ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک
MUMTAZ QLAM ممتاز قلم لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
MUMTAZ QLAM ممتاز قلم لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

بدھ، 20 ستمبر، 2023

خود ترسی کی نوبت۔ کالم



خود ترسی کی نوبت
تحریر: 
(ممتازملک ۔پیرس)

میرے کالم "خود ترسی بھی ایک مرض " پر ہمارے ایک فیس بک فرینڈ کا تبصرہ تھا کہ یہ مرض یورپ کی لڑکیوں میں عام ہے جہاں اکثر مائیں اپنی لڑکیوں کو لے کر سائیکاٹرسٹ سے رجوع کرتیں ہیں  اور کہتیں ہیں کہ "اس کا کوئی بوائے فرینڈ نہیں ہے"
یہ سوچ اور اس جیسی سوچ والے دوستوں کو ایک ہی جواب دینے کی غرض سے قلم اٹھایا ہے یہ آپکی خوش فہمی ہے جناب کہ یہ مرض محض یورپ سے منسوب ہے زرا اپنے گلی محلوں میں اونچے نیچے گھروں میں جھانکیں جہاں بوڑھی ہوتی رشتوں کے انتظار میں بیٹھی لڑکیاں بیوائیں مطلقہ خواتین  جو معاشرے میں دھتکار کر تنہا  بے آسرا زندگی گزارنے پر مجبور کر دی جاتی ییں ۔ ان سے پوچھیئے جا کر بے بسی کا احساس کیا ہوتا ہے۔ اور جب کوئی ان کی پریشانی سمجھنے والا ان کے دکھ کو دکھ سمجھنے والا نہیں رہتا تو وہ خود اپنے اوپر ترس کھانے پر مجبور ہو جاتی ہیں ۔ ۔ یورپ میں نہ شادی مسئلہ ہے نہ طلاق ۔ نہ دوستیاں مسئلہ ہیں نہ معاشی مجبوری ۔ لگتا ہے یورپ کے بارے میں ایسے لوگوں کی معلومات کافی ناقص ہیں ۔ معذرت کیساتھ
جی ہاں درست ہے کہ حد سے ذیادہ تنہائی پسندی ہی بعد میں ڈپریشن کی  صورت میں سامنے آتی ہے اور یہ تنہائی کبھی کبھی بھرے پرے گھر میں بھی انسان کو اپنا شکار بنا لیتی ہے۔ کیونکہ وہاں جسم تو بہت سے ہوتے ہیں لیکن۔ کسی کی سوچ کو جذبات کو سمجھنے والا کوئی نہیں ہوتا حتی کہ کبھی کبھی تو اپنے سگے والدین آپکے جذبات کچلنے اور آپکو تماشا بنانے میں فریق بن جاتے ہیں ۔  یہ  ڈپریشن یا مایوسی بھی ایکدم سے انسان پر حملہ آور نہیں ہوتی  بلکہ قدم بقدم بڑھتی اور اثر انداز ہوتی ہے ۔ اس کے لیئے ضروری ہے کہ ہم سب اتنے حساس ہوں کہ اپنے ملنے والوں اردگرد رہنے والوں کی باڈی لینگویج  اور طرز عمل میں ہونے والی تبدیلیوں کو نوٹ کر سکیں اور برقت ہی کسی انسان کو اس کنویں میں گرنے سے بچا سکیں ۔
کسی انسان کا جہاں وجود ہے وہاں اس کا ذہنی طور پر حاضر نہ ہونا، اس کی آنکھوں کا وہاں پر اجنبیت کا اظہار، بات کچھ ہو جواب کچھ اور آ رہا ہو، اپنے لباس اور حرکات و سکنات سے  بے خبر ہونا ، بلاوجہ ہنسنے لگنا یا خوامخواہ رونے لگنا یا چڑچڑاہٹ کا شکار ہونا، جھگڑا کرنے کا بہانہ ڈھونڈنا، یہ سبھی کیفیات جو بیان کی گئی ہیں وہ ڈپریشن کی ہیں جو خود ترسی سے بہت زیادہ آگے کی یا لاسٹ سٹیج کہہ لیں ، کی ہیں  ۔ 
جبکہ خود ترسی عموما اس وقت آغاز ہوتی ہے جب بچپن ہی سے بچے کو اس کی صلاحیتوں پر حوصلہ افزائی نہیں ملتی ، ایک کا حق دوسرے کی جھولی میں یہ کہہ کر ڈال دیا کہ چلو تمہیں پھر لے دیں گے ،ابھی تمہیں اس کی زیادہ ضرورت نہیں ہے،  تم اس کا کیا کروگے/گی ، اسے اہمیت نہ دینا یا پھر اولاد  میں ہر وقت کسی کا ، دوسرے کی کسی بھی صلاحیت یا چیز سے غیر ضروری مقابلہ کرتے رہنا، مذہب سے دوری بھی اس کی ایک بڑی وجہ ہو سکتی ہے ،کیونکہ مذہب ہمارے اندر تقدیر اور نصیب کا تصور پختہ کرتا ہے ۔ برداشت اور ایثار کا جذبہ پیدا کرتا ہے جو ہمارے اندر صبر اور انتظار کی عادت کو جنم دیتا ہے ۔ ہمارے مزاج میں توازن پیدا کرتا ہے ۔ جبکہ آجکل بدنصیبی سے جو بھی شخص مذہب کی جانب متوجہ ہوتا ہے اس مذہب کے اکثر علماء اور راہب ہی اسے بھٹکا کر مذید تباہی میں دھکیل دیتے ہیں ۔ اس لیئے رہنمائی کا  یہ کردار بہرطور نزدیکی رشتوں کو ہی ادا کرنا ہو گا  ۔ خود ترسی سے شروع ہونے والا سفر اکثر گناہوں کی منزل یا خودکشی پر ہی ختم ہوتا ہے ۔ لہذا اسے نظر انداز کرنا اس معاشرے میں ٹائم ب م فٹ کرنے کے برابر ہے ۔ اپنے معاشرے کو اس سے بچائیں اور ایک صحت مند معاشرے کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کریں ۔ جس کا آغاز آپکے اپنے گھر سے ہو گا۔ 
                     ------

ہفتہ، 7 مئی، 2022

شرک اور ہمارا تغافل۔ کالم



شرک اور ہمارا تغافل
(تحریر/ممتازملک.پیرس)

آج جب دین کو سمجھنا یا جاننا آوٹ ڈیٹڈ تصور کر لیا گیا ہے ۔ مذہب کو زندگی پر بوجھ سمجھ لیا گیا ہے ۔ ہر ایک خود اپنا اپنا دین ایجاد کرنے میں مصروف ہے۔ اللہ پاک کا بھیجا ہوا دین انہیں ان کی من مرضی کرنے میں رکاوٹ لگنے لگا ہے ۔ ان کی اوارگیوں اور غیر اخلاقی اعمال کو ایک عنوان بھی چاہیئے اور اپنے مردہ ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیئے دین کے نام پر کوئی جواز بھی مہیا کرنا ہے تو ہر من گھڑت بات کو بغیر کسی تصدیق کے اپنے من چاہے کے بیان پر دین کا نام دینے کی کوشش کرنا ایک تباہ کن  رواج بنتا جا رہا  ہے ۔ جس میں ساری دنیا محض مرد اور عورت کا جسم بن کر رہ جائے گی ۔ نہ کوئی رشتہ سلامت رہیگا اور اخلاقی تنزلی کا تو اب بھی کوئی پرسان حال نہیں رہا اور مذید  کیا تباہ ہو گا؟
 یہ بات ہم سب مسلمانوں کو سمجھنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے ۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم  سمیت سبھی انبیائے کرام  اللہ پاک کے محبوب و محترم اور معصومین ہیں ۔ لیکن وہ خدا سے  آگے نہیں ہیں  اور خدا کو  ان کے مشورے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ جبکہ ہمارے تفرقے بازوں اور حلوہ خوروں اور کئی شعراء نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم  کے علاوہ بھی صحابہ اور اولیاء اللہ اور تو اور کئی نے علمائے وقت تک  کو اپنے اپنے لیئے مخصوص کر کے ان کی شان میں وہ وہ  قلابے ملائے ہیں کہ اگر اس پر غور کرنے کی توفیق مل جائے تو ہمیں کسی اور  کو مشرک کہنے کی قطعی کوئی ضرورت ہی نہ رہے ۔
ہر شخص خود کو مسلمان بھی کہتا ہے اور اپنی ہر محب ہستی کو نعوذ باللہ اللہ کے برابر کی کرسی پر بٹھانے کو بھی بےچین نظر آتا ہے ۔۔لیکن وہ شرک نہیں کرتا اس پر بھی اڑا ہوا ہے ۔۔۔خدا کے لیئے خالق اور مخلوق کے فرق کو سمجھو ۔ خالق صرف ایک ہے باقی دنیا کی اچھی سے اچھی اور حسین سے حسین مخلوق ہو ، چاہے بری سے بری اور  بدصورت سے بدصورت مخلوق ہو سب اس کی تخلیقات ہیں ۔ اگر کسی کی عزت اور مقام اللہ پاک نے زیادہ رکھا ہے تو بیان بھی فرما دیا ہے کہ اسکی وجہ صرف اور صرف اس کا تقوی ہے ۔ اور تقوی کیا ہے؟  تقوی یہ ہے کہ اچھائی اور  نیکی کے کاموں میں ایکدوسرے سے آگے ہونا ۔ اپنے قول فعل اور کردار میں بہترین ہونا ۔ حلال کاموں میں بھی جس میں ذرا سا بھی  اللہ کی ناراضگی کا شائبہ تک ہو اس سے بچنے کی کوشش کرنا ۔ یعنی ایک ہی مثال کو کافی سمجھیئے کہ انسان دنیا میں گناہوں سے پاک پیدا ہوتا ہے ۔ اس کا کردار سفید لباس جیسا ہوتا ہے اور جب سفید کپڑوں میں انسان کیچڑ والی جگہ سے  مجبورا بھی گزرتا ہے تو اپنے لباس کو سمیٹ لیتا ہے۔ اپنے پائنچے چڑھا لیتا ہے تاکہ اس کیچڑ کا کوئی چھینٹا اس کے لباس کو داغدار نہ کر دے ۔ بس یہ ہی ہے ایک متقی اور اللہ کی محبت اور قرب پانے کا یہی ہے واحد طریقہ ۔ کہ دنیا کے کیچڑ میں اپنے کردار کے سفید لباس کو داغدار ہونے سے بھی بچایا جائے اور سفر بھی جاری رکھا جائے۔  اسے ہی تقوی کہتے ہیں جو اللہ پاک بار بار قران پاک میں ارشاد فرماتا ہے ۔ 
اس لیئے آج مسلمانوں کو اللہ پاک ، اور نبیوں کے مقام کو سمجھے اور شرک کا مطلب جاننے کی اشد ضرورت ہے ۔ 
اپنے محبوب سے محبوب ہستی سے محبت ضرور کیجیئے ان کا احترام بھی کیجیئے ۔ لیکن یہ یاد رکھیئے کہ پیغمبروں اور  نبیوں کے علاوہ دنیا کی کوئی نیک سے نیک ہستی ایسی نہیں ہے جو گناہوں سے یا غلطیوں سے پاک ہو ۔ یہ سب انسان ہیں ۔ اور اللہ پاک کے عطا کردہ بشری تقاضوں میں مجبور ہوتے ہیں۔
اللہ پاک ہم سب کو اسلام کی سمجھ اور ہدایت عطا فرمائے۔ آمین
                    ●●●

جمعہ، 23 اکتوبر، 2020

● درگور ‏/ ‏کالم


              درگور
  (اپنی عزت بچائیں۔۔
                       پر کیسے؟)
        (تحریر: ممتازملک.پیرس)
                 

حیرت ہوتی ہے سن کر کہ کوئی پولیس  والا یا محافظ  کیسے کسی مدد طلب کرنے والے کو کہہ سکتا ہے کہ یہ معاملہ ہماری حدود کا نہیں ہے؟
بھئ وائرلیس پر پیغام وائرل کیا جاتا ہے کہ اس پوائنٹ کے نزدیک جو بھی پولیس کی گاڑی موجود ہے فورا موقع مدد پر پہنچے ۔ 
یہ کیا ذلالت ہے کہ یہ ہماری حدود میں نہیں ہے ؟؟؟؟
پولیس ہمارے ٹیکسز سے مال بٹورتی ہے بطور تنخواہ اور ڈاکہ ڈالتی ہے ہماری جیبوں پر بشکل رشوت اور بھتہ بعوض مشاورت کے ۔ کب سے پولیس لوگوں کا ماما چاچا بن کر مشورہ دینے پر مامور ہو گئی ۔ ان کا کام عوام کی حفاظت کرنا ہے مشورے دینا نہیں ۔ 
تل تل کر مرنے کے لیئے  برباد کر دی جانے والی زندگی گزارنے پر مجبور کر دی جانے والی عورتیں اور بچے کیسے جیتے ہیں ۔ ان کی نفسیات پر اس کے کیا کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ؟ کیسے جیتا ہے زندہ درگور ہونے والے یہ مظلوم ؟ کوئی اس کا اندازہ نہیں لگا سکتا ۔ یہ تکلیف صرف وہی جانتا ہے جس پر گزرتی ہے۔ ان درندوں کا مستقل علاج کیجیئے ۔ عبرت ناک علاج ۔
کیوں نہیں ہے خوف ایسے بدکاروں اور بدذاتوں میں  کسی کا ۔ خدا کا خوف رہا نہ ہی دنیاوی شرمساری کا ۔۔
ہماری مائیں ، ہمارے علماء ، ہمارے خطیب ، ہماری موم بتی مافیا ہماری پولیس ، ہمارے وکیل ، ہمارے ججز ۔۔۔کہاں ہیں یہ سب کے سب ؟ اپنے فرائض کہاں ادا کیئے ہیں انہوں نے ؟ مان لیجیئے کہ یہ سب ناکام ہو چکے ہیں ۔
 پہلے تربیت سے عاری معاشرہ اور پھر سر عام عبرتناک سزاوں کا نہ ہونا یہ ہی وجوہات ہیں ان تمام جرائم کی آماجگاہوں کو پروان چڑھانے کی ۔ جس روز چار مجرمان سر عام لٹکا دیئے گئے چوراہے میں ، تو  وہ علاقہ کم از کم دس سال کے لیئے محفوظ ہو ہی جائے گا ۔ کسی کا عہدہ ذات پات رشتہ دیکھے بغیر بدکاری کے مجرمان کو سزا کا قانون صرف پاس ہی نہیں کرنا ۔۔۔چار دن اس پر میڈیا میں شور مچا کر اسے کارپٹ کے نیچے نہیں دبا دینا ۔۔۔ سرعام پھانسی کا صرف مطالبہ ہی نہہں کرنا بلکہ یہ قانون بنوا کر لاگو کروانا ہے اور چوبیس گھنٹے کے اندر ایسے واقعات کو پہلی ترجیح دیتے ہوئے مجرمان کو  سرعام پھانسیاں دی جائیں ۔ ہمارے ملک میں ہر جمعے کی نماز کے بعد کھلے عام چوک میں ایسی سزاوں کو پوری قوم کی تربیت کا مرحلہ سمجھتے ہوئے عمل کرنا ہو گا ۔
اس کے لیئے ہمیں یورپی ممالک کی ناراضگیاں نہیں دیکھنی چاہیئیں بلکہ اللہ کی کتاب قرآن پاک ہمیں سزاوں کا معیار ہونا چاہیئے۔ اور اللہ کے عذاب اور پکڑ سے ڈرنا چاہیئے ۔ انہیں نہ صرف لٹکائیں بلکہ ان کی لاشیں نہ دفنانے کی اجازت ہو ، نہ انکا جنازہ پڑھا جائے ، نہ انکی قبر بنائی جائے بلکہ انکی لاشیں بھوکے کتوں کے آگے ڈال دی جائیں ۔ 
دوسری سزا یہ ہے کہ ایسے تمام گندوں کو نامرد کر کے اسکے ماتھے پر بدکار کی انمٹ مہر لگا دی جائے اور اسے اسی معاشرے میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جینے کے لیئے چھوڑ دیا جائے۔
تیسری سزا یہ ہے کہ ایسے مجرموں کو ایک ایک پنجرے میں ڈال کر شہر کے  چوراہوں میں بھوکا پیاسا تادم مرگ لٹکا دیا جائے  ۔ آتے جاتے ہر آدمی حسب توفیق انہیں پتھر مارے ۔ انکی موت کے بعد بھی انہیں غسل کفن اور دفن سے محروم کر دیا جائے ۔ اور انہیں نامعلوم کھڈوں میں پھینک کر زمین کو برابر کر دیا جائے۔ 
سزاوں کا مقصد  مجرمانہ سوچ رکھنے والوں کے رونگٹے کھڑے کرنا ہونا چاہیئے ۔ دنیا والے ناراض ہو جائینگے کہہ کر کوئی بھی حکمران اپنی ذمہ داری سے پلہ نہیں جھاڑ سکتا ۔ کیونکہ اس ملک کی آددھی آبادی کی جان اور عزت داو پر لگی ہوئی ہے اور دنیا کی کوئی یونین اور مملکت ان کی حفاظت کے فریضے کے لیئے روز قیامت آپ کا گریبان ان مظلوموں کے ہاتھ سے نہیں چھڑا سکتی ۔
اس ملک میں عورت اور بچے کو تحفظ دینا اگر آپ کے بس میں نہیں رہا تو پھر ہم عورتوں کو اپنی اور اپنے بچوں کی حفاظت کے لیئے خود سے کچھ اقدامات لینا ہونگے ۔
 یہ حفاظت اگر حکومت، قانون  ساز اداروں اور  پولیس کے بس میں نہیں رہی  ہر عورت کو لوڈڈ پستول رکھنے اجازت دیدی جائے ۔ جہاں اس پر کوئی سور حملہ کرنا چاہے ، اسے کوئی خطرہ ہو وہاں اس مجرم کو وہ گولی مار دے۔
خس کم جہاں پاک
یورپ اور امریکا  کیساتھ ایسے واقعات  پر مقابلہ کرنے والوں کو بات کرنے سے پہلی تھوڑی شرم ضرور کرنی چاہیئے ۔ ایسی ہر روز کی مثالیں آئے دن کے واقعات آپکے مسلمان اور مہذب ہونے کا پول کھل کر کھولتی رہتی ہیں ۔ 
خواتین کو ہر ملک کو فرانس اور یورپ نہیں سمجھ لینا چاہیئے ۔
سنا ہے کہ متاثرہ خاتون اپنے بچوں کو   اسلامی تعیمات اور اپنا کلچر سکھانے کے لیئے فرانس چھوڑ کر پاکستان منتقل ہوئی تھی ۔۔لیکن اس افسوسناک واقعہ کے بعد انہیں یہ سمجھ آ چکا ہو گا کہ ان کے بچوں کی آنکھوں کے سامنے  کونسا اسلام اور کلچر محفوظ کرا دیا گیا ہے ۔ ۔۔۔میرے خیال میں انہیں پہلی فلائٹ سے اپنے بچے لیکر فرانس پہنچ جانا چاہیئے ۔  جہاں سے وہ یہ اعتماد لیکر گئی تھیں کہ انکی عزت محفوظ ہے اور وہ  "اپنوں "کے بیچ ہیں ۔ یہ چور چور اعتماد اب واپس یورپ آ کر ہی  بحال ہو سکتا ہے ۔ 
وہ لوگ جو مجھ سے بدزبانی  کی حد تک بحث کیا کرتے تھے کہ اسلامی ملک اور ہمارا اسلامی کلچر ۔۔۔۔ان میں حیا ہو تو یہ واقعہ اور اس جیسے تمام واقعات ان سب کے منہ پر ایک  کرارا جواب ہے ۔ حقائق سے آنکھیں مت چرائیں ۔ بحث برائے بحث محض آپکے اندر کا بغض ہی سامنے لاتا ہے اس سے کوئی تعمیری نتیجہ کبھی نہیں نکل سکتا ۔ 
                       ۔۔۔۔۔۔۔    

     

اتوار، 31 مئی، 2020

اصلی ‏جنت ‏کے ‏خیالی ‏راستے/ کالم


   اصلی جنت کے خیالی راستے
             تحریر:ممتازملک.پیرس)



ایک محفل دعا میں ایک خاتون نے اپنے محفل جمعہ میں نہ آنے کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ دیکھیں بھئی میں تو جمعے کی نماز کے بعد کسی خاص الخاص کے گھر بھی نہیں جاتی ، چاہے کوئی بھی، کتنا بھی ، ضروری پروگرام ہی کیوں نہ ہو۔ پوچھا کیوں؟  تو بولیں کیونکہ میں اس روز اتنے اتنے ہزار بار فلاں فلاں وظیفہ پڑھتی ہوں اس سے ہفتے بھر میں کیئے ہوئے سارے گناہ اللہ پاک معاف فرما دیتا ہے ۔۔۔ہم نے پوچھا کہ گناہ تو آپ نے اللہ کے حضور نہیں بندوں کے ساتھ کیئے تو اللہ پاک اپنے بندوں کے معاف کیئے بنا اگر وہ گناہ اتنی آسانی سے معاف فرما دیتا ہے تو پھر اپنے ہی کلام پاک میں بار بار حقوق العباد کی تکرار کیوں کرتا ہے ؟ کیا ضرورت ہے انسانوں کی، رشتوں کے حقوق کی بات کرنے کی، اسے ادا کرنے کے لیئے سخت تاکید کرنے کی؟ 
یہ صرف ایک واقعہ تھا مثال کے طور پر، ورنہ جہاں دیکھیں گھر، باہر ،سوشل میڈیا ہر جگہ پر ہر منٹ میں ایسے ایسے وظائف بانٹے جا رہے ہوتے ہیں کہ اس کے  عوض نعوذ باللہ نہ تو حقوق اللہ کی فکر کرنے کی کوئی ضرورت ہے اور نہ ہی حقوق العباد کو کسی کھاتے میں گننے کی ۔ قتل کریں ، یتیموں کا مال کھائیں ، بیواؤں کی زندگی عذاب کر دیں ، دوسروں کی عزتیں پامال کر دیں ، چوری کریں ، ڈاکہ ڈالیں، جھوٹ بولیں  غرضیکہ کوئی بھی گناہ کر لیں ۔ اور بے فکر ہو جائیں۔ آپ کی معافی تلافی کے لیئے ایک ہزار ایک من گھڑت کہانیوں کے ساتھ وظائف کے نام پر بے فکری پیکچز موجود ہیں ۔ جنت تو آپ کے ہی انتظار میں تیار کی گئی تھی کہ کب آپ اپنے وظائف کے  زور پر اسے فتح کرتے ہیں ۔ کیونکہ اعمال کے زور پر اسے پانے کا دم خم تو اب کسی نام نہاد مسلمان میں شاید رہا نہیں ۔ تو آپ بھی اللہ کے ناموں کا ورد اس سے اپنی ذہنی طاقت میں اضافے ، اچھے نصیب کی دعا، اچھے اعمال کی توفیق طلب  کرنے کے بجائے یہ ہی سوچ کر،  کر رہے ہیں کہ اس کے زور پر سات خون آپ پر معاف ہو جائینگے تو آپکو اشد ضرورت ہے کسی اچھے ماہر نفسیات سے رابطہ کرنے کی اور ایک بار  قران پاک مکمل ترجمے اور تفسیر کیساتھ سمجھ کر پڑھنے کی، اسی طرح ، جسطرح ایک غیر مسلم اسلام میں داخل ہونے سے پہلے اسے سمجھتا ہے۔ اپنی زبان میں سمجھ کر اس پر یقین حاصل کر لیتا ہے تو پھر قران کو اسلام کا دروازہ سمجھ کر ، اس میں داخل ہو کر،  فلاح کا گھر یعنی اعمال سے حاصل کردہ جنت پا لیتا ہے ۔ اصل جنت جس میں اسے دنیا کا سکون بھی حاصل ہو جاتا ہے اور آخرت کی فلاح بھی ۔ کبھی غور کیجیئے ۔ اس طرح سے مسلمان ہوئے لوگوں کے چہروں کو غور سے دیکھیئے گا (جنہوں نے اسلام کسی سے نکاح کرنے کی غرض سے  اور نہ ہی کسی مالی مفاد میں  قبول کرنے کا ڈرامہ کیا ) اور سیکھیئے گا کہ سکون کیا ہوتا ہے ، کامیابی کسے کہتے ہیں اور مسلمان کیسا ہوتا ہے ۔ ہم جیسے تارکین وطن کم از کم اس لحاظ سے تو بیحد خوشنصیب سمجھتے ہیں خود کو ، کہ ہمیں ایسے پرسکوں نو مسلمان چہروں کو دیکھنے اور ان سے ملنے اور ان کی عملی زندگیوں سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کا موقع  کبھی نہ کبھی مل ہی جاتا ہے ۔ 
کاش ہمارے ممالک  میں ہم پیدائشی مسلمانوں کے اندر بھی ہمیں ان نومسلموں جیسا  عملی اسلام دیکھنا نصیب ہو سکے ۔ جو وظائف کے زور پر اپنے لیئے جادوئی جنت حاصل کرنے کے لیئے اپنے دن اور اوقات مخصوص نہیں کرتے ۔ بلکہ اپنے اعمال سے اللہ کے حضور اپنی عاجزانہ کوششیں پیش کر دیتے ہیں اور  اپنے کردہ ہی نہیں ناکردہ گناہوں پر بھی اپنے آنسو نچھاور کرتے ہیں ۔ کفارے ادا کرتے ہیں ، تلافیاں کرنے کی جدوجہد میں رہتے ہیں ۔ تو اللہ ان سے پیار کیوں نہ کرے ؟ اللہ اپنی اس مخلوق سے محبت کیوں نہ کرے جو اس کے احکامات بجا لاتی ہے ؟ اور اس سے محبت کرنے پر کہاں مجبور ہے کہ وہ نافرمانوں کو بنا اعمال صالح کے جنتوں میں داخل کر کے صالحین کی دل آزاری کرے ؟ جبکہ وہ خود فرماتا ہے کہ ان نافرمانوں کیلیئے دردناک عذاب ان کا منتظر ہے ۔ 
سو وظیفے بانٹ کر اور وظیفے پڑھنے میں جو دنوں اور گھنٹوں آپ نے خود کو پابند کرنا ہے یقین کیجیئے اس سے  بیسویں حصے کے وقت میں بھی اگر اسکے بندوں کی خیر اور بھلائی کا کوئی کام سرانجام دے لینگے تو آپکو اصلی جنت کے لیئے نقلی اسباب کبھی کھوجنے نہیں پڑیں گے ۔ اصل منزل تک پہنچنے کے لیئے اصل اور درست راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے ۔ خوابوں اور خیالی راستوں کے ذریعے حاصل ہونے والی جنت کا سفر آنکھ کھلتے ہیں ہوا ہو جاتا ہے۔  بالکل اسی طرح جسطرح خیالی پلاو سے پیٹ نہیں بھرتا اور نہ ہوائی قلعے میں رہا جا سکتا ہے ۔ 
 علماء کرام اور مولانا حضرات بھی اگر وظائف بانٹنےکے بجائے لوگوں  پر ان کے رشتوں اور انسانیت کے حوالوں سے اپنی ذمہ داریاں ، فرائض اور اللہ تعالی کے ان سے متعلق  سچے احکامات پہنچانا شروع کر دیں ۔ اسے اپنے خطبات کا محور بنا لیں تو اس سے انکی عزتوں میں نہ صرف مزید اضافہ ہو گا بلکہ لوگوں کو اپنے دین کی سمجھ بھی حاصل ہو سکے گی ۔ دین کو وظائف میں بانٹ کر لوگوں کو آپ اسی طرح سے اعمال صالح سے دور کر رہے ہیں جیسے ایک نشہ بیچنے والا، انسان کو عملی زندگی سے دور کر دیتا ہے ۔ خدارا خواب بیچنا بند کر دیجیئے ۔ اب اور کتنا تباہ ہونا رہ گیا ہے 😪😢
                 ۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات، 28 مئی، 2020

شادی ‏شدہ ‏مرد ہی کیوں ؟/ کالم



    شادی شدہ مرد ہی کیوں ؟
                         (تحریر:ممتازملک.پیرس)

یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ہمارے معاشرے میں ہی نہیں دنیا بھر میں شوبز سے وابستہ خواتین کی اکثریت  جسم فروشی کے دھندے سے وابستہ ہوتی ہیں ۔ اور انہیں اپنے اس دھندے پر کوئی شرمساری بھی نہیں ہوتی ۔ کوئی ایک ادھ فیصد ہی خواتین ایسی ہونگی جو اس غلاظت خانے میں رہ کر بھی اس گندگی سے بچی ہوئی ہونگی ۔ فن کے نام پر عریانیت اور فحاشی کا یہ بازار کبھی ٹھنڈا نہیں پڑا ۔ اس پر یہ ہی خواتین اب  اس قدر طاقور ہو چکی ہیں کہ ماہ رمضان میں بھی کسی  اصل عالم دین کی جرات نہیں کہ وہ آکر ہمیں دین سکھائے بلکہ  اس کی بجائے  ہمیں باحیا اور باپردہ خواتین کی اداکاری کرتے ہوئے یہ ہی بے کردار خواتین اب اسلام سکھاتے ہوئے بھی نظر آتی ہیں ۔ کیونکہ وہ سب سے زیادہ اسلام سارا سال پھیلاتی  اور عمل کرتی ہیں ۔ اس لیئے ان سے زیادہ مناسب  ان کے اینجٹس پروگرام بنانے والوں کو، میڈیا ہاوسز کو کوئی ملتا ہی نہیں ہے ۔۔ گزشتہ روز اسی طرح کی ایک باکمال اداکارہ کی بدکاری  سے تنگ ایک  خاتون نے اس وقت اسے اپنے ہی گھر میں گھس کر پھینٹی لگائی جس وقت وہ دنیا کو اعتکاف کا جھانسا دیکر اپنے ایک گاہگ کیساتھ داد عیش میں مصروف تھیں ۔  اور گھر کی مالک خاتون نے اس سے قبل کئی بار اسے اپنے شوہر سے دور رہنے کی وارننگ بھی دی ۔ لیکن موصوفہ اعتکاف کے بعد شراب اور کوکین کی دعوت اسی بے شرم آدمی کیساتھ اڑا رہی تھیں ۔ ایسے میں کسی بھی عورت کا ایسے شوہر اور اس کی رکھیل پر حملہ ہی کیا قتل کرنا بھی کوئی حیران کن بات نہیں ہے ۔ 
(کیا ایسی ہی خبر کسی شوہر کو ملے کہ تمہاری بیوی فلاں فلاں کیاتھ منہ کالا کرتی ہے ۔ اس کے ثبوت بھی ہوں اور تصدیق بھی تو کیا وہ اپنی بیوی کو ایسے میں رنگے ہاتھوں پکڑ کر پھولوں کی مالائیں پہنائے گا یا قتل کر دیگا ۔ یہاں تو اس کی بیوی نے ہاتھ پھر ہی ہلکا رکھا ہے ) ایسے شوہر کو جسے اپنی بیوی اور بچوں کی عزت کا خیال نہ ہو ، کیساتھ رہنا بھی اس کی  بیوی کی توہین ہے کیونکہ جسے ایک بار گناہ کا چسکا لگ جائے وہ کبھی سیدھے رستے اور شرافت کی زندگی میں واپس نہیں آ سکتا ۔ کون نہیں جانتا کہ یہ پارسا اداکائیں پیسے کے لیئے کیا کیا کچھ کرنے کو تیار رہتی ہیں ۔ انہیں  اگر جوتے کھانا اور قتل ہونا پسند نہیں ہے تو انہیں ہر حال میں شادی شدہ مردوں کیساتھ منہ کالا کرنے سے پرہیز کرنا چاہیئے ۔ اور ایسی اداکاراؤں کو بھی حکومت عبرتناک سزائیں دے بلکہ انکے  شادی شدہ گاہگوں سمیت انہیں اسلامی سزا کے حساب سے سنگسار کیا جانا چاہیئے ۔ جو بچوں سے ان کے باپ چھین لیتی ہیں گویا ان کا بچپن ہی چھین لیتی ہیں ۔ ان کا مال دولت ہڑپ کر جاتی ہیں ۔ ان کی زندگی کا چین اور سکون غارت کر دیتی ہیں ۔ بلکہ یوں کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ ایک معاشرے کی اکائی ، ایک خاندان کا ہی ناس مار دیتی ہیں ۔  ایسے بدکار اور بیوفا شوہر کیساتھ رہنے سے بھی ہزار درجہ بہتر ہے کہ عورت کسی اچھے باحیا اور شریف مرد سے نکاح کرے ۔ کیونکہ جس میں حیا نہیں اس میں نہ تو غیرت ہوتی ہے اور نہ ہی وفا ۔ وہ دنیا میں بھی آپ کے لیئے سزا ہے اور آخرت میں بھی عذاب ۔ 
اگر ہمارے ہاں شادی کے رشتے کو بچانا اور زنا کی بیخ کنی کرنی ہے تو حکومت شادی شدہ بدکار مردوں کے خلاف ایک مضبوط اور موثر قانون بنائے تاکہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی پر لگام ڈالی جا سکے ۔ یا پھر  شادی کیساتھ ہی مردوں  کی تمام جائیداد انکی بیوی بچوں کے نام ہو جانی چاہیئے کیوں کہ ایسی بے شرم بدکار عورتوں کا شکار صرف اور صرف بھری ہوئی جیب والے مرد ہوتے ہیں ۔ پھر  نہ تو  نو من تیل ہو گا اور نہ ہی پھر کوئی رادھا انکے آگے ناچے گی ۔ 
                        ۔۔۔۔۔۔۔

بدھ، 1 اپریل، 2020

خیرات دینے والوں کی شامت / کالم


     خیرات دینے والوں کی شامت
        (تحریر:ممتازملک.پیرس)



کسی بھی ملک میں جب بھی کوئی آفت نازل ہوتی ہے تو وہ ان لوگوں کے لیئے تو آزمائش ہوتی ہی ہے جو لوگ اس آفت میں مبتلا ہوتے ہیں لیکن اس سے بڑھ کر یہ آزمائش ان لوگوں کے لیئے اور بھی بڑی ہو جاتی ہے جب آپ کے پاس مال و دولت کی فراوانی ہو اور آپ اس آفت سے بھی محفوظ ہوں ۔ اللہ پاک نے جہاں اولاد کو آزمائش بنا کر انسان کی زندگی کا حصہ بنایا ہے تو وہیں اس کے مال کو بھی اس کے لیئے سب سے بڑی آزمائش قرار دیا ہے ۔ ساری کائناتوں کا خالق ، کیا اپنی جناب سے کسی کی ضرورت پوری نہیں کر سکتا تھا ؟ 
جس نے آپ کو دیا وہ آپ کے سامنے سائل بنا کر کھڑے انسان کو نہیں نواز سکتا تھا ؟ 
کیوں نہیں ۔ لیکن رزق  تو اللہ پاک نے انسان کی پیدائش سے سالوں قبل اسکے نصیب میں لکھ چھوڑا تھا ۔ جب اس نے اس مانگنے والے یا محتاج کے نصیب ہی میں رزق نہیں لکھا تو میں اپنے مال میں سے اسے کیوں دوں ؟ 
درست فرمایا ، نصیب تو واقعی لکھا جا چکا تھا ۔ اس کے  نصیب میں آسائشیں بھی لکھی جا چکی ہیں اور آزمائشیں بھی ۔ اس کے نصیب کی آزمائش یہ ہے کہ اسے آپ کے سامنے مجبور نگاہیں اور پھیلائے ہوئے دامن کیساتھ کھڑا ہونا پڑا اور آپ کی آزمائش یہ ہے کہ آپ اللہ کے عطا کیئے ہوئے مال و دولت میں سے اللہ کی مخلوق کے لیئے کتنا حصہ نکالتے ہیں ؟ وہ چاہتا تو اس مانگنے والے کی جگہ آپکو بھی کھڑا کر سکتا تھا اور دینے والے کی جگہ وہ محتاج کھڑا ہوتا ۔ لیکن جوابدہی کے امتحان میں  آج آپ کھڑے ہیں کہ آپ ان سائلین کے لیئے کیا کرتے ہیں ؟
لیکن اس کے ساتھ ہمارا ایک قومی المیہ بھی تو ہے کہ 
دنیا بھر میں خیرات اور امداد کی رقوم ہر طرح کے ٹیکسز سے مبرا ہوتی ہیں اور ان آفات کے زمانوں میں اسی امداد کے  بہانے بہت سا کالا دھن عوام کی خدمت کے لیئے حکومتوں کو مددگار مل جاتا ہے ۔ جبکہ پاکستان میں یہ حال ہے کہ زرا کسی کی مدد کے لیئے کچھ دیکر دیکھیں حکومت اور نیب کے نام پر بنے چودھری ان کی بوسونگھتے سونگھتے اس کی سات پشتوں کی کھال ادھیڑ دینگے اور انہیں اس بات پر نشان عبرت بنا دیا جائیگا کہ بھائی تیری ہمت کیسے ہوئی کہ تو کسی کی مدد کرتا ۔ اس زمانے کی رسیدیں طلب کی جائیں گی جس زمانے میں ہمارے ہاں پیدائش کا سرٹیفکیٹ بنانا بھی لازمی نہیں سمجھا جاتا تھا ۔  اور پھر ہم کہاں کہاں سے ثبوت اکٹھے کرتے پھریں کہ جناب یہ مال  میری محنت کا ہے یا جائز ہے ۔ زرا ماضی پر نظر ڈال کر دیکھیں حکومت چاہے کسی کی بھی رہی ہو لیکن ٹیکس پالیسیز اور اپنی دولت کو مکمل طور پر ظاہر کرنیوالے کے لیئے قوانین اس قدر مضحکہ خیز اور  ہتھک آمیز ہیں کہ آپ چاہتے ہوئے بھی اپنا حق حلال کا مال بھی پورے کا پورا ظاہر نہیں کر سکتے کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں حکومت وقت آپ کو کشکول پکڑا کر سڑک پر کھڑا کر دیگی کہ بس یہ ہے اس کا انعام ۔ان ٹیکسز اور ڈیکلریشن  کے بدلے اسے کونسی سہولیات ملتی ہیں ؟ کیا کیا فوائد حاصل ہوتے ہیں کم از کم ہماری نظر سے تو ابھی تک اہسا کوئی خوشنصیب نہیں گزرا ۔ ہم نے تو ایسا ایماندار بیچارہ بھی دیکھا ہے جس نے اپنی ہر چیز پچھلے سال ڈکلیئر کروائی ،  پانچ لاکھ روپے کا سالانہ انکم ٹیکس  پوری ایمانداری سے ادا کیا ۔ چند ہی ماہ میں اس کے کام کے حالات اچھے نہ رہے تو اپنے بچے کی بیماری پر سرکاری ہسپتال میں گیا تو اس بچے کو  ایک ڈسپرین کو گولی تک فری میں  دینے سے انکار کردیا گیا یہ کہہ کر کر کہ جناب آپ تو ٹیکس پیئر ہیں آپ کو کوئی دوا اور سروس فری میں نہیں دی جا سکتی ۔ اب بیچارہ پچھلے سال کے ٹیکس کی ادائیگی کا جرمانہ تل تل کر مقروض ہو ہو کر بھر رہا ہے ۔ اور یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ اسے کس پاگل کتے نے کاٹا تھا کہ وہ پانچ لاکھ روپے کی رقم ڈکلیئر ادا کر آیا ۔ اس کے بدلے اس پر ہر آسانی کے دروازے بند ہو گئے کیونکہ اسے ٹیکس پیئر کا نمبر جاری نہیں ہوا بلکہ شاید مجرم نمبر جاری ہو چکا ہے ۔ 
یہ ہی حال کسی بھی شخص کے کہیں پر خیرات کرنے کی صورت میں اسے نشان عبرت بنانے کا بھی ہے ۔ جس قوم میں زلزلہ زدگان اور سیلابی متاثرین کے لیئے آئے ہوئے خیراتی کمبل اور اشیاء تک سوٹوں  والوں اور بوٹوں والوں کے گھروں سے برامد ہوتے ہوں، جہاں ہر صاحب اختیار یتیموں اور بیواوں کا مال کھانے کے لیئے اپنی ہی بیویوں اور بچوں کو یتیم اور بیوہ لکھوا کر کھانے کا رواج ہو ، جہاں بیت المال اور اوقاف کے مال پر دین فروشوں کی بدبخت اولادیں عیش کرتی ہوں ، دور نہ جائیں 
ابھی تازہ واردات زیادہ پرانی بات تو نہیں جب اربوں روپے قوم سے ڈیم کے نام پر اکٹھے کرنے والوں نے اسے مال مفت دل بیرحم کی طرح اڑایا ہو ، وہاں آج اگر خدا کا عذاب نہیں آئیگا تو کیا ہو گا ۔ دنیا بھر میں یہ آزمائش ہے لیکن پاکستانیوں پر یہ واقعی خدا کا عذاب ہے ان کے اعمال کے سبب۔ اور یہ بھی دیکھ لیجیئے گا کہ جس قوم کی اشرافیہ  کروڑوں کے گھر میں رہ کر چھ چھ ماسیاں اور ملازم رکھتی ہے لیکن آفت کے دنوں میں انہیں نوکریوں سے نکال کر بیروزگار کر کے سڑک پر  بھیک مانگنے پر مجبور کرتی ہے اسی لعنتی  اشرافیہ کے لیئے یہ خیراتی وینٹیلیٹرز  بھی استعمال کیئے جائینگے ۔ عام آدمی کو مرتے مر جائے لیکن اسے ان وینٹیلیٹرز کی سہولت کبھی نہیں پہنچائی جائیگی ۔  بالکل اسی طرح جس طرح پچھلی امداد میں ملے   ٹیسٹ مشینز کو چغتائی لیب جیسی جگہوں پر نوٹ چھاپنے کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے ۔آج عوام سے پھر سے بھیک مانگنے والوں سے پوچھا جائے کہ پچھلا مال کدھر ہے ؟ 
پچھلی اپوزیشن کے ایک عالمی غبارہ لیڈر نے سچ ہی تو کہا تھا کہ جب قوم پر بے اندازہ ٹیکس لگیں ، ملک میں مہنگائی ہو  ، عام آدمی کی زندگی عذاب بن جائے تو سمجھ لو کہ حکمران چور ہے ۔۔۔۔
                        ۔۔۔۔۔۔۔۔



منگل، 17 مارچ، 2020

ایسی پردہ پوشی بھی جرم ہے جناب / کالم


ایسی پردہ پوشی بھی 
جرم ہے جناب 
(تحریر:ممتاز ملک. پیرس)


زینب کا قاتل پکڑا گیا...
اتنے دن سے جو  ہم تڑپ تڑپ کر صاحب اختیار کو متوجہ کر رہے تھے کہ یہ گندا آدمی  زینب کے اس کے خاندان کے ہی ارد گرد موجود ہے . یہ زانی یہ قاتل  جو مذہبی ادارے کا فعال رکن ہونے کا ڈرامہ سالہا سال سے بخوبی نبھا رہا ہے . آپ کے ساتھ نماز ادا کر رہا ہے 
آپ کے ساتھ محافل درود و  نعت  سجا رہا ہے،
ادارے کے کھڑپینچوں میں شامل ہے ،
طاہر القادری صاحب کی عقیدت میں تیسری صف میں گوڈے گوڈے ان کے  عشق میں غرق خود کو ظاہر کر رہا ہے .  وہی اپنے ساتھ بیٹھنے والوں کی عزتوں کو بڑے وحشی پنے  کیساتھ نہ صرف پامال کر رہا تھا بلکہ  ٹشو پیپر کی طرح  انہیں توڑ مروڑ کر کچرے کے ڈھیر پر  پہنچا رہا تھا ...
ادارہ منہاج القرآن کے لئے وقت آ چکا ہے کہ جناب علامہ طاہرالقادری صاحب اب اس بات  کو سمجھ جائیں کہ یورپ میں اسلام پھیلانے سے پہلے آپ کو پاکستان میں اسلام پھیلانے کی اشد ضرورت ہے .
آپ ایک بہترین عالم دین ہیں اور اس حیثیت  میں آپ اللہ کو زیادہ جوابدہ ہیں کہ آپ نے اپنے دور میں ایسے جرائم کی روک تھام اور ایسے بدکار پیدا نہ ہونے کے لئے کیا اقدامات کئے . کیا وہاں آپ خدا کو یہ جواز دیکر بخش دیئے جائیں گے کہ پردوردگار میں تو فل پروٹوکول لئے یورپ کے ٹھنڈے موسم میں لمبی لمبی گاڑیوں کے قافلے میں اسلام پھیلانے میں مصروف تھا . مجھے تو میرے گرد ہالہ کئے ہوئے ٹولے نے کبھی اپنے حصار سے نکلنے ہی نہیں دیا .....
علامہ صاحب  وقت آ گیا ہے کہ مجھ جیسے ادارہ منہاج القرآن میں سولہ سال کام کرنے والے جب بھی آپ کی انتظامیہ کی کسی کرتوت پر سوال اٹھاتے تھے تو راندہ درگاہ کر دئیے جاتے ہیں .
آپ سے زیادہ آپ کے کھڑپینچوں  اور اس ادارے سے وابستہ راتوں رات امیر ہونے والوں ،
اس ادارے میں کام کرنے والوں کے تباہ اور بے راہ روی  کا  شکار ہونے والی اولادوں...
مغرور اور بدتمیز  مردوزن کی خبر لیجئے  جو سچ بولنے اور سوال اٹھانے والوں کے خلاف باقاعدہ گروپ بنا کر اس کی کردار کشی کی مہم کا آغاز کر دیتے ہیں . جو جھوٹ منافقت میں سب سے اعلی  درجات پر فائز ہیں . سو سے زیادہ ممالک میں یہ تنظیم اگر ایسے ہی کارکنان پیدا کر رہی ہے . جو آپ کے نام کے ترانے گائے ،
آپ کے نام کی قوالیاں گا گا کر ، آپ کے پیروں  میں لیٹ لیٹ کر آپ کو سجدے کریں .. آپ کی فوٹو گھر گھر لگا کر  آپ سے وفاداری کا ثبوت پیش کریں ...
آپ کے اور آپ کے اہل خانہ کے پروٹوکول کے لئے ہر وقت لائن حاضر رہیں 
تو معذرت کیساتھ. ..آپ کو خود ابھی اپنی تربیت کی شدید ضرورت ہے .
میں بھی کبھی آپ کو اپنا روحانی باپ سمجھتی تھی لیکن آج اپنی اس سوچ پر خود ہی افسوس کرتی ہوں۔
برائے مہربانی اپنی منجھی کے نیچے بھی ڈانگ پھیرئیے ۔ ِ جو طرز زندگی آپ کا ہے وہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا کبھی نہیں تھا .  ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم  تک ہر ایک کی رسائی تھی جبکہ آپ تک کسی کا ملاقات کرنا تو چھوڑئیے اپنا پیغام پہنچانا بھی خواب و خیال ہے . 
کبھی پبلک سے ملاقات کی آپ نے ?
کبھی عام لوگوں میں کسی عام سی ریڑھی پر یا دکان پر کھانا کھایا آپ نے ؟
جو آپ کے گروپ کا حصہ بنا کیا صرف وہی مسلمان ہے ، جس نے اعتراض کیا اس کی عزت اچھالنے کا سرٹیفیکیٹ بھی آپ نے ہی جاری کیا ہے کیا ؟
میں جانتی ہوں میری اس تحریر پر ادارہ  منہاج القرآن کے سارے کھڑپینچوں نے  اپنے بدزبان لوگوں کو مجھ پر کیچڑ اچھالنے کے محاز پر لگا دینا  ہے ..
لیکن میں انہیں پھر بھی ان کے گریبانوں میں جھانکنے کا مشورہ دونگی ۔ حالانکہ میں جانتی ہوں کہ اس ادارے کے  مغرور اور بدتمیز اراکین کو کسی کے بھی مشورہ  سے شدید پرہیز ہے . اگر ایسا نہ ہوتا تو ان بیس سالوں میں مخلص ، سچے،  ایماندار اور باصلاحیت اراکین کو گھر نہ بھیج دیا جاتا ...ان کی اس طرح سے تذلیل کی مہم چلائی جاتی ہے کہ وہ ادارہ منہاج القرآن کا نام سنتے ہی کانوں کو  ہاتھ نہ لگاتے .. ..
لیکن  جا کر اپنے گھروں میں جھانکئیے  کہ آپ کے گھروں میں کتنا سکون ہے ؟ آپ کی اولادوں نے یہاں سے کتنی اخلاقی تربیت حاصل کی ہے ؟
انہیں بڑوں چھوٹوں سے بات کرنے کی کتنی تمیز آ چکی ہے ؟
کتنا دین سیکھا  ؟
یہاں پر نعت خوانوں کا کردار کتنا نیک ہے ؟
عہدیداران کی اپنی  شہرت کیسی ہے ؟
معلوم کیجئے : کتنے عمران  یہاں کتنے زینبوں پر بھیڑئیے جیسی  غلیظ نظریں  گاڑے بیٹھے ہیں . اور خود کو پکڑے  جانے پر ذہنی مریض  ثابت کرنے  کی کوشش  نہ تو اس کے جرم کو کم کر سکتی ہے نہ  ہی اسے  معصوم ثابت کر سکتی ہیں۔
خدا کے لئیے پردہ پوشی کے کھیل  اب ختم کیجئے ...
یا اس کی لئیے آپ کے کارکنان کو اپنے اپنے گھر میں کسی نہ کسی  زینب کے لٹنے کا  اور اس کے قتل ہونے کا انتظار کرنا پڑیگا؟؟؟؟؟
                     ۔۔۔۔۔۔

اتوار، 15 مارچ، 2020

کرو " نہ " / کالم


                 کرو " نہ"
           (تحریر:ممتازملک.پیرس)

ب

کرو نہ ۔۔۔ کا مطلب ہمارے نزدیک تو یہ ہے کہ ہر اس کام سے کرو"  نہ" جس سے رب کائنات نے روک رکھا ہے ۔ 
اللہ کی شان دیکھیئے کل تک جس دنیا مین مسلمان عورت کے نقاب کھینچے جا رہے تھے ۔ اس کے حجاب پر اعتراضات اٹھائے جارہے تھے ، اس کے پورے لباس پربھپتیاں کسی جا رہی تھیں ، مسلمانوں کے انداز زندگی پر تمسخر اڑایا جاتا تھا اسی دنیا میں آج ایک چھوٹے سے  جرثومے "کرونا" نے موت کا ایسا خوف بھر دیا ہے کہ جن عیاشیوں کو وہ زندگی کا مزا قرار دیا کرتے تھے اسی دنیا میں چمی جپھی پپی سب کچھ بند ، ننگ پنا بند ۔ 
جہاں مسلمان عورت کے نامحرم سے  ہاتھ نہ ملانے کو جہالت قرار دیا جاتا تھا وہیں کا میڈیا اب چیخ چیخ کر اعلان کر رہا ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے دور رہیں ، بوس و کنار سے پرہیز کریں اور دوسرے سے مصافحہ تک نہ کریں ۔چہرہ ڈھانپ کر رکھیں ۔۔۔ اللہ تیری شان ۔۔۔
دین اسلام پر آوازے کسنے والوں کی اپنی مادر پدر بے لگام طرز زندگی کو خدا کا خوف تو نہ بدل سکا لیکن موت کے خوف  نے کیسی لگام ڈالی ہے ۔۔ اسلام  ایک طرز ذندگی ہے ایک نظام حیات ہے ۔ جس میں کچھ بھی ہے تو بس خیر ہی خیر ہے ' بھلائی ہی بھلائی ہے ۔ دنیا کی ہر پاکیزہ چیز کو اللہ نے اپنے مسلمانوں کے لیئے حلال کہہ کر چن لیا ۔ پھر چاہے وہ پیدائش کا مرحلہ ہو یا موت کے بعد کا  واپسی کا سفر ۔ حلال خوشبودار اور لذیز پکوان ہوں یا خوبصورت ترین ستر پوش ملبوسات ہوں، اور بتایا کہ جو لباس آپ کے جسم کی پردہ پوشی نہیں کرتا وہ لباس ہی نہیں کہلا سکتا ۔ رشتوں کا حسن ہو کہ جس میں ایکدوسرے کے ساتھ حفاظت ،توقیر اور محبت کیساتھ باندھ دیا گیا ہے یا تعلقات کی نوعیت اور اس کا دائرہ ہو جو یہاں تک آپکو سکھاتا ہے کہ ایک نامحرم مرد و زن  سے بات کرتے ہوئے آپ کے تاثرات اور آواز کی رینج کتنی ہو کہ آپ دونوں ایک دوسرے کی جانب سے کسی بدگمانی یا خوش گمانی میں نہ پڑ سکیں اور یوں کسی  برائی کی راہ پر چلنے سے محفوظ رہ سکیں ۔ 
آج دنیا بھر کا غیر مسلم میڈیا چیخ چیخ کر اپنی جانیں بچانے کے لیئے خود کو اسلام ہی کے مطابق ملبوس ہونے کا سبق دے رہا ہے ۔ پورے کپڑے پہنو ، ایکدوسرے کیساتھ  ناجائز جسمانی تعلقات سے بچو ، ہر ایک سے چپکنے سے پرہیز کرو۔ جہاں جہاں قران پاک کی بیحرمتی جیسے واقعات ہوئے ان ممالک میں اسی قران پاک کے مطالعے  کو تجویز کیا جا رہا ہے۔ کیوں ؟   تاکہ تم فلاح پا جاو  ۔ پھر یہ فلاح مسلمانوں نے کیوں نہیں پائی؟ پائی تھی تب  تک جب تک وہ اسلام کے اس ضابطہ حیات پر عمل کرتے رہے پھر جیسے جیسے وہ اس کلام الہی سے دور ہوتے چلے گئے فلاح اور خیر بھی ان کی زندگیوں سے رخصت ہوتی چلی گئی ۔ آج دنیا بھر میں مسلم زوال کا سبب یہی تو ہے کہ مسلمان ہی آج مسلمان نہ رہا ۔ اس نے اپنے آپ کو فلاح کے بدلے دنیا خرید کر آسودہ کرنے کی کوشش کی ۔ گویا اس نے ہیرے دیکر کوئلے خرید لیئے ۔ اسی سبب آج اس کا منہ بھی کالا ہو گیا اور دل بھی ۔۔۔
کرونا وائرس تیرا شکریہ تو نے لوگوں کو اللہ کا پیغام پھر سے سننے اور سمجھنے کے لیئے مجبور کر دیا ہے ۔ اللہ جو چاہے کر سکتا ہے جس سے جو چاہے کروا سکتا ہے ۔ پھر وہ نظر نہ آنیوالا کرونا ہی کیوں نہ ہو۔ اسے بھی اس دنیا کے باسیوں کی بقا اور فلاح کے لیئے حرکت میں آنا ہی پڑا ۔ غلیظ اور مردار خوراکیں ، فیشن اور جدت کے نام پر ننگ دھڑنگ جسم ، آذادی کے نام پر  کھلی جسم فروشی ، ترقی کے نام پر  اعلانیہ ضمیر فروشی ، رشتوں کے نام پر جہاں رات ہوئی وہیں اسی کیساتھ  سو جاو کا دھندہ  ، کہیں ہم جنسی کی آگ لگی ہوئی ہے اور قانون فطرت کا مذاق اڑایا جا ریا ہے اسے قانونی تحفظ دینے کے نام پر  اللہ سے ٹکر لی جا رہی ہے ۔۔اللہ کے غضب کو بار بار آواز ہی تو دیتا ہے ۔ پھر ہم اللہ کے لیئے باز نہیں آتے بلکہ موت کے ڈر سے چار روزہ پرہیز شروع کر دیتے ہیں ۔۔
دنیا بھر میں باحیا مسلمان عورت اور مرد  کو  یہ بےضمیر لوگ جبرا بے لباس کرتے ہیں  تو وہاں ان کے مرد و زن شیطان کی پیروی میں اپنے ہی ہاتھوں  خوشی سے بے لباس ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ دنیا میں جہاں یہ اپنے نفس کی تسکین کے لیئے مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کٹواتے ہیں وہیں ان کے ممالک میں اپنے ہی اعمال کے سبب کوئی نہ کوئی ایڈز ، ایبولا ،  کرونا لاشیں بچھاتا چلا جاتا ہے ۔ ہے نا کمال کی بات ۔۔ تو بس جان لیجیئے کہ ایک اللہ ہی ہے جو کن کہہ کر کائناتیں تخلیق فرماتا ہے ۔ 
پانی کی بوند سے پورا انسان تخلیق کرتا ہے ، کالی بھینس میں سے  گھاس پھونس کھلا کر بھی سفید و شیریں دودہ پیدا کرواتا ہے ،  زمین کا سینہ پھاڑ کر ہمارے لیئے رزق پیدا فرماتا ہے ، پانی سے بادل بناتا ہے اور پھر اسے جہاں چاہے گھماتا ہوا لیجاتا ہے اور جہاں چاہتا ہے وہاں برسا کر جل تھل کرتا بنجر زمینوں کو سیراب کر دیتا ہے ۔ 
اور پوچھتا ہے کہ بتاو 
"پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاو گے "
    (سورہ الرحمن: 55/16) 
                    ۔۔۔۔۔۔۔

ہفتہ، 7 مارچ، 2020

اور کیا کیا دکھانا چاہتی ہو / کالم


    اور کیا کیا دکھانا چاہتی ہو؟
      (تحریر:ممتازملک۔پیرس)



کھلے بال ، ننگے سر ، ننگے بازو، ننگے پیٹ، ننگی کمر، ہائی وے جیسے گلے،  ننگی ٹانگیں ،  ٹھسے ہوئے تنگ کپڑے اور ان سے بھی جھانکتے زیر جامے ۔۔لعنت ہے ایسی عورتوں پر اور اس کو دیکھنے والے اسکے وارث مردوں پر بھی ۔۔۔
واقعی ایک عورت چار مردوں کو اپنے ساتھ جہنم میں لے کر جائے گی ، اس کا باپ ، بھائی ، شوہر اور بیٹا ۔یہ پیکج ہے اللہ کا دیا ہوا ، یعنی ایک عورت حیادار اور پورے ستر میں آ گئی باکردار رہی  تو انہیں چار مردوں کو جنت میں بھی اپنے ساتھ لیکر جائے گی ۔
اور کیا کیا ننگا کرنا چاہتی ہیں یہ بد کار ذہنیت کی حامل فاحشائیں ۔ 
کوئی یہ کہے کہ نائٹ کلب میں جانے والی عورتیں اور مرد شریف باحیا اور با کردار ہوتے ہیں تواس پر یا تو زوردار قہقہہ لگایا جا سکتا یے یا اس کی عقل پر ماتم کیا جا سکتا ہے۔
ان حیوانوں کے خلاف یہ طوائفیں کیوں نہیں نکلیں ؟ ان کی حفاظت میں کیوں نہیں کارڈز اٹھائے  ؟
 جو معصوم بچیوں  کی آبروئیں برباد کر کے انہیں موت کی نیند سلا رہے ہیں  یا ان عورتوں کو جو  کہ رشتے سے انکار کا اپنا حق استعمال کرنا چاہتی ہیں  اور اپنی زندگی کے شادی ، تعلیم اور روزگار جیسے بنیادی حقوق لینا چاہتی ہیں  یا اپنے باپ اور شوہر کی جائیداد سے اپنا جائز حق وصول کرنا چاہتی ہیں، لیکن قتل کر دی جاتی ہیں یا تیزاب گردی کا شکار بنا لی جاتی ہیں ۔ ان کے لیئے یہ موم بتی مافیا اور یہ فاحشائیں کیونکر سڑکوں پر آئینگی کیونکہ وہ سب ان کی طرح  بے لگام اور بے مہار زندگی کی تمنا نہیں رکھتیں بلکہ اپنی عزت ، جان اورمال کے تحفظ کے جائز حقوق کی حصول کی جنگ میں خود کو قربان کر دیتی ہیں ۔  سڑکوں پر امڈتی ہوئی مٹھی بھر زر خرید  غیر ملکی ایجنڈوں پر ناچتی ہوئی عورتیں جو باحیا اور محنت کش عورتوں کے خاندان تباہ کرنے والی مہم   اصل میں  یہ جنگ تو بے حیائی کی اڈوں کی اشتہاری مہم ، جس میں کسی شریف عورت کی نہ تو آواز شامل ہے اور نہ ہی وہ ان کے ارادوں میں  کسی طور سے شمولیت گوارہ کرتی پے ۔  
انہیں کپڑوں سے آذادی چاہیئے، 
باپ بھائی شوہر کے رشتوں سے آذادی چاہییے، ہر عورت ان کی پیروی میں طوائف بن جائے یہ ہے ان کا ایجنڈا اور بس۔
دنیا میں کہاں  کیا ہو رہا ہے یہ ہمارا سر درد  نہیں ہے ۔ ہمارا سردرد ہمارے ملک پر اثرانداز ہونے والی حقیقتیں ہیں ۔ چاہےوہ ہمارے مذہب پر حملہ ہو یا ہماری ثقافت پر ہمیں قبول نہیں ہو سکتا ، کیونکہ یہ یی چیزیں آپکو دنیا کے دوسرے ممالک سے ممتاز  و منفرد کرتی ہیں ۔ مگر ٹہریئے یہاں تو بات ہمارے مذہب اور خدا کے حکم سے جا ٹکرائی ہے اس کا علاج اب لازم ہے ۔ 
پاکستان کا لفظی مطلب ہی ہمیں اس کی اساس سمجھا دینے کے لیئے کافی ہے یعنی پاک ستان مطلب  پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ ۔اس کا مطلب کہیں بھی کسی مذہب سے وابستہ نہیں کیا گیا لیکن اس کی معنویت اسے ہر مذہب کے انسان کے رہنے کا ٹھکانہ بناتی ہے ۔شرط صرف ہے تو اس کی پاکیزگی کی ہے ۔ اور یہ ہی پاکیزگی اس کے کردار سے جھلکتی ہے اور کردار کا پہلا آئینہ اس کا لباس ہو گا ۔ جو اس کے بارے میں دیکھنے والے کی پہلی رائے قائم کرتا ہے ۔ جو یہ فرماتے ہیں کہ دل پاک ہونا چاہیئے لباس سے کیا فرق پڑتا ہے تو انہیں یہ اطلاع بہم پہنچا دی جائے کہ دل کا حال صرف اللہ ہی جانتا ہے ہم انسان جو دیکھتے ہیں  اسی پر اپنی رائے بنانے کی قدرت رکھتے ہیں ۔ لہذا اپنے لباس کو مکمل اورحیادار رکھنا ہی انسان کی شرافت کا پہلا اعلانیہ ہوتا ہے ۔ اس کے بعد اس کے کردار کی عظمت کو جانچا جائے گا کہ وہ اپنے رشتوں سے کتنا مخلص ہے ؟  اور اگر وہ ان رشتوں ہی سے بیزار ہے ، اپنے لباس سے  ہی تنگ ہے تو اسے وہیں جا کر آباد ہو جانا چاہیئے جہاں سب ان چیزوں سے بیزار لوگوں کا ٹھکانہ ہے  ۔ 
ایسے بےمہار مرد و زن اگر کسی رشتے کے قابو میں آنے کو تیار نہیں ہیں تو انہیں اٹھا کر یا اپنے ملک کی سرحد سے باہر پھینک دیا جائے یا  پھر اس جہان سے ہی رخصت کردیا جائے  
مردوں سے بیزار عورتوں کا ایک شہر بھی بسایا جا سکتا ہے جہآں کا رخ کوئی بھی مرد کرنا اپنے لیئے حرام کر لے ۔ چار ہی دنوں میں ان عورتوں کے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے ۔ کہ اللہ نے ہر جنس کی اپنی جگہ اور ضرورت رکھی ہے اور جو ان کے خلاف جا کر غیر فطری تقاضے کرتے ہیں وہ برباد ہی ہوا کرتے ہیں ۔ پاکیزگی اور ناپاکی کبھی ایک جیسے نہیں ہو سکتے ۔  شہد خواہ کتنا ہی پاکیزہ ہو اسے  گندے چمچ میں بھر کر اپنے منہ میں رکھنے کی کوشش کوئی نہیں کرے گا ۔ اسی طرح ایک وقت میں انسان یا تو پاک ہوتا ہے یا غلیظ ۔ گویا وہ ناپاک لباس میں ہو یا کردار میں ، کچرہ ہی بن جاتا ہے انہیں گھروں سے باہر ہی پھینکنا بنتا ہے ۔ 
 کیوں کچرا گھروں میں نہیں رکھا جاتا اس کا مقدر صرف کوڑے دان ہی ہوتا ہے ۔ 
                      ۔۔۔۔۔۔۔


جمعرات، 13 فروری، 2020

سرکاری کوارٹرز یا زمینی قبضہ/ کالم


  سرکاری کوارٹرز یا زمینی قبضہ
        (تحریر: ممتازملک.پیرس) 


ہمارے ملک میں سرکاری ملازمین کے لیئے گھروں کی  الاٹمنٹ  کا سلسلہ بہت پرانا ہے ۔تقریبا سبھی سرکاری محکمے اپنے ملازمین کو ان کے سکیل کے حساب سے رہائشی کوارٹرز الاٹ کرتے ہیں ۔ اکثر ایسے کواٹرز کا زمینی حساب لگایا جائے تو یہ  ایکڑوں کے حساب سے بنتی ہے ۔ یہ سب  سنگل گھر زمین پر دو یا تین ڈبہ ٹائب کمروں کی شکل میں بنے ہوتے ہیں ۔ ان کواٹرز کا غیر معیاری طرز تعمیر اور اس میں رہنے والے لوگوں کا غیر معیاری زندگی گزارنے پر مجبور ہونا انتہائی افسوسناک ہے ۔ یہ صرف ارباب اختیار کی نااہلی یا پھر ان زمینوں پر قبضے کی جانب ہی ایک واضح اشارہ ہے ۔   اب جبکہ شہروں میں  آبادی کے سونامی سے  زمین کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں ۔  وہاں پر کھربوں روپے کی یہ زمین نہ صرف ملک بھر کے شہروں میں بلکہ وفاقی دارلحکومت  اسلام آباد میں بھی سرکاری کوارٹرز کے نام پر چند ہزار لوگوں کے تصرف  میں ہیں  ۔ آج جبکہ فلیٹ سسٹم کے تحت ان بے ڈھنگے اور بے طریقہ بنے ہوئے مکانات کی جگہ  تین چار کمروں کا ان سے بہتر اچھے نقشے کیساتھ بنا ہوا گھر انہیں سرکاری خزانے پربوجھ کم کرتے ہوئے دیا جا سکتا ہے تو پھر ہزاروں ایکڑز پر مشتمل ان زمینوں کو فارغ کیوں نہیں کروایا جاتا ؟  پچاس کوارٹرز جس زمین پر جھگیوں کی طرح پھیلا کر بنائے گئے ہیں جس میں  دو سے تین سو لوگ ایک برا طرز زندگی گزارنے پر مجبور ہے ، بہت زیادہ زمین گھیر کر بیٹھے ہیں ،  اس کی جگہ  اگر اسی زمین کی آدھی جگہ پر شاندار سی کثیر المنزلہ عمارت تعمیر کر دی جائے جس میں تمام جدید سہولیات بمعہ لفٹ کے دیدی جائیں اور بقایا زمین پر ایک خوبصورت سا پارک ، سکول ، کالج اور مسجد اسی عمارت کے لوگوں کے لیئے بنا دیا جائے تو یہ کس قدر صحت بخش منصوبہ ہو گا ۔  اس میں اس عمارت میں بسنے والے سبھی لوگوں کے لیئے مین گیٹ لگنے سے ان کی (خصوصا خواتین اور بچوں کی ) حفاظت بھی بہت بہتر ہو جائیگی ۔ حکومت پاکستان کو اپنے سرکاری ملازمین کو دی جانے والی سہولیات کے لیئے ایک الگ سے وزارت کا اہتمام کرنا چاہیئے  تاکہ ان سے متعلق رہائش ، پنشن ، بیماری ، ان کے بچوں کی تعلیم ،شادیاں اور ایسے ہی تمام مسائل پر باقاعدہ تحقیقات آسان ہو سکیں اور ہر حقدار کو اس کا جائز حق درست انداز میں اور درست وقت پر مل سکے ۔ ایسا کرنے کی صورت میں یہ ملازمین اپنے ان ذاتی مسائل سے بے فکر بھی ہو سکیں گے اور زیادہ سکون اور  ایمانداری کیساتھ اپنے تمام پیشہ ورانہ فرائض بھی ادا کر پائیں گے ۔ ان میں ان تمام مسائل کے باعث پیدا ہونے والی لالچ کو روکنے میں مدد ملے گی اور کرپشن اور رشوت کی لت کو کم کیا جا سکے گا ۔  اور جو بعد بھی کرپشن میں ملوث  ہوئے  انہیں بلا چون و چرا پھانسی دیدی جانی چاہیئے ۔ 
 ملک کی ہزاروں ایکڑ زمین واگزار کروائی جا سکے گی ۔ صفائی کے معیار میں بہتری آئے گی ۔ خواتین اور بچوں کیخلاف جرائم میں بھی کسی حد تک کمی آئیگی ۔ 
 صحت کا معیار بھی بلند ہو گا ۔ اور شہر کی خوبصورتی میں بھی اضافہ ہو گا ۔ 
                     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منگل، 4 فروری، 2020

شادی سے فرار / کالم



            شادی سے فرار
        (تحریر:ممتازملک۔پیرس )

ہر زمانے میں کچھ آسانیاں ہوتی ہیں اور کچھ مسائل ، جن سے ہمیں بہرحال نبٹنا پڑتا ہے ۔ ایسے ہی آج بھی ہمیں بہت سے مسائل درپیش رہتے ہیں ۔ ان میں ایک مسئلہ وقت پر شادیوں کا بھی ہے ۔ درست وقت کونسا ہے؟ جب ایک نوجوان کو اپنا گھر بسا لینا چاہیئے تو ظاہر ہے اکثریت  کا جواب تقریبا یہی ہو گا کہ جب لڑکے اپنی تعلیم مکمل کر لیں اور برسر روزگار ہو جائیں ۔ بلکہ اب تو لڑکیوں کے لیئے بھی اسی اصول کو بہتر سمجھا جاتا ہے ۔ تاکہ وہ اپنی زندگی میں معاشی مشکلات کا شکار نہ ہوں ۔ اس اچھی سوچ اور آج کے زمانے میں پہلے سے کہیں زیادہ اچھے مواقع ہونے کے باوجود کیا وجہ ہے کہ خاص طور پر لڑکے وقت پر شادیوں کے لیئے رضامند نہیں ہوتے ؟ مائیں سالہا سال دنیا بھر کی لڑکیوں  کے گھروں میں جھانک جھانک کر انہیں مسترد کرتی ہیں یہ تو سنا ہی ہو گا لیکن لڑکے باآسانی شادی کے لیئے تیار کیوں نہیں ہو رہے ۔ انہیں ایسی کونسی مخلوق کی تلاش ہے جو انہیں آئینے میں اپنی شکل دیکھنے کی فرصت بھی نہیں دیتی ۔ لنگور جیسی شکل کے لڑکے حور جیسی لڑکیوں میں نقص نکال نکال کر انہیں مسترد کر رہے ہوتے ہیں ۔ اب کوئی یہ کہے کہ رشتے تو آسمانوں پر بنتے ہیں اور اس کا وقت مقرر ہے تو یقینا یہ درست ہے لیکن یہ اسی طرح درست ہے جیسے موت کا وقت تو اللہ کے ہاں مقرر ہے تو پھر لوگ خودکشی کر کے کیوں مرتے ہیں؟  جبکہ اللہ نے ہی خودکشی حرام بھی قرار دے رکھی ہے ۔ تو اسی طرح شادی بیاہ کے معاملات بھی آپ کی نیت کے منتظر ہوتے ہیں ۔ جنہیں گھر بسانا ہوتا ہے وہ دوچار لوگوں سے ملتے ہیں ، اور  ان میں سے کسی کو چن کر چند ماہ میں ہی رشتے جوڑ لیتے ہیں ۔ لیکن 
جو لڑکے چار چار، پانچ پانچ بار منگنیاں ،  نکاح  یا  شادیاں کر کے توڑ چکے ہوں ان کے بارے میں غور کیجیئے کہ ان کی مائیں بہنیں کس مزاج کی خواتین ہیں جو کسی لڑکی کو بہو بنا کر گھر لانے کی نوبت نہیں آنے دے رہیں ؟ یا کہیں وہ لڑکا خود ہی شادی کے بندھن سے باغی تو نہیں ؟
کہیں وہ لڑکے ہم جنس پرست تو نہیں ؟ 
کیونکہ ایک نارمل لڑکا جو اپنی تعلیم سے فارغ ہو چکا ہو ،  برسر روزگار ہو ، مناسب کما رہا ہو ، وہ ہمیشہ یہ چاہے گا کہ جلد ہی وہ اپنا گھر بسا لے ۔ اپنی اولاد کو کھلائے، 
یہ ہی بات لڑکیوں میں بھی غور طلب ہے ۔ گو کہ اس کی شرح لڑکوں کے مقابل بہت کم ہے لیکن یہ ماننا پڑیگا کہ کہ بدلتے زمانے کے عذابوں میں سے یہ بھی ایک عذاب ہے جو ہمیں جھیلنا پڑتا ہے ۔  ان وجوہات پر دھیان دینے کی ضرورت ہے ۔ ان لوگوں کو کسی نفسیاتی ماہر سے مشاورت بھی ضرور کرنی چاہیئے ۔ دین سے دوری اور مادر پدر آذاد طرز زندگی بھی اس کی بہت بڑی وجہ ہو سکتی ہیں ۔ لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کو ہی اپنے والدین سے اس حد تک قربت ہونی چاہیئے کہ وہ ان سے کھل کر اپنے مسائل پر بات اور جذبات کا اظہار کر سکیں ۔ اب یہ کرو اور یہ مت کرو کا زمانہ نہیں رہا ۔ شرم ، حیا ،جھجھک  اب تقریبا  قصہ پارینہ بنتے جا رہے ہیں ۔ اس لیئے زندگی کی اہم باتوں پر والدین کو بھی  اپنی اولادوں کیساتھ سیدھے الفاظ میں اور کھل کر بات کرنی چاہیئے ۔ لڑکی کو اپنی ماں اور بہن کیساتھ  جبکہ لڑکے کو اپنے والد اور بھائی کیساتھ اپنے مسائل پر مشاورت کرتے رہنا چاہیئے ۔ اور سچ پوچھیں تو بہن اور بھائی سے بھی زیادہ بھروسہ آپکو اپنے والدین پر ہونا چاہیئے ۔ کیونکہ وہی آپکو ہمدردانہ مشورہ دے سکتے ہیں ۔ وقت پر شادیاں جہاں طبی لحاظ سے ضروری ہیں وہیں  معاشرتی طور پر بھی آپ اپنی جوانی اور صحتمندی کے وقت میں ہی  اپنی اولاد کو اپنے سامنے جوان ہوتا ہوا دیکھ سکتے ہیں ۔ ان کے بڑے ہونے کے وقت کو دوستوں کے طرح پرلطف انداز میں جی سکتے ہیں ۔  اب اس عمر میں بچے گود میں لیکر گھومنے کا کیا فائدہ جب دیکھنے والے اسے آپ کا بچہ ماننے کے بجائے آپ کا نواسہ یا پوتا سمجھ رہے ہوں اور آپ کھسیانے انداز میں خود کو ان کے سامنے جوان ثابت کرنے کہ کوشش کر رہے ہوں ۔ آپ کے بچے آپ کے ہی بچے لگیں تو ہی اچھا لگتا ہے ۔ باقی آپ کی مرضی ۔ 
                     ۔۔۔۔۔۔۔۔

منگل، 28 جنوری، 2020

● شاپنگ ایک عالمگیر مرض / کالم




        (شاپنگ ایک عالمگیر مرض)
           (تحریر: ممتازملک.پیرس)



  ۫ ۖوَ لَا تُسۡرِفُوۡا ؕ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الۡمُسۡرِفِیۡنَ (141)(سورہ۔6۔ الاانعام )
فضول خرچی نہ کیا کرو ، بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔
ایک اور جگہ فرمایا:
وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِيرًاO إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُواْ إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًاO
’’اور قرابتداروں کو ان کا حق ادا کرو اور محتاجوں اور مسافروں کو بھی (دو) اور (اپنا مال) فضول خرچی سے مت اڑاؤo بیشک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہےo‘‘
 بنی اسرائيل، 17 : 26، 27
اسی طرح۔۔۔
اس قدر کنجوس مت بنو کہ ہاتھ اپنے گریبان سے باندھ لو اور اس قدر شاہ خرچ مت بنو کہ برباد ہو جاو ۔ جی ہاں یہ بھی اللہ پاک کی جانب سے نازل کی جانے والی ایک آیت کا مفہوم ہے ۔
ہم میں سے اکثر لوگ ایک خوفناک مرض میں مبتلا ہیں لیکن انہیں اکثر اس کا علم ہی نہیں ہو پاتا لیکن ہاں ایسے لوگوں کی سب سے بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ ان کی زبان سے اکثر ایک جملہ تواتر سے سنائی  دیتا رہیگا کہ " اللہ جانے ہمارے حالات کب بدلیں گے؟"
آج سے بہت زیادہ دور نہ بھی جائیں تو کم از کم اس وقت تک جب تک کہ ٹی وی کی ہماری زندگیوں میں آمد نہیں ہوئی تھی ، ہم لوگوں کے گھروں سے مہینے میں ایک ادھ بار ہی بازار جایا جاتا تھا اور ضرورت کی وہ تمام اشیاء جو پورے مہینے نوٹ کر لی گئیں یا یاد کروائی گئیں  مخصوص  دکانوں سے خرید کر  اپنے گھر کی راہ لی جاتی ۔ اس سامان میں گھر کے راشن کے ساتھ کوئی کپڑا لتہ ضروری ہوتا یا کوئی سوئی سلائی کا سامان چاہیئے ہوتا تو وہ بھی آ جاتا۔ کیونکہ اس وقت تک گھر کی خواتین کو بلکہ حضرات کو بھی وہ کئی امراض لاحق نہیں ہوئے تھے  جو آج ہماری معاشرت کو لاحق ہو چکے ہیں ۔ ٹی وی کے آنے کے بعد تو اشتہارات کہ بھرمار اور اکسا اکسا کر، ترسا ترسا کر سامان بیچنے کی ایسی دوڑ شروع ہوئی کہ الامان اور الحفیظ ۔ 
اس پر بھلا ہو انٹر نیٹ کا اور موبائل کی آمد کا، کہ مردوزن نے اسے اپنا ایسا اوڑھنا بچھونا بنایا کہ زندگی کا ہر رنگ اس کے سامنے پھیکا پڑ گیا ، ہر رشتہ اس کے آگے کمزور کر دیا گیا ۔ یقین نہ آئے تو کسی  کا بھی چلیئے اپنے کسی بچے سے ہی اس کے ہاتھ کا موبائل تو لیکر دکھا دیں ۔ وہ ایسا سیخ پا ہو گا کہ اپنے ماں باپ چھوڑنے کو تیار ہو جائیگا لیکن فون چھوڑنے کو تیار ہر گز نہیں ہو گا۔ 
 ہم موبائل یا انٹر نیٹ کے مخالف بھی ہر گز نہیں ہیں۔ لیکن اس کے بیجا اور بے مقصد استعمال کو نہ صرف صحت کے اصول سے غلط سمجھتے ہیں بلکہ معاشرتی طور پر اس کا منفی اثر  توڑنا ضروری سمجھتے ہیں ۔ اس انٹر نیٹ پر ہماری جان کو لگی ہوئی فضول خرچی کے مرض کو اور زیادہ بے قابو کر دیا ہے ۔ اس پر کھلے نیٹ شاپنگ کے نام سے اب جو چیز فوٹو میں دکھ گئی بس اس کا خریدنا ایسا ہی ہے جیسے انگلیوں میں خارش ہو اور اسے کھجا لیا جائے۔ 
چیز گھر پہنچتی ہے تو اکثر معلوم ہوتا ہے کہ یہ کیا  کچرا منگوا لیا ہے ؟ بھئی اس کی کیا ضرورت تھی؟ سیل کے نام پر پھر جو رکا ہوا فیشن سے آوٹ ہوا مال بیچا جاتا ہے اس کی الگ ہی کہانیاں ہوتی ہیں ۔ لیکن ہمارے ہاں خصوصا خواتین ایکدوسرے کا سر منہ توڑ کے ایکدوسرے کے گریبان پھاڑ کر ان پر ایسھ جھپٹتی ہیں جیسے دنیا میں یہ ہی جوڑا ، جوتا یا زیور انکی زندگی کی آخری خواہش اور  گارنٹی ہے یہ انہیں نہ ملا تو دنیا میں آنے کا مقصد ادھورا رہ جائے گا ۔ یی انہیں کو دیدیں  ورنہ سمجھ لیں کہ ابھی ان کا دم نکلا کہ نکلا ۔۔۔
چاہے ان کے گھر مین کتنا ہی ضروری کام اس پیسے سے ہونا باقی ہو ، کسی بیمار عزیز کی دوا دارو ضروری ہو ، شوہر کوئی ضروری بل جمع کروانے کے لیئے دوستوں سے ادھا مانگ رہا ہو،  رشوت لے رہا ہو ، کوئی اور ناجائز زریعہ ڈھونڈ رہا ہو لیکن نہیں خاتون کو اپنا وہی تعیش پورا کرنا ہے تو کرنا ہے،  ضروریات جائیں بھاڑ میں ۔۔ کہیں مردوں کو ہر سال موبائل ، ٹی وی یا اور ایسی چیزوں کے جدید  ماڈلز لینے کا مرض لاحق ہو گیا یے ، کسی کو مہنگے برانڈ کے سگریٹ ،سگار ، یا کوئی اور لت لگ گئی ہے  تو وہ ساری کمائی اس پر اڑانا فخر سمجھتا ہے چاہے گھر میں  دال روٹی کے لالے پڑے ہوں ۔ ان تمام لوگوں کو مرض خریداری لاحق ہوتا ہے ۔شاپنگ کا نشہ جو انسان کو اکیلے نہیں اس کے پورے خاندان سمیت لے ڈوبتا ہے ۔ سوچیئے اور غور کیجیئے آپ نے اپنے گھر میں کتنا سامان خرید خرید کر ٹھونس رکھا ہے جو بعد میں ضائع ہو گیا ، اس کی ضرورت ہی نہیں تھی ، وہ آپ کے استعمال کے لیئے تھا ہی نہیں  ، اس کے خریدنے کی کوئی وجہ ہی نہیں تھی ، اس پیسے کو جمع کر کے کوئی بچت اکاونٹ کھولا جا سکتا تھا ۔ جس پر آپکو ماہانہ آمدنی ہو سکتی تھی یا اسے فکس کروا کے کل کو کوئی گھر خریدا جا سکتا تھا۔ کوئی کاروبار کیا جا سکتا تھا ۔ بچوں کی تعلیم اور  شادیوں میں کام میں لایا جا سکتا تھا ۔ اپنے حالات کو نہ بدلنے میں آپ خود زمہ دار ہیں کیونکہ کمانا جتنا مشکل ہے سوچ سمجھ کر خرچ کرنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے ، لیکن یہ ہی مشکل کام ایک بار کرنے کی عادت پڑ جائے تو حالات بدل دیتی ہے ۔  ہر وقت حالات کا رونا  رونے کے بجائے سوچ سمجھ کر خرچ کرنے کی عادت ڈالیئے ۔ اس سے انسان نہ تو کسی کا مقروض ہوتا ہے اور نہ ہی کسی کے سامنے شرمندہ ہونا پڑتا ہے ۔ شاپنگ کا مرض ہی تباہی کی بنیاد ہوتا ہے ،  فضول خرچ اللہ کی نظر میں بھی شیطان کا بھائی ہوتا ہے اور شیطان کے بھائی کو سکون کیسے مل سکتا ہے ۔
                      ۔۔۔۔۔۔ 

جمعہ، 24 جنوری، 2020

● بے تاج شہزادہ / کالم




             بے تاج شہزادہ 
      (تحریر:ممتازملک.پیرس)


ہم اکثر سوچتے ہیں کہ وہ کون سے لوگ ہیں جن کی وجہ سے اب تک یہ دنیا چل رہی ہے یا قائم ہے ۔ پھر ہمارے ذہن میں ہمیشہ  ہی اللہ والوں کا خیال آتا ہے یا ان لوگوں کا جو دنیا سے الگ کسی گوشے میں بیٹھے ہر چیز سے لاتعلق زندگی سجدوں میں گزار دیتے ہیں ۔ ہاں یہ سچ ہے لیکن دنیا میں ایسے لوگ کتنے ہونگے شاید اتنے ہی جتنے انگلیوں پر گنے جا سکیں ۔ اور پھر جس زندگی سے اللہ کی مخلوق کا کوئی بھلا نہ ہو وہ چاہے سجدے میں گزار دی جائے یا کسی میکدے میں ، کیا فرق پڑتا ہے ۔ اگر فرق نہ پڑتا تو اللہ نے اپنے حقوق سے پہلے ہم پر اپنی مخلوق کا ، اپنے انسانوں کے تئیں حقوق کی ادائیگی  کا حکم نہ دیا ہوتا ۔۔ دنیا ایک مقناطیسی کشش رکھنے والی جادونگری ہے اور اس میں آج تو کامیابی کا  ایک ہی منتر ہے اور وہ  ہے  پیسہ ۔ کتنا ؟ اسکی کوئی حد نہیں ہے ۔ 


لیکن قارون جیسے لوگوں کے انجام نے بھی یہ ثابت کر دیا کہ زندگی اگر ضرورت میں رہے تو وہ تو فقیر کی بھی پوری ہو جاتی ہے اور اگر تعیش میں چلی جائے تو بادشاہوں کی بھی ادھوری رہ جاتی ہیں ۔ ۔۔
پیسے کے عشق میں جہاں آج کی دنیا میں ہم اپنے رشتے بیچ رہے ہیں ، اپنی عزتیں نیلام کر رہے ہیں ، اپنی محبتوں کو سولی چڑھا ریے ہیں اور خدا کو یہ کہہ کر چیلنج کر رہے ہیں کہ جب مریں گے تو دیکھی جائیگی ۔۔۔۔
وہیں اسی آج کی دنیا میں سب سے مقبول اور پسندیدہ برطانوی  شاہی خاندان  ، کہ جس میں شامل ہونے کے لیئے ہی نہیں ، صرف ان سے ملنے  اور دیکھنے کے لیئے بھی  لوگ مرے جاتے ہیں ، جہاں پر ایک تھی شہزادی ڈیانا ، جس نے عام سے گھر سے اٹھ کر شہزادی کا مرتبہ حاصل کیا ، اور پھر اس تاج کو ٹھکرا کر انسانیت کی بھلائی کے کاموں میں اپنا حصہ ڈال کر یہ سبق دیا کہ لوگ تاج کے نہیں بلکہ تاج اچھے لوگوں کا محتاج ہوتا ہے ، اسی شہزادی ڈیانا کے بیٹے ہیری نے عام سی صورت والی ، طلاق یافتہ ، خود سے تین برس بڑی عورت میگھن مارکل سے شادی کر کے  محبت اور انسانیت کی ایک خوبصورت مثال پیش کی، تو محض تین سال میں ہی اس بیوی  میگھن کیساتھ مل کر دنیا کے لیئے ایک مثالی فیصلہ کر لیا کہ نہیں جینا محنت کشوں ، مزدوروں کے خون پسینے کی کمائی سے نچوڑے ہوئے ٹیکس کے مال پر ، کہ وہ کمائیں اور ہم شاہی محلوں میں بیٹھ کر ان کے مال پر عیش کریں ۔۔ واللہ آج کی دنیا میں جب بھائی بھائی کے یتیم بچوں اور اسکی بیوہ کے سر پر سے گھر کی چھت چھین لیتا ہے اور اف نہیں کرتا ، بہنوں کے مال پر نگرانی کے بہانے ڈاکے ڈالتا ہے اور شرمسار نہیں ہوتا ، باپ کی چھت بیوہ ماں کے انگوٹھے  دھوکے سے لگوا کے باہر باہر ہی اسے بیچ کر بھاگ جاتا ہے اور اسے غیرت نہیں آتی کہ اس کی ماں سڑک پر کھڑی بھیک مانگ کر روٹی کھانے پر مجبور ہو گئی ہے ،اسے شرم سے موت نہ آئی ، اسی آج کی دنیا میں شہزادہ ہیری اور اس کی بیوی میگھن یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ہم پر محل میں رہنے کے دوران جو چوبیس لاکھ پاونڈز خرچ ہوئے ہیں وہ سب ہم قرض سمجھ کر تھوڑے تھوڑے کر کے خزانے کو واپس لوٹائیں گے کہ اب ہم اپنے ضمیر پر مذید یہ بوجھ برداشت نہیں کر سکتے کہ ایک ایک سکے کے لیئے محنت کرنے والی عوام کے مال پر عیش کریں، اس کے بجائے ہم ان کے جیسے ہی گھر میں رہیں گے ان جیسی ہی محنت کرینگے ، ان جیسے ہی مسائل کا سامنا کریں گے اور اسی عام آدمی کیساتھ ، ایک عام آدمی کی سی زندگی گزاریں گے ۔ 
بطور مسلمان یہ سبق ہمیں ہمارا  دین سکھاتا ہے لیکن افسوس اس کا عملی ثبوت ہر بار ہمیں کوئی غیر مسلم ہی کیوں پیش کرتا ہے ۔ ہیری اور میگھن نے آج کے انسانوں کو وہ پیغام دیا ہے جو ہمارے نبیوں اورولیوں نے ، جب سے دنیا بنی ہے ہمیشہ ہمیں دیا ہے ۔ لیکن پھر بھی ہم میں سے ہر ایک نہ ہیری بننے کا حوصلہ رکھتا ہے نہ ہی میگھن بننے کی خواہش  ۔ آج بھی ان کے اس اقدام پر ہزاروں لاکھوں جوان انہیں احمق بھی قرار دے رہے ہونگے اور بیوقوف بھی ۔ ان کی تعریف میں لفاظی کرنے والوں کو بھی ان کی تقلید کرنے کا کہیں گے تو کبھی اس پر آمادہ نہیں ہونگے کیونکہ ان کی بنیاد میں ہر رشتے اور احساس سے اوپر پیسے کا عشق ہی سوار ہے ۔ وہ اس سکون کو ، اس بلندی کو  کبھی محسوس نہیں کر سکتے جو ہیری اور میگھن نے پا لیا ہے  ۔ اب ان کے سروں کو تاج کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ اب وہ انسانیت کے تخت پر براجمان ہو چکے ہیں ۔ 
یہ وہی لوگ ہیں جن کے وجہ سے آج بھی انسانیت پر اعتبار اور اس کا بھرم قائم ہے ۔ یا شاید ان لوگوں میں سے     کہ جن کی وجہ سے اللہ پاک نے اس دنیا کو ابھی تک ختم نہیں کیا ۔ ہاں وہ ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جن کے سبب انسانیت پر اعتبار ابھی سلامت ہے ۔ 
ویلڈن ہیری اور میگھن ۔
 آپ دونوں کو میرا سلام ۔
 اور 
ایک عام آدمی کی دنیا میں
                            خوش آمدید 
                     ۔۔۔۔۔


جمعہ، 10 جنوری، 2020

غیر محفوظ پاکستانی تارکین وطن/ کالم


حکومت پاکستان متوجہ ہو ۔۔۔

غیر محفوظ پاکستانی تارکین وطن 
          (تحریر:ممتازملک.پیرس)
 
دنیا بھر میں ممالک اپنے شہریوں کو اپنے ملک میں نہ رہنے کے باجود مکمل قانونی، معاشی اور معاشرتی تحفظ اور عزت فراہم کرتے ہیں۔ سماجی طور پر بھی انہیں اپنے ملک کے لیئے ذر مبادلہ  بھیجنے کی صورت میں عزت اور تحفظ دیا جاتا ہے ۔ لیکن ہمارے ہاں اس بات کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ پہلے تو ہر حکومت چیخ چیخ کر رو رو کر  تارکین وطن کو مجبور کرتی ہے کہ آو ہماری اپنی ایئر لائن میں سفر کرو تاکہ ہمیں ایئر لائن چلانے کے لیئے پیسہ مل سکیں ، 
اچھا جی کر لیا سفر ، نتیجہ پھٹے پرانے ناقص اورناقابل اعتبار جہازوں میں سفر بھی کر لیا۔ یہ سوچ کر کہ زندگی رہی تو پہنچ ہی جائیں گے ، آیت الکرسی اور درود پاک کا ورد کرتے کرتے سفر بھی مکمل کر ہی لیا ، اب ایئر پورٹ پر اپنی جھنڈ منڈوانے کو تیار ہو جائیں۔ جو بھی افسر جس موڈ میں بیٹھا ہو گا وہ آپکے ساتھ ویسا ہی معاملہ کریگا ۔ آپ کتنے سال کے بعد اپنے ملک کا سفر کر رہے ہیں ؟ آپ کو کیا کیا سامان یا الیکٹرانکس  ڈیوٹی فری میں لیجانے کی اجازت ہے؟ اس کی کوئی واضح ہدایات متروک ہیں ۔ 
اپنے ملک میں کاروبار کرو ۔۔۔ 
اچھا جی ساری جمع پونجی لا کر وطن کی محبت میں یہاں لگا دی ۔۔
۔ لیکن یہ کیا کاروبار تو بعد میں شروع ہو گا پہلے اس کے پرمٹ اور اجازت نامے جاری کرنے والے ایک ایک افسر سے لیکر منشی تک کو بھتہ اور رشوت بانٹیئے تب ہی آپ کی فائل کو پہیئے لگیں گے ۔ نہیں تو  یاد رکھیں بیٹھ کر کھانے سے تو قارون کا خزانہ بھی خالی ہو جائے گا ۔  کسی طرح سے یہ معاملہ بھی نپٹ گیا تو کاروبار  شروع کرنے کیساتھ ہی آپ پر ایسے ایسے اور اتنے اتنے ٹیکسز کی بھرمار ہو جائیگی کہ آپکو لگے گا آپ اس ملک میں کاروبار کرنے نہیں آئے شاید کوئی جرم کرنے آئے تھے جس کی آپکو بھرپور سزا دی جا رہی ہے ۔ اس سے بھی نکل گئے تو کاروبار  کے لیئے جن ملازمین اور سٹاف کی ضرورت ہو گی وہ کتنا ایماندار ، سچا اور مددگار ہے اس کی گارنٹی کون دیگا ؟  جس پر بھی رتی بھر بھروسہ کرینگے وہ آپ کی پیٹھ پر لات مارنے کے لیئے سوچنے میں ایک منٹ بھی ضائع نہیں کریگا ۔  
اپنے ملک میں گھر خریدو ۔۔۔
چلو جی گھر بھی خرید لیا ۔۔۔ اب آپ مستقل تو پاکستان میں سارے خاندان کو لیکر منتقل نہیں ہو سکتے ۔ سو واپس بھی جانا ہے ، اب گھر کا کیا کریں ؟ گھر کرائے پر دیدیں تو معلوم ہو گا کہ گھر کے کرائے دار ہی گھر کی اینٹ سے اینٹ بجا رہے ہیں ، کرایہ خون تھکوا تھکوا کر ہزار فساد کے بعد بھی وقت پر نہیں مل رہا ۔ اور خالی کروائیں تو گھر کو خوب تباہ کر کے جانا انکا پہلا  کام ہوگا۔ اب قانونی طور پر آپ باہر بیٹھ کر اپنے گھر کی حفاظت اور توڑ پھوڑ کا کلیم کس پر اور کیسے کال کریں گے ؟ غلطی سے عدالت میں چلے گئے تو سالہا سال تک پیشیاں ہی بھگتتے رہیں ۔ 
اگر گھر کسی رشتے دار کی نگرانی میں دیدیا ہے  تو  آپکے جہاز تک پہنچنے سے پہلے ہی  وہ اس گھر کا مالک بننے کے لیئے ایڑی چوٹی کا زور لگانا شروع کر دیگا ۔  سارے رشتے ، اعتبار ، لحاظ ایک ہی قبر میں دفن کرنا اس کا پہلا کام ہو گا ۔ آپ کی جائیداد بھی گئی، مال بھی گیا ، اعتبار بھی گیا ،  اور تو اور وہ رشتہ  بھی گیا ۔ 
تارکین وطن کے لیئے پاکستان میں نہ تو کوئی قانونی تحفظ موجود ہے اور نہ ہی کوئی بنیادی  حفاظت ۔ 
پاکستان میں اس بات کی اشد ضرورت  ہے کہ تارکین  وطن کے لیئے خصوصی اور فوری عملدرامد کرنے والے  قوانین  بنائے جائیں ۔ ان کے لیئے الگ سے کورٹس کا قیام عمل میں لایا جائے جسے تارکین وطن کورٹس کا نام دیا جائے ۔ جس میں تارکین وطن کی اپنے ملک میں وراثت ،  کاروباری اشتراک ، جائیدادوں ، کرایہ داریوں کے مسائل  پر خصوصی اور فوری قانونی امداد فراہم کی جائے جس کا فیصلہ ہونے تک کا دورانیہ تین سے چھ ماہ تک کا ہونا چاہیئے ۔ کیونکہ اس سے زیادہ کا قیام ایک وقت میں ان کے لیئے ممکن نہیں ہوتا  ۔ اورجسے وہ پیروی کی ذمہ داری دیتے وہ کتنا مخلص ہو گا اس کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہے ۔ گھروں اور جائیدادوں  پر دی جانے والی فل اٹارنی  (مختار نامہ عام ) کو فی الفور یا تو ختم کیا جائے یا اس  پر مالکانہ اختیارات کو بلاک کیا جائے ۔ کیونکہ اکثر گھروں،  جائیدادوں  اور  کاروبار پر انہیں  عام مختار ناموں کی صورت ہی قبضے ہو رہے ہیں ۔ مجسٹریٹ کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ کسی بھی اٹارنی پر اس کے مالک کی غیر موجودگی میں ملکیت کا اختیار استعمال کرنے کی اجازت ہر گز نہیں ہونی چاہیئے ۔ تارکین وطن کی گاڑھے خون پسینے کی کمائی کو محض ایک مختارنامہ عام کے سٹامپ پر  ایسے قبضہ گیروں اور حرام خوروں  پر (جو کہ اکثر انکے رشتہ دار ہی ہوتے ہیں ) شکنجہ کسا جانا چاہیئے ۔ جو ایک قانونی آسانی کو اپنے ہی رشتہ داروں کو لوٹنے کے لیئے عذاب بنا دیتے ہیں ۔
ان نکات پر  فوری غور کیا جانا چاہیئے ۔ کیونکہ انہیں مسائل کی وجہ سے تارکین وطن اب پاکستان میں کہیں بھی پیسہ لگانے سے پیچھے ہٹنے لگے ہیں ۔ انہیں قانونی  تحفظ فراہم کیجیئے تاکہ ان کا اعتماد بحال ہو۔
                      ۔۔۔۔۔۔۔


منگل، 10 دسمبر، 2019

ہمارا ایمان ہمارے ہاتھ/ کالم



         ہمارا ایمان ہمارے ہاتھ
       (تحریر :ممتازملک. پیرس)



ہم نے اکثر لوگوں کو اپنی اولادوں سے یا ایکدوسرے سے یہ کہتے سنا ہے کہ بھئی ہم تو اپنے والدین کے بہت فرمانبردار تھے ، نیک تھے ، مخلص تھے لیکن ہماری اولاد ایسی نہیں ہیں ۔ جانے کیوں؟ 
جبکہ بڑے کہہ گئے ہیں کہ جو بوو گے وہ کاٹو گے۔ ببول کے پیڑ پر آم تو نہیں لگ سکتے ۔ اسی طرح انسان اپنی جوانی میں جو اعمال انجام دیتا ہے اسے بڑھاپے میں انہیں کی جزا اور سزا اس کے ساتھ پیش آئے معاملات میں ملتی ہے ۔ گویا جوانی عمل کے لیئے ہے، تو بڑھاپا سامنے سے ملنے والے ردعمل کا زمانہ ہوتا ہے ۔ 
ہم جب ایسے لوگوں کے ماضی میں یا اپنے گریبان میں جھانکتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہماری اپنی ہی والدین سے کی ہوئی نافرمانیاں ،بہن بھائیوں سے کی ہوئی ذیادتیاں ، اور دوستوں سے کی ہوئی وعدہ خلافیاں ہی ہماری اولاد میں ان کے اخلاق و کردار کی صورت میں ظاہر ہو جاتے ہیں ۔ پھر ہم خود کو لاکھ فرشتہ ثابت کرنے کی کوشش کریں لیکن سچ کو بدلا نہیں جا سکتا ۔ ہم نے جو بیج جوانی میں بوئے تھے انہیں کا پھل جب پک کر تیار ہوجاتا ہے تو ہم اسے قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں ۔ 
لیکن اس انکار سے ہم اپنی اولاد کو کیا پیغام دے رہے ہیں ؟ 
کیا یہ نہیں کہ ہم تو بڑے نیک اور باکردار تھے لیکن ہماری اولاد نافرمان اور بےکردار پیدا ہو گئی ہے جس کا مطلب ہے کہ اولاد اپنے ذہن میں اس بات پر یقین کر لے کہ  اچھا ہونے کا کیا فائدہ اس کے بدلے میں ہمیں سزا اور آزمائش ہی تو ملنی ہیں ۔ تو پھر چھوڑو نیک بننے کے چکر کو ۔ جو چاہے وہ کرو ۔ تو کیا اس پیغام سے ہم اپنےاور اپنی اولاد کے  ایمان کو خطرے میں نہیں ڈال رہے ؟ 
جبکہ ہونا تو یہ چاہیئے کہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہم ایمانداری سے اپنا احتساب کرنے کی جرات کا مظاہرہ کریں ۔ اپنی غلطیوں اور خطاوں کو تسلیم کریں اور اپنی اولادوں کو سمجھائیں کہ آج ہم اگر اپنی اولادوں سے پریشان ہیں یا مالی تنگی کا اور بے سکونی کا شکار ہیں تو اس کی وجہ ماضی میں ہماری اپنے والدین کو دی گئ پریشانیاں اور اللہ کے احکامات کی خلاف ورزیاں ہیں ۔ اللہ کسی پر ظلم نہیں کرتا بلکہ ہم خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں اور جب بڑھاپے میں ہم میں گناہ کرنے کی، بدزبانی کرنے کی،  دھوکے دینے کی ہمت نہیں ہوتی تو ہم سب ہی تسبیح پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں اور  اللہ اللہ کر کے خود کو پارسا ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کرنے میں جت جاتے ہیں ۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم جوانی ہی میں (جب ہم میں جسمانی اور ذہنی طاقت بھی موجود ہوتی ہیں ، اختیارات بھی حاصل ہوتے ہیں ، آسودگی بھی ہوتی ہے )اس بات کا پختہ یقین کر لیں کہ ہمارے آج کے اعمال ہی ہمارے بڑھاپے کے نتائج ہونگے۔ جبھی تو اللہ پاک نے جوانی کی توبہ اور جوانی کہ عبادات کو افضل ترین قرار دیا ہے ۔ 
                     ۔۔۔۔۔۔۔


اتوار، 1 دسمبر، 2019

وقت کی ضرورت فوری پھانسیاں/کالم



  وقت کی ضرورت فوری پھانسیاں
     (تحریر: ممتازملک ۔پیرس)
           
کیا ہی بدنصیبی ہے اس قوم کی کہ جہاں بیٹیاں محفوظ نہ رہیں ، مائیں ہر گھنٹے میں بیدردی سے قتل کر دی جائیں ، بہنیں جلا کر راکھ کر دی جائیں ۔ بچیاں پالنے ہی میں ریپ کر کر کے دفنا دی جائیں ۔ 
اور ان کے قاتل اور  بربادی کے ذمہ داران کو مدعی بنکر یا معافی نامے کی سطروں کے عوض سودے بازی کر کے چھوڑ دیا جائے ۔ ایسے ہی چھوڑے جانے والے لوگ ہمارے ہاں اپنے ہی رشتوں کے لیئے،  پڑوسیوں کے لیئے، ملنے والوں کے لیئے ایک ٹائم بم کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں ۔ اور ان کو یوں معاشرے میں چھوڑ دینا گویا اپنے آپ کو کسی خود کش بمبار کے حوالے کر دینے جیسا ہے جو کبھی بھی ، کہیں بھی پھٹ سکتے ہیں اور اپنے ساتھ بہت سی جانیں کسی بھی بہانے لے سکتے ہیں ۔ ایسے افرادجو ایک بار قتل اور ذیادتی جیسے واقعات میں ملوث ہو چکے ہوتے ہیں وہ دوبارہ زندگی بھر کبھی بھی نہ تو قابل اعتبار رہ سکتے ہیں اور نہ ہی نارمل ۔ 
نفسیاتی طور پر ہلے ہوئے یہ لوگ اپنے اندر کی شیطان کو راضی کرنے کے لیئے کسی نہ کسی کی عزت یا زندگی کی بلی دینے کو شکار کی تلاش میں رہتے ہیں ۔ 
ایسے میں جب نو سال کی بچی کو سنگسار کر کے مار ڈالا جائے ،
کہیں اپنی بیوی کے پیسے خرچ کر دینے والا باپ اس بات کو چھپانے کے لیئے اپنی ہی چھ سال کی مصوم بیٹی کو بلی کا بکرا بنا کر قتل کر دے ،صرف اسے ڈکیتی کا رنگ دینے کے لیئے۔۔۔
جہاں بہنوں کی جائیداد کے حصے ہڑپ کرنے کے لیئے اس کے کردار کی دھجیاں اڑانے  بھائی ان کے مال پر عیش کرنے کے لیئے ان پر تہمتوں کے پہاڑ توڑ کر ان کے کردار کو قتل کر رہا ہو ، ان حالات میں 
پاکستان میں سزائے موت کے قانون پر فوری نفاذ کی جس قدر ضرورت ہے وہ شاید کسی اور ملک میں نہ ہو ۔ 
خدا کے سوا کون ہے جسے انسانی جان یا عزت کے لینے کا اختیار ہے ؟ تو یہ کام اپنے ہاتھوں میں لینے والے مجرمان کو خدائی قانون کے تحت بھی قتل کیا جانا چاہیئے اور انسانیت کے قانون کے تحت بھی ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جانا چاہیئے تاکہ اس معاشرے سے بے حسی اور  سنگدلی کی بیخ کنی کی جا سکے ۔ معاشرے کو محفوظ بنانا جن قانون دانوں اور منصفین کا ذمہ ہے انہیں آنکھیں کھولنے اور ہوش میں آنے کی ضرورت ہے کہ وہ ان قوانین پر عمل درامد کو یقینی بنائیں جنہیں سالہا سالہا سے قانون اور دستور کی کتابوں میں  دفن کیا گیا ہے ۔ 
ان مردوں کو ذندہ کیجیئے اس دن سے پہلے کہ جس روز ہمارے مردے حساب کیلیئے ذندہ کر دیئے جائیں ۔ 
                     ۔۔۔۔۔۔۔۔

بدھ، 13 نومبر، 2019

اعتدال پرملال / کالم



          اعتدال پرملال
    (تحریر:ممتازملک. پیرس)
       


اللہ حسین ہے اور وہ حسن کو پسند فرماتا ہے ۔ حسن کیا ہے ؟ حسن دیکھنے والے کی آنکھ کا ایک زاویہ ہے ، ذہن  کی کوئی اختراع ہے یا اعتدال اور توازن کا کوئی امتزاج ۔ تو یقینا یہ اعتدال و توازن کے میل کا ہی نام ہے ۔ اس کا ثبوت  اللہ کا اپنی مقدس کتاب میں بار بار اعتدال پر رہنے کا حکم ہے ۔ جب تک ہم نے اس حکم کی پاسداری کی ہماری زندگیوں میں سکون رہا ۔ جیسے ہی ہم اس حد کو پار کرتے ہیں، بے سکونی ، پریشانیاں اور جرائم ہماری زندگی میں ناگ کی طرح پھن پھیلا کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ بالکل ایسے ہی جیسے بجلی کے سوئچ کا احتیاط اور حفاظتی طریقے سے سوئچ بورڈ میں لگایا  جانا اس کے کرنٹ کو بحفاظت ہمارے آلات کو کام میں لاتا ہے تو وہی سوئچ بورڑ  اگر ڈائریکٹ  انگلیوں سے یا بے احتیاطی سے چھو لیا جائے تو وہی کرنٹ منٹوں میں کسی بھی چیز کو جلا کر خاکستر کر دیگا ۔ 
سمندر جب تک اپنی حد کے اندر رہتا ہے ہماری زندگیوں کے لیئے نعمتیں پالتا ہے جوں ہی یہ   اپنی حدود سے باہر نکلتا ہے تو سونامی برپا کر دیتا ہے ۔ جو ہر شے کو تباہ و برباد کر دیتا ہے ۔ یہ ہی حال ہمارے رشتوں کا بھی ہے ۔ رشتے جب جائز حدود سے باہر جانے لگتے ہیں تو ذلت و تباہی ان کا مقدر بن جاتی ہے ۔
مشرقی معاشروں میں جہاں اب آذاد خیالی کا چلن اس قدر عام ہو چلا ہے کہ اکثر برائیوں کو بھی کہیں فیشن اور کہیں مجبوری سمجھ کر ،کہیں ضرورت اور کہیں جدت سمجھ کر قبولیت کی  سند عطا کی جا رہی ہے . ہمارے معاشرے میں جہاں ہم مذہب کا دکھاوا بھی کرتے ہیں اور نیکی کا زبانی پرچار بھی خوب زوروں پر ہوتا ہے وہاں اب حرمت کی بات کرنا یا اللہ تعالی کی بتائی ہوئی حدود کا ذکر کرنا بھی گویا اپنے گلے جنجال ڈالنے والی بات بن چکی ہے . پہلے جہاں گھر سے باہر کام کرنے والی خواتین و حضرات بے راہ روی اور ناجائز رشتوں کے عذاب میں مبتلا سمجھے جاتے تھے وہاں تو اب عام گھریلو خواتین  اپنے گھروں کے دروازوں میں شوہروں کے دوستوں اور ملاقاتیوں کو یوں بے دھڑک تن تنہا داخل کر رہی ہیں کہ ان کے کردار پر کوئی بھی دھبہ باآسانی قبول کیا جا سکتا ہے . . پردہ تو چھوڑیئے اب تو گھروں میں ہی باقاعدہ قحبہ خانوں جیسا ماحول بنتا جا رہا ہے .
ملک میں ہڈ حرام اور کام چور مردوں کا بڑی تعداد میں  اضافہ ہو چکا ہے .
جو کہیں بہن بھائیوں کا مال نچوڑ کر اس پر عیش کر رہے ہیں تو کہیں اپنی بیوی و بیٹیوں کو پیسہ کمانے کا ایک ذریعہ بنا کر ملائی کھا رہے ہیں . ایسے لوگوں کو پہچاننا قطعی مشکل نہیں ہے وہ مردوزن جو بنا کسی کاروبار یا روزگار کے بہترین پہننے کے مرض میں مبتلا ہیں ، بہترین ہوٹلوں اور کھانوں کے شوق میں مبتلا ہیں ، ہر دم بے مقصد و بیکار پائے جاتےہیں لیکن اس کے باوجود موج اڑا رہے ہیں
تو جان جائیے کہ یہ سب حرام کے راستوں سے حاصل کیا جا رہا ہے .
ان کی اولادیں انکی خوشی و رضا سے ہی گناہوں کے گٹر میں غوطے کھا رہی ہیں . ان میں اکثر کسی کے قتل اور ہنگامے کی خبر آتی ہے تو حیران مت ہوں یہ کسی غیرت کا شاخسانہ ہر گز نہیں ہوتا بلکہ یہ کسی جلن یا مال میں حصہ داری کے کم ملنے کا نتیجہ ہوتا ہے .  ان کے نزدیک عزت تو گھر کی مولی ہے اسے کسی بھی وقت اگایا جا سکتا ہے جبکہ پیسہ ان کا ایمان ہے وہ کہیں سے آئے، کسی بھی قیمت پر آئے بس اس کا راستہ کھلا رہنا چاہیئے.۔۔
اس لیئے ضروری ہے کہ زندگی کو اعتدال پر لائیے ورنہ یہ بس ملال ہی رہ جائے گی ۔
                       ۔۔۔۔۔۔۔

لٹیرے معالج/کالم

     لٹیرے معالج 
(تحریر: ممتازملک.پیرس)
پاکستان میں جہاں اور بہت سے شعبوں میں زبوں حالی کا دور دورہ ہے تو وہیں کئی ایسے پیشے بھی اس تباہی کا شکار ہو چکے ہیں جن کا مقصد خالصتا انسان کی فلاح و بہبود پر مبنی تھا ۔ جیسے کہ ایک  شعبہ طب یعنی مسیحائی ۔ ایک معالج اپنی تعلیم اور تربیت کے کئی مراحل میں انسانیت کی خدمت اور فلاح و بہبود کی قسمیں  کھاتا ہے ۔ لیکن معالج یعنی ڈاکٹر بنتے ہی اس میں نجانے کہاں سے ایک قصاب کی روح  بیدار ہو جاتی ہے ۔ وہ ایک کاروباری کی طرح ایک بیمار کو اپنا گاہگ بنا لیتا ہے ۔ جس کی نظر صرف گاہگ کی جیب پر ہوتی ہے ۔ اس کا بس نہیں چلتا کہ وہ اپنی پڑھائی کے خرچے کے بدلے لوگوں کی کھالیں اتار کر فروخت کرنا شروع کر دے ۔ تو دھوکے سے معصوم  اور لاچارلوگوں کو نام نہاد بیماریاں بتا بتا کر  انکے جگر ، گردے، آنکھیں اور جانے کیا کیا بیچنا شروع کر دیتا ہے ۔ مسیحا نما یہ قصاب اپنے سٹیٹس کو کے لیئے ، اپنے معیار زندگی کی بلندی کے جنون میں انسانوں کیساتھ قربانی کے دنبوں جیسا سلوک کرتا ہے ۔ نہ انہیں تڑپتے ہوئی ماوں کے ہاتھوں دم توڑتے بچے دکھائی دیتے ہیں اور نہ ہی اولاد کو جنتی ہوئی موت کی آغوش میں جاتی ہوئی ماں دکھائی دیتی ہے ۔ نہ اسے جوان لوگوں کے ہاتھوں ان کی زندگی کی ڈور چھوٹتی ہوئی دکھائی دیتی ہے نہ ہی بوڑھوں کی اذیت کا کوئی احساس ہوتا ہے ۔ وہ ہے تو بس ایک دکاندار ۔ مال دو تال لو ۔ 
منہ پھاڑ کر  بیماری پر مریض سے یوں لاکھوں روپے مانگے جاتے ہیں جیسے وہ مریض کا علاج نہیں کر رہے بلکہ کسی مشین کے پرزے خرید کر دے رہے ہیں جس کے ساتھ اسے بس ایک ہی بار میں تاحیات کی ضمانت مل جائے گی کہ اب وہ نہ کبھی بیمار ہو گا اور نہ یہ پرزہ ناکارہ ہو گا ۔ لاکھوں روپے کے تقاضے وہ لٹیرے ڈاکٹر تو اپنا حق سمجھ کر کرتے ہیں ۔ جو صبح کا وقت سرکاری ہسپتالوں میں دلاسے بانٹ کر حرام کی تنخواہ جیب میں ڈالتے ہیں تو شام کو ذاتی مطب یعنی پرائیویٹ کلینکس پر جا کر  مسکراہٹیں بانٹتے اور لاکھوں کا ٹیکہ لگا لگا کر شفا بانٹتے نظر آتے ہیں صرف مشاورت کا وقت لیکر  دو چار منٹ مریض سے ملنے کے عوض ہزاروں روپے فی کس وصول کیئے جاتے ہیں ۔ چاہے مریض کا علاج محض دس روپے والی ڈسپرین کی گولی ہی کیوں نہ لکھ کر دینی  ہو ۔ اپنے کاونٹر پر ایڈوانس میں ہزاروں روپے جمع کروا چکا ہوتا ہے ۔  ایسے میں سرکاری ہسپتال میں رلتے کھلتے غریب مریضوں کو بس دلاسوں کی خوراک دیکر ہسپتال کی راہداریوں میں دوڑا دوڑا کر موت کی میراتھن میں جبرا شامل رکھا جاتا ہے جب تک کہ اس کا دم نہ نکل جائے ۔ صرف اس لیئے کہ سرکار کا خزانہ اپنے وزیروں سفیروں کو اندرون و  بیرون ملک علاج کے نام پر موج کروانے پر خرچ ہو جاتا ہے تو بیت المال سے علاج کے لیئے کارڈ بنوانا اور اس پر دوا وصول کرنے والے کو اس قدر ہتک آمیز نگاہوں اور رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس کا معاشرتی طور پر  ایسا اشتہار لگایا جاتا ہے جیسے اس کی کم حلال  آمدنی اس کے لیئے ایک سنگین جرم بن چکی ہے جبکہ دوسری جانب بیشمار حرام کی کمائی والوں کو اٹھ اٹھ کر سلام کرنا اور اپنی خدمات پیش کرنا ان دکاندار کاروباری ڈاکٹروں کے ایمان کا حصہ ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان معالجین کی کمائی پر کڑی نظر رکھی جائے۔ ان کی مشاورت کی فیس کی حد مقرر کی جائے۔ سرکاری ہسپتالوں میں ان کی حاضری اور موجودگی کو یقینی بنایا جائے۔ کمائی کی اندھی دوڑ میں انہیں انسانیت کا سپیڈ بریکر دیکھنے پر مجبور کیا جائے۔ 
ہمارے جیسے ممالک میں باقی عوام پر بھی عموما اور  ڈاکٹر پر  خصوصا ایک وقت میں ایک ہی گھر کی ملکیت رکھنے کی پابندی لگائی جائے۔ بے تحاشا دولت اکٹھی کرنے کی حوصلہ شکنی کی جائے ۔ نصاب تعلیم میں قرآنی اسباق کے حقوق العباد کے حصوں کو بطور مضمون ہر بچے کو بچپن ہی سے پڑھایا جائے ۔ تاکہ کل یہ بچہ زندگی کے کسی بھی شعبے میں جائے تو جسم و جان کا سوداگر بن کر نہ جائے بلکہ ایک بہترین راہبر ، رہنما، ماہر ، اور معالج بنکر جائے۔ اسے معلوم ہی نہیں یقین بھی  ہو کہ زندگی ضرورت کے دائرے میں رہے تو عزت بھی دیتی ہے اور سکون بھی ۔ جب یہ تعیش کے بھنور میں داخل ہو جاتی ہے تو نہ اس میں ہوش رہتا ہے، نہ ہی قرار۔ دولت اتنی ہی کمائی اور اکٹھی کی جائے جو آپ کی زندگی کو عزت سے بسر کرنے کو کافی ہو۔ ورنہ لالچ کا منہ واقعی صرف قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے ۔ اور یقینا ہر مریض کی طرح ہر معالج کو بھی ایکدن موت کا مزا ضرور چکھنا ہے ۔ 
                   ۔۔۔۔۔۔۔۔
(نوٹ: یہ تحریر سو فیصد افراد پر لاگو نہیں ہوتی۔)

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/