتھ سے اٹھا چکی تھی اور اپنے بھائی کو اتنے ظلم سہتے ہوئے دیکھ چکی تھی کہ وہ ہر بات میں اپنا حق لینے کے لیے ہر ایک سے مقابلہ کرنے کو تیار ہو جاتی۔
 وہ دوسروں سے ہر خوشی چھین لینا چاہتی تھی ۔
اس کے منہ پر کبھی مسکراہٹ نہیں آتی تھی۔ کسی نے اسے کبھی مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا۔
 ایک عجیب سی سختی اس کے چہرے پر تھی۔ دور سے دیکھنے پر اس کا چہرہ پتھر سے تراشہ ہوا لگتا۔
 دونوں بہن بھائی جیسے ایک ہی سانچے میں ڈھلے ہوئے تھے۔
 ظاہر ہے دونوں نے تکلیفیں جو ایک جیسی اٹھائی تھیں۔ دونوں کی محسوس کرنے کی حس، درد اٹھانے کی حس ، بھی ایک جیسا کام کر رہی تھی۔
 یہاں پر پڑھائی شروع ہوئی۔ اس نے شکر ادا کیا۔
 لیکن اب وہ جب بھی اسے دیکھتی اسے اپنی ماں اور  اپنی ننہیال یاد آتی۔
لیکن ماں کی موت کے بارے میں سننے کے بعد وہ اپنی ننھیال سے ملنے کے لیئے بھی تیار اس لیئے نہیں تھی کہ پہلے تو رشید انہیں ان کی طرف جانے نہیں دیتا تھا اور اگر کسی کے کہنے پر شرما شرمی جانا بھی پڑتا۔ تب بھی وہ اپنی ماں کی قتل کا ذمہ دار اپنی ننہیال کو سمجھ رہے تھے۔
 کیونکہ یہ زہر کتنے سال تک اس کی دادی اور اس کی چاچی نے ان کے کانوں میں بھرا تھا۔
 اس لیئے اس نے اپنا سارا غصہ اور غضب نکالنے کے لیے اپنی سوتیلی ماں شاہانہ کو ٹارگٹ بنا لیا ۔
 شاہانہ بھی کم نہیں تھی جو ایک رنگ کا سوٹ ایک کے لیئے آتا تو دوسری اس میں کٹ لگا کے یا استری رکھ کے بھول جاتی اور وہ اسے پہننا نصیب نہ ہوتا۔
 کبھی اٹھا کر اس کی کوئی چیز کھڑکی سے باہر پھینک دیتی ۔
کبھی ایک دوسرے کی چیزیں پھینکتے، کپڑے پھاڑتے  جلاتے ،گویا حسد کا ایک ایسا عذاب تھا جو رشید کو شام کو گھر آنے کے بعد دونوں کے فساد کی صورت میں سننا پڑتا۔
 بیٹی کو برا بھلا کہتا ہے اور کبھی بیوی کو ایک آدھ لگا دیتا۔
 لیکن یہ مقابلہ ختم ہونے پہ آتا دکھائی نہیں دیتا تھا۔
 آخر کار اس کے بیٹے نے بھی بنیادی پڑھائی کے بعد اپنا سکول چھوڑ دیا۔
 اور یوں زبان تو وہ سیکھ ہی چکا تھا اب  اسے آوارہ گردی میں مزہ آنے لگا۔
 اس کے لیئے پیرس کی ہوا بھی نئی نئی تھی۔
 نئی نئی اس نے موٹر سائیکل چلانا سیکھی۔
 زبان سیکھنے کے بعد وہ اپنے اپ کو بہت زیادہ خود مختار سمجھنے لگا۔
 پچھلی بندشوں کے بدلے اس نے اگلے رشتوں سے لینے شروع کیئے۔
 بہت سی بری صحبتوں کا شکار ہوا۔ جیل تک سے ہو آیا۔
  اس کی بیٹی جو ہر چیز سے بیزار ہو چکی تھی۔ وہ لوگوں کو اپنے غصے کا شکار بناتی ۔
  رشید اب روز پستا تھا ۔ کبھی بیٹی کے ہاتھوں اور کبھی اپنی بیوی کے ہاتھوں۔
کئی کئی دن اپنے گھر نہیں جاتا اپنے دفتر میں ہی سوتا ہے ۔
 کیونکہ خدا نے سکون اس کی زندگی سے الگ کر دیا تھا ۔
وہ حرام حلال طریقوں سے مختلف کمپنیز بنا کر نوٹ تو بہت چھاپ رہا تھا۔
 لیکن سکون اور گھر کا بنا کھانا اس کا خواب ہو چکے تھے۔
 وہ یہی سوچتا کہ کاش وہ سکون اور گھر کے کھانے کی لذت  بھی پیسوں سے خرید سکتا۔۔۔۔
                     ۔۔۔۔۔۔۔۔



ہفتہ، 24 اگست، 2024

& چاچا غیاث۔ افسانہ ۔ سچی کہانیاں۔ قطرہ قطرہ زندگی


             چاچا غیاث

وہ جب سے اس محلے میں آباد تھے۔ ان کی کھڑکی پر نشہ لینے والوں کی ایک لائن لگی رہتی تھی۔
 گھر میں ان کی بیوی بھی پڑیاں بناتی اور یہ کھڑکی کے ذریعے اسے سپلائی کرتے۔
 پورے محلے میں چاچا غیاث کی ایک دھاک تھی۔
دنیا  کہتی تھی وہ ایک منشیات فروش تھا ۔
لیکن عجیب بات تھی کبھی اس محلے کی کسی عورت، کسی بچی یا بچے  پر آنکھ اٹھا کر نظر ڈالنا بھی چاچا غیاث کے اصول کے خلاف تھا۔
 تمیز سے، نرم سے لہجے میں بات کرنے والا ،صلح جو،
 پھر وہ منشیات فروشی میں کیسے اپڑا ۔۔۔
بس ہمارے ہاں کی پولیس کا کمال کہ ایک بار کے چالان میں ان کی جیب میں دو پڑیاں ڈال کر اسے ہتکڑی لگی اور اس کے بعد اسے مجبور کیا گیا۔
 یہاں تک کہ وہ کمبل کو چھوڑتا تھا۔ مگر کمبل اسے چھوڑنے کو تیار نہ تھا۔
 اسے مجبور کیا جاتا اور انکار کرنے کی صورت میں کئی کئی دن حوالات میں بند کیا جاتا۔
 مار پیٹ ہوتی۔ آخر جب جسم میں مزید سزا بھگتنے کی ہمت نہ رہتی تو اقرار کر کے پھر سے وہ غریب واپس باہر آ جاتا۔
یوں پھر سے وہ دھندا شروع ہو جاتا۔
 محلے میں جب تک چاچا غیاث رہے، اس کے باوجود کہ اس کی کھڑکی پر ہمیشہ نشئیوں کا ایک ہجوم رہتا مگر پھر بھی اس محلے کی عورتیں، لڑکیاں خود کو محفوظ  تصور کرتیں۔
کسی کی مجال نہیں تھی کہ کوئی سامنے کی کسی بھی گلی پر یا ان کے ااڑوس پڑوس کی کسی عورت پر نگاہ ڈالتا  
جو بھی وہاں سے ، جو کچھ بھی خریدتا،  خاموشی سے سر  جھکا کر دور تک چلا جاتا۔
 آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی اجازت نہ تھی۔
 کیونکہ یہ چاچا غیاث کا محلہ تھا۔
 لوگ بدمعاشوں کو بدنام کرتے ہیں۔ لیکن وہ کیسا بدمعاش تھا ، جو اپنے محلے کی عورتوں کی چادر تھا۔
 ایک بار چاچا غیاث نے فیصلہ کر لیا کہ وہ کسی اور کاروبار کی طرف منتقل ہو جائے گا چاہے اسے پولیس کو بھتہ ہی کیوں نہ دینا پڑے۔
 لیکن وہ اس گندے کاروبار سے خود کو نکالے گا۔
 جس میں جوانوں کی جوانیاں برباد ہو رہی ہیں۔
 انہوں نے  پیسوں کی سبیل کی ۔ جمع پونجی اور ادھر ادھر سے کر کے اس سے 15 یا شاید 20 بھینسیں خرید لیں ۔
ایک روز ہم بچے سکول سے واپس آئے تو محلے میں میکے کا سماں تھا ۔
 پیچھے کی خالی میدان میں انہوں نے ان کا ایک باڑا بنانے کے لئے تمبو لگائے۔
ان ساری بھینسوں کا پہلے سارے دن کا دودھ اکٹھا کیا اور شام تک وہاں دیگوں کی لائنیں لگی ہوئی تھیں۔
 بچے سکولوں سے آئے اور حیرت سے دیکھنے لگے
 گلی کے خالی میدانوں کے اندر دیگیں ہی دیگیں چڑھی ہوئی ہیں۔
 انہوں نے اپنے گھروں سے پوچھا کہ امی کیا آج گلی میں کسی کی شادی ہو رہی ہے
 انہوں نے کہا
 نہیں تو ۔۔۔پتہ نہیں 
چاچا غیاث کی طرف سے  پھر دو تین گھنٹے کے بعد لاؤڈ سپیکر پہ اعلان ہوتا ہے
 کڑیو منڈیو ونڈی دی کھیر لے جاؤ۔۔۔
 اور پھر یہ کھیر ٹوٹیوں میں نہیں بٹی بلکہ یہ کھیر لوگوں اور بچوں میں دیگچیاں دیگچے گھروں کی بالٹیاں جس کے ہاتھ جو بھی کچھ لگا وہ اپنے ساتھ لے کر گیا 
چاچا غیاث کا حکم تھا کہ کوئی کسی سے یہ نہ پوچھے کہ تم پہلے لے جا چکے ہو۔۔
 اور بھر بھر کر اس دن کی بھینسوں کا سارا دودھ 15 سے 20 بھینسوں کا سارے دن کا دودھ اس دن خیرات کیا گیا
  اس دودھ سے وہ کھیر کی بیشمار دیگیں چڑھیں۔
  ان دیگوں کے ذریعے سارے محلے کو اتنی گھیر بانٹی گئی کہ جہاں جہاں تک یہ آواز پہنچی بالٹیوں میں بھر بھر کے کھیر لوگوں نے کھائی۔
 چاچا غیاث زندہ باد
 آج تک زندگی میں اس واقعے کو شاید 30،  40 سال گزر چکے ہوں گے لیکن اس کے مقابلے پر کبھی کسی کی خیرات ایک فرد واحد کے ہاتھوں گلی محلوں میں بٹتے نہیں دیکھی۔
 نہ ہی یہ آواز دوبارہ سننے کو ملی اس محلے میں ہر ایک کے لیے لازم تھا کہ سر جھکا کر داخل ہوتا اور سر جھکا کے اکیلا کوئی بھی مرد جو اس محلے کا رہنے والا نہیں تھا داخل نہیں ہو سکتا تھا۔
جب تک کہ اس سے کچھ خریدنا ہے تو سر جھکا کر آئے گا اور سر جھکا کر جائے گا۔
 پولیس کے لیے غیاث بدمعاش محلے کا چاچا غیاث کیا کمال کا انسان تھا۔
 اس کی بیٹی گلی کی لڑکیوں کے ساتھ سکول جایا کرتی ۔
دوسری تیسری جماعت کی وہ طالبہ اپنی اس دوست کے لیئے گھر سے دیسی گھی کی پنیاں بنا کر لے جاتی۔ کیونکہ محلے کی باقی بچیاں ان سے ڈرتی تھیں۔
 لیکن اس کی دوست جس کے والد بھی چاچا غیاث کو اچھی طرح جانتے تھے اور اس کی عزت کرتے تھے سوائے اس عیب کے اس میں کوئی عیب نہیں تھا کہ وہ منشیات فروش تھا۔
 لیکن وہ خود اتنے رعب دار تھے کہ محلے میں کوئی ان پر اعتراض نہیں کر سکتا تھا
 کہ تم چاچا غیاث کے ساتھ دوستی میں کیوں ہو ۔
گھروں کا آنا جانا تو تھا بھی نہیں کسی کے ساتھ۔
 لیکن محلے میں باہر سے دعا سلام بہت اچھی تھی۔
 ان کی بیٹی بینو کے ساتھ چاچا غیاث کی بیٹی دل ناز مل کر سکول جاتیں۔
محلے کے کنارے پر ہی سکول تھا اور بینو کے حصے کے لیئے باقاعدہ دیسی گھی کی پنیاں بنا کر اس کا حصہ سکول میں دل ناز کے ہاتھوں جاتا ۔
دل ناز خود بھی دل کی بہت اچھی بچی تھی۔ محنتی تھی اور لائک تھی۔
 لیکن اس پر ایک ٹھپا تھا 
کہ وہ چاچا غیاس کی بیٹی ہے۔
 چاچا غیاس کے ایک عیب سے جو ان سے زبردستی کروایا جاتا۔
ان کی ہر خوبی کو داغدار کرنے کی کوشش کی جاتی۔
 کافی عرصے بعد جب بینو سکول بدل کر دوسرے سکول چلی گئی اور دل ناز اسی سارے ہنگامے میں کہیں گم ہو گئی تو پتہ چلا کہ
  15 سال کی عمر تک جب اسے میٹرک میں ہونا چاہئے تھا اس کی شادی کر کے غیاث چاچا نے اسے پولیس کے روایتی  کردار کے خوف سے اس گھر سے دور کر کیا ۔
 شاید اچھا ہی تو کیا ۔
یہاں ہوتی تو جانے کون کون اس پر کیا نظر ڈالتا ۔
لوگ اس کی کبھی شادی نہیں ہونے دیتے ۔
اس لیے انہوں نے انتظار نہیں کیا۔ خاموشی سے اس کا نکاح کر دیا ۔
 اسے رخصت کر دیا ۔
حالات بھی انسان کو کس کس نہج پہ کیسے کیسے فیصلے کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں ۔
چاچا غیاس کا یہ فیصلہ یقینا اپنے وقت اور اپنے حالات کے لحاظ سے بہت مناسب تھا۔
 اپنی بیٹی کی حفاظت کے لیئے یہی بہتر تھا۔
 بڑا بیٹا جو ویسے ہی سکول سے بھاگ چکا تھا۔
 ان سارے حالات اور لوگوں کی باتوں پر  چاچا غیاث اپنی شرافت بھی نہیں چھوڑتا تھا  نہ وہ پورا بدمعاش بن پاتا نہ پوری طرح شرافت میں آسے آنے دیا جاتا. 
 اس کے دل کا شریف آدمی اس کے نفس کا شریف آدمی اسے لتاڑتا رہتا۔
 پھر ایک روز معلوم ہوا 
چاچا غیاث خاموشی سے اپنا گھر بیچ کر اپنی دوسری چھوٹی بیٹی 12 13 سال کی راشدہ کو  اپنے پڑوس میں آباد اپنے بھائی کے بیٹے کے نکاح میں دے کر خود خاموشی سے وہ گلی چھوڑ گئے ۔
وہ کہاں گئے
 شاید یہ ان کی اپنی بیٹیوں کو بھی معلوم نہیں تھا
 لیکن وہ اب مزید اس کیچڑ میں لت پت نہیں رہنا چاہتے تھے ۔
 چاچا غیاث آج بھی یاد آتے ہیں۔
 بڑے اچھے لفظوں کے ساتھ جھکی ہوئی نظریں دھیمہ لہجہ۔
ہر بیٹی کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھنے والا چاچا غیاث۔
کاش ہمارے ذہنوں میں بدمعاش کا جو تصور ہے۔ آج کا بدمعاش جس گندگی میں لتھڑا ہوا ہے۔
 انہیں پتہ چلے کہ جب باعزت لوگ بدمعاش کی سیٹ پر بیٹھتے تھے تو وہ اپنی محلے کے پہرا دار بن جاتے تھے۔
 اپنے محلے کی عورتوں اور بچوں کے محافظ بن جاتے تھے۔ عورتوں کی عزتوں کے رکھوالے بن جاتے تھے۔
 چاچا غیاث ایک ایسی شخصیت جن پر جتنا جانا جائے کم ہے لیکن وہ جب یاد آتے ہیں۔
عزت سے محبت سے آنکھیں نم ہو جاتی ہیں ۔
                     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منگل، 20 اگست، 2024

& اندھی محبت۔ افسانہ۔ سچی کہانیاں۔ قطرہ قطرہ زندگی


        اندھی محبت
   

وہ جس راستے سے اپنے سلائی سکول جاتی تھیں وہاں عین اسی لمحے کوئی اور بھی منتظر دکھائی دیتا ۔
 یوں تو وہ سرتاپا  بڑی سی سیاہ چادر میں ڈھکی ہوتیں  ۔ لیکن اسکے گورے ہاتھوں اور کاجل لگی آنکھوں  نے منور کو جیسے اسکا دیوانہ بنا دیا تھا ۔ 
وہ ہر روز اپنا ہر ضروری کام چھوڑ کر ٹھیک نو بجے اس راستے میں اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیئے  کھڑا رہتا ۔ 
سی ایس ایس کی پڑھائی اور پھر اپنی بینک کی ملازمت کے لیئے شہر میں آنے والے اس نوجوان کا تعلق یوں تو بہت کھاتے پیتے گھرانے سے تھا۔
 اپنے خاندان کے کالے کلوٹے مرنجاں مرنج افراد میں یہ گول مٹول گورا چٹا بچہ سب کے لیئے گویا اللہ نے کوئی تحفہ بھیجا تھا ۔ بڑے چاو سے اسکے ماں باپ اور ددھیال ننھیال نے صلاح مشورے کے بعد اس کا نام منور رکھا ۔ وہ تھا بھی  روشن اور منور چہرے والا ۔۔
 بچپن سے ہی بہت حسین، بلا کا ذہین ۔
 سارا گاوں سارا خاندان  اس کی نفاست اور ذہانت پر حیران ہوا کرتا اور اکثر اس کی ماں سے مذاق کرتے کہ بھابی جی سچ بتا کیا کھا کر یہ چاند کا ٹکڑا پیدا کیا ہے ۔۔
وہ سادہ سی دیہاتی خدمتگزار اور ملنسار رشیداں بی بی ہنس کر آسمان کی جانب منہ کر کے کہتی کہ
 کے دساں اللہ سوہنے دی دین ہے ۔ ایہہ سوہنا پت میری جھولی وچ پا کے میکوں لگے اس میکوں میڈھی کسے بڑی خاص نیکی دا انعام جیوندیاں جی دے چھوڑیا اے۔ 
(یعنی کیا بتاوں یہ اللہ سوہنے کی دین ہے ۔ کہ یہ پیارا بیٹا میری جھولی میں ڈال کے مجھے لگتا ہے کہ اس نے میری کسی خاص نیکی کا انعام مجھے جیتے جی ہی دیدیا ہے ۔ )
منور حسین ہی نہیں بے حد ذہین بھی تھا۔ سکول سے لے کر کالج تک ہر جماعت میں اس نے نمایاں نمبروں کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔
 پورے خاندان کا واحد لڑکا تھا جو ہر کلاس میں ایک ہی بار میں اور وہ بھی اتنے شاندار نمبروں سے پاس ہوا ہو۔
 اور سب سے زیادہ پڑھا لکھا۔
 اس نے جب شہر جا کر اعلی تعلیم کی خواہش کی تو سارے خاندان نے، اس کے ماں باپ نے اس پر دلی خوشی کا اظہار کیا ۔
یوں وہ سب  کی اجازت سے شہر میں ایک کمرہ کرائے پر لے کر رہنے لگا ۔
اس میں کوئی بری عادت نہیں تھی۔ وہ بہت نفیس لڑکا تھا۔ سیگرٹ تک پینا اسے پسند نہیں تھا۔
 ہر کسی سے اخلاق سے بات کرنا اس کی عادت تھی ۔ وہ جہاں رہتا، جہاں جاتا ہر کسی کو اپنا گرویدہ بنا لیتا۔ ہر کوئی اس سے دوستی کرنا چاہتا۔ وہ ہر کسی کی مدد کو تیار رہتا۔  اسکی زندگی مالی طور پر آسان  اور آسودگی تھی۔ 
 اس لیئے اسے مجبورا بھی کبھی کچھ نہیں کرنا پڑا۔ 
جو کیا شوق سے کیا ذوق سے کیا اور اسی  مالی آسودگی کی وجہ سے اکثر دوستوں کی مدد بھی کیا کرتا۔
 یوں وہ سب کا چہیتا بنا رہا۔
وہ اپنی موٹر سائیکل سٹارٹ کر رہا تھا۔
جس وقت چار پانچ لڑکیوں کا ایک گروپ گپ شپ لگاتے ہنستے مسکراتے پاس سے گزرا۔
 تقریبا سبھی نے بڑی چادریں اوڑ رکھی تھیں اور چہرے ڈھک رکھے تھے۔
 ان سب میں گورے گورے ہاتھ اور کالی کاجل لگی بڑی بڑی انکھوں پر جیسے اس کی نگاہ ٹک سی گئی۔
 جانے کیوں وہ اسے دیکھتا چلا گیا۔ حالانکہ اس کے گورے پاؤں ہاتھ اور انکھوں کے سوا کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
 لیکن وہ جیسے ان آنکھوں میں ڈوبتا چلا گیا۔
 ان آنکھوں کی مسکراہٹ نے جیسے اس پر اپنی پسندیدگی بیان کی ہو، اور آگے کی طرف نکل گئی۔
 بس پھر کیا تھا اب ان آنکھوں کی دید کے لیئے ہر روز منور اسی وقت منتظر رہنے لگا۔۔۔
کالی چادر سے جھانکتی کاجل لگی وہ کالی آنکھیں اور بیگ کندھے سے لٹکائے اس کے وہ گورے ہاتھ گویا اس کی زندگی کا مقصد بن گئے تھے ۔ 
اس نے محلے میں رہنے والے اپنے ایک دوست کے ذریعے اس کی ماں سے یہ معلوم کروایا کہ اس لڑکی کے گھر کا پتہ کریں۔
 وہ اسے رشتہ بھیجنا چاہتا ہے۔
 محلے کی ہر گھر میں ہر ماں اور ہر لڑکی اس سے رشتہ کرنے کی خواہش تھی۔
 لیکن اس کی نظر ٹکی بھی تو اس لڑکی پر جسے اس نے کبھی دیکھا تک نہیں۔
  دو ایک روز میں اس کے دوست کی ماں نے اس کی ساری معلومات کیں۔ اور بتایا کہ وہ چھ بہنیں اور ایک بھائی ہیں ۔
 صرف ایک بڑی بہن کافی سالوں سے بیاہی ہوئی ہے۔ بھائی نکما ہے اور چھوٹی بہنیں پڑھ رہی ہیں
 جبکہ یہ لڑکی زیادہ پڑھ نہیں سکی اس لیئے سلائی کا کورس کرنے جاتی ہے۔
 اس نے دوست کی ماں کو خالہ جی کہہ کر مجبور کیا کہ میں اپنے والدین کو لانا چاہتا ہوں ان کے گھر ۔
کسی طرح سے بات چلائیے۔
 بالآخر لڑکی کی ماں کے نے جب سنا کہ اتنا حسین پڑھا لکھا نوجوان خوبصورت تمیزدار اپنے رشتے کے لیئے ان کے گھر کا منتظر تھا۔
 یہ سن کر پاری کی ماں ہکی بکی رہ گئی۔
 ایسا رشتہ تو وہ خواب میں بھی نہیں سوچ سکتی تھی۔
 پھر جب وہ لوگ ان کے گھر باقاعدہ اپنی بیٹے کی خواہش پر رشتہ لے کر آئے تو بہت حیران ہوئی۔
 جب کہ پاری ان کے سامنے بھی تقریبا گھونگھٹ نکال کر اور خود کو ڈھک کے، ان کی خاطر مدرات میں پیش پیش ہوتی۔
 وہ تو منور کو دیکھ چکی تھی اور دل و جان سے اس پر فدا بھی ہو چکی تھی، لیکن خود کبھی وہ کھل کر ان کے سامنے نہیں آئی۔
لیکن ان کی خاطر مدارت میں اس نے کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
 منور کے ماں باپ یہی سوچ کر دیوانے ہو رہے تھے کہ
 واہ شہر میں رہنے والی لڑکی چاہے کرائے کے گھر میں ہی رہتی تھی۔ مالی طور پر بے حد کمزور ہی کیوں نہیں تھے۔ لیکن گوری چٹی شہری لڑکی ان کی بہو بننے جا رہی ہے اور کتنی تمیزدار ہے کتنی خاطر کرتی ہے ان کی کتنی عزت کرتی ہے۔
 یہ بات بھی ان کے لیئے کافی تھی۔
 وہ سب گہرے سانولے اور کالے رنگ کی کھال کے ساتھ آنے والے ایک اچھے خاندان کے کھاتے پیتے ایسے لوگ تھے جنہیں اگر الگ سے دیکھا جاتا تو کوئی بھی نہیں مان سکتا تھا کہ یہ لوگ کسی کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتے ہوں گے۔
 مسکین سی شکلوں والے سادہ سے مزاج کے لیکن لیکن بہترین مالی حیثیت کے لوگ اس لڑکی کی شرم و حیا سمجھتے ہوئے اس پر لٹو ہو چکے تھے۔
وہ جب کبھی آتے ڈھیروں ڈھیر سوغاتیں گاؤں سے لے کر آتے۔
کسی چیز کی ان کے گھر کبھی کمی نہ ہونے دیتے۔ جبکہ پاری کی ماں منع کرتی رہتی
 کہ اتنا مت لے کر آئیے۔
میں یہ بوجھ نہیں اٹھا سکتی اور میں آپ کے مقابلے کی نہیں۔
 لیکن انہوں نے کہا
 نہیں بہن جی ہمیں صرف آپ کی بیٹی کا رشتہ چاہیئے۔ ہمیں آپ سے اور کچھ نہیں چاہیئے۔
تن کے دو کپڑے بھی ہمارے گھر کے ہوں گے۔ ہمیں ان کی ضرورت بھی نہیں۔ بس آپ ہمارے بیٹے کی خواہش ہمیں دے دیجئے۔
پاری کی بیوہ ماں کے لیئے یہ رشتہ جیسے اللہ نے ایک نعمت بنا کر بھیج دیا ہو۔
 وہ جو ہر مہینے دو کمروں کے گھر کے  کرائے کے لیئے پریشان رہا کرتی تھی۔
 اس بیوگی میں پانچ پڑھنے والی بیٹیوں کا ساتھ،  ایک نکما بیٹا جو سارا دن آوارہ گردی سے باز نہ آتا۔
ایسے میں ایسا رشتہ اور ایسے اچھے لوگ اس کے لیئے اللہ کا کوئی انعام تھے جیسے۔
تحفے تحائف کا سلسلہ  رکنے کا نام نہیں لیتا تھا ۔ آئے دن  پاری کے گھر پر اس کی ہونے والی سسرال سے کوئی نہ کوئی  گاوں کی سوغات لیئے آ موجود ہوتا ۔
 زلیخا جیسی بیوہ عورت، چھ بیٹیوں اور ایک نالائق بیٹے کے گھر پر تو منور کا رشتہ گویا رحمت خداوندی ہو گیا تھا   ۔ 
وہ ہزار بار بھی منع کرتی تو بھی ہونے والی اتنی بڑی زمیندار سسرال سے خالی ہاتھ آنا کوئی کیسے گوارہ کرتا ۔۔ 
کبھی گنے کا موسم ہے تو گنے کے ڈھیر اور بوری بھر گڑ ، کبھی چاول کی بوری ،کبھی موسمی پھل گویا انہیں تو جیسے زلیخا کے گھر  کچھ بھیجنے کا بہانہ ہی چاہیئے تھا ۔
پاری ان کے لیئے چائے اور کھانے کا اہتمام اپنی ماں کے کہنے پر کرتی اور کھانا پیش بھی کرتی تو ایک لمبا سا گھونگھٹ ضرور تانے رکھتی ۔
 اس کی اس ادا کو اس کے سادہ لوح  سسرال نے اس کی حیاداری کی اعلی مثال قرار دیا ۔ 
ورنہ آج کے اس جدید اور بے حیا دور میں جہاں ہر لڑکی چٹک پٹک کر اپنے بر ڈھونڈتی پھرتی ہے وہاں ایسی  شرم و حیا کا تصور بھی محال تھا ۔ 
اس کا سسرال دیہاتی سادہ لوح اسکی اسی پر فدا تھا کہ ان کے چاند سے بیٹے کو گوری چٹی شہری لڑکی وہ بھی ایسی جو ان کے شہزادے کو بھی پسند تھی مل گئی ۔ اور کیا چاہیئے تھا ۔ 
منور جو پہلے ہی ایک بینک میں اچھے عہدے پر کام کر رہا تھا لیکن سی ایس ایس کی پڑھائی مکمل کرتے ہی سال بھر کے اندر اس نے شادی کے لیے اصرار کرنا شروع کیا۔
 
زلیخا جو پریشان تھی کہ بیٹی کو کیا دے کر رخصت کرے گی
 انہوں نے یہ کہہ کر اس کی ساری پریشانی دور کر دی کہ
 ہمیں بیٹی کے سوا کچھ نہیں چاہیئے۔
 ان کے گاؤں سے رواج تھا کہ بارات میں صرف مرد ہی آیا کرتے تھے۔
 مردوں کا ایک گروہ آیا ۔
لڑکے کے ساتھ نکاح کی ایک سادہ سا رسم ہوئی اور یوں لڑکی گاڑی میں بیٹھ کر رخصت ہو گئی۔
 ولیمے کے روز خواتین جو اپنے گھروں میں اپنے گاؤں میں بیٹھی دلہن کے انتظار میں تھیں۔ سارا دن رونق میلہ انہوں نے وہاں اپنے گھر میں کرنا تھا۔ 
خوب ڈھول ڈھمکے ہوئے ۔
رونق میلہ لگا اور یوں زمیندار صاحب کے بیٹے کی بارات کو  لے کر اوردلہن کو حجلہ عروسی تک  پہنچا کر اپنے گھروں کو رخصت ہوئیں ۔
 آج منور کی زندگی کا یادگار دن تھا۔
 وہ دو سال سے اس انتظار میں تھا۔ کہ کب یہ چاند اس کے گھر میں اترے گا ۔
اس کا تجسس اور شوق دیدار تھا کہ جانے کس درجے تک پہنچ چکا تھا۔
 کمرے میں قدم رکھتے ہی اس کے خواب سمٹی سمٹائی  دلہن کی صورت اس کے پلنگ  پر موجود تھے۔ جنہیں وہ آج تعبیر دینے جا رہا تھا۔
 اس نے بڑے چاؤ کے ساتھ اپنے ہاتھ میں ایک خوبصورت سا سونے کا سیٹ ڈبے میں دیکھا اور دلہن کو منہ دکھائی کے لیئے دینے آگے اس خوبصورت منقش پلک پہ جا بیٹھا۔
 پاری نے کچھ ادا دکھائی۔
 شرمانے کی ادائیں دکھانے کے بعد جس وقت اس نے اس کو سیٹ پیش کیا اور یوں جب اس نے گھونگٹ پلٹا تو ،منور کی دنیا جیسے کسی دھماکے میں اڑ گئی ہو۔ اس کے خواب بکھر گئے۔ 
 یہ کیا ہوا گورے چٹے ہاتھوں اور اور سفید پیروں اور بڑی بڑی انکھوں میں جب پورا چہرہ مجسم تھا۔ 
وہ حیران پریشان ایک دم سے اچھل کر پلنگ سے دور جا گرا ۔ 
پاری حیرت سے اسے دیکھنے لگی
 کیا ہوا آپ کو۔۔ وہ پریشان ہو بولی
 تم تم کون ہو۔۔۔
منور نے اجنبیت سے پوچھا
 میں ۔۔۔ میں آپ کی بیوی پاری۔۔۔
اس نے رسان سے کہا
 نہیں نہیں  تم وہ نہیں ہو سکتی۔ وہ تو کوئی اور لڑکی تھی۔
وہ اٹک اٹک کر بولا
 نہیں وہ میں ہی تھی
 وہ ہکا بکا پریشان اس 35 سے 40 سال کی لگ بھگ اس خاتون  کو دیکھ رہا تھا جس کے چہرے پر جھریاں نمودار ہونا شروع ہو چکی تھی۔ دانت نسبتا باہر کو آتے ہوئے۔۔۔
 
شاید یہ غربت کا اثر تھا یا اس کے اتنے زیادہ دبلے پتلے ہونے کی وجہ سے وہ اپنی عمر سے بھی کہیں بڑی دکھائی دے رہی تھی۔
 25 سال کے لڑکے کے لیے 35، 40 سال کی ایک خاتون کا یہ ساتھ کسی جھٹکے سے کم نہیں تھا ۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ پوچھتی کہتی۔
 منور تیزی سے کمرے سے باہر نکل گیا 
وہ پریشان ہو چکی تھی۔۔
 بیٹھی کی بیٹھی رہ گئی
 وہ جانتی تھی کہ اگر منور نے اسے دیکھ لیا تو وہ کبھی اسے اپنائے گا نہیں۔
 یہی سوچ کر وہ لمبا سا گھونگھٹ نکالے رکھتی۔
 اس نے اپنی محبت میں خود غرضی دکھائی اور عمر شکل صورت ہر چیز کو پیچھے کر بس اس کی دلہن بننے کی چاہ میں اس نے اس کے ساتھ پردے کا کھیل کھیلا۔
 اب کیا تھا منور دیوانوں کی طرح اس گلی کے چکر لگانے لگا جہاں اس کی تمام خالہ زاد بہنوں نے سب نے مل کر اس کے خواب جگائے تھے اور اس کے ذہن میں ایک حسین خاکہ ابھارا تھا۔
 پاری نہ شکل صورت کی پاری تھی۔ نہ عمر میں اس کے برابر کی تھی۔ نہ ہی تعلیم میں، بمشکل پانچویں جماعت پڑھی تھی۔ جسے وہ دسویں بارویں سمجھ کر نظر انداز کر رہا تھا۔ 
کوئی بات نہیں کچھ کم پڑھی ہے تو کیا ہوا لیکن یہاں تو وہ بالکل انپڑھ تھی۔
 چار پانچ سال سکول جانے کے باوجود بھی پڑھائی میں اسکی دلچسپی نہ ہونے کے سبب اس کی ماں نے سکول چھڑوا دیا ۔
غربت کی وجہ سے، اس کی شادی نہ ہونے کی وجہ سے سالہا سال سے وہ گھر میں بیٹھی گھرداری کر رہی تھی۔
 لیکن اب منور کیا کریں اس کے خاندان میں عورت کی بہت عزت تھی کسی بھی مرد کے لیئے۔
 وہ اسے چھوڑ نہیں سکتا تھا لیکن وہ اسے اپنا بھی نہیں سکتا تھا۔
 اس کا دل اس کا دماغ ایک عجیب شش و پنج میں پڑ چکے تھے وہ اس عورت کا کیا کرے جو اس کی سیج پر آ بیٹھی تھی۔
 وہ ساری رات ان گلیوں کے چکر کاٹتا رہا دیوانہ وار صبح لوگوں نے اسے دیکھا کہ دولہا اپنے گاؤں سے باہر شہر میں گلیوں میں اس لڑکی کی ماں اور خالہ کے گھروں کے باہر گھوم رہا ۔
لٹا ہوا چہرہ ، کھلا گریبان، اجڑے ہوئے بال۔۔
 ہر ایک نے اس کو بربادی کی داستان سمجھ کر دیکھا۔
 صبح جب  پاری کی خالہ اپنے گھر سے باہر نکل کر دودھ لے رہی تھی تو وہ ان کے گھر میں داخل ہو گیا۔

وہ  دھاڑے مار مار کر رونے لگا۔
 انہیں پوچھنے لگا 
میں نے آپ کے ساتھ کیا دشمنی کی، کیا غلط کیا،
 یہ کون ہے جس سے میری شادی ہوئی ہے۔
 انہوں نے کہا یہ وہی لڑکی ہے جس کے لیئے تم بے قرار تھے۔ تم نے رشتہ بھیجا تھا۔ تمہارے ساتھ کوئی دھوکہ نہیں ہوا۔
 نہیں یہ دھوکہ ہے میں نے اسے لڑکی سمجھا۔
 لیکن یہ تعلیم شکل صورت سٹیٹس کسی لحاظ سے میرے قابل نہیں 
 اسے اپنی صورت مجھے دکھانی چاہیے تھی ۔
میرے ماں باپ کو دکھانی چاہیئے تھی۔
 وہ اپنے ماں باپ کو کس منہ سے کہتا کہ میں نے لڑکی کا چہرہ تک نہیں دیکھا اور میں اپ کو وہاں رشتے کے لیئے بھیج رہا ہوں۔
 پاری کی خالہ اور اس کی بیٹیاں شرمسار سر جھکائے بیٹھی تھیں۔
 بڑوں نے بیچ میں پڑ کر اسے سمجھایا کہ
 بیٹا جو کچھ ہوا اسے اپنا نصیب سمجھو۔ یہ بہت اچھی لڑکی ہے تم اس کے ساتھ خوش رہو گے۔
 لیکن وہ تو اپنے کمرے تک جانے کو تیار نہیں تھا۔
 اس کے اپنے ماں باپ اس ساری صورتحال سے بے خبر تھے۔
 لیکن پاری کی ماں اس کی خالہ اور اس کی سب کزن جانتی تھیں کہ رات اس لڑکے پر کیا قیامت گزر گئی۔
 لہذا سمجھا بجھا کر اس کی منت سماجت کر کے اسے اس لڑکی کو اپنانے پر مجبور کیا گیا۔
 کافی دن گزر گئے اور جانے کس وقت کس کیفیت میں اس نے اس لڑکی کو اپنے نزدیک آنے دیا ۔
جس میں اس سے زیادہ اس پاری کی کوششیں تھیں۔
 اس نے اتنی محبت سے گھر کے لوگوں کا دل جیتا ۔
ہر کام اپنے ہاتھ میں لیا ۔ ہر کسی سے اتنی میٹھی زبان سے تعلق استوار کیا کہ جنہوں نے دیکھ کر اس کو حیرت کا اظہار بھی کیا اس کی جوڑی کو حیرت سے دیکھا بھی۔ ان رشتہ داروں نے بھی اس لڑکی کی اچھی عادتوں کو بے حد پسند کیا۔
 اس نے چند ماہ میں پورے خاندان کو اپنا گرویدہ بنا لیا ۔ چھوٹا بڑا ہر کوئی اس کی تعریف کرتے نہ تھکتا ۔
کئی ماہ کے بعد بالآخر اس کے ہاتھ کے بنائے اچھے کھانے ، اس کی صفائی ستھرائی، نفاست ، ادب آداب،  جی سے ہر بات شروع کر کے جی پر ختم کرنے والی پاری نے اس کے دل میں جگہ بنانی شروع کر دی۔
 مجبورا ایک روز وہ اسے اپنے قریب کر ہی بیٹھا۔
یوں سال بعد سب کو پاری کے امید سے ہونے کی خبر نے  خاندان بھر کو خوش کر دیا ۔ 
جب کہ وہ خود حیران تھا کہ وہ اسے کیسے اپنا سکتا تھا ۔
لیکن جو ہونا تھا وہ ہو چکا تھا ۔
جلد ہی اللہ تعالی نے اسے ایک خوبصورت سے بیٹے سے نوازا ۔
جو بالکل اپنے باپ کی کاپی تھا ۔
ویسا ہی گورا چٹا ، حسین خوبصورت پیارا سا بیٹا گود میں اٹھا کر اس کے جیسے بہت سارے گلے دور ہو گئے۔
 وہ جو اللہ سے ناراض ہو رہا تھا۔ وہ اللہ سے راضی ہو گیا اس نے اپنی بیوی کو واقعی دل سے اپنا لیا۔
 جس نے دو سالوں میں خاندان کے کسی شخص کو کوئی شکایت نہ ہونے دی۔
 یہ بہت مشکل کام تھا لیکن پاری نے اپنی اچھی عادتوں سے انہیں اپنا لیا۔
 اور انہوں نے پاری کو اپنے دل میں جگا دی۔
 اس کے ماں باپ کی آج بھی اتنی عزت تھی ۔
اس کے بہن بھائیوں کے لیئے اسی طرح سے گاؤں سے سوغاتیں بھیجی جاتی،  کوئی بھی فصل آتی، کوئی نیا موسم آتا۔ 
وہ جانتے تھے کہ مالی طور پر اس کی ماں اور بہنوں کی حالت اچھی نہیں۔ انہوں نے انہیں اپنے گھر کے بچوں کے ساتھ ہر تحفہ دیا  جاتا۔
 ان کی ہر خوشی غمی میں سب سے آگے کھڑے ہوتے۔
وقت گزرتا گیا اس کے قدم جب سے ہی گھر میں پڑے ، منور کی ترقی ہوتی چلی گئی اس نے دن دونی رات چوگنی ترقی کی۔
 وہ عبادت گزار تھی۔ سگھڑ تھی ۔سلیقہ مند تھی۔ ایک مرد کو اس سے زیادہ اور کیا چاہیئے تھا۔
 اس نے سوچ لیا تھا یہ کتنی بھی حسین ہوتی شکل تو ایک دن ڈھل جاتی ہے۔ لیکن عادتیں ، فطرت اور کردار جو ہمیشہ ساتھ چلتا ہے۔
 ان سب امتحانوں میں وہ پاس ہو چکی تھی۔ اللہ نے اسے چار حسین بیٹوں سے نوازا۔
 اس نے اپنے بیٹوں کی تعلیم پر بہت توجہ دی۔
 پاری خود جو تعلیم سے محروم رہ گئی تھی۔
 بہت ساری زندگی کی مجبوریوں کے سبب، 
 لیکن اس نے اپنے بچوں کی پڑھائی پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا۔
 بچے بھی باپ جیسے ذہین نکلے اور یوں یہ خوبصورت سا گھرانہ جو شہر منتقل ہو چکا تھا۔
آج جب بینک کی جانب سے ملی ہوئی کوٹھی میں شفٹ ہوئے کافی سال ہو چکے تھے۔
 بچے اعلی سکولوں میں پڑھ رہے تھے اب وہی منور اسی پاری کا دیوانہ تھا۔
 اب وہ بھول چکا تھا کہ اس کی شکل، اس کا سٹیٹس ، اس کی تعلیم کیا ہے،
 وہ صرف یہ جانتا تھا کہ اس کی بیوی بہترین ہے۔ بہت اچھی انسان ہے۔ بہت اچھی ماں ہیں ۔ بہت اچھی بیوی ہے۔ بہت اچھی بہو ہے ۔
ہر رشتے میں وہ بہت اچھی تھی۔
 آج سالوں بعد جب پاری نے اپنے بیٹے کو دیکھا جو آج دلہا بنا ڈاکٹر بیٹا جو جو آج ایک ڈاکٹر لڑکی کو ہی بیاہ کر لا رہا تھا۔
 اپنے شوہر کے ساتھ کھڑی اس نے اللہ کا شکر ادا کیا۔
 پروردگار تو  امتحان میں تو ڈالتا ہے مگر کسی کی ہمت سے زیادہ نہیں۔
 وہ جو 35 40 سال کی عمر تک سوچتی تھی شاید اس کی زندگی میں کوئی ساتھی نہیں لکھا۔
 کوئی اسے پسند نہیں کرے گا لیکن اس کی اچھی عادات نے،  اچھے اخلاق نے،  اس کے سگھڑاپے نے، اس کی میٹھی زبان نے، اس کے لیئے خوشیوں کے ہر دروازے کو کھول دیا۔
ہر رشتے کو، ہر راستے کو آسان کر دیا۔
 سچ کہا ہے کچھ برداشت کرنے کے بعد ہی بہت سا انعام ملتا ہے اور  پاری وہ یہ انعام پا چکی تھی۔
وہ بہت حسین ہوتی ،  کم سنی میں منور جیسا آئیڈیل جیون ساتھی پا بھی لیتی لیکن آج اس میں موجود تمام۔خوبیوں سے خالی ہوتی تو کیا وہ ایک کامیاب زندگی گزار پاتی۔
آج اس کے بیٹے بھی بچوں والے تھے ۔ وہ منور کیساتھ ریٹائرمنٹ کا کامیاب بڑھاپا گزار رہی تھی ۔ اور ہر پل دونوں اپنے رب کا شکر بجا لاتے نہ تھکتے۔۔۔۔
                    ۔۔۔۔۔۔۔۔



بدھ، 7 اگست، 2024

& معصوم بوجھ ‏ / ‏افسانہ۔ قطرہ قطرہ زندگی


    معصوم  بوجھ 

گھر میں داخل ہوتے ہیں چھناکے کی آواز سے اس کا پارہ چڑھ گیا۔
تھکی ہوئی تو پہلے سے تھی۔ اب گھر پہنچتے ہیں قیمتی گلدان کے ٹوٹنے سے وہ اور غضبناک ہو گئی ۔
 سہمی ہوئی سی دس سالہ مایا اپنے ساتھ چھ سال کی نورا کو لپٹائے کھڑی تھی ۔
 ڈر کے مارے ان کی رنگت پیلی پڑ چکی تھی ۔ 
کیا کرنے آئی تھیں کچن میں تم دونوں ۔۔۔
وہ دھاڑی
مما وہ نورا کو بھوک لگی تھی تو میں کھانا بنانے کے لیئے کیبنٹ سے دال کا ڈبہ نکال رہی تھی ۔ ڈبہ میرے ہاتھ سے پھسل کر گر تو گلدان سے ٹکرایا تو وہ گر کر ۔۔۔۔
بکومت ۔۔
اس نے ایک زناٹے دار تھپڑ مایا کے معصوم سے چہرے پر رسید کر دیا ۔ اس کی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو گرے لیکن منہ سے آواز نہیں نکلی ۔ معصوم نورا بہن کیساتھ اور زور سے لپٹ گئی اس نے بہن کے سویٹر میں اپنا منہ چھپا لیا ۔ 
مجھے کچھ نہیں کھانا۔۔۔ مجھے کچھ نہیں کھانا ۔۔ 
وہ خوف سے منمائے جا رہی تھی ۔
یہ آئے دن کی کہانی تھی ۔ لیکن اب راضیہ ان دونوں بچیوں سے جان چھڑانے پر سنجیدگی سے غور کر رہی تھی ۔ جو اس کی زندگی کی نئی شروعات میں روڑا بن چکی تھیں ۔

 ان کا باپ جمال تو تین سال پہلے ہی اسے طلاق دیکر روز نئی محبوبہ بغل میں لیئے گھوم رہا تھا اور دونوں بچیاں اس کے گلے ڈال گیا تھا ۔
یورپ کا ارمان لیئے اکثر ایشین جوان جب یہاں پہنچتے ہیں تو وہ اسے محنت کرنے کے بجائے عیاشی کا ٹھکانہ ہی سمجھ کر آتے ہیں ۔ لیکن حد تو تب ہو جاتی ہے جب اکثر تو بچے پیدا کرنے کے بعد بھی انکی ذمہ داریاں اٹھانے کو تیار نہیں ہوتے۔ 
آج کافی دنوں کے بعد اس نے جمال کو فون کر کے بلایا اور دونوں میں خوب چلم چلی ہوئی ۔
 راضیہ چلائی کہ
اٹھاو اپنے پلے اور لیجاو یہاں سے ۔ورنہ کچھ کر بیٹھوں  گی میں ان کے ساتھ ۔۔
جمال نے کہا 
مائی فٹ جو تمہارا جی چاہے کرو میرا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔۔
یہ کہہ کر وہ پیر پٹختے ہوئے چلا گیا ۔
راضیہ اپنے حواس کھو چکی تھی نہ تو جمال ان بچوں کے لیئے اسے کوئی مالی مدد فراہم کر رہا تھا نہ اخلاقی طور پر اسکی ذمہ داری بانٹ رہا تھا ۔
یہ ہی سوچتے ہوئے اس نے دونوں بچیوں کو بیرحمی کیساتھ گھسیٹتے ہوئے اپنی گاڑی میں پٹخا ۔
 وہ رو رہی تھیں ، خوفزدہ تھیں ۔ اس سے رحم کی بھیک مانگ رہی تھیں۔
 لیکن وہ جیسے بہری اور بے حس ہو چکی تھی۔ 
شدید سردیوں کی شام تھی باہر بہت جلد اندھیرا ہو چکا تھا۔ ایک ہو کا سا عالم تھا۔ لوگ اپنے گھروں میں لوٹ چکے تھے یا پھر ہوٹلز اور کلب میں مصروف تھے۔
راضیہ نے معلوم کر لیا تھا کہ آج کل جمال کہاں رہ رہا ہے۔
اس نے جمال کے دروازے پر کافی دیر گھنٹیاں بجائیں لیکن دوہرے شیشوں کی دیواروں اور کھڑکیوں میں کوئی آواز باہر سے نہیں جا رہی تھی اور اندر کا میوزک کا شور دروازے کی گھنٹی بھی نہیں سنا رہا تھا ۔
نشے میں دھت جمال اپنی دوست کیساتھ پارٹی میں مشغول تھا ۔ شراب کی بو سارے گھر میں رچی ہوئی تھی ۔ 
بالاخر راضیہ نے کافی دیر کی کوشش کے بعد جب جمال اپنا فون نہیں اٹھا رہا تھا اس نے کہا ۔
جہنم میں جاؤ
 اس نے دونوں بچیوں کو گاڑی سے گھسیٹ کر نکالا اور وہاں دروازے پر کھڑا کر دیا ۔
اور خود گاڑی تیزی سے موڑتی ہوئی نکل گئی
ایک لمحے کو بھی اسے ان بچیوں پر ترس نہیں آیا
کیا ہوس مامتا اور باپتا  پر اس طرح بھی غالب آ سکتی ہے۔۔
آسمان بھی حیرت سے تک رہا تھا۔
 ٹھٹھرتی ہوئی سردی میں بغیر کچھ سوچے سمجھے کہ کب دروازہ کھلے گا کب جمال ان بچیوں کو گھر کے اندر لیجائے گا۔ 
مایا کا معصوم دل حیران پریشان تھا ۔ وہ کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھی۔
 اس نے کافی دیر کھڑے رہنے کے بعد تھک کر اپنی بہن کو ڈور میٹ پر لٹا کر اس کا سر اپنی گود میں رکھا ۔ وہ اسے پیار سے تھپک کر سلا رہی تھی ۔ لیکن خالی پیٹ والوں کو کمبخت نیند بھی کہاں نصیب ہوتی ہے ۔
 آپی بھوک لگی ہے ۔ نورا نے  اپنی منمناتی ہوئی آواز میں کہا۔
 مایا نے بے بسی سے بہن کو دیکھا اور اپنی آنکھیں پونچھ ڈالیں۔ 
اس نے کئی بار دروازہ پیٹا لیکن جواب ندارد۔۔
سردی تھی کہ ہر پل لہو جمائے دے رہی تھی۔۔
 ابھی پاپا آتے ہیں پھر ہم کھانا کھائیں گے ۔ شاید انکی ڈور بیل خراب ہے گڑیا ۔
 اس نے بہن کو کیسے کیسے دلاسے دیئے۔ 
وہ چھوٹی سی بچی اپنی بہن کے لیئے وہ بن گئی جو اس کی ماں کو باپ کو بننا چاہیئے تھا۔
اور جانے کب دونوں ایکدوسرے سے لپٹے ہوئے سو گئیں ۔ سردی کی خون جمانے والی لہر نے انہیں واقعی سلا دیا ۔ 
صبح  گیارہ بجے نشہ ٹوٹنے پر جمال انگڑائیاں لیتے ہوئے آنکھیں ملتے ہوئے دروازہ کھول کر نکلا
 تو دروازے کیساتھ ٹیک لگائے ہوئے دو سردی سے جمے معصوم مردہ وجود نیچے جا گرے۔۔۔۔۔
                ------
            

& وہ میرے قابل نہیں تھا۔۔۔۔۔افسانہ۔ قطرہ قطرہ زندگی

    
      وہ میرے قابل نہیں تھا 


سامیہ جانتی تھی کہ اس کا شوہر تھوڑا رنگین مزاج ہے ۔ لیکن بدکردار ہے، یہ وہ کبھی نہیں مان سکتی تھی . 
اسی بھروسے پر اس نے اس شادی کی حامی بھری تھی کہ ناصح اسے کبھی بیوفائی کا دکھ نہیں دے سکتا.
 اس کی اس کے لیئے دیوانگی ہی تو اسے عجیب سا سکون دیا کرتی تھی.

ایک حسین لڑکی دروازے پر ناصح کے پہلو میں کھڑی تھی..
اس سے پہلے کہ وہ اس سے کچھ پوچھتی،   وہ اسے لیکر گھر میں  داخل ہو گیا
کون ہے یہ لڑکی.. ؟
اس نے پریشانی سے سوال کیا
دوست ہے میری۔
ناصح نے اس لڑکی کو اپنی قریب کرتے ہوئے جواب دیا
دوست ؟
کیسی دوست؟
وہ اب حیران بھی ہو رہی تھی
میری محبوبہ ہے اب خوش۔۔
اس نے عجیب آدم بیزار انداز میں جواب دیا
اور میں ؟
میں کون ہوں؟
اس نے تڑپ کر سوال کیا 
ارے بھئی تم بیوی ہو جاؤ بیوی بنکر رہو. کیوں سر پر سوار ہو. دفع ہو جاؤ جا کر کھانا بناؤ.. جھاڑو لگاؤ  ٹوائلٹ صاف کرو . یہ میرے کپڑے اٹھاؤ . اچھی طرح سے صاف ہونے چاہیئیں. 
اس نے کپڑوں کو الکنی سے,  الماری سے کھینچ کھینچ کر نکالا اور گولا بنا کر اس کی طرف اچھال دیا .
ناصح نے اسے کمرے سے باہر دکھیلتے ہوئے دروازے کی چٹخنی چڑھا لی۔
وہ ہکا بکا سی فرش پر گری دروازے کو دیکھ رہی تھی۔
اسکے سوچنے سمجھنے کی حس جواب دے چکی تھی۔
کمرے سے ان دونوں کی بے ہنگم ہنسی، سرگوشیوں کیساتھ اٹھخ پٹخ کی آوازیں آ رہی تھی۔ 
اسے ناصح کے وجود سے تصور سے ہی گھن آنے لگی۔۔
صدمے  کی ایک لہر اس کے رگ و پے میں دوڑ رہی تھی۔ تو بے عزتی کا احساس اس کو مارے جا رہا تھا
یا اللہ میں  کیا کروں .
یہاں کھڑی رہوں, یا اس گھر پر، اس شخص پر تھوک کر کہیں بھاگ جاؤں..
 اسے مار ڈالوں یا اپنے گلے میں پھندا لگا کر جُھول جاؤں ؟؟؟؟
وہ رونا چاہتی تھی مگر آنسو شاید اس کی آنکھ کا راستہ بھول چکے تھے...
اس شخص کی محبت پر تو نے  اپنے سارے سچے رشتے قربان کر دیئے تھے. اندر سے کوئی آواز آئی..
پھر تو یہ روز کا معمول بن گیا۔
اس کا رونا دھونا احتجاج جھگڑا سب بے سود ہو چکا تھا۔ 
پھر اس نے اپنا دھیان رکھنا چھوڑ دیا. خاموشی کی موٹی چادر اوڑھ لی.اس نے خود کو ایک گونگی مشین بنا لیا.  اپنی زندگی سے نہ کا لفظ کھرج کر پھینک دیا.
اس نے اپنے ہر انسانی جذبے اور احساس کی نفی کرنے کی ٹھان لی.
سب کی پلیٹوں سے بچے دوچار لقمے اسکی خوراک بن گئے.  نیا کپڑا اس نے خود پر حرام کر لیا.
کسی ہنسی کی بات پر اس کے کان بہرے ہو جاتے.
یہ سزا دی اس نے خود کو ناصح جیسے بےفیض اور بیوفا شخص سے محبت کرنے کی دی .  اس جیسے بے قدر اور گھٹیا کردار سے وفاداری نبھانے اور اپنی پاکیزہ محبت کی تذلیل کی..
اس روز وہ دربار پر سلام سے واپسی پر اپنا نام مانوس آواز میں سنکر چونک گئی۔
اس نے مڑ کر دیکھا 
اسکا خالہ زاد روف اسے حیرت سے تک رہا تھا۔
روف۔۔۔۔
 اس کے منہ سے بے اختیار نکلا 
تم یہاں ۔۔
ہاں میں اپنے کام سے یہاں ایک دفتر میں آیا تھا ۔ سوچا دربار پر سلام کر لوں ۔ لیکن تمہیں کیا ہوا؟
تمہیں تو میں پہچان ہی نہیں پایا اندازے سے ہی تمہیں آواز دی تھی ۔ 
اس کی آنکھیں تھیں یا خشک گہرا کنواں.
وہ اس میں زیادہ دیر جھانک بھی نہ سکا. .
آج پورے پانچ سال بعد وہ اپنی خالہ زاد کو دیکھ رہا تھا ۔
جس کا نام تک گھر والے بھول چکے تھے۔
 اس کی حالت دیکھ کر دل صدمے سے چور ہو گیا۔
 یہ تم نے اپنی کیا حالت بنا رکھی ہے جس کے ساتھ آئی تھی جب اسے میری پرواہ نہیں تو میں اپنی حالت کی کیا پرواہ کروں گی۔ کس کے لیئے جیئوں۔
 اس نے اپنا سارا قصہ کھول کر بیان کر دیا ۔
 وقوف لڑکی تمہارے شوہر نے تمہارے ساتھ دشمنی کی۔  بے وفائی کی اور اس کا بدلہ اس سے لینے کے بجائے تم نے اپنے آپ سے لیا۔ خود کو تباہ کر لیا۔ برباد کر لیا بے۔
 بیوقوف لڑکی اس بدبخت کو اس سے کیا فرق پڑے گا وہ جگہ جگہ منہ مارتا پھرتا ہے اور تم یوں ماتم کر سجائے بیٹھی ہو ۔
اسے ایسی سزا دو کہ وہ ہی نہیں اس جیسے اور کم ظرف بھی یاد رکھیں۔جہاں سے گزرے تمہارا نام لے کر اپنا گناہ تسلیم کرے۔
کیسے۔۔ کیسے میں یہ سب کر سکتی ہوں ۔
میں کیا کر سکتی ہوں۔ میں نے تو اپنے گھر والے اپنے بہن بھائی سب کو اپنے خلاف کر لیا اس سے ایک بے وقعت انسان کے لیئے۔
وہ مایوسی سے آنسو پونچھتے ہوئے بولی
کر سکتی ہو۔ کیوں نہیں کر سکتی تمہاری شادی کا فیصلہ تمہارا حق تھا ٹھیک ہے انسان سے غلطی ہوتی ہے۔ تمہارا چناؤ بھی اچھا ثابت نہیں ہوا۔ تمہارے نصیب کی چوٹ بن گیا ۔  لیکن اب اگر وہ دشمنی پہ اترا ہے تو اسے بہترین دشمنی کر کے دکھاؤ تاکہ اور بھی دیکھنے والوں کو عبرت ہو وہ کیسے؟
 اس نے حیرت سے اسے دیکھا
 ایک بات یاد رکھو دشمن کو چوٹ پہنچانی ہو تو خود کو دکھی کر کے نہیں۔ اس سے تو دشمن خوش ہوتا ہے اسے چوٹ پہنچانی ہے تو خود خوش رہ کر کامیاب ہو کر پہنچاو۔
 کہتے ہیں نا کہ دشمن کے کلیجے پر مونگ دلنی ہے تو خوش رہو اور کامیاب رہ کر دکھاؤ 
تو میں کیا کروں میرا خوش ہونے کو جی نہیں چاہتا۔
 تو اس جی کو انسان کا بچہ بناؤ نا۔ اس جی نے تو تمہیں اس حالت تک پہنچایا ہے۔
 اس نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا۔
 اس کے ساتھ رہنا چاہتی ہو تو اپنی شرطوں پر رہو۔
 نہیں رہنا چاہتی ہو تو بھی اپنی شرطوں پہ اسے چھوڑو۔
 میں کہاں جاؤں گی؟
 کیا مطلب میں کہاں  جاؤں؟
 دنیا ایک آدمی پر ختم تو نہیں ہو جاتی ۔ جیسے وہ دوسری عورتیں لا کر یہاں پر غلط کام کر سکتا ہے تو تم کیا جائز کام نہیں کر سکتی۔
 چھوڑ دو اسے۔ کسی اچھے انسان کا ہاتھ تھامو جو تمہیں عزت دے۔ محبت اور خلوص کے ساتھ تمہارے ساتھ زندگی گزارے۔
 ایسے گندے آدمی کی زندگی سے نکل کر کون مجھے اپنائے گا ۔
میرے تو گھر والے بھی مجھے دیکھنا پسند نہیں کریں گے۔
 ارے تم جاؤ تو سہی۔ تمہارت اپنے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ برا بھلا کہیں گے۔  زیادہ سے زیادہ کوس لیں گے تمہیں۔۔ اور کیا کہیں گے  اس سے زیادہ ۔
والدین کے گھروں کے دروازے ایسے بند نہیں ہوا کرتے اور دل کا دروازہ تو کبھی بند نہیں ہوتا ۔
ایک معافی سے تو خدا بھی راضی ہو جاتا ہے تو کیا وہ راضی نہیں ہوں گے۔ جاؤ انہیں پھر سے اپنا لو۔
 اپنی زندگی کو نئے سرے سے شروع کرو 
اس کی باتیں اس کے دل پر مرہم کا سا اثر کر رہی تھیں ۔
 اس نے سوچا 
واقعی شیشے میں دیکھا میں نے پانچ سال میں خود کو 50 سال کا کر لیا اور وہ ہٹا کٹا منہ پر لالیاں بکھیرے ہر روز ایک نئی لڑکی کو پھانس کر لاتا ہے۔
 اسے کیا فرق پڑا پانچ سال کا میرا صبر اس کو نظر ہی نہیں آیا۔
میں مفت کی نوکرانی ہوں اس کے لیئے ۔
میں ہوں کیا ؟
 روف کی باتوں نے اسے جینے کی ایک نئی راہ دکھائی ۔
اس نے خود کو آئینے میں دیکھا۔ اپنے رویے پر غور کیا اور پھر ایک فیصلہ کر لیا ۔
اپنے دو جوڑے بیگ میں رکھے۔ ایک مختصر سا خط  ناصح کے نام لکھا کہ بس اب میں اور تم اجنبی ہیں۔ چاہو تو عدالت چلے جاؤ ۔ چاہو تو عزت سے اس معاملے کو یہیں ختم کر دو ۔ مجھے طلاق دیدو ۔
اب میں تمہیں ہر جگہ تمہارے مقابلے پر کھڑی دکھائی دوں گی۔
 وہ  خط پڑھکر حیران ہو گیا
 یہ نیا سبق کس نے پڑھایا ہے ۔ یہ راستہ کس نے دکھایا۔۔ یہ اتنی بہادر کب سے ہو گئی؟ کس سے ملتی ہے؟  کون آتا ہے اور یوں وہ عورت جو کل تک عزت کا لفظ بھول چکی تھی آج اس کے سامنے کیسے کھڑی ہو سکتی ہے۔
 سامیہ نے اپنے والدین سے مل کر معافی تلافی کی۔
 اس آدمی کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ سب نے اس کی بات کی حمایت کی جو پہلے سے اسے پسند نہیں کرتے تھے۔
 لیکن محبت کی پٹی انکھوں سے اتر چکی تھی اور اب وہ خود یہ فیصلہ کرنا چاہتی تھی۔  جس بوجھ کو سر سے اتار پھینکے ۔
اناصح کو اندازہ ہو چکا تھا کہ عدالت میں رل کے صرف وہ اپنا پیسہ ہر وقت ہی برباد کرے گا۔
 اس نے کوشش کی کہ کسی طرح اسے واپس بلا سکے لیکن اب وہ ٹھان چکی تھی کہ پانی بہت بہہ چکا ان پلوں کے نیچے سے۔
 سو اس نے طلاق نامہ اسے بھجوا دیا یوں یہ بھاری پتھر بھی اس کے کلیجے سے اتر گیا۔
 اس کی ماں نے اس کی ہمت بندھائی۔  زندگی کی طرف واپس آنے میں ،  گھر والوں کی عزت اور محبت نے اہم کردار ادا کیا ۔ 
 سانس لینے کا حوصلہ ہوا اس کی خوراک کا خیال رکھا گیا۔ صحت کچھ بہتر ہوئی۔ دل کو حوصلہ ملا تو پھر سے پرانی سامیہ دنیا کو دکھائی دینے لگی۔
 اس نے گھر کے نزدیک ایک فیکٹری میں کپڑوں کی کٹنگ کا کام سیکھنا شروع کیا ۔ سال بھر کا کورس کرنے   کے بعد اب وہ بہترین انداز میں اپنا کام کر رہی تھی۔ 
اسکی پہلی تنخواہ  جو اسکے ہاتھ پر ائی تو اسے لگا وہ پھر سے جی اٹھی۔ یہ اس کی کمائی تھی۔
 اس کی حق حلال کی کمائی۔ اس میں سے کچھ خرچ کرنے کے لیئے اسے کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی۔
 وہ اب کسی کی بھیک نہیں کھائے گی  ۔
اس نے اس پیسے کا ایک حصہ اپنی ماں کے ہاتھ پہ رکھا ۔
ماں نے اسے دیکھا 
یہ کیا یہ میرے حصے کا خرچ ہے جو   آپ اس گھر کے خرچ میں ڈالیں۔
 لیکن بیٹا ہم  تو تم سے نہیں مانگ رہے ۔
 آپ نہ بھی مانگیں ہر انسان کو اپنی زندگی کا بوجھ خود اٹھانا چاہئیے۔ میں جو کچھ کر چکی ہوں اس میں اپنی  زندگی کے پانچ سال گنوا دیئے ۔
یہ سمجھنے کے لیے کہ پہلے مجھے معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑے ہونا چاہیئے تھا۔
کچھ کمانا چاہیئے تھا۔
 کمانے والی عورت بات کرنے کی ہمت بھی رکھتی ہے اور فیصلہ کرنے کا حوصلہ بھی رکھتی ہے۔
کیونکہ وہ جانتی ہے کہ اس کا رشتہ سامنے والے کے ساتھ دو روٹی کا نہیں بلکہ عزت کا ہے اور اسے عزت ملتی بھی ہے ۔
میں یہاں آپ کے ساتھ رہوں گی لیکن آپ کو میرے حصے کا خرچ مجھ سے خاموشی سے لینا ہوگا۔
ماں نے کچھ سوچا مسکرا کر وہ پیسے رکھ لیئے ۔
وہ زندگی کی  ڈگر پر رواں دواں ہو چکی تھی۔
 کہ روف اپنی ماں کے ساتھ ان کے گھر کچھ دنوں کے لیے ٹھہرنے کو آیا۔ سامیہ نے اس کا شکریہ ادا کیا  تمہاری وجہ سے میں اس دلدل سے نکل سکی ورنہ شاید اور سال بھر میں مٹی کے ساتھ مٹی ہو چکی ہوتی۔
 تمہارا شکریہ 
شکریہ کی کوئی بات نہیں ۔
تمہیں تکلیف میں دیکھا تو میرا فرض تھا کہ تمہیں حوصلہ دیتا۔
تم مجھے پہلے بھی اچھی لگتی تھی اور اب بھی۔
 ایک غلط فیصلے سے کسی کی زندگی ختم نہیں ہو جاتی یا اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں ختم نہیں ہو جاتیں۔ میں اماں کو اسی لئیے ساتھ لایا ہوں۔
 اگر تمہاری رضامندی ہو تو میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔
 اگر تم ہاں کرو گی تب ہی میں امی کو خالہ سے بات کرنے کے لیے کہوں گا میں دو چار دن کے لیئے اپنے کام کے علاوہ اس کام سے بھی  تمہارے شہر میں آیا ہوں۔ 
 سوچا قسمت آزما لی جائے۔
سامیہ نے اسے بے یقینی سے دیکھتے ہوئے پوچھا
 کیا تم سنجیدہ ہو۔ 
 سو فیصد۔ اس میں غیر سنجیدہ ہونے کی کیا بات ہے؟
 تم جانتے ہو میری طلاق ہو چکی ہے۔ پھر تمہاری امی اس رشتے کے لیئے کیسے راضی ہوں گی؟
 وہ اس رشتے کے لیے تیار ہیں۔ وہ تمہیں پہلے بھی پسند کرتی تھی اور اب بھی تم سے بہت محبت کرتی ہیں۔  لیکن اس سے پہلے ہی تم نے جا کر شادی  کر لی۔
  ہم شاید تھوڑا لیٹ ہو گئے۔
 قسمت کو یہی منظور تھا کہ ہم اس طرح ملیں تو ہم اپنی اگلی زندگی کو بہت اچھا بنا سکتے ہیں ۔
دیکھو روف میں نے جو حالات دیکھے ہیں ۔میرا زندگی پر اعتبار اور اس شادی کے رشتے پر بہت ہی کمزور ہو گیا ہے۔
میں زندگی میں اب گھر بیٹھ کر ایک مفلوج زندگی نہیں گزار سکتی ۔
جھاڑو پونچھا کرنے والی ماسی کی زندگی نہیں گزار سکتی۔ میں گھر سے باہر اپنی مرضی سے جب تک چاہوں گی کام کروں گی اور جب دل نہیں کرے گا نہیں کروں گی ۔ میری تنخواہ میری مرضی میں جہاں چاہوں وہ خرچ کروں گی۔
 تم اپنا گھر اپنی تنخواہ پر چلا سکتے ہو ؟ 
میری جائز ضرورتوں کو پورا کر سکتے ہو ؟
 مجھے سانس لینے کا، فیصلہ کرنے کا اختیار دے سکتے ہو، مجھ سے وفادار رہ سکتے ہو، تو ٹھیک ہے مجھے تم سے شادی کرنے پر کوئی اعتراض نہیں۔
 روف نے مسکرا کر اسے دیکھا اور بولا جناب اعلی فکر مند کیجیئے۔
میں آپ سے یہی توقع کر رہا تھا اور اگر آپ یہ سب نہ کہتیں  تو پھر شاید میں کچھ اور سوچتا۔۔
 اس نے مسکرا کر دیکھا اور گھر سے باہر  نکل گیا
کہاں جا رہے ہو 
سامیہ نے اسے آواز دی
وہ مسکراتے ہوئے بولا
 بھئی مٹھائی تو لے آوں ۔۔۔
                     ۔۔۔۔۔۔۔۔


& بوجھ بانٹو۔ افسانہ۔ سچی کہانیاں ۔ قطرہ قطرہ زندگی


   
         بوجھ بانٹو


وقت بہت تیزی سے بدل رھا ہے وقت کے تقاضے بھی بدل رہے ہیں ۔ کل تک جو باتیں اتنی ضروری نہیں سمجھی جاتی تھیں آج وہ زندگی کی ضرورت بن چکی ہیں ۔ اس بات کو اب کم تعلیم یافتہ لوگوں نے بھی قبول کرنا شروع کر دیا ہے ۔ 
مثلا۔۔۔

 کل تک ہمارے ہاں جو خاتون بھی  گاڑی چلاتی تھی اسے بہت ہی آزاد خیال بلکہ ہاتھ سے نکلی ہوئ عورت سمجھا جاتا تھا ۔ زیادہ دور نہ جائیں بیس سال پیچھے چلتے ہیں ۔ کسی بھی لڑکی نے میٹرک کیا ،ہانڈی روٹی بنانے کے قابل ہوئ تو بہت بڑی بات تھی مناسب رشتے کیۓ اور لڑکی اپنے گھر کی ہوئ ۔اللہ اللہ خیرصلہ ۔لیکن پھر ماحول نے کروٹ لی ۔
میڈیا کا سیلاب آگیا ۔معلومات نے طوفان کی سی تیزی سے گھروں کا رخ کیا ۔ زندگی کا انداز بدلنے لگا ۔ خواہشوں نے نۓ رنگ ڈھنگ اپنانے شروع کیۓ ۔زندگی رو ٹی کپڑا اور مکان کے دائرے سے باہر نکل کر مقابلے کی دوڑ میں شامل ہو گئ ۔خوب سے خوب تر کی جستجو نے اسے اور بھی ہوا دی ۔ آج یہ بات پہلے سے بھی زیادہ ضروری لگنے لگی ہے کہ ہماری آدھی آبادی جو گھر بیٹھ کر یا تو آبادی بڑھاتی ہے یا پھر شام کو تھکے ہارے مردوں کے گھر آنے پر ان کے لیۓ مسائل بڑھانے کی وجہ بنتی ہے اس آدھی آبادی کو بھی اب قومی ترقی کے دھارے میں شامل کیا جاۓ ۔ نوجوانوں سے جب بھی میری ملاقات ہوتی ہے میرے مشاہدے اور تجربے کو ایک نئ راہ ملتی ہے ۔انہی نوجوانوں کی کہانیوں میں سے ایک کہانی آج آپ کے ساتھ بھی بانٹ رہی ہوں جس نے مجھے بھی بہت کچھ سکھایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ ایک نوجوان لڑکی نے مجھے اپنے تجربے سے آگاہ کرتے ہوۓ بتایا کہ
،، میں بہت ہی زیادہ لاڈلی بھی تھی اور فضول خرچ بھی ۔ ہمارے بابا جان نے ہمیں ہر منہ مانگی چیز لا کر دی ، میرے لیۓ یہ بہت ہی آسان سی بات تھی کہ یہاں میں کوئ فرمائش کرتی ہوں وہاں وہ پوری ہو جاتی ہے اس لیۓ کسی چیز کے ملنے کے بعد کبھی تو میں اسے ریجیکٹ کر دیا کرتی تھی تو کبھی وہ مہنگی سے مہنگی چیز بھی کسی کو اٹھا کر دے دیا کرتی تھی ۔ پھر اتفاق سے ایک سال یونیورسٹی کے داخلوں کا ٹائم کسی وجہ سے لیٹ ہو گیا اور بروقت فارم نہ ملنے کی وجہ سے مجھے یونیوورسٹی کا وہ سال داخلہ نہ مل سکا تو میں نے بوریت سے بچنے لیۓ بابا جان کی دکان پر جانے کا فیصلہ کیا ،۔ بظاہر یہ ایک ٹائم پاس فیصلہ تھا مگر میں نہیں جانتی تھی کہ میرے اس فیصلے سے میری سوچ کا دھارا بدل جاۓ گا یا میری زندگی کا انداز بدل جاۓ گا ۔ صبح بابا جان کے ساتھ چھ بجے اٹھناتھا پھر ایک گھنٹے کے اندر دکان کا رخ کیا سارا دن باباجان کے ساتھ دکان کے کاؤنٹر پر کبھی، تو کبھی سامان لگانے کے لیۓ ریک سیٹ کرنے والے کی مدد کرنا، دکان پر آنے والے سامان کا حساب کتاب ، ساتھ ساتھ کسٹمر کو بھی  خریداری میں کسی بھی چیز ک لیئے گائیڈکرنا۔۔۔۔۔۔ ا اُفففففففففففففففففففففففففففففف
شام تک تو میری ہڈیاں بھی بجنے لگیں ۔ اس روز بابا جان نے مجھے میری دن بھر کی دیہاڑی کے پیسے [جو کہ ہمارے دوسرے ملازم کو بھی جتنے ملتے ہیں اس کے برابر تھے ] میرے ہاتھ پر رکھے تو یقین جانیۓ اس وقت جو میری حالت تھی میں اس خوشی کو بیان نہیں کر سکتی ۔یہ پیسے میری روز کے جیب خرچ کے دسویں حصے کے برابر بھی نہیں تھے ۔لیکن میرے لیۓ وہ پیسے کسی خزانے سے کم نہیں تھے اور اس سے بھی زیادہ وہ پیسے میرے لیۓ کتنے مقدس تھے جو میرے اپنے ہاتھ کی حلال کی کمائ تھے جنہیں دیکھ کر آج مجھے میرے بابا جان سے اور بھی زیادہ محبت اور عقیدت محسوس ہوئ اور ان کی اب تک کی ساری تھکن کوایک ہی پل میں میری رگ و پے نے بھی محسوس کر لیا ۫ ۔ اور اس کمائ کو خرچ کرنے کا خیال میرے لیۓ بلکل بھی اچھا نہیں تھا ۔ اور میں نے اس سے کچھ بھی خریدنے سے انکار کر دیا ۔ یہاں تک کہ باباجان نے اپنے پاس سے بھی کچھ خرید کر دینے کو کہا تو میں نے صاف انکار کر دیا کیوں کہ مجھے اس مشقت کا احساس ہو چکا تھا جو ان پیسوں کو کمانے کے لیۓ اٹھائ جاتی ہے وہ دن میری زندگی میں فضول خرچی کا آخری دن ثابت ہو ا ۔میں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ اگر ایک دن کے کام کا تجربہ جب مجھے اتنا کچھ سکھا سکتا ہے تو پھر مجھے ہر روز زندگی سے کچھ سیکھنا ہے ۔؛ آج میں پڑھ بھی رہی ہوں اور کام بھی کر رہی ہوں اپنے بابا کی کمائ کو ضائع کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی اور ہر کام کرنے والے کی عزت کرتی ہوں ۔ اور اپنے بہن بھائیوں کو بھی پیسہ سوچ سمجھ کر استعمال کرنے کا مشورہ دیتی ہوں ۔ ،،

دیکھاآپ نے ایک تجربہ آپ کی سوچ کو کہاں سے کہاں لے جاتا ہے ۔ یہ ہی تجربہ اب ہماری پوری قوم کو کرنے کی ضرورت ہے ۔
کیوں ہم عورتوں کو اپنی آدھی سے زیادہ آبادی کو بچے بم ب آنے اور فساد بونے کے لیئے گھریلو کاموں کے نام پر مخصوص کیئے رکھیں گے۔ 
تو۔کیا وہ۔منہ اٹھا کر صبح صبح مردوں کے ساتھ جا کر دھکے کھانا شروع کر دیں اس کی ماں نے غصے سے اس کی طرف گھورتے ہوئے دیکھا اور پوچھا
 ارے نہیں امی میرا یہ مطلب بالکل نہیں ہے کہ ہر بندہ یہی کام کرے، لیکن  کچھ تو پریکٹیکل کرے۔
 اپنی پڑھائی کے لیے اور پھر ہانڈی روٹی اور چولہے کے علاوہ بھی،  یہ کام کوئی بھی کر سکتا ہے۔
 اور عورت اور مرد کی اس میں کوئی تخصیص نہیں ہے جو فارغ ہے جس کا جی جا رہا ہے وہ بنا دیتا ہے ۔
باقی اس دنیا کے سسٹم کو چلانے کے لیے جن لوگوں کی ضرورت ہے اس میں عورت اور مرد کو دونوں کو برابر آگے بڑھنا ہوگا۔دونوں کو اللہ نے مختلف صلاحیتوں سے نواز رکھا ہے ۔گھر میں بیٹھ کر بھی مختلف کام ہو سکتے ہیں۔ لیکن کچھ کرو تو سہی ۔۔۔

جب تک خواتین کام کاج کے میدان میں قدم نہیں رکھیں گی وہ کبھی بھی اپنے باپ بھائی ، شوہر یا بیٹے کی کمائی سے ہمدردی نہیں کر سکتیں ۔
کیا مطلب ؟
امی نے حیرت سے سوال داغا۔
دیکھیں نا امی ۔۔بہنوں کو شوق ہوتا ہے کہ سہیلیوں میں شو مارنے کے لیئے بھائیوں کے پیسوں کو زیادہ سے زیادہ کہاں کھپانا ہے ۔ 
ماں کو فکر ہوتی ہے کہ بیٹا بہت کما رہا ہے تو کیسے کیسے بیٹیوں کو بھرا جاۓ ۔
بیوی کو فکر ہوتی ہے کہ کیسے اپنے میاں کی کمائی میں سے اپنے میکے والوں کو موج کرائی جاۓ ۔
گویا قُربانی کا دُنبہ بنتا ہے وہ اکیلا کمانے والا مرد ۔
 یہ سب کیا ہے ؟
کوئی مانے نہ مانے لیکن 80 فیصد خواتین ہمارے معاشرے میں یہ ہی سب کچھ کر رہی ہیں۔
اب تمہیں کیا الہام ہوا ہے 80 فیصد کا ؟ جو دعوی کر رہی ہو۔۔۔
 آپ اپنی ملنے والیوں، رشتے دار عورتوں میں سے یہ شرح نکال کر دیکھ لیجیئے۔
لیکن اس میں قصور ان خواتین کا بھی زیادہ نہیں ہے ۔ 
جو بھی شخص جب فارغ بیٹھا ہو اور اسے ہر چیز بنا محنت کے مل رہی ہو تو وہ اسے اجاڑنے میں کبھی بھی کوئی تردد نہیں کرے گا ۔
اسے معلوم ہی نہیں ہے کہ یہ سب بنانے کے لیئے، کمانے لیئے کیا کیا محنت کی گئی ہے ۔
 ہم تو اس معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں کہ جہاں لوگ لیڈی ڈاکٹر کا رشتہ بھی صرف لوگوں میں اپنا ایمج بنانے کے لیئے لیتے ہیں ۔ اور بیاہ کرتے ہی اس لڑکی کو پریکٹس تک کرنے کی اجازت تک نہیں دی جاتی ۔
 کیا نرسزز ۔ کیا ٹیچرز، ، ٹیکنیشنز ،ایم بی اے ہو یا ماسٹرز ۔ رشتہ لینے کے لیئے تو یہ ڈگری ایمپورٹنٹ ہے۔ لیکن اس لڑکی کے اسی شعبے میں اسکے کام کرنے سے ان کی توہین ہوتی ہے ۔
اب یہ روش بدلنے کا وقت آگیا ہے اگر ہمارے ہاں کے مردوں کو اپنا بوجھ کم کرنا ہے اور سب سے اہم ذہنی بیماری اور دل کے دوروں سے بچنا ہے تو اپنا معاشی بوجھ بانٹنا ہو گا ۔
 اب وہ زمانہ نہیں ہے کہ محدود ضرورت تھی سو ایک آدمی کی تنخواہ میں پوری حویلی کے نکمے پل جایا کرتے تھے۔ 

 اپنے ہاں کی خواتین کو فضول قسم کے جھگڑوں اور مصروفیات سے بچانا ہے تو انہیں نہ صرف تعلیمی میدان میں آگے لائیں بلکہ انہیں پروفیشنل ڈگریز دلوائیں تاکہ انہیں کام کر کے پیسے کی ویلیو کا احساس ہو۔ اس سے فضول خرچی میں بھی خاطر خواہ کمی ہو گی ۔ًمحلّوں اور خاندانوں کے جھگڑوں میں خاطر خواہ کمی ہو گی ۔اور آپ کے گھر کی اور ملک کی آمدنی میں اور سکون میں بھی اضافہ ہو گا ۔ وقت کے ساتھ ہمیں اپنے طرز زندگی میں بھی مثبت تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے ۔ارتقاء اسی کا نام ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہم ہر اچھی چیز کو اپنائیں اور ہر بری عادت اور رواج کو خدا حافظ کہیں ۔
 اگر ایسا نہیں کیا گیا تو ہمیں اپنا جہاں بدلنے کے لیۓ اور کتنے حادثوں اور قتل و غارت اور مفلسی کی راہ دیکھنا ہے ۔ فیصلہ ہم سب کو کرنا ہے کیوں کہ ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔
اس نے مڑ کر دیکھا 
وہ کب سے جا چکی تھی۔
  ۔                ۔۔۔۔

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/