ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک
افسانے۔ سچی کہانیاں۔ قطرہ قطرہ زندگی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
افسانے۔ سچی کہانیاں۔ قطرہ قطرہ زندگی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ہفتہ، 6 جولائی، 2024

& جبری ہیر کا جھوٹا رانجھا۔ افسانہ۔ سچی کہانیاں ۔ قطرہ قطرہ زندگی


جبری ہیر کا جھوٹا رانجھا



وہ جب بھی ملتی جس سے بھی ملتی اپنے داماد کی تعریفوں کے پل باندھ دیتی۔
 جب سے وہ اپنے بھتیجے کو اپنا داماد بنا رہی تھیں ہر ایک آئے گئے کے اگے اس کی ایسی ایسی صفتیں بیان کرتی کہ سننے والا دنگ رہ جاتا ۔
 وہ  اتنا اچھا ہے،  وہ اتنا حسین ہے، وہ اتنا خوبصورت ہے،  وہ اتنا فرمانبردار ہے ، مجھ پر تو جان چھڑکتا ہے ۔ چاچی چاچی کہتے اس کا منہ نہیں سوکھتا ۔ میرے آگے پیچھے بچھا جاتا ہے۔ بھئی میں تو بڑی خوش نصیب ہوں بلکہ میری بیٹی بہت خوش نصیب ہے ۔
وہ اپنی بیٹی کو شادی کے لیئے پاکستان لے جا رہی تھی اور اپنی سہیلیوں میں اس شادی کی خوب دھوم مچا رکھی تھی۔
 ان کی بیٹی پڑھنا چاہ رہی تھی، لیکن انہوں نے اسے اس سے پہلے کہ ضد کرتی اور 18 سے اوپر ہو کر اپنی مرضی سے اپنی ضد کو منوا سکتی،  اس سے پہلے پہلے پاکستان لے جا کر شادی کی بیڑیوں میں باندھنا ضروری سمجھا۔
 ورنہ یورپ میں لڑکی خراب ہو جائے گی۔
 اس سوچ نے انہیں اپنی بیٹی کی پڑھائی کے لیے مزید سوچنے دیا ، نہ اس کے مستقبل کی فکر کی ۔ 
بس یہاں جو تھا خراب ہو جائے گا۔
 انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ وہ خود خراب نہیں ہوئی تو ان کی بیٹی خراب کیوں ہو جائے گی ۔
لیکن ان کا خیال تھا کہ بس کسی کی شادی کر دو اور کسی کو اس کا چوکیدار بنا دو تو ان کی بیٹی خراب نہیں ہوگی ۔
اور جو لڑکیاں شادی نہیں کرتیں وہ سب خراب ہو جاتی ہیں ۔ یہ وہ دیہی سوچ تھی جو وہ اپنے ساتھ پاکستان سے لے کر آئی تھی۔
 یورپ آتے ہوئے جو زمانہ اور جو وقت ان کے دماغ میں پھنس چکا تھا وہ آج تک اسی وقت میں قید انہی لوگوں میں شامل تھی۔ جو پتھر بن چکے تھے۔ پیچھے مڑ کر ایک ہی بار دیکھنے پر۔
 ان کی سہیلیاں بھی انہی کی ذہنیت کی تھیں ۔
 ہر کسی نے ان کو شاباش دی کہ وہ بڑا نیک کام کرنے جا رہی تھی۔
 یورپ میں ان دنوں یہ پہلی نسل تھی ۔ جو 18 سال کی عمر تک پہنچ رہی تھی ۔ اس سے پہلے ابھی لوگوں نے اپنی فیملیاں یہاں لا کر آباد نہیں کی تھیں۔
 اس لیئے پہلی نسل اور خاص کر پہلے بچے کے لیئے لوگ بہت ڈرے ہوئے تھے
 اور اگر وہ لڑکی ہوتی تو ہر بات اسی ڈر سے کہ یہاں کے قوانین اسے آزاد کر دیں گے۔  اسے آوارہ کر دیں گے۔ وہ ان کے ہاتھ سے نکل جائے گی اسی خوف کے تحت اکثر والدین نے اپنی بیٹیوں کی تعلیم سے زیادہ ان کی شادیاں اور نکاح جبرا کیئے اور انہیں ایسے لڑکوں کے ساتھ باندھ دیا جو نا ذہنی طور پر ان کے مطابقت رکھتے تھے،  نہ ہی وہ اخلاقی طور پر ان کے معیار کے تھے۔  نہ ہی ان کا کوئی تعلیمی بیک گراؤنڈ تھا ۔
لیکن اگر کسی کی دکان تھی تو اسے دکان پر لا کر بٹھا لے گا۔
 کسی کا ہوٹل تھا تو وہ ہوٹل میں بٹھا لے گا ۔
اسی سوچ کے تحت انہوں نے داماد پاکستان سے لانے کا پروگرام بنایا پاکستان میں جب خاندان کا ہر لڑکا اس انتظار میں ہو کہ چاچا ماما تایا وہاں سے آئے گا اور اپنی بیٹی ان کی گود میں پھینک کر ان کے ماتھے پر نیشنلٹی کی سٹیمپ لگائے گا اور وہ باہر جا کر عیش کرے گا ۔
میموں کے ساتھ گھومے گا ، انہیں بغل میں لے کر۔
 یہ ایک ایسا خواب ہے جو ہر دیسی لڑکا اور خصوصا نکما لڑکا دن رات بن رہا ہوتا ہے ۔
 ان کے ذہن میں ایک ہی بات ان کے گھر والوں نے اور ان کی ماؤں نے ڈال رکھی ہوتی ہے کہ یہ چاچے مامے تائے کی یورپ بیٹھی لڑکیاں،  تو ان کو پوچھتا ہی کوئی نہیں ہے۔
 یہ تو آوارہ ہوتی ہیں ان کی تو مجبوری ہے ۔ تم جیسے شہزادے یہاں سے لے کر جائیں گی۔  انہیں وہاں کون گھاس ڈالتا ہے۔
 اور بس اسی بات پر وہ پھولے پھولے اور پھیلے پھیلے گھومتے ہیں۔
 نہ انہیں پڑھائی سے غرض نہ ان کے ہاتھوں میں کوئی ہنر ، نہ انہیں بات کرنے کی تمیز،  نہ انہیں کسی کلچر کی تہذیب ، 
سمجھو جانور لا کر یہاں یورپ میں ا  آباد کرنے کے لیے یہاں کے لوگ اپنی بیٹیوں کو نیشنلٹی کارڈ بنا کر استعمال کرتے ہیں ۔
سکینہ بیگم نے دھوم دھام سے ایک سے ایک قیمتی چیز اپنے بھتیجے کے لیے اکٹھی کی۔
 ایسا لگتا تھا وہ بیٹی کی ماں نہیں ہے ۔ وہ اس بھتیجے کی ماں ہے۔
 ان کا بس چلتا تو اپنی ہر چیز اس کے نام لکھ دیتی ۔
 اور اس لڑکی کو اس کا نوکر بنا دیتی۔
 روتی پیٹتی بیٹی  انہیں اس بات پر مجبور کرتی رہی ۔
 اماں چلیں اسی سے میری شادی کر دینا لیکن ابھی مجھے کچھ عرصے پڑھ لینے دو۔ کچھ بن جانے دو ۔
لیکن سکینہ نے اسے دھتکار دیا۔
 منہ توڑ دوں گی اگر دوبارہ ایسی بات کی تو۔
 اتنا اچھا لڑکا تمہارے انتظار میں بیٹھا رہے گا کیا ۔
اور یوں پاکستان جا کر جہاں ہزار لگتے تھے وہاں لاکھوں اور جہاں لاکھ لگتے تھے وہاں کئی لاکھ لگا کر انہوں نے دھوم دھام سے اپنے بھتیجے کے سارے شوق پورے کرتے ہوئے اپنی بیٹی کو زبردستی اس کے نکاح میں دے دیا۔
 واپس آنے کے بعد انہوں نے اس لڑکے کے پیپر بنانے کے لیئے پیسہ پانی کی طرح بہایا۔
لڑکی کو نوکری کروائی۔
 تاکہ اس کے اپنے شوہر کو بلانے کے لیئے کیس کو تیار کیا جا سکے۔
  یوں وہ لڑکا یہاں آیا۔
اس کے لیئے الگ سے گھر لے کے دیا۔
 بیٹی کے الگ گھر میں منتقل ہونے کے بعد بھی وہ اپنی زندگی کی جس روٹین میں شروع ہو چکے تھے۔
 جہاں بھی وہ دونوں میاں بیوی آتے جاتے ملتے بے حد خوش اور مثالی جوڑے کا آئینہ دکھاتے۔
 لوگ ان کی تعریف کرتے ۔
 واہ واہ کیا جوڑی ہے۔
 واہ واہ کتنی محبت ہے ہیر رانجھا کو شرما دینے والی محبت۔
 اس لڑکے نے ساری دنیا کے سامنے تصویر پیش کر دی۔ 
لوگوں کے سامنے وہ لڑکا ایک فرشتے کی طرح تھا۔
 وہ کتنا خوبصورت ہے، کتنی تمیز والا ہے، کتنی محبت کرتا ہے اپنی بیوی سے۔
  سکینہ بی بی اپنے بھتیجے کے گن گانے میں کسی سے پیچھے نہیں تھی۔
 آئے روز وہ انکی بیٹی کو  اپنے میکے بھیجتا۔
 خود چھوڑ کر جاتا ۔
خود لے کر جاتا ۔
 کسی نے پوچھا کہ ہر روز وہ تمہارے گھر آتی ہے۔ تمہارا داماد ہر روز اسے لے کر آتا ہے۔کوئی خاص بات؟
 اسے اپنے گھر میں زیادہ وقت گزارنے کا موقع نہیں ملتا ۔۔
تو اس نے کہا ارے نہیں محبت کرتا ہے مجھ سے بہت زیادہ ۔
اس لیئے میری بیٹی کو ملانے کے لیئے روزانہ لے آتا ہے ۔
لیکن آج کیا ہوا۔۔۔
ایک خبر بجلی بن کر گری لوگوں پر۔
 ٹیلی فون کی گھنٹیاں بجنی شروع ہوئی۔
 ہر گھر میں یہ خبر پہنچی۔۔۔
 سکینہ بی بی کے داماد نے  اپنی دو سال کی بچی اور اپنی بیوی کو قتل کر دیا ۔
جس نے سنا اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا ۔
کیا کہہ رہے ہو؟
 یہ کیسے ہو سکتا ہے؟
 اس نے اسے کیوں قتل کر دیا؟
 وہ تو ہیر رانجھے جیسی جوڑی تھی۔ وہ تو رانجھا بنا اس کے پیچھے گھومتا تھا ۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔
جتنے منہ اتنی باتیں۔۔۔
 لوگوں نے ان کے گھر پہنچنا شروع کیا اور حیرت کی بات ہے۔
 اپنی بیٹی کے لیے رونے کے بجائے سکینہ اب بھی اپنے بھتیجے کے لیئے زیادہ رو رہی تھی اور ہر ایک سے کہتی تھی۔
 ارے نہیں نہیں میرا داماد ایسا نہیں کر سکتا ۔ میرا داماد ایسے کیسے کر سکتا ہے ۔
وہ تو بہت اچھا ہے ۔وہ تو بہت اچھاہے۔
 میری بیٹی بہت خوش تھی ۔ میری بیٹی تو بہت خوش تھی۔
 تو پھر کیا ہوا ۔ ان چار سالوں کے اندر اس نے ایسا کیا کیا ایک خاتون نے دوسرے پوچھا کہ کیا بات ہے۔ یہ سب کیسے ہوا۔
 اس نے بتایا
 میاں بیوی میں کسی بات پر بحث ہوئی۔
 آئے روز اسے مارا کرتا تھا اور پیسے مانگنے کے لیئے اپنی ماں کے گھر بھیجا کرتا تھا۔ 
اور وہ یہاں آ کر روتی پیٹتی تو ماں اسی کو دھتکار دیتی۔
 کہ جھوٹ مت بول۔ میرا داماد بہت اچھا ہے۔ 
 یوں اسے مسکرانے پر مجبور ہونا پڑتا ۔
آئے دن یہاں سے ہزاروں یورو لے جا کر وہ میاں کو بھرا کرتی اور وہ ویلا نکما جو پاکستان میں کبھی تنکا توڑ کر نہیں دے سکا اس نے کام دکھایا۔
 وہ یہاں کیا کام کرتا ۔ 
وہ اسی پیسے پر عیش کر رہا تھا۔ کچھ سرکاری امداد کے اوپر اور کچھ ساس سسر کے مال کے اوپر عیش کرنے کی ایسی عادت پڑی تھی کہ وہ کام کرنے کو تیار نہیں تھا۔
 اسی عیش پرستی میں اس نے بیوی کو پھر سے مجبور کیا کہ گھر جا کر کچھ پیسے لے کر آ ۔
وہ شرماتی تھی۔ اپنی ماں سے بار بار مانگتے ہوئے۔
 اس نے جب جانے سے انکار کیا تو اس نے اس کی چٹیا پکڑ کر ایسے جھٹکا دیا اور اتنی زور سے جھٹکا دیا ۔
 زوردار چانٹا مار کے اسے پھینکا کہ اس کی اس مردانہ قوت کے  جھٹکے کے ساتھ ہی اس کمزور کی گردن سے ایک آواز آئی اور وہ دور جا گری اس کی گردن کا منکا ٹوٹ چکا تھا۔
 اس کا منکا ٹوٹ چکا تھا وہ اپنی طاقت دکھا چکا تھا ۔
لیکن جیسے ہی جھٹکے سے ہوش میں آیا تو یہ کیا۔۔
 یہ اس نے کیا کر دیا اسے اٹھایا دیکھا لیکن وہ موقع پہ مر چکی تھی۔
 اس کی چھوٹی سی تین سال کی بچی جو یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ وہ سہم کر صوفے کے پیچھے چھپ گئی۔
 اس کی ماں کو مارا جانا ،چانٹے مارنا، اس کے بال کھینچنا اور پھر زور دار چانٹے کے ساتھ ایک کڑاکے کی زبردست آواز کے ساتھ ایک زندگی کا خاتمہ۔۔
 لیکن اس سے پہلے کہ کوئی اس بچی کو دیکھتا اس نے سوچا
 یہ لڑکی تو سب کچھ بتا دے گی۔ وہ پکڑا جائے گا ۔
وہ یہ بھول گیا کہ  یہ بچی کسی کو کچھ بتائے نہ بھی بتائے یہ یورپ ہے ۔یہاں وہ بچ نہیں سکتا۔
 یہاں کی پولیس اسے پاتال سے بھی ڈھونڈ نکالے گی۔
 لیکن جاہل اور پینڈو یہ بات اپنے آپ کو سمجھانے کے بجائے اسے مارنے کو لپکا۔۔
اس نے بچی کو بھی بے رحمی سے دبوچا اور اس معصوم بچی کا بھی گلا گھونٹ دیا ۔
لیکن آپ کو یہ سب کیسے معلوم ہوا؟
 اس نے اتنی تفصیل سے کہانی سننے کے بعد پڑوسن سے پوچھا۔
 پڑوسن بولی
 وہی معلوم کیسے نہیں ہوتا ۔اس واقعے کو دو دن ہو چکے ہیں اور پولیس نے دو دن کے اندر اندر نہ صرف قاتل کو ڈھونڈ نکالا بلکہ یہ سب اس کے منہ کا اپنا بیان ہے۔
 لڑکی کی لاش ابھی سرد خانے میں ہے۔
 پولیس نے خاموشی رکھی تاکہ یہ جہاں جہاں بھٹکنا چاہتا ہے اسے آرام سے فالو کیا جا سکے اور پولیس نے کامیابی سے اسے آ دبوچا۔
اگلے کئی سال اس مفت خورے کو  یہاں کی جیل نے پھر مفت کی خوب کھلائی۔
                       ۔۔۔۔۔۔۔

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/