نہ جایا کر تو
گھر سے غم لیکے کہیں اور نہ جایا کر تو
رب کو سجدوں میں سبھی حال سنایا کر تو
اثر اس کا جو تجھے کرنا ہے زائل تو سن
چلتے پانی میں یہ تعویذ بہایا کر تو
دولت درد فراوانی سے ملتا ہے جنہیں
انکو بتلاو کہ دکھیوں پہ لٹایا کر تو
اتنے سستے نہیں ہر ایک پہ وارے جائیں
کسی اچھے کے لیئے اشک بچایا کر تو
جسکے ہاتھوں میں شفا رکھی ہے تیری خاطر
زخم اپنے یہ وہیں جا کے دکھایا کر تو
نفرتیں سخت بنا دیتی ہیں چہرے ممتاز
اپنے ہونٹوں پہ تبسم کو سجایا کر تو
●●●