ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک
افسانہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
افسانہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اتوار، 19 اگست، 2018

جواب



جواب
تحریر:
(ممتازملک.پیرس)

سلطان احمد اب ساٹھ  سال کے پیٹھے میں داخل ہو چکے تھے سر تو کیا نتھنے اور سینے کے بال بھی سفید ہو چکے تھے. 
 لیکن اپنے آپ کو کمسن ہی گردانت تھے.  سو راہ چلتی ہر خاتون کو اس ادا سے دیکھتے جیسے وہ نہ صرف اس دنیا کے آخری گبرو ہیں بلکہ اس کرہ ارض پر گویا  آخری مرد بھی وہی ہیں . 
وجہ شہرت بھی موصوف کی ہر آتی جاتی خاتون کو دیکھ کر سرد آہ بھرنا ہی تھی.  
سلطان احمد کی بیوی آسیہ جو عمر میں نہ صرف اس سے دس  برس  چھوٹی تھیں بلکہ ناک نقشے میں بھی اس سے ہزار درجہ بہتر تھیں.
 لیکن نہ جانے سلطان احمد کون سا نظر باز شربت پیئے بیٹھے تھے کہ راہ چلتی بھنگن کو بھی  تاڑنا نہ بھولتے.
جبکہ اپنی بیوی کو نظر بھر کر دیکھنے کا بھی کبھی انہیں خیال نہ آیا.  
ان پر یہ بات سو فیصد لاگو ہوتی تھی کہ حرام ہی میں لذت ہے , حلال تو بس عزت ہے ۔
گلی کی خواتین کی زبانی آسیہ بیگم آئے دن سلطان احمد کے احوال سے باخبر ہوتی رہتی تھی اور دل ہی  دل میں پیچ و تاب کھا کر رہ جاتی تھیں.  لیکن اس کا کوئی علاج اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا.  
پہلے پہل اسے خیال آیا کہ ہو سکتا وہ اب شوخ وشنگ رنگوں سے اجتناب برتنے لگی ہیں اور ہار سنگھار سے بیزار ہو گئی ہیں اور سلطان احمد کو یہ سب اچھا لگتا ہو جبھی وہ ایسی چھچھوری حرکتیں کر رہے ہیں . اسے احساس دلانے کے لیئے..
 آج آسیہ بیگم نے پانچ سال پرانا جامنی رنگ کا جوڑا الماری سے نکالا جو اس وقت اس نے بڑے چاؤ سے بنوایا تھا لیکن ایک دو بار ہی پہنا ہو گا کہ دو چار اس کی امَاں کی عمر کی خواتین کے اسے بوڑھا ہونے کا احساس دلانے اور ہلکے رنگ پہننے کی تنبیہہ پر اس نے الماری میں پیک کر کے رکھ چھوڑا تھا.  لیکن آج اسے احساس ہوا کہ انسان جیسی صحبت میں بیٹھتا ہے رفتہ رفتہ ویسا ہی سوچنے اور کرنے لگتا ہے.  سوچ کا اثر ہی عمل میں چھلکنے لگتا ہے . پینتالیس برس کی عمر میں ستر برس کی اکثر بیوہ اور آدم بیزار بڑھیاؤں کیساتھ  بیٹھنے کا ہی نتیجہ تھا کہ وہ جوانی میں ہی بوڑھی اور سہاگن ہوتے ہوئے بیواؤں سے حلیئے میں رہنے لگی تھی .
 بڑے اہتمام سے اس نے جوڑا استری کیا.  نہا دھو کر بال سنوارے . تو آئینے نے بھی اس کی نظر اتاری.
اس نے سوچا سلطان احمد کو راہ راست پر رکھنے کے لیئے کسی کی چار باتیں بھی سننا پڑیں تو سن لونگی.
اس نے سنگھار میز کے آئینے میں اپنا تنقیدی جائزہ لیا . میرون سرخی اور آنکھوں کے کاجل نے اسے دس برس پیچھے دوڑا دیا تھا.  
سلطان احمد کی ستائشی نظریں ہی اس کی أس تیاری کا انعام تھیں .
یہ ہی سوچ کر وہ اپنے کمرے سے باہر صحن میں آئی تو
کہاں ہو بھئی...
 سلطان احمد کی پکار سن کر
اس نے مڑ کر اپنے شوہر کو دیکھا جو خضاب کی کٹوری ہاتھ میں لیئے کھڑا تھا  اور واش بیسن کے آئینے میں دیکھتے ہوئے ٹوٹھ برش سے اپنے سر کے بال رنگ رہا تھا .
شوہر نے اسے دیکھا
تو اس کی میرون سرخی اور کاجل کی دھار دیکھ کر زور سے ہنسا
 اور نخوت اور طنز کے ملے جلے لہجے میں کاٹ دار انداز میں بولا
 " ہوں بوڑھی گھوڑھی لال لگام"
یہ سنتے ہی غم ،صدمے اور شرمندگی سے اس کا برا حال ہو گیا ،اس نے اس کے سامنے دیوار کا  شیشہ میاں کے منہ پر دے مارا اور خضاب کے کٹوری اس کے ہاتھ سے چھین کر سارا خضاب اسکے منہ پہ مل دیا اور خوب دیوانہ وار بولتی اسے مارتی چلی گئی ....میں بوڑھی گھوڑی جو تیرے سے پورے دس   سال چھوٹی اور تو چھنہ کاکا....بے غیرت
                  ۔۔۔۔۔۔

ہفتہ، 3 اکتوبر، 2015

& نیل کٹر ۔ افسانچہ۔ سچی کہانیاں ۔ قطرہ قطرہ زندگی





نیل کٹر
         ممتازملک. پیرس          

اس روز ایک  فرنچ نوجوان تیزی سے میری بوتیک میں داخل ہوا . اور کاونٹر پر مجھے کھڑے دیکھ کر بولا
 آپ کے پاس نیل کٹر ہے؟
میں نے مسکرا کر اور حیران ہو کر اس سے معذرت خواہانہ انداز میں کہا کہ 
 ،نہیں جناب ہمارے پاس نیل کٹر تو نہیں ہے 
  وہ تھوڑا جھلایا  اور مجھے تقریبا ڈانٹتے ہوئے بولا
کیوں نہیں ہے آپ کے پاس نیل کٹر ؟
ہونا چاہیئے تھا نا ......
اور پیر پٹختے ہوئے بوتیک سے باہر نکل گیا .
اور میں  نے دل میں پنجابی میں شرمندگی کے ساتھ کہا 
"پائن کسے کول نیل کٹر نہیں وی ہوندا "
(بھائی کسی کے پاس نیل کٹر نہیں ہوتا)
اب جب چند نیل کٹر رکھے تو یہ ہی سوچا کہ بھئی کوئی نیل کٹر کا مارا ادھر آ ہی سکتاہے . (جسے اس کے ناخنوں نے کہاں کہاں شرمندہ  کروایا ہو ) بیچارہ مایوس تو نہ جائے. 
              ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                                             





پیر، 13 جولائی، 2015

جلدی کیجیئے۔ کالم۔ افسانہ



جلدی کیجیئے
ممتازملک ۔ پیرس






آج پھر  دنیا بھر مسلمان انشااللہ شب القدر  کی مبارک رات سے فیضیاب ہونے جارہے ہیں .
چراغاں کیا جا رہا ،ختم  قرآن کی مبارک محفلیں سجائی جا رہی ہیں ۔

عید کی تیآریاں عروج پر پہنچ چکی ہیں . 
لیکن ہمارے ہی گھر  کے بغل میں کوئی یتیم بچی اور  اسکا بھائی روز گلی سے گزرنے والے خوش باش ماں باپ کے ساتھ کودتے پھلانگتے بچوں کو ہاتھوں میں شاپر  خریداری کے تھیلے پکڑے آتے جاتے حسرت سے دیکھ رہے ہیں ۔
اور ہر بار اپنے دو کمرے کے کرائے کے گھر میں جا کر اپنی امی سے سوال کرتے ہیں ۔۔
امی ہمارے کپڑے بنا لیئے ہیں عید کے لیئے .
ماں نے ایک قمیض کے دامن پر کڑھائی کرتے ہوئے سر اٹھایا اور آنکھوں میں دنیا جہاں کی بے بسی لیئے مسکرانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے بھرائی آواز سے کہا
 ہاں  ہاں بن جائیں گے ابھی تو بہت دن ہیں ....
چپ کرو جن کے ابو نہیں ہوتے ان کے نئےکپڑے بھی نہیں ہوتے. 
پانچ سال کی نور نے ماں کے ساتھ لگ کر جانے کس لہجے میں کہا کہ
 ماں کے ہاتھ میں سوئی چبھی اور ایک آہ اس کے منہ سے نکل گئی۔۔
دروازے پر بیل سن کر نور نے بھاگ کر دروازہ کھولا 
پڑوس کی رافعہ خالہ نے اسے پیار کیا اور پوچھا امی ہیں گھر پر ۔۔۔
جی اندر ہیں 
اس نے تمیز سے جواب دیا .
اتنے میں دروازہ دھڑ دھڑ بجا 
ایک بھاری اور بدتمیز آواز آئی
آمنہ بھابی  تین ماہ سے کرایہ نہیں دیا دو دن میں پیسے بھجوا دو ورنہ اپنا کہیں اور ٹھکانہ کر لو۔ پرسوں آوں گا کرایہ لینے۔۔
خالہ رابعہ نے آمنہ سے گِلہ کیا آپ نے پہلے کیوں نہیں بتایا کہ آپ اتنی تنگی میں ہیں .
آمنہ نے شرمندگی کے مارے سر جھکا دیا 
کیا بتاتی یہ تو ہمارے روز کی مجبوری ہے آپ لوگوں کا ٹھیکہ تھوڑی ہے کوئی . سلائی کے کام سے چولہا ہی بمشکل جلا پاتی ہوں ۔ باقی اخراجات جانے کیسے پورے کروں .
رافعہ کو اس کے حالات سے اتنی آگاہی نہیں تھی
 اس نے اپنا سلا ہوا سوٹ اٹھایا ۔ سلائی کے پیسے دیئے اور خدا حافظ کہہ کر نکل گئی۔
چاند رات کی رونق میں ہر ایک مصروف تھا۔
صبح عید تھی اور اس کے بچوں کے پاس سوائے بہکاوے کے کچھ بھی نہ تھا .
سات سال کا قاسم اداس تھا۔ ماں سے لپٹ کر بولا 
امی آپ اداس نہ ہوں .اب میں کبھی نئے کپڑے نہیں مانگوں گا .مجھے باجی نے بتا دیا ہے۔
 جن کے ابو نہیں ہوتے وہ نئے کپڑے نہیں پہنتے .
آمنہ نے اسے زور سے اپنے سینے سے بھینچ کر لگا لیا .
شدت کرب سے آنکھیں میچ لیں . 
قریب تھی کہ اس کا دل بند ہو جاتا دروازے کی گھنٹی بجی ....
کون۔۔۔
میں رافعہ ہوں آمنہ بھابی 
آمنہ نے دروازہ کھولا تو رافعہ نے مسکراتے ہوئے  ایک بڑا سا شاپر اس کے ہاتھ میں تھما دیا اور بولی
 چاند رات مبارک ہو بھابی
آپ کو بھی مبارک ہو ۔
یہ کیا ہے ؟
یہ بعد میں کھولیئے گا ۔
پہلے تو یہ بتا دوں کہ آپ کا تین ماہ کا کرایہ مالک مکان کو پہنچ گیا ہے ۔اب آپ پریشان مت ہوئیئے گا ۔
اور ہاں آئیندہ سے جب تک آپ کے بچے اٹھارہ سال کے نہیں ہو جاتے ، ہم گلی والے مل کر آپ کے گھر کا کرایہ اور راشن کا خرچ ادا کیا کریں گے .
کیا؟ 
حیرت سے آمنہ گنگ سی کھڑی رہ گئی.
لیکن 
لیکن ویکن  کچھ نہیں مجھے افسوس ہے کہ ہمیں یہ سب آپ کے شوہر کی وفات کے وقت ہی کرنا چاہیئے تھا ۔ 
لیکن ہمیں خیال ہی نہیں رہا .اس محلے میں پچیس گھر ہیں اور ہر گھر سالانہ کچھ نہ کچھ زیورات اور فطرانہ کی مد میں ضرور  نکالتا ہے  ۔ اس ساری رقم سے اتنا ضرور ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے کسی ایک ضرورت مند خاندان کی مدد کر سکیں .اور یہ کوئی احسان نہیں ہے بلکہ اللہ کا حکم اور ہمارا دینی فریضہ ہے . 
پچھلی کوتاہی کے لیئے سارے محلے کی جانب سے معذرت چاہتی ہوں .
یہ کہتے ہوئے رافعہ تو چلی گئی، 
لیکن بچوں نے بے صبری سے وہ بڑا شاپر کھولا تویہ کیا ۔۔چم چم کرتی چوڑیوں کے سیٹ۔ تینوں بچوں اور ماں کے لیئے دو دو ریڈی میڈ سوٹ ، بچیوں کے لیئے بندے ہار .
اور تو اور عید کی صبح کے لیئے شیر خورمہ اور دن کے کھانے کا خشک سامان ....
آمنہ نے تخت پوش پر اپنا سر سجدے میں جھکا دیا .اور
 اس کے دل سے آواز آئی یا اللہ ان تمام لوگوں پر جنہوں نے ان یتمیوں پر شفقت فرمائی تو بھی اپنی شفقت فرمانا ۔
جنہوں نے ہماری مشکل آسان کی ان کی بھی تمام مشکلیں آسان فرمانا .
 سجدہ شکر میں گرم گرم آنسووں نے اس کی گلوں  کو دھو دیا .
اگر سب لوگ یہ سوچ لیں کہ 
ذرا دیکھیئے ہمارے پڑوس میں بھی کوئی ایسا سفید پوش خاندان تو آباد نہیں . جس کے لیئے  در یتیم نبی کائنات صلی الیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا کہ جس کا پڑوسی بھوکا سویا اور اس نے پیٹ بھر کر کھایا تو گویا وہ ہم میں سے نہیں .
ذکوات اور فطرانہ دینا فرض ہے  تو کیوں نہ اسے عید سے پہلے بلکہ رمضان کا،چاند دیکھتے ہی ایسے مستحق خاندانوں میں پہنچا دیا جائے۔
 تاکہ وہ بھی عزت سے ان خوشیوں میں شامل ہو سکیں .
جلدی کیجیئے......
                     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/