ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک
افسانے ‏ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
افسانے ‏ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

بدھ، 7 اگست، 2024

& معصوم بوجھ ‏ / ‏افسانہ۔ قطرہ قطرہ زندگی


    معصوم  بوجھ 

گھر میں داخل ہوتے ہیں چھناکے کی آواز سے اس کا پارہ چڑھ گیا۔
تھکی ہوئی تو پہلے سے تھی۔ اب گھر پہنچتے ہیں قیمتی گلدان کے ٹوٹنے سے وہ اور غضبناک ہو گئی ۔
 سہمی ہوئی سی دس سالہ مایا اپنے ساتھ چھ سال کی نورا کو لپٹائے کھڑی تھی ۔
 ڈر کے مارے ان کی رنگت پیلی پڑ چکی تھی ۔ 
کیا کرنے آئی تھیں کچن میں تم دونوں ۔۔۔
وہ دھاڑی
مما وہ نورا کو بھوک لگی تھی تو میں کھانا بنانے کے لیئے کیبنٹ سے دال کا ڈبہ نکال رہی تھی ۔ ڈبہ میرے ہاتھ سے پھسل کر گر تو گلدان سے ٹکرایا تو وہ گر کر ۔۔۔۔
بکومت ۔۔
اس نے ایک زناٹے دار تھپڑ مایا کے معصوم سے چہرے پر رسید کر دیا ۔ اس کی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو گرے لیکن منہ سے آواز نہیں نکلی ۔ معصوم نورا بہن کیساتھ اور زور سے لپٹ گئی اس نے بہن کے سویٹر میں اپنا منہ چھپا لیا ۔ 
مجھے کچھ نہیں کھانا۔۔۔ مجھے کچھ نہیں کھانا ۔۔ 
وہ خوف سے منمائے جا رہی تھی ۔
یہ آئے دن کی کہانی تھی ۔ لیکن اب راضیہ ان دونوں بچیوں سے جان چھڑانے پر سنجیدگی سے غور کر رہی تھی ۔ جو اس کی زندگی کی نئی شروعات میں روڑا بن چکی تھیں ۔

 ان کا باپ جمال تو تین سال پہلے ہی اسے طلاق دیکر روز نئی محبوبہ بغل میں لیئے گھوم رہا تھا اور دونوں بچیاں اس کے گلے ڈال گیا تھا ۔
یورپ کا ارمان لیئے اکثر ایشین جوان جب یہاں پہنچتے ہیں تو وہ اسے محنت کرنے کے بجائے عیاشی کا ٹھکانہ ہی سمجھ کر آتے ہیں ۔ لیکن حد تو تب ہو جاتی ہے جب اکثر تو بچے پیدا کرنے کے بعد بھی انکی ذمہ داریاں اٹھانے کو تیار نہیں ہوتے۔ 
آج کافی دنوں کے بعد اس نے جمال کو فون کر کے بلایا اور دونوں میں خوب چلم چلی ہوئی ۔
 راضیہ چلائی کہ
اٹھاو اپنے پلے اور لیجاو یہاں سے ۔ورنہ کچھ کر بیٹھوں  گی میں ان کے ساتھ ۔۔
جمال نے کہا 
مائی فٹ جو تمہارا جی چاہے کرو میرا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔۔
یہ کہہ کر وہ پیر پٹختے ہوئے چلا گیا ۔
راضیہ اپنے حواس کھو چکی تھی نہ تو جمال ان بچوں کے لیئے اسے کوئی مالی مدد فراہم کر رہا تھا نہ اخلاقی طور پر اسکی ذمہ داری بانٹ رہا تھا ۔
یہ ہی سوچتے ہوئے اس نے دونوں بچیوں کو بیرحمی کیساتھ گھسیٹتے ہوئے اپنی گاڑی میں پٹخا ۔
 وہ رو رہی تھیں ، خوفزدہ تھیں ۔ اس سے رحم کی بھیک مانگ رہی تھیں۔
 لیکن وہ جیسے بہری اور بے حس ہو چکی تھی۔ 
شدید سردیوں کی شام تھی باہر بہت جلد اندھیرا ہو چکا تھا۔ ایک ہو کا سا عالم تھا۔ لوگ اپنے گھروں میں لوٹ چکے تھے یا پھر ہوٹلز اور کلب میں مصروف تھے۔
راضیہ نے معلوم کر لیا تھا کہ آج کل جمال کہاں رہ رہا ہے۔
اس نے جمال کے دروازے پر کافی دیر گھنٹیاں بجائیں لیکن دوہرے شیشوں کی دیواروں اور کھڑکیوں میں کوئی آواز باہر سے نہیں جا رہی تھی اور اندر کا میوزک کا شور دروازے کی گھنٹی بھی نہیں سنا رہا تھا ۔
نشے میں دھت جمال اپنی دوست کیساتھ پارٹی میں مشغول تھا ۔ شراب کی بو سارے گھر میں رچی ہوئی تھی ۔ 
بالاخر راضیہ نے کافی دیر کی کوشش کے بعد جب جمال اپنا فون نہیں اٹھا رہا تھا اس نے کہا ۔
جہنم میں جاؤ
 اس نے دونوں بچیوں کو گاڑی سے گھسیٹ کر نکالا اور وہاں دروازے پر کھڑا کر دیا ۔
اور خود گاڑی تیزی سے موڑتی ہوئی نکل گئی
ایک لمحے کو بھی اسے ان بچیوں پر ترس نہیں آیا
کیا ہوس مامتا اور باپتا  پر اس طرح بھی غالب آ سکتی ہے۔۔
آسمان بھی حیرت سے تک رہا تھا۔
 ٹھٹھرتی ہوئی سردی میں بغیر کچھ سوچے سمجھے کہ کب دروازہ کھلے گا کب جمال ان بچیوں کو گھر کے اندر لیجائے گا۔ 
مایا کا معصوم دل حیران پریشان تھا ۔ وہ کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھی۔
 اس نے کافی دیر کھڑے رہنے کے بعد تھک کر اپنی بہن کو ڈور میٹ پر لٹا کر اس کا سر اپنی گود میں رکھا ۔ وہ اسے پیار سے تھپک کر سلا رہی تھی ۔ لیکن خالی پیٹ والوں کو کمبخت نیند بھی کہاں نصیب ہوتی ہے ۔
 آپی بھوک لگی ہے ۔ نورا نے  اپنی منمناتی ہوئی آواز میں کہا۔
 مایا نے بے بسی سے بہن کو دیکھا اور اپنی آنکھیں پونچھ ڈالیں۔ 
اس نے کئی بار دروازہ پیٹا لیکن جواب ندارد۔۔
سردی تھی کہ ہر پل لہو جمائے دے رہی تھی۔۔
 ابھی پاپا آتے ہیں پھر ہم کھانا کھائیں گے ۔ شاید انکی ڈور بیل خراب ہے گڑیا ۔
 اس نے بہن کو کیسے کیسے دلاسے دیئے۔ 
وہ چھوٹی سی بچی اپنی بہن کے لیئے وہ بن گئی جو اس کی ماں کو باپ کو بننا چاہیئے تھا۔
اور جانے کب دونوں ایکدوسرے سے لپٹے ہوئے سو گئیں ۔ سردی کی خون جمانے والی لہر نے انہیں واقعی سلا دیا ۔ 
صبح  گیارہ بجے نشہ ٹوٹنے پر جمال انگڑائیاں لیتے ہوئے آنکھیں ملتے ہوئے دروازہ کھول کر نکلا
 تو دروازے کیساتھ ٹیک لگائے ہوئے دو سردی سے جمے معصوم مردہ وجود نیچے جا گرے۔۔۔۔۔
                ------
            

ہفتہ، 26 اگست، 2023

جنت ‏بچا ‏لی/ ‏افسانہ ‏۔ قطرہ قطرہ زندگی


شیزوفینیا کے مریضوں پر کہانی

جنت بچا لی

بیٹی نے سودا لیا اورباقی پیسے اپنے پرس میں رکھے ۔ 
وہ اکثر اپنی ماں کو حساب دینا ضروری نہیں سمجھتی تھی ۔ ماں خود سے یاد آنے پر پوچھ لے تو بتا دیا ورنہ بقایا اپنی جیب میں رکھ لیا۔ 
آج بھی اس نے ایسا ہی کیا ۔ نگار اب اپنے حال سے بے خبر ہو چکی تھی ۔ کوئی آکر  زبردستی منہ  ہاتھ دھلا دیتا تو ٹھیک ورنہ اکثر آتے جاتے وضو کر کے منہ ہی منہ میں کوئی نہ کوئی ورد بڑبڑاتی رہتی ۔ یہ بھی اس پر اللہ کا کرم ہی تھا کہ
شیزو فینیا نے اس سے ہر شناخت چھین لی تھی تب بھی اسے اپنی پاکیزگی اور اللہ کی یاد بخش رکھی تھی ۔ 
جب تک بال رنگتی تھی تو اپنی عمر سے آدھی دکھائی دینے والی نگار اب بیرنگ کھچڑی بالوں کے ساتھ صدیوں پرانی لگنے لگی ۔ کسی اولاد کو نہ اتنی توفیق تھی اور نہ اتنا شوق کہ مہینے بھر میں ماں کے بال رنگ سکے اسے سنوار سکے ۔ اس کے رکھ رکھاو کا خیال رکھ سکے ۔ 
کتنی عجیب بات ہے ماں باپ اپنے جس بچے کوسنوار سنوار کے تھکتے نہیں اور وہی اولاد  ان کا ہاتھ منہ دھلانا بھی خود پر بوجھ سمجھنے لگتی ہے ۔ 
آج بھی وہ بیٹی کے ساتھ سٹور سے باہر ہی اس کی گاڑی میں بیٹھی تھی ۔ بیٹی نے اس کے لیئے اسی کے پرس میں سے 50 یورو کا نوٹ نکال کر کچھ 10 یورو کی چیزیں خریدیں اور بقایا اپنے پرس میں رکھ لیا ۔ نگار کو اس کے گھر چھوڑا ۔
آج گھر واپسی پر جانے عجیب سی بیچینی اس کے حواس پر سوار تھی  ۔ اس نے ماں کے پیسے رکھ لیئے تھے ۔ گھر میں کھانے کو بھی کچھ نہیں بنا تھا ۔ اور آدمی ہوش میں ہو یا بدحواس کمبخت بھوک تو کبھی نہیں رکتی۔ یہ تو آدمی کو نچا کر ہی دم لیتی ہے ۔ ماما کے پرس میں ایک ہی تو نوٹ تھا جو میں نے نکال لیا تھا ۔ آج انہیں ڈاکٹر کے پاس بھی جانا تھا ۔ پتہ نہیں وہ کچھ کھا کر بھی گئی ہو گی یا نہیں ۔ 
اسکی غیر موجودگی میں اکثر نگار کی پڑوسن ہی اسے کسی بھی اپائنٹمنٹ پر لیجاتی تھی۔
 ماما دو نہ ۔۔ اپنے دو سال کے بیٹے کے منہ سے آواز سن کے وہ چونکی چمچ لیئے وہ اسے کھانا کھلانے بیٹھی تھی ۔ اسے بھی ماں ایسے ہی کھلایا کرتی تھیں ۔ کیسے کیسے تنہا کر دیا  تھا میں نے انہیں ۔ یہ سوچتے ہی اس کہ آنکھیں بھیگ گئیں ۔ 
جیسے تیسے اپنے بیٹے کو کھانا کھلاتے ہی اس نے گاڑی نکالی۔ پڑوسن کو فون کیا تو اس نے بتایا نگار تو آج شاید اکیلے ہی چلی گئی تھی میں نے کافی دیر دروازے کی گھنٹی بجائی لیکن کوئی جواب نہیں آیا تو میں واپس چلی آئی ۔ سوچا شاید وہ تمہارے ساتھ چلی گئی ہو گی ۔ لیکن اب تمہارے فون نے مجھے بھی پریشان کر دیا ہے  ۔ یہ سنتے ہی اس کے اوسان خطا ہو گئے۔ اس نے گلی گلی گاڑی دوڑانا شروع کر دی جہاں جہاں ہو سکتا تھا وہ ہر بس اسٹاپ پر سڑک پر راہگیروں میں اپنی ماں کو تلاش کرنے لگی ۔ ٹریفک سگنل پر رکے ہوئے اس کی نگاہ بھیڑ پر گئی جہاں اسے  نگار ایک قطار میں کھڑی دکھ گئی۔ 
اس نے گاڑی بڑی مشکل سے دور ملی جگہ پر پارک کی اور ماں کو جہاں دیکھا تھا وہاں دوڑ لگا دی ۔ 
اس نے دیکھا کہ ماں ویلفیئر والوں کی جانب سے لگائے ہوئے کھانے کے سٹال کے آگے لائن میں کھڑی تھیں جس میں غریب لاچار  لوگوں کے لیئے کھانا تقسیم کیا جاتا تھا ۔ اس نے آگے جانے کی کوشش کی تو انتظامیہ نے اسے روک دیا ۔ ماں کو یہاں دیکھ کر وہ دکھ اور شرمندگی سے گڑھی جا رہی تھی ۔ اس نے ماں کو آواز دینا چاہی لیکن یہاں شور مچانے سے اسے انتظامیہ نے منع کر دیا گیا ۔ وہ فورا انچارچ کے کمرے کی جانب بھاگی کہ وہاں اسکی ماں ہے اسے باہر لایا جائے ۔
انچارچ ایک مہربان خاتون تھی اس نے اس سے اس کی تعلیم عہدہ اور آمدن کا پوچھا تو اس کے حلیئے پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے بولی اگر آپ کو اپنی والدہ کی آپ کی لیئے قربابیاں اور محبتیں یاد ہوتیں تو آج وہ اس قطار میں کھڑی دکھائی نہ دیتیں ۔ آپ انہیں لے جائیے لیکن اگر آپ ان کا خیال نہیں رکھ سکتیں تو ہمیں بتائیے گا ہم ان کا خیال بھی رکھ سکتے ہیں اور ان کی حفاظت بھی  کر سکتے ہیں ۔ لیکن بس آپ کو اپنی جنت کی دعویداری سے دستبردار ہونا پڑیگا ۔ 
ایک چوٹ کی تال اس کے دل پر پڑی اس کی گونج نے اس کے دماغ کو جھنجھنا کر رکھ لیا۔ 
اس نے انچارج کا شکریہ ادا کیا اور اس کے اجازت نامے کے ساتھ کھانے کے بڑے ہال میں داخل ہوئی ۔ بھرے ہوئے پانچ سو لوگوں  کے ہال میں ماں کو ڈھونڈنے میں وقت لگا کھانا کھاتے ہوئے لوگوں میں  دور سے  اسے نگار دکھائی دے گئی ۔ وہ بھاگم بھاگ ماں کے قریب گئی۔ اس کا پہلا نوالا ابھی اسکے منہ کے قریب تھا کہ اس نے ماں کا ہاتھ پکڑ لیا۔ سور کے شوربے میں پڑا ہوا سبزی کا سالن اس  کے منہ میں جانے سے روک دیا ۔ نگار نے اسے اجنبی نظروں سے دیکھا اور  اس نے اپنی ماں کو کہا ماں یہ حرام ہے ۔ نگار کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا بس اتنا بولی بھوک لگی ہے ۔ پیسے نہیں ہیں ۔ 
اس نے اپنی ماں کے سر کو اپنے سینے سے لگا لیا ۔ آنسووں کا سیلاب بند توڑ کر نکل پڑا ۔ 
میری ماں کو میں سب کچھ خود لا کر دونگی ۔ چلیں میرے ساتھ ۔ 
دور سے اس پر نگاہ رکھے ہوئے ادارے کی انچارج نے اپنے چشمے کے نیچے سے بہتے ہوئے بے خبر آنسو اپنی انگلیوں کے پوروں سے پونچے اور مسکرا دی ۔ آج ایک جنت کما لی گئی  یا بچا لی گئی۔ 
                 ۔۔۔۔۔۔۔

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/