ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک
کالمز لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
کالمز لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اتوار، 27 جولائی، 2025

موسمیاتی تبدیلی سے تباہیاں ۔ کالم۔ ممتازملک

موسمیاتی تبدیلی سے تباہیاں
 تحریر: (ممتازملک ۔پیرس)


دنیا بھر میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلیاں یہاں بہت سارے سیلاب ، طوفان، اضافی بارشیں اور شدید بارشیں، لینڈ سلائیڈنگ اس قسم کے بہت سارے معاملات لے کر ہر روز اتنے حادثات اور واقعات اور ناگہانی کی صورت میں سامنے آ رہی ہیں۔  وہاں پاکستان میں ان چیزوں کی شدت میں ابھی پچھلے دنوں ہونے والے سیلاب کی صورت میں خطرے کی شدید گھنٹی بجائی۔  کئی سالوں سے ان باتوں کے اوپر بات ہو رہی ہے۔  ان معاملات کو سنجیدگی سے لیا جائے لیکن ہماری حکومتوں سے آخر ایسی کیا غلطی سب سے زیادہ نمایاں ہو رہی ہے۔  جس نے آج ہمیں یہ دن دکھایا، تو ایک عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ ہاؤسنگ سکیموں کے نام پر کس طرح سے ندی نالوں کے کنارے بیچے گئے۔  کس طرح سے پانی کے راستے بیچے گئے۔ کس طرح سے پانی کے بہاؤ والے علاقے جیسے کہ نالہ لئی ہو ، جیسی مثالوں کو لے لیں ہمارے دریاؤں کی مثالوں کو لے لیں ، جن کے کناروں پر نہ صرف اتنی متصل آبادیاں بنا دی گئیں کہ تھوڑی سی بارش کے بعد بھی اس پانی کی گزرگاہ بند ہو جاتی ہے اور پھر باقی کسر لوگوں نے کوڑا کرکٹ پھینک کر اپنے ندی نالوں کو اس قدر غلیظ اور  تنگ کر لیا کہ وہاں سے پانی کے بہاؤ کی گنجائش بھی اتنی کم ہو گئی کہ تھوڑی سی معمول کی بارش کی صورت میں بھی وہ پانی نالوں سے باہر راستوں پہ بہنے لگتا ہے۔ لیکن ہم لوگوں نے اس پر کبھی سنجیدگی سے غور نہیں کیا ۔ کروڑوں روپے کے گھر بنا کر ہم جہاں پر بیٹھ گئے ہیں وہاں ہمیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم اس بات پر سوچنے کے لیے بالکل تیار نہیں ہیں کہ جب بارش ہوگی، یہاں سے پانی گزرے گا، تو پھر اس گھر کا کیا بنے گا؟ ہمارا یہ کروڑوں روپیہ بھی اس پانی کے ساتھ اسی طرح بہ جائے گا۔ لوگوں نے باقاعدہ زمین قبضہ کرنے کے لیے سب سے پہلی سکیم یہ بنائی ہوتی ہے کہ ہر علاقے میں کھلے میدان نالوں کے کنارے دریاؤں کے کنارے پر یا تو بطور گوالے آباد ہو جاتے ہیں یا پھر  جھگی واسی بن کر آباد ہو جاتے ہیں۔  اور پھر ان کے ذریعے وہ اس زمین کو قبضہ کرنے کے لیے اپنی طرف سے بہت سمجھداری دکھاتے ہیں لیکن جب ان کا لاکھوں کا ایک ایک جانور اس پانی میں انہی بارشوں میں بہہ کر جاتا ہے۔ سیلاب کی نظر ہوتا ہے۔ ان کے گھروں کے سامان بہتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ دیکھنے والے کو افسوس ہوتا ہے۔ لیکن کیا کریں کہ اس کے  سب سے زیادہ ذمہ دار وہ لوگ خود ہیں جو ایسی آبادیوں میں جا کر اباد ہوتے ہیں ۔جہاں پر گھر خریدا جاتا ہے اس کے بارے میں کوئی تحقیق نہیں کرتا کہ یہاں سے سیلاب کا پانی تو نہیں گزرتا۔ یہاں کوئی ندی نالہ ہے تو کیا یہ چیز اس کے راستے میں تو نہیں آ رہی اور تو اور بڑی بڑی ہاؤسنگ سکیموں نے ڈی ایچ اے جیسی بڑی نامور سکیم نے جب پلاٹنگ کی اور سکیم بنائی تو کوئی سوچ سکتا تھا کہ یہ پانی کے راستے کو بند کر رہے ہیں۔  یہ پانی کی گزرگاہ کو خرید رہے ہیں۔  لوگوں سے اربوں روپیہ جیب میں ڈالنے کے بعد کیا وہ ان کے لیئے اب کوئی متبادل سکیم بنائیں گے،  پیش کریں گے، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہمیں تو ایسی کوئی امید نہیں۔ حکومتوں سے غلطی یہ ہوئی کہ حکومتوں نے کبھی بھی دوسرے ممالک سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا ۔ 
 بالکل سعودی عرب ، یا دوبئی جیسے ملکوں کی طرف دیکھیں جہاں اس بات  پر  جب نہیں سوچا گیا  کہ ہم آبادیاں تو جدید بنا رہے ہیں لیکن جب اس علاقے میں کلائمٹ چینج ہوگا ۔ کل کو جتنی تیزی سے موسمیاتی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔  تو بارشیں۔ہونگی یا  اگر بارشیں  کبھی شدت اختیار کریں گی، جن علاقوں میں بارشیں شاید سال میں ایک دو بار ہوتی تھیں  وہاں جب بارشیں تواتر سے  ہوں گی؟  تو یہ پانی کن نالیوں میں سے گزرے گا ؟ کن نالوں تک پہنچے گا؟ سڑکوں کی کیا صورتحال ہوگی؟  ڈھلان کس طرف ہونی چاہیئے ؟ اٹھان کس طرف ہونی چاہیئے ؟ یہ سب کچھ بہت اہم تھا۔ جس کے لیئے کوئی نہ کوئی ماہر انجینیئر ہی اس وقت آپ کو فیصلہ کر کے دے سکتے تھے کہ یہاں پہ کہاں کہاں پر پانی کا رخ کہاں سے کہاں تک ہو سکتا ہے۔  اور آپ کو کس طرح سڑک بنانی چاہیئے لیکن یہ غلطیاں جو وہاں کی گئیں تو وہاں بھی طوفانی سیلاب اور تباہیاں دیکھنے کو ملیں۔ دنیا نے وہاں سڑکوں کو دریاؤں کی صورت اختیار کرتے گاڑیوں کو تیرتے اور ڈوبتے ہوئے دیکھا ۔ 
  لیکن وہاں پر ترقی کا معیار کچھ مختلف تھا پیسے کی فراوانی تھی  تو انہوں نے اس چیز پر جلد قابو پانا شروع کیا ۔ لیکن پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیئے یہ بہت مشکل کام ہے کہ آپ بنی  بنائی سوسائٹیز کو کس طریقے سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر سکتے ہیں۔  لیکن پانی کی گزرگاہوں اور پانی کہاں سے آ رہا ہے اور کس طرف جا رہا ہے۔  اس رخ کو تبدیل کرنے کے بارے میں آپ کے پاس کوئی انتظام نہ تھا نہ ہے۔ 
  آپ نے اس شعبے میں  گولڈ میڈل حاصل کرنے والے اور ریکارڈ بنانے،  ڈگریاں حاصل کرنے والے سالہا سال کی محنت کے بعد انوائرمنٹ چینج اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اوپر اپنی زندگی کے سالہا سال تعلیم حاصل کرنے پر لگانے والے طلبہ کے علم کو کام میں لانے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی۔ افسوس صد افسوس کہ ان تمام طالب علموں کو پاکستان میں استعمال کہاں کیا جاتا بلکہ ان کو تو اکثر نوکریاں ہی نہیں ملتی تھیں۔  ان کے لیئے یہ شعبے بنائے ہی نہیں گئے۔ ہر شعبے کی طرح موسمیاتی تبدیلیوں کے شعبے میں بھی ایسے ایسے لوگوں کو وزارتیں اور سفارتیں دی جاتی رہی ہیں جن لوگوں کا اس کام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔  ضرورت اس امر کی ہے کہ جو لوگ گولڈ میڈل حاصل کرتے ہیں جو لوگ ریکارڈز بناتے ہیں۔  اپنے اپنے شعبوں کے اندر ان کو اسی تعلیم کے اندر ان کی فیلڈ کے اندر ، ان کی ڈومین کے اندر استعمال کیا جائے اور ان کے ذریعے ان کی نئی سوچ کو،  نئی تعلیم کو اور دنیا بھر میں ہونے والی تبدیلیوں کے ساتھ متناسب انداز میں نپٹنے والے شعبوں میں  بہترین نوکریاں دی جاتیں۔ اور ان نوکریوں کے ذریعے ان کے علم کو استعمال کیا جاتا ۔ کہیں بھی ہاؤسنگ سکیم بنانے سے پہلے یہ شرط لگائی جاتی کہ وہ لوگ کسی اچھے موسمیاتی ماہر   کے ذریعے( اسی طرح جیسے نقشہ بنانے والے سے پیمائش کرانے والے سے سرٹیفیکیٹ حاصل کیا جاتا ہے )اس علاقے میں ہونے والی، آنے والی آئندہ کی تبدیلیوں کو نوٹس کیا جاتا۔ اور اس کے اوپر باقاعدہ کام کیا جاتا۔  لیکن ہمارے ملکی حالات میں  یہ بھی تب درست ہو سکتا تھا جب ہمارے ملک میں وہ آنے والا ماہر بھی کرپشن کے ذریعے نہ آیا ہوتا۔  رشوت دے کر نہ آیا ہوتا۔  اس کی ڈگری جعلی نہ ہو،  اور وہ باقاعدہ تعلیم حاصل کر کے، اپنے علم کے زور پر اور اپنی کامیابیاں سچی لے کر آیا ہو۔ اور پھر ان کامیابیوں کے لیئے واقعی اتنی صلاحیت رکھتا ہو، ہنر مندی کی بنیاد پر،  میرٹ کی بنیاد پہ آیا ہو اور پھر وہ رشوت خور نہ ہو،  وہ کرپٹ نہ ہو ، تبھی وہ بہترین انداز میں اپنی خدمات پیش کر سکتا ہے۔  دنیا بھر میں ہونے والی تبدیلیوں کو درست کرنے یا پھر ان کے نقصانات کو کم کرنے کے لیئے پاکستان کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے ۔ لیکن سب سے پہلے ہمیں پاکستان میں اپنے اس کردار کو ادا کرنا ہے کہ ہم ان تبدیلیوں سے کس طرح سے نپٹ سکتے ہیں۔  کیونکہ یہ ہمیں کرنا ہی کرنا ہے۔  ہم چاہیں یا نہ چاہیں۔  اربوں کھربوں روپے کا ایک ایک منصوبہ لگانے کے بجائے سب سے پہلے اس ماہر کو وہاں لایا جائے جو یہ بتائے کہ یہاں پر ہوا کا رخ،  پانی کا رخ ، زلزلوں کی صورتحال اور پھر خدانخواستہ پہاڑوں سے گرنے والے پتھروں کے خطرات  کو کیسے سمجھا اور اس کی روک تھام کی جا سکے۔  ایسے واقعات کی شدت کو کم کیا جا سکے اور ایسے حادثات کی صورت میں نہ صرف انسانی جانوں کو بچایا جا سکے بلکہ بہت سارے اس سرمائے کو بچایا جا سکے جو لوگوں کے ٹیکس کے پیسے سے ان منصوبوں پر لگایا جاتا ہے۔ 
                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہفتہ، 12 جولائی، 2025

عورت کا جسم تو؟؟؟. کالم


    عورت کا جسم تو ؟؟؟
    تحریر:
     (ممتازملک. پیرس)

پچھلے دنوں پاکستان کے شہر کراچی میں ایک اور نوجوان اداکارہ کی لاش کئی ماہ کے بعد یا شاید سال بھر کے بعد اس کے کرائے کے فلیٹ سے ملی ۔ 
حمیرا اصغر اعلی تعلیم یافتہ، اچھے خاندان سے تعلق رکھنے والی لڑکی تھی جو  اپنی محنت سے ایک ایک قدم اداکاری کے شعبے میں رکھ کر آگے بڑھ رہی تھی۔ 
اس نوجوان خوبصورت باصلاحیت لڑکی کی لاش اس کے باپ اور بھائی نے وصول کرنے انکار کیا اور اپنے ماتھے پر غیرت مندی کا سہرا  سجایا تو ہمارے معاشرے کے اور بہت سے نام نہاد غیرت مندوں کے ایسے ایسے بہتان تراش اور غلیظ خیالات پڑھنے کو ملے کہ روح تک کانپ جاتی ہے۔
بہت ہی بے غیرتی بھری تحریریں نظر سے گزریں۔  جسے عورت کو چیلنج کرنے کے لیئے غیرت کا لیبل لگا کر چپکایا جا رہا ہے ۔ پہلے تو یہ تسلیم کرو کہ عورت بھی انسان ہے اور اسے بھی خدا نے پورا دل دماغ سوچ اور شخصیت عطا کی ہے۔ ہر لڑکی کو اس بات کا پورا حق خدا نےدیا ہے ہمارے  قانون نے دیا ہے کہ وہ اپنی مرضی کی تعلیم،  شعبہ، ذریعہ روزگار، اپنی زندگی کا ساتھی حاصل کرے ۔ کوئی باپ اور بھائی اس کے اس حق کو ہائی جیک نہیں کر سکتا۔ 
اس لڑکی کو لاوارث چھوڑنے والے یہی باپ اور بھائی،  کل کو اگر یہ لڑکی کامیاب ہو جاتی ۔ دولت مند مشہور شخصیت بن جاتی توکونوں کھدروں سے کاکروچ کی طرح نکل کر اس کے نام کو اپنا جھومر بنا لیتے۔ جیسے ریما ،خوشبو، صاحبہ ،میرا ، جیسی اداکاراؤں کے باپ پیدا ہو گئے ۔ 
یہ لڑکی اتنی ہی بڑی بدکار ہوتی تو اتنے سال کی جدوجہد میں چھوٹے چھوٹے رولز کر کے اپنی پینٹنگز بیچ کر گزارا نہ کر رہی ہوتی ۔ کرائے کے فلیٹ میں جانے کتنے دن کے فاقے سے یا صدمات سے، یا  دل کے دورے سے نہ مر گئی ہوتی ۔ 
ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا گند ہی یہی ہے کہ یہاں عورت نے جہاں اپنی زندگی کا کوئی فیصلہ خود لینا چاہا، وہاں اسے آوارہ ، بدچلن ، بےحیا،  بےشرم اور جانے کیا کیا ٹھپے لگا کر اس کے راستے میں کانٹے بچھاتا اور اسے سنگسار کرتا ہے۔ 
اپنی زبانوں کو لگام دینا سیکھیئے۔ اپنے گریبانوں میں جھانکیئے۔ ۔ 
اللہ اور قانوں کے دیئے ہوئے انسانی حقوق کا ٹھیکیدار صرف مرد ہی نہیں ہے۔ عورت بھی اتنی ہی حصہ دار ہے۔ 
کیوں ہمارے معاشرے کا ٹھرکی ، کھسروں تک کے پیچھے بھی پاگل مرد ہر عورت کے جسم پر اپنا حق جمانا چاہتا ہے؟ 
اس کا جسم ہے تو وہ ہی یہ حق رکھتی ہے کہ وہ اسے کیسے استعمال کرے یا سنبھالے یا بچائے۔ 
جہاں باپ اور بھائی بیٹی اور بہن پر گھروں میں بدمعاش بن جاتے ہیں۔  ان کی آکسیجن تک بند کر دیتے ہیں۔  وہاں وہ اپنا فیصلہ خود کرنے کا پورا حق رکھتی ہیں ۔ وہ غنڈے باپ بھائی نہ تو غیرت مند کہنے کا حق رکھتے ہیں نہ ہی ہیرو کہلا سکتے ہیں ۔ 
اس لڑکی کے کردار پر تبصرہ کرنے اور اپنے اندر کی گندگی نکالنے سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ اس بات پر غور کیا جائے کہ آخر وہ کون سے عوامل ہوئے کہ اس شہر کے لوگ جو اسے کئی سال سے جانتے تھے، لیکن بے حس، بے خبر ، گونگے، بہرے ہو گئے ۔ جن میں اس کا کوئی دوست نہیں تھا ۔ کوئی ملنے والا نہیں تھا ۔ اور تو اور جن کے ساتھ یہ کام کرتی تھی، جن کے ساتھ اس کے کام کے معاہدے ہو چکے تھے۔  ان میں سے کسی نے اس بات کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ یہ  باصلاحیت لڑکی جو ہمارے پروجیکٹ کا حصہ ہے، وہ اگر فون اٹینڈ نہیں کر رہی، وہ اگر بات نہیں کر رہی، کہیں دکھائی نہیں دے رہی ، تو اس کے بارے میں اس کے گھر جا کر پتہ کیا جائے کہ وہ کہاں ہے؟ اگر دروازے پر برابر تالا دکھائی دے رہا ہے تو پھر مالک مکان کہاں تھا ؟جو کہتا ہے کہ مجھے اتنے مہینوں سے کرایہ نہیں ملا . سال بھر سے غالبا پچھلے سال 2024ء میں مئی کے مہینے میں اس کا آخری بل جمع ہوا۔  اور آخری بار وہ دیکھی گئی۔  اس وقت سے لے کر ابھی پھر مئی 2025ء میں گزر چکا ہے۔ لیکن اس کا گھر بند ہونا اسکا دکھائی نہ دینا نوٹس نہیں کیا گیا۔  افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ کوئی شہر کوئی محلہ کوئی علاقہ کوئی بلڈنگ اتنی بے حس کیسے ہو سکتی ہے۔  کہ آپ کا وہ پڑوسی کافی دنوں سے دکھائی نہیں دیا جو آپ کی زبان بولتا ہے۔  وہ آپ کے ملک کا حصہ ہے۔  وہ آپ کی معاشرت کا حصہ ہے۔  آپ کسی بیرون ملک نہیں رہتے۔  پھر آپ ایک دوسرے سے زبان کے فاصلے پر نہیں ہیں۔  ساتھ ساتھ آپ کے دروازے جڑے ہوئے ہیں۔  لیکن سوراخوں میں سے لوگوں کے گھر کتنے مرد اور کتنی عورتیں آئی اور گئی کی گنتی رکھنے والے ہمارے معاشرے خصوصا فلیٹس میں رہتے ہوئےاندازہ لگانے اور گنتی رکھنے والے ہمارے معاشرے میں کسی کو یہ کیسے پتہ نہیں چلا کہ ایک لڑکی کتنے دنوں سے اپنے گھر پر مردہ پڑی ہے۔ نیند کی حالت میں اس کی موت ہو گئی یا اسے دل کا دورہ پڑا یا اور کوئی مسئلہ ہوا جس میں اس نے شاید کسی کو آواز دی ہوگی۔ اگر نہیں بھی دی تو اس کے وجود سے موت کے بعد اٹھنے والے تعفن نے کسی کو خبردار نہیں کیا ؟ کیا اس کا فلیٹ اتنے بدبو زدہ علاقے میں ہے جہاں اس کے وجود سے اٹھنے والا تعفن بھی کسی کو محسوس نہیں ہوا؟  سوالات بہت سے ہیں اور یہ سب کچھ کسی اور کے ساتھ نہیں کل کو آپ کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔  اگر یہ معاشرہ اس قدر بے حس ہو چکا ہے کہ عائشہ خان جیسی بزرگ ہنستی بولتی خاتون کے بارے میں بے حسی کا شکار ہو اور مہینے بھر بعد اس کی لاش اسکے فلیٹ سے برآمد ہوتی ہے۔ تو ہم سب  کو خود پر اس وقت کا انتظار شروع کر دینا چاہیئے۔ 
اکیلے رہنا کوئی گناہ نہیں ہے ۔
بہت سے لوگ اپنے روزگار کے لیے کاروبار کے لیے تعلیم کے لیے دنیا بھر میں سفر کرتے ہیں یا اکیلے رہتے ہیں کئی لوگوں کا دوسروں کے مزاج سے نہیں ملتا ان کی عادتیں ایک دوسرے سے نہیں ملتی اس لیے وہ دوسروں کی دخل اندازی برداشت نہیں کرتے تو ایسے میں وہ اپنے لیے الگ رہائش یا کمرہ لے کر رہتے ہیں تو اس میں کیا برائی ہے کیا اپ کسی کے کردار کا فیصلہ اس بات سے کریں گے کہ وہ اکیلا رہتا ہے یا رہتی ہے شاید کسی لڑکے کے لیے ایسا نہ ہو لیکن کسی کی خاتون کے لیے ایسا سوچتے ہوئے ہمارا پورا معاشرہ جج بن کے ہمارے سامنے کھڑا ہو جاتا کیونکہ اگر عورت اکیلی رہتی ہے تو بس پھر وہ بری عورت ہے وہ دو نمبر عورت ہے لیکن مرد چاہے اکیلا رہے چاہے کہیں بھی ہو وہ ہمیشہ نیک اور پرہیزگار رہے گا 
 لیکن اکیلی یا اکیلا رہنے والے کو بھی اپنے پڑوسیوں کے ساتھ سلام دعا کا تعلق ضرور رکھنا چاہیے۔  اور پڑوسیوں کو بھی معلوم ہونا چاہئیے کہ ہمارے دائیں بائیں ارد گرد کون کون رہتا ہے۔  ایک دوسرے کے گھروں میں گھسے رہنا کوئی لازمی شرط نہیں ہے۔  آپ کی واقفیت کے لیئے ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا کر سلام کرنا اور گزر جانا بھی بہت بڑی بات ہے۔ 
جتنا ہم اپنے دین کے اصولوں سے دور ہوتے ہیں تو گویا انسانیت سے بھی پلہ جھاڑ کر کسی عجیب ہی زمانے میں پہنچ چکے ہیں۔  جہاں نہ کوئی رشتہ ہے، نہ کوئی تعلق ہے اور نہ ہی کوئی لحاظ یہی ہے ہماری تباہی کی وجہ۔۔۔۔۔
تحریر ۔
(ممتازملک ۔پیرس)


اتوار، 29 جون، 2025

ولدیت کا خانہ؟ کالم


                ولدیت کا خانہ ؟
      تحریر: (ممتازملک۔ پیرس )


اگر طلاق کیساتھ مرد ایک عورت کو اس کی جوانی صحت اور عزت واپس نہیں لوٹاتا تو خلع کی صورت میں کس طرح عورت سے اسکی دی ہوئی ہر شے واپس مانگ سکتا ہے. عورت کی عزت وقار جوانی سب کو مٹی می رول کر تین لفظ اس کے منہ پہ مار کر اسے دروازے سے باہر کھڑا کر دینے کا اختیار اسے کس انسانی یا اسلامی کتاب میں ملتا ہے.  
 پھر وہ چاہے تو پیدا کی ہوئی اولاد کو لاوارث چھوڑ سکتا ہے۔
یا اس کے اخراجات سے منہ موڑ کر اسے بھکاری بنا کر کیسے چھوڑ سکتا ہے؟
اپنی اولاد یا تو چھین لے گا یا پھر اس کی گود میں ڈال کر خود لڑکا بن کر کسی اور عورت کو الو بنانے چل دیگا...
ہمارے ملک میں کہنے کو تو اسلام موجود ہے ۔ جس کا نوے فیصد قانونی حصہ صرف مرد کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے. باقی دو فیصد قوانین اگر عورت کے اوپر احسان سمجھ کر بنا بھی دیئے ہیں تو بھی ان پر عملدرآمد کی کوئی خبر ہماری نظروں سے تو نہیں گزری..
کیا کسی ریپسٹ کو پھانسی ہوئی؟
کیا عورت کو گھر سے نکالنے کے خلاف کوئی سزا ہوئی ؟
کیا جہیز کے نام پر جلائی جانے والی خواتین کو کوئی انصاف ملا ؟
کیا عورت سے اس کے بچے( اس وقت جبکہ وہ انہیں رکھ سکتی ہے یا رکھنا چاہتی ہے )
چھیننے پر کسی مرد کو سزا ہوئی ؟
کیا دوسری شادی کرنے پر پہلے شوہر کی جانب سے اسے وغلانے, ہراساں کرنے یا اس پر قاتلانہ حملے کرنے والے کسی مرد کو سزا ہوئی...
تو کون سا قانون اور کیسی عملداری؟
ابھی کچھ عرصہ قبل جب بائیس سالہ تطہیر فاطمہ جو عدالت سے اپنے نام کیساتھ اپنے باپ کا نام ہٹانے عدالت جا پہنچی. کیونکہ اس کے باپ نے اس کی ماں سے علیحدگی کے بعد کھانے پہننے اور ضروریات زندگی کو کیا پوچھنا تھا بلکہ ان کے جائز قانونی حقوق جس میں اولاد کو اپنا نام دینا, ان کی تمام دستاویزات کے بنوانے میں ان کی مدد کرنا , اور ان کی سرپرستی تک سے ہاتھ اٹھا دیا ہو وہ بائیس سال تک معاشرے میں جس آدمی کی وجہ سے دنیا میں لائی گئی اسی کے نام کو گالی اور گولی کی طرح ہر روز اس کے سینے میں پیوست کیا گیا.. . آخر وہ اس آدمی کا نام اپنے نام کے ساتھ کیوں نتھی کرے؟ تو پاکستانی عدالتیں کب اسلامی ریاست کی عدالت ہونے کا حق ادا کریں گی ؟ جہاں ہر مرد اپنے جائز اور ناجائز, بیاہی ہوں, طلاقی ہو, یا خلع یافتہ، ہر عورت سے اپنی اولاد کو اس کے تمام تر اسلامی اور انسانی حقوق ادا کرنے کا پابند کیا جائے. عورت کے تحفظ کو اس آدمی کی جانب سے متوقع ہر خطرے سے اور اس کے شر سے بچانے کے لیئے مضبوط عملی اقدامات کیئے جائیں .
کیونکہ یہ ایسے مسائل ہیں جو خواتین کو باعزت زندگی دینے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں . شادی نہ ہوئی غلامی کا طوق ہو گیا عورت کے لیئے، کہ اب اگر ایک بار کسی مرد سے دو بول پڑھوا لیئے تو۔۔ ختم تمہاری زندگی کا ہر اختیار, ہر احترام ,ہر عزت اب ختم, بلکہ تمہاری زبان ہی کاٹ کر اس مرد کے نام کر دو. تو پھر اللہ نے اسے یہ آنکھیں، یہ زبان، یہ دل ، یہ دماغ دیئے ہی کیوں تھے ؟ جب ان کا استعمال ہی نہیں کرنا تھا تو؟

 یہ ایک بہت ہی اہم سلگتا ہوا مسئلہ ہے جسے ہمارا کوئی قاضی لائق توجہ نہیں سمجھتا، کیونکہ وہ خود ایک مرد ہے. اگر انہیں اس پر قانون سازی کرنی پڑ جائے تو ان کے ہاں مردوں کو بہت سی بیویاں بنانے، چھوڑنے اور ان کے کئی کئی بچوں کی ذمہ داریاں کہیں خود ہی نہ اٹھانی پڑ جائیں . ہمارے ہاں اگر صاحب قدرت لوگوں بلکہ مردوں کے لیئے شادی عیاشی کے بجائے ذمہ داری بنا دی جائے گی اسی روز ان بہت سارے مسائل کا حل بھی نکل آئیگا.
                       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات، 22 مئی، 2025

دنیا پر اپنا سکہ جمائیں؟ کالم


      دنیا پر اپنا سکہ جمائیں کیسے ؟
      تحریر: (ممتازملک ۔پیرس)


اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر صدی  میں ایک وقت ایسا ضرور آتا ہے جب قوموں کو اس بات کا موقع قدرت دیتی ہے کہ وہ اپنے راستے متعین کریں ۔ ایسا ہی ایک تاریخی وقت آج پاکستان ہندوستان کی جنگ کی صورت میں قدرت نے نہ صرف پاکستان کو عطا کیا کہ وہ اپنے راستوں کو متعین کرے ، دنیا پر اپنے آپ کو ثابت کرے بلکہ ہندوستان کی ان قوموں کو بھی یہ موقع دیا ہے  جو دہائیوں سے اپنی آزادی کے لیئے جدوجہد کر رہی ہیں، ذلیل ہو رہی ہیں ، مار کھا رہی ہیں، جن کے بچے امان میں نہیں، جن کی بیویاں بیٹیاں  برہنہ کر کے سڑکوں پر دوڑائی جا رہی ہیں، جن کے جوانوں کو شہید کیا جا رہا ہے، جب دل کرتا ہے بنیا اور ہندو سماج ان کو  اپنی تلواروں کے سائے میں رکھ کر اپنے ہاتھ ان معصوم نہتے  لوگوں کے خون سے رنگتا ہے۔ کبھی ہولی کھیلتا ہے اور کبھی ان کے لہو سے دیوالی کے دیئے جلاتا ہے۔ وقت نے ثابت کیا کہ جب بھی اس خطے میں ہندو حکمران ہوئے، انہوں نے ہمیشہ اپنے نیچے باقی قوموں کو ذلیل اور خوار کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔  آج کی اس جنگ نے ثابت کیا کہ دنیا میں علم اور ٹیکنالوجی یہی دو چیزیں آپ کا زور بھی دکھائیں گی اور آپ کو کامیاب بھی کریں گی۔  دنیا میں آپ کی سربلندی اس کے سوا اور کچھ نہیں۔  آج آپ کو چائنہ کے سنگت میں چائنہ کی تعلیمی فارمولے کو اپنانا ہوگا ۔ یہ بات یاد رکھیئے ہم رٹے رٹائے سسٹم کے اندر اپنی جس نوجوان نسل کو تخلیق کر رہے ہیں۔ وہ تباہی کا ایک گڑھ ہے اور کچھ نہیں۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ چائنہ کے ساتھ مل کر اس پروگرام کے اوپر عمل کیا جائے جہاں پر ان کے معصوم بچے  چار اور پانچ سال کی عمر کے بچے سکولوں کے اندر کیا  پڑھائے اور سکھائے جا رہے ہیں۔وہ   اپنی زبانوں میں  نہ صرف پڑھائے جاتے ہیں بلکہ ان کو اپنے ہی ملک اور دنیا  کی ضرورت کی سکلز کے لیئے تیار کیا جاتا ہے۔ انہیں ہنر مند بنایا جاتا ہے اور زبردستی نہیں بنایا جاتا یہ دیکھا جاتا ہے کہ کون سا بچہ کس چیز کی دلچسپی لے کر اس دنیا میں آیا ہے۔  بے شک دنیا میں آتے ہوئے ہم اپنی پسند ناپسند ، اپنے ہنر ، اپنے ساتھ لے کر آتے ہیں۔ ضرورت ہوتی ہے صرف اس ہنر کو  سمجھنے اور اسکی آبیاری (پالش) کرنے کی. اور اس کے مطابق اپنے لیئے اچھے استاد منتخب کرنے کی.  پاکستان کو اس وقت شدت سے ضرورت ہے کہ اپنے بچوں سے ابھی سے اسی وقت سے پچھلے سارے سسٹمز کو، پچھلی ساری کی ساری تعلیمی ڈگریوں کو اور پچھلے سارے نصابوں کو رد  کر انہیں ردی میں بیچ دیں۔ انہیں نالے میں بہائیے۔  جنہوں نے صرف یہاں کلرک پیدا کیئے،  جہاں بے روزگار پیدا کیئے ۔نالائق اور نکمے اور بوٹی مار پیدا کیئے ۔ آج کا بچہ کوئی کھانا پکانے میں دلچسپی رکھتا ہے،  تو اسے شروع سے کھانے پکانے کی سکل کو جاننے کے بعد اس میں جانے دیا جائے۔  استاد یہ طے نہیں کرے گا کہ تم نے کیا سیکھنا ہے ۔ شاگرد کو خود یہ موقع دیا جائے گا کہ وہ کیا سیکھنا چاہتا ہے ۔ لڑکا ہو یا لڑکی  جب چار پانچ سال کے بچے کھیل کھیل میں اپنی توجہ اپنے دلچسپی کو ثابت کرتے ہیں کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں۔  کسی کو کھانے پکانے میں دلچسپی ہے۔  لڑکا ہے یا لڑکی اس سے باہر نکل کر یہ بات دیکھیئے کہ وہ کس چیز میں دلچسپی رکھتا ہے۔  کیا وہ بالوں سے کھیلتا ہے،  بالوں کی کٹنگ میں دلچسپی رکھتا ہے؟  کیا وہ گاڑی توڑنے اور جوڑنے میں دلچسپی رکھتا ہے؟ کیا وہ موٹر سائیکلوں میں دلچسپی رکھتا ہے؟ کیا وہ انٹرنیٹ کے اوپر بٹن کے ذریعے کھیل میں دلچسپی رکھتا ہے؟ کیا وہ گیمز بنانے میں دلچسپی رکھتا ہے؟ ہر بچہ اپنی دلچسپی کو آپ کے اوپر واضح کر دے گا، کہ وہ کمپیوٹر کے پروگرامز میں دلچسپی رکھتا ہے؟  کیا وہ جہاز اڑانے میں دلچسپی رکھتا ہے؟ کیا وہ وردی پہننے میں دلچسپی رکھتا ہے؟ کیا وہ گنز اور ہتھیاروں  کے ساتھ کھیلنا پسند کرتا ہے؟ اپنی قوم کے بچوں کو ہمیں ان کی پیدائشی صلاحیتیں جو وہ  لے کر پیدا ہوئے ہیں اس کے مطابق ڈھالنا ہوگا،  اور یہی کسی قوم کی کامیابی کی بنیاد ہیں۔  یہ بات آپ کو اگر سیکھنا ہے تو چائنہ کے تعلیمی سسٹم سے سیکھیئے کہ آج وہ اپنے چھوٹے بچوں کو کیسے تربیت کر رہے ہیں کہ ہر بچہ 15، 16 سال کی عمر تک آتے آتے نہ صرف برسر روزگار ہو چکا ہوتا ہے۔ کمال کا باصلاحیت ہو چکا ہوتا ہے،  بلکہ اپنے ملک کے لیے بہترین اثاثہ بن چکا ہوتا ہے۔  تو ضرورت ہے اپنے قومی نصاب پر فورا توجہ دیجیے پرانے نصابوں کو جو گل سڑ چکا ہوا ہے ۔ جو آج آپ کو انگریزی کے صرف رٹے لگانے پہ مجبور کر رہا ہے۔ اس سے باہر نکلیں۔  زبان کو زبان سمجھ کر ضرور سیکھیئے ۔ مختلف زبانیں سیکھیئے ۔ سب سے پہلے اپنے پڑوس کی زبانیں سیکھئے تاکہ کل جب ان سے واسطہ پڑے تو آپ انہیں اپنی بات سمجھا سکیں اور ان کی یہ بات سمجھ سکیں اور اگر وہ آپ کے لیئے کہیں خطرہ بننا چاہیں تو آپ فوری وقت رہتے اس خطرے کو بھانپ سکیں اور اس کا تدارک کر سکیں۔
 لیکن یہ بچہ خود طے کرے گا کہ وہ کونسی زبان سیکھنا چاہتا ہے ۔ انگریزی ، ہندی ، فارسی ، چائنیز ، فرینچ ، اٹالین ، جرمن ، زبانوں کے میدان کھلے رکھیئے ۔ لیکن زبانوں کو سکھانے کے لیئے اچھا ماہر استاد ہر سکول میں موجود ہونا چاہیئے ۔ اس کے لیئے کمپیوٹر پر موجود زبانوں کے مختصر اور بہترین کورسزز اساتذہ کی نگرانی میں یوٹیوب پر بلا معاوضہ دستیاب ہیں۔ ان سے استفادہ کیجیئے۔ والدین کو اس سوچ سے باہر نکلنا ہو گا کہ آ جا کر بس ڈاکٹر اور انجینئر ہی بننا ہے، چاہے بچہ اس کے لیئے اپنا مزاج موزوں سمجھتا ہے یا نہیں ۔ دنیا میں اس کے علاوہ بھی  شعبہ جات کے میدان کھلے ہیں ۔ اپنے بچے کو وہ شعبہ بخوشی چننے دیجیئے جس میں قدرت اسے خود لانا چاہتی ہے۔ 
آپ کے بچے کو آج یہ طے کر کے بڑا ہونا ہے کہ 15 سے 20 سال کی عمر تک اس کو صاحب روزگار بھی ہونا ہے۔ اس کو اس دنیا کے لیئے کارآمد فرد بننا ہے۔ آج ہی سے شروع کیجئے اپنی قومی نصاب کو چائنہ کے قومی نصاب کی رہنمائی لیتے ہوئے بدل دیجئے۔  وقت بدل چکا ہے۔  خود کو بدل لیجئے۔  دنیا نے اس چند روزہ پاک بھارت جدید ترین جنگ میں پاکستان کی علمی اور مہارتیں میدان میں برتری سے اپنے رویے سے عملی طور پر یہ ثابت کر دیا ہے کہ  یہ وہ علم والوں کو اور طاقت والوں کو سلام کرتی ہے ۔ آئیے ہم اپنا محاسبہ کریں۔ اور روایتی سوچوں اور معیار سے باہر نکل کر اس جدید علمی اور قابلیت کے میدان میں اپنا سکہ جمائیں ۔ 
               ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اتوار، 18 مئی، 2025

پاکستانی فنکاروں کو ۔۔۔ کالم




پاکستانی فنکاروں کو کام دیا کہ خیرات؟
         تحریر: 
             (ممتازملک ۔پیرس)

ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہونے والا جنگی معرکہ پاکستان کی جانب سے چند ہی گھنٹوں میں لپیٹ کر ان کے منہ پر مار دیا گیا ۔ اس پر جہاں اور بہت سی باتوں کو موضوع گفتگو بنایا گیا ،وہاں ہندوستان کی بہت ساری کمینگیوں کے ساتھ ایک اور کمینی حرکت جو سامنے آئی وہ تھی پاکستانی یو ٹیوبرز کے اکاؤنٹس کو بلاک کرنا۔ ہر طرح کے اکاؤنٹس کو ہر جگہ سے جہاں سے بھی سچی خبریں بھارتی قوم کو مل سکتی تھیں،  سامنے والے کا نقطہ نظر معلوم ہو سکتا تھا، اسے بلاک کیا گیا۔ دوسری جانب پاکستانی فنکاروں کو گانے والوں کو بلاک کیا گیا اور بتایا گیا کہ ہم نے تمہیں پیسہ دیا، کاروبار دیا اور تم ہمارے دشمن ملک سے تعلق رکھتے ہو ، تم نے ہمارے خلاف بات کی ہے لہذا ہم تمہیں کام نہیں دیں گے۔ تو ان احمقوں کی جنت میں رہنے والوں سے کوئی یہ پوچھے کہ بھئی ہندو بنیا کب سے لوگوں کو بغیر مطلب کے اور بغیر مفاد کے کام دینے لگا؟ اگر ایسا ہوتا تو اپنے ہی ملک میں لوگوں کو نیپوٹزم کا شکار کر کے  خودکشیوں پہ مجبور نہ کرتے۔  بولی وڈ بدکاری کا عالمی اڈہ ہے۔  پورے بالی وڈ اڈا بنانے کرنے کے بجائے وہ عزت احترام کے ساتھ اپنے نوجوانوں کو بھی کام دیتا انہیں ایک دوسرے میں تفریق کرنے کے بجائے حق پر میرٹ پر کام دیتا تو بیچارے وہ لوگ اپنی زندگیاں تباہ نہ کر رہے ہوتے تھے۔ جبکہ پاکستانی فنکار تم نے وہ اٹھائے جو پہلے سے مشہور تھے۔ جن کی پہلے سے شہرت تھی، نام تھا ، مقام تھا لاکھوں فالورز تھ،ے تم نے ان لاکھوں فالورز کو اپنے فلمیں، اپنے ڈرامے اور اپنا میوزک بیچنے کے لیئے ان لوگوں کو کام دیا۔  ہندو بنیئے نے ہمارے فنکاروں پر کوئی احسان نہیں کیا ۔ جسے جتا کر وہ اپنے آپ کو مہان ثابت کرنے کی کوشش کرے گا۔  ہاں یہ اور بات ہے کہ ہر موقع پر اپنے آپ کو کمینہ،  کمبخت اور بےوقوف ضرور ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ دنیا کا کوئی کام ایسا نہیں ہے جو کوئی بھی بھارتی اور خاص طور پر ہندو بنیا کسی کو بلاوجہ فائدہ  دینے کے لیئے کرے،  یا اس کی مدد بغیر مطلب کے کرے ۔ گائے کا موت سرعام پینے والے ،گوبر کے برگر بنا کر کھانے والے، رول بنا کر انجوائے کرنے والے،  ناپاکی سے پاک نہ ہونے والے،  ٹوائلٹ اور بیڈ روم سے ناپاک نکلنے والے یہ لوگ موتنے کے بعد بغیر ہاتھ دھوئے جا کر کھانا کھانے والے، جو دال بھات ساگ پکا کر خود کو ویجیٹیرین کہتے ہیں اور اس کے بعد اسی میں گائے کا موت ملا کر اسے تبرک بنانے والے یہ غلیظ لوگ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ یہ لوگوں کو رزق بانٹ رہے ہیں تو یہ فکر کریں کہ کتنے لاکھ اور کتنے کروڑ اب ان کی اس رقم میں سے منہا ہوں گے۔ جو ان سنگرز کی وجہ سے اور ان اداکاروں کی اداکاری کو دیکھنے کے لیے آنے والوں کی وجہ سے یہ ان لوگوں کی جیب سے صاف کرواتے رہے ہیں۔  نہ ان کے پاس کوئی کہانی کار ہے، نہ ان کے پاس کوئی نغمہ نگار ہے، نہ ان کے پاس کوئی میوزیشن ہے،  چوری کا مال بیچ بیچ کر ساری عمر انہوں نے اپنی انڈسٹری چلائی ہے۔  دوسروں کے فنکار اٹھا کر تیار ریڈی میڈ ان کی فالوور شپ کو انہوں نے استعمال کیا ہے اور اپنی جیبیں بھری ہیں۔ اج وہ ہمیں دھمکیاں دیتے ہیں کہ ہم تمہیں کام دیتے ہیں جو اب نہیں دینگے۔ ارے بھائی مت دیا کرو کام۔ تم میں غیرت ہے تو واقعی اب ان کو اپنے کام کے لیے مت بلانا کبھی۔  اور پاکستانی فنکاروں میں بھی اگر غیرت ہوگی تو وہ اپنے ملک میں اپنی فلموں سے نہیں  تو اپنی ڈراموں سے اتنا کما رہے ہیں ۔جتنا تمہاری سوچ ہے۔اس سے بڑھ کر ساری دنیا میں ہونے والے شوز کے ذریعے جیسے وہ کروڑوں روپے کما رہے ہیں۔ اس سے زیادہ کے حرص کرنے والے کو ذلیل ہو ہی جانا چاہیئے اور اگر وہ اپنی مرضی سے ہو رہے ہیں تو ہونے دیجیئے۔
 پاکستان زندہ باد
             ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات، 13 مارچ، 2025

کب تک۔ کالم


کب تک؟
تحریر :
     (ممتازملک. پیرس)

کوئٹہ میں جعفر ایکسپریس  
ٹرین کے اغواہ میں ملوث سبھی دہشت گرد واصل جہنم کر دیئے گیئے ۔ الحمدللہ 
پہلے معلوم ہو ٹرین ایسے حالات میں روکی کیوں گئی۔۔۔ ان کے اوپر سے گزار کیوں نہیں  دی گئی؟
ہم تو سڑک پر گاڑی چلانے والوں کو ایسے علاقوں میں گاڑی روکنے سے منع کرتے ہیں جہاں لٹیروں کا رواج ہو۔ پھر ٹرین تو اتنی سپیڈ میں ہوتی ہے اسے سیکنڈ میں تو روکا نہیں جا سکتا ۔ تواس کے ڈرائیورز کی بھی کڑی تفتیش ہونی چاہیئے۔ اگر وہ زندہ ہے تو۔۔۔ ورنہ ان مجرموں کی روایت ہے کہ کام نکلوانے کے بعد سب سے پہلے اپنے جاسوسوں اور مددگاروں کی ہی گردنیں اڑایا کرتے ہیں ۔
ایسے حادثات اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیئے ضرورت ہے ایک بیرحمانہ فوجی کاروائی کی جائے ۔ کیونکہ کوئی میں سول حکومت ایسے بکاؤ غداروں اور دہشتگردوں کا خاتمہ کبھی نہیں کر سکتی ۔ وہ اپنا اپنا مفاد بچانے کے چکر میں رہتے ہیں ۔ جبکہ فوج ملک بچانے کا عہد لیکر اپنی جان ہتھیلی پر لیکر سربکف نکلتی ہے ۔ 
ان کا علاج اب گفتگو نہیں بلکہ انکے علاقوں پر وہ کارپٹ بمباری ہے جو امریکہ نے پہلی بار میں ان کو سبق سکھانے کے لیئے ان پر کی تھی ۔ 
یہ ملک ان کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا ۔ ہر علاقے کا کنٹرول ڈنڈے کے زور پر حاصل کریں اور ملک کی سلامتی کے خلاف بھونکنے والوں کو نام نہاد تیرہ کمروں والی جیل میں ڈال کر دیسی مرغے ، دیسی گھی کھلا کھلا کر مشٹنڈے بنا کر داماد کی طرح پالنے کے بجائے قید بامشقت ایک دہشتگرد جیسی اصل سزا دیں اور چوک میں لٹکا کر نشان عبرت بنایا ہوتا تو یہ کاکروج کے طرح کونے کھدرے سے نکلنے والے کب کے اپنی موت آپ مر چکے ہوتے۔ 
فوج کو کس بات کا انتظار ہے ؟
  قوم کے پچیس کروڑ  افراد فوج  سے اس سوال کا جواب طلب کرتے ہیں ۔۔۔۔ 

پاک فوج زندہ باد 💚🤍
پاکستان پائندہ باد 💚🤍
ہر قدم خیر🇵🇰🇵🇰🇵🇰
دم دم خیر 🇵🇰🇵🇰🇵🇰

                   ۔۔۔۔۔۔۔

ہفتہ، 8 مارچ، 2025

یوم خواتین 2025ء ۔ کالم

            یوم خواتین 
                2025ء
     تحریر:
          (ممتازملک ۔پیرس)


8مارچ 2025ء۔۔ آج کا دن یوم خواتین کے طور پر ساری دنیا میں منایا جاتا ہے۔ یہ بہت اہم اور خاص دن، جس میں بہت ساری وہ باتیں جو کہ ہمارے ملک میں، معاشرے میں خواتین کے حقوق کے خلاف جاتی ہیں اس کو بیان کرنے کے لیے اس کی خامیوں کو دور کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا۔  اس دن کو کچھ ایسی خواتین کے ہاتھ میں دے دیا گیا ، اب یہ پری پلین تھا یا حادثاتی طور پہ ایسا ہوا ، کچھ ایسی غیر ذمہ دار خواتین کو کہ جب آج سے تقریبا پانچ چھ سال پہلے اس تاریخ پر جو جلسے جلوس وغیرہ اور پروگرامز ہوتے تھے ۔ 8 مارچ کے حوالے سے اس میں "میرا جسم میری مرضی" کا جو نعرہ استعمال کیا گیا وہ نعرہ غلط نہیں تھا. ظاہر سی بات ہے آپ کے جس پر آپ کی مرضی ہونی چاہیئے کہ آپ اپنے جسم کو کس کے ساتھ کس طرح سے وابستہ کرنا پسند کرو گے، کس طرح سے استعمال کرنا پسند کرو گے، یا نہیں کرو گے ۔ یا کسی کو اپنے آپ کو کیسے چھونے کی اجازت دو گے، یا نہیں دو گے۔ یہ ہر انسان کا بنیادی حق ہے ۔  یہ نعرہ برا نہیں تھا مگر اس کو جس طرح سے بیان کیا گیا ، جس طرح سے پیش کیا گیا، پبلک میں آ کر جس واحیات اور بیہودہ طریقے سے اس کی تصویریں اور پوز بنا کے اور واہیات خواتین کے ہاتھوں یہ استعمال ہوا ۔ مادر پدر آزاد خواتین کے ہاتھوں استعمال ہوا۔  اس نے اس نعرے کی افادیت کو ختم کیا کرنا تھا بلکہ اسے کسی گٹر میں گرا دیا۔ 
 بالکل  میرا جسم میری مرضی آپ کا جسم آپ کی مرضی۔  یہ ایک انسانی بنیادی حق ہے اور یہ کوئی گالی نہیں ہے کہ  جب آپ حقوق کی بات کرتے ہیں تو اس میں آپ کے بہت سارے انسانی حقوق ہیں۔ اس میں آپ رشتوں سے  جان نہیں چھڑاتے بلکہ ہر رشتے کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ آپ صرف فرائض کے لیئے پیدا نہیں ہوئے ہیں بلکہ آپ کے حقوق بھی ہیں۔ جب آپ فرائض ادا کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ دوسرے کے اوپر آپ کے حقوق لازمی ہو جاتے ہیں۔ تو وہ اسے ادا کریں۔
 پیدا ہونے سے لے کر مرتے دم تک خواتین کے جتنے بھی حقوق ہیں ۔ پہلے تو پیدائش پہ اسکا پہلا حق کہ اسے بخوشی قبول کیا جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اسکی وراثت میں جائیداد میں اسے بھی اتنا ہی وارث سمجھا جائے جتنا کہ کسی بیٹے کو سمجھا جاتا ہے۔ زندہ رہنے پر بلکہ کھانے میں بھی جو بوٹیاں آپ اپنے بیٹوں کے لیئے بچاتی ہیں اور بیٹیوں کے لیئے شوربہ رہ جاتا ہے، اس چیز کو اس بخیلی سے نکلنے کے لیئے ضرورت اس بات کہ ہے کہ والدین یہ سمجھیں کہ اس بچے کو اسی طرح سے اتنی ہی توانائی کی ضرورت ہے جتنی اس لڑکے کو ضرورت ہے ، بلکہ اس لڑکے سے شاید کسی ایک جگہ پر زیادہ ضرورت ہے کہ کل کو اس نے ماں بننا ہے اس نے اس سارے تخلیقی مرحلے سے گزرنا ہے۔  ایک نئی اولاد کو دنیا میں لے کر آنا ہے، تو جسمانی طور پر، ذہنی طور پر، نفسیاتی طور پر اس بچی کو جس نے کل کو بڑا ہونا ہے، زیادہ طاقت اور توانائی کی ضرورت ہے تو اس طاقت کے لیئے ضروری ہے کہ آپ اس کا حوصلہ بھی بڑھائیں۔ اس کو شروع سے اچھی تربیت میں رکھیں اس کو ہمیشہ یہ مت بتائیں کہ تم نے یہ کرنا ہے ،کرنا ہے، کرنا ہے، اسے یہ بھی بتائیں کہ  جہاں بیٹا آپ تھک جاتے ہو، جہاں پہ آپ چیخنا چاہتے ہو ،جہاں پہ آپ اواز اٹھانا چاہتے ہو۔ جہاں پہ آپ انکار کرنا چاہتے ہو، آپ کو ڈرنا نہیں ہے، آپ ہمارے سامنے بڑی جرات کے ساتھ اس کام سے، لوجک بتا کر، وجہ بتا کر،  آپ وہاں انکار کر سکتے ہو۔  یہ بہت بڑا حق ہے۔  ہمارے ہاں خواتین کو انکار کرنے کا حق نہیں دیا جاتا، اور تو اور کہ جب باقی سارے میدانوں کے بعد شادی کا بھی معاملہ آتا ہے، تو وہاں پر بھی رشتہ کرنے سے انکار کرنا مرد اپنی بہت بڑی توہین سمجھتا ہے کہ جی میں نے کسی کو رشتہ بھیجا،  اس نے مجھے انکار کر دیا۔  آپ نے رشتہ کسی کو بھیجا، یہ آپ کا حق تھا کہ آپ کسی کو پروپوز کریں، لیکن وہ آپ کو قبول کریں یا نہ کریں یہ اگلے کا حق ہے۔ اسے آپ تسلیم کیجیئے۔ آپ زبردستی گن پوائنٹ پر کسی کو اس بات پر مجبور نہیں کر سکتے۔  یہ بہت بڑا حق ہے، جو ہمارے ہاں سب سے پہلے چھیننے والے ہمارے اپنے ماں باپ بھائی بہن ہوتے ہیں، جو اپنے مفادات کی خاطر کسی کا رشتہ طے کر رہے ہوتے ہیں ۔ آپ انسان ہیں کٹھ پتلی نہیں ہیں۔  ایک عورت، ایک لڑکی کو اس بات کا حق ہے کہ اسے زندگی کس کے ساتھ گزارنی ہے، اس کا آخری فیصلہ اس لڑکی کا ہونا چاہیئے۔ آپ اس کے بھائی ہیں، آپ اس کے والد ہیں یا اگر  خاتون بیوہ ہے مطلقہ ہے وہ دوبارہ سے اپنی زندگی کا فیصلہ کرنا چاہتی ہے تو اس کا ٹھیکیدار بن کر اس کا بیٹا نہیں کھڑا ہو جائے گا، وہاں پر آپ سب ایک دوسرے کے ساتھ مشورہ کریں گے۔ پوچھیں گے، لیکن اگر بیٹا خود ہی غیر ذمہ دار ہے، آوارہ ہے، لوفر ہے یا بھائی غیر ذمہ دار ہے، یا اسی طرح سے باپ کسی چکر میں پڑا ہوا ہے، وہ کس طرح سے فیصلہ کر سکتا ہے کہ تم یہ شادی نہیں کر سکتی۔  تم زندگی کا یہ فیصلہ نہیں کر سکتی۔ یہ بہت بڑے بڑے فیصلے ہوتے ہیں، اور یہ سارے حقوق  اللہ نے جب دے رکھے ہیں۔ جو قوانین کے کاغذوں میں پنے کالے کئے گئے ہیں، تو عملی طور پر بھی خواتین کو ملنے چاہیئں ۔ دنیا بھر کی خواتین کو ہم اپنی ادبی تنظیم "راہ ادب فرانس" کی جانب سے تہہ دل سے 8 مارچ 2025ء کے لیئے بہت ساری نیک تمنائیں اور نیک خواہشات پیش کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ اس دن کے حوالے سے وہ تمام ذمہ داران وہ تمام مرد جو ذمہ دار عہدوں پر موجود ہیں۔ جو ایک اچھے اقدام میں اپنا عملی قدم اٹھا سکتے ہیں ۔کچھ اچھا کر سکتے ہیں۔ ان سب سے گزارش ہے کہ اس اقدام میں ساتھ دیجیئے اور آپ کی ماں بھی ہے، بہن بھی ہے، بیٹی بھی ہے، آپ کی بیوی بھی ہے اور سب سے زیادہ نظر انداز کی جانے والی حیثیت میں  وہ آپ کی بیوی کے طور پر ہوتی ہے۔ تو برائے مہربانی خواتین پر لطیفے بنانے کی بجائے خواتین کی ہر معاملے میں حوصلہ شکنی کرنے کے بجائے ، ان کا حوصلہ بڑھائیئے۔ وہ آپ کی دنیا اور آپ کی آبادی کا آدھا ہیں۔ آدھی آبادی کو لولا لنگڑا کر کے، ایک کونے میں پھینک کر ،اس کی توہین کر کے، آپ دنیا میں کبھی ترقی نہیں کر سکتے۔ یہی فرق ہے آپ میں اور باقی دنیا میں۔ سوچیئے کہ آپ پیچھے کیوں رہ گئے ہیں؟
   (ممتاز ملک پیرس۔فرانس)

پیر، 27 جنوری، 2025

فیملی ویلاگنگ کا گند۔ کالم

فیملی ویلاگنگ کا گند 
تحریر:
      (ممتازملک ۔پیرس)

مانا کہ آج کا وقت سوشل میڈیا کا وقت ہے ۔ آج ہر چیز آن لائن ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑی ہے۔ اس میں سوشل میڈیا بنانے والوں نے جس طریقے سے پیسے کا لالچ دے کر نئی نسل کو اپنے مقاصد کے لیئے استعمال کیا ہے۔ وہ بہت ہی خوفناک تصویر ہے۔ اس میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا نوجوان پاکستان سے تعلق رکھتا ہے۔ جسے پڑھائی سے ویسے ہی چڑ ہے ۔ جسے کتاب سے ویسے ہی نفرت ہے۔ جو کہیں بھی علم حاصل کرنے کی کسی جدوجہد میں آپ کو  مصروف دکھائی نہیں دے گا۔ بوٹی مافیا پہلے ہی عام تھی۔ وہاں پر سب سے بڑا زہریلا ہتھیار ان کو سوشل میڈیا کی صورت میں دے دیا گیا، اور وہاں ان کو  اس بات کی ترغیب دی گئی کہ آپ کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں،  نہ آپ کو ڈگریوں کی ضرورت ہے، نہ آپ کو پڑھائی کی ضرورت ہے، نہ آپ کو کوئی ہنر سیکھنے کی ضرورت ہے۔ بس آپ  ایک موبائل اٹھائیں ۔ کیمرے کے سامنے آئیں۔ آکر دو چار ٹھمکے لگائیں۔ الٹی سیدھی حرکتیں کریں ۔ گندگی پھیلائیں اور جتنا گند پھیلائیں گے۔ اتنے ہی زیادہ وائرل ہوں گے اور وائرل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایک ویو کے بدلے میں آپ کو کچھ نہ کچھ نوازا جائے گا۔  آپ پر پیسوں کی، ڈالرز کی برسات کی جائے گی۔ یہ اتنا خوفناک لالچ تھا جس میں دنیا کے باقی لوگ شاید اس طرح سے متاثر نہیں ہوئے جتنے پاکستان کے نالائق ترین طبقے نے پیسوں کی بارش میں نہانے کے لیے اس میڈیم کو استعمال کیا اور یہ میڈیم لڑکے لڑکیوں کی بے حیائی سے ہوتا ہوا، اس وقت ایک بہت بڑی دلدل بن گئی، جب لوگوں نے اپنی بیویاں ، بیٹیاں ، بہنیں اور اپنی مائیں تک اس میڈیم کے اوپر آ کر نچانی شروع کر دیں ۔ ان لوگوں کا کوئی پردہ نہیں رہا، کوئی شرم نہیں رہی، کوئی حیا نہیں رہی، جسے دیکھو ولاگنگ کے چکر میں پورے پورے گھر بیچ کر اپنی پوری پوری جائیداد بیچ کر گائیں بھینسیں بیچ کر کتنے چھوٹے چھوٹے علاقوں ،چھوٹے چھوٹے دیہاتوں کے لوگوں نے اپنے کھیت کھلیان بیچ کر اس کے پیسے سے اپنے یوٹیوب چینلز بنائے۔  ولاگنگ شروع کی اس میں ان سے بے شرمی بے حیائی کے جو کنٹینٹ بن سکتے تھے، انہوں نے بنائے اور اس کے بدلے میں ڈالرز اٹھائے ، لیکن اس میں جتنا قصور ان ولاگرز کا تھا جنہوں نے اس گندگی کو پھیلایا، لوگوں کو پروس کر اپنے گھروں کی عورتیں پیش کیں، اپنے گھروں کے ہر پردے کو پیش کیا، اپنی مائیں بہنیں پیش کیں، اپنی بیویاں اور اپنے بیڈ روم ان کے سامنے کھول کر رکھے اور پیش کر دیئے ، انہوں نے بڑے بڑے پیٹ کے ساتھ اپنی بیویاں لا کر  پیسے کمانے کے لیئے آپ کو ولاگنگ کے بہانے فیملی وی لاگنگ کے بہانے سکرین پر سجا کر پیش کر دیں۔ گویا انہوں نے اپنی ہر غیرت شرم حیا بیچ کر چوک میں رکھ دی کہ ہمارے ساتھ کچھ بھی کر لو جو مرضی نظر ہم پر ڈال لو آنکھوں کا زنا کر لو،  لیکن کلک ضرور کرو،  ایک بار آن کرو تاکہ تمہارے نام سے وہ پیسہ ہمارے اکاؤنٹ میں آئے ۔ بدلے میں ولاگرز نے اس پیسے کے ساتھ کیا کیا ۔ کہتے ہیں حرام کا پیسہ جس طرح سے آتا ہے ۔ اسی طرح سے نکل جاتا ہے۔ آج ولاگنگ بند ہو جائے۔  آج اگر کچھ مسائل پیدا ہو جائیں۔ یہ لوگ جس طرح پیسہ حرام کے کام میں وی لاگنگ سے کما چکے ہیں۔  جن کے پاس معلومات نہیں ، علم نہیں، کچھ نہیں لیکن انکی دکانیں انکے گھروں کی عورتیں تھیں جو انہوں نے مارکیٹ میں پیش کر دیں ۔ گندے کام، نشے تماشے، بے حیائی، جنسی بے راہ روی کنٹینٹ کے نام پر  پروس دی۔ جو کرنے والا بے غیرت تو تھا ہی لیکن دیکھنے والا اس سے بڑا بے غیرت تھا ۔ جو ایسا کنٹینٹ کھول کر بیٹھتا تھا اور اس کے بعد وہی کنٹینٹ دیکھنے والا  اسی ترسی ہوئی حسرت کے ساتھ جا کر وہی پیش کی ہوئی گندی حرکات معاشرے میں چھوٹی چھوٹی معصوم بچوں  بچیوں کے ساتھ عورتوں کے ساتھ کر رہا ہے وہاں سے سیکھے ہوئے سبق وہ معاشرے کو سکھا رہا ہے۔ گویا یہ امپیکٹ (اثرات) ایک آدمی کے (بغیر محنت کے) نوٹ کمانے کے لالچ سے شروع ہوا اور اس کے بعد پورے معاشرے میں زہر کی طرح سرایت کر گیا . اگر فیملی ویلاگنگ کو نہ روکا گیا۔ ان کے کنٹینٹ پر نظر نہ رکھی گئی۔ بے حیائی بے غیرتی کے اس چرچے کو عام ہونے سے بلاک نہ کیا گیا۔  تو جان لیجئے نہ تو ہمارا کوئی حال ہے اور پھر نہ ہی ہمارا اس جوان نسل کے ساتھ کوئی مستقبل ہے۔ یہ وہ بدکار نسل تیار ہوئی، جس بدکار نسل کے سامنے روپے سے بڑا کچھ نہیں ہے ۔ جن کے پاس دین نہیں، دنیا نہیں، علم نہیں، کوئی ہنر نہیں مگر ان کے پاس اگر کچھ ہے تو یہی بے حیائی اور بے غیرتی کا کچرہ ہے جو وہ معاشرے میں پروس کر اس پورے معاشرے کو کچرہ کنڈی بنا رہے ہیں۔ خدا کے لیئے غور کیجیئے ۔ ان کا بائیکاٹ کیجیئے ۔ ان ویلاگرز کو جب تک آپ دیکھنا نہیں چھوڑیں گے۔ جب تک ان کے خلاف آپ خود آواز نہیں اٹھائیں گے۔  یہ گند آپ کے بعد تحفتاً آپ کی نسل کو منتقل ہوتا چلا جائے گا ۔ نہ یہ دنیا آپ کی ہے،  نہ ہی آخرت میں آپ کا کوئی حصہ رہا۔ 
                  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہفتہ، 9 نومبر، 2024

مردہ معاشرہ۔ کالم

      مردہ معاشرہ 
   تشدد سے بہتر طلاق

کیا کوئی بتائے گا کہ یہ کونسا ملک ہے؟ یہ کونسا معاشرہ ہے؟ جہاں 
مرد بطور شوہرجب اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھاتا ہے تو وہ یہ بھول جاتا ہے کہ وہ کسی سانس لیتی گوشت پوست کی انسان پر ہاتھ اٹھا رہا ہے یا کسی پنچنگ بیگ پر زور آزمائی کر رہا ہے ۔
وہ کسی لوہے پر لوہے کا ہتھوڑا برسا رہا ہے یا روئی دھنک رہا ہے۔  ہمارے معاشرے میں ایسے ہی قصاب سوچ والے مردوں نے کبھی مذہب کی آڑمیں اور کبھی معاشرے میں اسے بے امانی کا خوف دلا کر طلاق کو عورت کے لیئے ایسی گالی بنا دیا ہے کہ عورت  یا مرد قتل ہونے تک اس رشتے کو چوہے دان سمجھ کر اس میں قید ہو جاتا ہے ۔ خصوصا عورت جسے اپنے شوہر کے گھر سے مر کر نکلنے کا حکم سنا دیا جاتا ہے ۔ اور تو اور یہ گالی اور بلیک میلنگ ان خواتین کے لیئے بھی ایک پھندا بن جاتی ہے جو معاشی طور پر مستحکم ہیں، مردکی محتاج نہیں ہیں ۔ پچھلے دنوں ہمارے ملک میں ہوئے گھریلو تشدد کے ایسے بے شمار واقعات دیکھے جا سکتے ہیں ، جہاں کہیں لڑکی نابالغ بڑی عمر کے مرد سے بیاہی گئی، کہیں وہ اچھا گھر کہہ کر بیاہی گئی، کہیں وہ اعلی تعلیم یافتہ اور  برسر روزگار ہے، تو کہیں مشہور مالدار میڈیا کی شخصیت ہے، سب کی سب اپنے شوہروں کے ہاتھوں بہیمانہ تشدد کا شکار ہو کر پٹ رہی ہیں۔ کہیں ماری گئی ہیں تو کہیں مرنے کے قریب پہنچا دی گئی ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کسی بھی شکایت کو اس مرد یا عورت کے ٹریک ریکارڈ کے مطابق ہینڈل کیا جائے ۔ اگر وہ جھوٹا اور منافق ہونے کا ریکارڈ رکھتا ہے تو اس کی فوری تحقیقات کا آغاز کرنے کے ساتھ زیادہ باریک بینی کا مظاہرہ کیا جائے ۔ جبکہ اگر ایسی کوئی بات نہیں،  سائل یا سائلہ سچا اور اچھا انسان ہے، اس کی شہرت علاقے میں مثبت ہے تو اس کی شکایت پر فوری گرفتاری ڈالی جائے ۔ سائل کو فوری طبی معائنے کے لیئے بھیجا جائے اور اسکے زخموں کا فارنزک بھی فوری کروایا جائے، تاکہ انکے زخموں کا اصلی نقلی خودساختہ ہونا یا واقعی حملہ ہونا ثابت ہو سکے ۔ ہمارے تھانوں میں بیٹھے اکثریت بکاو پلسیئے، ایس ایچ اوز ، حتی کہ سی پی اوز ان مجرمان کے ہاتھوں اپنا دین ایمان بیچے ہوتے ہیں ۔ انہیں اپنی جیب کے سوا دنیا میں کچھ دکھائی دیتا ہے نہ ہی سکے کی چھنکار کے سوا کوئی آواز انکے کانوں تک پہنچتی ہے ۔ ہمارے معاشرے میں عورتوں اوربچوں پر ہونے والا وحشیانہ تشدد دنیا بھر میں ہماری شرمناک پہچان ہے ۔
 اس پر ہمیں شرم نہیں آتی بلکہ ہم اس پر حیلے پیش کرنا اور عذر دینا زیادہ پسند فرماتے ہیں، بجائے اپنی کرتوں پر غور کرنے کے ۔ دنیا ہمیں ذہنی مریض کا سرٹیفکیٹ دیدے تب تک شاید ہم اس محاذ سے پیچھے کبھی نہیں ہٹیں گے۔ 
ہمارا ملک دنیا بھر میں عورتوں بچوں بلکہ مجموعی طور پر اخلاقی اور انسانی حقوق بلکہ ہر جاندار و بے جان کے لیئے سب سے خطرناک اور غیر محفوظ ملک کہا جائے تو قطعا غلط نہیں ہو گا ۔ یہاں پر یہ ثابت کرنے کے لیئے کہ میں مار دیا جاؤنگا۔۔۔ مر کر دکھانا پڑتا ہے ۔ یہاں انصاف کا حصول دودھ کی نہر نکالنے سے بھی زیادہ مشکل بلکہ ناممکن بنا دیا گیا ہے ۔ سارا کا سارا عدالتی نظام صندوق بھر بھر کر وصول کرنے کے عوض  سیاسی پیشرووں کے جوتے صاف کرنے میں مصروف ہے ۔ ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا رہا کہ ہم دنیا بھر  کے عدالتی نظام میں آخری نمبروں تک گر چکے ہیں ۔ کیونکہ فرق پڑنے کے لیئے باضمیر ہونا ضروری ہے ، جسے ہم کب کا کرپشن کا زہر پلا کر مار چکے ہیں ۔ اب دیکھیئے یہ عدالتی نظام حق و سچ کیساتھ کس حکومت کی کوکھ سے جنم لیتا ہے ۔ اور جو حکومت ایسا کر سکی وہ ہمیشہ کے لیئے تاریخ کے اوراق پر امر ہو جائیگی۔   
                 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پیر، 15 جولائی، 2024

گٹر معاشرہ۔ کالم




واہ رے ہمارے گٹر معاشرے 
جہاں اللہ کے نزدیک 
ان کے خیال میں 
بیٹیوں کی خرید و فروخت پسندیدہ 
انکو کتے جیسا ذلیل کرنا پسندیدہ 
انہیں مار مار کر مردانگی دکھانا پسندیدہ 
انکے نام سے بہن چ۔۔۔ اور ماں چ۔۔۔ سے صبح کا آغاز کرنا پسندیدہ 
ان کا قتل پسندیدہ 
لیکن طلاق ۔۔۔
توبہ توبہ توبہ 
اللہ کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ کام ہے ۔۔۔
میں لعنت بھیجتی ہوں ایسے معاشرے پر ۔۔۔
آپ میں کتنے باضمیر باقی ہے جو ایسا کر سکیں ؟

مہم چلائیں 
اگر غیرت باقی بچی ہے تو  مہم چلائیں۔ ۔۔
           طلاق منظور 
گھریلو تشدد نامنظور
جبری شادی نامنظور 
بیٹی کی جہالت نامنظور
بیٹی کی بے ہنری نامنظور 
جبری شادی نامنظور 
(چاہے باپ کے گھر میں ہو یا اسکے شوہر کے گھر میں )
گھریلو تشدد نامنظور 

        (ممتازملک۔پیرس)

منگل، 25 جون، 2024

زبان سے جہنم کے کنویں کھودنا۔ کالم

زبان سے جہنم کے کنویں کھودنا 
تحریر:
    (ممتازملک۔ پیرس)

ان لوگوں پر بہت حیرت ہوتی ہے جو لوگ گھر بیٹھے دوسروں کی کردار کشی اور منافقت کے ذریعے اپنے آپ کو جانے کس مقام پر پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بہت سی حجاب ،نقاب عبائے پہنے ہوئے لوگ جب انہی جبوں عبایوں کی توہین کرتے ہیں اپنی زبانوں سے ، اپنے اعمال سے،  اپنی نظروں سے، اپنی سوچوں سے۔
  اگر اپنے آپ کو بہت دیندار ثابت کرنا چاہتے ہیں تو پھر اپنی زبانوں اور سوچوں کو اس گندگی سے آزاد کیجئے۔ لیکن اگر آپ نے فیشن کے طور پہ یہ ساری چیزیں اپنا رکھی ہیں۔ چہرے پر داڑھی سجا رکھی ہے۔ یا جبے پہن رکھے ہیں تو یہ لوگ  اس عورت کے مثل ہیں جو اپنے دروازے میں ایک سوراخ بنا کر دوسروں کے گھروں کے آنے اور جانے والوں پہ نظر بھی رکھ رہی ہے لیکن دوسری جانب تسبیح بھی گھما رہی ہیں، تہجد اور نمازیں بھی پڑھ رہی ہیں۔ اور آخر میں اللہ تعالی ان کی ساری عبادات ان کے منہ پہ مار دیتا ہے۔ جب آپکو پتہ چلتا ہے کہ آپ حج یا،عمرے پر جا رہے یا کسی بھی عبادت میں مشغول ہیں تو آپ کی اس عبادت کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ اللہ کے گھر جانے والوں کے اوپر تہمتیں لگائی جاتی ہیں، گندگی اچھالی جاتی ہے۔ کہیں کہا جاتا ہے فلاں محرم کے بغیر چلی گئی، فلاں فلیٹ میں رہ رہے ہیں، ہوٹل میں رہ رہے ہیں  اور انہوں نے وہاں پہ یہ کھایا، یہ پیا، فلانے نے ان کو یہ کہا، فلانے نے انکو وہ کہا ۔ ان سے پوچھیں آپ انکے ساتھ اتنی بڑی جو دوربین فکس کر کے بھیج رہے ہیں
 وہ دوربین آپکو دوزخ میں کہاں تک پہنچائے گی کاش اس دوربین سے آپ یہ بھی دیکھ سکتے۔  آپ انہی لوگوں کے ساتھ آنے کے بعد بغلگیر ہو کر مبارکباد اور تبرکات کی تقسیم کے لیئے آگے ہو رہے ہوتے ہیں۔ لیکن جو وہ ان مقدس مقامات پر جا رہے ہیں اور وہاں سے اگر وہ اپنی تصاویر، آڈیوز ، ویڈیوز لگاتے ہیں تو یہ بات ہر وہ بندہ جانتا ہے جو کتنے کتنے سالوں کی دعاؤں اور تمناؤں کے بعد اللہ کے دربار میں حاضر ہوتا ہے۔ مکہ میں کعبہ کے سامنے حاضری دیتا ہے اور ہر دعا بھول جاتا ہے وہ جو مدینہ میں سرکار مدینہ کے دربار میں حاضر ہوتا ہے اور آنسوؤں کی جھڑی نہ لگے یہ تو ہو نہیں سکتا۔ ایسے میں اگر  اسکا بس چلے تو وہ ایک ایک منٹ، ایک ایک لمحے کو اپنی آنکھوں کو کیمرہ بنا کر، اپنے دل میں محفوظ کر لیں۔ ساری دنیا میں بتاتا پھرے کہ دیکھو دیکھو اللہ تعالی نے مجھ گنہگار کو کہاں کھڑا کیا، بخشش کا ایک موقع دینے کے لیے اللہ نے مجھے یہاں بلایا، اپنا مہمان کیا، کاش میں ایک ایک لمحہ اپنی زندگی کا محفوظ کر لوں ۔میں اپنے دوستوں میں بانٹوں وہ جو ترس رہے ہیں۔ سلام کے لیئے۔حاضری کے لیئے۔ میں انہیں دکھاؤں دیکھو میرے توسط سے تم بھی اس کی دید کرو۔ اللہ تعالی سے مانگو وہ تمہیں بھی یہاں بلائے۔ ایسی جگہوں پہ پہنچنے کے بعد جب لوگ اس بات پر اعتراض کرتے ہیں کہ آپ عبادت کرنے گئے یا تصویریں لگانے کے لیئے، تو ان بدبختوں کو یہ یاد نہیں رہتا کہ یہ موقع تو اللہ تقدیر سے دیتا ہے۔ بے شمار  امیر کبیر کروڑ پتی بھی دیکھے ہیں جن کے نصیب میں یہ زیارات نہیں تھیں۔ یہ سلام نہیں تھا۔ یہ سجدہ نہیں تھا ۔وہ وہاں تک پہنچ بھی نہیں سکے۔ کئی تو ایسے تھے جو ساری دنیا گھومے لیکن اسی دربار میں پہنچنے کی دعا کرنے کی بھی توفیق حاصل نہیں کر سکے۔ ایسے میں اللہ ہم جیسے گنہگاروں کوبلا کر وہاں سجدے کرنے کی توفیق عطا فرماتا ہے، وہاں آہ و زاری کرنے کی توفیق عطا فرماتا ہے۔ گناہگار اپنے دشمنوں کو معاف کرتا ہے۔ اپنے دوستوں اور دشمنوں کے لیئے ہدایت و بخشش مانگتا ہے۔ انکے سلام لے کر جاتا ہے اور ان مناظر کو محفوظ کرنا چاہتا ہے تو کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ آپ کسی کے دل اور نیت کا ٹھیکہ مت لیجیئے، کہ کون کہاں کس کے ساتھ گیا، رہا، کسی کا محرم کے ساتھ یا بغیر جانے کی بات تو 50 سال کے بعد کوئی بھی خاتون کہیں بھی جا رہی ہے۔ اگر حکومت سعودیہ اس کے اوپر اعتراض نہیں کر رہی۔ جو اس چیز کی ذمہ دار ہے۔ اگر شریعہ کے بغیر انہوں نے فیصلہ کیا تو اس کی گنہگار سعودی حکومت ہے جو عمرے اور حج کے ویزے جاری کرتی ہے ۔ چھپ کر تو کوئی وہاں نہیں پہنچا، نہ عمرہ کرنے کے لیئے، نہ حج کرنے کے لیئے، تو وہ عورتیں جو یہاں پر حجاب نقاب اور جبوں کے ڈراموں میں اور وہ مرد حضرات یہاں داڑھیاں رکھنے کے بعد دوسروں پر تبصرے کرتے ہیں تو انہیں یہ یاد رہنا چاہیے کہ وہ اللہ کے گھر، اللہ کے حکم اور اللہ کی اجازت سے اس کے مہمان ہوئی ہیں۔ آپ ان کا فیصلہ نہیں کرو گے۔ اللہ تعالی کو اسکے فیصلوں کے لیئے نہ تو آپ سے اجازت لینی ہے اور نہ ہی آپ اسے حکم دے سکتے ہیں۔ ان لمحوں میں اچھی دعا کیجئے۔ کیا پتہ قبولیت کی گھڑی ہو اور آپ کو اللہ کے گھر کی حاضری نصیب ہو جائے۔ لوگوں کے کردار پر ،اللہ کے گھر میں جانے پر بھی جب آپ بہتان تراشتے ہیں، گندگی اچھالتے ہیں تو یہ گندگی آپ ان پر نہیں چاند پر تھوکتے ہیں جو آپ کے اپنے منہ پر گرتا ہے۔ اللہ سے اچھائی کی توفیق بھی مانگیئے اپنی زبانوں سے اپنے لیئے جہنم کے کنویں مت کھودیئے۔ 
               ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہفتہ، 15 جون، 2024

رکیئے۔۔۔ کالم

رکیئے۔۔
قربانی کرنے جا رہے ہیں
تحریر:
(ممتازملک۔پیرس)


ایک بار پھر سے اللہ تعالی نے ہمیں عید قرباں کا موقع اس کے پیارے نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کی یاد میں منانے کا موقع دیا۔ آج کے دن ان کی قربانی کی یاد میں اللہ کے حکم پر بھیڑ،  بکرا، گائے، بیل، اونٹ کوئی بھی جانور حسب توفیق حسب استطاعت اپنی مالی اور جذباتی قربانی کے طور پر اللہ کے حضور پیش کی جاتی ہے۔ بے شک یہ دنیا کا وہ تہوار ہے جہاں پر صرف اس ایک تہوار کی وجہ سے ان دو تین روز کے اندر اربوں کھربوں روپے کا نہ صرف جانوروں کا چمڑا میسر آتا ہے۔ بے شمار ایسے لوگوں کی پیٹ میں خدا کے نام کا یہ گوشت رزق بن کر پہنچتا ہے۔ جنہوں نے شاید سال بھر میں ایک ہی بار گوشت کا مزہ چکھا ہو۔ بے شمار لوگوں کو روزگار میسر آتا ہے۔ کئی لوگوں کو تو شاید ان تین دنوں کے اندر پورے سال بھر کا روزگار میسر  ا جاتا ہے۔  گوشت کاٹنے والے، بنانے والے، بیچنے والے ،جانوروں کا چارہ بیچنے والے، ان کی دیکھ بھال کرنے والے، ان کی نگرانی کرنے والے، اور پھر اس کے بعد ان کی الائشوں کو ٹھکانے لگانے والے، شہر کی صفائی کرنے والے، اس کے سوا بہت سارے کام کرنے والے لوگوں کو روزگار میسر آتا ہے،  لیکن اس قربانی کے دن یاد رکھنے کی خاص بات بہت ہی زیادہ خاص بات یہ ہے کہ ان جانوروں کو بہت پیار سے محبت کے ساتھ رکھیئے۔ کیونکہ یہاں صرف آپ نے مالی طور پر انہیں خرید کر ہی پیش نہیں کرنا اللہ کے ہاں،  بلکہ اس جانور سے وابستہ آپکے جذبات،  محبت، ہمدردی، پیار یہ سب کچھ اس کے ساتھ جائے گا اللہ کے دربار میں، تو اسے محبت سے پالیئے۔ محبت سے سہلائیئے۔ اس کے کھانے پینے کا خیال رکھیئے۔ اس کی نگرانی کیجئے۔ اور پھر اس سے بھی بڑی خاص بات یہ قربانی کے روز ان کے ذبیحہ کے روز انہیں ایک دوسرے کے سامنے مت ذبح کیجئے۔ان کے سامنے ذبح کرنے والے ہتھیار چھری ، چاقوؤں یا ٹوکے، ان کو کاٹنے والے، کبھی بھی ان کے سامنے نہ تیز کیجئے، نہ لہرائیے، ان کی انکھوں میں موت کی وحشت اور خوف مت پیدا کیجئے۔ انہیں کھلا پلا کر پرسکون انداز میں قربان گاہ کی طرف لے کر جائیں ۔ پھر انہیں گرانے کا وہ طریقہ استعمال کیجئے۔ جس سے انہیں کم سے کم تکلیف ہو۔ چھری کی دھار کو تیز تر رکھیں ۔ انہیں ذبح کرتے وقت صرف وہی رگیں کاٹیئے جو کہ اللہ تعالی نے احسن قرار دی ہیں۔ ان کو تھوڑی دیر کے لیے پھڑک کر اپنے اندر سے وہ سارا خون خارج ہونے دیجئے جو ان کے اندر رہ جانے کی صورت میں اس گوشت کے مزے کو حرام گوشت سے مختلف کرتا ہے۔ اس خون کو ان کے اندر سے خود قدرتی بھرپور طریقے سے نکلنے دیجئے۔ کھال اتارنے میں جلدی مت کیجئے اور دوسری بات جانور کا گوشت تقسیم کرتے وقت یہ یاد رکھیں ان گھروں میں گوشت بھیج کر کہ جن گھروں سے آپ کو واپس مل جائے گا اور آپ اپنے ڈیپ فریزر بھر لیں گے۔ کوئی فائدہ نہیں اس قربانی کا ۔ یہ گوشت ان لوگوں کا حق ہے ۔ جو کسی بھی مجبوری ، کسی بھی وجہ سے، عید قرباں پر اللہ کی راہ میں قربانی نہیں کر سکے۔ ان کی استطاعت نہیں تھی یا ان کے پاس اتنے ذرائع نہیں تھے۔ تو گوشت کے بدلے گوشت کی تجارت مت کیجئے۔ عید کے موقع پر جبکہ سارا سال آپ گوشت کھاتے ہیں اور پھر اللہ نے آپ کو استطاعت دی کہ آپ نے حصہ ڈالا یا الگ سے مکمل ایک پورا جانور خرید کر اللہ کے راہ میں قربان کرنے کا ارادہ کیا، تو جب اتنا خوبصورت ارادہ کر ہی لیا ہے، تو اس سے بڑھ کر خوبصورت کردار ادا کیجئے۔اللہ نے اتنی استطاعت دی ہے کہ آپ سارا سال کھا سکتے ہیں تو ایک دن کا جانور اللہ کی راہ میں مکمل تقسیم کیجیئے۔ کوشش کیجئے کہ ان دو روز کے اندر اندر جہاں تک وہ گوشت ان لوگوں کے ہاں پہنچ سکتا ہے جنہوں نے قربانی نہیں کی وہ پہنچائیئے وہاں پر۔ اپنے گھر کے ڈیپ فریزر کو اس کے علاوہ گوشت کے لیئے اس امید پر رکھیں کہ اللہ تعالی آپ کو مزید اس کی برکتوں سے نوازنے والا ہے سارا سال۔ جب یہی نیت کر لیں گے کہ یہی گوشت میں سارا سال کھاؤں گا تو پھر آپ اسی کے محتاج کر دیئے جائیں گے۔ اللہ کو آپ کی یا میری قربانی کرنے کے لیئے  کسی جانور کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ تو ایک استعارہ ہے کہ ہم اپنے مال سے اپنے اللہ کی راہ میں اس قربانی کی یاد کو تازہ کرتے رہیں جو ایک باپ اور بیٹے کی اللہ کے سامنے فرمانبرداری کی ایک اعلی ترین مثال بن گیا ۔ لہذا عید قرباں کے روز سب سے پہلی بات اپنے ذہن میں یہ رکھیں کہ لوگوں میں ہڈی، چربی اور اوجری تقسیم کرنے کے بجائے بہترین گوشت بنوائیں۔اس سارے گوشت کو مکس کر دیجئے اور پھر اسی میں سے ہر اس گھر میں جہاں قربانی نہیں ہوئی۔ اگر بہت زیادہ نہیں بھیج سکتے ، ملنے والے زیادہ ہیں، دینے والے زیادہ ہیں ، تو کم از کم ایک کلو گوشت کا پیکٹ ضرور بنا کر بھیجیئے تاکہ ان کے ایک وقت کا سالن تو تیار ہو سکے۔ ایک چھیچڑا، ایک ہڈی اور ایک بوٹی جیسا شرمناک رواج جو ہم بچپن میں بھی دیکھا کرتے تھے۔  مجھے یاد ہے اچھی طرح ہمارے گلی محلے میں بھی جب ایسا ہوتا تھا تو ہماری ماں وہ گوشت آرام سے واپس کر دیا کرتی تھی اور کہا کرتی تھی بیٹا یہ کسی اور کے گھر بھیج دینا، جہاں اس کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ہمارے ہاں قربانی ہوتی تھی تب بھی اور نہیں ہوتی تب بھی الحمدللہ بازار سے لا کر گوشت اتنا موجود ہوتا تھا کہ کھلا ڈھلا کھانا پینا بنتا تھا ۔ وہ کہتے تھے اتنی سی چیز کے لئے خود کو بدنام کرنے کی ضرورت کیا ہے۔ کیوں لیا جائے؟  اور واقعی ایسی چیز لینے کی ضرورت بھی کیا ہے جو نہ پک سکتی ہے نہ پھینکی جا سکتی ہے۔ قربانی کی چیز آپ پھینک بھی نہیں سکتے۔ لہذا ان لوگوں کو واپس کر دیا کریں کہ یہ جو اتنا تکلف کر کے یہ تین نمونے بھیجتے ہیں ۔  تو آپ بھی کسی کے گھر ایسی کوئی چیز مت بھیجیں۔ جو اگلا کھانے کے بجائے کسی جانور کو ڈال دے یا پھر پھینکنے پر مجبور ہو جائے۔ چیز وہ بھیجی ہے جو دعا کے ساتھ آپ کے نام کے ساتھ اگلا پکاتے وقت یاد کرے، کہ فلاں کے گھر سے ایک چیز آئی ہے۔ اپنے گھر کے علاوہ عادی فقیروں کو چھوڑ کر سفید پوش اور غریب لوگوں پہ توجہ دیجئے عادی فقیر تو سارا سال مانگتے رہتے ہیں۔ پاکستان کی ویسے بھی چھ کروڑ سے اوپر کی آبادی جو بیٹھ کر کھانے کی عادی ہے نہ یہ مستحقین بھی آتے ہیں نہ ان سے ہمدردی ہونی چاہئے۔ یہ ہڈ حرام جتھے ہر جگہ پہنچے ہوتے ہیں۔  اپنے ملازمین کو دیجئے، صفائی کرنے والوں کو دیجئے،  اپنے کولیگز میں دیجئیے۔جو لوگ کسی وجہ سے قربانی نہیں کر رہے ان کے گھروں میں قربانی کا گوشت ضرور پہنچنا چاہئے۔ کوئی بھی چیز بانٹتے وقت چاہے وہ کوئی تبرک ہو چاہے تحفہ یہ یاد رکھیں ان کی اصل جگہ وہی ہوتی ہے جہاں سے واپسی میں اس کے بدلے میں کچھ نہیں آتا۔ یا نہیں آ سکتا۔  اگر واپسی میں برابری کا وہی بنڈل بن کر آپ تک واپس آبجانا ہے تو نہ اس تحفے کی کوئی فضیلت رہی اور نہ ہی اس تبرک کی ۔۔۔
    عید قرباں مبارک ہو۔۔
               ۔۔۔۔۔۔۔۔

ہفتہ، 25 مئی، 2024

جنتیں گھر سے نکال دو ۔کالم

جنتیں گھر سے نکال دو
تحریر:
     ممتازملک۔پیرس 

مدر ڈے کے حوالے سے آج جب آپ اپنا میڈیا کھولتے ہیں تو آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ لوگ اپنے والدین کو، اپنی ماؤں کو باپوں کو کیسے کیسے در بدر کرنے میں ایکدوسرے سے نمبر لے جانے کی ایک ریس میں مبتلا ہیں۔ یہ وہ مائیں ہیں جو کل بچوں کی لائنیں لگانے پر اپنے 9 مہینے کا امتحان اور جسم کی ہر ہڈی کے ایکساتھ چور چور ہونے جیسے درد زہ کا غم بھول کر خوشی سے جھوما کرتی تھیں۔ یہ وہ باپ ہیں جو اپنے بازو بننے کے غرور میں مبتلا ہو جایا کرتے تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے حلال اور حرام دیکھے بنا اپنے بچے پالے۔ منہ سے نکلنے سے پہلے ان کی خواہشیں پوری کیں۔ ان کے لیئے اپنی دنیا اور آخرت بیچ دی۔ انہوں نے اپنے نام پر کوئی جائیداد نہیں رکھی۔ اپنی اولادوں کے لیئے خود کو ٹکے کوڑی کر لیا ۔ اپنے کاروبار ان کے نام کر دیئے ۔ جیتے جی اپنی جائیدادیں ان کے حوالے کر دیں۔ ان کے نام کر دیں۔ بٹوارے کر دیئے اور پھر وہ اولادیں جو اپنی منزلیں پا چکی ہوتی ہیں۔ کوئی تعلیم پوری کر چکا ہے۔ کسی کو دکانیں مل گئی ہیں۔ کسی کو مال مل گیا ہے۔ بیویاں مل گئی ہیں اور  اب انہوں نے اس بوڑھے بوڑھی کو کیا کرنا ہے؟ یہ کمزور  ، انکی چاکری اور نوکری نہیں کر سکتے، بینک بیلنس بھی تمہارا وہ چاٹ چکے ہیں، تو بابا جی اور بابی جی کو چاہیئے کہ اب آپ ہماری جان چھوڑیں۔ جنت؟
 وہ کیا ہوتی ہے ؟کس نے دیکھی ہے؟ ارے بھائی جاؤ رستہ لو اپنا، ہماری جان سے اترو۔ کہیں ہماری پرائیویسی متاثر ہوتی ہے، اور کہیں تمہیں کھانے کو بھی دیں۔ اب ہم تمہیں پہننے کو بھی دیں۔ نہیں بھئی ہم نہیں پورا کر سکتے۔۔۔
 یہ سچ ہے 10 بچے ایک والدین پال لیں گے لیکن ایک ماں یا ایک باپ کو پالنا 10 بچوں کے لیے بھاری ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ وہ ایک ماں  یا ایک باپ گنے کی طرح مشین سے کئی بار گزار کر، اس کا جوس نکال کر آپ غٹک چکے ہیں۔ اب آپ کے لیئے یہ پھوک ہے۔ لیکن آپ کو یہ یاد نہیں رہا کہ یہ اب بھی آپ کے گھر کی برکت ہے۔ دعا ہے اور جنت بھی ہیں۔ جو لوگ اپنی جنتیں اپنے گھروں سے اپنے ہاتھوں سے نکال دیتے ہیں تو یقینا وہ جہنم اپنے اوپر واجب کر ہی لیتے ہیں۔ یہ وہ بدبخت اولادیں ہیں۔ جو دنیا داری کی ساری عیاشیاں اور مواقع رکھتے ہوئے بھی، اپنے والدین کے نوالے گننے لگتے ہیں ۔ ان کے کپڑوں کی قیمتیں کرنے لگتے ہیں اور پھر ایک دن ان کے کفن پر چندہ کرنے لگتے ہیں۔ اب تو اولڈ ہاؤسز کو دعا دیں کہ وہاں آپ کو ان کی کھانے پینے سے بھی آزادی مل گئی۔ انکے کپڑے لتے کی فکر سے بھی آزادی مل گئی اور ہاں اب آپ کو ان کے کفن پر بھی چندہ نہیں کرنا پڑے گا۔ بہت ہیں لوگ چندہ دینے والے۔ جب چندہ ہی لینا ہے تو اپنے کسی خبیث سے کیوں لیا جائے۔ کسی غیر سے کیوں نہ لے لیا جائے۔ کچھ پردہ تو رہے گا۔ کچھ تو بھرم رہ جائے گا۔ لیکن وہ بیٹیاں، وہ بہوئیں، وہ بیٹے، وہ جوان زندہ لاشیں، جنہیں ابھی ان بوڑھے باپ یا ماں کی ضرورت نہیں، انہیں ابھی سے چاہیئے کہ اپنے نزدیک ترین  لاوارث سینٹروں میں اپنا نام کا اندراج کروا لیں۔ اپنے حصے کی جگہ بک کروا لیں۔ کیونکہ آپ کو بھی زیادہ دیر نہیں لگے گی یہاں پہنچنے میں۔ یقین کیجیئے۔ آپ کے بچے آپ کی کہی ہوئی باتوں سے نہیں سیکھتے بلکہ جو کچھ آپ کر رہے ہیں۔ وہ اسے دیکھ کر سیکھتے ہیں اور یہ سب آپ ہی نے سکھایا۔ اس میں کم از کم آپ کی اولاد گنہگار نہیں ہوگی۔
                   ۔۔۔۔۔۔۔

ہفتہ، 6 اپریل، 2024

ہر گلی میں مسجد کیوں ؟ کالم


        ہر گلی میں مسجد کیوں؟
         تحریر :
          (ممتازملک .پیرس)


ہمارے ہاں اکثر دیکھا گیا ہے کہ ہر دوسری گلی میں ایک مسجد بنا دی گئی ہے۔ کہیں پلاٹ پر قبضہ کرنے کے لیئے، کہیں بہن بھائی کوئی دنیا میں نہیں رہا تو اس کی زمین پہ قبضہ کرنے کے لیئے۔ مسجد کو ایک دکان کی طرح استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایک بات تو یہ کہ اسے چندے اکٹھے کرنے کا ایک ذریعہ بنا کر لوگ نوٹ چھاپ رہے ہیں اور دوسری بات جو سب سے زیادہ خوفناک ہے وہ یہ کہ ایسی بند گلیوں میں مسجدیں بنانے کی وجہ سے اس گلی کے سارے لوگ، سارے بچے، ساری خواتین، غیر محفوظ ہو جاتے ہیں ۔ ہم نے خود دیکھا ہے ایک سے ایک بڑھ کر نشئی ،تماشائی، بردہ فروش اور دو نمبر قسم کے لوگ ایسی گلیوں کے چکر صرف اس لیئے لگاتے ہیں کہ نماز پڑھنے کے نام پر مسجد کے نام پر اس طرف سے گزنے کا بہانہ موجود ہے ۔چاہے انہیں وضو کرنا  بھی نہ آتا ہو ۔  لیکن وہ ایسی گلیوں میں گزر کر وہاں کے کھیلتے بچوں کو، بچیوں کو، عورتوں کو آتے جاتے نظر میں رکھتے ہیں۔ ان کی ریکی کرتے ہیں اور پھر حسب ضرورت مجرموں کا ساتھ دیتے ہوئے ان گلیوں میں شکار ڈھونڈ لیتے ہیں۔ اکثر آپ نے دیکھا ہوگا۔ جن گلیوں میں مسجدیں ہوتی ہیں وہاں سب سے زیادہ گھروں میں چوریاں ہوتی ہیں، بچے اغوا ہوتے ہیں، عورتیں گھروں سے بھگائی جاتی ہیں یا اغوا کی جاتی ہیں۔ جب ہمارے دین کے اندر یہ بات موجود ہے کہ جتنے قدم اٹھا کر مسجد کی طرف جاؤ گے اتنا ہی ثواب ہوگا ، پھر کیا وجہ ہے کہ ہر گلی میں ایک مسجد بنانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ چاہے وہ مسجد سارا سال ویران بیابان پڑی ہو، لیکن کسی نہ کسی بہانے لوگ مسجد کا چکر لگاتے ضرور ہیں۔ نماز کے وقت چاہے صفیں خالی ہوں لیکن اس کے علاوہ مسجد کا چکر لگانے کے لیئے بہانے بہانے سے کسی بھی وقت ایک طرح سے ان کو لائسنس مل چکا ہوتا ہے کہ مسجد کا نام لے کے جب چاہیں اس گلی میں داخل ہو جائیں۔
  پہلے وقتوں میں لوگ پوچھا کرتے تھے۔ جب گلی میں کوئی نیا بندہ نظر آتا تھا تو پوچھا جاتا تھا کہ کیوں بھئی کدھر جا رہے ہو ؟ آپ کس کے گھر کے مہمان ہو ؟ لیکن اب مسجد کے بہانے ایک بڑا اچھا ویلڈ بہانہ ان کے ہاتھ میں موجود ہوتا ہے کہ پوچھو کہاں جا رہے ہو ؟ جی مسجد جا رہے ہیں ۔اچھا جی کہاں سے آ رہے ہیں؟  مسجد سے آ رہے ہیں۔ اب اس مسجد آنے اور جانے کے بہانے کے بیچ میں اگر ان سے آپ کبھی نماز سنانے کا کہہ دیں  تو یقین کیجئے ان میں اکثر لوگوں کو پوری نماز بھی نہیں آتی ہوگی۔ ان کا حلیہ دیکھیں، ان کا انداز دیکھیں لیکن وہ ایسی گلیوں میں مسجدوں کے بہانے جا کر نت نئے جرائم  سرانجام دے رہے ہوتے ہیں۔  اس لیئے کھلی جگہوں پہ مسجدیں بنائی جائیں۔  مین سڑک کے اوپر بنائیں۔ جہاں سے سی سی ٹی وی کیمرہ موجود ہوں آتے جاتے لوگ دکھائی دیں۔  کون ، کہاں، کس وقت، کب آیا اور کب گیا۔  لوگوں نے اللہ کے گھر کو، مسجدوں کو مذاق بنا لیا ہے۔ قیامت کیوں نہ آئے، قیامت کو آ ہی جانا چاہیئے۔ جو کچھ حرکتیں ہو رہی ہیں چھوٹے بچے جس طرح سے ریپ کیئے جا رہے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی بچیاں گلیوں سے اٹھائی جا رہی ہیں۔ بچے سپارہ پڑنے جاتے ہیں۔ بچے قران پاک کی تعلیم کے نام پر  جاتے ہیں کہیں پہ مولویوں کا شکار بن رہے ہیں۔ کہیں پہ وہاں پہ اپنے سے بڑے پڑھنے والے طالب علموں کا شکار بن جاتے ہیں ۔ریپ ہو جاتے ہیں۔ اور جنسی حملوں کا شکار بنتے ہیں۔ اور ذہنی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کی حفاظت کے لیے بے حد ضروری ہے کہ ان تمام  مساجد کو بند کیا جائے۔ ان کو لائبریری میں تبدیل کر دیا جائے یا پھر کوئی  نرسری اور پرائمری سکول بنا دیا جائے۔ لیکن وہاں سے ان مسجدوں کو بند کیا جائے ۔ اگر کوئی یہ کہے کہ یہ بے حرمتی ہے مسجد کیوں بند کی جائے تو یاد رکھیئے مسجد کی ایک مثال ہمارے پاس مسجد ضرار کی صورت میں موجود ہے جہاں جب فتنہ اور فساد کی صورتحال پیدا ہوئی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس مسجد کو گرانے کا حکم اللہ کے حکم سے دے دیا ۔ یعنی یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ آنے والے وقت میں اگر مسجدوں کو کسی غلط کام کے لیئے استعمال کیا جائے تو اسے گرانے یا بند کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ تو برائے مہربانی اسے اپنی مونچھ کا بال بنانے کے بجائے لوگوں کی حفاظت یقینی بنائیں۔ گلیوں محلوں سے مسجدوں کو بند کیجیئے اور اسے بڑی سڑکوں پر اور مین مقامات پر لے کر آئیں اور جس علاقے میں جتنے نمازی ہوں وہاں پر ایک تعداد کو مختص کرنے کے بعد اگر وہاں دوسری مسجد کی ضرورت ہو تو تب مسجد بنانے کی اجازت دی جائے ورنہ اسی پچھلی مسجد پر ہی اکتفا کیا جائے تمام صاحب اختیار لوگوں سے گزارش ہے کہ اس معاملے پہ غور فرمائیں کیونکہ ہمارے ہاں ہر بات کو چھوٹی سی بات سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے یا اس پہ مذہب کا تڑکا لگا کر اسے لوگوں کو پروسنے کی کوشش کی جاتی ہے، اور یوں آج ہمارا پورا ملک جرائم کا اڈہ بن چکا ہے ۔ خدا کے لیئے ان باتوں پر غور کیجیئے۔
                    ------

جمعرات، 4 اپریل، 2024

جسم پردہ ۔کالم

بے راہ رو معاشرہ
تحریر:
     (ممتازملک.پیرس)


ہم عمومی طور پر جنسی بے راہ رو معاشرے کا حصہ ہیں۔ یہاں پر عورت کو بچپن ہی سے اپنی حفاظت کے لیے خود کو ایک لبادے میں رکھنا ضروری ہے ۔ وہ نام نہاد آزادی پسند عورتیں جو موم بتیاں اور بینر لے کر خاص خاص مواقعوں پر بھاشن دینے کے لئے ،غیر ملکی پیسوں کے زور پر آوارگی کے  جھنڈے لے کر نکلتی ہیں ۔ ان کا نہ کسی دین سے تعلق ہے ، نہ معاشرت سے۔ وہ پیسے کے لیئے اپنی ہر قیمت لگوانے کو تیار رہتی ہیں۔ لیکن اس معاشرے کی عام عورت کو اپنے آپ کو محفوظ کرنا ہے تو اسے اپنے مذہبی اور معاشرتی دائرے میں واپس آنا ہوگا۔ ایک لبادہ، ایک جبہ، چاہے وہ برقعہ ہو، چاہے وہ چادر ہو، اسے اپنے اوپر اوڑھ کر باہر نکلنا ہوگا۔ تاکہ وہ ان بے راہ روی کا شکار جنسی ہیجان میں مبتلا ذہنی طور پر عیاش مردوں کے معاشرے میں خود کو کوئی اشتہار، کوئی سویٹ ڈش، بنا کر ان کے سامنے نہ پروسے۔ ان کے اندر کا شیطان آپ کی باتوں میں یہ کہنے سے کہ "پردہ تو دل کا ہوتا ہے " کیا خدا کو چیلنج نہیں کرتا۔ آپ کا دل کوئی نہیں دیکھتا۔ لیکن آپ کا جسم سب کی نظروں میں شکار بنتا ہے۔ روز روز کے حادثات، روز روز کے واقعات، جنسی حملوں کی آئے دن کی وحشت ناک خبروں کے باوجود، اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ پردہ بس دل کا ہی کر لینا ہے اور اللہ تعالی کے احکامات کا مذاق اڑا کر آپ محفوظ رہیں گے تو معذرت کے ساتھ ، نہ ہمارے ملک کے لوگ ابھی اس قابل ہیں اور نہ ہمارے ہاں کے مرد یورپ کے ان مردوں کی مسابقت کر سکتے ہیں۔ جو بے لباس عورت کو بھی جاتے دیکھ کر کبھی اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ ہمارے مردوں کو ان تک پہنچنے کے لیے ابھی کئی صدیاں لگیں گی۔ لہذا اتنے عرصے تک عورت اپنے آپ کو نہ ان کے لیئے مارکیٹ کرے گی اور نہ ہی گاجر مولی بنا کر پیش کرے گی۔ اپنی حفاظت آپ کو اللہ کے بتائے ہوئے حدود کے اندر رہ کے ہی کرنی ہوگی اور اللہ کے احکامات کے لیئے آپ کو اللہ سے مقابلہ کرنے کی ضرورت نہیں یہ حفاظت انکساری اور عاجزی کے ساتھ حکم کو مان لینے میں ہے۔
سو بھڑوں کے جس چھتے میں ہماری عورت رہتی ہے۔ اسے ان کے ڈنگ سے بچنے کا انتظام ان بھڑوں کی آنکھوں پر پٹی باندھنے کے غیر فطری اور غیر حقیقی مطالبات کرنے کے بجائے خود کو باحیا لباس میں اور ایک جبے یا عبایا کے حصار میں لانا ہو گا۔ 
اور کسی عبایا یا برقعے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ آپ کے جسم کے خد و خال کو پوشیدہ رکھے اور اپ کو نمایاں نہ ہونے دے جبکہ آج کل جس قسم کے عبایا اور برقعوں کے نام پر جو کچھ خواتین پہن رہی ہیں وہ بھی برقعے اور عبایا کے نام پر ایک تہمت بنا دی گئی ہے ۔ اتنا کام اس قدر ذری اور اس قدر اس کے اوپر کڑھائی اور کشیدہ کاری کی جاتی ہے کہ اگر کسی نے نہیں بھی دیکھنا تو وہ جاتے جاتے مڑ مڑ کر اسے ضرور دیکھے گا۔ جیسے کوئی عبایا نہ ہوا دلہن کا کوئی لباس ہو گیا۔ جو ہر کسی کو دیکھنا لازم ہے۔ اور وہ دیکھنا چاہے گا ۔ برائے مہربانی عبایا یا برقعہ کا مقصد اپنے آپ کو غیر نمایاں کرنا ہوتا ہے۔ نمایاں نہیں کرنا ۔ تو ڈھیلا ڈھالا ایک سادہ سا موسم کے حساب سے ملبوس اپنے کپڑوں کے اوپر اوڑ لیا جائے اور چادر سے بہتر اس لیئے ہوگا یہ کہ آپ کا ہاتھ اپنا کچھ سامان بیگ وغیرہ اٹھانے کے لیے خالی رہے گا اور آپ کو اسے چادر کی طرح زیادہ سنبھالنے کی زحمت بھی نہیں اٹھانی پڑے گی۔
آپ کا جسم اللہ کی جانب سے دی گئی امانت ہے اور اس امانت کی حفاظت آپ کا فرض ہے ۔ اور آپ اسکے لیئے پروردگار کو جوابدہ بھی ہیں۔ 
                   ۔۔۔۔۔۔

پیر، 1 اپریل، 2024

دعا سے پہلے ۔ کالم


ذرا ٹھہریئے 
دعا🤲 سے پہلے 
غور کیجیئے
تحریر ۔
(ممتازملک۔پیرس)

بطور ایک کم علم مسلمان کے میری درخواست ہے کہ کسی بھی مسلمان کی مغفرت کی دعا🤲 ضرور کریں لیکن اس کے درجات کی بلندی کی دعا کبھی مت کریں۔
 کیونکہ ہم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ کون اللہ تعالی کے ساتھ کن معاملات میں کس درجے پر ہے۔
 اگر تو وہ اچھے درجے پر ہے ۔ پھر تو اسے انعام اور ثواب اور زیادہ ملے گا ۔
لیکن اگر خدانخواستہ وہ کسی گناہ میں کسی پکڑ میں ہے تو اس دعا کے بدلے کے اسکے اس درجے کے عذاب کی شدت میں بھی اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ 
اس لیے برائے مہربانی صرف مغفرت کی دعا کیا کیجئے۔ کیونکہ نہ ہم کسی کی نیتیں جانتے ہیں۔ نہ کسی کے مکمل اعمال۔ تو ہماری کسی دعا کی وجہ سے کوئی آدمی کسی پکڑ میں نہ آ جائے۔ اللہ پاک سے اس مرحوم یا مرحومہ پر رحم و کرم کی ہی پرزور دعا کی جانی چاہیئے ۔
درجات کی بلندی کی دعا صرف اور صرف پیغمبروں اور انبیاء کرام کے لیئے ہی ہوتی ہے کیونکہ صرف وہی اللہ کی جانب سے گناہوں سے پاک قرار دیئے گئے ہیں ۔ 
 بہت شکریہ۔
            ---

جمعرات، 21 مارچ، 2024

ویران حویلیوں میں بستے بھوت۔ کالم

  

   ویران حویلیوں میں بستے    بھوت
 تحریر :  (ممتازملک۔ پیرس)


ہمارے ملک کے  بہت سے گاؤں اور چھوٹے چھوٹے علاقے جہاں سے آئے ہوئے لوگ یورپ اور امریکہ میں دن رات محنت اور مشقت کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ جو آج بھی یہاں چھوٹے چھوٹے گھروں میں دو دو تین تین کمرے کے اکثر سرکاری فلیٹوں  میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اپنے بیوی بچوں کو انہوں نے وہ لائف سٹائل نہیں دیا جو انہیں پسند ہے۔ لیکن جن علاقوں سے یہ آئے ہیں۔ وہاں پر بڑی بڑی شاندار حویلیاں اور نت نئے ڈیزائن کی کوٹھیاں بنا کر اپنے بچپن کے احساس کمتری اور احساس محرومی کو دبانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس سفر میں انہوں نے اپنی زندگی کے 40 سال 50 سال گنوا دیئے۔ اپنی زندگی بھر کی ساری کمائیاں پیچھے بڑے بڑے گھر بنانے میں لگا دیں۔ وہ گھر جو ویران حویلیوں کا منظر پیش کرتے ہیں۔ جہاں کوئی نہیں رہتا۔ جہاں صرف ان کے بچپن کے ادھورے خواب اور ناآسودہ خواہشیں دفن ہیں، لیکن وہاں دوسروں کو دکھانے کے لیئے انہیں ہر بننے والے گھر سے بڑا گھر چاہیئے۔ ہر پڑوسی سے بڑی گاڑی چاہیئے، لیکن کس کے لیئے؟ ان گھروں میں آباد بھوتوں کے لیئے. انہیں کون بتائے کہ گھر دیواروں سے نہیں بنتے، گھر گھر کے لوگوں سے بنتے ہیں۔ کتنی بدنصیبی کی بات ہے جہاں آپ کے گھر کے افراد اور لوگ رہ رہے ہیں۔ وہاں آپ نے سہولتوں کا فقدان کر رکھا ہے۔ ان کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے ۔ انہیں ترس ترس کے جینے پہ مجبور کر رہے ہیں اور جہاں کوئی رہنے والا نہیں، وہاں بھوتوں کے لیئے بڑے بڑے بنگلے بنا کر دیئے۔ آپ میں  ایسے لوگ، جو اس قسم کے خلجان میں مبتلا ہیں، انہیں پہلی فرصت میں ضرور کسی اچھے ذہنی نفسیاتی معالج سے رجوع کرنا چاہیئے، کیونکہ یہ کوئی نارمل بات نہیں ہے۔ دنیا کا کوئی بھی آدمی جہاں رہتا نہیں، وہاں پر اتنے بڑے بڑے بے مقصد گھروں پر اپنی ساری زندگی کی اپنی 18، 18 گھنٹے کی کمائیاں، یہاں تک کہ اپنی پینشنیں بھی لگا رہا ہو، جبکہ جہاں اس کے بچے آباد ہوں، جہاں اس کا اپنا مستقل ٹھکانہ ہو، جہاں اس نے سال کے 11 مہینے رہنا ہو، وہاں پر وہ مفلوک الحال لوگوں جیسی زندگی گزار رہا ہو اور اگر  مفلوک الحال سے ایک قدم اوپر اٹھ جائیں تو بمشکل ایک لوئر مڈل کلاس کی زندگی گزارتا ہے۔ ضروری یہ ہے کہ ان لوگوں کو احساس دلایا جائے۔ ان کی وہ ذہنی کمیاں ، کوتاہیاں دور کرنے میں ان کی مدد کی جائے اور انہیں یہ بات سمجھنے کے لیئے تیار کیا جائے، راغب کیا جائے کہ انسان جہاں رہتا ہے اسے وہیں پر اپنی آمدنی، اپنے اخراجات اور اپنے لائف سٹائل کو مدنظر رکھنا چاہیئے۔ اپنی زندگی کو آسان بنانے پر اپنی کمائی کو خرچ کرنا چاہیئے۔ اس کمائی کا کیا فائدہ جو آپ کے اپنے گھر والوں، اپنے بیوی بچوں کے کام نہ آ سکی، اور ساری زندگی کے لیئے آپ نے اپنی کمائی ویران حویلیوں کے نام پر ایک خاموش قبرستان میں جھونک دی۔ آج آپ کے مرنے کے بعد آپ کا کوئی بچہ یورپ امریکہ سے اٹھ کر ان ویران حویلیوں کو آباد کرنے نہیں جائے گا اور آپ کی ساری عمر کی کمائی 50 سال 60 سال 70 سال کی کمائی اس دلدل میں ڈوب گئی۔ آپ نے کہیں کسی سے دعا نہیں لی۔ ان ویران حویلیوں کے بجائے یا تو وہاں کوئی ہسپتال بناتے، بوڑھوں کے لیئے کوئی سینٹر بنا دیتے , کوئی یتیم خانہ بنا دیتے, کوئی سکول بنا دیتے, کوئی ڈسپنسری بنا دیتے, کوئی ہنر سکھانے کا ادارہ بناتے تو شاید کوئی صدقہ جاریہ اور دعا کی جگہ آپ کے مرنے کے بعد بھی رہتی ہے اور دنیا میں بھی آپ کو یاد رکھا جاتا، لیکن اتنے بڑے بڑے گھر اور حویلیاں بنانے کے بعد آپ کو اس دنیا سے جانے کے بعد کون یاد کرے گا۔ ہمارے معاشرے کے گھٹیا دستور کے مطابق آپ وہاں پکارے تو اسی نام سے جائیں گے کہ دیکھا بھئی موچیوں کے منڈے نے بھی کوٹھیاں بنا لی ہیں ۔ سنا تم نے نائیوں کا بیٹا بھی بنگلہ بنا رہا ہے ۔ دھوبیوں نے بھی حویلی خرید لی ہے ۔ ۔۔۔
جبکہ دراصل بھوت پریت جنات  کے بسیرے کے لیئے تو آپ نے ٹھکانے بنائے اسکے بجائے آپ زندہ انسانوں کے بسیرے یا مفاد کے لیئے ٹھکانے بناتے تو وہ انسان آپ کو یاد بھی رکھتے۔
 حقیقت میں یہاں آپ کی وفات کے بعد آپ کے بچے یا ان کے بچے آپ کے جنازوں کے ساتھ اس لیئے نہیں جاتے کہ آپ کے جنازے کو مٹی دینا ضروری ہے۔ بلکہ اس لیئے جاتے ہیں کہ وہاں جلدی سے جلدی اسی گرما گرمی میں ان ساری زمینوں، حویلیوں، دکانوں کا ریٹ لگا کر فوراً سے پہلے انہیں بیچ کر ان پریشانیوں سے بچا جا سکے جو وہاں ان زمینوں، جائیدادوں اور گھروں کو چھوڑنے کی صورت میں قبضوں اور پھر قانونی کاروائیوں کی صورت میں نئے جھمیلے تیار کئے جا سکتے ہیں ۔ کیونکہ وہ لوگ یہاں آ کر اتنی لمبی قانونی لڑائیوں میں پڑ کر مزید اپنی زندگیاں کمائیاں تباہ نہیں کر سکتے اور یہاں رہنے کے حالات ان کے لیئے ویسے ہی موزوں نہیں ہوتے۔ اس لیئے وہ انہیں اونے پونے بیچ کر بھی نکلنا مناسب سمجھتے ہیں۔
 اپنے سوچنے کا نظریہ بدلیئے اور اپنے آپ کو قیامت تک کے لیئے دنیا میں آیا ہوا مت سمجھیں۔ اپنی زندگی کو اس غم میں غرق نہ کریں کہ فلاں جگہ میرے خواب ادھورے رہ گئے اور میں وہاں مکمل کرنے کے لیئے جاؤں گا اور اگلے 20 سال میں یہ کروں گا اور اگلے 40 سال میں یہ کروں گا۔ زندگی کی اگلی گھڑی کا کوئی اعتبار نہیں۔ زندگی وہی ہے جو آج آپ گزار رہے ہیں۔ آنے والے لمحے میں کیا ہے ؟ کوئی نہیں جانتا اور جو کل گزر چکا ہے۔ وہ ہمارے بس میں نہیں تھا۔ نہ ہم اسے واپس لا سکتے ہیں۔ نہ ہم اس میں جا کر اسے بدل سکتے ہیں۔ تو پھر بے وقوفوں کی طرح سانپ گزر جانے کے بعد اس لکیر کو پیٹنے کا کیا فائدہ۔ ماضی وہ سانپ ہے جو گزر چکا ہے۔ ہماری زندگیوں پر اپنے نشان چھوڑ کر۔ اسے جانے دیجیئے۔ اگے بڑھئیے۔ زندگی آج میں جی کر آنے والے وقت کے لیئے کچھ ایسا کر کے جائیئے۔ جو آپ کو آج بھی اور آنے والے وقت میں بھی اچھے ناموں کے ساتھ یاد رکھا جائے۔ 
نائی، موچی، دھوبی کے بنگلے دیکھ کر انکی تضحیک اور تمسخر اڑانے والے ان کے بنائے سکول، ہسپتال، کارخانے اور فلاحی ادارے دیکھ کر عقیدت سے نظریں جھکانے پر مجبور ہو جائیں اور انہیں سلام پیش کریں کہ جو کام وہاں کے مقامی مخیر حضرات سارے وسائل ہونے کے باوجود نہ کر سکے ان چھوٹے گھروں کے مفلس لوگ پردیس کاٹ کر ، اپنی حق حلال کی کمائیوں سے وہاں کر گئے۔ تاریخ میں مشہوری تو تاج محل بنانے والے کو بھی ملی، لیکن عزت کنگ ایڈورڈ اور کملا دیوی جیسے ہسپتال بنانے لوگ والے لوگوں نے ہی پائی۔ تو اپنی زندگی کے مقاصد میں مشہور ہونے سے زیادہ عزت کمانے کو ترجیح دیجیئے اور عزت ان کاموں سے ملتی ہے، جس سے معاشروں میں لوگوں کو آسانیاں اور روزگار میسر ہو سکیں ۔
                   -------

        
          

جمعرات، 7 مارچ، 2024

26سال۔ کالم



26 سال۔۔۔۔ 
دھواں نہیں اجالا
تحریر:
     (ممتازملک ۔پیرس)


26 سال کا ایک طویل عرصہ آج مجھے فرانس میں رہتے ہو گیا ہے۔ آج کے دن 7 مارچ 1998ء بروز ہفتہ پی آئی اے کی فلائٹ سے جب اپنے گھر سے چلی تھی تو میری ماں تھی ، بھائیوں سے بھرا ہوا گھر تھا ۔ خوشیاں تھیں۔   بہت سی امیدیں تھیں اور پھر ایک سال میں ہی ماں کے دنیا سے جانے کی خبر سنی۔ دیکھ نہیں سکی۔ پھر اپنے بھائیوں کے گھر بستے دیکھے۔ کسی میں جا سکے، کسی میں نہیں ۔ ڈولیاں اترتی نہیں دیکھ سکے۔ ان 26 سالوں  میں فرانس میں فرانک سے یورو تک سفر کیا ۔تنخواہ سے اپنی کمائی تک اور پھر اپنی کمائی سے تنخواہ تک۔ ایک یورو کی چیز کو تین یورو تک ہوتے دیکھا۔
اداروں کو بنتے ہوئے دیکھا۔ بگڑتے ہوئے دیکھا۔ کئی جنگوں کے احوال سے اس ملک کو متاثر ہوتے دیکھا۔ عالمی جنگ کے خطرات کو محسوس کیا۔ کئی سال سے "زیلے جون" نامی تنظیم کا مہنگائی کے خلاف رونا دیکھا۔ کئی وزارتیں بدلتے ہوئے دیکھیں۔
 یہاں پر ایک نسل کو جوان ہوتے دیکھا۔ والدین اور اس کی نئی نسل کے تضادات کو دیکھا۔
انکے خیالات کو  بدلتے دیکھا۔ میں نے لچکدار لوگوں کو بے حد کرخت ہوتے دیکھا اور بے لچک لوگوں کو نرم خو ہوتے دیکھا۔ ایک چوتھائی صدی گزارنے کے بعد آپ اس قابل ہو جاتے ہیں کہ جب آپ لوگوں کے درمیان تقابلے جائزہ لے سکیں ۔ جب آپ عوامی طور پر زندگی گزارتے ہوئے اور اسے پاکستان سے جوڑ کر دیکھیں تو وہاں کے حالات کے اثرات یہاں پر اپنی کمیونٹی پر دیکھیں۔ پاکستان میں ہونے والے وہاں کی مہنگائیوں، وہاں کے ہنگاموں، وہاں والی دہشت گردیوں، وہاں کی سیاست کو لوگوں پر اثر انداز ہوتے ہوئے دیکھا۔ انہیں پاکستان کے غم میں تڑپتے ہوئے دیکھا۔ کئی لوگوں کو جہان سے گزرتے ہوئے دیکھا۔ ڈاکٹر کی یہ صلاح سنی کہ اپنے ملک سے رابطہ توڑو گے تو سکون میں رہو گے۔ جہاں رہتے ہو وہاں جیو۔
 لیکن
 دل ہے کہ مانتا نہیں۔۔۔
 اسے ہر وقت  ہی اس ملک کی خبریں چاہئیں۔ کیوں چاہیں؟ یہ خود بھی نہیں جانتا۔ اس ملک میں ہم نے جوانی سے بڑہاپے تک کا سفر طے کیا۔ تو گود کے بچوں نے گود سے جوانی تک کا سفر طے کیا۔ انگلی پکڑ کر چلنے والے اب ہمیں رستہ دکھا رہے ہیں ، سمجھا رہے ہیں کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ۔ ایسا کرو اور ایسا مت کرو۔ اس میں انہیں برا نہیں کہا جا سکتا۔ اس میں ان کی ہم سے محبت جھلکتی ہے۔ جیسے ناہنجار اولادیں ہوتی ہیں یقین کیجئیے والدین بھی ناہنجار ہوتے دیکھے ہیں۔ جو اچھے لفظوں کو بھی برے پیرائے میں بیان کرتے ہیں ۔
 جو ہماری اولادوں کی ہمارے لیئے  فکر کو ان کی نافرمانی میں شمار کر دیتے ہیں۔ اسے ان کی گستاخیوں کی لسٹ میں ڈال دیتے ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں۔  وہ ہمارا خیال رکھتے ہیں ۔ ہم کہاں گئے، کیا کھایا، کیا پیا ،سوئے کہ نہیں، کچھ چاہیئے کہ نہیں۔ کیا یہ سب کچھ ہم نہیں پوچھتے تھے اپنے بچوں سے؟ ایک عمر کے بعد پھر جگہ بدل جاتی ہے۔ اولاد والدین کی جگہ اور والدین اولاد کی جگہ پر آ جاتے ہیں. اگر کل آپ ان سے محبت کرتے تھے. تو آج ان کی محبت پر شک مت کیجیئے۔ آج کے زمانے ، آج کے وقت، آج کی ضرورت کے حساب سے ہمیں خود کو ڈھال لینا چاہیئے۔ ہم کل اپنے بچوں کو آسانیاں دیتے تھے تو آج بھی اپنے دل پر درد بنانے کے بجائے بچوں کے مسائل ان کی مجبوریوں کو سمجھ کر ان کے ساتھ جینے کی کوشش کریں ۔ ہر قدم پر، ہر خاندان میں، ہر رشتے میں ،کچھ نہ کچھ کھٹاس مٹھاس وقت کے ساتھ چلتی رہتی ہے۔ کہیں رشتے ٹوٹتے دیکھے۔ کہیں رشتے جڑتے دیکھے ۔کہیں بنتے دیکھے۔ کہیں بگڑتے دیکھے۔ خود اپنی زندگی میں بہت سا اتھل پتھل دیکھا۔ رشتوں کو رنگ بدلتے ہوئے دیکھا۔ رشتوں کو آپ کا حق مارتے ہوئے دیکھا۔ خون کو سفید ہوتے ہوئے دیکھا ۔خون کے آنسو بہتے ہوئے دیکھے۔ خون تھوکتے ہوئے دیکھا۔ لفاظی میں نہیں حقیقت میں۔ بڑے بڑے زور آور ٹوٹتے ہوئے دیکھے، اور بڑے بڑے کمزوروں کو زور پکڑتے ہوئے دیکھا ۔ یہی دنیا ہے یہی اللہ کا قانون ہے۔ ہر صبح کے بعد شام اور ہر شام کے بعد ایک نیا سویرا طلوع ہوتا ہے۔ الحمدللہ زندگی نے بہت کچھ دیا۔ بہت کچھ سکھایا ۔ بہت سے پردے نظروں سے ہٹائے اور کئیوں کے عیبوں پر پردہ ڈالنے کی ہمت اور توفیق بھی عطا کی۔ اللہ سے یہ توفیق مانگتے رہنا چاہیے کہ کوئی اچھا کام کریں تو اسے بھول جائیں اور کوئی غلطی ہو جائے تو اپنی اس غلطی کو یاد رکھیں اور اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کریں ۔ بہت بہت شکریہ فرانس۔ اس  زندگی میں، اس ملک میں ہمیں عزت ملی، تحفظ ملا، روزگار ملا، وقار ملا، عزت سے سر اٹھا کر جینے کا موقع ملا، اچھے دوست ملے ، جینے کا ایک نیا انداز ملا ، دنیا کو دیکھنے کی نئی نظر ملی،  آگے بڑھنے کے مواقع ملے ، اچھے استاد ملے، اچھے شاگرد بھی ملے، خود بھی شاگرد کی زندگی جینے کا موقع ملا ، بہت کچھ وابستہ ہے ان سالوں کیساتھ۔ انسان کہیں بھی رہے وہاں یہ سب حالات زندگی میں پیش آتے ہیں۔ لیکن ایک پاکستانی لڑکی اس زبان سے بھی نابلد اجنبی  دیس میں جو کبھی اپنی گلی سے باہر نہ نکلی ہو ، محلے سے باہر کی دنیا نہ دیکھی ہو، اس کے لیئے شہر سے باہر بیاہ کر جانا اور پھر ملک سے باہر سات سمندر پار کا یہ سفر بالکل ایسا ہی تھا جیسے اڑن قالین پر کوئی ایک دنیا سے دوسری دنیا کا سفر کر لے۔ آج بھی یاد ہے ایک سال بھر کی بچی کو گود میں لیئے پیرس کے چارلس ڈیگال ایئرپورٹ پر جب میں اتری تب مجھے احساس ہوا کہ میں کتنی دور آ چکی ہوں۔ کہ میری ماں اتنی شدت سے اس بچی سے لپٹ کر، مجھ سے لپٹ کر کیوں روئی تھی؟ کیونکہ وہ ہماری آخری ملاقات تھی۔ اس کے بعد سال بھر میں ماں بھی نہ رہی۔ اور آج تک میں یہ سوچتی ہوں کہ وہ ایک سال یا میں نہ آتی تو شاید ماں زندہ رہتی یا شاید وہ چلی جاتی تو میں پھر آتی اسے رخصت کر کے دل کو یقین تو ہوتا کہ واقعی وہ چلی گئی ہے۔ لیکن کہتے ہیں نا اللہ کے ہر کام میں کوئی بھی حکمت وہی جانتا ہے۔ یہاں ہم نے آ کر اولادیں پیدا بھی کی اور کسی اولاد کو اپنے ہاتھوں مٹی بھی دی ۔ اپنی گودوں میں بھی کھلایا ۔ ہر درد، ہر خوشی آپکی زندگی میں آتی ہی ہے لیکن اس کے ساتھ وہ جو ہم نے جیا ۔ شاید وہ اپنے ملک میں کوئی نہیں جیتا۔ وہ تھا تنہائی کا عذاب جو ہمیشہ وابستہ رہا۔ یہ درد اپنی ذات سے کبھی جدا نہیں ہو سکا۔ جب آپ کے پاس کوئی ایسا بھی نہ ہو جس کے سینے سے لپٹ کر ، کندھے پر سر رکھ کر آپ رو سکیں ۔ جس کے ساتھ آپ بیٹھ کر دل کی بات کر سکیں۔ ہنس سکیں۔ دل کھول کر رکھ سکیں۔ یہ کمی ہمیشہ رہے گی اور یہ کمی ہر پردیسی کے حصے میں آتی ہے ۔ ساری خوشیوں پر یہ کمی حاوی ہو جاتی ہے۔ بس اسی درد کا نام پردیس ہے۔ ورنہ کیا نہیں ہے یہاں۔ سب کچھ تو ہے۔ الحمدللہ شکریہ فرانس۔ شکریہ زندگی اور شکریہ میرے ہمسفر اختر شیخ صاحب۔ جن کی سنگت میں جس کی ہمت افزائی، مجھ پر کیئے بھروسے،  حوصلے اور مجھے دی ہوئی میری انسانی آزادی نے مجھے کچھ کرنے کا حوصلہ دیا ۔ اپنے بیگانوں کس کس نے اسے  کیسے کیسے نہ ورغلایا کہ اسے چھوٹ مت دے ، یہ تیرے ہاتھ سے نکل جائے گی۔ بھاگ جائے گی ۔ یہ کر لے گی۔ وہ کر لے گی ۔ مگر شاباش ہے اختر شیخ صاحب کی استقامت کو  جن کی وجہ سے میں اپنے قدموں پر کھڑی ہو سکی۔ ورنہ میں بھی صرف چولہے اور چوکے میں اپنا آپ جھونک کر یہاں اس کمیونٹی کی ہزاروں ڈگریوں کی دعویدار عورتوں کی طرح صرف دھواں ہو چکی ہوتی۔ لیکن اس نے مجھے دھواں نہیں ہونے دیا۔ اس نے مجھے روشنی بننے کا موقع دیا۔ میں جہاں جاؤں اجالے کی طرح پھیل جاؤں۔ اس  عنایت کا کریڈٹ واقعی میرے شوہر کو جاتا ہے۔ ہر وہ عورت جو میدان میں کچھ کر رہی ہے اور اس کا شوہر اس کے ساتھ کھڑا ہے اور وہ اچھے راستوں پر گامزن ہے۔ اس کی شاباش اس کی شوہر کو بنتی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح کسی کامیاب مرد کے لیئے اس کی بیوی کا ساتھ ہمت حوصلہ اسے شاباشی کا مستحق بناتا ہے۔  میں نے اپنے گھر کی ہر ذمہ داری کو بخوشی نبھایا ۔ میرا شوہر میرے گھر اور اپنے بچوں کی طرف سے جبھی بے فکر رہ سکا ۔ اس کے بچے صاف ستھرے، تمیزدار پڑھائی پر توجہ دینے والے ہوں ۔ وہ گھر آئے تو میرا گھر کسی ملازمہ کے بغیر صاف ستھرا ، دھلے دھلوائے کپڑے، گرم کھانا تیار انکے آگے پیش کیا۔  میں نے میرا گھر ہمیشہ میرے شوہر کی کمائی سے ہی چلایا۔  اس نے مجھے جتنی چادر دی۔ میں نے اسی میں خود کو پورا کر لیا ۔ وہ ہڈ حرام،  نکما ، ویلیاں کھانے والا نہیں تھا ، اور میں فیشن پرست ، مارک کی ماری، پھوہڑ ، فضول خرچ اور ناشکری نہیں تھی ۔ اس لیئے زندگی میں پیسے کی وجہ سے تماشے کم ہی ہوئے۔ کئی ملکوں کی سیر کی ۔ اللہ کا گھر دیکھا ۔ پاکستان میں مہینوں بھی رہنا چاہا تو الف سے لیکر ے تک کا خرچ میری جیب میں اس نے اپنی کی کمائی کا دیکر بھیجا ۔ مجھے میرے یا اپنے رشتےداروں کا دست نگر نہیں ہونے دیا۔ کہیں میری کسی ضرورت کے لیئے مجھے ترسنے نہیں دیا۔ اور میں نے بھی کبھی اپنے آپ کو ضرورت سے نکل کر خواہش کے گٹر میں گرنے نہیں دیا ۔ کیونکہ جو ایک بار خواہشات کے گٹر میں گر گیا اسے دوبارہ سے اس سے پاک کرنے کے لیئے سمندروں کا پانی بھی کم پڑ جاتا ہے ۔
زندگی کی تمام کامیابیاں مجھے اسی کے حوصلے ہمت کے طفیل زندگی نے عطا کیں ۔ زندگی آسان ہے اگر آپ اسے سادگی اور کسی مقابلے کے بغیر گزارنا سیکھ لیں ۔ لیکن زندگی بہت مشکل ہے جب ہر وقت آپ کو خواہشوں کے گھوڑے پر سرپٹ بھاگتے رہنا ہے ۔ کیونکہ بھاگتے ہوئے آپ راستے کی دلکشی کا لطف کبھی نہیں لے سکتے۔ اس کے لیئے تو آپ کو دھیما چلنا پڑتا ہے ۔ کہیں رکنا بھی پڑتا ہے ۔ 
                               الحمدللہ
                   ۔۔۔۔۔۔




پیر، 4 مارچ، 2024

اتے پتے بچپن کے۔ کالم


اتے پتے بچپن کے
تحریر:
     (ممتازملک ۔پیرس)

بچپن کے دوست بے حد قیمتی ہوتے ہیں۔ کئی بار والدین کو کسی مجبوری سے ،چاہتے نہ چاہتے اپنا گھر بدلنا پڑتا ہے۔ اپنا شہر بدلنا پڑتا ہے۔ اپنے علاقوں سے دور ہونا پڑتا ہے۔ یا اپنے بچوں کے اسکولز بدلنے پڑتے ہیں ۔  وہ بڑے ہوتے ہیں انہیں شاید یہ بات اتنا دکھ نہ دیتی ہو۔ ان کی زندگیوں میں آنے والی تبدیلیاں شاید اتنی غیر متوقع نہ ہوں، لیکن یاد رکھیں آپ کے ساتھ آپ کے چھوٹے بہن بھائی یا آپ کے بچے جو ابھی ان تبدیلیوں کے اثرات کو ایک دم سے نہ سمجھ سکتے ہیں، نہ قبول کر سکتے ہیں۔ ان کے لیے کسی جھٹکے سے کم نہیں ہوتے ۔کبھی بھی ان کو اچانک حیرت میں ڈالتے ہوئے ان کا سکول بدلنے اور علاقہ بدلنے کا ایسا جھٹکا مت دیجئے کیونکہ اس کے اثرات ساری زندگی ان پر حاوی رہتے ہیں۔ بچپن کے دوست زندگی کا سب سے قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں ۔بچپن کی یادیں ہمیشہ دلوں پر نقش ہو جاتی ہیں۔ وہ اچھی ہوں یا بری ۔ اگر کہیں کوئی بری یاد بھی وابستہ ہو تب بھی اپنے سکول کے دوست ، خاص طور پر آپ کی زندگی کا سرمایہ ہوتے ہیں انہیں ایک دم سے ان سے چھیننے کی کوشش مت کیجئے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ہمارے ہاں کسی کا سکول بدل جانا یا شہر دور ہونے کے بعد اپنے دوستوں سے رابطہ رکھنے کے لیے ان کو اپنے نئے گھر کے پتہ دینا یا فون نمبر دینا یا کوئی اور رابطہ ان کو دینا والدین ضروری ہی نہیں سمجھتے کہ ان کے اپنے بچوں کے کچھ احساسات ہیں، جذبات ہیں دوستیاں ہیں، جنہیں وہ یاد کریں گے۔ ساری زندگی مس کریں گے۔ اس لیے ضروری ہے کہ وہ ان سے رابطے میں رہیں۔ کبھی کبھار ہی صحیح، کیونکہ زندگی کی مصروفیات میں ہی  انسان اتنا آگے بڑھ جاتا ہے کہ ویسے بھی ہر وقت ایک دوسرے سے رابطے میں رہنا یا ایک دوسرے سے ملاقات کرنا  کبھی ممکن ہو ہی نہیں سکتا ۔ ایسے میں کبھی کبھار بھولے بھٹکے کوئی چٹھی ، کوئی پتر، کوئی فون کال، کوئی میسج آپ کو پھر سے تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح ماضی کی میٹھی میٹھی سی یادیں تازہ کر جاتا ہے۔  اس لیئے ان کا سکول یا شہر بدلتے ہوئے اپنے بچوں کو پہلے تیار کیجیےُ۔ انہیں بتائیئے کہ ہمیں شہر یا علاقہ چھوڑنا ہے یا تبدیل کرنا ہے، کہ آپ کا تبادلہ ہو گیا ہے۔ یا آپ کاروبار کے لیئے جا رہے ہیں. یا آپ بہتر مواقع کی تلاش میں جا رہے ہیں ۔ یا آپ ان کی بہترین تعلیم کے لیئے جا رہے ہیں یا کسی پریشانی کی وجہ سے آپ کو وہ جگہ چھوڑنی ہے ، تو بچوں کو ذہنی طور پر اس صورتحال کے لیئے کچھ عرصہ پہلے تیار کیجئے اور انہیں اس بات کی اجازت دیجئے کہ جو ان کی خاص دوستیاں ہیں۔ جو بہت قریبی دوست یا سہیلیاں ہیں ان دو چار لوگوں کو ضرور وہ اپنا پتہ یا رابطہ دے کر جائیں۔  ان کا رابطہ اپنے ساتھ اپنی ڈائریوں میں لکھ کر لے کر جائیں ۔ ایک دوسرے سے نمبر ایکسچینج کریں تاکہ جب کبھی وہ بچپن کے اس دور کو شدت سے مس کرنے لگیں  تو خود کو کچھ دیر کے لیے اس رابطے میں لا کر بہلا سکیں۔  نفسیاتی طور پر بھی اس کے بہت اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔  کیونکہ وہ کسی گہرے ٹروما سے بچتے ہیں۔  یاد کرنے کی وہ جو ایک تکلیفدہ اذیت ہے وہ اس سے بچ جاتے ہیں اور یوں اگر انہیں ایک دوسرے سے کوئی توقع بھی ہوتی ہے تو وہ زیادہ مایوس نہیں ہوتے۔ 
وقت کے ساتھ ساتھ انہیں خود اس بات کا احساس ہوتا چلا جاتا ہے کہ سب کچھ کبھی ایک جیسا نہیں رہتا اور یوں وہ کسی تکلیف کا شکار بھی نہیں ہوتے۔  سچ پوچھے تو سچی دوستیاں تو یہی بچپن کی دوستیاں ہوتی ہیں نہ کوئی غرض نہ کوئی مفاد۔ ایک دوسرے کی مسکراہٹیں ہی ایک دوسرے کے لیے انعام ہوا کرتا تھا۔
کیونکہ کوئی نہیں جانتا کہ ایک ہی سکول میں پڑھنے والے ایک ہی کلاس میں ایک ہی بینچ پر بیٹھنے والے ان بچوں میں سے کون کل کو راجہ بنے گا ۔ کون رانی بنے گی۔ کون شہزادہ ہوگا، اور کون فقیر۔ کون حکمران ہوگا اور کون مزدور۔  اس لیے اس بے غرض دوستی کے دور کو یاد رہنے دیجیئے اور آپ انہیں کاٹنے والی تلوار مت بنئیے۔ ضروری نہیں ہوتا کہ بچپن کے یہ دوست ایک دوسرے کے ساتھ صرف غلط توقعات میں ہی وابستہ رہیں۔ بہت سی چھوٹی چھوٹی معصوم سی باتیں، معصوم سی یادیں ، پہلی بار کی ہوئی شرارتیں،  پہلی بار کے تجربات ان بچپن کی یادوں سے وابستہ ہوتے ہیں۔ سو خدارا اپنے بچوں سے بچپن کا یہ معصوم سا خزانہ مت چھینا کیجئے ۔جسے وہ ساری عمر تلاشتے رہتے ہیں۔
                   --------



جمعرات، 29 فروری، 2024

حروف کا احترام . کالم

حروف کا احترام 
تحریر :
(ممتاز ملک۔ پیرس)
 

پچھلے دنوں ایک خاتون کے لباس پر ایک بڑا ہنگامہ اور فساد ہوتے ہوتے رہ گیا۔ اس لباس پر عربی کے الفاظ تحریر تھے۔ اس خاتون نے اس کا ایک لمبا سا فراک ٹائپ کا لباس پہن رکھا تھا۔ دیکھنے میں وہ عربی کی ایات سے مشابہ تھا۔ ظاہر ہے کسی مسلمان ملک میں جب آپ ایسی حرکت کرو گے تو اس کا مطلب انہیں جان بوجھ کر مشتعل کرنا ہے اور جب کہ وہ خود بھی خاتون مسلمان ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ کیا الفاظ کی حرمت ہم لوگوں کے ذہن سے بالکل نکل چکی ہے ہم لوگ دین سے تو بیزار ہیں، لیکن حرمت اور تقدس کے معاملات سے بھی بیزار ہو چکے ہیں کیا ۔ الفاظ صرف عربی کے ہی کیوں ہوں، چاہے وہ اردو کے ہوں، ہندی کے ہوں، چائنہ کے ہوں، فرینچ ہوں، کسی بھی زبان کے الفاظ کیوں نہ ہوں، ان کی حرمت اور عزت قائم رہنی چاہیے اور بار بار اس چیز کو دہرایا گیا کہ عربی زبان سمجھ کر عربی سمجھ کر ایسا کیا گیا، سوال یہ ہے کہ
صرف عربی ہی کیوں کوئی بھی زبان ہو اس کے الفاظ کی حرمت ہوتی ہے یہی لباس پہن کر آپ کہیں بیٹھتے ہیں، اٹھتے ہیں، ٹوائلٹ میں جاتے ہیں اور کئی صاف اور گندے کام آپ اس لباس کے ساتھ کر رہے ہوتے ہیں ان میں جب حروف آ جاتے ہیں۔ انہی حروف سے نام بنتے ہیں۔ کلمات بنتے ہیں۔ انہی حروف سے ساری علمی چیزیں تیار ہوتی ہیں ۔ 
اس میں کوتاہی ہم سب لوگوں کی بھی ہے اس لیے کہ جب انگریزی زبان کے الفاظ کو ان کے اخبارات کے نمونوں کو فیشن بنا کر لباس میں استعمال کیا گیا۔ انگریزی الفاظ کو ڈیزائن کہہ کر ان کو استعمال کیا گیا تو ہم لوگوں کو اس وقت بھی اعتراض کرنا چاہیے تھا۔ آواز اٹھانی چاہئے تھی اگر ہم میں سے کسی نے اواز اٹھائی بھی تھی تو اتنی کمزور تھی کہ ذمہ داران تک پہنچی ہی نہیں۔ اس لیئے جب بات بڑھتے بڑھتے اپنی زبانوں کے الفاظ تک آ گئی تب ہمیں پتہ چلا ۔ یہ وہی حساب ہے کہ جب کسی کے گھر میں آگ لگی ہو تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، لیکن جب وہ تبش اپنے گھر تک آتی ہے تو پھر ہمیں اپنی فکر پڑتی ہے کہ لو اب ہم جلنے والے ہیں اس میں۔ تو ہم شور بھی مچاتے ہیں آواز بھی اٹھاتے ہیں، تو اس میں مجرم ہم سب برابر کے ہیں کہ آج ہمیں اپنی مذہبی زبانوں کو بھی اس طرح سے دیکھنا پڑا۔
 "اقراء" سے ہماری جو ابتدا ہوتی ہے کہ اللہ پاک فرماتا ہے کہ پڑھ اپنے رب کے نام سے تجھے وہ علم عطا کیا جو تو نہیں جانتا تھا ۔
تو یہاں پہ "پڑھ"  کا لفظ خالی عربی زبان سے منسوب تو نہیں کیا گیا۔  ۔
 اس لیے حروف کا احترام کرنا چاہیے جو ہمیں جینے کا، دنیا اور اخرت کا طریقہ و آداب سکھاتے ہیں پھر وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔ کسی بھی ملک سے تعلق رکھتے ہوں۔
 رہی بات قبروں پر ، مزارات پر چادریں ڈالنے کی تو ان پر پاؤں نہیں رکھے جاتے یہ بھی یاد رکھیئے۔
 فرق دیکھیئے وہ ٹھیک ہے یا نہیں ٹھیک ہے لوگوں کی اپنی مرضی اور صوابدید  پہ چھوڑ دیجیئے۔
 لیکن ان کے اوپر کوئی پاؤں نہیں رکھتا۔ آپ نے کبھی نہیں دیکھا ہوگا کہ ان پہ ایات لکھی یا کچھ یا اگر وہ تبرکن بھی کسی کے گلے یا سر پہ رکھی جائیں تو کوئی  ان پہ  پاؤں رکھتا ہے یا انہیں کوئی گندی اور نجس جگہ پہ رکھتا ہو یا ساتھ لے کر جاتا ہو ۔
ایسے نہیں ہوتا تو برائے مہربانی اس فرق کو ملحوظ رکھتے اور میں ہر طرح کے الفاظ چاہے وہ انگریزی ہو ، چائنیز ہو ہندی ہو اردو ہو کوئی بھی زبان ہو ہر طرح کے الفاظ کا احترام کرنا ضروری سمجھتی ہوں اور ان کو اپنے بدن پر لپیٹ کر سر پر رکھنا ایک اور چیز ہے۔ سر عزت والی جگہ ہے۔ اس پر کچھ لکھا ہے تو اپ کہیں جاتے ہوئے اس کو اتار کے رکھ دو گے، لیکن آپ اپنے بدن پر لپیٹ کر اس کو جب آپ کے بدن سے  اچھی بری بو بھی نکل رہی ہے۔ آپ کے بدن سے پسینہ بھی نکل رہا ہے۔ آپ کے بدن سے پاکی ناپاقی بھی وابستہ ہے۔ لہذا اس بات کا خیال رکھنا چاہیے ۔ کہ اپنے بدن پر الفاظ کو لپیٹ کر انہیں بے توقیر نہ کیا جائے۔ 
کچھ کا اعتراض ہے کہ خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کی تصویر والے جائے نماز بھی تو لوگ استعمال کرتے ہیں اور ان پر چوکڑی مار کر بیٹھ بھی جاتے ہیں۔ تو ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ لوگ جو ایسی  جائے نماز استعمال کرتے ہیں وہ بے خبری میںکرتے رہے۔  ان کو بھی اب جیسے جیسے معلوم ہو رہا ہے وہ بھی اس کو استعمال نہیں کر رہے۔ احتیاط کر رہے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ جو اب نئی جائے نمازیں  آ رہی ہیں تقریبا  سادی ہی جائے نماز آ رہی ہیں اور ان پر جو بیٹھتے ہیں تو وہ سجدے والی سائیڈ پہ تصویر ہوگی جہاں پہ سجدہ کیا جاتا ہے آپ کبھی بھی نہیں دیکھیں گے کہ پیروں کی سائیڈ پہ تصویر یا اس کے اوپر الفاظ لکھے ہوں  اور وہ جو نقش ہوتا ہے وہ شاید وہ لوگ جو تبرکن بناتے رہے ہیں کہ جہاں وہ اس تصور کو اجاگر کرنے کے لیے کہ مسجد نبوی کی یا خانہ کعبہ کی تصویر اگر بنتی ہے تو ان کی سجدے والی جگہ پہ ہوتی ہے۔ میں نہیں مان سکتی کہ کوئی بھی مسلمان جو رتی بھر بھی علم رکھتا ہو یا احساس رکھتا ہو وہ جان بوجھ کر ایسی تصویر یا  ایسے حروف کے اوپر بیٹھے گا۔ سو احتیاط کیجیئے کہ ایک ہی نقطہ کافی ہے ہمیں محرم سے مجرم بنانے کے لیئے ۔
                 -----

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/