ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک
منتخب کالمز ، لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
منتخب کالمز ، لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اتوار، 16 جنوری، 2022

● برفیلی قبریں نااہل حکومت/کالم

       
       برفیلی قبریں نااہل حکومت
        تحریر: (ممتازملک ۔پیرس)




مری حادثے پر سیاست نہ کی جائے۔۔۔ واقعی ۔۔بھول گئے کیا
کہ  یہ کام بھی اسی ہنڈسم اچھی انگریزی بولنے والے صاحب نے ہی قوم کو سکھایا یے کہ جو بھی غلط کام ہوتا ہے وہ حکومت ہی کی وجہ سے ہوتا ہے ۔ آج لوگوں کو ورغلا ورغلا کر مری میں آو نظارے تمہارے منتظر ہیں ریکارڈ توڑ  دوخزانہ بھر دو گے ۔۔۔ کی میڈیا پر خبریں چلا چلا کر نااہل انتظامیہ اور انتظامات کی سچائی کیوں نہیں بتائی۔ 
کسی غیرت مند ملک کا حکمران ہوتا تو اپنی اس مجرمانہ غفلت پر خودکشی کر چکا ہوتا ۔ 
لیکن کہاں جناب یہ خوشی غیرت مند قوموں کے مقدر میں ہوتی ہے ۔
مطلب مٹی پاو 
لاشوں پر سیاست 
دھرنوں سے ملکی معیشت کی تباہی
خود کو صادق اور امین کہہ کر توہین رسول کرنا اور بھی بہت کچھ انہیں صاحب کی سوغاتیں ہیں ۔ انکے سکھائے ہوئے انکے آگے آئے تو یہ سیاست ہو گئی کل تک تو یہ انقلاب اور درس تبدیلی نہیں تھا 🤔 پچھلے دو سال لوگوں نے مری والوں کے رویے کے خلاف ایسا ہی احتجاج کر رکھا تھا جب خواتین کو وہاں ہراساں کیئے جانے اور لوگوں کی بدتمیزویوں کے واقعات عروج پر پہنچ گئے تھے ۔ لیکن حکومت نے میڈیا پر جعلی ایفیشنسی کے ڈھول بجا بجا کر لوگوں کو پھر وہاں جانے پر اکسایا۔ کیونکہ اصل میں ڈاکو راج برائے ہوٹلز،  ریسٹورنٹس ، ریسٹ ہاوسز کسی عام آدمی کے تو ہیں نہیں ۔ یہ کرپشن کے گڑھ صاحب اختیار لوگوں کی ہی ملکیت ہیں اور اس کا خسارہ حکومت کو کیسے منظور ہوسکتا ہے؟ آخر کو فی کمرہ ڈھائی سو روپے کا ٹیکس جو قومی خزانے میں بھرا جاتا ہے۔ لیکن بوقت ضرورت ہزاروں روپے فی کمرہ 50 سے 70 ہزار روپے تک  غلطی سے مری جیسے علاقے میں آنے والوں کی جیبوں سے نچوڑا جاتا ہے۔ 
دعا ہے کہ اللہ پاک ہماری نااہل حکومتوں کو اور  ہمیں اگلے حادثے کے انضرورت نہ پڑے کہ انفراسٹرکچر کی کیا ضرورت ہوتی ہے ؟ پلوں اور سڑکوں سے ترقی نہیں ہوتی؟ میٹرو کی کیا ضرورت ہے؟ اور عمارتیں گلیاں نالیاں، نالے، نکاسی کے انتظام، کوڑا اٹھانے اور ٹھکانے لگانے کی ضرورت آخر ہے ہی کیوں ؟ مری میں ہزاروں لوگوں کی اموات وہاں انہیں چیزوں کے نہ ہونے اور مقامی لوگوں کی بے حسی اور موقع پرستی کے سبب ہوئی ۔ جسے بیس بائیس اموات کہہ کر اپنے قومی جرم کو قالین کے نیچے چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ کیا ایک سے ڈیڑھ لاکھ گاڑہوں میں ایک ایک فرد سوار تھا؟ 
پاکستانی سیاحوں کی اکثریت مڈل کلاس طبقے سے ہوتی ہے جو یا تو دوست یا فیملی مل کر کرائے کی گاڑی یا کسی کی مانگی ہوئی ادھار کی گاڑی میں ایسی سیر کا بندوبست کرتے ہیں اور اکثر پانچ سیٹوں پر سات آٹھ لوگ بھی ٹھس ٹھس کر بیٹھتے ہیں ۔ اس حساب سے ان گاڑیوں میں سوار افراد کی تعداد کتنے لاکھ ہوئی؟ پھر مری کے پیسے کے عاشق مہربان مقامیوں نے کیا ان لاکھوں لوگوں کو اپنے گھروں میں مفتے میں پناہ دیدی۔ ۔۔۔ مطلب ایسا نہیں ہوا تھا اسی لیئے مجبورا ان معصوم لوگوں ( جیب میں آنے جانے کے حساب کی گنتی کی رقم لیکر چلنے والوں) کو اپنی گاڑیوں میں پناہ لینے پر مجبور ہونا پڑا ۔ اور سادہ سی حساب سے ہی سمجھ میں آ جائے گا کہ اموات سینکڑوں اور ہزاروں میں ہوئی ہونگی۔  یہی گاڑیاں انکی ٹھنڈی قبریں بن گئیں ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون 
اب جو کہتے ہیں کہ حکومت خطرے سے الرٹ کر رہی تھی تو ان تاریخوں کی ٹوئیٹس اور خبریں سن پڑھ لیجیئے جو چیخ چیخ کر بتا رہی ہیں کہ 
حکومت الرٹ نہیں کر رہی تھی گاڑیاں گن گن کر بغلیں بجا رہی تھی۔ وہ کہانی کار نے خوب لکھا تھا کہ لفنگوں نے مشٹنڈے کے کہنے پر ناچ ناچ کر گھنگھرو توڑ دیئے تھے۔
                 ●●●

بدھ، 3 نومبر، 2021

● مسکراہٹیں بکھیرنے والے/ کالم

        مسکراہٹیں بکھیرنے والے
      تحریر:
                (ممتازملک ۔پیرس)



منور ظریف، رنگیلا، عمرشریف ‏، معین ‏اختر، امان ‏اللہ، ببو برال، مستانہ ، البیلا، شوکی خان اور ان جیسے بہت سے نامور کامیڈینز ۔۔۔۔۔۔
جنہوں نے غربت کی گود میں آنکھ کھولی۔ گھروں سے فاقہ مستیاں اور بدحالیاں دیکھ کر ہوش سنبھالنے والے بچپن سے گزرے۔ 
اکثر کو تو سکول کا منہ تک دیکھنا نصیب نہیں ہوا۔ ان میں سے ہر ایک بچہ بھوک و افلاس کی گود سے اٹھ کر  نشئی تماشائی نہیں بنا چور اور لٹیرا نہیں بنا ۔ اپنے وقت کو بدلنے کے لیئے انہوں نے کوئی شارٹ کٹ نہیں اپنایا ۔ اپنے آنسووں سے قہقہے نچوڑ کر اس نے دکھی لوگوں کو مسکراہٹیں بانٹیں ۔ ان کی تو پوری زندگی ایک روشن مثال ہے ۔  حکومت سندھ نے عمر شریف کی تدفین انکی خواہس پر کی تو وہاں کی ایک سڑک کو بھی انکے نام سے منسوب کر دیا ۔ جس پر کچھ دل جلوں کو شدید اعتراض ہوا ۔ان سب سے سوال ہے کہ
ہمارے ہاں منافق معاشرے میں  تو لوگ سگے ماں باپ کے مسکراہٹ چھین کر جوان ہوتے ہیں وہاں عمر شرہف جیسے لوگ ہمیں پھر سے مسکرا کر زندگی میں آ گے بڑھنے کا حوصلہ دیتے ہیں۔ اس لیئے میں حکومتی فیصلہ کی تائید کرتی ہوں ۔یہ ایک اچھا فیصلہ ہے  ۔ 
مجھ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ اپنے بچے کو بھانڈ میراثی بنانا پسند کرینگی؟ تو ان سب کو  میرا یہی  جواب ہے کہ
ایک دہشت گرد بننے سے ، سمگلر بننے سے، قاتل و زانی  بنبے سے،  چور اور ڈکیت بننے سے  کروڑہا بار اچھا ہے کہ انسان ایک ایسا بھانڈ میراثی ہی بن جائے۔ جو اس معیار پر شگفتگی کو لیجائے، جنہوں نے اپنے آنسووں سے قہقہے نچوڑے اور دنیا کے غموں کو ہلکا کرنے کے لیئےانہیں اپنی شگفتگی کا کندھا پیش کردیا۔
دنیا میں ان کی زبان جاننے والے اردو پنجابی ہندی بولنے اور سمجھنے والے ان کے اس خزانے سے ہمیشہ خوشیوں کے موتی چنتے رہینگے۔  اور اپنے غموں سے باہر نکلنے کے لیئے ان  کی زندگیوں کو روشن مثال بنا کر اپنے سامنے رکھیں گے ۔ آج ہی  کے کیا ہر دور میں جہاں ماں باپ کی جدائی یا وفات کا یا غربت کا بہانہ بنا کر اولادیں نشے تماشے اور بدکاریوں کا شکار ہو جاتی ہے ۔ جہاں جرائم کی دنیا کے یہ استاد بن کر ساری زندگی لوگوں کے  لیئے بدنامی اور عذاب بن جایا کرتے ہیں ۔ جہاں ان کی دہشت اور  بدنامیوں سے تنگ انکے اپنے بھی انکے نام کیساتھ اپنا نام جوڑنا پسند نہیں کرتے وہاں ان  ناموں کے مسکراتے چراغ ہمیشہ روشنی بکھیرتے رہی گے۔ جگنو بنکر راستہ دکھاتے ہیں گے ۔ کسی نے 4 سال کی عمر سے مزدوری کی ۔ کسی بے جوتے پالش کیئے۔ کسی نے اخبار بیچے۔ کسی نے بسوں میں میٹھی گولیاں بیچیں ۔ کبھی کام نہ ملا تو راتوں کو بھوکے پیٹ میٹھے سپنوں کے سہارے بسر کر لیا۔ لیکن خود کو کبھی کہیں گرنے نہیں دیا ۔چوریاں نہیں کیں ۔ کسی کی جیب نہیں کاٹی ۔ کہیں ڈاکہ نہیں ڈالا ۔ کسی امیر آدمی کی بیٹی کو بہلا ہھسلا کر اسے گھر سے زیورات لانے کا کہہ کر اسے کسی کوٹھے پر  نہیں بیچا ۔ گھر داماد بنکر کسی کے مال مفت پر آرزوں کے مینار کھڑے نہیں کیئے ۔ بلکہ محنت اور ایمانداری کے ساتھ اللہ پر توکل کیئے ہر محنت مشقت کے بعد اپنے شوق میں ہی اپنا رزق تلاش کرتے رہے اور یوں اللہ کو ان پر جب پیار آیا تو اس نے انہیں ان کی نیتوں اورمحبتوں کا ثمر چھپر پھاڑ کر دیا ۔ دنیا میں انہیں ان کے فن مزاح کا وہ مرتبہ عطا کیا کہ جس کا تصور کوئی بڑے سے بڑا اعلی تعلیم یافتہ مزاح نگار بھیں نہیں کر سکتا  ۔ یہ بچے جنہیں اسکول کا منہ بھی دیکھنا نصیب نہیں ہوا تھا انہیں ان کے مطالعے اور لوگوں کو انکی حرکات و سکنات کو پڑھنے اور انہیں اپنے زہن میں اتارنے کی خوبی نے اوج ٹریا تک پہنچا دیا ۔اب جو بھی کوئی مزاح کے میدان میں آئے گا وہ ان سب سے ہی ان کے کام سے سیکھ کر ہی آئے تو آئے وگرنہ ان جیسا کام اب اور کسی کے بس کی بات نہیں ۔ یہ کرم خاص خاص لوگوں ہر ہی ہوا کرتے ہیں ۔اور ایسے لوگ صدیوں ہی میں کہیں پیدا ہوا کرتے ہیں ۔بیمثال ۔ بہترین ۔ نایاب اور کامیاب  لوگ ۔۔۔۔۔۔۔۔
                       ●●●

اتوار، 7 فروری، 2021

● می ‏لارڈ ‏توجہ ‏فرمائیں/ کالم

        

          
          می لارڈ توجہ فرمائیں  
       (تحریر: ممتازملک.پیرس)



ہم آہ بھی بھرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا 
جس پاکستان کے تھانوں میں عام آدمی صرف چالان نہ بھرنے پر اور ایف آر کٹوانے کے لیئے مہینوں خوار ہو جاتا ہے  جہاں  اپنی سائیکل کا چالان نہ بھر پانے پر معصوم لوگ سالہا سال سے جیلیں کاٹتے ہیں ۔ جہاں کے لائق وکیل اور جج صرف شک کی بنیاد پر ان کی زندگیوں کو تاریخ پر تاریخ کا کھیل بنا کر بیس بیس سال تک کھیلتے ہیں ۔ جہاں پیشی کا مطلب منشی کی جیب گرم کر کے اگلی تاریخ کی بھیک مانگنا ہے جبکہ معلوم ہے کہ اس اگلی تاریخ میں بھی یہ ہی ڈرامہ دہرایا جائے گا ۔ جہاں عام آدمی کو کبھی  جج سے بھی براہ راست اپنا مدعا بیان کرنا توہین عدالت قرار دے دیا جاتا ہے ۔ جہاں لوگ اپنے حق کے چار دن کی پنچایت میں ہو جانے والے فیصلے والے معاملات کے لیئے اپنی گاڑھے خون پسینے کی کمائیاں بھر بھر کر کبھی دیوانے ہو جاتے ہیں کبھی دیوالیہ تو کہیں اپنی جان کی بازی ہار جاتے ہیں لیکن می لارڈ آپ کو کیا پتہ جس قیدی کو کل آپ نے معصوم قرار دیکر اپنی طرف سے بہت مہربانی فرماتے ہوئے صرف 20 ہا تیس سال بعد ہی بری کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے وہ کئی سال قبل ہی اس قید خانے میں اپنی زندگی کی بازی ہار چکا ہے ۔ 
اور آپ کے لیئے وہ قیدی چچچچچچچ کے سوا اور کسی رد عمل کا نہ قائل تھا نہ قابل۔۔
اس ملک میں اگر کوئی خاتون کشمالہ طارق بن جائے تو اس کا بیٹا چاہے نشے میں دھت ہو ، چاہے کسی کی عزت اپنے پیروں میں کچل دے اور چاہے کسی کی جوانیاں زندگیاں اور امیدیں اپنی عالی شان گاڑی کے پہیوں کے نیچے روند جائے ۔ اسے  تو چار ہی گھنٹوں میں ضمانت بھی مل جائے گی اور ہماری پولیس فورس اس کی حفاظت و تواضح بھی فرمائے گی ۔ آخر کو وہ قوم کا عظیم سپوت کچھ "غیر ضروری" لوگوں کو ہی کچل کر آیا تھا۔ بچہ ہے یہ تو بچوں سے ہو ہی جاتا ہے ۔ اتنا پیسہ ہے اتنے اختیارات ہیں  وہ اس وقت میں کام نہیں آئینگے تو اور کس وقت کام آئینگے ۔  وہ نوجوان ہی بیوقوف تھے انہیں معلوم ہونا چاہیئےتھا کہ پاکستان کی سڑکوں اور عدالتوں پر  پہلا حق یہاں کی ایلیٹ ٹائپ ایڈیٹس کلاس کا ہے جو ہمارے مال اور خون نچوڑ نچوڑ کر اسی لیئے تو پیدا کیئے جاتے ہیں کہ  ہم جیسوں کا اس ملک سے صفایا کر سکیں ۔ 
می لارڈ  آپ کی عدالتیں بھی طوائف کے کوٹھے سے کم ہر گز نہیں ہیں یہاں بھی جو نوٹ برساتا ہے گھنگھرو اسی کے لیئے بجتے ہیں اور طوائف کو اس سے کیا کہ نوٹ لٹانے والا کسی کی جیب کاٹ کر لایا ہے یا کسی کی گردن ۔۔۔
می لارڈ فرصت ہو تو کشمالہ طارق جیسی اعلی ہستیوں کے قاتل بیٹے کے ضمانت نامے کے آرڈرز پر چار گھنٹوں میں دستخط کرنے کے بعد ان مقدمات پر بھی رحم کی نظر ضرور ڈال لیجیئے گا جو سالوں سے آپ کی میز پر آتے ہیں اور جاتے ہیں کیونکہ آپ ان کے مقدر میں یہ کالک لکھ چکے ہیں کہ میرے جج ہونے تک تو تم لوگ اس عدالت سے فیصلہ پا کر نہ چھوٹے۔ 
می لارڈ ایک عدالت آپکی پیشی کی بھی منتظر ہے ۔ وہاں آپکو بچانے کے لیئے کون آئے گا؟
وہ کچلے ہوئے لاشے ، جیلوں میں ہی مر چکے معصوم،  عزتیں لٹوائے بیچارے ، مال و دولت گنوائے ہوئے دھوکے کھائے ہوئے بے یارومددگار پاکستانی ان کی آہیں اور سسکیاں انکے برباد خاندان کیا آپ کو دوزخ کی آگ سے باہر نکلنے دینگے ۔ قاضی کے منصب پر بیٹھا ہوا ہر شخص خدا کیوں بن جانا چاہتا ہے ؟ 

                             ●●●

جمعہ، 22 جنوری، 2021

● تارکین ‏وطن کی ‏جائیداد ‏کے ‏لٹیرے/ ‏کالم ‏



   تارکین وطن کی جائیدادوں پر قبضے 
        (تحریر: ممتازملک.پیرس)



حکومت کی جانب سے تارکین وطن کے 
لیئے فاسٹ ٹریک کے نام سے عدالتی نظام وضح کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ جس کے ذریعے پاکستان میں تارکین وطن کی زمینوں پر ہونے والے قبضے چھڑانے کے لیئے تیس روز کے اندر فیصلہ سازی کو یقینی بنایا جائیگا ۔ یہ قبضے اکثر ان لوگوں کے رشتےداروں یا قبضہ مافیاز کے ذریعے کیئے جاتے ہیں ۔ یا پھر تارکین وطن کی جانب سے جائیدادوں کی فروخت کے لیئے جو بیعانہ وغیرہ لینے کا اختیار کے لیئے مختار نامہ عام دیا جاتا ہے ۔ لیکن افسوس یہی مختار نامہ یا اٹارنی حاصل کرنے والے ہی اس اجازت نامے کو مال مفت دل بیرحم سمجھ کر لوٹنے کا منصوبہ بنا لیتے ہیں۔ کہیں تو وہ ان جائیداوں کو مالک بن کر بیچ ڈالتے ہیں کہیں ان جائیدادوں پر کرائے نامے اپنے نام سے بنوا کر وہ کمائیاں کھانے کا منصوبہ بنا لیتے ہیں اور کہیں وہ انہیں اپنے نام کروا کر مالک بن بیٹھتے ہیں ۔ اور ظلم کی حد تو یہ ہے کہ خصوصی اختیارات میں بھی ان جائیدادوں سے ہونے والی کمائی کا دھیلہ بھی اصل مالک اور تارک وطن تک پہنچنے نہیں دیا جاتا ۔ گویا تارکین وطن وہ گنگا ہے جو ان فراڈیئے قابضین اور دوسروں کے مال پر عیاشی کرنے والے ہڈ حرام پاکستانی عزیزوں رشتے داروں  کے گند دھو دھو کر سیاہ ہو چکی ہے ۔ اس لیئے فاسٹ ٹریک عدالتی نظام جو آجکل اپنی تکمیل اور نفاذ کے آخری مراحل میں ہے تو اس بات پر غور کرتے ہوئے اس کے قوانین بنائے جائیں کہ 
بیشک یہ ایک اچھا اقدام ہو گا لیکن اس فاسٹ ٹریک عدالتی نظام کو صرف زمینوں تک ہی محدود نہ رکھا جائے  بلکہ تارکین وطن کے گھروں اور فلیٹس کے بھی قبضے چھڑائے جائیں ۔ اور مختار نامہ عام دینے کی صورت میں بھی فل اور فائنل فروخت کا حق استعمال کرتے وقت اصل مالک  کو ویڈیو کال کے ذریعے مجسٹریٹ کے سامنے کال پر براہ راست بیان دینے کا پابند کیا جائے  اور تارک وطن مختار نامہ عام یا خاص کال پر مجسٹریٹ کو خود پڑھ کر سنائے اور خود اس کے نام پتہ رابطہ نمبرز بیان کرتے ہوئے اس فروخت کی اجازت دے ۔ ویڈیو کال کی ریکارڈنگ اور سکرین شارٹ کو محفوظ کر کے اس کا عکس اس ڈیل اور مجسٹریٹ کے ریکارڈ کے ساتھ نتھی کیا جائے ۔  تبھی یہ سودا فل اور فائنل ہو اور یہ رقم اصل مالک کے بینک اکاونٹ میں اسی وقت مجسٹریٹ کے سامنے  ٹرانفسر کی جائے اس کے بعد وہ اصل مالک تارک وطن جس کے بھی اکاونٹ میں چاہے 3 روز کے اندر اندر اس رقم کو منتقل کر سکتا ہے ۔ 
اس طرح ہر لمحے اصل مالک تارک وطن اپنی پراپرٹی کی ہر ڈیل میں براہ راست ملوث ہو گا اور بہت زیادہ محفوظ ہو جائے گا ۔ حکومت اس طرح کے مقدمات کو عدالت میں جانے سے روک کر عدالتی  بوجھ کو بھی کم کرنے میں معاون ثابت ہو گی ۔ تارکین وطن میں پاکستان میں زمین جائیداد خریدنے کے رجحان میں  میں تیزی سے کمی آنے کا سبب قابضین کا خوف اور یہی غیر محفوظ کمزور قوانین اور عوامی رویہ ہے جس میں نہ تو ان کی کمائی کو تحفظ حاصل ہے اور نہ ہی گھر بار اور زمینوں کو قبضہ گروپس سے اور رشتےداروں سے ۔ لہذا  ضروری ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا اعتماد بحال کیا جائے اور اس سلسلے میں فوری عملی اقدامات اٹھائے جائیں ۔ بصورت دیگر پاکستانی اپنی گاڑھے خون پسینے کی کمائی پاکستانی ہڈحراموں کے ہاتھوں مزید لٹوانے کو تیار نہیں ہیں ۔ 
                   ●●●

اتوار، 3 جنوری، 2021

● کسان ‏سے ‏گاہگ ‏تک/ ‏کالم

          

           کسان سے گاہگ تک
            (تحریر:ممتازملک.پیرس)




سال بھر کی یا چھ ماہ کی محنت کے بعد ایک کسان اپنا خون پسینہ ایک کر کے جو فصل اگاتا ہے اسے بڑے بڑے مافیاز کوڑیوں کے بھاو اٹھا کر ان کسانوں کو اس بات پر مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ سارا سال عزت سے زندہ رہنے کے بجائے خودکشی کر لیں ۔ ہمارے جنوبی ایشیائی  ممالک میں یہی مافیاز حکومتیں  بناتے بھی ہیں اور حکومتیں چلاتے بھی ہیں ۔ ان پر ہاتھ ڈالنا وہ سوچے جو ان کے ذریعے سے فائدے نہ اٹھا رہا ہو ۔ انہیں ڈاکو مافیاز کے مال پر حکومتیں بنانے والے یہ سوچ بھی کیسے سکتے ہیں ۔ اس لیئے پاکستان میں کسانوں کے حالات آئے روز بد سے بدتر ہوتے چلے گئے ہیں ۔ نتیجہ شہروں کی جانب بڑھتی ہوئی ہجرت ، جب اگانے والے ہی نہ رہیں تو باہر سے مہنگا غلہ خریدنے کے سبب ہوشربا مہنگائی، قابل کاشت رقبے پر مکانات کی تعمیر ، پرانے درختوں کو کاٹ کاٹ کر سیلابی ریلوں کے ساتھ زمینوں کے کٹاو اور آبادیوں کی تباہی ، بے حساب سیلاب  اور بے شمار مسائل کسانوں کی فصلوں کو بروقت اور بہترین قیمت پر نہ اٹھانے کے سبب درپیش آتے ہیں ۔ لیکن ہم سب کانوں میں روئی ٹھونسے ان کے رونے کی آوازوں سے خود کو بےخبر کیئے ہوئے ہیں ۔ ایسے میں جب ہماری حکومتیں بھی ان مافیاز کے ساتھ ساز باز میں شامل ہیں تو بہتر ہو گا کہ کسانوں کو مل کر اپنی تنظیمات بنانی چاہیئیں ۔ جو ان کے مسائل کو تحریری شکل میں لائے ۔ کسانوں کو باقاعدہ رجسٹر کرے انہیں کسان کارڈز دیئے جائیں ۔ جس پر انہیں سستے اور اچھے بیج بروقت ملنے کا انتظام کیا جائے ۔ فصلوں کو بروقت فروخت کرنے کے جدید طریقے اپنائے جائیں ۔ اس سے سب سے پہلے تو ہر کسان کے گھرانے کے ہر فرد کو کام مل سکتا ہے ۔ بجائے اپنی سبزیاں چاول گنا مکئی جوار اور دیگر فصلوں کو حکومتی لٹیرے کارندوں کو بیچنے کے بجائے خود سے ان کی فروخت کے لیئے بازار اور میلے لگائیں ۔ تازہ مال کو خشک کرنے کے مختصر کورسز کیجیئے اور باقی لوگوں کو بھی تربیت دیجیئے تاکہ تازہ فصل بکنے کے بعد بچنے والی فصل کو بڑے بڑے دالانوں، میدانوں  یا اپنے گھروں کی چھتوں پر خشک کرنے کا انتظام کیا جا سکے ۔ ان خشک سبزیوں کو اچھی طرح  پلاسٹک پیکنگ میں محفوظ کرنے کا طریقہ سیکھ کر سارا سال یہ سبزیاں بیچی جا سکتی ہیں اس سے کسان اور گاہگ کے بیچ آنے والے بہت سے ایجنٹس کی جیبوں میں جانے والا ناجائز اور ہوشربا منافع کسان اور گاہک ہی کی جیب میں محفوظ ہو جائے گا ۔ کسانوں کی مختلف گروھ مل کر ان کی فروخت کے لیئے مخصوص بازاروں میں سٹال اور میلے لگا سکتے ہیں ۔ 
ملکی ضروریات کے علاوہ یہی فاضل فصلیں سکھا کر اور جما (فریز) کر کے بیرون ملک بہترین منڈیاں حاصل کی جا سکتی ہیں ۔ جس کا منافع براہ راست ہمارے کسانوں کی جیبوں میں جائے گا اور ملکی ترقی میں اہم کردر ادا کرے گا ۔ اور لوگ اس منافع کو دیکھتے ہوئے کبھی بھی اپنے علاقے چھوڑ کر پیشہ بدلنے اور زمینیں بیچنے کا نہیں سوچیں گے ۔ اگر شہروں جیسی سہولیات جیسے عبادتگاہیں ، پانی بجلی، گیس ، اچھے سکولز، کالجز، ہسپتال ، پکی گلیاں سڑکیں ریسٹورینٹ، شاپنگ اور فوڈ پوائنٹ  انہیں اپنے ہی قصبے اور گاوں میں مل جائیں تو وہاں کی صاف ستھری فضا چھوڑ کر کوئی آلودہ اور  پرشور شہروں کی جانب رخ نہیں کرے گا اور اوپر بیان کی گئی تمام پریشانیاں اور شہروں پر بڑھتا ہوا آبادی کا بوجھ وسائل کی کمی کا رونا خود بخود یہ سلسلہ رک جائے گا ۔ آخر ترقی یافتہ ممالک میں دیہاتوں  سے شہروں کی جانب ہجرت کیوں نہیں کی جاتی ۔ انہیں سہولتوں کے سبب ۔ یاد رکھیئے خوشحال کسان ہی کسی ملک کی زراعت کی ترقی کی علامت ہوتا ہے ۔ 
                          ●●●
        

بدھ، 6 دسمبر، 2017

راستے جدا ٹہرے / کالم


راستے جدا ٹہرے 
ممتازملک. پیرس 

ماں اور باپ کی محبت فطری محبت ہوتی ہے وہ اس کو خون کے لوتھڑے ہونے سے لیکر بھرپور جوان ہونے تک پروان چڑہاتے ہیں اس کی ضروریات اور شوق پورے کرتے ہیں چڑیا کے بچے کی طرح اسے اڑنا سکھاتے ہیں۔
 لیکن جب وہ اڑنا سیکھ لیتا ہے تو کہاں کہاں کس کس شاخ پر بسیرا کرتا ہے، یا کس ماحول  میں جاتا ہے،  کس انداز سے فیصلے کرتا ہے، یہ  سب اکثر انکے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا .
بہن بھائی جن کیساتھ اس کی نسل کا تار فطرت نے جوڑ رکھا ہے . وہ بھی اس کے ساتھ لڑتے جھگڑنے ایک دوسرے سے مفاد حاصل کرتے زندگی کے گول چکر پر آ کر اپنی اپنی پسند کی راہ  منتخب کر کے اپنے اپنے خاندان میں گم ہو جاتے ہیں . وہ آپ کو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا آپ ان سے کبھی کبھار رابطے میں آتے ہیں .
نکاح ایک انتہائی خوبصورت رشتہ ،جس کے دو بول ایک عورت اور مرد کو ایسے تعلق میں باندھ دیتے ہی کہ گویا وہ ایک دوسرے کا لباس ہو گئے۔ دو انسانوں کے دل کے تار ایک دوسرے سے  خالق نے اس طرح جوڑ دیئے کہ ایک تار کو چھیڑنے پر دوسرا تار خود بخود اسی سر میں بجنے لگتا ہے . دونوں کی خوشی، غمی، نفع ، نقصان، عزت اور بے عزتی جتنی اس رشتے میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑ جاتی ہے شاید وہ کسی بھی دوسرے رشتے میں اس طرح وابستہ دکھائی نہیں دیتی.
لیکن کچھ لوگوں کی زندگی میں زندگی کا ساتھی کبھی ایسا مل جائے جو اس کی سوچ اور تصور یا اس کی امید سے  نوے ڈگری کے اینگل  پر کھڑا نظر آتا ہے . یا جب آپ کو اس کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ آپ کی پشت سے  غائب ہی ملتا ہے . آپ کی خوشی اور غم سے اسے کوئی غرض نہیں ہوتی یا آپ کی آنکھ کا آنسو اس کے دل پر نہیں گرتا تو جان لیجیئے کہ دو غلط لوگ ایک مقام پر اکھٹے ہو چکے ہیں . ایسے میں شروع ہوتی ہے روز کی چخ چخ...  ایک دوسرے کو نیچا دکھانا ، شک کر کر کے اس کا خون جلانا، اس کی کامیابیوں سے حسد کرنا ، اس کے ہر کام میں کیڑے نکالنا ،  گھریلو تشدد کا شکار ہونا (مرد و عورت دونوں ہی اس کا شکار ہو سکتے ہیں ) ایکدوسرے کی زندگی سے آرام اور سکون کو تباہ کر دینا، تحفظ کے احساس سے خالی زندگی، اپنے شریک زندگی  کیساتھ دوستی کا فقدان ... .
یہ سب کچھ انسان کو اس بات پر سوچنے پر مجبور کر دیتا  ہے کہ کیا اسے اپنی مرضی اور خوشی سے زندگی گزارنے کا کوئی حق نہیں ہے ؟
لیکن ہمارا معاشرہ  ہمیں نام نہاد عزت کی دہائی دیکر، کبھی بچوں کا واسطہ دیکر ، کبھی  لوگ کیا کہیں گے کا بینڈ بجا کر تاحیات اس ذلت بھری زندگی میں جڑے رہنے پر مجبور کرتا رہتا ہے اور اس فیصلے کو بھی لینے سے روکتے رہتے ہیں جس کا حق ہمیں ہمارا قانون، اللہ کی کتاب اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت بھی دیتی ہے . 
ہمارا دین تو عورت کو پورا پورا حق دیتا ہے کہ اسے اپنے شوہر کی اگر شکل بھی پسند نہیں ہے تو اسے چھوڑ سکتی ہے لیکن ہماری عورت کبھی اپنا یہ حق کسی چھوٹی موٹی بات پر استعمال کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی . اور جب وہ ایسا سوچ لے تو سمجھ لیں وہ صبر کہ آخری منزل تک  آ پہنچی ہے .
شادی پسند نا پسند کا معاملہ ہو تو شادی سے پہلے علم بغاوت بلند بھی کیا جا سکتا ہے لیکن جہاں شادی کے بعد آپ کی زندگی دوذزخ بنا دی جائے تو بھی بڑوں کے طعنے پر عورت  یہ سوچ کر اولاد پیدا کر لیتی ہے کہ چلو یہ آدمی اپنے بچے کی محبت میں ہی ٹھیک ہو جائیگا. لیکن پوتڑوں کے بگڑے بھی کبھی ٹھیک ہوئےہیں کیا؟
اور ویسے بھی اولاد تو چند سال میں ویسے ہی بیاہ کر چھوڑ کرچلی جائے گی تب تک بھی اکثر ماں ہی اور کبھی کبھی اکیلا باپ ہی قربانی دیتا ہے . تو کیا یہ ظلم نہیں ہے .کچھ بھی کر لو بعد میں اولاد سے انعام تو یہ ہی ملتا ہے کہ آپ نے ہمارے لیئے کیا ہی کیا ہے؟
انہیں کون بتائے کہ کس نے اپنی جوانی ،اپنی طاقت، اپنے ہنر، اپنی زندگی ،تمہاری خاطر راکھ کر دی .
اور ذرا سی بھی انسانیت اس مرد میں ہے تو اسے عزت سے اپنی زندگی سے رخصت کر دے . ورنہ یہ حق وہ اپنے پاس تو رکھتی ہی ہے. ہمارےمعاشرے میں بچے پہلے عورت کے پاؤں کی بیڑی بن جاتے ہیں اور جوان ہو کر اسی عورت کے گلے کا پھندا. شادی کو عورت کے لیئے تحفظ اور سکون کے رشتے کے بجائے شاید اسے توڑنے اور اذیت دینے کا ایک ذریعہ بنا دیا جاتا ہے . جہاں نہ اس کی کوئی ذات باقی رہے، نہ اس کا کوئی ہنر بچے، نہ ہی اس کا کوئی شوق سلامت رہنے دیا جائے .اس کی اپنی شخصیت کو مرد اور بچوں کے جوتوں کے نیچے کچل دیا جائے . جبکہ اسے بھی اللہ نے ایک جیتے جاگتے دل دماغ اور کچھ صلاحیتوں کیساتھ اس دنیا میں پیدا کیا ہے .
افسوس اسے انسان سمجھنے اور اس کے جذبات کی قدر کرنے والے دنیا میں بہت کم لوگ پائے جاتے ہیں.  لیکن خدا کو جوابدہ سبھی کو ہونا پڑے گا، اسے انسان سمجھنے والوں کو بھی اور نہ سمجھنے والوں کو بھی ۔                                                              ---------    



اتوار، 22 اکتوبر، 2017

اچھی رہنمائی اچھا مستقبل / کالم



 اچھی رہنمائی اچھا مستقبل 
ممتازملک. پیرس 

اب  وہ وقت گزر گیا ہے جب بچہ گریجویشن یا ایم اے کرنے کے بعد بڑا آدمی بن جایا کرتا تھا . اب تو مقابلے کا زمانہ ہے جناب . جو شخص اپنے شعبے میں جتنی عملی مہارت رکھتا ہے وہی آگے نکل پاتا ہے . ہر جدید علم اور ٹیکنالوجی سے باخبر رہنا وقت کی اہم ضرورت اور کامیابی کے کنجی ہے. ایسے میں  بچوں کو ان کے مستقبل کے لیئے مضامین کے چناو میں رہنمائی کی اشد ضرورت ہوتی  ہے .  بدقسمتی سے ہمارے  اکثر تعلیمی اداروں میں ایسی کسی کونسلنگ کا کوئی انتظام ہی نہیں ہے 
 اور جن ممالک میں یہ انتظام موجود بھی ہے وہ سو فیصد مثبت رہنمائی پر مشتمل ہی نہیں ہے . کیوں کہ کونسلرز کی اکثریت بچے کو رہنمائی کرنے سے زیادہ اس پر اپنی رائے مسلط کرنے کی فکر میں ہوتی ہے . یہ سوچے سمجھے بنا کہ اس کے نتیجے میں اس بچے کا سارا مستقبل داؤ پر لگ جائیگا .  اس لیئے ضروری ہے کہ ادارے اچھے اور ذمہ دار کونسلرز کا  اپنے اداروں میں تعین کریں . اور انہیں بچے کے رجحان کو سمجھنے کے لیئے اسے کم از کم ایک سال تک چھوٹے چھوٹے مختلف مضامین اور ٹیکنیکس کے ٹیسٹ کے ذریعے  پرکھا جائے . انہیں مختلف سوالنامے حل کرنے کو دیئے جائیں . جسے حل نہ کرنے کی صورت میں  اس پر دباو نہ ڈالا جائے بلکہ سمجھا جائے کہ اسے کس ٹائپ کے سوالنامے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے . گویا بچے کی جانب سے یہ بھی اس مضمون میں عدم دلچسپی کا بھرپور اظہار ہے . سو اگلے مضمون کا سوال نامہ اسے سونپا جائے . یا بہت سے سوالنامے الگ الگ مضامین  پر تیار کیئے جائیں اور طالبعلم کے سامنے ایک ساتھ رکھے جائیں اور اسے مکمل اور خوش کن اختیار دیا جائے کہ  جو چاہو سوال نامہ پر کرنے کے لیئے اٹھا لو . اور اس کے منتخب کردہ سوالنامے پر کسی کو اعتراض کا کوئی حق نہیں ہونا چاہیئے . کیونکہ یہ اس طالبعلم کی پوری زندگی کا دارومدار ہے .اس کے ساتھ نہ تو آنے والی زندگی میں کام تلاش کرتے ، نوکری کرتے یا کاروبار کرتے وقت آپ میں سے یا والدین میں سے بھی کوئی اس کے ساتھ نہیں ہو گا . اسے روزگار کمانے کی جنگ اکیلے ہی لڑنی ہے اور مستقبل بنانے کا سفر اکیلے ہی طے کرنا ہے . سو اس کا اختیار بھی صرف اسی کے پاس ہونا چاہیئے 

بچوں کو پروفیشنل اور ٹیکنیکل  ڈگری کی جانب راغب کیا جانا بھی بے حد ضروری ہے .
ورنہ خالی جولی چار چار ایم اے بھی اس کے روزگار کی ضمانت نہیں ہو سکتے .
ابس لیئے اب یہ بچے کی پسند  اور دلچسپی پر منحصر  ہے کہ وہ  کمپیوٹرز پروگرامز میں ہے یا
تعمیراتی کاموں میں ،فیشن سے متعلق شعبوں میں (جس میں  میک اپ ، سٹچنگ،  ڈیزائننگ اور اس سے متعلق بےشمار موضوعات شامل ہیں)
انٹیرئیر یا ایکسٹیرئیر ڈیکوریشن  کے مشامین. ..
پاکستان اور دنیا بھر میں بہت اچھے ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹس  موجود ہیں . جو آپ کو پروفیشنل اور ٹیکنیکل  تعلیم کیساتھ اپنے پیروں پر  خود مختار طور پر کھڑا کرتے ہیں .
لیکن یاد رکھیں طالب علم کو  جبرا کوئی مضمون اختیار مت کروایئے اس طرح اس کی کامیابی  کے  امکانات آدھے رہ  جاتے ہیں . اسے سارے مضامین سامنے رکھ کر ان میں سے  اس مضمون  کو چننے کی اجازت دیجیئے جس میں کام.کر کے وہ  دلی خوشی محسوس کرے اور اپنے مضمون اور کام کو انجوائے کرے.تبھی وہ اسمیں کمال دکھا پائے گا
. ممتازملک  . پیرس 






منگل، 17 اکتوبر، 2017

بچے بچپن اور تحمل / کالم



           بچے بچپن اور تحمل
      (تحریر:ممتازملک .پیرس)



گذشتہ دنوں گونگے بہرے بچوں کیساتھ بس میں کنڈیکٹرز کے ہاتھوں  مارپیٹ اور تشدد کرنے والے مجرمان میں سے  ایک نے خود کو حافظ قرآن کہا تو ایک نے خود کو چوتھے امام کی اولاد ...

اور ان کے پیچھے لوگ کبھی نماز ادا کرتے ہیں اور کبھی رمضان کی مبارک راتوں میں میں تراویح ادا کرتے ہیں .
* ایسے بے دین اور بے شرم لوگوں کے پیچھے نماز پڑھنے والے کیا فیض پاتے ہونگے؟
* اور ان کی دعاوں میں کیا تاثیر ہو گی ؟
* کیا ان کے اپنے بچے ان کے گندے ہاتھوں سے محفوظ ہونگے ؟
سکولوں کے اساتذہ کو دیکھیں تو وہ ایسے  کہ جنہیں کہیں نوکری نہ ملی وہ استاد بن گئے اور اپنے گھر کا روز کا ڈپریشن بچوں کہ کھال اتار کر نکالتے ہیں . 
کام سکھانے والے استادوں کو دیکھے تو وہ ان معصوم  بچوں کیساتھ بدفعلیوں اور  اوربدسلوکی کی انتہا کر دیتے ہیں .
بچوں کے ساتھ نرسنگ میں ہوں تو .نومولود بچوں کو ساری رات تڑپتا چھوڑ کر خود خوش گپیوں  میں ٹائم پاس کیا جاتا ہے. یا بچوں کی خریدو فروخت اور بچے بدلنے کا کاروبار کیا جاتا ہے .
کنڈر گارڈن یا نرسریز میں کام کرتے ہیں تو بچوں کو نومولود سے لیکے تین سال تک کے بچوں کو بری  طرح خوفزدہ کیا جاتا ہے یا انہیں رونے اور بھوکا ہونے پر مار مار کر آدھ موا  کر دیا جاتا ہے.  
چوکیدار میں ہوں تو معصوم بچوں بچیوں پر گندی نظر رکھی جاتی ہے اور ان کا شکار کرنے کے لیئے گھات لگائی جاتی ہے .
  ہم مسلمان ہیں ہمیں تو حکم ہے کہ حالت جنگ میں بھی بچوں اور عورتوں پر ہاتھ مت اٹھاو ..
جو بزرگوں سے محبت اور بچوں پر شفقت نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں . 
مسجد میں بھی بچوں کی شرارتوں کو  نظر انداز کر دو کہ مبادا کہیں تمہاری جھڑکیوں سے ڈر کر وہ مسجد میں آنا ہی نہ چھوڑ دیں . سو اس پر صبر کرو .

بچوں کیساتھ کہیں بھی کسی بھی شعبے میں کام کرنے کے لیئے بیحد صبر اور تحمل کی ضرورت ہوتی ہے . اگر آپ میں یہ صبر و تحمل نہیں ہے تو بہتر ہے کہ خدا کے لیئے آپ بچوں کے ساتھ کوئی بھی ملازمت کرنے سے پرہیز  کریں .

یورپ میں جب بھی آپ بچوں سے وابستہ کسی شعبے میں کام کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے آپ کا کیریکٹر اور آپ کی شخصیت کو دیکھا اور پرکھا جاتا ہے . 
آپ سے آپ کی حقیقت اگلوانے کے لیئے گھما پھرا کر سوالات کیئے جاتے ہیں کہ 
* آپ بچوں کے ساتھ کیوں کام کرنا چاہتے ہیں؟
* آپ کو بچوں کیساتھ ہی کام کرنے کا خیال کیسے آیا ؟
* آپ بچوں کے بارے میں کیا جانتے ہیں ؟
*کیا کبھی آپ کو بچوں کے ساتھ وقت گزارنے یا کام کرنے کا موقع ملا ہے ؟
* اگرملا ہے تو آپ نے اس سے کیا سیکھا؟
* بچہ ایسا کرے تو آپ کیا کرینگے ؟
* بچہ ویسا کرے تو کیا کرنا چاہیئے؟
* بچہ کسنموڈ میں کیا کرتا ہے ؟
بچہ پیدا ہونے  کے فورا بعد کس پوزہشن میں ہوتا ہے؟
*اسکی مٹھی کتنی دیر بعد کھلتی ہیں ؟
* اس کی آنکھیں کتنی دیر کے بعد پوری طرح کھلتی ہیں ؟
* وہ کتنے دنوں کے بعد کیا کرتا ہے ؟
وغیرہ وغیرہ وغیرہ وغیرہ 
کیا ان سب سوالات کے جوابات ہمارے ہاں کے بچوں کی فیلڈز میں کام کرنے والے کسی بھی استاد یا دوسری ملازمتوں میں موجود کسی بھی فرد سے حاصل کر سکتے ہیں ؟
میرا خیال ہے اگر ان سوالات اور اس سے متعلق تربتی مواد پڑھنے اور عملی تربیت کے بنا آپ بچوں کے کسی بھی شعبے میں کام کر رہے ہیں تو آپ صرف حرام کی تنخواہ لے رہے ہیں .کیونکہ اصل میں آپ میں سے کسی کو بھی اس کے بغیر بچوں کے ساتھ کسی بھی شعبے میں کام نہیں کرنا چاہیئے .
ذراسوچیئے 
کہ آپ کے بچے کن ہاتھوں میں پل رہے ہیں ؟
خود آپ بھی بچوں کی نفسیات اور جسمانی تقاضوں کو کتنا جانتے ہیں ؟

ہفتہ، 6 دسمبر، 2014

خدا اور مجازی خدا / کالم


                                

        خدا اور مجازی خدا
        تحریر: ممتاز ملک. پیرس


عورت دنیا کی وہ مخلوق ہے جس میں جذباتی پن باقی تمام مخلوقات سے کہیں ذیادہ پایا جاتا جاتا ہے .مردوں کی دنیا نے عورت کے جذبات کو اپنے مقاصد کے لئے خوب خوب استعمال کیا. جب وه جوان ہوتا ہے تو کسی اور کی بیٹی کو محبت کےدهوکے میں اٹھارہ بیس سال تک پالنے اور پڑھانے لکھانے دنیا میں جینے کے قابل بنانے والے اپنوں کو اپنے ہی ماں باپ کے خلاف کھڑا کر دیتا ہے۔ اسے ہر بات پر بغاوت کے لئیے اکساتا ہے. ہیر رانجھا، سسی پنوں، سوہنی ماہیوال اورلیلی مجنوں کو اس کی زندگی کاآئیڈیل بنا دینا چاہتا ہے. اور اگر وہ اس کےدکهائے رستے پر آنکهیں بند کر کے چلنے پر راضی نہ ہو جائے تو کبهی اسے بیوفائی کا طعنہ دیگا تو کبهی اسے خود غرض کہے گا. ایک وقت آتا ہے کہ وہ لڑکی گوڈے گوڈے اس کے عشق میں مبتلا ہو کر ہر رشتہ ہر تعلق توڑنے کو تیار ہو جاتی ہے اس کے ساته اپنا گهر بار چھوڑ کر نیا جہاں آباد کرنے کو گهر کی دہلیز بهی لانگ جاتی ہے. یہ وہ قدم ہوتا ہے جو کسی بهی عورت کے لیئے عزت اور وقار کیجانب لوٹنے والے سارے دروازے بند کر دیتا ہے.
پهر شروع ہوتا ہے کہانی کا دوسرا حصہ, اب اس لڑکے یا آدمی کی مرضی کہ کبهی تو اسے اپنے مصرف میں لاکر کسی سڑک پر کچرے کے ڈھیر میں پھینک آئے, چاہے تو کسی بازار میں بٹھا کر چار پیسے کهرے کر لے, یا پهر کوئی رتی بھر بهی کبهی لگاؤ رہا تها تو اس کے صدقے اس سے کسی مسجد یا کچہری میں نکاح کر لے گا. لڑکی چار دن کے عشق کے بخار کے بعد اپنے بیوی والے حقوق چاہتی ہے. تو موصوف کی جب اور جتنی مرضی کوئی حق دے یا ہش کہہ کر اسے ایک طرف دھکیل دے. ہر مرد کی یہ دلی خواہش ہوتی ہے کہ اسکی بیوی شادی سے پہلے ایک بڑے اور اعلی خاندان سے تعلق رکهتی ہو لیکن شادی کے بعد اسے بلکل لاوارث ہونا چاہیئے. تاکہ وہ جب اور جیسے چاہے اس لڑکی کی تواضع کر سکے. اس لیئے گهر سے بھاگی ہوئی لڑکی اسے ذیادہ مناسب لگتی ہے. کیونکہ جب بھی یہ لڑکی کوئی گلہ کرے تو پہلا جواب جو اس کی زبان کی نوک پر دھرا ہو گا وہ یہ ہی ہو گا کہ میں کون سا تیری ڈولی اٹھانے آیا تھا یا میں کونسا بارات لیکر تیرے دروازے پر کھڑا تھا کہ آنکهیں دکھاتی ہے. میری مرضی سے رہنا ہے تو رہ ورنہ رستہ لے, کیونکہ وہ اچهی طرح جانتا ہے کہ رستے تو سارے وہ اس کے عشق کےاندهیرے میں گنوا آئی ہے.
دوسری جانب جب خود بیٹی کا باپ بنتا ہے تو چاہتا ہے کہ ہوا بهی اس سے پوچھ کر اس کی بیٹی کو چھوئے. اس کے لئے یہ ہی ہیر رانجھا, سسی پنوں آوارہ لوگ ہو جاتے ہیں. عزت سے گهر پر رشتہ لانےوالوں میں بھی ہزاروں کیڑے نظر آنے لگتے ہیں. بیٹی کا صرف  اپنی مرضی کا اظہار بهی بدبختی قرار دیا جاتا ہے. سمجه میں نہیں آتا کہ جو حق اس نے کسی کی بیٹی کو بیوی بنا کر نہیں دیا اس کا تقاضا وہ کسی اور سے اپنی بیٹی کے لئے کس منہ سے کرتا ہے.
 اس لئے کہ اسے اپنا مجازی خدا ہونا تو یاد رہتا ہے لیکن کاش اسے کسی اور ذات کا خدا ہونا بهی یاد رہے .                     ............

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/