اور وہ چلا گیا
ہم پہ زندگی کا بوجھ، لاد کر کہاں گیا
الوداع کہا ہمیں، اور وہ چلا گیا
مسکرا کے ہم نے دیکھا ،تو وہ لڑکھڑا گیا
دور تک یہ بیخودی کا ، پھر تو سلسلہ گیا
بات جو زبان پر ، ہم نہ لا سکے کبھی
بات مجھ سے کہہ کے کوئی، آج برملا گیا
مت ٹہر کہ ہر گھڑی ، فنا ہے تیری منتظر
کر لے جو بھی کرنا کہہ کے، دل کا منچلا گیا
زیست اور حیات کی، سعی جو عمر بھر رہی
بھوک سے شروع ہوئی، ہوس پہ تلملا گیا
ممتاز اب سمیٹ لو ، سفر کے اس پھیلاو کو
واپسی میں رہ ہی کتنا، اور فاصلہ گیا
●●●