موسمیاتی تبدیلی سے تباہیاں
تحریر: (ممتازملک ۔پیرس)
دنیا بھر میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلیاں یہاں بہت سارے سیلاب ، طوفان، اضافی بارشیں اور شدید بارشیں، لینڈ سلائیڈنگ اس قسم کے بہت سارے معاملات لے کر ہر روز اتنے حادثات اور واقعات اور ناگہانی کی صورت میں سامنے آ رہی ہیں۔ وہاں پاکستان میں ان چیزوں کی شدت میں ابھی پچھلے دنوں ہونے والے سیلاب کی صورت میں خطرے کی شدید گھنٹی بجائی۔ کئی سالوں سے ان باتوں کے اوپر بات ہو رہی ہے۔ ان معاملات کو سنجیدگی سے لیا جائے لیکن ہماری حکومتوں سے آخر ایسی کیا غلطی سب سے زیادہ نمایاں ہو رہی ہے۔ جس نے آج ہمیں یہ دن دکھایا، تو ایک عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ ہاؤسنگ سکیموں کے نام پر کس طرح سے ندی نالوں کے کنارے بیچے گئے۔ کس طرح سے پانی کے راستے بیچے گئے۔ کس طرح سے پانی کے بہاؤ والے علاقے جیسے کہ نالہ لئی ہو ، جیسی مثالوں کو لے لیں ہمارے دریاؤں کی مثالوں کو لے لیں ، جن کے کناروں پر نہ صرف اتنی متصل آبادیاں بنا دی گئیں کہ تھوڑی سی بارش کے بعد بھی اس پانی کی گزرگاہ بند ہو جاتی ہے اور پھر باقی کسر لوگوں نے کوڑا کرکٹ پھینک کر اپنے ندی نالوں کو اس قدر غلیظ اور تنگ کر لیا کہ وہاں سے پانی کے بہاؤ کی گنجائش بھی اتنی کم ہو گئی کہ تھوڑی سی معمول کی بارش کی صورت میں بھی وہ پانی نالوں سے باہر راستوں پہ بہنے لگتا ہے۔ لیکن ہم لوگوں نے اس پر کبھی سنجیدگی سے غور نہیں کیا ۔ کروڑوں روپے کے گھر بنا کر ہم جہاں پر بیٹھ گئے ہیں وہاں ہمیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم اس بات پر سوچنے کے لیے بالکل تیار نہیں ہیں کہ جب بارش ہوگی، یہاں سے پانی گزرے گا، تو پھر اس گھر کا کیا بنے گا؟ ہمارا یہ کروڑوں روپیہ بھی اس پانی کے ساتھ اسی طرح بہ جائے گا۔ لوگوں نے باقاعدہ زمین قبضہ کرنے کے لیے سب سے پہلی سکیم یہ بنائی ہوتی ہے کہ ہر علاقے میں کھلے میدان نالوں کے کنارے دریاؤں کے کنارے پر یا تو بطور گوالے آباد ہو جاتے ہیں یا پھر جھگی واسی بن کر آباد ہو جاتے ہیں۔ اور پھر ان کے ذریعے وہ اس زمین کو قبضہ کرنے کے لیے اپنی طرف سے بہت سمجھداری دکھاتے ہیں لیکن جب ان کا لاکھوں کا ایک ایک جانور اس پانی میں انہی بارشوں میں بہہ کر جاتا ہے۔ سیلاب کی نظر ہوتا ہے۔ ان کے گھروں کے سامان بہتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ دیکھنے والے کو افسوس ہوتا ہے۔ لیکن کیا کریں کہ اس کے سب سے زیادہ ذمہ دار وہ لوگ خود ہیں جو ایسی آبادیوں میں جا کر اباد ہوتے ہیں ۔جہاں پر گھر خریدا جاتا ہے اس کے بارے میں کوئی تحقیق نہیں کرتا کہ یہاں سے سیلاب کا پانی تو نہیں گزرتا۔ یہاں کوئی ندی نالہ ہے تو کیا یہ چیز اس کے راستے میں تو نہیں آ رہی اور تو اور بڑی بڑی ہاؤسنگ سکیموں نے ڈی ایچ اے جیسی بڑی نامور سکیم نے جب پلاٹنگ کی اور سکیم بنائی تو کوئی سوچ سکتا تھا کہ یہ پانی کے راستے کو بند کر رہے ہیں۔ یہ پانی کی گزرگاہ کو خرید رہے ہیں۔ لوگوں سے اربوں روپیہ جیب میں ڈالنے کے بعد کیا وہ ان کے لیئے اب کوئی متبادل سکیم بنائیں گے، پیش کریں گے، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہمیں تو ایسی کوئی امید نہیں۔ حکومتوں سے غلطی یہ ہوئی کہ حکومتوں نے کبھی بھی دوسرے ممالک سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا ۔
بالکل سعودی عرب ، یا دوبئی جیسے ملکوں کی طرف دیکھیں جہاں اس بات پر جب نہیں سوچا گیا کہ ہم آبادیاں تو جدید بنا رہے ہیں لیکن جب اس علاقے میں کلائمٹ چینج ہوگا ۔ کل کو جتنی تیزی سے موسمیاتی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ تو بارشیں۔ہونگی یا اگر بارشیں کبھی شدت اختیار کریں گی، جن علاقوں میں بارشیں شاید سال میں ایک دو بار ہوتی تھیں وہاں جب بارشیں تواتر سے ہوں گی؟ تو یہ پانی کن نالیوں میں سے گزرے گا ؟ کن نالوں تک پہنچے گا؟ سڑکوں کی کیا صورتحال ہوگی؟ ڈھلان کس طرف ہونی چاہیئے ؟ اٹھان کس طرف ہونی چاہیئے ؟ یہ سب کچھ بہت اہم تھا۔ جس کے لیئے کوئی نہ کوئی ماہر انجینیئر ہی اس وقت آپ کو فیصلہ کر کے دے سکتے تھے کہ یہاں پہ کہاں کہاں پر پانی کا رخ کہاں سے کہاں تک ہو سکتا ہے۔ اور آپ کو کس طرح سڑک بنانی چاہیئے لیکن یہ غلطیاں جو وہاں کی گئیں تو وہاں بھی طوفانی سیلاب اور تباہیاں دیکھنے کو ملیں۔ دنیا نے وہاں سڑکوں کو دریاؤں کی صورت اختیار کرتے گاڑیوں کو تیرتے اور ڈوبتے ہوئے دیکھا ۔
لیکن وہاں پر ترقی کا معیار کچھ مختلف تھا پیسے کی فراوانی تھی تو انہوں نے اس چیز پر جلد قابو پانا شروع کیا ۔ لیکن پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیئے یہ بہت مشکل کام ہے کہ آپ بنی بنائی سوسائٹیز کو کس طریقے سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر سکتے ہیں۔ لیکن پانی کی گزرگاہوں اور پانی کہاں سے آ رہا ہے اور کس طرف جا رہا ہے۔ اس رخ کو تبدیل کرنے کے بارے میں آپ کے پاس کوئی انتظام نہ تھا نہ ہے۔
آپ نے اس شعبے میں گولڈ میڈل حاصل کرنے والے اور ریکارڈ بنانے، ڈگریاں حاصل کرنے والے سالہا سال کی محنت کے بعد انوائرمنٹ چینج اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اوپر اپنی زندگی کے سالہا سال تعلیم حاصل کرنے پر لگانے والے طلبہ کے علم کو کام میں لانے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی۔ افسوس صد افسوس کہ ان تمام طالب علموں کو پاکستان میں استعمال کہاں کیا جاتا بلکہ ان کو تو اکثر نوکریاں ہی نہیں ملتی تھیں۔ ان کے لیئے یہ شعبے بنائے ہی نہیں گئے۔ ہر شعبے کی طرح موسمیاتی تبدیلیوں کے شعبے میں بھی ایسے ایسے لوگوں کو وزارتیں اور سفارتیں دی جاتی رہی ہیں جن لوگوں کا اس کام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جو لوگ گولڈ میڈل حاصل کرتے ہیں جو لوگ ریکارڈز بناتے ہیں۔ اپنے اپنے شعبوں کے اندر ان کو اسی تعلیم کے اندر ان کی فیلڈ کے اندر ، ان کی ڈومین کے اندر استعمال کیا جائے اور ان کے ذریعے ان کی نئی سوچ کو، نئی تعلیم کو اور دنیا بھر میں ہونے والی تبدیلیوں کے ساتھ متناسب انداز میں نپٹنے والے شعبوں میں بہترین نوکریاں دی جاتیں۔ اور ان نوکریوں کے ذریعے ان کے علم کو استعمال کیا جاتا ۔ کہیں بھی ہاؤسنگ سکیم بنانے سے پہلے یہ شرط لگائی جاتی کہ وہ لوگ کسی اچھے موسمیاتی ماہر کے ذریعے( اسی طرح جیسے نقشہ بنانے والے سے پیمائش کرانے والے سے سرٹیفیکیٹ حاصل کیا جاتا ہے )اس علاقے میں ہونے والی، آنے والی آئندہ کی تبدیلیوں کو نوٹس کیا جاتا۔ اور اس کے اوپر باقاعدہ کام کیا جاتا۔ لیکن ہمارے ملکی حالات میں یہ بھی تب درست ہو سکتا تھا جب ہمارے ملک میں وہ آنے والا ماہر بھی کرپشن کے ذریعے نہ آیا ہوتا۔ رشوت دے کر نہ آیا ہوتا۔ اس کی ڈگری جعلی نہ ہو، اور وہ باقاعدہ تعلیم حاصل کر کے، اپنے علم کے زور پر اور اپنی کامیابیاں سچی لے کر آیا ہو۔ اور پھر ان کامیابیوں کے لیئے واقعی اتنی صلاحیت رکھتا ہو، ہنر مندی کی بنیاد پر، میرٹ کی بنیاد پہ آیا ہو اور پھر وہ رشوت خور نہ ہو، وہ کرپٹ نہ ہو ، تبھی وہ بہترین انداز میں اپنی خدمات پیش کر سکتا ہے۔ دنیا بھر میں ہونے والی تبدیلیوں کو درست کرنے یا پھر ان کے نقصانات کو کم کرنے کے لیئے پاکستان کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے ۔ لیکن سب سے پہلے ہمیں پاکستان میں اپنے اس کردار کو ادا کرنا ہے کہ ہم ان تبدیلیوں سے کس طرح سے نپٹ سکتے ہیں۔ کیونکہ یہ ہمیں کرنا ہی کرنا ہے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں۔ اربوں کھربوں روپے کا ایک ایک منصوبہ لگانے کے بجائے سب سے پہلے اس ماہر کو وہاں لایا جائے جو یہ بتائے کہ یہاں پر ہوا کا رخ، پانی کا رخ ، زلزلوں کی صورتحال اور پھر خدانخواستہ پہاڑوں سے گرنے والے پتھروں کے خطرات کو کیسے سمجھا اور اس کی روک تھام کی جا سکے۔ ایسے واقعات کی شدت کو کم کیا جا سکے اور ایسے حادثات کی صورت میں نہ صرف انسانی جانوں کو بچایا جا سکے بلکہ بہت سارے اس سرمائے کو بچایا جا سکے جو لوگوں کے ٹیکس کے پیسے سے ان منصوبوں پر لگایا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔