چاہیئے آج ذبیدہ سی خریدار مجھے
کل تلک میں نے مقدرخود ہی تعمیر کیا
وقت پہ کرنا پڑا آج انحصار مجھے
جان دینی نہیں لینے کی یہاں بات کرو
غرض کا آج نظر آتا ہے ہر یار مجھے
قتل کے واسطے خنجر کی ضرورت کیا ہے
کاٹنے کو ہے بہت لہجے کی تلوار مجھے
میں نے کتنوں کو بٹھایا ہے سہارا دیکر
تو نے کیوں سمجھا ہے بوسیدہ سی دیوار مجھے
یہ میرے ساتھ دعاؤں کا اثر ہے شاید
مالک دو جہاں کرتا نہیں لاچار مجھے
پشت پہ میرے وہ ہنستے بھی دِکھے ہیں اکثر
سامنے ملتے تھے ممُتاز جو غمخوار مجھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں