ہر اک رنجش سبھی شکوے تیری مسکان پہ وارے
مجھے تو دوست کہتا ہے اسی پہچان پہ وارے
تو کیا سمجھا تمہاری بے اعتنائی مار ڈالے گی
تو جس پر دھیان دیتا ہے تمہارے دھیان پہ وارے
محبت سب کو اپنی جان سے ہونا تو فطری ہے
سلام اس پر جو اپنی جاں کسی کی جان پہ وارے
وہ تھا کردار میں بےمثل اور گفتار میں اعلی
سبھی مہمان جاتے تھے میرے مہمان پہ وارے
سدھر جائیگا اکدن لوٹ آئے گا میری جانب
سبھی پل زندگی کے تھے اسی امکان پہ وارے
اگر گننے کی نوبت آ گئی تو ہار جاؤ گے
کہ سارے فائدے ہم نے تیرے نقصان پہ وارے
نہیں تھا جوش کافی زیست کے ممتاز ہونے کو
زمانہ ہو گیا خود کو اسی ہیجان پہ وارے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔