ڈرتا ہے بیچارہ
یہ مرد ہے رونے سے بھی ڈرتا ہے بیچارہ
جلدی ہی اپنی جاں سے گزرتا ہے بیچارہ
اک رشتے کو دیکھے کبھی دوجے کو سنبھالے
اک لمحہ میں کس کس سے نہ لڑتا ہے بیچارہ
ہر روز لیئے آنکھ میں شیشے کا جو تیشہ
سپنے نئے آنکھوں میں یہ بھرتا ہے بیچارہ
سب خوش رہیں یہ سوچ کے ناراض سبھی ہیں
اپنے ہی مقدر سے یہ بھڑتا ہے بیچارہ
دل قید کسی میں تو کہیں جان اڑی ہے
اندر سے ہےٹوٹا پر اکڑتا ہے بیچارہ
بات اور کہ چل پائے نہ ہر ایک سخن میں
حیلے تو بہت اپنے سے کرتا ہے بیچارہ
ہر بار یہ سوچے کہ یہ ہے آخری مشکل
جینے کی اسی چاہ میں مرتا ہے بیچارہ
میدان میں یہ جیت کے نکلے گا تو ممتاز
گھر کی ہی لڑائی میں یہ ہرتا ہے بیچارہ
۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں