ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک
کالمز لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
کالمز لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

پیر، 15 جولائی، 2024

گٹر معاشرہ۔ کالم




واہ رے ہمارے گٹر معاشرے 
جہاں اللہ کے نزدیک 
ان کے خیال میں 
بیٹیوں کی خرید و فروخت پسندیدہ 
انکو کتے جیسا ذلیل کرنا پسندیدہ 
انہیں مار مار کر مردانگی دکھانا پسندیدہ 
انکے نام سے بہن چ۔۔۔ اور ماں چ۔۔۔ سے صبح کا آغاز کرنا پسندیدہ 
ان کا قتل پسندیدہ 
لیکن طلاق ۔۔۔
توبہ توبہ توبہ 
اللہ کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ کام ہے ۔۔۔
میں لعنت بھیجتی ہوں ایسے معاشرے پر ۔۔۔
آپ میں کتنے باضمیر باقی ہے جو ایسا کر سکیں ؟

مہم چلائیں 
اگر غیرت باقی بچی ہے تو  مہم چلائیں۔ ۔۔
           طلاق منظور 
گھریلو تشدد نامنظور
جبری شادی نامنظور 
بیٹی کی جہالت نامنظور
بیٹی کی بے ہنری نامنظور 
جبری شادی نامنظور 
(چاہے باپ کے گھر میں ہو یا اسکے شوہر کے گھر میں )
گھریلو تشدد نامنظور 

        (ممتازملک۔پیرس)

منگل، 25 جون، 2024

زبان سے جہنم کے کنویں کھودنا۔ کالم

زبان سے جہنم کے کنویں کھودنا 
تحریر:
    (ممتازملک۔ پیرس)

ان لوگوں پر بہت حیرت ہوتی ہے جو لوگ گھر بیٹھے دوسروں کی کردار کشی اور منافقت کے ذریعے اپنے آپ کو جانے کس مقام پر پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بہت سی حجاب ،نقاب عبائے پہنے ہوئے لوگ جب انہی جبوں عبایوں کی توہین کرتے ہیں اپنی زبانوں سے ، اپنے اعمال سے،  اپنی نظروں سے، اپنی سوچوں سے۔
  اگر اپنے آپ کو بہت دیندار ثابت کرنا چاہتے ہیں تو پھر اپنی زبانوں اور سوچوں کو اس گندگی سے آزاد کیجئے۔ لیکن اگر آپ نے فیشن کے طور پہ یہ ساری چیزیں اپنا رکھی ہیں۔ چہرے پر داڑھی سجا رکھی ہے۔ یا جبے پہن رکھے ہیں تو یہ لوگ  اس عورت کے مثل ہیں جو اپنے دروازے میں ایک سوراخ بنا کر دوسروں کے گھروں کے آنے اور جانے والوں پہ نظر بھی رکھ رہی ہے لیکن دوسری جانب تسبیح بھی گھما رہی ہیں، تہجد اور نمازیں بھی پڑھ رہی ہیں۔ اور آخر میں اللہ تعالی ان کی ساری عبادات ان کے منہ پہ مار دیتا ہے۔ جب آپکو پتہ چلتا ہے کہ آپ حج یا،عمرے پر جا رہے یا کسی بھی عبادت میں مشغول ہیں تو آپ کی اس عبادت کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ اللہ کے گھر جانے والوں کے اوپر تہمتیں لگائی جاتی ہیں، گندگی اچھالی جاتی ہے۔ کہیں کہا جاتا ہے فلاں محرم کے بغیر چلی گئی، فلاں فلیٹ میں رہ رہے ہیں، ہوٹل میں رہ رہے ہیں  اور انہوں نے وہاں پہ یہ کھایا، یہ پیا، فلانے نے ان کو یہ کہا، فلانے نے انکو وہ کہا ۔ ان سے پوچھیں آپ انکے ساتھ اتنی بڑی جو دوربین فکس کر کے بھیج رہے ہیں
 وہ دوربین آپکو دوزخ میں کہاں تک پہنچائے گی کاش اس دوربین سے آپ یہ بھی دیکھ سکتے۔  آپ انہی لوگوں کے ساتھ آنے کے بعد بغلگیر ہو کر مبارکباد اور تبرکات کی تقسیم کے لیئے آگے ہو رہے ہوتے ہیں۔ لیکن جو وہ ان مقدس مقامات پر جا رہے ہیں اور وہاں سے اگر وہ اپنی تصاویر، آڈیوز ، ویڈیوز لگاتے ہیں تو یہ بات ہر وہ بندہ جانتا ہے جو کتنے کتنے سالوں کی دعاؤں اور تمناؤں کے بعد اللہ کے دربار میں حاضر ہوتا ہے۔ مکہ میں کعبہ کے سامنے حاضری دیتا ہے اور ہر دعا بھول جاتا ہے وہ جو مدینہ میں سرکار مدینہ کے دربار میں حاضر ہوتا ہے اور آنسوؤں کی جھڑی نہ لگے یہ تو ہو نہیں سکتا۔ ایسے میں اگر  اسکا بس چلے تو وہ ایک ایک منٹ، ایک ایک لمحے کو اپنی آنکھوں کو کیمرہ بنا کر، اپنے دل میں محفوظ کر لیں۔ ساری دنیا میں بتاتا پھرے کہ دیکھو دیکھو اللہ تعالی نے مجھ گنہگار کو کہاں کھڑا کیا، بخشش کا ایک موقع دینے کے لیے اللہ نے مجھے یہاں بلایا، اپنا مہمان کیا، کاش میں ایک ایک لمحہ اپنی زندگی کا محفوظ کر لوں ۔میں اپنے دوستوں میں بانٹوں وہ جو ترس رہے ہیں۔ سلام کے لیئے۔حاضری کے لیئے۔ میں انہیں دکھاؤں دیکھو میرے توسط سے تم بھی اس کی دید کرو۔ اللہ تعالی سے مانگو وہ تمہیں بھی یہاں بلائے۔ ایسی جگہوں پہ پہنچنے کے بعد جب لوگ اس بات پر اعتراض کرتے ہیں کہ آپ عبادت کرنے گئے یا تصویریں لگانے کے لیئے، تو ان بدبختوں کو یہ یاد نہیں رہتا کہ یہ موقع تو اللہ تقدیر سے دیتا ہے۔ بے شمار  امیر کبیر کروڑ پتی بھی دیکھے ہیں جن کے نصیب میں یہ زیارات نہیں تھیں۔ یہ سلام نہیں تھا۔ یہ سجدہ نہیں تھا ۔وہ وہاں تک پہنچ بھی نہیں سکے۔ کئی تو ایسے تھے جو ساری دنیا گھومے لیکن اسی دربار میں پہنچنے کی دعا کرنے کی بھی توفیق حاصل نہیں کر سکے۔ ایسے میں اللہ ہم جیسے گنہگاروں کوبلا کر وہاں سجدے کرنے کی توفیق عطا فرماتا ہے، وہاں آہ و زاری کرنے کی توفیق عطا فرماتا ہے۔ گناہگار اپنے دشمنوں کو معاف کرتا ہے۔ اپنے دوستوں اور دشمنوں کے لیئے ہدایت و بخشش مانگتا ہے۔ انکے سلام لے کر جاتا ہے اور ان مناظر کو محفوظ کرنا چاہتا ہے تو کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ آپ کسی کے دل اور نیت کا ٹھیکہ مت لیجیئے، کہ کون کہاں کس کے ساتھ گیا، رہا، کسی کا محرم کے ساتھ یا بغیر جانے کی بات تو 50 سال کے بعد کوئی بھی خاتون کہیں بھی جا رہی ہے۔ اگر حکومت سعودیہ اس کے اوپر اعتراض نہیں کر رہی۔ جو اس چیز کی ذمہ دار ہے۔ اگر شریعہ کے بغیر انہوں نے فیصلہ کیا تو اس کی گنہگار سعودی حکومت ہے جو عمرے اور حج کے ویزے جاری کرتی ہے ۔ چھپ کر تو کوئی وہاں نہیں پہنچا، نہ عمرہ کرنے کے لیئے، نہ حج کرنے کے لیئے، تو وہ عورتیں جو یہاں پر حجاب نقاب اور جبوں کے ڈراموں میں اور وہ مرد حضرات یہاں داڑھیاں رکھنے کے بعد دوسروں پر تبصرے کرتے ہیں تو انہیں یہ یاد رہنا چاہیے کہ وہ اللہ کے گھر، اللہ کے حکم اور اللہ کی اجازت سے اس کے مہمان ہوئی ہیں۔ آپ ان کا فیصلہ نہیں کرو گے۔ اللہ تعالی کو اسکے فیصلوں کے لیئے نہ تو آپ سے اجازت لینی ہے اور نہ ہی آپ اسے حکم دے سکتے ہیں۔ ان لمحوں میں اچھی دعا کیجئے۔ کیا پتہ قبولیت کی گھڑی ہو اور آپ کو اللہ کے گھر کی حاضری نصیب ہو جائے۔ لوگوں کے کردار پر ،اللہ کے گھر میں جانے پر بھی جب آپ بہتان تراشتے ہیں، گندگی اچھالتے ہیں تو یہ گندگی آپ ان پر نہیں چاند پر تھوکتے ہیں جو آپ کے اپنے منہ پر گرتا ہے۔ اللہ سے اچھائی کی توفیق بھی مانگیئے اپنی زبانوں سے اپنے لیئے جہنم کے کنویں مت کھودیئے۔ 
               ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہفتہ، 15 جون، 2024

رکیئے۔۔۔ کالم

رکیئے۔۔
قربانی کرنے جا رہے ہیں
تحریر:
(ممتازملک۔پیرس)


ایک بار پھر سے اللہ تعالی نے ہمیں عید قرباں کا موقع اس کے پیارے نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کی یاد میں منانے کا موقع دیا۔ آج کے دن ان کی قربانی کی یاد میں اللہ کے حکم پر بھیڑ،  بکرا، گائے، بیل، اونٹ کوئی بھی جانور حسب توفیق حسب استطاعت اپنی مالی اور جذباتی قربانی کے طور پر اللہ کے حضور پیش کی جاتی ہے۔ بے شک یہ دنیا کا وہ تہوار ہے جہاں پر صرف اس ایک تہوار کی وجہ سے ان دو تین روز کے اندر اربوں کھربوں روپے کا نہ صرف جانوروں کا چمڑا میسر آتا ہے۔ بے شمار ایسے لوگوں کی پیٹ میں خدا کے نام کا یہ گوشت رزق بن کر پہنچتا ہے۔ جنہوں نے شاید سال بھر میں ایک ہی بار گوشت کا مزہ چکھا ہو۔ بے شمار لوگوں کو روزگار میسر آتا ہے۔ کئی لوگوں کو تو شاید ان تین دنوں کے اندر پورے سال بھر کا روزگار میسر  ا جاتا ہے۔  گوشت کاٹنے والے، بنانے والے، بیچنے والے ،جانوروں کا چارہ بیچنے والے، ان کی دیکھ بھال کرنے والے، ان کی نگرانی کرنے والے، اور پھر اس کے بعد ان کی الائشوں کو ٹھکانے لگانے والے، شہر کی صفائی کرنے والے، اس کے سوا بہت سارے کام کرنے والے لوگوں کو روزگار میسر آتا ہے،  لیکن اس قربانی کے دن یاد رکھنے کی خاص بات بہت ہی زیادہ خاص بات یہ ہے کہ ان جانوروں کو بہت پیار سے محبت کے ساتھ رکھیئے۔ کیونکہ یہاں صرف آپ نے مالی طور پر انہیں خرید کر ہی پیش نہیں کرنا اللہ کے ہاں،  بلکہ اس جانور سے وابستہ آپکے جذبات،  محبت، ہمدردی، پیار یہ سب کچھ اس کے ساتھ جائے گا اللہ کے دربار میں، تو اسے محبت سے پالیئے۔ محبت سے سہلائیئے۔ اس کے کھانے پینے کا خیال رکھیئے۔ اس کی نگرانی کیجئے۔ اور پھر اس سے بھی بڑی خاص بات یہ قربانی کے روز ان کے ذبیحہ کے روز انہیں ایک دوسرے کے سامنے مت ذبح کیجئے۔ان کے سامنے ذبح کرنے والے ہتھیار چھری ، چاقوؤں یا ٹوکے، ان کو کاٹنے والے، کبھی بھی ان کے سامنے نہ تیز کیجئے، نہ لہرائیے، ان کی انکھوں میں موت کی وحشت اور خوف مت پیدا کیجئے۔ انہیں کھلا پلا کر پرسکون انداز میں قربان گاہ کی طرف لے کر جائیں ۔ پھر انہیں گرانے کا وہ طریقہ استعمال کیجئے۔ جس سے انہیں کم سے کم تکلیف ہو۔ چھری کی دھار کو تیز تر رکھیں ۔ انہیں ذبح کرتے وقت صرف وہی رگیں کاٹیئے جو کہ اللہ تعالی نے احسن قرار دی ہیں۔ ان کو تھوڑی دیر کے لیے پھڑک کر اپنے اندر سے وہ سارا خون خارج ہونے دیجئے جو ان کے اندر رہ جانے کی صورت میں اس گوشت کے مزے کو حرام گوشت سے مختلف کرتا ہے۔ اس خون کو ان کے اندر سے خود قدرتی بھرپور طریقے سے نکلنے دیجئے۔ کھال اتارنے میں جلدی مت کیجئے اور دوسری بات جانور کا گوشت تقسیم کرتے وقت یہ یاد رکھیں ان گھروں میں گوشت بھیج کر کہ جن گھروں سے آپ کو واپس مل جائے گا اور آپ اپنے ڈیپ فریزر بھر لیں گے۔ کوئی فائدہ نہیں اس قربانی کا ۔ یہ گوشت ان لوگوں کا حق ہے ۔ جو کسی بھی مجبوری ، کسی بھی وجہ سے، عید قرباں پر اللہ کی راہ میں قربانی نہیں کر سکے۔ ان کی استطاعت نہیں تھی یا ان کے پاس اتنے ذرائع نہیں تھے۔ تو گوشت کے بدلے گوشت کی تجارت مت کیجئے۔ عید کے موقع پر جبکہ سارا سال آپ گوشت کھاتے ہیں اور پھر اللہ نے آپ کو استطاعت دی کہ آپ نے حصہ ڈالا یا الگ سے مکمل ایک پورا جانور خرید کر اللہ کے راہ میں قربان کرنے کا ارادہ کیا، تو جب اتنا خوبصورت ارادہ کر ہی لیا ہے، تو اس سے بڑھ کر خوبصورت کردار ادا کیجئے۔اللہ نے اتنی استطاعت دی ہے کہ آپ سارا سال کھا سکتے ہیں تو ایک دن کا جانور اللہ کی راہ میں مکمل تقسیم کیجیئے۔ کوشش کیجئے کہ ان دو روز کے اندر اندر جہاں تک وہ گوشت ان لوگوں کے ہاں پہنچ سکتا ہے جنہوں نے قربانی نہیں کی وہ پہنچائیئے وہاں پر۔ اپنے گھر کے ڈیپ فریزر کو اس کے علاوہ گوشت کے لیئے اس امید پر رکھیں کہ اللہ تعالی آپ کو مزید اس کی برکتوں سے نوازنے والا ہے سارا سال۔ جب یہی نیت کر لیں گے کہ یہی گوشت میں سارا سال کھاؤں گا تو پھر آپ اسی کے محتاج کر دیئے جائیں گے۔ اللہ کو آپ کی یا میری قربانی کرنے کے لیئے  کسی جانور کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ تو ایک استعارہ ہے کہ ہم اپنے مال سے اپنے اللہ کی راہ میں اس قربانی کی یاد کو تازہ کرتے رہیں جو ایک باپ اور بیٹے کی اللہ کے سامنے فرمانبرداری کی ایک اعلی ترین مثال بن گیا ۔ لہذا عید قرباں کے روز سب سے پہلی بات اپنے ذہن میں یہ رکھیں کہ لوگوں میں ہڈی، چربی اور اوجری تقسیم کرنے کے بجائے بہترین گوشت بنوائیں۔اس سارے گوشت کو مکس کر دیجئے اور پھر اسی میں سے ہر اس گھر میں جہاں قربانی نہیں ہوئی۔ اگر بہت زیادہ نہیں بھیج سکتے ، ملنے والے زیادہ ہیں، دینے والے زیادہ ہیں ، تو کم از کم ایک کلو گوشت کا پیکٹ ضرور بنا کر بھیجیئے تاکہ ان کے ایک وقت کا سالن تو تیار ہو سکے۔ ایک چھیچڑا، ایک ہڈی اور ایک بوٹی جیسا شرمناک رواج جو ہم بچپن میں بھی دیکھا کرتے تھے۔  مجھے یاد ہے اچھی طرح ہمارے گلی محلے میں بھی جب ایسا ہوتا تھا تو ہماری ماں وہ گوشت آرام سے واپس کر دیا کرتی تھی اور کہا کرتی تھی بیٹا یہ کسی اور کے گھر بھیج دینا، جہاں اس کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ہمارے ہاں قربانی ہوتی تھی تب بھی اور نہیں ہوتی تب بھی الحمدللہ بازار سے لا کر گوشت اتنا موجود ہوتا تھا کہ کھلا ڈھلا کھانا پینا بنتا تھا ۔ وہ کہتے تھے اتنی سی چیز کے لئے خود کو بدنام کرنے کی ضرورت کیا ہے۔ کیوں لیا جائے؟  اور واقعی ایسی چیز لینے کی ضرورت بھی کیا ہے جو نہ پک سکتی ہے نہ پھینکی جا سکتی ہے۔ قربانی کی چیز آپ پھینک بھی نہیں سکتے۔ لہذا ان لوگوں کو واپس کر دیا کریں کہ یہ جو اتنا تکلف کر کے یہ تین نمونے بھیجتے ہیں ۔  تو آپ بھی کسی کے گھر ایسی کوئی چیز مت بھیجیں۔ جو اگلا کھانے کے بجائے کسی جانور کو ڈال دے یا پھر پھینکنے پر مجبور ہو جائے۔ چیز وہ بھیجی ہے جو دعا کے ساتھ آپ کے نام کے ساتھ اگلا پکاتے وقت یاد کرے، کہ فلاں کے گھر سے ایک چیز آئی ہے۔ اپنے گھر کے علاوہ عادی فقیروں کو چھوڑ کر سفید پوش اور غریب لوگوں پہ توجہ دیجئے عادی فقیر تو سارا سال مانگتے رہتے ہیں۔ پاکستان کی ویسے بھی چھ کروڑ سے اوپر کی آبادی جو بیٹھ کر کھانے کی عادی ہے نہ یہ مستحقین بھی آتے ہیں نہ ان سے ہمدردی ہونی چاہئے۔ یہ ہڈ حرام جتھے ہر جگہ پہنچے ہوتے ہیں۔  اپنے ملازمین کو دیجئے، صفائی کرنے والوں کو دیجئے،  اپنے کولیگز میں دیجئیے۔جو لوگ کسی وجہ سے قربانی نہیں کر رہے ان کے گھروں میں قربانی کا گوشت ضرور پہنچنا چاہئے۔ کوئی بھی چیز بانٹتے وقت چاہے وہ کوئی تبرک ہو چاہے تحفہ یہ یاد رکھیں ان کی اصل جگہ وہی ہوتی ہے جہاں سے واپسی میں اس کے بدلے میں کچھ نہیں آتا۔ یا نہیں آ سکتا۔  اگر واپسی میں برابری کا وہی بنڈل بن کر آپ تک واپس آبجانا ہے تو نہ اس تحفے کی کوئی فضیلت رہی اور نہ ہی اس تبرک کی ۔۔۔
    عید قرباں مبارک ہو۔۔
               ۔۔۔۔۔۔۔۔

ہفتہ، 25 مئی، 2024

جنتیں گھر سے نکال دو ۔کالم

جنتیں گھر سے نکال دو
تحریر:
     ممتازملک۔پیرس 

مدر ڈے کے حوالے سے آج جب آپ اپنا میڈیا کھولتے ہیں تو آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ لوگ اپنے والدین کو، اپنی ماؤں کو باپوں کو کیسے کیسے در بدر کرنے میں ایکدوسرے سے نمبر لے جانے کی ایک ریس میں مبتلا ہیں۔ یہ وہ مائیں ہیں جو کل بچوں کی لائنیں لگانے پر اپنے 9 مہینے کا امتحان اور جسم کی ہر ہڈی کے ایکساتھ چور چور ہونے جیسے درد زہ کا غم بھول کر خوشی سے جھوما کرتی تھیں۔ یہ وہ باپ ہیں جو اپنے بازو بننے کے غرور میں مبتلا ہو جایا کرتے تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے حلال اور حرام دیکھے بنا اپنے بچے پالے۔ منہ سے نکلنے سے پہلے ان کی خواہشیں پوری کیں۔ ان کے لیئے اپنی دنیا اور آخرت بیچ دی۔ انہوں نے اپنے نام پر کوئی جائیداد نہیں رکھی۔ اپنی اولادوں کے لیئے خود کو ٹکے کوڑی کر لیا ۔ اپنے کاروبار ان کے نام کر دیئے ۔ جیتے جی اپنی جائیدادیں ان کے حوالے کر دیں۔ ان کے نام کر دیں۔ بٹوارے کر دیئے اور پھر وہ اولادیں جو اپنی منزلیں پا چکی ہوتی ہیں۔ کوئی تعلیم پوری کر چکا ہے۔ کسی کو دکانیں مل گئی ہیں۔ کسی کو مال مل گیا ہے۔ بیویاں مل گئی ہیں اور  اب انہوں نے اس بوڑھے بوڑھی کو کیا کرنا ہے؟ یہ کمزور  ، انکی چاکری اور نوکری نہیں کر سکتے، بینک بیلنس بھی تمہارا وہ چاٹ چکے ہیں، تو بابا جی اور بابی جی کو چاہیئے کہ اب آپ ہماری جان چھوڑیں۔ جنت؟
 وہ کیا ہوتی ہے ؟کس نے دیکھی ہے؟ ارے بھائی جاؤ رستہ لو اپنا، ہماری جان سے اترو۔ کہیں ہماری پرائیویسی متاثر ہوتی ہے، اور کہیں تمہیں کھانے کو بھی دیں۔ اب ہم تمہیں پہننے کو بھی دیں۔ نہیں بھئی ہم نہیں پورا کر سکتے۔۔۔
 یہ سچ ہے 10 بچے ایک والدین پال لیں گے لیکن ایک ماں یا ایک باپ کو پالنا 10 بچوں کے لیے بھاری ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ وہ ایک ماں  یا ایک باپ گنے کی طرح مشین سے کئی بار گزار کر، اس کا جوس نکال کر آپ غٹک چکے ہیں۔ اب آپ کے لیئے یہ پھوک ہے۔ لیکن آپ کو یہ یاد نہیں رہا کہ یہ اب بھی آپ کے گھر کی برکت ہے۔ دعا ہے اور جنت بھی ہیں۔ جو لوگ اپنی جنتیں اپنے گھروں سے اپنے ہاتھوں سے نکال دیتے ہیں تو یقینا وہ جہنم اپنے اوپر واجب کر ہی لیتے ہیں۔ یہ وہ بدبخت اولادیں ہیں۔ جو دنیا داری کی ساری عیاشیاں اور مواقع رکھتے ہوئے بھی، اپنے والدین کے نوالے گننے لگتے ہیں ۔ ان کے کپڑوں کی قیمتیں کرنے لگتے ہیں اور پھر ایک دن ان کے کفن پر چندہ کرنے لگتے ہیں۔ اب تو اولڈ ہاؤسز کو دعا دیں کہ وہاں آپ کو ان کی کھانے پینے سے بھی آزادی مل گئی۔ انکے کپڑے لتے کی فکر سے بھی آزادی مل گئی اور ہاں اب آپ کو ان کے کفن پر بھی چندہ نہیں کرنا پڑے گا۔ بہت ہیں لوگ چندہ دینے والے۔ جب چندہ ہی لینا ہے تو اپنے کسی خبیث سے کیوں لیا جائے۔ کسی غیر سے کیوں نہ لے لیا جائے۔ کچھ پردہ تو رہے گا۔ کچھ تو بھرم رہ جائے گا۔ لیکن وہ بیٹیاں، وہ بہوئیں، وہ بیٹے، وہ جوان زندہ لاشیں، جنہیں ابھی ان بوڑھے باپ یا ماں کی ضرورت نہیں، انہیں ابھی سے چاہیئے کہ اپنے نزدیک ترین  لاوارث سینٹروں میں اپنا نام کا اندراج کروا لیں۔ اپنے حصے کی جگہ بک کروا لیں۔ کیونکہ آپ کو بھی زیادہ دیر نہیں لگے گی یہاں پہنچنے میں۔ یقین کیجیئے۔ آپ کے بچے آپ کی کہی ہوئی باتوں سے نہیں سیکھتے بلکہ جو کچھ آپ کر رہے ہیں۔ وہ اسے دیکھ کر سیکھتے ہیں اور یہ سب آپ ہی نے سکھایا۔ اس میں کم از کم آپ کی اولاد گنہگار نہیں ہوگی۔
                   ۔۔۔۔۔۔۔

ہفتہ، 6 اپریل، 2024

ہر گلی میں مسجد کیوں ؟ کالم


        ہر گلی میں مسجد کیوں؟
         تحریر :
          (ممتازملک .پیرس)


ہمارے ہاں اکثر دیکھا گیا ہے کہ ہر دوسری گلی میں ایک مسجد بنا دی گئی ہے۔ کہیں پلاٹ پر قبضہ کرنے کے لیئے، کہیں بہن بھائی کوئی دنیا میں نہیں رہا تو اس کی زمین پہ قبضہ کرنے کے لیئے۔ مسجد کو ایک دکان کی طرح استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایک بات تو یہ کہ اسے چندے اکٹھے کرنے کا ایک ذریعہ بنا کر لوگ نوٹ چھاپ رہے ہیں اور دوسری بات جو سب سے زیادہ خوفناک ہے وہ یہ کہ ایسی بند گلیوں میں مسجدیں بنانے کی وجہ سے اس گلی کے سارے لوگ، سارے بچے، ساری خواتین، غیر محفوظ ہو جاتے ہیں ۔ ہم نے خود دیکھا ہے ایک سے ایک بڑھ کر نشئی ،تماشائی، بردہ فروش اور دو نمبر قسم کے لوگ ایسی گلیوں کے چکر صرف اس لیئے لگاتے ہیں کہ نماز پڑھنے کے نام پر مسجد کے نام پر اس طرف سے گزنے کا بہانہ موجود ہے ۔چاہے انہیں وضو کرنا  بھی نہ آتا ہو ۔  لیکن وہ ایسی گلیوں میں گزر کر وہاں کے کھیلتے بچوں کو، بچیوں کو، عورتوں کو آتے جاتے نظر میں رکھتے ہیں۔ ان کی ریکی کرتے ہیں اور پھر حسب ضرورت مجرموں کا ساتھ دیتے ہوئے ان گلیوں میں شکار ڈھونڈ لیتے ہیں۔ اکثر آپ نے دیکھا ہوگا۔ جن گلیوں میں مسجدیں ہوتی ہیں وہاں سب سے زیادہ گھروں میں چوریاں ہوتی ہیں، بچے اغوا ہوتے ہیں، عورتیں گھروں سے بھگائی جاتی ہیں یا اغوا کی جاتی ہیں۔ جب ہمارے دین کے اندر یہ بات موجود ہے کہ جتنے قدم اٹھا کر مسجد کی طرف جاؤ گے اتنا ہی ثواب ہوگا ، پھر کیا وجہ ہے کہ ہر گلی میں ایک مسجد بنانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ چاہے وہ مسجد سارا سال ویران بیابان پڑی ہو، لیکن کسی نہ کسی بہانے لوگ مسجد کا چکر لگاتے ضرور ہیں۔ نماز کے وقت چاہے صفیں خالی ہوں لیکن اس کے علاوہ مسجد کا چکر لگانے کے لیئے بہانے بہانے سے کسی بھی وقت ایک طرح سے ان کو لائسنس مل چکا ہوتا ہے کہ مسجد کا نام لے کے جب چاہیں اس گلی میں داخل ہو جائیں۔
  پہلے وقتوں میں لوگ پوچھا کرتے تھے۔ جب گلی میں کوئی نیا بندہ نظر آتا تھا تو پوچھا جاتا تھا کہ کیوں بھئی کدھر جا رہے ہو ؟ آپ کس کے گھر کے مہمان ہو ؟ لیکن اب مسجد کے بہانے ایک بڑا اچھا ویلڈ بہانہ ان کے ہاتھ میں موجود ہوتا ہے کہ پوچھو کہاں جا رہے ہو ؟ جی مسجد جا رہے ہیں ۔اچھا جی کہاں سے آ رہے ہیں؟  مسجد سے آ رہے ہیں۔ اب اس مسجد آنے اور جانے کے بہانے کے بیچ میں اگر ان سے آپ کبھی نماز سنانے کا کہہ دیں  تو یقین کیجئے ان میں اکثر لوگوں کو پوری نماز بھی نہیں آتی ہوگی۔ ان کا حلیہ دیکھیں، ان کا انداز دیکھیں لیکن وہ ایسی گلیوں میں مسجدوں کے بہانے جا کر نت نئے جرائم  سرانجام دے رہے ہوتے ہیں۔  اس لیئے کھلی جگہوں پہ مسجدیں بنائی جائیں۔  مین سڑک کے اوپر بنائیں۔ جہاں سے سی سی ٹی وی کیمرہ موجود ہوں آتے جاتے لوگ دکھائی دیں۔  کون ، کہاں، کس وقت، کب آیا اور کب گیا۔  لوگوں نے اللہ کے گھر کو، مسجدوں کو مذاق بنا لیا ہے۔ قیامت کیوں نہ آئے، قیامت کو آ ہی جانا چاہیئے۔ جو کچھ حرکتیں ہو رہی ہیں چھوٹے بچے جس طرح سے ریپ کیئے جا رہے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی بچیاں گلیوں سے اٹھائی جا رہی ہیں۔ بچے سپارہ پڑنے جاتے ہیں۔ بچے قران پاک کی تعلیم کے نام پر  جاتے ہیں کہیں پہ مولویوں کا شکار بن رہے ہیں۔ کہیں پہ وہاں پہ اپنے سے بڑے پڑھنے والے طالب علموں کا شکار بن جاتے ہیں ۔ریپ ہو جاتے ہیں۔ اور جنسی حملوں کا شکار بنتے ہیں۔ اور ذہنی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کی حفاظت کے لیے بے حد ضروری ہے کہ ان تمام  مساجد کو بند کیا جائے۔ ان کو لائبریری میں تبدیل کر دیا جائے یا پھر کوئی  نرسری اور پرائمری سکول بنا دیا جائے۔ لیکن وہاں سے ان مسجدوں کو بند کیا جائے ۔ اگر کوئی یہ کہے کہ یہ بے حرمتی ہے مسجد کیوں بند کی جائے تو یاد رکھیئے مسجد کی ایک مثال ہمارے پاس مسجد ضرار کی صورت میں موجود ہے جہاں جب فتنہ اور فساد کی صورتحال پیدا ہوئی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس مسجد کو گرانے کا حکم اللہ کے حکم سے دے دیا ۔ یعنی یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ آنے والے وقت میں اگر مسجدوں کو کسی غلط کام کے لیئے استعمال کیا جائے تو اسے گرانے یا بند کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ تو برائے مہربانی اسے اپنی مونچھ کا بال بنانے کے بجائے لوگوں کی حفاظت یقینی بنائیں۔ گلیوں محلوں سے مسجدوں کو بند کیجیئے اور اسے بڑی سڑکوں پر اور مین مقامات پر لے کر آئیں اور جس علاقے میں جتنے نمازی ہوں وہاں پر ایک تعداد کو مختص کرنے کے بعد اگر وہاں دوسری مسجد کی ضرورت ہو تو تب مسجد بنانے کی اجازت دی جائے ورنہ اسی پچھلی مسجد پر ہی اکتفا کیا جائے تمام صاحب اختیار لوگوں سے گزارش ہے کہ اس معاملے پہ غور فرمائیں کیونکہ ہمارے ہاں ہر بات کو چھوٹی سی بات سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے یا اس پہ مذہب کا تڑکا لگا کر اسے لوگوں کو پروسنے کی کوشش کی جاتی ہے، اور یوں آج ہمارا پورا ملک جرائم کا اڈہ بن چکا ہے ۔ خدا کے لیئے ان باتوں پر غور کیجیئے۔
                    ------

جمعرات، 4 اپریل، 2024

جسم پردہ ۔کالم

بے راہ رو معاشرہ
تحریر:
     (ممتازملک.پیرس)


ہم عمومی طور پر جنسی بے راہ رو معاشرے کا حصہ ہیں۔ یہاں پر عورت کو بچپن ہی سے اپنی حفاظت کے لیے خود کو ایک لبادے میں رکھنا ضروری ہے ۔ وہ نام نہاد آزادی پسند عورتیں جو موم بتیاں اور بینر لے کر خاص خاص مواقعوں پر بھاشن دینے کے لئے ،غیر ملکی پیسوں کے زور پر آوارگی کے  جھنڈے لے کر نکلتی ہیں ۔ ان کا نہ کسی دین سے تعلق ہے ، نہ معاشرت سے۔ وہ پیسے کے لیئے اپنی ہر قیمت لگوانے کو تیار رہتی ہیں۔ لیکن اس معاشرے کی عام عورت کو اپنے آپ کو محفوظ کرنا ہے تو اسے اپنے مذہبی اور معاشرتی دائرے میں واپس آنا ہوگا۔ ایک لبادہ، ایک جبہ، چاہے وہ برقعہ ہو، چاہے وہ چادر ہو، اسے اپنے اوپر اوڑھ کر باہر نکلنا ہوگا۔ تاکہ وہ ان بے راہ روی کا شکار جنسی ہیجان میں مبتلا ذہنی طور پر عیاش مردوں کے معاشرے میں خود کو کوئی اشتہار، کوئی سویٹ ڈش، بنا کر ان کے سامنے نہ پروسے۔ ان کے اندر کا شیطان آپ کی باتوں میں یہ کہنے سے کہ "پردہ تو دل کا ہوتا ہے " کیا خدا کو چیلنج نہیں کرتا۔ آپ کا دل کوئی نہیں دیکھتا۔ لیکن آپ کا جسم سب کی نظروں میں شکار بنتا ہے۔ روز روز کے حادثات، روز روز کے واقعات، جنسی حملوں کی آئے دن کی وحشت ناک خبروں کے باوجود، اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ پردہ بس دل کا ہی کر لینا ہے اور اللہ تعالی کے احکامات کا مذاق اڑا کر آپ محفوظ رہیں گے تو معذرت کے ساتھ ، نہ ہمارے ملک کے لوگ ابھی اس قابل ہیں اور نہ ہمارے ہاں کے مرد یورپ کے ان مردوں کی مسابقت کر سکتے ہیں۔ جو بے لباس عورت کو بھی جاتے دیکھ کر کبھی اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ ہمارے مردوں کو ان تک پہنچنے کے لیے ابھی کئی صدیاں لگیں گی۔ لہذا اتنے عرصے تک عورت اپنے آپ کو نہ ان کے لیئے مارکیٹ کرے گی اور نہ ہی گاجر مولی بنا کر پیش کرے گی۔ اپنی حفاظت آپ کو اللہ کے بتائے ہوئے حدود کے اندر رہ کے ہی کرنی ہوگی اور اللہ کے احکامات کے لیئے آپ کو اللہ سے مقابلہ کرنے کی ضرورت نہیں یہ حفاظت انکساری اور عاجزی کے ساتھ حکم کو مان لینے میں ہے۔
سو بھڑوں کے جس چھتے میں ہماری عورت رہتی ہے۔ اسے ان کے ڈنگ سے بچنے کا انتظام ان بھڑوں کی آنکھوں پر پٹی باندھنے کے غیر فطری اور غیر حقیقی مطالبات کرنے کے بجائے خود کو باحیا لباس میں اور ایک جبے یا عبایا کے حصار میں لانا ہو گا۔ 
اور کسی عبایا یا برقعے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ آپ کے جسم کے خد و خال کو پوشیدہ رکھے اور اپ کو نمایاں نہ ہونے دے جبکہ آج کل جس قسم کے عبایا اور برقعوں کے نام پر جو کچھ خواتین پہن رہی ہیں وہ بھی برقعے اور عبایا کے نام پر ایک تہمت بنا دی گئی ہے ۔ اتنا کام اس قدر ذری اور اس قدر اس کے اوپر کڑھائی اور کشیدہ کاری کی جاتی ہے کہ اگر کسی نے نہیں بھی دیکھنا تو وہ جاتے جاتے مڑ مڑ کر اسے ضرور دیکھے گا۔ جیسے کوئی عبایا نہ ہوا دلہن کا کوئی لباس ہو گیا۔ جو ہر کسی کو دیکھنا لازم ہے۔ اور وہ دیکھنا چاہے گا ۔ برائے مہربانی عبایا یا برقعہ کا مقصد اپنے آپ کو غیر نمایاں کرنا ہوتا ہے۔ نمایاں نہیں کرنا ۔ تو ڈھیلا ڈھالا ایک سادہ سا موسم کے حساب سے ملبوس اپنے کپڑوں کے اوپر اوڑ لیا جائے اور چادر سے بہتر اس لیئے ہوگا یہ کہ آپ کا ہاتھ اپنا کچھ سامان بیگ وغیرہ اٹھانے کے لیے خالی رہے گا اور آپ کو اسے چادر کی طرح زیادہ سنبھالنے کی زحمت بھی نہیں اٹھانی پڑے گی۔
آپ کا جسم اللہ کی جانب سے دی گئی امانت ہے اور اس امانت کی حفاظت آپ کا فرض ہے ۔ اور آپ اسکے لیئے پروردگار کو جوابدہ بھی ہیں۔ 
                   ۔۔۔۔۔۔

پیر، 1 اپریل، 2024

دعا سے پہلے ۔ کالم


ذرا ٹھہریئے 
دعا🤲 سے پہلے 
غور کیجیئے
تحریر ۔
(ممتازملک۔پیرس)

بطور ایک کم علم مسلمان کے میری درخواست ہے کہ کسی بھی مسلمان کی مغفرت کی دعا🤲 ضرور کریں لیکن اس کے درجات کی بلندی کی دعا کبھی مت کریں۔
 کیونکہ ہم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ کون اللہ تعالی کے ساتھ کن معاملات میں کس درجے پر ہے۔
 اگر تو وہ اچھے درجے پر ہے ۔ پھر تو اسے انعام اور ثواب اور زیادہ ملے گا ۔
لیکن اگر خدانخواستہ وہ کسی گناہ میں کسی پکڑ میں ہے تو اس دعا کے بدلے کے اسکے اس درجے کے عذاب کی شدت میں بھی اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ 
اس لیے برائے مہربانی صرف مغفرت کی دعا کیا کیجئے۔ کیونکہ نہ ہم کسی کی نیتیں جانتے ہیں۔ نہ کسی کے مکمل اعمال۔ تو ہماری کسی دعا کی وجہ سے کوئی آدمی کسی پکڑ میں نہ آ جائے۔ اللہ پاک سے اس مرحوم یا مرحومہ پر رحم و کرم کی ہی پرزور دعا کی جانی چاہیئے ۔
درجات کی بلندی کی دعا صرف اور صرف پیغمبروں اور انبیاء کرام کے لیئے ہی ہوتی ہے کیونکہ صرف وہی اللہ کی جانب سے گناہوں سے پاک قرار دیئے گئے ہیں ۔ 
 بہت شکریہ۔
            ---

جمعرات، 21 مارچ، 2024

ویران حویلیوں میں بستے بھوت۔ کالم

  

   ویران حویلیوں میں بستے    بھوت
 تحریر :  (ممتازملک۔ پیرس)


ہمارے ملک کے  بہت سے گاؤں اور چھوٹے چھوٹے علاقے جہاں سے آئے ہوئے لوگ یورپ اور امریکہ میں دن رات محنت اور مشقت کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ جو آج بھی یہاں چھوٹے چھوٹے گھروں میں دو دو تین تین کمرے کے اکثر سرکاری فلیٹوں  میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اپنے بیوی بچوں کو انہوں نے وہ لائف سٹائل نہیں دیا جو انہیں پسند ہے۔ لیکن جن علاقوں سے یہ آئے ہیں۔ وہاں پر بڑی بڑی شاندار حویلیاں اور نت نئے ڈیزائن کی کوٹھیاں بنا کر اپنے بچپن کے احساس کمتری اور احساس محرومی کو دبانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس سفر میں انہوں نے اپنی زندگی کے 40 سال 50 سال گنوا دیئے۔ اپنی زندگی بھر کی ساری کمائیاں پیچھے بڑے بڑے گھر بنانے میں لگا دیں۔ وہ گھر جو ویران حویلیوں کا منظر پیش کرتے ہیں۔ جہاں کوئی نہیں رہتا۔ جہاں صرف ان کے بچپن کے ادھورے خواب اور ناآسودہ خواہشیں دفن ہیں، لیکن وہاں دوسروں کو دکھانے کے لیئے انہیں ہر بننے والے گھر سے بڑا گھر چاہیئے۔ ہر پڑوسی سے بڑی گاڑی چاہیئے، لیکن کس کے لیئے؟ ان گھروں میں آباد بھوتوں کے لیئے. انہیں کون بتائے کہ گھر دیواروں سے نہیں بنتے، گھر گھر کے لوگوں سے بنتے ہیں۔ کتنی بدنصیبی کی بات ہے جہاں آپ کے گھر کے افراد اور لوگ رہ رہے ہیں۔ وہاں آپ نے سہولتوں کا فقدان کر رکھا ہے۔ ان کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے ۔ انہیں ترس ترس کے جینے پہ مجبور کر رہے ہیں اور جہاں کوئی رہنے والا نہیں، وہاں بھوتوں کے لیئے بڑے بڑے بنگلے بنا کر دیئے۔ آپ میں  ایسے لوگ، جو اس قسم کے خلجان میں مبتلا ہیں، انہیں پہلی فرصت میں ضرور کسی اچھے ذہنی نفسیاتی معالج سے رجوع کرنا چاہیئے، کیونکہ یہ کوئی نارمل بات نہیں ہے۔ دنیا کا کوئی بھی آدمی جہاں رہتا نہیں، وہاں پر اتنے بڑے بڑے بے مقصد گھروں پر اپنی ساری زندگی کی اپنی 18، 18 گھنٹے کی کمائیاں، یہاں تک کہ اپنی پینشنیں بھی لگا رہا ہو، جبکہ جہاں اس کے بچے آباد ہوں، جہاں اس کا اپنا مستقل ٹھکانہ ہو، جہاں اس نے سال کے 11 مہینے رہنا ہو، وہاں پر وہ مفلوک الحال لوگوں جیسی زندگی گزار رہا ہو اور اگر  مفلوک الحال سے ایک قدم اوپر اٹھ جائیں تو بمشکل ایک لوئر مڈل کلاس کی زندگی گزارتا ہے۔ ضروری یہ ہے کہ ان لوگوں کو احساس دلایا جائے۔ ان کی وہ ذہنی کمیاں ، کوتاہیاں دور کرنے میں ان کی مدد کی جائے اور انہیں یہ بات سمجھنے کے لیئے تیار کیا جائے، راغب کیا جائے کہ انسان جہاں رہتا ہے اسے وہیں پر اپنی آمدنی، اپنے اخراجات اور اپنے لائف سٹائل کو مدنظر رکھنا چاہیئے۔ اپنی زندگی کو آسان بنانے پر اپنی کمائی کو خرچ کرنا چاہیئے۔ اس کمائی کا کیا فائدہ جو آپ کے اپنے گھر والوں، اپنے بیوی بچوں کے کام نہ آ سکی، اور ساری زندگی کے لیئے آپ نے اپنی کمائی ویران حویلیوں کے نام پر ایک خاموش قبرستان میں جھونک دی۔ آج آپ کے مرنے کے بعد آپ کا کوئی بچہ یورپ امریکہ سے اٹھ کر ان ویران حویلیوں کو آباد کرنے نہیں جائے گا اور آپ کی ساری عمر کی کمائی 50 سال 60 سال 70 سال کی کمائی اس دلدل میں ڈوب گئی۔ آپ نے کہیں کسی سے دعا نہیں لی۔ ان ویران حویلیوں کے بجائے یا تو وہاں کوئی ہسپتال بناتے، بوڑھوں کے لیئے کوئی سینٹر بنا دیتے , کوئی یتیم خانہ بنا دیتے, کوئی سکول بنا دیتے, کوئی ڈسپنسری بنا دیتے, کوئی ہنر سکھانے کا ادارہ بناتے تو شاید کوئی صدقہ جاریہ اور دعا کی جگہ آپ کے مرنے کے بعد بھی رہتی ہے اور دنیا میں بھی آپ کو یاد رکھا جاتا، لیکن اتنے بڑے بڑے گھر اور حویلیاں بنانے کے بعد آپ کو اس دنیا سے جانے کے بعد کون یاد کرے گا۔ ہمارے معاشرے کے گھٹیا دستور کے مطابق آپ وہاں پکارے تو اسی نام سے جائیں گے کہ دیکھا بھئی موچیوں کے منڈے نے بھی کوٹھیاں بنا لی ہیں ۔ سنا تم نے نائیوں کا بیٹا بھی بنگلہ بنا رہا ہے ۔ دھوبیوں نے بھی حویلی خرید لی ہے ۔ ۔۔۔
جبکہ دراصل بھوت پریت جنات  کے بسیرے کے لیئے تو آپ نے ٹھکانے بنائے اسکے بجائے آپ زندہ انسانوں کے بسیرے یا مفاد کے لیئے ٹھکانے بناتے تو وہ انسان آپ کو یاد بھی رکھتے۔
 حقیقت میں یہاں آپ کی وفات کے بعد آپ کے بچے یا ان کے بچے آپ کے جنازوں کے ساتھ اس لیئے نہیں جاتے کہ آپ کے جنازے کو مٹی دینا ضروری ہے۔ بلکہ اس لیئے جاتے ہیں کہ وہاں جلدی سے جلدی اسی گرما گرمی میں ان ساری زمینوں، حویلیوں، دکانوں کا ریٹ لگا کر فوراً سے پہلے انہیں بیچ کر ان پریشانیوں سے بچا جا سکے جو وہاں ان زمینوں، جائیدادوں اور گھروں کو چھوڑنے کی صورت میں قبضوں اور پھر قانونی کاروائیوں کی صورت میں نئے جھمیلے تیار کئے جا سکتے ہیں ۔ کیونکہ وہ لوگ یہاں آ کر اتنی لمبی قانونی لڑائیوں میں پڑ کر مزید اپنی زندگیاں کمائیاں تباہ نہیں کر سکتے اور یہاں رہنے کے حالات ان کے لیئے ویسے ہی موزوں نہیں ہوتے۔ اس لیئے وہ انہیں اونے پونے بیچ کر بھی نکلنا مناسب سمجھتے ہیں۔
 اپنے سوچنے کا نظریہ بدلیئے اور اپنے آپ کو قیامت تک کے لیئے دنیا میں آیا ہوا مت سمجھیں۔ اپنی زندگی کو اس غم میں غرق نہ کریں کہ فلاں جگہ میرے خواب ادھورے رہ گئے اور میں وہاں مکمل کرنے کے لیئے جاؤں گا اور اگلے 20 سال میں یہ کروں گا اور اگلے 40 سال میں یہ کروں گا۔ زندگی کی اگلی گھڑی کا کوئی اعتبار نہیں۔ زندگی وہی ہے جو آج آپ گزار رہے ہیں۔ آنے والے لمحے میں کیا ہے ؟ کوئی نہیں جانتا اور جو کل گزر چکا ہے۔ وہ ہمارے بس میں نہیں تھا۔ نہ ہم اسے واپس لا سکتے ہیں۔ نہ ہم اس میں جا کر اسے بدل سکتے ہیں۔ تو پھر بے وقوفوں کی طرح سانپ گزر جانے کے بعد اس لکیر کو پیٹنے کا کیا فائدہ۔ ماضی وہ سانپ ہے جو گزر چکا ہے۔ ہماری زندگیوں پر اپنے نشان چھوڑ کر۔ اسے جانے دیجیئے۔ اگے بڑھئیے۔ زندگی آج میں جی کر آنے والے وقت کے لیئے کچھ ایسا کر کے جائیئے۔ جو آپ کو آج بھی اور آنے والے وقت میں بھی اچھے ناموں کے ساتھ یاد رکھا جائے۔ 
نائی، موچی، دھوبی کے بنگلے دیکھ کر انکی تضحیک اور تمسخر اڑانے والے ان کے بنائے سکول، ہسپتال، کارخانے اور فلاحی ادارے دیکھ کر عقیدت سے نظریں جھکانے پر مجبور ہو جائیں اور انہیں سلام پیش کریں کہ جو کام وہاں کے مقامی مخیر حضرات سارے وسائل ہونے کے باوجود نہ کر سکے ان چھوٹے گھروں کے مفلس لوگ پردیس کاٹ کر ، اپنی حق حلال کی کمائیوں سے وہاں کر گئے۔ تاریخ میں مشہوری تو تاج محل بنانے والے کو بھی ملی، لیکن عزت کنگ ایڈورڈ اور کملا دیوی جیسے ہسپتال بنانے لوگ والے لوگوں نے ہی پائی۔ تو اپنی زندگی کے مقاصد میں مشہور ہونے سے زیادہ عزت کمانے کو ترجیح دیجیئے اور عزت ان کاموں سے ملتی ہے، جس سے معاشروں میں لوگوں کو آسانیاں اور روزگار میسر ہو سکیں ۔
                   -------

        
          

جمعرات، 7 مارچ، 2024

26سال۔ کالم



26 سال۔۔۔۔ 
دھواں نہیں اجالا
تحریر:
     (ممتازملک ۔پیرس)


26 سال کا ایک طویل عرصہ آج مجھے فرانس میں رہتے ہو گیا ہے۔ آج کے دن 7 مارچ 1998ء بروز ہفتہ پی آئی اے کی فلائٹ سے جب اپنے گھر سے چلی تھی تو میری ماں تھی ، بھائیوں سے بھرا ہوا گھر تھا ۔ خوشیاں تھیں۔   بہت سی امیدیں تھیں اور پھر ایک سال میں ہی ماں کے دنیا سے جانے کی خبر سنی۔ دیکھ نہیں سکی۔ پھر اپنے بھائیوں کے گھر بستے دیکھے۔ کسی میں جا سکے، کسی میں نہیں ۔ ڈولیاں اترتی نہیں دیکھ سکے۔ ان 26 سالوں  میں فرانس میں فرانک سے یورو تک سفر کیا ۔تنخواہ سے اپنی کمائی تک اور پھر اپنی کمائی سے تنخواہ تک۔ ایک یورو کی چیز کو تین یورو تک ہوتے دیکھا۔
اداروں کو بنتے ہوئے دیکھا۔ بگڑتے ہوئے دیکھا۔ کئی جنگوں کے احوال سے اس ملک کو متاثر ہوتے دیکھا۔ عالمی جنگ کے خطرات کو محسوس کیا۔ کئی سال سے "زیلے جون" نامی تنظیم کا مہنگائی کے خلاف رونا دیکھا۔ کئی وزارتیں بدلتے ہوئے دیکھیں۔
 یہاں پر ایک نسل کو جوان ہوتے دیکھا۔ والدین اور اس کی نئی نسل کے تضادات کو دیکھا۔
انکے خیالات کو  بدلتے دیکھا۔ میں نے لچکدار لوگوں کو بے حد کرخت ہوتے دیکھا اور بے لچک لوگوں کو نرم خو ہوتے دیکھا۔ ایک چوتھائی صدی گزارنے کے بعد آپ اس قابل ہو جاتے ہیں کہ جب آپ لوگوں کے درمیان تقابلے جائزہ لے سکیں ۔ جب آپ عوامی طور پر زندگی گزارتے ہوئے اور اسے پاکستان سے جوڑ کر دیکھیں تو وہاں کے حالات کے اثرات یہاں پر اپنی کمیونٹی پر دیکھیں۔ پاکستان میں ہونے والے وہاں کی مہنگائیوں، وہاں کے ہنگاموں، وہاں والی دہشت گردیوں، وہاں کی سیاست کو لوگوں پر اثر انداز ہوتے ہوئے دیکھا۔ انہیں پاکستان کے غم میں تڑپتے ہوئے دیکھا۔ کئی لوگوں کو جہان سے گزرتے ہوئے دیکھا۔ ڈاکٹر کی یہ صلاح سنی کہ اپنے ملک سے رابطہ توڑو گے تو سکون میں رہو گے۔ جہاں رہتے ہو وہاں جیو۔
 لیکن
 دل ہے کہ مانتا نہیں۔۔۔
 اسے ہر وقت  ہی اس ملک کی خبریں چاہئیں۔ کیوں چاہیں؟ یہ خود بھی نہیں جانتا۔ اس ملک میں ہم نے جوانی سے بڑہاپے تک کا سفر طے کیا۔ تو گود کے بچوں نے گود سے جوانی تک کا سفر طے کیا۔ انگلی پکڑ کر چلنے والے اب ہمیں رستہ دکھا رہے ہیں ، سمجھا رہے ہیں کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ۔ ایسا کرو اور ایسا مت کرو۔ اس میں انہیں برا نہیں کہا جا سکتا۔ اس میں ان کی ہم سے محبت جھلکتی ہے۔ جیسے ناہنجار اولادیں ہوتی ہیں یقین کیجئیے والدین بھی ناہنجار ہوتے دیکھے ہیں۔ جو اچھے لفظوں کو بھی برے پیرائے میں بیان کرتے ہیں ۔
 جو ہماری اولادوں کی ہمارے لیئے  فکر کو ان کی نافرمانی میں شمار کر دیتے ہیں۔ اسے ان کی گستاخیوں کی لسٹ میں ڈال دیتے ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں۔  وہ ہمارا خیال رکھتے ہیں ۔ ہم کہاں گئے، کیا کھایا، کیا پیا ،سوئے کہ نہیں، کچھ چاہیئے کہ نہیں۔ کیا یہ سب کچھ ہم نہیں پوچھتے تھے اپنے بچوں سے؟ ایک عمر کے بعد پھر جگہ بدل جاتی ہے۔ اولاد والدین کی جگہ اور والدین اولاد کی جگہ پر آ جاتے ہیں. اگر کل آپ ان سے محبت کرتے تھے. تو آج ان کی محبت پر شک مت کیجیئے۔ آج کے زمانے ، آج کے وقت، آج کی ضرورت کے حساب سے ہمیں خود کو ڈھال لینا چاہیئے۔ ہم کل اپنے بچوں کو آسانیاں دیتے تھے تو آج بھی اپنے دل پر درد بنانے کے بجائے بچوں کے مسائل ان کی مجبوریوں کو سمجھ کر ان کے ساتھ جینے کی کوشش کریں ۔ ہر قدم پر، ہر خاندان میں، ہر رشتے میں ،کچھ نہ کچھ کھٹاس مٹھاس وقت کے ساتھ چلتی رہتی ہے۔ کہیں رشتے ٹوٹتے دیکھے۔ کہیں رشتے جڑتے دیکھے ۔کہیں بنتے دیکھے۔ کہیں بگڑتے دیکھے۔ خود اپنی زندگی میں بہت سا اتھل پتھل دیکھا۔ رشتوں کو رنگ بدلتے ہوئے دیکھا۔ رشتوں کو آپ کا حق مارتے ہوئے دیکھا۔ خون کو سفید ہوتے ہوئے دیکھا ۔خون کے آنسو بہتے ہوئے دیکھے۔ خون تھوکتے ہوئے دیکھا۔ لفاظی میں نہیں حقیقت میں۔ بڑے بڑے زور آور ٹوٹتے ہوئے دیکھے، اور بڑے بڑے کمزوروں کو زور پکڑتے ہوئے دیکھا ۔ یہی دنیا ہے یہی اللہ کا قانون ہے۔ ہر صبح کے بعد شام اور ہر شام کے بعد ایک نیا سویرا طلوع ہوتا ہے۔ الحمدللہ زندگی نے بہت کچھ دیا۔ بہت کچھ سکھایا ۔ بہت سے پردے نظروں سے ہٹائے اور کئیوں کے عیبوں پر پردہ ڈالنے کی ہمت اور توفیق بھی عطا کی۔ اللہ سے یہ توفیق مانگتے رہنا چاہیے کہ کوئی اچھا کام کریں تو اسے بھول جائیں اور کوئی غلطی ہو جائے تو اپنی اس غلطی کو یاد رکھیں اور اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کریں ۔ بہت بہت شکریہ فرانس۔ اس  زندگی میں، اس ملک میں ہمیں عزت ملی، تحفظ ملا، روزگار ملا، وقار ملا، عزت سے سر اٹھا کر جینے کا موقع ملا، اچھے دوست ملے ، جینے کا ایک نیا انداز ملا ، دنیا کو دیکھنے کی نئی نظر ملی،  آگے بڑھنے کے مواقع ملے ، اچھے استاد ملے، اچھے شاگرد بھی ملے، خود بھی شاگرد کی زندگی جینے کا موقع ملا ، بہت کچھ وابستہ ہے ان سالوں کیساتھ۔ انسان کہیں بھی رہے وہاں یہ سب حالات زندگی میں پیش آتے ہیں۔ لیکن ایک پاکستانی لڑکی اس زبان سے بھی نابلد اجنبی  دیس میں جو کبھی اپنی گلی سے باہر نہ نکلی ہو ، محلے سے باہر کی دنیا نہ دیکھی ہو، اس کے لیئے شہر سے باہر بیاہ کر جانا اور پھر ملک سے باہر سات سمندر پار کا یہ سفر بالکل ایسا ہی تھا جیسے اڑن قالین پر کوئی ایک دنیا سے دوسری دنیا کا سفر کر لے۔ آج بھی یاد ہے ایک سال بھر کی بچی کو گود میں لیئے پیرس کے چارلس ڈیگال ایئرپورٹ پر جب میں اتری تب مجھے احساس ہوا کہ میں کتنی دور آ چکی ہوں۔ کہ میری ماں اتنی شدت سے اس بچی سے لپٹ کر، مجھ سے لپٹ کر کیوں روئی تھی؟ کیونکہ وہ ہماری آخری ملاقات تھی۔ اس کے بعد سال بھر میں ماں بھی نہ رہی۔ اور آج تک میں یہ سوچتی ہوں کہ وہ ایک سال یا میں نہ آتی تو شاید ماں زندہ رہتی یا شاید وہ چلی جاتی تو میں پھر آتی اسے رخصت کر کے دل کو یقین تو ہوتا کہ واقعی وہ چلی گئی ہے۔ لیکن کہتے ہیں نا اللہ کے ہر کام میں کوئی بھی حکمت وہی جانتا ہے۔ یہاں ہم نے آ کر اولادیں پیدا بھی کی اور کسی اولاد کو اپنے ہاتھوں مٹی بھی دی ۔ اپنی گودوں میں بھی کھلایا ۔ ہر درد، ہر خوشی آپکی زندگی میں آتی ہی ہے لیکن اس کے ساتھ وہ جو ہم نے جیا ۔ شاید وہ اپنے ملک میں کوئی نہیں جیتا۔ وہ تھا تنہائی کا عذاب جو ہمیشہ وابستہ رہا۔ یہ درد اپنی ذات سے کبھی جدا نہیں ہو سکا۔ جب آپ کے پاس کوئی ایسا بھی نہ ہو جس کے سینے سے لپٹ کر ، کندھے پر سر رکھ کر آپ رو سکیں ۔ جس کے ساتھ آپ بیٹھ کر دل کی بات کر سکیں۔ ہنس سکیں۔ دل کھول کر رکھ سکیں۔ یہ کمی ہمیشہ رہے گی اور یہ کمی ہر پردیسی کے حصے میں آتی ہے ۔ ساری خوشیوں پر یہ کمی حاوی ہو جاتی ہے۔ بس اسی درد کا نام پردیس ہے۔ ورنہ کیا نہیں ہے یہاں۔ سب کچھ تو ہے۔ الحمدللہ شکریہ فرانس۔ شکریہ زندگی اور شکریہ میرے ہمسفر اختر شیخ صاحب۔ جن کی سنگت میں جس کی ہمت افزائی، مجھ پر کیئے بھروسے،  حوصلے اور مجھے دی ہوئی میری انسانی آزادی نے مجھے کچھ کرنے کا حوصلہ دیا ۔ اپنے بیگانوں کس کس نے اسے  کیسے کیسے نہ ورغلایا کہ اسے چھوٹ مت دے ، یہ تیرے ہاتھ سے نکل جائے گی۔ بھاگ جائے گی ۔ یہ کر لے گی۔ وہ کر لے گی ۔ مگر شاباش ہے اختر شیخ صاحب کی استقامت کو  جن کی وجہ سے میں اپنے قدموں پر کھڑی ہو سکی۔ ورنہ میں بھی صرف چولہے اور چوکے میں اپنا آپ جھونک کر یہاں اس کمیونٹی کی ہزاروں ڈگریوں کی دعویدار عورتوں کی طرح صرف دھواں ہو چکی ہوتی۔ لیکن اس نے مجھے دھواں نہیں ہونے دیا۔ اس نے مجھے روشنی بننے کا موقع دیا۔ میں جہاں جاؤں اجالے کی طرح پھیل جاؤں۔ اس  عنایت کا کریڈٹ واقعی میرے شوہر کو جاتا ہے۔ ہر وہ عورت جو میدان میں کچھ کر رہی ہے اور اس کا شوہر اس کے ساتھ کھڑا ہے اور وہ اچھے راستوں پر گامزن ہے۔ اس کی شاباش اس کی شوہر کو بنتی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح کسی کامیاب مرد کے لیئے اس کی بیوی کا ساتھ ہمت حوصلہ اسے شاباشی کا مستحق بناتا ہے۔  میں نے اپنے گھر کی ہر ذمہ داری کو بخوشی نبھایا ۔ میرا شوہر میرے گھر اور اپنے بچوں کی طرف سے جبھی بے فکر رہ سکا ۔ اس کے بچے صاف ستھرے، تمیزدار پڑھائی پر توجہ دینے والے ہوں ۔ وہ گھر آئے تو میرا گھر کسی ملازمہ کے بغیر صاف ستھرا ، دھلے دھلوائے کپڑے، گرم کھانا تیار انکے آگے پیش کیا۔  میں نے میرا گھر ہمیشہ میرے شوہر کی کمائی سے ہی چلایا۔  اس نے مجھے جتنی چادر دی۔ میں نے اسی میں خود کو پورا کر لیا ۔ وہ ہڈ حرام،  نکما ، ویلیاں کھانے والا نہیں تھا ، اور میں فیشن پرست ، مارک کی ماری، پھوہڑ ، فضول خرچ اور ناشکری نہیں تھی ۔ اس لیئے زندگی میں پیسے کی وجہ سے تماشے کم ہی ہوئے۔ کئی ملکوں کی سیر کی ۔ اللہ کا گھر دیکھا ۔ پاکستان میں مہینوں بھی رہنا چاہا تو الف سے لیکر ے تک کا خرچ میری جیب میں اس نے اپنی کی کمائی کا دیکر بھیجا ۔ مجھے میرے یا اپنے رشتےداروں کا دست نگر نہیں ہونے دیا۔ کہیں میری کسی ضرورت کے لیئے مجھے ترسنے نہیں دیا۔ اور میں نے بھی کبھی اپنے آپ کو ضرورت سے نکل کر خواہش کے گٹر میں گرنے نہیں دیا ۔ کیونکہ جو ایک بار خواہشات کے گٹر میں گر گیا اسے دوبارہ سے اس سے پاک کرنے کے لیئے سمندروں کا پانی بھی کم پڑ جاتا ہے ۔
زندگی کی تمام کامیابیاں مجھے اسی کے حوصلے ہمت کے طفیل زندگی نے عطا کیں ۔ زندگی آسان ہے اگر آپ اسے سادگی اور کسی مقابلے کے بغیر گزارنا سیکھ لیں ۔ لیکن زندگی بہت مشکل ہے جب ہر وقت آپ کو خواہشوں کے گھوڑے پر سرپٹ بھاگتے رہنا ہے ۔ کیونکہ بھاگتے ہوئے آپ راستے کی دلکشی کا لطف کبھی نہیں لے سکتے۔ اس کے لیئے تو آپ کو دھیما چلنا پڑتا ہے ۔ کہیں رکنا بھی پڑتا ہے ۔ 
                               الحمدللہ
                   ۔۔۔۔۔۔




پیر، 4 مارچ، 2024

اتے پتے بچپن کے۔ کالم


اتے پتے بچپن کے
تحریر:
     (ممتازملک ۔پیرس)

بچپن کے دوست بے حد قیمتی ہوتے ہیں۔ کئی بار والدین کو کسی مجبوری سے ،چاہتے نہ چاہتے اپنا گھر بدلنا پڑتا ہے۔ اپنا شہر بدلنا پڑتا ہے۔ اپنے علاقوں سے دور ہونا پڑتا ہے۔ یا اپنے بچوں کے اسکولز بدلنے پڑتے ہیں ۔  وہ بڑے ہوتے ہیں انہیں شاید یہ بات اتنا دکھ نہ دیتی ہو۔ ان کی زندگیوں میں آنے والی تبدیلیاں شاید اتنی غیر متوقع نہ ہوں، لیکن یاد رکھیں آپ کے ساتھ آپ کے چھوٹے بہن بھائی یا آپ کے بچے جو ابھی ان تبدیلیوں کے اثرات کو ایک دم سے نہ سمجھ سکتے ہیں، نہ قبول کر سکتے ہیں۔ ان کے لیے کسی جھٹکے سے کم نہیں ہوتے ۔کبھی بھی ان کو اچانک حیرت میں ڈالتے ہوئے ان کا سکول بدلنے اور علاقہ بدلنے کا ایسا جھٹکا مت دیجئے کیونکہ اس کے اثرات ساری زندگی ان پر حاوی رہتے ہیں۔ بچپن کے دوست زندگی کا سب سے قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں ۔بچپن کی یادیں ہمیشہ دلوں پر نقش ہو جاتی ہیں۔ وہ اچھی ہوں یا بری ۔ اگر کہیں کوئی بری یاد بھی وابستہ ہو تب بھی اپنے سکول کے دوست ، خاص طور پر آپ کی زندگی کا سرمایہ ہوتے ہیں انہیں ایک دم سے ان سے چھیننے کی کوشش مت کیجئے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ہمارے ہاں کسی کا سکول بدل جانا یا شہر دور ہونے کے بعد اپنے دوستوں سے رابطہ رکھنے کے لیے ان کو اپنے نئے گھر کے پتہ دینا یا فون نمبر دینا یا کوئی اور رابطہ ان کو دینا والدین ضروری ہی نہیں سمجھتے کہ ان کے اپنے بچوں کے کچھ احساسات ہیں، جذبات ہیں دوستیاں ہیں، جنہیں وہ یاد کریں گے۔ ساری زندگی مس کریں گے۔ اس لیے ضروری ہے کہ وہ ان سے رابطے میں رہیں۔ کبھی کبھار ہی صحیح، کیونکہ زندگی کی مصروفیات میں ہی  انسان اتنا آگے بڑھ جاتا ہے کہ ویسے بھی ہر وقت ایک دوسرے سے رابطے میں رہنا یا ایک دوسرے سے ملاقات کرنا  کبھی ممکن ہو ہی نہیں سکتا ۔ ایسے میں کبھی کبھار بھولے بھٹکے کوئی چٹھی ، کوئی پتر، کوئی فون کال، کوئی میسج آپ کو پھر سے تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح ماضی کی میٹھی میٹھی سی یادیں تازہ کر جاتا ہے۔  اس لیئے ان کا سکول یا شہر بدلتے ہوئے اپنے بچوں کو پہلے تیار کیجیےُ۔ انہیں بتائیئے کہ ہمیں شہر یا علاقہ چھوڑنا ہے یا تبدیل کرنا ہے، کہ آپ کا تبادلہ ہو گیا ہے۔ یا آپ کاروبار کے لیئے جا رہے ہیں. یا آپ بہتر مواقع کی تلاش میں جا رہے ہیں ۔ یا آپ ان کی بہترین تعلیم کے لیئے جا رہے ہیں یا کسی پریشانی کی وجہ سے آپ کو وہ جگہ چھوڑنی ہے ، تو بچوں کو ذہنی طور پر اس صورتحال کے لیئے کچھ عرصہ پہلے تیار کیجئے اور انہیں اس بات کی اجازت دیجئے کہ جو ان کی خاص دوستیاں ہیں۔ جو بہت قریبی دوست یا سہیلیاں ہیں ان دو چار لوگوں کو ضرور وہ اپنا پتہ یا رابطہ دے کر جائیں۔  ان کا رابطہ اپنے ساتھ اپنی ڈائریوں میں لکھ کر لے کر جائیں ۔ ایک دوسرے سے نمبر ایکسچینج کریں تاکہ جب کبھی وہ بچپن کے اس دور کو شدت سے مس کرنے لگیں  تو خود کو کچھ دیر کے لیے اس رابطے میں لا کر بہلا سکیں۔  نفسیاتی طور پر بھی اس کے بہت اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔  کیونکہ وہ کسی گہرے ٹروما سے بچتے ہیں۔  یاد کرنے کی وہ جو ایک تکلیفدہ اذیت ہے وہ اس سے بچ جاتے ہیں اور یوں اگر انہیں ایک دوسرے سے کوئی توقع بھی ہوتی ہے تو وہ زیادہ مایوس نہیں ہوتے۔ 
وقت کے ساتھ ساتھ انہیں خود اس بات کا احساس ہوتا چلا جاتا ہے کہ سب کچھ کبھی ایک جیسا نہیں رہتا اور یوں وہ کسی تکلیف کا شکار بھی نہیں ہوتے۔  سچ پوچھے تو سچی دوستیاں تو یہی بچپن کی دوستیاں ہوتی ہیں نہ کوئی غرض نہ کوئی مفاد۔ ایک دوسرے کی مسکراہٹیں ہی ایک دوسرے کے لیے انعام ہوا کرتا تھا۔
کیونکہ کوئی نہیں جانتا کہ ایک ہی سکول میں پڑھنے والے ایک ہی کلاس میں ایک ہی بینچ پر بیٹھنے والے ان بچوں میں سے کون کل کو راجہ بنے گا ۔ کون رانی بنے گی۔ کون شہزادہ ہوگا، اور کون فقیر۔ کون حکمران ہوگا اور کون مزدور۔  اس لیے اس بے غرض دوستی کے دور کو یاد رہنے دیجیئے اور آپ انہیں کاٹنے والی تلوار مت بنئیے۔ ضروری نہیں ہوتا کہ بچپن کے یہ دوست ایک دوسرے کے ساتھ صرف غلط توقعات میں ہی وابستہ رہیں۔ بہت سی چھوٹی چھوٹی معصوم سی باتیں، معصوم سی یادیں ، پہلی بار کی ہوئی شرارتیں،  پہلی بار کے تجربات ان بچپن کی یادوں سے وابستہ ہوتے ہیں۔ سو خدارا اپنے بچوں سے بچپن کا یہ معصوم سا خزانہ مت چھینا کیجئے ۔جسے وہ ساری عمر تلاشتے رہتے ہیں۔
                   --------



جمعرات، 29 فروری، 2024

حروف کا احترام . کالم

حروف کا احترام 
تحریر :
(ممتاز ملک۔ پیرس)
 

پچھلے دنوں ایک خاتون کے لباس پر ایک بڑا ہنگامہ اور فساد ہوتے ہوتے رہ گیا۔ اس لباس پر عربی کے الفاظ تحریر تھے۔ اس خاتون نے اس کا ایک لمبا سا فراک ٹائپ کا لباس پہن رکھا تھا۔ دیکھنے میں وہ عربی کی ایات سے مشابہ تھا۔ ظاہر ہے کسی مسلمان ملک میں جب آپ ایسی حرکت کرو گے تو اس کا مطلب انہیں جان بوجھ کر مشتعل کرنا ہے اور جب کہ وہ خود بھی خاتون مسلمان ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ کیا الفاظ کی حرمت ہم لوگوں کے ذہن سے بالکل نکل چکی ہے ہم لوگ دین سے تو بیزار ہیں، لیکن حرمت اور تقدس کے معاملات سے بھی بیزار ہو چکے ہیں کیا ۔ الفاظ صرف عربی کے ہی کیوں ہوں، چاہے وہ اردو کے ہوں، ہندی کے ہوں، چائنہ کے ہوں، فرینچ ہوں، کسی بھی زبان کے الفاظ کیوں نہ ہوں، ان کی حرمت اور عزت قائم رہنی چاہیے اور بار بار اس چیز کو دہرایا گیا کہ عربی زبان سمجھ کر عربی سمجھ کر ایسا کیا گیا، سوال یہ ہے کہ
صرف عربی ہی کیوں کوئی بھی زبان ہو اس کے الفاظ کی حرمت ہوتی ہے یہی لباس پہن کر آپ کہیں بیٹھتے ہیں، اٹھتے ہیں، ٹوائلٹ میں جاتے ہیں اور کئی صاف اور گندے کام آپ اس لباس کے ساتھ کر رہے ہوتے ہیں ان میں جب حروف آ جاتے ہیں۔ انہی حروف سے نام بنتے ہیں۔ کلمات بنتے ہیں۔ انہی حروف سے ساری علمی چیزیں تیار ہوتی ہیں ۔ 
اس میں کوتاہی ہم سب لوگوں کی بھی ہے اس لیے کہ جب انگریزی زبان کے الفاظ کو ان کے اخبارات کے نمونوں کو فیشن بنا کر لباس میں استعمال کیا گیا۔ انگریزی الفاظ کو ڈیزائن کہہ کر ان کو استعمال کیا گیا تو ہم لوگوں کو اس وقت بھی اعتراض کرنا چاہیے تھا۔ آواز اٹھانی چاہئے تھی اگر ہم میں سے کسی نے اواز اٹھائی بھی تھی تو اتنی کمزور تھی کہ ذمہ داران تک پہنچی ہی نہیں۔ اس لیئے جب بات بڑھتے بڑھتے اپنی زبانوں کے الفاظ تک آ گئی تب ہمیں پتہ چلا ۔ یہ وہی حساب ہے کہ جب کسی کے گھر میں آگ لگی ہو تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، لیکن جب وہ تبش اپنے گھر تک آتی ہے تو پھر ہمیں اپنی فکر پڑتی ہے کہ لو اب ہم جلنے والے ہیں اس میں۔ تو ہم شور بھی مچاتے ہیں آواز بھی اٹھاتے ہیں، تو اس میں مجرم ہم سب برابر کے ہیں کہ آج ہمیں اپنی مذہبی زبانوں کو بھی اس طرح سے دیکھنا پڑا۔
 "اقراء" سے ہماری جو ابتدا ہوتی ہے کہ اللہ پاک فرماتا ہے کہ پڑھ اپنے رب کے نام سے تجھے وہ علم عطا کیا جو تو نہیں جانتا تھا ۔
تو یہاں پہ "پڑھ"  کا لفظ خالی عربی زبان سے منسوب تو نہیں کیا گیا۔  ۔
 اس لیے حروف کا احترام کرنا چاہیے جو ہمیں جینے کا، دنیا اور اخرت کا طریقہ و آداب سکھاتے ہیں پھر وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔ کسی بھی ملک سے تعلق رکھتے ہوں۔
 رہی بات قبروں پر ، مزارات پر چادریں ڈالنے کی تو ان پر پاؤں نہیں رکھے جاتے یہ بھی یاد رکھیئے۔
 فرق دیکھیئے وہ ٹھیک ہے یا نہیں ٹھیک ہے لوگوں کی اپنی مرضی اور صوابدید  پہ چھوڑ دیجیئے۔
 لیکن ان کے اوپر کوئی پاؤں نہیں رکھتا۔ آپ نے کبھی نہیں دیکھا ہوگا کہ ان پہ ایات لکھی یا کچھ یا اگر وہ تبرکن بھی کسی کے گلے یا سر پہ رکھی جائیں تو کوئی  ان پہ  پاؤں رکھتا ہے یا انہیں کوئی گندی اور نجس جگہ پہ رکھتا ہو یا ساتھ لے کر جاتا ہو ۔
ایسے نہیں ہوتا تو برائے مہربانی اس فرق کو ملحوظ رکھتے اور میں ہر طرح کے الفاظ چاہے وہ انگریزی ہو ، چائنیز ہو ہندی ہو اردو ہو کوئی بھی زبان ہو ہر طرح کے الفاظ کا احترام کرنا ضروری سمجھتی ہوں اور ان کو اپنے بدن پر لپیٹ کر سر پر رکھنا ایک اور چیز ہے۔ سر عزت والی جگہ ہے۔ اس پر کچھ لکھا ہے تو اپ کہیں جاتے ہوئے اس کو اتار کے رکھ دو گے، لیکن آپ اپنے بدن پر لپیٹ کر اس کو جب آپ کے بدن سے  اچھی بری بو بھی نکل رہی ہے۔ آپ کے بدن سے پسینہ بھی نکل رہا ہے۔ آپ کے بدن سے پاکی ناپاقی بھی وابستہ ہے۔ لہذا اس بات کا خیال رکھنا چاہیے ۔ کہ اپنے بدن پر الفاظ کو لپیٹ کر انہیں بے توقیر نہ کیا جائے۔ 
کچھ کا اعتراض ہے کہ خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کی تصویر والے جائے نماز بھی تو لوگ استعمال کرتے ہیں اور ان پر چوکڑی مار کر بیٹھ بھی جاتے ہیں۔ تو ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ لوگ جو ایسی  جائے نماز استعمال کرتے ہیں وہ بے خبری میںکرتے رہے۔  ان کو بھی اب جیسے جیسے معلوم ہو رہا ہے وہ بھی اس کو استعمال نہیں کر رہے۔ احتیاط کر رہے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ جو اب نئی جائے نمازیں  آ رہی ہیں تقریبا  سادی ہی جائے نماز آ رہی ہیں اور ان پر جو بیٹھتے ہیں تو وہ سجدے والی سائیڈ پہ تصویر ہوگی جہاں پہ سجدہ کیا جاتا ہے آپ کبھی بھی نہیں دیکھیں گے کہ پیروں کی سائیڈ پہ تصویر یا اس کے اوپر الفاظ لکھے ہوں  اور وہ جو نقش ہوتا ہے وہ شاید وہ لوگ جو تبرکن بناتے رہے ہیں کہ جہاں وہ اس تصور کو اجاگر کرنے کے لیے کہ مسجد نبوی کی یا خانہ کعبہ کی تصویر اگر بنتی ہے تو ان کی سجدے والی جگہ پہ ہوتی ہے۔ میں نہیں مان سکتی کہ کوئی بھی مسلمان جو رتی بھر بھی علم رکھتا ہو یا احساس رکھتا ہو وہ جان بوجھ کر ایسی تصویر یا  ایسے حروف کے اوپر بیٹھے گا۔ سو احتیاط کیجیئے کہ ایک ہی نقطہ کافی ہے ہمیں محرم سے مجرم بنانے کے لیئے ۔
                 -----

جمعرات، 22 فروری، 2024

زن سے نازن / کالم


                      
زن سے نہ زن
تحریر ۔ 
(ممتازملک۔ پیرس)

  اس شعر
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہیں نازن
کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت

اقبال کے اس شعر کی تشریح تو بہت طویل ہو جائے گی لیکن سادہ الفاظ میں شاعر کہنا چاہتا ہے کہ
 وہ علم کہ جس کے حاصل کرنے سے عورت اپنے مقام کی پہچان کھو بیٹھے ، عقل والے اس جاننے کو تباہی یعنی موت کے برابر  تصور کرتے ہیں ۔۔۔
وہ تعلیم جو آپکے معاشرے  تہذیب اور مذہب سے ٹکراتی ہے تو اس کا نتیجہ میرا جسم میری مرضی ٹائپ کی  صورت میں برامد ہوتا ہے ۔ سادہ الفاظ میں  سمخھ لیں کہ 
مجھے تیرنا نہیں آتا لیکن میں اس لیئے دریا میں کود جاوں کہ دوسرے نے بھی تو چھلانگ لگائی ہے اگر اسے کچھ نہیں ہوا تو مجھے کیوں ہو گا ۔۔۔۔یہ جانے بغیر کہ پہلے کودنے والا تیرنا جانتا تھا ۔ 
ایک مثال اور۔۔
ہر انسان کی عمر اور جسمانی وزن کے حساب سے دوا تجویز کی جاتی ہے لیکن ہم اس دوا کے اس حساب کے بغیر استعمال کرینگے تو وہ بھی زہر بن جائے گی ہمارے لیئے ۔۔
ہر انسان کی سمجھ کا اپنا اپنا پیمانہ ہوتا ہے ۔ اس پیمانے سے ہٹ کر اس میں بھرنے کی کوشش کروگے تو اس کا توازن بگڑ جائیگا ۔۔جیسے ایک گلاس میں اس کے پیمانے سے زیادہ بھرو گے تو چھلک جائیگا ۔
جبھی تو ہر انسان جتنا مرضی ذہین فطین ہو ڈاکٹر نہیں بم سکتا ، انجینئیر نہیں بن سکتا ، عالم نہیں بن سکتا ، حافظ نہیں بن سکتا ۔۔۔

اقبال کے کلام کو کسی ایک زمانے سے جوڑنا زیادتی ہو گی ۔ خصوصا وہ کلام جو انگلستان سے واپسی پر ایک نئے اقبال نے کہے ۔  وہ سب قرانی اسباق کے زیرتحت کہے گئے ۔ اس کا ثبوت ان کے ملازم کی گواہی تھی کہ اقبال ہر کلام سے قبل قران پاک منگوا کر اس کا مطالعہ کیا کرتے تھے ۔ لفظ مطالعہ پر غور کیجیئے یہاں تلاوت مقصود نہیں ہے مطالعہ کرنا اور جاننے کی جستجو ہے کہ میرا رب مجھ سے کیا فرماتا ہے ۔ اور پھر اسی عالم میں اقبال نے عالمگیر کلام ارشاد فرمائے ۔ جبھی تو ان کے اشعار آج بھی ہمیں آج کے حالات پر کہے گئے محسوس ہوتے ہیں ۔
اقبال کو سیاستدان نہیں کہا جا سکتا  کیونکہ سیاستدان مکار ہوتے ہیں، موقع پرست ہوتے ہیں اور آج کی بات کریں اور اپنے ہاں کی بات کریں تو سیاستدان بے شرم بھی ہوتے ہیں اور ڈھیٹ بھی ، یہ اپنے خدا آپ ہی ہوتے ہیں ۔ انہیں موت پر بھی خدا یاد آجائے تو بھی توبہ تو کرینگے تلافی کبھی نہیں کرینگے ۔   اس لیئے اقبال کو  زمانہ شناس کہا جا سکتا ہے ۔ اپنی آخری عمر میں انہیں خدا دوست یا ولی کہا جا سکتا ہے ۔ جو خدا سے باتیں کرتا ہے اور خدا کی باتیں ہم جیسے نکموں تک پہنچاتا ہے ۔
                    ----------


منگل، 2 جنوری، 2024

مہنگائی فرانس۔کالم

مہنگائی فرانس
تحریر: ( ممتازملک۔پیرس)

دنیا بھر میں جہاں جنگوں کی صورتحال نے مہنگائی میں اضافہ کیا ہے وہاں فرانس میں بھی مہنگائی نے افریت کا روپ دھار لیا ہے۔ پہلے کبھی ہم کہا کرتے تھے کہ کچھ بھی ہو جائے فرانس میں کھانا پینا اتنا سستا ہے کہ معمولی سے معمولی تنخواہ والا بھی آرام سے اپنی مرضی کا مرغی، گوشت، دالیں، سبزیاں، فروٹ خرید سکتا ہے۔ لیکن آج 25 سال میں یہ حالت ہو گئی ہے  کہ گوشت فروٹ، سبزی ہر چیز کو تبرک بنا دیا گیا ہے یقین کریں آج کل کے دنوں دسمبر اور جنوری میں جائیں تو کئی جگہ پر سبزیاں تین چار  چھ یورو کلو لگی ہوتی ہیں اور آپ حیران ہو جاتے ہیں وہاں پر جب کہ آپ کی تنخواہیں سالہا سال سے نہیں بڑھیں، جبکہ مہنگائی ہر روز بڑھ رہی ہے۔ یہاں پہ ہول سیلر کو تو فائدہ ہے۔ جو لوگ بیچنے والے ہیں وہ تو آرام سے قیمت کی چٹ ایک یورو سے اٹھا کر دو یورو لگا دیں گے لیکن خریدنے والے کی تنخواہ کتنے سالوں سے نہیں بڑھیں، کسی کو اس بات کا اندازہ نہیں۔ سرکاری تنخواہیں ہوں یا پھر پرائیویٹ لوگوں کی، (پرائیویٹ والے تو ویسے ہی مرتے ہیں تنخواہیں دیتے ہوئے) تو آپ اندازہ لگائیں کہ وہاں ایک عام آدمی کا خاص طور پر اگر وہ اپنی  فیملی کیساتھ رہتا ہے۔ گھر چلانا کس قدر مشکل ہے۔ اگر اسکے دو تین بچے ہیں دو میاں بیوی  یعنی پانچ افراد کا کنبہ ہے تو یہاں پر گھر چلانا ایک عذاب بن چکا ہے۔ اگر پانچوں بھی کما رہے ہیں تو ہر بندہ صرف اپنی ضرورت کی چیزیں پوری کرتا ہے کیونکہ عام طور پر یہاں تنخواہیں عموما 1400 سے لے کر 1800 یورو تک کی بنیادی تنخواہیں ہوتی ہیں جس میں اگر ایک آدمی کو اپنے ایک کمرے کا کرایہ دینا پڑ جائے اسے اپنا کھانا پینا کر کے بجلی کے ، گیس کے بل اور اپنے چارجز نکال کر جو صفائی ستھرائی کے لازمی آپ نے ہر گھر میں دینے ہوتے ہیں تو یقین کریں مر کے اس کے پاس اگر اس نے گاڑی بھی رکھی ہے تو ناممکن ہے کہ وہ 14 سو یا18 سو یورو میں اپنا بھی گزارا کر سکے۔ ورنہ دو تین سو یورو ہی  اسکے پاس بچتا ہے جس میں وہ کھائے گا پیئے گا تو آپ خود اندازہ لگائیں کہ وہاں پہ زندگی کس قدر مہنگی ہے۔ فرانس سے باہر یا پاکستان میں بیٹھے ہوئے لوگ بڑے آرام سے منہ کھول کر کوئی موبائلوں کی فرمائشیں کرتا ہے اور کوئی جناب 60، 60 ہزار روپے کے پرفیومز گفٹ میں مانگ رہا ہوتا ہے اور انکو تکلیف بھی نہیں ہوتی وہ ہڈ حرام گھر بیٹھے، لوگوں سے فرمائشی ٹوکرے بھروا رہے ہوتے ہیں۔ انہیں ذرا اندازہ نہیں ہوتا، کہ وہ جو مشقت کر رہا ہے وہ اپنا خرچ بھی کتنی مشکل سے پورا کرتا ہے۔ سرکاری طور پر احتجاج کے لیے یہاں پر زیلے زون نامی تنظیم نے سالہا سال سے یہاں پہ ناانصافی کے  قوانین پاس ہو رہے ہیں جس میں ریٹائرمنٹ کا ٹائم مزید طویل کر دیا گیا ہے جس میں تنخواہیں وہیں پہ مستقل کھڑی ہیں اور فیملیز مشکلات کا شکار ہیں۔ کہیں ان کے بینیفٹ روک دیے گئے ہیں، کم کر دیے گئے ہیں ختم کر دیئے گئے ہیں۔ اب وہ دالیں جو ہم کبھی 50 سے 60 سینٹیوں میں ایک کلو خریدا کرتے تھے یا بہت مہنگی ہوتی تو ایک یورو میں ایک کلو لیتے تھے اس وقت وہ  پونے تین چار یورو کی کلو لگی ہوئی نظر آتی ہے۔ آپ حیران ہو جاتے ہیں جس مونگی کی دال کو پاکستان میں ہم مریضوں کی دال کہتے ہیں اور منہ نہیں لگاتے وہ یہاں پر تین سے لے کر چھ یورو تک کلو مختلف جگہوں پر ملتی ہے
 بھنڈی جیسی سبزی پاکستان میں لوگ اس کی شان میں گستاخیاں کرنے سے نہیں چوکتے آپ سوچیں کہ نخرے کرنے والی وہ بھنڈی یہاں پر ہمیں چھ سے لے کر 12 ، 15 یورو تک کی کلو ملتی ہے اور ایک کلو لینا تو شاید میرا خیال ہے کہ بہت ہی امیر کبیر ہے جو ایک کلو ایک ساتھ اٹھا لیتا ورنہ یہی ہوتا ہے کہ اگر بہت ہی دل کیا تو آپ ایک مٹھی بھر اٹھا کر اسی میں پیاز اور باقی چیزیں مکس کر کے اپنا شوق پورا کر لیتے ہیں اور باقی سبزیوں کا بھی پوچھیں۔۔۔
 اب  آؤٹ سیزن ہے تو سبزیوں فروٹ کے آپ پاس سے گزر بھی نہیں سکتے، ایسے جھٹکے دیتی ہیں ان کی قیمتیں کہ دور سے بورڈ دیکھکر آپ خاموشی سے وہاں سے نکل جاتے ہیں کیونکہ تنخواہیں نہیں بڑھ رہی صرف مہنگائی بڑھ رہی ہے ۔پیٹرول جو کبھی سینٹیوں میں لیٹر تھا اب یہاں مختلف علاقوں میں ڈھائی سے تین یورو کا ایک لیٹر  ڈالا جا رہا ہے آپ اندازہ لگائیں کہ ایک آدمی نے گاڑی رکھی ہے پھر اس کی پارکنگ کے، چالان کے خرچے پارکنگ تو انہوں نے ختم ہی کر دی ہیں۔ جو ہیں وہ پیسوں کی پارکنگ ہے۔ گھنٹوں کے حساب سے۔ لیکن اس کے باوجود بھی اگر آپ دیکھیں تو چالان کی بھرمار ہوتی ہے لوگ گاڑیاں کہاں کھڑی کریں میں تو کہتی ہوں اڑنے والے سلنڈر لے آئیں لوگ اپنے ساتھ باندھ کے اسی میں سفر کو نکلا کریں۔ ان گاڑیوں کا جھنجٹ ہی ختم کر دیں کیونکہ لوگوں نے سفر جو کرنا ہے لوگوں نے ادھر ادھر جانا ہے ۔کیا کریں پھر وہ لوگ۔ بالکل ناک تک لوگوں کو پہنچا دیا ہے۔ اتنی شدید مالی پریشانیاں پہلے کبھی سننے دیکھنے میں نہیں آتی تھیں جتنی اب فیملیز پریشان ہیں ۔
 پہلے لوگ مہینے بھر کے اپنے تنخواہوں کے خرچ میں سے بھی تھوڑا بہت جوڑ جاڑ کے کھینچ کھانچ کر کوئی ایک ادھ چیز گھر کی، بجلی کی مشین جیسے واشنگ مشین،  فرج خراب ہو گیا ہے تو بھی نقد پہ لے سکتے تھے ۔ 25 سال پہلے جب میں آئی تھی تو ضرور اسی تنخواہ میں ہم بنا لیا کرتے تھے لیکن آج آپ کی سوچ ہے آج آپ کو جو کچھ لینا ہے آپ کو ادھار یا قسطوں پر ہی لینا ہے یا پھر آپ  اس کے لیے پورا سال پیسے جمع کریں  کیونکہ آپ تنخواہ دار ہیں آپ کا گزارا نہیں ہو رہا تو کیا کریں گے۔ بہت حیران ہوتی ہوں جب یہاں پر ہمارے مردوں کی ٹولیاں گھنٹوں بیٹھ کر پاکستانی سیاست کی ٹاکیوں کو آسمان پر لگا رہے ہوتے ہیں۔ رونے رو رہے ہوتے ہیں یار وہاں یہ ہو گیا، وہاں مہنگائی ہو گئی وہاں فلانا ہو گیا، ارے بھائی جہاں رہتے ہو پہلے وہاں تو دیکھو وہاں کون سے راشن کے ٹوکرے تمہیں فری میں گھروں میں آ رہے ہیں، وہاں کون سی دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ یہاں ہم نے رہنا ہے یہاں کھانا ہے یہاں کے معاملات براہ راست ہمارے اوپر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ہمارے اوپر کیا ہمارے ذریعے پھر ہمارے پچھلوں پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں ۔جن کو مٹھیاں بھر بھر کے پیچھے کچھ نہ کچھ بھیجنا پڑتا ہے اور جو فالتو چیزیں ہمارے ساتھ چپکی ہوئی ہوتی ہیں۔ ان کو پورا کرنا پڑتا ہے ۔مجھے یہ بتائیں کہ یہ چیزیں ان پر بھی ان بلواسطہ اثر انداز ہوتی ہیں تو پھر یہاں کی فکر کیجیئے۔ یہاں کے حالات میں، یہاں کے احتجاج میں شامل ہوں یہاں کی اچھی بری باتوں کو نوٹس کریں حکومت کو یہاں کی باتوں پہ توجہ دلانے کے لیئے اچھے کاموں کے ذریعے متوجہ کریں اور ان سے کارکردگی اور اقدامات  کے لیئے اصرار کریں۔ ساری قومیں اکٹھی ہوتی ہیں۔ نہیں ہوتی تو پاکستانی کمیونٹی آپ کو ایسے کاموں میں کہیں نظر نہیں ائے گی۔ ان کاموں سے ان کو دور دور تک لینا دینا نہیں ہے عجیب لوگ ہیں۔ مجھے تو سمجھ ہی نہیں آتی کہ ہماری قوم چاہے ملک میں رہیں چاہے ملک سے باہر انہیں ہمیشہ دور والوں کا درد تڑپاتا ہے، اپنے گھر کا کوئی غم نہیں ہوتا فرانس ہمارا گھر ہے۔ ہمارا ملک ہے ہمیں یہاں کے مسائل اور وسائل میں شامل ہونا چاہیئے۔  اگر ہم فائدے لیتے ہیں تو یہاں جو پریشانیاں ہیں یہاں جو نقصان ہو رہے ہوتے ہیں یہاں جو قوانین بنتے ہیں ان میں بھی براہ راست حصہ ڈالنا چاہئے۔ اپنی آواز شامل کرنی چاہیئے۔ یہاں ہماری ڈیڑھ لاکھ کے قریب آبادی ہے اس کے باوجود بھی ہم لوگوں کی آواز کہیں سنائی نہیں دیتی۔ کیونکہ آپ کو شوق نہیں ہے۔ اب تو الیکشن میں بھی کھڑے ہونے لگ گئے ہیں لیکن وہ بھی برائے نام کمیونٹی میں کام کر رہے ہیں۔ وہ کمیونٹی میں کسی متحرک جذبے کو فروغ نہیں دے پاتے۔ وہ بھی اپنی کمیونٹی کے لیئے صرف شو پیس ہیں ٹائم پاس
                ۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات، 28 دسمبر، 2023

شادی ‏کومحاذ ‏جنگ ‏نہ ‏بنائیں/ ‏کالم


شادی کو محاذ جنگ نہ بنائیں
تحریر:
(ممتازملک ۔پیرس)

اپنے رد گرد نگاہ دوڑائیں ہر طرف قمقمےجگمگا رہے ہیں، پکوان بن رہے ہیں، مہمان نوازیاں ہو رہی ہیں ،لڑکیاں اپنے پیا دیس سدھار رہی ہیں ۔ کرونا کی پابندیاں بھی ان شادیوں کی راہ نہیں روک سکیں تو سمجھ لیجیئے کہ واقعی رشتے آسمانوں پر ہی طے کیئے جا چکے ہیں ۔ 
اپنی بیٹیوں کو اگلے گھر والوں کا دل جیتنے کے لیئے بھیجیئے، گھروں کو فتح کرنے کا سبق دیکر مت بھیجیں ۔ 
معاملات پر نظر دوڑائی جائے تو ایک بات بڑی واضح دکھائی دیتی ہے کہ شادی کے تمام معاملات اور رسومات کے بیچ میں دونوں گھروں کی جانب سے دولہا، دلہن کی شادی کے جوڑوں اور تحائف کی خریداری میں ہمارے ہاں یہ رواج دیکھا گیا ہے کہ لڑکے والے لڑکی کے شادی کے ملبوسات زیورات اور متعلقہ اشیاء کی خریداری اور لڑکی والے لڑکے کے لیے جوڑوں اور تحائف خریدا کرتے ہیں اس میں قباحت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب دونوں گھروں میں سے کچھ شرارتی لوگ، رشتہ دار لڑکی اور لڑکے کو دوسرے سے زیادہ سے زیادہ مہنگے جوڑے اور تحائف خریدنے کے لیے اکساتے ہیں یا پھر لڑکی اور لڑکا خود اس قدر حریص ہوتے ہیں کہ وہ اگلے کو نچوڑ دینا چاہتے ہیں اور بڑھ چڑھ کر مہنگی سے مہنگی اشیاء کا مطالبہ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ سمجھداری تو یہ ہوتی ہے کہ اگر کسی کو خریداری کی پیشکش کی جائے تو وہ خریداری کرانے والے سے پوچھے کہ آپ کا کتنا بجٹ ہے؟ اور اسکے حساب سے اگر اس کا بجٹ 10 روپے ہے تو وہ 8 روپے کی خریداری کرے اور باقی بچا کر سامنے والے کو احساس دلائے کہ وہ انکی جیب کا خیال رکھنے والا یا والی ہے, لیکن ہوتا بالکل اس کے برعکس ہے. یہاں اگر کوئی 10 روپے اپنا بجٹ بتائے تو وہ 20 روپے خرچ کر کے اگلے کو پریشان کرنا اور دبانا شروع کر دیتا/ دیتی ہے۔ اب اس میں کون سی سمجھداری ہے یہ بات آج تک ہماری سمجھ میں نہیں آ سکی۔ ہم لوگ اس رشتے کو محض اس خریداری تک ہی محدود کیوں کر لیتے ہیں۔ ہمیں یہ کیوں معلوم نہیں ہوتا کہ یہ تحفے یا یہ جوڑے انہی دو تین دنوں میں ہی استعمال ہوں گے دوبارہ شاید یہ زندگی میں کبھی کھلیں گے بھی نہیں۔ لیکن ان دو تین دن کے جوڑوں کو اس قدر خاص بنا دیا جاتا ہے کہ ساری عمر انکی قیمتوں، رنگ، ڈیزائن پر، جب بھی میاں بیوی کا جھگڑا ہوتا ہے یا سسرال والوں کے ساتھ لڑکے یا لڑکی کا اختلاف ہوگا تو اسکی تان اسی بات پر ٹوٹے گی کہ جی مجھے جوڑا اچھا نہیں دیا تھا، فلاں چیز سستی ملی، فلاں چیز گھٹیا ملی، فلاں چیز تم نے نہیں دی، تو ان سب چیزوں سے یہ رشتہ محاذ جنگ اور زندگی ایک میدان جنگ بن جاتی ہے اور تاعمر آپ یہ جنگ لڑتے رہتے ہیں ، یہ رشتہ شاید اسی سبب ختم ہو جائے لیکن یہ جنگ کبھی ختم نہیں ہوتی، کیونکہ یہ باتیں کبھی بھولتی نہیں ہیں تو پھر اس کا علاج کیا کیا جائے؟ سچ پوچھیں اور نیت جھگڑوں سے بچنے کی ہو تو  اس کا علاج بہت زیادہ آسان ہے۔  ایک رواج کو بدلنے کی جرات تو کیجئے ۔ دوسروں کو مت دیکھیئے اپنے گھر سے یہ شروعات کیجئے کہ آپ کی بیٹی کی جو پہلے دوسرے تیسرے دن کے جوڑوں کی خریداری جیسے کہ مہندی، شادی اور ولیمے کا جوڑا ہے وہ ہم والدین خود اپنی بیٹی کے لیے تیار کریں۔ اپنی پسند کے ساتھ کے ساتھ جب لڑکا، لڑکی یہ ساری خریداری کرینگے تو انہیں اس بات کا لحاظ رہے گا کہ یہ سارا پیسہ انکے اپنے باپ یا بھائی کی جیب سے جا رہا ہے اور اس میں جوڑوں کے رنگ،  ڈیزائن نئے پرانے ہونے کا بھی کوئی ہنگامہ کھڑا نہیں کیا جا سکتا۔ لہذا دونوں کو سوچ سمجھ کر منہ کھولنا ہے اور ڈیمانڈز کرنی ہیں تو وہ اپنے تینوں دن کے جوڑے اور ضروری اشیاء اپنی مرضی سے خریدیں ۔ اب ان دونوں کو ایکدوسرے سے الگ خریداری کرتے ہیں تو ایک جیسا کیسے لگنا ہے، تو بالکل آسان سی بات ہے۔ جہاں بہت ساری باتوں کی آپ ایک دوسرے کو اطلاع دے رہے ہوتے ہیں وہیں پر آپ اس موقع پر پہننے والے  جوڑوں کے رنگ ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کر سکتے ہیں کہ ہم فلاں رنگ پہن رہے ہیں یہ دونوں آپس میں طے کر لیں کہ فلاں رنگ اچھا ہے۔ ہم دونوں پہ کھلتا ہے اچھا لگ رہا ہے۔ چلو اسی حساب سے  لڑکا کوئی نہ کوئی ایک ٹچ دلہن کے کپروں کی میچنگ میں  اپنے کپڑوں میں شامل کر لے۔ جیسے  لڑکی سرخ رنگ پہننا چاہ رہی ہے اور لڑکا آف وائٹ پہننا چاہتا ہے تو لڑکی کے جوڑے کے رنگ کا کوئی بھی رومال، کلاہ یا پٹکا لڑکے کے جوڑے کیساتھ میچنگ کر لیا جائے یوں ان دونوں کا رنگ کا ملاپ بھی نظر آئے گا اور دونوں کا  اس یادگار دن پر یا دنوں پر اپنی پسند کا رنگ پہننے کا شوق بھی پورا ہو جائے گا یہ اتنا مشکل کام تو نہیں ہے۔
اس میں بھی لڑکا یا لڑکی ایک دوسرے پر دباؤ ہر گز نہ ڈالے۔ یہ رشتہ محبت کے ساتھ شروع ہونے جا رہا ہے۔ یہاں پر کوئی مقابلہ نہیں ہو رہا کہ آپ ایک دوسرے کو دبانا شروع کر دیں۔
 اور دوسری بات اگر دونوں طرف سے دینداری میں بہت زیادہ اور بھاری قیمتی تحفے، بری اور جہیز کے جوڑوں کے بجائے آج کل ہر روز اتنی ورائٹی آتی ہے کہ اکثر تو شادی بری کے سوٹ کھلتے تک نہیں اور انکے فیشن پرانے ہو جاتے ہیں اور انکے سلنے کی نوبت تک نہیں آتی۔ ادھر ادھر دے دلا کر ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو کہ بہت ہی چھوٹی حرکت ہے۔ کیونکہ یہ تحائف آپکی زندگی کے اہم موقع پر آپ کو ملے اور آپ نے انہیں برتا تک نہیں۔ اگر اپ اسے پہنتے تو ایک دوسرے کو خوشی ہوتی ہے کہ یہ تحفہ آپ کی طرف سے آیا اور پہنا گیا اس لیے بہتر ہے کہ لڑکی اور لڑکے کی جانب سے بھی لڑکی کے لیئے کام والے جوڑے بس پانچ پانچ ، سات، سات ہی ہونے چاہیئیں۔ جو انکے شروع کے پورے سال دو سال کیلیئے کافی ہیں اگر وہ سنبھال کے استعمال کریں تو دو تین سال کے لیئے کہیں آنے جانے، کسی تقریب میں پہننے کے لیے بہت ہوتے ہیں۔ باقی بیچ میں عیدین یا اور کوئی خاص موقع آتا ہے تو کپڑے بنتے رہتے ہیں ۔یہ زندگی میں آخری بار بنے ہیں کیا؟ لیکن وہ جو شروع میں پیسہ اتنا پانی کی طرح ضائع کیا جاتا ہے بری اور جہیز کے جوڑوں کے نام پر، سو سو جوڑے تک ہم نے دیکھے ہیں جو بالکل پیسے کا زیاں ہے، اور دوسری پارٹی اس میں ہر گز دخل اندازی نہ کرے کہ یہ پہننا ہے اور وہ نہیں پہننا۔ لڑکا کیا پہنے گا یہ لڑکی والوں کا درد سر نہیں ہے کہ وہ کس قیمت کا ہونا چاہیے اور لڑکی کیا پہنے  گی ، یہ لڑکے والوں کا درد سر نہیں ہونا چاہیے ۔ انہوں نے پہننا ہے جو ان کو اچھا لگتا ہے۔ جو وہ افورڈ کر سکتے ہیں، کیونکہ اسے بھی معلوم ہے کہ میری تصویریں بنیں گی فلم بنے گی سو وہ جو چاہے خود بنائیں، چاہے کرائے پر لے کر آئیں، چاہے کسی طرح بھی ارینج کریں یہ دوسری پارٹی کا درد سر کبھی نہیں ہونا چاہیے اگر آپ نے جھگڑوں سے بچنا ہے تو آپ کو اپنے رواج بدلنے ہوں گے اگے بڑھیے اور اپنے فضول رواجوں سے جان چھڑائیے  ۔
                                                      ##########۔ 

ہفتہ، 18 نومبر، 2023

عورت کیخلاف جرائم۔ کالم

عورت کے خلاف جرائم
تحریر:
(ممتازملک ۔پیرس)

آئے روز ہمارے اردگرد کہیں عورت گھریلو تشدد کا شکار ہے کہیں گولی مار کر اسے بدکردار ثابت کیا جاتا ہے، کہیں تیزاب گردی ہے اور کہیں اس کا اغوا اور آبرو ریزی، کہیں کاری تو کہیں (توہین قرآن کی سب سے بڑی اعلانیہ و فخریہ رسم) قرآن سے شادی،  آگ لگا کر مار ڈالنا،  کی خبریں اس تواتر کیساتھ سامنے آتی ہیں کہ سننے والے بھی اسے سن سن کر بے حسی کی اس منزل تک پہنچ چکے ہیں کہ انہیں اب یہ جرائم زبانی جمع خرچ سے زیادہ نہ تو جرائم لگتے ہیں اور نہ ہی قابل سزا۔
اور تو اور ہمارے معاشرے کے پڑھے لکھے اور بااثر اور بارسوخ کہلانے والے افراد بھی زیادہ تر ان جرائم میں ملوث ہیں ۔  اکثر ایسے واقعات میں ان کی رپورٹنگ اور ویڈیوز کے نیچے دی گئی آراء اور کومنٹس پڑھیں تو آپ پر یہ بات ثابت ہو جائے گی کہ عورت ہی بری تھی کیا ہوا اگر اسکی شادی اسکی مرضی کے خلاف اسکا باپ  کروانے جا رہا تھا ، پھر کیا ہوا اگر اسکا بھائی اس کی جائیداد پر حق جما رہا تھا اسے برداشت کرنا اور اسے معاف کر دینا چاہیئے تھا۔ یہ کیوں اپنے حق کا شور مچاتے کھڑی ہو گئی، بھائی کی غیرت کو کیوں للکارا ۔ پھر کیا ہوا  اگر اس کا شوہر اسے پیٹتا تھا یہ کیوں کسی کو بتانے گئی،  پھر کیا ہوا کہ اس کے بیٹے نے اسے مار ڈالا اسے اس بیٹے کی غیرت اور مرضی کے مطابق چلنا چاہیئے تھا ۔ 
ان سب سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے کا بس مرد ہی غیرتمند ہے، باکردار ہے اور عقلمند ہے ۔ جبکہ عورت ؟؟؟ اور اسی بے غیرت ، بدکردار اور بے عقل عورت سے وہ خود بھی پیدا ہوا ہے اور اپنے جیسے پیدا بھی کر رہا ہے۔۔۔ 
ہمارے معاشرے کی عورت کو سب سے زیادہ خطرہ ان مردوں سے ہوتا ہے، جن کے رشتوں سے انہوں نے انکار کیا ہو یا جن سے علیحدگی خلع یا طلاق کی شکل میں اختیار کی ہو ۔
یہ عورتیں ساری عمر ان ناکام مردوں کے نشانے پر رہتی ہیں ۔ان کا خیال آتے ہی انہیں اپنی نام نہاد مردانگی پامال ہوتی دکھائی دیتی ہے ۔ جب تک وہ ان کے رشتے میں رہیں انہوں نے انہیں اذیتناک زندگی دی اور جب وہ ان سے دامن چھڑا کر انہیں لات مار کر انکی زندگی سے نکل گئیں تو انکے لیئے ایک چیلنج بن گئیں ۔ کہ اس عورت کو مرتے دم تک چین سے نہیں رہنے دونگا ۔ 
یہ انکی کوئی محبت نہیں ہوتی کہ وہ انکے لیئے مرے جا رہے ہوتے ہیں بلکہ یہ انکی وہ شرمناک سچائی ہوتی ہے جس کا کھلنا انہیں برداشت نہیں ہوتا کہ وہ نہ تو اچھا انسان ہے اور نہ ہی اچھا شوہر۔ یہ داغ دو طریقے سے دھویا جا سکتا ہے یا تو اس خاتون کا صفایا کر دو جو کہ انکی عزیمت کے لیئے تمام عمر کوشاں رہتی ہے اور دوسرا طریقہ وہ مثبت انداز فکر ہے جس کے تحت نہ صرف وہ خود زندگی کے اس موڑ سے آگے بڑھ جاتے ہیں بلکہ کسی اور کوشریک حیات بنا کر ایسی مثالی زندگی گزارتے ہیں کہ وہ چھوڑ جانے والی  کبھی سچی بھی تھی تو ساری دنیا کے سامنے جھوٹی ثابت ہو جاتی ہے۔ لیکن یہ طرز عمل اپنانے والے مردوں کی تعداد ہمارے معاشرے میں آٹے میں نمک کے برابر ہے ۔ اس کی ایک بڑی وجہ وہ ماحول اور غلط تربیت ہے جس کے تحت مرد کے احساسات کو "مرد کو درد نہیں ہوتا، اور مرد روتا نہیں ہے، قسم کے  لایعنی تصورات کے نیچے دبا دیا جاتا ہے۔ جہاں اس کے لیئے اس درد کو بیان کرنے کا آسان طریقہ ایک ہی مل پاتا ہے وہ ہے کسی عورت کو اس کی زندگی میں ایک "پنچنگ بیگ" کے طور پر شامل کر دیا جائے ۔ وہ چیخ جو وہ کہیں نہیں مار سکتا اس عورت کو مغلظات کے طور پر اس پر دے مارے گا ۔ اور وہ مکا جو وہ اپنے کسی دشمن پر, رشتے پر نہیں برسا پاتا وہ پنچنگ بیگ بنام بیوی پر آ کر برساتا ہے ۔ اور اگر یہی مکے برسائے جانیوالا تھیلہ (پنچنگ بیگ) ہی آگے سے اپنے زندہ ہونے اور درد ہونے کی صدا بلند کرنے لگے تو وہ اسے کیونکر برداشت کر پائے گا ۔ پڑھائی میں ہی نہیں , سمجھ بوجھ میں بھی مردوں کی اکثریت اپنی بیوی سے کم ہوتی ہے، جس کے سبب وہ اسے اپنی غیرت پر تازیانہ شمار کرتا ہے۔ بدلے میں وہ اپنی قابلیت بڑہانے کے بجائے اپنی طاقت کو اپنی بیوی کی قابلیت تباہ کرنے پر مرکوز کر دیتا ہے ۔ اسی لیئے معاشرے پر نگاہ دوڑائیں تو آپ جان جائیں گے کہ اپنی گھر کی، اپنے خاندان کی سب سے لائق فائق، سمجھدار، ذہین ترین لڑکی شادی کے رشتے میں بندھتے ہی کیوں اور کیسے چند برسوں میں ہی نکمی، بیوقوف ، پاگل اور ذہنی مریضہ قرار دے دی جاتی ہے کیونکہ وہ ایسی تھی نہیں بلکہ  بنا دی جاتی ہے ۔ اور اکثر اسی  "ذہنی مریضہ" بنائی گئی لڑکی سے وہ خودساختہ قابل ترین مرد اپنے جیسے قابل ترین بچے پیدا کرنے کی مہم پر بھی روانہ رہتا ہے ۔ گویا چنے کے جھاڑ سے آم اگانا چاہتا ہے۔  عورت کو مرد کے اندر کے اس شیطان سے بچانا ہی معاشرے کو ایک صحت مند ماحول اور نسل دے سکتا ہے ۔ یہ سب کچھ کرنا یا ہوتا دیکھ کر مجرمانہ خاموشی اختیار کرنا اور پھر اپنی بیٹیوں کے لیئے نیک نصیب کی دعا کرنا خدا کو دھوکا دینا ہے یا خود اپنے آپ کو ؟
                 ---------

بدھ، 13 ستمبر، 2023

کیا کھویا کیا پایا؟ / کالم

کیا کھویا کیا پایا؟
تحریر:
(ممتازملک ۔پیرس)

عورت کے بدلتے زمانے کے روپ اسے تیزی سے تباہی کی جانب دھکیل رہے ہیں ۔ یہ وہی عورت ہے جو ماں ہے تو انسان کی سب سے بڑی ہمدرد اور خیر خواہ کہی جاتی رہی ہے اور اگر بیوی رہی تو اسے لباس کہہ کر اس کی حیثیت کو مکمل بیان کر دیا گیا ۔ لیکن پھر حرص و ہوس کی وہ آندھی چلی کہ رشتوں کے پرخچے اڑنا شروع ہو گئے ۔ شاید اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارے ہاں میڈیا اور معلومات کا وہ سونامی ہے جس کو سمجھنے اور اس کا مقابلہ کرنے اور اس سے کوئی فائدہ اٹھانے کے لیئے ہماری قوم کے پاس نہ تعلیم کا ہتھیار تھا ، نہ ہی ٹیکنالوجی کی سمجھ ، نہ ہی کوئی قومی شعور تھا اور نہ ہی تہذیب و اقدار کی کوئی مضبوط ڈھال۔ سو تنکے کی طرح ہمارا سارا معاشرتی ڈھانچہ بہتا چلا گیا ۔ بلکہ سچ پوچھیں تو ہمارا ہر غرور ریت کی دیوار ثابت ہوا۔ مرد نے اپنی آنکھ کا پانی اور سوچ کا دائرہ کھو دیا تو عورت نے اپنی حیا اور نسوانی وقار کو اپنے ہاتھوں تار تار کر دیا ۔سر بازار اس کی قیمت لگوا لی ۔ کیونکہ آج کے مرد نے اسے یقین دلا دیا کہ عزت کی تلاش میں نکاح کا پٹہ گلے میں ڈالو گی تو تمہیں میرا کتا بن کر رہنا ہو گا اور داشتہ بنکر میرے ساتھ مجھے خوش کرتی رہو گی تو تمہاری سوچ سے بھی پہلے ہر ممکن اور ناممکن تمہارے نام لگاتا رہونگا ۔ سو روٹی کپڑا اور  ادھار کی چاردیواری پر تکیہ کرنے والی عورت نے سوچا کہ کیا ضرورت ہے خود کو اس کے قدموں میں گرا کر بیوی بنکر کتے کی سی زندگی گزارنے اور  اس کے سارے خاندان کی چاپلوسی کے بدلے اپنے کانوں میں ان کا زہر آلود سیسہ پگھلانے اور سینے میں الاؤ دہکھانے کا۔ کیوں نہ اک گناہ (جو اس مرد کی خوشی کیساتھ) کر کے دنیا بھر کا اختیار اپنے نام کیا جائے؟  اسی سوچ نے اس معاشرے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔ مرد نے اپنی بیوی کو ہر ایک اپنے بیگانے کے سامنے ذلیل کرنے، اس پر جملے کسنے اور اس پر لطیفے بنانے کے لیئے اپنی نکاحی بیوی کو آلہ بنا لیا ۔ گویا اپنا لباس اپنے ہاتھوں اتار دیا تو بدلے میں ایک کرائے کا تعلق بخوشی اپنے گلے کا ڈھول بنا لیا ۔ جس کے لیئے وہ صرف ایک اے ٹی ایم مشین ہے۔ جہاں اس کے پہنچنے کی دیر ہے فرمائشی ریکارڈ شروع ہو جاتا ہے ۔ جہاں مشین سے نوٹ ختم ہوئے ۔ آپ کو پڑی لات اور اس عورت کے لیئے ایک نیا اے ٹی ایم پہلے سے لائن میں موجود ملے گا۔ بلکہ کئی ایک کے ایک وقت میں بیشمار اے ٹی ایم ایکساتھ اپنی خدمات پیش کر رہے ہوتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ مرد اپنی نکاحی بیوی کو کیا عورت نہیں سمجھتا ؟ کیا اسے انسان نہیں سمجھتا ؟ یا اسے اس بات کا خوف لذت دیتا ہے کہ یہ کہاں جائیگی میرے دروازے کے سوا؟ کیا وہ یہ سمجھتا ہے کہ بطور بیوی اس دنیا کی ساری رنگینیاں وہ بھی نہ دیکھتی ہے ، نہ جانتی ہے اور نہ ان سب پر اختیار رکھتی ہے؟ کیا اسے یہ گمان ہے کہ اس کے اور اس کے خاندان کے ہاتھوں ذلت اور مقابلہ بازی ہی اس رشتے کا مقدر ہے؟ 
تو پھر آج کی عورت خود مختار ہو کر خود اپنی دو روٹی، چادر اور چاردیواری بنا کسی ذلت و تماشے کے بنانا چاہتی ہے اور اکیلی اپنی مرضی سے سکون کیساتھ جینا چاہتی ہے ، بنا کسی کے جوتے سیدھے کیئے خوش رہنا چاہتی ہے، تو کیا برا کرتی ہے؟ بات دینی پہلو سے ہو یا معاشرتی ۔ رشتے تحفظ اور عزت کے لیئے بنائے جاتے ہیں اور اگر یہ دونوں چیزیں ناپید ہو جائیں تو رشتوں خصوصا میاں بیوی کے رشتے کی ضرورت ہی کہاں رہتی ہے؟ ہمارے معاشرے کا مرد خود اس رشتے کو تباہی کے دہانے پر لا چکا ہے ۔ بدلے میں اسے کیا ملا ۔ نہ دل کا چین، نہ وفا نہ عزت ۔ یہ سب وہ چاہتا تو اپنی زندگی کا ٹریک ہی کیوں بدلتا ۔ ورنہ نکاح کے بدلے تو اسے یہ سب کچھ خدائی تحفے کے طور پر بنا کسی تردد کے مل ہی رہا تھا ۔ جس سے وہ بیزار ہو کر جنگلی پھولوں کی خوشبو سونگھنے کانٹوں کے جھاڑ میں ناک گھسیڑ بیٹھا ۔ اور سونگھ کر جب باہر نکلتا ہے تو نہ اس کی ناک کسی قابل رہتی ہے نہ اس کی شکل کسی کو دکھانے لائق رہتی ہے۔ عورت نے بھی اسی کے دکھائے ہوئے تجربات کی روشنی میں یہ جان لیا کہ نکاح جیسا مقدس بندھن آج کے اس پرآشوب دور میں محض دو روٹی اور سر کی عارضی چھت کے لیئے باندھنا ناقابل برداشت اور اس رشتے کیساتھ بے ایمانی ہے۔   (ظاہر ہے چھت تو مرد اپنی داشتاؤں کے نام کرتا ہے  اس کے لیئے تو جب تک نکاح تب تک پناہ والا کھاتہ ہی ہوتا ہے , تو چھت اسکی کہاں سے ہو گئی؟) اس لیئے وہ اب ہمارے  سو کولڈ پاکستانی اور مشرقی معاشرے میں یہ رشتہ اس قدر غیر محفوظ سمجھنے لگی ہے کہ خود کو معاشی طور پر اس غم سے آزاد کرنے ہی میں عافیت سمجھنے لگی ہے ۔ ایمانداری سے دیکھا جائے تو آج کی عورت کو یہ راستہ دکھانے والا ہمارا مشرقی مرد جسے اپنی عیاشی کا سامان سمجھ بیٹھا ہے وہی اسکی تباہی کا انجام بن چکا ہے ۔ اپنی نسل اصل اور دین دنیا سب کچھ داؤ پر لگا کر اسے ہوش آیا بھی تو کیا آیا ۔ اس کا حل بیحد آسان ہے کہ اپنی داشتاؤں کے بجائے اس لڑکی کو پوری عزت وقار اور تحفظ دے جو نکاح کا مقدس بندھن باندھ کر اسکی زندگی میں اپنا سب کچھ چھوڑ کر داخل ہوتی ہے۔ اسے اپنے گھر کی نوکرانی بنا کر اپنے خاندان کے قدموں میں ڈالنے کے بجائے اسے اپنی زندگی کا سکون اور مددگار سمجھے ۔ اور یہ یاد رکھے کہ اللہ کے ہاں سب سے زیادہ باز پرس جس رشتے کی ہو گی وہ اس کی بیوی ہی ہے ۔ تاکید کی گئی کہ لوگوں اپنی بیویوں کے لیئے تم اللہ سے ڈرتے رہو۔ معاشرے کو مزید  بگاڑ اور تباہی سے بچانا ہے ، ہمارے مردوں کو اپنی نسل بچانی ہے تو نکاح کے رشتے کی توقیر بچائیں۔  
                 ۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات، 17 اگست، 2023

سرفہرست قومی مسئلہ۔ کالم

سرفہرست قومی مسئلہ
تحریر: 
       (ممتازملک ۔پیرس)

پاکستان کے اصل مسائل میں سرفہرست انگریزی ہے جس کا جبری استعمال اس ملک میں علم کو عام نہیں ہونے دیتا بلکہ رٹے بازی کے سبب علم سے بیزاری کا سبب ہے ۔ اردو کا نفاذ وہ بھی غالب کے زمانے کی اردو نہیں بلکہ آج کی رواں اور مروجہ زبان کو رائج کیجیئے ۔ دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں ہے جو آج بھی اپنی سو دوسو سال پرانی لغت کیساتھ رائج ہے ۔ اس لیئے اردو کے نفاذ کے لیئے کوشش کرنے والوں کو بھی یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو خصوصاً اور عام لوگوں کو عموما مشکل الفاظ کے جھنجھٹ میں ڈال کر خود اس زبان کے نفاذ کے راستے میں کھڈے کھود رہے ہیں ۔جس انسان کے منہ کا دہانہ اٹھارہ سال کی عمر تک جن الفاظ کو ادا کرنے کا عادی نہیں ہوتا اس کے لیئے بھاری بھرکم الفاظ کی ادائیگی آسان نہیں ہوتی۔ ویسے بھی ہر زبان ترقی کا سفر طے کرتی ہے ۔ اردو زبان کا دامن بہت وسیع رہا ہے یہ ہر زبان کے لفظ کو اپنے اندر باآسانی جذب کر لیتی ہے۔ اس لیئے آج لاؤڈ سپیکر کو الہ مکبر الصوت نہ بھی کہیں تو اس سے اردو زبان کو کوئی فرق نہیں پڑتا لہذا اس بات پر ضد کرنے کے بجائے اردو زبان بولنے کی خواہش رکھنے والوں کو آسانی دینے پر بات کیجیئے ۔یا پھر آوز بڑھاؤ اسکا اور آسان ترجمہ ہو سکتا ہے۔
اردو زبان کے نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ لوگوں کی یہ سوچ ہے کہ انہیں اردوئے معلی کے زمانے کے مشکل اردو اور متروک الفاظ نئے سرے سے سیکھنے پر مجبور  ہونا پڑیگا۔ جبکہ دنیا بھر میں زبان اپنا ارتقائی سفر جاری رکھتی ہے ۔ آج جو اردو بول چال جو عام طور پر بولی سمجھی جاتی ہے ۔ لہذا جدید اردو زبان کے نفاذ پر کام کیا جائے۔ آج ہم جگ ،گلاس، پلیٹ کے الفاظ کو اردو زبان میں قبول کر چکے ہیں تو اس میں کیا قباحت ہے۔  کسی کو پرانی زبان پڑھنی ہے تو اسے اپنے شوق سے بطور مضمون پڑھ سکتا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اپنی ہی زبان میں پڑھتے اور بولتے ہیں ۔۔وہ انکی اپنی زبان آج کی جدید زبان ہوتی ہے ۔ صدیوں پرانے الفاظ زبردستی سے بول چال میں شامل نہیں کیئے جاتے۔ متروک الفاظ کا ذخیرہ ہر زبان میں ہوتا ہے ۔ اسے زبان کی  بے عزتی نہیں سمجھنا چاہئے۔  
آسان اردو زبان میں سرکاری کاغذات کی تیاری احکامات عدالتی فیصلے اسناد ہونگے تو عام اور کم پڑھے لکھے آدمی کو بھی دھوکا دینا آسان نہیں ہو گا۔ وہ ہر بات کو زیادہ سے زیادہ سمجھ سکیں گے اور انگریزی زبان میں دی گئی چکر بازیوں سے بچ سکیں گے۔  زبان کسی بھی قوم کی سوچ ہوتی ہے اس کی تہذیب ہوتی ہے اس کا طرز زندگی ہوتی ہے اس کی مکمل شناخت ہوتی ہے ۔ گزشتہ دنوں عدالتی کاروائی کی براہ راست نشریات نے وکلاء کی قابلیت اور علمیت کا بھانڈا چوراہے میں پھوڑ دیا ۔ کہ کیسے یہ انگریزی کی بیساکھیوں کے سہارے اپنے  سائلیں کو بلا وجہ سالہا سال تک عدالتوں میں رولتے ہیں ۔ بیگناہوں کو اپنی نااہلیوں کے سبب جیل کی کال کوٹھریوں میں سسک سسک کر مرںے پر مجبور کر دیتے ہیں جبکہ یہی کیسز کسی اہل وکیل کے ہاتھ میں ہو تو تو وہ ان بیگناہوں کو چار چھ پیشیوں میں ہی آزاد کروا چکا ہوتا ۔ جبکہ انگریزی کا پردہ سائلین کی آنکھوں پر ڈال کر یہ وکلاء معصوم لوگوں کواپنا بکرا سمجھ کر روز کاٹتے اور روز بیچتے ہیں۔ یہاں تک کہ دستاویزات میں ایسی ایسی چالبازی کے نکات مکاری کیساتھ شامل کیئے جاتے ہیں کہ عام ان پڑھ تو چھوڑیئے، اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگوں میں سے بھی شاید ہی کسی نے انکے وہ پلندے پورے پڑھے ہونگے ، سمجھنے کی تو بات ہی جانے دیں ۔ سائل سو فیصد اپنے وکیل پر اعتماد کے سہارے عدالت میں قانون کا سہارا لیتا ہے اور وکیل اکثر نہ صرف اپنے سائل سے منہ مانگی رقمیں بٹورتا رہتا ہے بلکہ جب چاہتا ہے مخالف پارٹی کو اس مجبور اور بے خبر سائل کا کیس بیچ دیتا ہے ۔ وہ سائل جو اپنے حق کی فتح کے لیئے انتظار میں ایک ایک دن کر کے اپنی زندگی کے قیمتی سال  گنوا رہا ہوتا ہے، اپنی صحت اپنا سکون ، اپنا پیسہ گنوا رہا ہوتا ہے، وہیں اسکا وکیل دھڑلے سے اپنا بینک بیلنس ، اپنی توند ، اپنے کوٹھی کا سائز ،اپنی زندگی کی رنگینیاں بڑھا رہا ہوتا ہے۔ اسے حلال سے غرض نہیں مال سے غرض ہے۔  غور کیجیئے تو اس ساری واردات میں جس چیز کو ان واردتئے وکلاء نے استعمال کیا وہ کیا تھی ؟ وہ تھی زبان ۔ایک بیرونی زبان انگریزی میں اپنے لوگوں کی زندگیوں کو کبھی تل تل  سلگایا جا رہا ہے، کبھی دہکایا جا رہا ہے۔  چیف جسٹس صاحب ،قاضی القضاء صاحب 76 سال سے ہماری قوم کو اس زبان کی انگیٹھی پر  سلگانے والوں کو قرار واقعی سزا دیجیئے اور اس قوم کی اپنی قومی زبان کو اس کا درجہ اور حق دلوا کر اس زبان کے دھوکا جال سے ہمیں آزاد کروا دیجیئے، تو یہ قوم تاقیامت آپکی احسان مند رہے گی۔  ہر صوبے میں اس کے سائل کی مرضی کے مطابق اسے اپنی صوبائی زبان میں یا قومی زبان میں اپنے وکیل کو بات کرنے اور دستاویزات بنا کر دینے کا بھی پابند کیجیئے۔ تاکہ لوگوں تک انصاف بھی پہنچے اور پوری بات بھی پہنچے۔ اس زبان میں جو انکی ماں بولتی ہے، جو ان کا باپ بولتا ہے۔ جو ان کا استاد بولتا ہے ۔ 
                     ۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات، 27 جولائی، 2023

تعلیمی ادارے یا گناہوں کا اڈا / کالم

تعلیمی ادارے یا گناہوں کا اڈا
تحریر۔
(ممتازملک۔پیرس)

میں اب تک اس سکینڈل پر اپنی کوئی رائے اس لیئے نہیں دینا چاہتی تھی کہ ہمارے ملک میں پروفیشنل جیلسی میں لوگ ایک دوسرے کے کاروبار پر، اداروں پر ، کردار پر کیا کیا کیچڑ اچھالتے ہیں اور کیسے کیسے رقیق حملے کرتے ہیں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ۔ ایک طرف اس یونیورسٹی کی ترقی کے قصے ہیں تو دوسری جانب یہاں گندگی کی کہانیاں ۔۔
میں نے آج تک بہاولپور نہیں دیکھا ۔ 25سال سے فرانس میں مقیم ہوں ۔ اس کافر ملک میں ہم نے آج تک انتظامیہ کی سرپرستی میں ایسی خبریں کبھی نہیں سنیں ۔ اور ایک ہے ہمارا اسلامی جمہوریہ پاکستان جس میں عورت سے بڑا کوئی کاروبار ہی نہیں ۔ عورت سے بڑی کوئی سیڑھی نہیں ۔ عورت سے آگے کسی کے دماغ میں اور کوئی سوچ ہی نہیں ۔ اس میں دین سے دوری نے آج کا دن دکھایا ہے ۔ ہر تعلیمی ادارے میں غلاظتوں کے قصے عام ہیں ۔ دین کے ٹھیکیدار ٹھنڈے ملکوں میں اسلام پھیلانے کے ڈرامے کر رہے ہیں اور اپنی منجھی تھلے ڈانگ پھیرنے کو تیار نہیں ہیں ۔ اپنا ملک کفر میں ڈوبا ہوا ہے۔ پاکستان میں ہر شخص کو ایک کافر کی طرح اس دین کا مطالعہ کرنا ہوگا اور پھر سے اسلام قبول کرنا ہو گا۔ ایک غیر مسلم کی طرح اس دین کی امان میں آنا ہو گا۔ وگرنہ ہمارے ملاوں نے یا تو دہشت گرد پیدا کیئے ہیں یا پھر اپنی ضد میں کاٹھے انگریز کھڑے کر لیئے ہیں ۔ ہمارے یورپ میں پیدا ہوئی نسل جب ہم  سے پوچھتی ہے کہ یہ ہے آپ کا اسلامی جمہوریہ پاکستان ؟
تو شکر ہیں ہم یہاں نہیں رہتے۔۔۔ یہ سنکر ہمارا دل کتنے ٹکڑوں میں تقسیم ہو جاتا ہے اور ہم جیتے جی زمین میں گڑ جاتے ہیں ۔ پاکستانی بے حس قوم سوچ بھی نہیں سکتی 😪
مائیں فیشن اور موج مستی میں لتھڑی ہوئی ہیں  اور باپ ریڑھی سے لیکر افسری تک زیادہ سے زیادہ حرام کمانے میں مصروف ہے ۔ انکے بیٹے بیٹیاں پھر کچھ بھی کر لیں کوئی حیرت نہیں ۔ یہ یاد رہے کہ یہ سب اسی کمائی کے کمالات ہیں ۔ گن پوائنٹ پر کچھ بھی نہیں ہو رہا۔ حرام کے نوالے حرامی اولاد کی صورت آپکے سامنے ضرور کھڑے ہوتے ہیں ۔ یہ اللہ کا حساب کتاب ہے جو ہو کر رہتا ہے۔ 
اس طرح کے کسی بھی واقعے کی تہہ میں جا کر دیکھیں تو یہ بس جوانیاں کہیں عیاشی کے لیئے، تو کہیں ٹائم پاس کے لیئے، کہیں ایکسائٹمنت کے نام پر تو کہیں تجسس کے تحت ان تمام گناہوں کا بخوشی شکار ہونے جاتے ہیں ۔ نہ ان میں کوئی لڑکا اغواء کر کے لیجایا گیا ہے اور نہ ہی کوئی لڑکی زبردستی لیجائی گئی ہے ۔  اس تعلیمی ادارے کو ٹارگٹ کرنے سے باقی سبھی تعلیمی ادارے پارسا ثابت نہیں ہو جائینگںے۔  جب آپکی اولاد نے کاغذی ڈگریوں کی دوڑ میں 18 سال کی عمر تک بھی اپنا جیب خرچ تک اپنی محنت سے اور کسی ہنر سے کمانا نہیں سیکھا وہ 25,30 سال کی عمر میں بھی باپ کی کمائی پر عیش کر رہی ہے۔ لیکن کپڑے اور موجیں انہیں مارک اور برانڈز والی چاہیئے تو انکے پاس اپنے جسم کو دکان بنانے کے سوا ہوتا ہی کیا ہے۔ پھر جب ان دکانوں پر چھاپہ پڑتا ہے تو کئی دوپٹے اور پگڑیاں عہدیداران کے پیروں میں جس عزت کی دہائی دیتے ہوئے گرائے جاتے ہیں ۔ وہ عزت تو کب سے قفس عنصری سے پرواز کر چکی تھی ۔ اب اس بت کو چاہے جلا دیں ، دفنا دیں یا سولی چڑھا دیں ۔ اللہ کی رسی کھینچی جا چکی ہے۔  
                    -------

بدھ، 17 مئی، 2023

بلیک لسٹ قانون ۔۔۔کالم

 
بلیک لسٹ قانون واحد علاج
تحریر:
  (ممتازملک۔پیرس)

آج جو کچھ اس ملک میں ہو رہا ہے ۔ فتنے نے اپنے پنجے کہاں کہاں گاڑے ہیں ۔ یہ سب کچھ ایک ہی رات میں یا چند روز میں برپا نہیں ہوا ۔ یہ کہانی پچاس سال پر محیط ہے ۔ جبکہ اس خطرے کی بو کب سے محسوس ہو رہی تھی۔ 
میں گزشتہ دس سال سے یہی سب کچھ دکھا رہی ہوں اپنی تحریروں میں۔ بیانوں میں۔  جس کے بدلے مجھے کیسے کیسے کردار کشی کے حملوں کا سامنا کرنا پڑا، اس دہشت گرد جماعت کے کارندوں سے۔ انکی غلیظ اور لمبی زبانیں گٹر سے زیادہ ناپاک ہیں۔  تو انکی سوچیں ہر فکر سے دور۔ بلکہ سوچ کا انکے پاس سے گزر تک نہیں ہوا ۔ انکے پاس کسی کے ہر سوال کا جواب یہ ہے کہ اپنے منہ کا گٹر کھول دو ۔۔۔۔۔اگلا جواب کے بجائے اس کی بو سے ہی میلوں دور بھاگ جائے ۔ 
ایک بات اور لکھ کر رکھ لیجیئے۔ فتنہ خان کی ڈوری جمائما (پاکستان کی بدترین دشمن) ہلاتی ہے اور جمائما اس را ئیل کی ہیروئن ہے پاکستان تباہی کے منصوبے میں ۔ یہ فتنہ خان بطور عیاش مرغا 70ء کے عشرے میں ہی اپنے پہلے برطانوی دورے میں اگلوں کی نگاہوں نے چن لیا تھا جو اپنی عیاشی کے لیئے کسی بھی حد تک گر سکتا تھا۔ سو کام اسی وقت شروع کر دیا گیا ہے ۔ جس کا عروج آج ہم دیکھ رہے ہیں اور جس کا انجام خدانخواستہ 2030ء سے پہلے پہلے پاکستان کا نام نقشے سے مٹانا ہے ۔ اور جو گندی نسل وہ ہمارے تعلیمی نصاب، مادر پدر آوارہ لوگوں کی تقرریاں بطور استاد ، سکولز بشکل کاروبار عام کروا چکے ہیں اور والدین آنکھ  کے اندھوں کی طرح بچے انگلش میڈیم میں ٹھونستے رہے ہیں ۔ یہ جانے بغیر کہ وہاں پڑھایا کیا جاتا ہے؟ اب نتیجہ نکل آیا ہے کہ نہ دین نہ ایمان ، نہ کردار نہ تہذیب ، نہ شرم نہ حیا، نہ علم نہ عمل، نہ جغرافیہ نہ سائنس ۔ تیار ہوئے یہ زونبیز۔۔۔یہ زونبیز تیار ہو کر اپنے ہی گھروں میں ٹائم بم بن چکے ہیں ۔ اب جہاد اپنے ہی ملک میں ان زونبیز کے خلاف کرنا لازم ہے ، اگر ہمیں یہ ملک بچانا ہے ۔ ورنہ مجھے تو کچھ اچھا دیکھنے کی امید ہی رہیگی۔ اس ملک کو بچانے کے لیئے مزہبی جماعتوں تحریک لبیک۔ جماعت اسلامی ۔ اور مولانا فضل الرحمٰن کو ہی آگے لانا پڑیگا ۔ اس ملک کو برگروں سے، اس فتںے سے پاک کرنا ، کرونا سے بچاؤ جیسا ہی ہے ۔ بہت سوں کو درگور ہونا پڑیگا۔ وقت جب حساب لینے پر آتا ہے تو پھر چھوٹی چھوٹی لغزشوں کا بھی بیرحم حساب کتاب کرتا ہے ۔
ملک کے اندر ہر جماعت جب پرتشدد کاروائیوں میں ملوث پائی جائے ۔ اسے کلعدم قرار دیا جائے ۔ موجودہ واقعات میں ہر آدمی کو بلا لحاظ و تفریق مرد، عورت، جوان، بڈھا۔۔۔ اسے گھسیٹ کر قانون کے کٹہرے تک لایا جائے فوجی عدالتوں میں دہشت گردی کی دفعات کے تحت ان پر مقدمات آڈیو وڈیو تصویری شواہد کیساتھ پیش کیئے جائیں۔ ہر مجرم کو کم سے کم دس سال اور زیادہ سے زیادہ سزائے موت سنائی جائے ۔ اس کی تمام منقولہ و غیر منقولہ جائیداد بحق سرکار ملکی قرضوں اور املاک کی مد میں ضبط کی جائے ۔ جس کی جائیداد نہیں اس کے گردے جگر آنکھیں جو کچھ عطیہ ہو سکتا ہے ۔ اسے سزائے موت دیکر عطیہ کر دی جائیں ۔ چاہے بیچ کر پیسے خزانے میں جمع کرائے جائیں۔ سزاؤں کو بلا تفریق امیر غریب اونچی نیچی کلاس اور ذات پات کے عبرتناک اور یقینی بنائیے ۔ کیونکہ ملک ٹھٹھوں اور قانون کیساتھ کھلواڑ کے ساتھ نہیں چلا کرتے۔ نہ ہی ملک بار بار آزاد ہوا کرتے ہیں۔ اس کی آزادی کی حفاظت ہم سب کا فرض ہے ۔ سزاؤں کا  بند باندھیئے اس مادر پدر آزادی پر۔ 
ملک سے باہر پاکستان کی عزت و وقار کی دھجیاں اڑانے والے جمائما کے کرائے کے ۔۔۔۔کے لیئے بڑا قدم اٹھانے کا وقت آ چکا ہے ۔  فوری  قانون بنائیئے اور نافذ کیجیئے ۔کسی بھی جماعت کی حکومت اس قانون کو تبدیل نہ کر سکے ۔ کہ وہ تارکین وطن جو کسی بھی ملک میں پاکستان کے وقار کے خلاف کسی بھی قسم کی کاروائی میں ملوث پایا گیا ،گئی ۔ پاکستان کے کسی بھی ادارے کے خلاف کسی قسم کے جلسے جلوسوں نعرہ بازیوں میں شامل ہوئے ، یا سوشل میڈیا کے کسی بھی پلیٹ فارم سے  پاکستان یا اسکے اداروں کے خلاف بکواس کی گئی یا کسی بھی پاکستانی چاہے وہ سیاسی، سماجی، مذہبی، میڈیا سے متعلق ہو، اس پر آوازے کسے گئے یا اسے ہراساں کیا گیا ۔ تو ایسی ہر صورت میں وہاں کے سفارت خانے کو تین روز کے اندر اندر اس شخص کو پاکستان کے پاسپورٹ اور نادرا کارڈ سے ہمیشہ کے لیئے فارغ کر دیا جائے ۔ اسے پاکستان کے قانون میں بلیک لسٹ کر دیا جائے ۔ اب وہ ساری زندگی پاکستان نہیں جا سکتا ۔ نہ زندہ نہ مردہ۔ کچھ لوگ کہیں گے یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے تو کچھ کہیں گے کہ یہ تو دنیا کے کسی ملک میں نہیں ہوتا ۔ تو ان سب کو ایک ہی جواب دیجیئے کہ انسانی حقوق انسانوں کے ہوتے ہیں اور جن کو سزا ملی ہے انہیں انسان کہنا بھی انسانیت کی توہین ہے۔ انکے ہمدرد اپنے ممالک میں اس کی کرتوتوں کو فالو کر لیا کریں ہمیں کوئی اعتراض نہیں اور رہی بات کسی اور ملک میں ایسا نہ ہونا تو انہیں یاد دلائیں کہ دوسرے ممالک میں جو ہوتا ہے وہ ہمارے ہاں بھی نہیں ہوتا ۔ اس لیئے جو ہمارے ہاں ہو رہا ہے اسے ہم اپنے حالات و واقعات کے تناظر میں دیکھیں اور پرکھیں گے ۔ کسی کے پیٹ کا مروڑ پاکستانی دور کرنے والے نہیں ہیں۔ 
 خدا پاکستان کی حفاظت فرمائے.آمین
  (ممتازملک ۔پیرس)

بدھ، 10 مئی، 2023

آگ اور آئینہ ۔ کالم

آگ اور آئینہ
تحریر:
    (ممتازملک۔پیرس)

پی ٹی آئی کے دہشتگردوں نے کل لاہور کی تاریخی عمارت  جناح ہاؤس کو آگ لگا کر محمد علی جناح کو خراج تحسین پیش کیا اور جناح ہاؤس کی مسجد کو آگ لگا کر اللہ کے گھر اور دین کو اپنے ریاست مدینہ کا نمونہ بنا دیا۔ حکومت اب انہیں اس خراج تحسین کا انعام کب دیتی ہے  ؟
ساری قوم منتظر ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
معاف کر دیجیئے گا  قائد اعظم!
 آپ نے اس نسل کے لیئے تاعمر جد وجہد کر کے گھر حاصل کیا جسے کسی نالی میں رہنے کا بھی کوئی حق نہیں تھا ۔۔۔۔
یہ وہ دو نمبر نام نہاد مسلمان تھے جنہیں کسی غیر مسلم کے منہ سے نبی پاک ص ع و کی توہین جانے بغیر بھی غیرت دلا کر انکے قتل کروا دیتی ہے ۔ جنہیں خود کبھی مسلمان لفظ کا مطلب سیکھنے کی توفیق نہیں ہوئی ۔ یہ بے دین اور بے کردار ہجوم اور ریوڑ ٹھیکہ لے رہے ہیں ریاست مدینہ کا تو پھر ہمیں ایسی ریاست مدینہ نہیں چاہیئے۔ ۔۔۔ 
انا للہ وانا الیہ راجعون 
(ممتازملک۔پیرس)

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/