ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک
افسانے ‏ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
افسانے ‏ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ہفتہ، 26 اگست، 2023

جنت ‏بچا ‏لی/ ‏افسانہ ‏۔ قطرہ قطرہ زندگی


شیزوفینیا کے مریضوں پر کہانی

جنت بچا لی

بیٹی نے سودا لیا اورباقی پیسے اپنے پرس میں رکھے ۔ 
وہ اکثر اپنی ماں کو حساب دینا ضروری نہیں سمجھتی تھی ۔ ماں خود سے یاد آنے پر پوچھ لے تو بتا دیا ورنہ بقایا اپنی جیب میں رکھ لیا۔ 
آج بھی اس نے ایسا ہی کیا ۔ نگار اب اپنے حال سے بے خبر ہو چکی تھی ۔ کوئی آکر  زبردستی منہ  ہاتھ دھلا دیتا تو ٹھیک ورنہ اکثر آتے جاتے وضو کر کے منہ ہی منہ میں کوئی نہ کوئی ورد بڑبڑاتی رہتی ۔ یہ بھی اس پر اللہ کا کرم ہی تھا کہ
شیزو فینیا نے اس سے ہر شناخت چھین لی تھی تب بھی اسے اپنی پاکیزگی اور اللہ کی یاد بخش رکھی تھی ۔ 
جب تک بال رنگتی تھی تو اپنی عمر سے آدھی دکھائی دینے والی نگار اب بیرنگ کھچڑی بالوں کے ساتھ صدیوں پرانی لگنے لگی ۔ کسی اولاد کو نہ اتنی توفیق تھی اور نہ اتنا شوق کہ مہینے بھر میں ماں کے بال رنگ سکے اسے سنوار سکے ۔ اس کے رکھ رکھاو کا خیال رکھ سکے ۔ 
کتنی عجیب بات ہے ماں باپ اپنے جس بچے کوسنوار سنوار کے تھکتے نہیں اور وہی اولاد  ان کا ہاتھ منہ دھلانا بھی خود پر بوجھ سمجھنے لگتی ہے ۔ 
آج بھی وہ بیٹی کے ساتھ سٹور سے باہر ہی اس کی گاڑی میں بیٹھی تھی ۔ بیٹی نے اس کے لیئے اسی کے پرس میں سے 50 یورو کا نوٹ نکال کر کچھ 10 یورو کی چیزیں خریدیں اور بقایا اپنے پرس میں رکھ لیا ۔ نگار کو اس کے گھر چھوڑا ۔
آج گھر واپسی پر جانے عجیب سی بیچینی اس کے حواس پر سوار تھی  ۔ اس نے ماں کے پیسے رکھ لیئے تھے ۔ گھر میں کھانے کو بھی کچھ نہیں بنا تھا ۔ اور آدمی ہوش میں ہو یا بدحواس کمبخت بھوک تو کبھی نہیں رکتی۔ یہ تو آدمی کو نچا کر ہی دم لیتی ہے ۔ ماما کے پرس میں ایک ہی تو نوٹ تھا جو میں نے نکال لیا تھا ۔ آج انہیں ڈاکٹر کے پاس بھی جانا تھا ۔ پتہ نہیں وہ کچھ کھا کر بھی گئی ہو گی یا نہیں ۔ 
اسکی غیر موجودگی میں اکثر نگار کی پڑوسن ہی اسے کسی بھی اپائنٹمنٹ پر لیجاتی تھی۔
 ماما دو نہ ۔۔ اپنے دو سال کے بیٹے کے منہ سے آواز سن کے وہ چونکی چمچ لیئے وہ اسے کھانا کھلانے بیٹھی تھی ۔ اسے بھی ماں ایسے ہی کھلایا کرتی تھیں ۔ کیسے کیسے تنہا کر دیا  تھا میں نے انہیں ۔ یہ سوچتے ہی اس کہ آنکھیں بھیگ گئیں ۔ 
جیسے تیسے اپنے بیٹے کو کھانا کھلاتے ہی اس نے گاڑی نکالی۔ پڑوسن کو فون کیا تو اس نے بتایا نگار تو آج شاید اکیلے ہی چلی گئی تھی میں نے کافی دیر دروازے کی گھنٹی بجائی لیکن کوئی جواب نہیں آیا تو میں واپس چلی آئی ۔ سوچا شاید وہ تمہارے ساتھ چلی گئی ہو گی ۔ لیکن اب تمہارے فون نے مجھے بھی پریشان کر دیا ہے  ۔ یہ سنتے ہی اس کے اوسان خطا ہو گئے۔ اس نے گلی گلی گاڑی دوڑانا شروع کر دی جہاں جہاں ہو سکتا تھا وہ ہر بس اسٹاپ پر سڑک پر راہگیروں میں اپنی ماں کو تلاش کرنے لگی ۔ ٹریفک سگنل پر رکے ہوئے اس کی نگاہ بھیڑ پر گئی جہاں اسے  نگار ایک قطار میں کھڑی دکھ گئی۔ 
اس نے گاڑی بڑی مشکل سے دور ملی جگہ پر پارک کی اور ماں کو جہاں دیکھا تھا وہاں دوڑ لگا دی ۔ 
اس نے دیکھا کہ ماں ویلفیئر والوں کی جانب سے لگائے ہوئے کھانے کے سٹال کے آگے لائن میں کھڑی تھیں جس میں غریب لاچار  لوگوں کے لیئے کھانا تقسیم کیا جاتا تھا ۔ اس نے آگے جانے کی کوشش کی تو انتظامیہ نے اسے روک دیا ۔ ماں کو یہاں دیکھ کر وہ دکھ اور شرمندگی سے گڑھی جا رہی تھی ۔ اس نے ماں کو آواز دینا چاہی لیکن یہاں شور مچانے سے اسے انتظامیہ نے منع کر دیا گیا ۔ وہ فورا انچارچ کے کمرے کی جانب بھاگی کہ وہاں اسکی ماں ہے اسے باہر لایا جائے ۔
انچارچ ایک مہربان خاتون تھی اس نے اس سے اس کی تعلیم عہدہ اور آمدن کا پوچھا تو اس کے حلیئے پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے بولی اگر آپ کو اپنی والدہ کی آپ کی لیئے قربابیاں اور محبتیں یاد ہوتیں تو آج وہ اس قطار میں کھڑی دکھائی نہ دیتیں ۔ آپ انہیں لے جائیے لیکن اگر آپ ان کا خیال نہیں رکھ سکتیں تو ہمیں بتائیے گا ہم ان کا خیال بھی رکھ سکتے ہیں اور ان کی حفاظت بھی  کر سکتے ہیں ۔ لیکن بس آپ کو اپنی جنت کی دعویداری سے دستبردار ہونا پڑیگا ۔ 
ایک چوٹ کی تال اس کے دل پر پڑی اس کی گونج نے اس کے دماغ کو جھنجھنا کر رکھ لیا۔ 
اس نے انچارج کا شکریہ ادا کیا اور اس کے اجازت نامے کے ساتھ کھانے کے بڑے ہال میں داخل ہوئی ۔ بھرے ہوئے پانچ سو لوگوں  کے ہال میں ماں کو ڈھونڈنے میں وقت لگا کھانا کھاتے ہوئے لوگوں میں  دور سے  اسے نگار دکھائی دے گئی ۔ وہ بھاگم بھاگ ماں کے قریب گئی۔ اس کا پہلا نوالا ابھی اسکے منہ کے قریب تھا کہ اس نے ماں کا ہاتھ پکڑ لیا۔ سور کے شوربے میں پڑا ہوا سبزی کا سالن اس  کے منہ میں جانے سے روک دیا ۔ نگار نے اسے اجنبی نظروں سے دیکھا اور  اس نے اپنی ماں کو کہا ماں یہ حرام ہے ۔ نگار کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا بس اتنا بولی بھوک لگی ہے ۔ پیسے نہیں ہیں ۔ 
اس نے اپنی ماں کے سر کو اپنے سینے سے لگا لیا ۔ آنسووں کا سیلاب بند توڑ کر نکل پڑا ۔ 
میری ماں کو میں سب کچھ خود لا کر دونگی ۔ چلیں میرے ساتھ ۔ 
دور سے اس پر نگاہ رکھے ہوئے ادارے کی انچارج نے اپنے چشمے کے نیچے سے بہتے ہوئے بے خبر آنسو اپنی انگلیوں کے پوروں سے پونچے اور مسکرا دی ۔ آج ایک جنت کما لی گئی  یا بچا لی گئی۔ 
                 ۔۔۔۔۔۔۔

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/