ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک
MUMTAZ QLAM ممتاز قلم لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
MUMTAZ QLAM ممتاز قلم لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

منگل، 27 مئی، 2025

روداد میلہ یوم پاکستان۔ رپورٹ





ایک میلہ سو ٹھیکیدار

ایک خاتون تو گھر بیٹھے اپنے مردانہ واقفان کے ذریعے ہی نہ صرف میلے کی ہیروئن بننے میں ایڑھی  چوٹی کا زور لگا چکی ہیں .بلکہ دو تین خوشامدی خیالی قصیدے میلے سے پہلے ہی اسکی کامیابی پر اور ہمارے نئے سفیر محترم معین الحق صاحب کی شان میں لگا چکی ہیں . چور دروازے سے جا جا کر پھول کیک اور قصیدوں کی  پٹی ان کی آنکھوں پر باندھتی رہی . تاکہ ہم اپنے ان کاموں کے قصیدوں کا زور ان کے کانوں میں پھونکتی رہی جس کا ایک ورک بھی کتابی شکل میں  کسی نے کبھی نہیں  دیکھا  جس کی وجہہ شہرت  ہی لوگوں سے رقوم اور فائدے لیکر ان کے قصیدے لکھنا ہے . معصوم خواتین کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر کے دو نمبر عزت کمانا ہے .جبھی تو ان کی  عظیم تحریریں پچھتر فیصد قصیدوں پر ہی مبنی ہیں. دوسروں کو اس حد تک اپنی چکنی چپڑی باتوں سے برین واش کر کے مجبور کر دینا کہ وہ ان کے کہنے پر ہی . .دن کورات اور رات کو دن کہنے پر مجبور ہو جائے ....
بھئی اب اتنا مکھن ہو گا تو کون کافر نہیں پھسلے گا .
یہ وہی بدنام زمانہ  آڈیو  سکینڈل میں ملوث باجی ہیں جو ہر بار نئی اور معصوم خواتین کو پھانس کر ان کے ساتھ کسی تنظیم یا گروپ کا فیتہ کاٹتی  ہیں. اس ڈرامے خے لیئے بھی لازمی یہ ہے کہ صدر وہ خود ہونی چاہئیں اور ان نئی ناتجربہ کار معصوم خواتین سے اپنے لیئے قصیدے لکھوا کر ان کو ایسا روپ دکھاتی ہیں کہ وہ انہیں کک آوٹ کر کے چلتی بنتی ہیں یا یہ  دو ماہ میں  انہیں دودہ سے بال کی طرح نکال باہر کرتی ہیں کسی سوال کے پوچھنے یا حساب  کتاب کرنے کے جرم میں .
قصیدے کے بدلے ہماری ایمبیسی ان خاتون  کو سرکاری خزانے سے کس خدمت کے عوض دو ہزار یا پانچ ہزار یورو کی گرانٹ عنایت کرتی ہے . آج تک ہمیں  نہ اس کا جواب ملا نہ سمجھ  آسکی .
وہ کون سا کام ہے جو فرانس کی ایک لاکھ سے زیادہ کی پاکستانی کمیونٹی کو نظر نہیں آیا لیکن ہماری ایمبیسی کے کچھ خاص افراد کو نظر ا جاتا ہے . وہ سب جادو گر سلمان سرمہ دار آنکھوں والے سفارتخانہ اہلکار کون ہیں جو اس عورت سے کس قسم کے تعلقات رکھتے ہیں . جسے ان کے نامعلوم کاموں پر حصہ لیئے بنا ہی کبھی اسناد اور کبھی اعزازات سے گھر بیٹھے ہوئے  نوازا جاتاہے .  ہمیں آمدید ہے کہ پاکستانی سفارتخانہ ان تمام کالی بھیڑیں کو بے نقاب کریگا اور اور ہمارے سوالوم کا کھلے دل سے جواب دیگا . یا پھر ان چور راستوں کو اعلانیہ کنفرم کر دیگا کہ ہم سبھی پاکستانیوں  کو وہی سارے اعمال کرنے ہونگے جو یہ خاتون کرتی ہے  ہم سب وضاحت کے منتظر ہیں .
..
فائنل ریہرسل کے  لیئے جب سب حصہ لینے والو کو پاکستان ایمبیسی بلایا گیا . تو وہان ناچتے گاتے والے سبھی بچوں کو خوب تالیاں بجا کر داد دی گئی . محترم قمر بشیر صاحب شاید موبائل کے استعمال کے زیادہ ہی دلدادہ ہیں وہ مسلسل موبائل پر مصروف رہے .  ان  کو.مہمانوں کی آمد یا رخصتی  سے کوئی  دلچسپی نظر نہیں آئی . جبکہ بظاہر ہماری رائے ان خک بارے میں بہت اچھی ہے . 
بڑے شوق سے گانے والوں ناچنے والوں کی ویڈیوز بھی بناتے رہے . تلاوت کلام پاک کی تیاری کی کسی کو.مکوئ ضرورت محسوس نہیں ہوئی . اور میری نعت پروگرام کی محنتی آرگنائزر روحی بانو صاحبہ نے شامل کی تھی . اس کا عالم یہ تھا  . کہ جیسے ہی میں نے نعت پاک کے لیئے مائیک لیا  تمام موجود خواتین و حضرات یوں  منہ موڑ کر تتر بتر ہو گئے . جیسے اعوذ کے پڑھنے پر شیطان بھاگ جاتے ہیں ھھھھھھھ جی ہاں مذاق کے علاوہ سچ مچ یہ ہی دیکھا میں نے .
تلاوت کلام پاک ہوئی ہی نہیں . شاہدہ امجد صاحبہ کی پر زور درخواست پر انہیں حمد کے لیئے تمام لسٹ مکمل ہونے کے بعد خوب سفارشوں پر  شامل  کیا گیا.   جسے موصوفہ نے اپنے پوسٹر بنوانے میں ایمبیسی کی پرزور فرمائش لکھوا کر نہ صرف ایمبیسی پر جھوٹ باندھا بلکہ نعت اورحمد جیسی مقدس  اصناف کی بھی توہین کی . محض ذاتی نام و  مود کے لیئے آج کل فیشن بن چکا ہے کہ اکضر خواتین نہ تو نعت سیکھتی ہیں نہ اردو تلفظ کی پرواہ کرتی ہیں بس انے وائی جہاں دل کیا . موقع نظر آیا . کوئی واقف اور سفارش کرنے والا نکرا نظر آیا تو فورا پرچیاں لکھیں ،موبائل پر میسیج  ہوئے اشارے بازیاں ہوئیں اور منت ترلا خر کے مائیک حاصل کیا گیا . وہیں سے موبائل ہر تصویں اپ لوڈ ہوئیں اور رات کی رات میںنان پاکستان میں بیٹھے نیٹ ماسٹرز سے (جنہیں ہر مہینے منتقلی بھجوائی جاتی ہے ) کے ذریعے من چاہی فرمائشی خبر بنوا کر لگا دی جاتی ہے .واہ واہ.واہ کتنا آسان.ہے نا مشہور ہونا آج پیسے لگا کر ...ایک وہ بیوقوف لوگ جو تیس تیس سال سے حمد و نعت پڑھتے ہیں لیکن پھر بھی  پچاس بار ریہرسل کرتے ہیں انہیں تو پتہ ہی نہیں کہ بھائی مشہوری کیسے کروائی جاتی ہے .
جبکہ نعت رسول مقبول کی سعادت مجھے (ممتازملک ) کو حاصل ہوئی .  خدا کے لیئے رپورٹ تو ایمانداری سے سچی دیا کیجیئے
ایک ہفتے سے پروگرام کے بارے میں ایسی ہی من گھڑت اور جھوٹی خبریں یہ سوچ کر پڑھ رہی ہوں کہ شاید کسی کو خود ہی شرم آ جائے . اور خود ستائشی کا ڈرامہ ختم کر دے .
اللہ ہی معاف کرے ہمیں
سنگر آریش ارمان جنہوں نے پاکستان فیسٹیول فرانس میں فری میں پرفارمنس کی تاکہ پاکستان کا نام روشن ہو۔ لیکن اسے عزت کیا شاباش تک نہ دی گئی . نہ ایکبار باہر جا کر آنے پر بیٹھنے کی جگہ دی گئی .
امیش احمد ایک چمکتا ہوا نوجوان ستارہ جسے پندرہ لوگوں کے سامنے گوایا  گیا . اور کسی بھی باصلاحیت فنکار کی توہین ہے یہ.
پاکستانی سفارت خانہ پیرس کی سر پرستی میں بزنس مین کمیونٹی کے مالی تعاون سے یہ پروگرام آرگنائزر کیا گیا . جس کی مین آرگنائزر تھین محترمہ روحی بانو صاحبہ. جس کا نام کسی بھی اعلی ظرف شخصیت نے ابھی تک پھوٹے منہ بھی  نہیں لیا . یہ فیملیز صرف اور صرف روحی بانو  صاحبہ اور ہم سب خواتین کی دعوت پر
گھر سے باہر نکلی تھیں مرد ٹھیکیداروں  کے کہنے پر تو انکے گھر کا کوئی ایک  فرد  تک میلے میں نہ پہنچا . پھر بھی ہر ایک اپنے سر سہرا باندھ رہا ہے . ہم حصہ لینے والوں کے لیئے کوئی کرسی تک بیٹھنے نہ رکھی گئی . ایک بار اٹھ  کر ہال سے باہر گئے تو جگہ ختم
خواتین کے لیئے بیٹھنے کا کوئی مناسب انتظام نہیں تھا. یہ خرابی بیٹھنے کا انتظام کرنے والوں کی تھی. ہاف ٹو ہاف ہال کرسیاں  لگا کر بیچ میں ریڈ کارپٹ ڈال کر ہال کو ڈیوائڈ کیا جاتا.  تو واپس جانے والے لوگ بھی پروگرام انجوائے کرتے .  
مرد حضرات جو آرگنائزر ہونے کا.دعوی کرتے رہے ان کے ذریعے سب سے پہلے سٹال.بک کروانے والے گھنٹو خوار ہوئے . اور توزھی بانو صاحبہ کی مداخلت سے انہیں سٹال مل پائے جبکہ اس کی ایڈوانس ادائیگی بھی کی جا چکی تھی . پھر ہاں کے اندر پروگرام کروانا پڑا تو وہاں ہال کے  اپنی موڈ دو ڈھائی سو کرسیوں کے سوا کوئی فاضل خرسیاں موجود نہیں تھیں جن کا کئی صاحبان نے بندوبست کرنے کا دعوی کیا تھا . نتیجہ ہاوس فل ہال میں مردوں گھنٹوں کھڑے رہنے یا واپس جانے پر مجبور ہوئے . پھر اس سے بڑا بلنڈر اس وقت ہوا جس وقت  عزت ماآب سفیر پاکستان پارک میں   تشریف  لائے تو ان کے رفقاء نے میں آرگنائزر کے ساتھ کوئی کوآرڈیشن نہیں دکھائی . بلکہ ایک.سیاسی پارٹی کے ٹولے نے سمجھو اس پروگرام کو سیاسی پارٹی کا پروگرام ثابت خرنے کے لیئے انہیں.اپنے حصار موجود م کے لیا . اور محترم سفیر گویا ان کے ذاتی مہمان تھی میلے  میں.انکی پاکستانی  حیثیت کو.ایک طرف رکھ دیا گیا . بیگم صاحبہ بھی تشریف لائیں تو ان کیساتھ میں ایک مخصوص گروپ نے یہ ہی کام کیا . آرگنائزر نے انہیں جو احترام سے خوش آمدید کہنا تھا اس پر خوب پانی پھیر دیا گیا . اس میں ایمبیسی کے عملے کی اپنی کوتاہیاں بھی خوب دکھائی دیں . 
میلے میں کھانے پینے کے جو میز کرسیاں لگائی گئیں تھیں . ان کے لگوانے والے کی عقل میم یہ بات کہیں نہیں آئی کہ جو کچھ یہاں کھایا جائیگا اس کا کچرا پھینکنے کے لیئے بھی خاطر خواہ انتظام ڈسٹ بن کی صورت جگہ جگہ ہونا چاہیئے. لیکن ہزاروں.لوگوں کی آمد کے میلے میں کوئی ڈوٹ بن.موجود نہیں تھا . بلکہ پروگرام کے آخر میں.ایک صاحب خود ہی ہاتھ میں  کچرے کی تھیلیام.اٹھائے کچرا چنتے دکھائی دیئے 😦
سفیر پاکستان کے آنے کے بعد پروگرام کا باقاعدہ آغاز کیا جانا چاہیئے تھا . جو ہال کے بھرنے سے مشروط ہوتا .
ممتازملک

ہفتہ، 3 دسمبر، 2016

ہمارے بچے ہمارا امتحان/ کالم




کہتے ہیں کہ جب بھی کوئی بچہ اس دنیا میں آنکھ کھولتا ہے تو یہ امید بھی ساتھ لاتا ہے کہ خدا ابھی انسان سے ناامید نہیں ہوا ہے . تو گویا ایک انسان کی پیدائش رب کی امید لیکر آتی ہے اور یہ امید یقینا خیر کے کام کی ہی ہو سکتی ہے،  بے خیری کی تو ہو  نہیں سکتی . کیونکہ یہ امید تخلیق کار   کی اپنی تخلیق سے ہے . 
ہم بار بار اللہ کے بعد اسے دنیا میں  لانے والے کے حقوق تو زورشور سے بتایا ہی کرتے ہیں. لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ آنے والا کوئی چھ فٹ کا کماتا  ہوا طاقتور جوان نہیں ہے بلکہ گوشت پوست کا ایک تین کلو کا معصوم سا وجود ہے جو اپنی ہر ضرورت کے لیئے آپ کی مدد کا محتاج ہے . تو اس کی مدد کیسے کی جائے ؟

اس بچے کو دنیا میں لانے سے پہلے خود کو ذہنی جسمانی اور مالی طور پر اس کی تعلیم و تربیت اور پرورش کے لیئے تیار کیا جائے  اور بچے کو اندھیرے کا تیر سمجھ کر نہ چلایا جائے بلکہ اس کو اس معاشرے کا، بلکہ دنیا کا ایک بہترین فرد بنانے کے لیئے ہر ممکنہ سہولت دی جائے . محبت اور اعتماد کی کھاد اس کی جڑوں میں ڈالی جائے . انصاف کی فضا اپنے گھر سے میسر کی جائے .
جہاں اس کا حق اس کے مانگے بنا ملے گا اور کوئی بہن بھائی یا ماما  چاچا اس کی زندگی کا دخیل نہیں ہو گا تو بچہ بھی کل کو آپ کو ہی نہیں  ساری دنیا کو اس کے حقوق بنا مانگے دینے کا اہل ہو گا .
ہمارے ہاں ہمیشہ بچوں کو یہ سکھانے پڑھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ماں کے یہ حقوق ہیں، باپ کے یہ حقوق ہیں ، بہن بھائیوںکے یہ حقوق ہیں، 
تمہارے انکی طرف یہ فرائض ہیں،وہ فرائض ہیں ..
یہ نہ کیا تو جہنم میں جاو گے....
وہ نہ کیا تو برباد ہو جاو گے..
اور باپ کے حقوق تو مائیں ویسے  بھی بیان کرنا ضروری نہیں سمجھتیں ہیں . حالانکہ ماں اگر جنت ہے  تو اس جنت کا دروازہ تو ہوتا ہی دراصل اس کا باپ ہے . اور ہماری مائیں اپنے بچوں کو بغیر دروازے کی جانے کون سی جنت میں داخل کرنے کا منصوبہ بناتی رہتی ہیں . جس کے لیئے باپ کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے . اور تو اور ایسے میں کبھی کسی نے یہ کیوں نہیں بتایا کہ اس بچے کے اس کے پیدا کرنے والے پر بھی کچھ حقوق ہیں . جو انہیں بھی جہنم میں لے جا سکتے ہیں .  آخرت میں اللہ کے سامنے جوابدہ کرتے ہیں. جبکہ عورتوں اور بچوں کے حقوق اور حفاظت کی بارہا تلقین فرمائی  گئی ہے . 
ہمارے ہاں بدقسمتی سے قرآن پاک کو تعلیمی اور تربیتی نقطہ نظر سے نہ کبھی دیکھا گیا ہے نہ ہی اس سے استفادہ حاصل کیا گیا ہے . 
اسے صرف ڈرانے اور کم علموں کو دبا کر ان سے فوائد حاصل کرنے کے لیئے ہی استعمال کیا گیا ہے . ورنہ ہماری زندگی کا ایک ایک پل اس کی روشنی میں منور ہو سکتا ہے .
ہمارے ہاں عورت اور بچے جس قدر غیر محفوظ ہیں وہ ایک خوفناک صورتحال ہے . کسی بھی خاتون کو رات کیا دن میں کہیں اکیلا (لاکھ پردے میں ہی) کھڑا کر کے دیکھ لیں ....
کسی بچے کو کھڑا کر کے دیکھ لیں ...کیسے گوشت کی بو سونگھتے کتے کی طرح ان کے شکاری پہنچتے ہیں ...
بچے پیدا کرو، یہ تو  ہمیں معلوم ہے لیکن کتنے  پیداکرو ،کہ پال سکو،  یہ کہہ دے کوئی تو سمجھیئے، اپنا ہی سر منڈوانے والی بات ہے . تربیت تو بہت دور کی بات ہے . ہمارے ہاں بچہ ہماری ذمہ داری نہیں، ہماری جاگیر ہوتا ہے ..سو اسے جاگیر کی طرح ہی برتا بانٹا اور کاٹا جاتا ہے .
اللہ پاک ہمیں بچے کو دنیا میں لانے سے پہلے اس کی پرورش اور تعلیم و تربیت کا شعور عطا فرمائے.
یاد رکھیئے ماں باپ کا حق بعد میں شروع ہوتا ہے اس سے پہلے ہم پر بچے کا حق لاگو ہوتا ہے .
جس میں یہ شامل ہے کہ ہم اسے محبت اور حفاظت کیساتھ اچھا طرز ذندگی اور تعلیم و تربیت دے سکیں .
اور اسے یہ بتا سکیں کہ کب ،کہاں کس ، سے ،کس طرح بات کرنی ہے اور کس سے کیسے اور کتنا تعلق رکھنا ہے . اس کی خوشیوں کو اپنی خوشی کی طرح محسوس کیا جائے اور  اسکی  پریشانیوں کو محبت سے  اپنے تجربات کی روشنی میں مشاورت سے حل کیا جائے. 
  ورنہ روز قیامت ہمارے گریبان کو ہمارے بچوں  کے معصوم ہاتھوں سے کوئی  نہیں بچا سکتا .
        ممتازملک. پیرس

منگل، 1 اکتوبر، 2013

مذمت سے مرمت تک۔ کالم



   مذمت سے مرمت تک
تحریر:(ممتازملک ۔پیرس)

ایک اور دھماکہ ایک اور مذمت ۔ آج تیرھواں سال پاکستانی قوم کو دھماکوں کی سلامی دیتے اختتام کی جانب رواں ہے ۔ پشاور میں ہونے والا بم دھماکاکہ معصوم انسانوں کی لاشیں اٹھاتی جیتے جی مر جانے والوں کے زندہ  لاشے ۔ تڑپ تڑپ کر زمین پر گرتی ماں بہنیں بیویاں بیٹیاں ، غش پہ غش کھاتی پاپا کی پیاری بچیاں ۔ کوئی بات بھی نہ تو نئی ہے نہ ہی پہلے سے کم درد ناک ، جبکہ دوسری جانب وہی  لاشوں کے بدلے چیک امدادی رقوم کا اعلان کرتی حکومت ۔ معصوم  لوگوں کو ٹالتے حکومتی نمائندے ،۔ کیا بدلہ ہے اس ملک میں الیکشن ہونے  پر ۔ الیکشن کروانے کے باوجود کون کس سے کم جوابدہ ہے اور کون کس سے زیادہ ذمہ دار ۔ مذمتی قرار دادوں کی اوٹ میں منہ چھپاتے حکومتی بدمعاش ۔ جن کی ذندگیوں میں عیاشیوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ۔ دنیا بھر میں مسلمانوں نے مذمتوں کی کالک اپنے منہ پر مل مل کر اسلام کی خوب خوب کھلی اڑائی ہے ۔   کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہم ہزاروں مذمتوں کی بجائے ایک ادھ بھرپور مرمت کرتے ان دہشت گردوں اور ان کے چیلوں کی  ۔ جن کا کہیں بھی کسی طور بھی نہ تو اسلام سے کوئی تعلق ہے نہ ہی اسلام  کے بنیادی اراکین اور اصولوں سے بھی واقفیت ۔
جنہیں یہ تک معلوم نہ ہو کہ اسلام عورتوں بچوں بوڑھوں اور  خالی ہاتھ لوگوں پے ہاتھ اٹھانے کی اجازت ہی نہیں دیتا ۔ جنہیں یہ تک معلوم نہ ہو کہ اسلام تو ہرے پیڑ پودے تک کو بلا وجہ کاٹنے کی اجازے نہیں دیتا  ۔ جنہیں یہ تک معلوم نہیں کہ کوئی اپنے گھر کا دروازہ بند کر لے تو اس شخص پر بھی ایک مسلمان ہاتھ نہیں اٹھا سکتا ۔ ایسے ایسے نیم ملا  اور نیم مسلم اور ذہنی مریض اور اشتہاری مجرمان  اپنے اپنے ملکوں میں گندگی کے میدان کھلے چھوڑ کر پاکستان میں لوگوں کو اسلام سکھانے اور جہاد کو بدنام کرنے میں  مصروف ہیں ۔ اور ہمماری حکومتیں اپنے غیر ملکی آقاؤں کے اشاروں پر ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے میں مصروف ہیں ۔ ادھر انڈیا میں کوئی پٹاخہ بھی پھوٹتا ہے تو وہ ڈھنڈھورا پیٹ پیٹ کر'' پاکستان نے مار ڈالا ''کا واویلا مچاتے ہیں جبکہ پاکستان انکے جاسوسوں، قاتلوں کو بھی وی آئی پیز کی طرح دولہا بنا کر انکے حواکے کر دیتا ہے اس پر پاکستانیوں کی خوش فہمیاں کہ ہندو بھائی ہمارے ساتھ بھائی بھائی کھیلیں گے ۔ ہمارے ہاں ہر جگہ دہشت گردوں سے انڈین برانڈ کا یا دوسرے ممالک کے برانڈ کا ہتھیار برامد ہوتا ہے لیکن وہ کون سی غیبی طاقت ہے جو پاکستانی زمّہ داران کے منہ پر ٹیپ چپکا دیتی ہےاور ہندوستان کا نام انکے گلے ہی میں پھنس جاتا ہے ۔  اور انکا اینکر اور ماہرین  علی الاعلان ٹی وی پر چلاتا ہے کہ بھائی باتیں نہ کرو ثبوت دکھاؤ ۔ اگر ہمارے بے لگام میڈیا نے انکے ہتھیاروں کی ڈاکو مینٹریز انکے منہ پر ماری ہوتی تو انکا لہجہ اتنا بلند کبھی نہ ہوتا ۔ لیکن کیوں نہ ہوتا۔ بنیئے کی فطرت ہے ٹکے دھیلے کی خیرات بھی کرےگا تو حساب رکھے گا اور ایک ہم کہ انکے ساتھ صدیوں رہنے کے بعد بھی ہمیں حساب کتاب رکھنا نہ آیا ۔  ہمارے ملک میں انکے ایجنٹنس کو مامے کا پتر سمجھ کر خاطر تواضح کرنے کی بجائے قصاب کی طرح پیٹی میں ڈال کر بھیجا جاتا ۔ تو انکے ہاتھ اتنے لمبے نہ ہوتے  اور زبانیں اتنی بے لگام نہ ہوتیں ۔ تو می لارڈززززز اپنی سوئی ہوئی غیرتوں کو جگایئے اور  جاسوسوں ، بدمعاشوں ،بدکاروں کو مذمت سے بڑھکر مرمت کے طرف لایئے ۔ ہرمعاملہ مذمت سے حل ہو جاتا تو لغت سے مرمت کا لفظ  ہی نہ مٹا دیا جاتا۔
             ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/