ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک
کالمز آنے والی کتاب لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
کالمز آنے والی کتاب لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

منگل، 21 مارچ، 2023

عورت کی گھریلو ناکامیاں ۔ کالم ۔ خواتین



   عورت کی گھریلو ناکامیاں 
     (تحریر/ممتازملک ۔پیرس)

ہمارے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں  عورت کو اپنے شوہر اور اپنی سسرال کی نفسیات کے تناظر میں انہیں ہینڈل کرنا آنا چاہئے ۔
ہماری مائیں اپنی بیٹیوں کو یہ تو سکھاتی ہیں کہ میاں کو کیسے قابو کرنا ہے یا عرف عام میں کیسے نیچے لگانا ہے لکن یہ سکھانا بھول جاتی ہیں کہ سب کے دل کو کیسے قابو میں کرنا ہے ۔ میاں کے گھر پہنچتے ہی دنیا بھر کی خبریں اور خصوصا بری خبریں اس کے کان میں پھونکنا، گھر داری سے جان چھڑانا، کھانے پکانے سے جان چھڑانا، مرد کے غصے میں برابر کی زبان چلانا، اپنے اور اس کے گھر والوں کا ہر وقت بلا ضرورت  کا تقابل کرتے رہنا ،اپنے میکے کو بھرنے میں لگے رہنا، اپنی آمدنی سے ذیادہ کے شوق پالنا، ہر عورت کا اپنی بہن کو اچھے عہدے یا کمائی والے دیور سے بیاہنے کے جبری منصوبے، اس کے گھر والوں کو نظر انداز کرنا،
یہ سب باتیں میاں بیوی کے رشتے میں زہر بھرنے کا باعث بنتی ہیں ۔ ہم ہر بات کا الزام مردوں یا شوہر کے  سر پر ڈال کر بری الذمہ نہیں ہو سکتے ۔
ہمارے سامنے آنے والے کئی گھریلو تشدد کے واقعات  بیحد افسوسناک ہیں، لیکن ان سب حالات کا کوئی دوسرا رخ بھی ضرور ہو گا ۔ اگر حالات ایسے خوفناک رخ پر جا رہے تھے ، لوگ اتنے برے تھے، شوہر اتنا جابر تھا تو کیوں طلاق نہیں لی ان بہنوں نے ؟ سو ہر بات پر جذبات کے بجائے عقل  کا استعمال کیا جائے تو بہت کچھ واضح ہو جاتا ہے ۔۔بجائے اس کے کہ طلاق کو ایک کلنک کا ٹیکہ سمجھ کر تو احتراز کیا جائے لیکن قاتل یا قاتلہ کا جھومر سر پر سجا لیا جائے ۔ کیا مطلقہ ہونا یا طلاق دینا  قاتل یا قاتلہ بننے سے بھی زیادہ قابل نفرت ہے ؟ تو کیا اللہ نے ایک قابل نفرت کام کی اجازت دے رکھی ہے ؟
پھر یہ کہنا کہ حالات ایسے تھے، ویسے تھے طلاق نہیں لی جا سکتی تھی تو اس صورت میں دو ہی کام ہو سکتے ہہں یا تو صبر کیجیئے یا قتل کر دے یا  قتل ہو جائے ۔۔۔آپ اسے اگر حل سمجھتے ہیں تو ۔۔ معاشرے کو یہ بات ذہن نشیں کرانی ہو گی کہ طلاق لینا ایکدوسرے کو قتل کرنے سے ہزار گنا بہتر ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیبیوں بیٹیوں اور صحابیات نے جو عمل کیا اسی میں معاشرے کی بقاء ہے ۔ کئی نام نہاد مسلمان جو دین کی بنیاد تک سے نابلد ہیں وہ بہت زور و شور کیساتھ عورت مرد کی بحث میں اپنی ذاتی پسند اور ضرورت کے معاملات پر  غیر اسلامی فتوے تھوپ کر خود کو عالم ثابت کرنے کی کوشش کرنے میں اپنا زور بیان صرف کرنے میں مصروف رہتے ہیں ۔ جو کم علم اور دین سے نابلد لوگوں کے لیئے کھلی گمراہی کا سبب بنتا ہے اور وہ ان نیم ملا جیسی معلومات سے معاشرے میں شر پھیلانے کا سبب بھی بنتے ہیں ۔ جیسا کہ ان کے نزدیک طلاق دینا بس مرد کا حق ہے عورت خود سے اپنے شوہر کو چھوڑنے کا کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی ۔ چاہے وہ کیسا ہی کیوں نہ ہو۔ جو کہ صریحا گمراہی ہے ۔ دین اسلام کو دین فطرت اسی لیئے کہا گیا ہے کہ اس میں صرف مرد یا عورت نہیں بلکہ ہر انسان کی فطرت میں شامل عادات و خصائل کو مد نظر رکھ کر قانون سازی کی گئی ہے اور احکامات مرتب کیئے گئے ہیں ۔ اور کسی کے ساتھ رہنا یا نہ رہنا زندگی کا سب سے بڑا اور سب سے اہم فیصلہ ہوتا ہے اس میں اللہ تعالیٰ کے قوانین میں ناانصافی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ ایسی باتیں کرنے والے خود اللہ پاک پر جانبداری کی تہمت کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ انہیں دن کا علم حاصل کرنا چاہیئے ورنہ کسی قابل عالم سے ایسے معاملات میں رائے لینا چاہیئے ۔ طلاق دینا مرد کا حق ہے تو خلع لینا اس کے برابر کا حق ہے جو اللہ پاک نے عورت کو دے رکھا ہے ۔ اگر وہ اپنے شوہر کیساتھ خوش نہیں ہے یا محفوظ نہیں ہے یا وہ اسکی جانب سے مسائل کا شکار ہے تو وہ اپنا حق خلع استعمال کر سکتی ہے ۔ جیسا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دو صاحبزادیوں کے لیئے انکی رخصتی سے قبل ہی استعمال کروایا ۔ کیونکہ اسلام آ چکا تھا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اعلان نبوت فرما چکے تھے اور جہاں طلاق سے متعلق احکامات نازل ہو چکے تھے وہیں خلع کا حق بھی عورت کے لیئے دیا جا چکا تھا ۔ 
 اسے گالی کی حیثیت دیکر ان سب معزز خواتین کی توہین مت کیجیئے ۔ یہ بات سمجھ کر ہی ہمارے معاشرے سے قتل و غارت کا خاتمہ ہو گا ۔اور یہ کام ہماری ماؤں کو کرنا ہو گا جو اپنے کنوارے تو کیا چار بار بیاہے ہوئے  بیٹے کے لیئے بھی ان ٹچ  18 سالہ دوشیزہ ڈھونڈنے پر تلی رہتی ہیں ۔ لیکن کسی مطقہ یا بیوہ لڑکی کو نا تو باکردار سمجھتی ہیں اور نہ ہی گھر بسانے کے لائق ۔ انہیں یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے  کہ ایک جوڑے میں جدائی کی وجہ ان میں سے کسی کا بدکردار ہونا یا گھر نا بسا سکنا ہو بلکہ اس کی اور بھی بے شمار وجوہات ہو سکتی ہیں ۔ ان کا ذہنی طور پر ایک دوسرے کو قبول نہ کرنا بھی اس کی ایک بڑی وجہ ہے اور ان سب سے بڑی اور مستند وجہ تو یہ ہے کہ اللہ پاک نے اس جوڑے کے درمیان اس رشتے کا وقت ہی اتنا لکھا تھا ۔ پھر وہ چاہتے یا نہ چاہتے انہیں الگ ہو ہی جانا تھا۔ چاہے اس کی وجہ کچھ بھی اور کتنی بھی معمولی بات ہی کیوں نہ بن جاتی ۔۔۔ 
                   ۔۔۔۔۔۔۔  

اتوار، 26 جون، 2022

● شدید موسم کا روہوں پر اثر/ کالم



 شدید موسم کا رویوں پر اثر
 (ممتاز ملک ۔پیرس)

 فرانس میں ہفتے بھر سے بہت زیادہ گرمی پڑ رہی ہے درجہ حرارت 40 ڈگری تک جا پہنچا ہے۔ جہاں بھی دنیا بھر میں گرمی شدید ہو چکی ہے وہاں  بلا ضرورت گھر سے نہ نکلیں ۔  باہر نکلنا پڑے تو چھتری پانی کی بوتل  دھوپ کی عینک  لیکر نکلیں ۔ ہلکے  کپڑے جیسے کاٹن لان یا لیلن کے کپڑے پہنیں ۔  بار بار پانی پیئیں ۔ سر پر گیلا چھوٹا تولیہ رکھنے کہ عادت ڈالیں ۔ 
پاکستان ہو یا کوئی بھی ملک ہر جگہ محنت کرنے والوں کو گھروں سے باہر  نکلنا پڑتا ہے۔  موسم اور اپنے شعبے کے حساب سے اپنی حفاظت کرنا پہلی ترجیح ہونی چاہیئے جو کہ خصوصا پاکستان میں تو تصور ہی نہیں ہے  ۔ انکی توجہ بھی دلواتے رہنا چاہیئے۔ ان شدید موسموں میں بھی رزق کی تلاش میں نکلنے والوں کے گھروالوں اور خصوصا انکی بیویوں کو ان کا پیسہ خرچ کرتے وقت خدا کا خوف رکھنا چاہیئے ۔ اور اپنی فضول خرچیوں پر قابو رکھنا چاہیئے ۔ ویسے بھی  بلا ضرورت بازاروں کے چکروں سے پرہیز میں بہت سی حکمتیں پوشیدہ ہیں عقل والوں کے لیئے۔ 
کام سے یا باہر سے واپس آنے والوں کو خاص طور پر اس موسم میں اور عام طور پر بھی گھر میں داخل ہوتے ہی اپنے دن بھر کے رونے سنانا شروع کرنا سب سے بڑی جہالت ہے۔ جس میں ہماری خواتین پہلے نمبر پر ہوتی ہیں ۔ سارے دن بھر کے تماشے ،نقصانات ، عذاب کام سے لوٹنے والے کو سنانے والے یقینا اس کے دوست نہیں ہو سکتے ۔ کیونکہ انکی خواہش یہی ہو سکتی ہے کہ گھر آنے والا پھڑک کر مر جائے۔ اسکا دماغ پھٹ جائے،  ان کے دن بھر کی رپورٹ سنکر۔ خدا کا خوف بس یہ ایک بات ذہن میں بٹھا لیں تو آپ ایسے شیطانی کاموں سے یقینا بچے رہیں گے۔ کام سے  گھر واپس آنے والے/والی کو مسکرا کر سلام دعا کریں ۔  اسے پانی پلائیں ۔ نہانے دھونے کا موقع دیں ۔  چائے کھانے کا پوچھیں ۔  سونا چاہے تو کچھ آرام اور سونے اونگھنے کا موقع دیں ۔  رات کے کھانے کے بعد پھر اچھے  اور محتاط لفظوں میں اسے ضروری مسائل سے آگاہ کریں ، ساتھ میں تسلی بھی دیں کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ بچوں کو بھی سختی سے  اس بری عادت سے بچائیں کہ باپ بھائی گھر آئے تو آتے ہیں اس کے کان کیساتھ چپک کر زمانے بھر جھوٹے سچے قصے صور کی طرح اس کے کانوں میں پھونکنے سے پرہیز کریں ۔ آپ کی نظر میں یہ معمولی بات ہو گی لیکن  عادت بڑے بڑے فسادات اور قتل و غارتگری کا موجب بن سکتی ہے۔  گھروں میں رشتے ٹوٹ جاتے ہیں ۔ کیونکہ گھر سے باہر کام کر کے واپس آنے والا کن کن مسائل سے نپٹ کر آ رہا ہے ؟ اسکی ذہنی حالت کیسی ہے؟  اس کی پریشانی کیا ہے ؟ کسی سے لڑ کر تو نہیں آ رہا؟ اس کا کام تو نہیں چھوٹ گیا؟ آج اس کا کام کاج اچھا گیا کہ نہیں ؟  کہیں جیب تو نہیں کٹ گئی؟ کوئی حادثہ تو نہیں ہو گیا؟ سو معاملات ہو سکتے ہیں لیکن آپ ان سے بلکل انجان ہیں ۔ اور اپنی زرا سے لاپرواہی یا بیوقوفی میں آنے والے کو مزید تلملانے کا موقع فراہم کر دیتے ہیں ۔ اس کا جس پر بس چلے گا وہ اسی پر اکثر بلاوجہ اپنا غصہ نکال دیگا۔ گھر کا ماحول تناو کا شکار ہو جائیگا ۔ ہو سکتا ہے کان بھرنے والی یا والے کو ہی پھینٹی لگ جائے۔ 😜
 اس کے علاوہ پودوں کا خیال رکھیں ان کی دھوپ چھاوں کا خیال رکھیں ۔  انہیں پانی پلاتے رہیں ۔ پرندوں کے لیئے کسی سایہ دار جگہ پر دانے پانی کا انتظام کیجیئے۔ ثواب کمائیے۔ 
یقین کیجیئے  چھوٹی چھوٹی باتیں اور احتیاطیں  بڑے بڑے سکھ لاتی ہیں ۔ 
                    ●●●


ہفتہ، 4 جون، 2022

● عہدوں اور مراعات کی لوٹ سیل/ کالم

عہدوں اور مراعات کی لوٹ سیل
 آئیے اسکی آڑ میں قوم کا خون چوستے ہیں 👺👹☠
         تحریر: (ممتازملک ۔پیرس)

دنیا میں اگر کوئی سب سے باوقار اور باعزت شعبہ ہے تو وہ ہے محافظ کا ۔ جو آپ کو زندگی کا اعتبار وحوصلہ لوٹاتا ہے۔ جینے کی امنگ عطا کرتا ہے ۔ بیمار کی دوا ہوتا ہے محافظ، لیکن اس وقت تک جب تک یہ دوا مرض کی تشخیص کے بعد معالج کے مشورے کے مطابق تجویز کردہ خوراک کے مطابق ہی دی جائے ۔ بصورت دیگر اسی دوا کی خوراک کو بے حساب کر دیا جائے تو اس مریض کے لیئے یہی دوا شفا نہیں بلکہ پاگل پن اور موت کا سبب بھی ہو سکتی ہے ۔
یہی سب کچھ ہماری معیشت کیساتھ سرکاری ملازمین  وزراء ججز اور فوجی عہدیداروں کی صورت میں ہو رہا ہے ۔  جو دوا کے بجائے اس قوم کے لیئے زہر قاتل بن چکے ہیں لہذا اب جب ملک تباہی کی دلدل میں دھنس چکا یے یہ اقدامات اٹھانا اشد ضروری ہو چکے ہیں جیسے کہ
▪︎پاکستان میں فوری طور پر ہر سرکاری عہدیدار جیسے وزراء ججز  اور فوجی عہدیداروں کو مفت بجلی گیس  پٹرول کی فراہمی بند ہونی چاہیئے۔ 
▪︎انہیں ملنے والے مفت کے گھریلو ملازمین کی عیاشی بند ہونی چاہیئے ۔
▪︎انہیں ملنے والے جہازی سائز کے بنگلوں کا کرایہ خزانے سے جانا بند ہونا چاہیئے۔
▪︎انکے اور انکے خاندانوں کے ہسپتالوں کے اور سفری اخراجات کو بند کیا جائے۔
▪︎ دو بار کی ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی بھی سرکاری و غیر سرکاری عہدہ یا نوکری رکھنا غیر قانونی قرار دیا جائے ۔ انہیں صرف رضاکارانہ سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت ہونی چاہیئے۔
▪︎ ریٹائرڈ برگیڈیئرز جرنیلوں کرنیلوں  ججز سے سبھی عہدے فی الفور واپس لے لیئے جائیں جو اس قوم کے حقداروں کی نوکریوں پر قبضہ کیئے بیٹھے ہیں ۔
 پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں ایک ایک آدمی دس دس عہدے دبائے بیٹھا ہے جو نہ صرف جونک بنا قومی خزانہ چوس رہا ہے بلکہ عام عوام پر اپنے عہدوں کی جگہ ریٹائرڈ فوجی عہدوں کی دھونس جما کر بدمعاشی کا مرتکب بھی ہو رہا ہے۔ 
جب یہ تمام مفت خورے اپنے پلے سے اپنا گھر اور گاڑی چلائینگے گے تبھی یہ اس قوم کے عام آدمی کے ساتھ خود کو جوڑ پائینگے اور انکے مسائل سمجھ پائینگے۔ 
ہمارا ملک ابھی ان عیاشیوں کا کسی طور بھی متحمل نہیں ہو سکتا ۔ 
آخر اسی ملک میں یہ تمام شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ کس خوشی میں مفت مہیا کیئے جاتے ہیں ۔ ان عہدوں پر ہوتے ہوئے تو انہیں مراعات کی اندھی بارش میں نہلایا ہی جاتا ہے لیکن مسئلہ اس وقت اور بھی سنگین ہو جاتا ہے جب انکی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان پر بیشمار نوازشات تادم مرگ جاری رہتی ہیں ۔ جیتے جی ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جس ملک میں لوگ ماہانہ ہزاروں روپے بمشکل کما پاتے ہیں وہاں یہ خدائی فوجدار عہدیدار نوکریوں پر ہوتے ہیں تو ہر ماہ  لاکھوں کماتے ہیں اور رہٹائر ہو کر دس دس نوکریوں پر آکاس بیل کی طرح پھیل کر چمٹ جاتے ہیں اور ہر ماہ کروڑوں روپے ملکی معیشت سے چوسنے لگتے ہیں ۔ گویا ان پر یہ کہاوت سو فیصد صادق آتی ہے کہ جیتا ہاتھی لاکھ کا تو مرا ہوا سوا لاکھ کا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر بچے کے پیدا ہوتے ہی اسکے والدین کا پہلا خواب پوتا ہے سرکاری نوکری۔۔ مطلب تاعمر کی مفت روٹیاں ۔ یقین مانیں اگر ان سارے عہدوں سے یہ تمام مالی عیاشیاں نکال دی جائیں تو ہر سال ایک ایک کرسی کے لیئے جو سینکڑوں بھرتی درخواستوں کا بوجھ پڑتا ہے وہ بھی خود بخود کم ہو جائے گا اور بیکار و بے مصرف لوگوں کی چھانٹی بھی ہو جائے گی۔ اس وقت صرف اور صرف اہل اور محنتی افراد ہی اس  نوکری کے لیئے خود کو پیش کرینگے جو اس ملک کی حقیقی خدمت کرنا اپنے ایمان کا حصہ سمجھیں گے ۔ 
                  ●●●

پیر، 30 مئی، 2022

● فوری اور ضروری قانون سازی/ کالم

فوری اور ضروری قانون سازیاں
تحریر: 
(ممتازملک ۔پیرس)


25 مئی 2022ء  کو پاکستان میں ہونے والے ایک سیاسی جماعت کے تماشے نے بہت سے سوالات کھڑے کر دیئے ہیں ۔ عوامی و سرکاری املاک اور انسانی جانیں اس قدر سستی ہیں کہ جس کا جی چاہے دو چار ہزار جرائم پیشہ افراد کو لاکر جلاو گھیراو کریگا اور سپریم کورٹ کے ججز اس کے سامنے بچھتے چلے جائیں گے۔ اس کا فیڈر بنانا شروع کر دینگے۔ ان ججز کو جواب دینا پڑیگا کہ وہ اس عہدے پر اس قوم کو انصاف مہیا کرنے کے لیئے آئے ہیں یا کسی کی جماعت بنکر اسے خوش کرنے کے لیئے؟
کیا ان ججز کے نامناسب اور غیر حقیقی  فیصلوں نے ہی اس قوم کو آج کے حالات تک نہیں پہنچایا ؟ ان کو اتنا ہی شوق ہے سیاست کرنے کا تو ججز کے عہدے چھوڑیں اور کھل کر سیاست کریں قاضی جیسے محترم اور معتبر عہدے کو بدنام تو نہ کریں ۔ کوئی بھی سیاسی جماعت  یا حکومت اس بات کا حق نہیں رکھتی کہ وہ عوامی مفادات اور ملکہ سالمیت کے خلاف کوئی بھی قدم اٹھائے ۔  
حکومت وقت فوری قانون سازی کرے کسی بھی شہر میں آبادی میں کسی بھی قسم کا سیاسی اور مذہبی جلسہ جلوس دھرنا بین کر دیا جائے۔ ہر شہر سے باہر کچھ زمین ان مقاصد کے لیئے مختص کر دی جائے۔ پھر کوئی وہاں جتنے دن بھی اپنے احتجاج ریکارڈ کروانا چاہے، بیٹھنا چاہے،  لیٹنا چاہے اس بات کی اجازت لیکر کرے۔ لیکن ملکی سرکاری  اور عوامی املاک کو نقصان پہچانے والوں کو سخت سے سخت سزائیں دیکر نمونہ عبرت بنایا جائے۔ 
عدلیہ اور افواج پاکستان  کو حکومتی کاموں میں مداخلت سے باز رہنے کا حکم باقاعدہ قانون بنا کر  دیا جائے ۔
پرویز خٹک نے جس طرح وزیر اعلی کے بجائے عمرانڈوز بنکر پنجاب اور اسلام آباد پر چڑھائی اور قتل عام کا پروگرام بنایا اس کا زور ان کی بارود اور اسلحے کی بھری ہوئی گاڑیاں پکڑ کر کسی حد تک حکومت نے توڑ تو دیا لیکن اب اس کی جانب سے اعلان جنگ کا بھرپور جواب دینے کے لیئے ایسے شرپسندوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم دیا جائے۔ ان کے سرکاری عہدے ان سے واپس لیئے جائیں۔ انکے خلاف غداری ایکٹ کے تحت مقدمات درج کیئے جائیں اور فوجداری قوانین ان پر لاگو کیئے جائیں ۔ 
ایسے حالات میں  صوبوں کے بارڈرز سیل کرنے کا حکم دیا جانا چاہیئے ۔ یہ ملک کسی کے باپ کا اکھاڑہ نہیں ہے کہ یہاں کے عوام کی جانیں اور املاک ایسے ملک دشمنوں  کے لیئے پلیٹ میں رکھ کر پیش کر دی جائیں ۔ لہذا سپریم کورٹ اور فوج اس جماعت اور اس کے لیڈر کی نیپیاں بدلنا بند کرے اور پاکستان اور پاکستانی عوام کے حق میں عدل کرنا سیکھے۔ اور اگر ہمارے ججز اور جرنیل اس قابل نہیں ہیں تو استعفے دیں اور جا کر اپنے لوٹے ہوئے خزانوں کے بل پر بنے محلوں میں عیش کریں ۔ خدا کے لیئے پاکستان کو تجربہ گاہ بنانے سے توبہ کر لیں کیونکہ الحمداللہ پاکستان کا برا چاہنے یا کرنے والوں کے مقدر میں صرف اور صرف ذلت اور رسوائی ہی آئی ہے۔ 
                  ●●●

جمعہ، 13 مئی، 2022

● محبت لفاظی نہیں عمل / کالم


محبت لفاظی نہیں عمل 
تحریر: (ممتازملک ۔پیرس)

مجھے ماوں کیساتھ ہونے والی زیادتیوں پر اکثر مردوں سے سننا پڑتا ہے کہ  ایسی بات نہیں ھے ماں کے قدموں میں جنت ھے بدنصیب ھے وہ انسان جو اپنی ماں کی خدمت اور احترام نہ کرے۔ پوچھنا یہ ہے کہ کیا  صرف احترام سے ہی پیٹ بھر جاتا ہے ؟ بدن ڈھک جاتا ہے؟ دوا مل جاتی ہے؟
یہ تو وہی بات ہوئی کہ کسی کے سامنے سات رنگ کے پکوان پروس دیئے جائیں لیکن اس کے ہاتھ اور منہ باندھ دیا جائے۔کس کام کے پھر یہ پکوان اس بھوکے کے لیئے؟
جب بھی اپنی ماں اور اپنے بچوں کی ماں کے سر پر اس کے اپنے نام کی چھت کا مطالبہ کیا جائے تو 
کمال کا جان چھڑاو جواب ملتا ہے ہمیشہ کہ جناب سب کچھ اسی کے لیئے تو ہے ۔ جبکہ سوال وہیں قائم رہتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں کتنے فیصد اپنی بیویاں یا اپنی مائیں ایسی ہیں جن کے سر پر ان کے اپنے نام کی چھت ہے؟ کچھ نے کہا کہ 
 گھر اسے ہمارے باپ نے دے دیا تھا ۔ سوال پھر وہیں کا وہیں ہے کہ اپنے نام سے اس بیچاری کو کیا ملا؟ تمام عمر کی قربانیوں کے بدلے کبھی باپ کا گھر پھر میاں کا گھر پھر بیٹے کا گھر ۔ وہ تو  ہمیشہ غیر محفوظ اور خالی ہاتھ  ہی رہی۔  
سچ تو یہ ہے کہ محبت لفاظی نہیں عمل کی متقاضی ہے۔ 
سو جس ماں کے قدموں میں آپکی جنت ہے۔ اس کے سر پر اس کے  اپنے نام کی محفوظ چھت کیوں نہیں ہو سکتی؟
پھر مجھے (نہ جانے کیا سمجھ کر) پاکستان میں عورت اور خصوصا ماں کے رتبے پر بلند و بانگ دعوے سنائے جاتے ہیں ۔ اس کی عزت و وقار کے گن گائے جاتے ہیں ۔ تو عرض یہ  ہے کہ میں بھی اسی پاکستان سے آئی ہوں ۔ ہر کلاس کی عورت کو جانتی ہوں اور ان کی اس پرسنٹیج کو بھی ۔ جہاں بیٹیاں قران سے  بیاہنے والے جائیداد بچانے  کی فکر لیئے بیٹھے ہیں ۔ 
بھائی بہنوں کی جائیدادیں ہڑپ کر جاتے ہیں۔ باپ بھائی بیٹی کو جہیز دیکر اس کے حصے کی شرعی ملکیت دبا جاتا ہے۔ بیوہ بھابیوں کا مال ان کے دیور جیٹھ ملائی سمجھ کر کھا جاتے ہیں ۔ مائیں گھروں میں بچے پلوانے تک نوکروں جیسی حالت میں رکھی جاتی ہیں  ۔یہ ہے ہماری نوے فیصد اصلیت ۔اس سے نظر مت چرائیں پلیززز۔ مانیں گے مرض
 تو ہی علاج کر پائیں گے اسکا ۔۔
والدین کا گھر صرف باپ ہی کے نام تھا نا۔ کتنے ہیں جن کی اپنی بیوی یا اپنی ماں کے نام کوئی گھر ہے؟
ڈرامے بازی نہ کریں تو  حقیقت کی زمین پر بیچاری گود سے گور تک دوسرے کے گھروں میں در بدر ہی رہتی ہے یہ ہے سچ۔۔۔
ایک بڑا اچھا نقطہ اٹھایا گیا کہ اگر ماں یا باپ کے نام کوئی گھر خرید کر دیا جائے تو باقی سارے مفت خورے بہن بھائی اسے وراثت بنا کر مفت کا حصہ بٹورنے کے لیئے عدالتوں اور قبضوں کے کھیل کھیلنے لگتے ہیں۔ جبکہ اس مکان کی خرید کسی ایک بہن یا بھائی کے پیسے سے ہوئی تھی۔  اس کے علاج کے لیئے پاکستان میں سرکاری طور پر بھی قانون میں  کچھ تبدیلی کی اشد ضرورت ہے ۔ جس کے تحت کسی بھی گھر کی یا کسی بھی جائیداد کی خرید کے وقت کاغذات میں ایک خانہ موجود ہونا چاہیئے جس میں لکھا جائے کہ یہ جائیداد کون اپنے پیسے سے خرید کر اپنے والد یا والدہ کے نام کر رہا ، رہی ہے ۔ اور ان کی وفات کے بعد یہ جائیداد خود بخود خرید کر دینے والے  نام پر منتقل ہو جائے۔ اس کا مضبوط انتظام قانونی کاغذات سے مکان تاعمر انکے نام ہو ۔ انکی وفات کی صورت یہ مکان خرید کر دینے والے کو واپس منتقل ہو جائے ۔
 اور اگر وہ خریدنے والا نہیں رہا تو یہ جائیداد  اس کی بیوی یا شوہر کے نام ہو جائے ۔ اور اگر اس کی بیوی یا  شوہر بھی نہیں رہی، رہا (موت یا طلاق کی صورت) تو اس کی اولاد کے نام ہو جائے۔ ماں کے نام گھر ہو۔ وہ ساری زندگی بلا شرکت غیرے اپنی مرضی سے اسمیں رہے ۔ لیکن اگر وہ گھر اسکی کسی اولاد نے خرید کر دیا ہو تو وہ  گھر وہ کسی کو بھی نہ بیچ سکتی ہے نہ ہی کسی  کے نام کر سکتی ہے۔ اس کی وفات کے بعد یہ گھر جس نے خرید کر دیا اسی کی ملکیت میں واپس چلا جائے گا۔  خودمختاری یہ ہو گی کہ وہ اگر میرے خرید کر دیئے ہوئے گھر میں مجھے بھی نہ آنے دینا چاہے تو مجھے اس کی اس بات کا بھی احترام کرنا ہے ۔ زبردستی اس کی زندگی میں اس گھر میں گھسنے کہ کوشش نہیں کرنی ہے۔ وہ اس کے کسی حصے میں کرایہ دار بھی ساتھ رکھنا چاہے تو رکھ سکتی ہے ۔ اس کی آمدن کو اپنے لیئے استعمال کر سکتی ہے۔ میں امید کرتی ہوں کہ یہ تحریر صاحب اختیار لوگوں تک ضرور پہنچے گی اور وہ اس پر قانون میں تھوڑا بہت ردوبدل کرتے ہوئے عوام کو آسانی مہیا کرنے میں اپنا کردار ادا کرینگے۔ اس وقت تک جائیداد ماں کے نام کرنے والے خود قانونی کاغذات بناتے وقت یہ ضروری شق شامل کروا کر اپنی جائیداد کو محفوظ بنا سکتے ہیں اور عدالتوں میں فاضل مقدمات بننے کی راہ کو روک سکتے ہیں ۔ 
                  ●●●

ہفتہ، 7 مئی، 2022

شرک اور ہمارا تغافل۔ کالم



شرک اور ہمارا تغافل
(تحریر/ممتازملک.پیرس)

آج جب دین کو سمجھنا یا جاننا آوٹ ڈیٹڈ تصور کر لیا گیا ہے ۔ مذہب کو زندگی پر بوجھ سمجھ لیا گیا ہے ۔ ہر ایک خود اپنا اپنا دین ایجاد کرنے میں مصروف ہے۔ اللہ پاک کا بھیجا ہوا دین انہیں ان کی من مرضی کرنے میں رکاوٹ لگنے لگا ہے ۔ ان کی اوارگیوں اور غیر اخلاقی اعمال کو ایک عنوان بھی چاہیئے اور اپنے مردہ ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیئے دین کے نام پر کوئی جواز بھی مہیا کرنا ہے تو ہر من گھڑت بات کو بغیر کسی تصدیق کے اپنے من چاہے کے بیان پر دین کا نام دینے کی کوشش کرنا ایک تباہ کن  رواج بنتا جا رہا  ہے ۔ جس میں ساری دنیا محض مرد اور عورت کا جسم بن کر رہ جائے گی ۔ نہ کوئی رشتہ سلامت رہیگا اور اخلاقی تنزلی کا تو اب بھی کوئی پرسان حال نہیں رہا اور مذید  کیا تباہ ہو گا؟
 یہ بات ہم سب مسلمانوں کو سمجھنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے ۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم  سمیت سبھی انبیائے کرام  اللہ پاک کے محبوب و محترم اور معصومین ہیں ۔ لیکن وہ خدا سے  آگے نہیں ہیں  اور خدا کو  ان کے مشورے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ جبکہ ہمارے تفرقے بازوں اور حلوہ خوروں اور کئی شعراء نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم  کے علاوہ بھی صحابہ اور اولیاء اللہ اور تو اور کئی نے علمائے وقت تک  کو اپنے اپنے لیئے مخصوص کر کے ان کی شان میں وہ وہ  قلابے ملائے ہیں کہ اگر اس پر غور کرنے کی توفیق مل جائے تو ہمیں کسی اور  کو مشرک کہنے کی قطعی کوئی ضرورت ہی نہ رہے ۔
ہر شخص خود کو مسلمان بھی کہتا ہے اور اپنی ہر محب ہستی کو نعوذ باللہ اللہ کے برابر کی کرسی پر بٹھانے کو بھی بےچین نظر آتا ہے ۔۔لیکن وہ شرک نہیں کرتا اس پر بھی اڑا ہوا ہے ۔۔۔خدا کے لیئے خالق اور مخلوق کے فرق کو سمجھو ۔ خالق صرف ایک ہے باقی دنیا کی اچھی سے اچھی اور حسین سے حسین مخلوق ہو ، چاہے بری سے بری اور  بدصورت سے بدصورت مخلوق ہو سب اس کی تخلیقات ہیں ۔ اگر کسی کی عزت اور مقام اللہ پاک نے زیادہ رکھا ہے تو بیان بھی فرما دیا ہے کہ اسکی وجہ صرف اور صرف اس کا تقوی ہے ۔ اور تقوی کیا ہے؟  تقوی یہ ہے کہ اچھائی اور  نیکی کے کاموں میں ایکدوسرے سے آگے ہونا ۔ اپنے قول فعل اور کردار میں بہترین ہونا ۔ حلال کاموں میں بھی جس میں ذرا سا بھی  اللہ کی ناراضگی کا شائبہ تک ہو اس سے بچنے کی کوشش کرنا ۔ یعنی ایک ہی مثال کو کافی سمجھیئے کہ انسان دنیا میں گناہوں سے پاک پیدا ہوتا ہے ۔ اس کا کردار سفید لباس جیسا ہوتا ہے اور جب سفید کپڑوں میں انسان کیچڑ والی جگہ سے  مجبورا بھی گزرتا ہے تو اپنے لباس کو سمیٹ لیتا ہے۔ اپنے پائنچے چڑھا لیتا ہے تاکہ اس کیچڑ کا کوئی چھینٹا اس کے لباس کو داغدار نہ کر دے ۔ بس یہ ہی ہے ایک متقی اور اللہ کی محبت اور قرب پانے کا یہی ہے واحد طریقہ ۔ کہ دنیا کے کیچڑ میں اپنے کردار کے سفید لباس کو داغدار ہونے سے بھی بچایا جائے اور سفر بھی جاری رکھا جائے۔  اسے ہی تقوی کہتے ہیں جو اللہ پاک بار بار قران پاک میں ارشاد فرماتا ہے ۔ 
اس لیئے آج مسلمانوں کو اللہ پاک ، اور نبیوں کے مقام کو سمجھے اور شرک کا مطلب جاننے کی اشد ضرورت ہے ۔ 
اپنے محبوب سے محبوب ہستی سے محبت ضرور کیجیئے ان کا احترام بھی کیجیئے ۔ لیکن یہ یاد رکھیئے کہ پیغمبروں اور  نبیوں کے علاوہ دنیا کی کوئی نیک سے نیک ہستی ایسی نہیں ہے جو گناہوں سے یا غلطیوں سے پاک ہو ۔ یہ سب انسان ہیں ۔ اور اللہ پاک کے عطا کردہ بشری تقاضوں میں مجبور ہوتے ہیں۔
اللہ پاک ہم سب کو اسلام کی سمجھ اور ہدایت عطا فرمائے۔ آمین
                    ●●●

بدھ، 3 نومبر، 2021

● مسکراہٹیں بکھیرنے والے/ کالم

        مسکراہٹیں بکھیرنے والے
      تحریر:
                (ممتازملک ۔پیرس)



منور ظریف، رنگیلا، عمرشریف ‏، معین ‏اختر، امان ‏اللہ، ببو برال، مستانہ ، البیلا، شوکی خان اور ان جیسے بہت سے نامور کامیڈینز ۔۔۔۔۔۔
جنہوں نے غربت کی گود میں آنکھ کھولی۔ گھروں سے فاقہ مستیاں اور بدحالیاں دیکھ کر ہوش سنبھالنے والے بچپن سے گزرے۔ 
اکثر کو تو سکول کا منہ تک دیکھنا نصیب نہیں ہوا۔ ان میں سے ہر ایک بچہ بھوک و افلاس کی گود سے اٹھ کر  نشئی تماشائی نہیں بنا چور اور لٹیرا نہیں بنا ۔ اپنے وقت کو بدلنے کے لیئے انہوں نے کوئی شارٹ کٹ نہیں اپنایا ۔ اپنے آنسووں سے قہقہے نچوڑ کر اس نے دکھی لوگوں کو مسکراہٹیں بانٹیں ۔ ان کی تو پوری زندگی ایک روشن مثال ہے ۔  حکومت سندھ نے عمر شریف کی تدفین انکی خواہس پر کی تو وہاں کی ایک سڑک کو بھی انکے نام سے منسوب کر دیا ۔ جس پر کچھ دل جلوں کو شدید اعتراض ہوا ۔ان سب سے سوال ہے کہ
ہمارے ہاں منافق معاشرے میں  تو لوگ سگے ماں باپ کے مسکراہٹ چھین کر جوان ہوتے ہیں وہاں عمر شرہف جیسے لوگ ہمیں پھر سے مسکرا کر زندگی میں آ گے بڑھنے کا حوصلہ دیتے ہیں۔ اس لیئے میں حکومتی فیصلہ کی تائید کرتی ہوں ۔یہ ایک اچھا فیصلہ ہے  ۔ 
مجھ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ اپنے بچے کو بھانڈ میراثی بنانا پسند کرینگی؟ تو ان سب کو  میرا یہی  جواب ہے کہ
ایک دہشت گرد بننے سے ، سمگلر بننے سے، قاتل و زانی  بنبے سے،  چور اور ڈکیت بننے سے  کروڑہا بار اچھا ہے کہ انسان ایک ایسا بھانڈ میراثی ہی بن جائے۔ جو اس معیار پر شگفتگی کو لیجائے، جنہوں نے اپنے آنسووں سے قہقہے نچوڑے اور دنیا کے غموں کو ہلکا کرنے کے لیئےانہیں اپنی شگفتگی کا کندھا پیش کردیا۔
دنیا میں ان کی زبان جاننے والے اردو پنجابی ہندی بولنے اور سمجھنے والے ان کے اس خزانے سے ہمیشہ خوشیوں کے موتی چنتے رہینگے۔  اور اپنے غموں سے باہر نکلنے کے لیئے ان  کی زندگیوں کو روشن مثال بنا کر اپنے سامنے رکھیں گے ۔ آج ہی  کے کیا ہر دور میں جہاں ماں باپ کی جدائی یا وفات کا یا غربت کا بہانہ بنا کر اولادیں نشے تماشے اور بدکاریوں کا شکار ہو جاتی ہے ۔ جہاں جرائم کی دنیا کے یہ استاد بن کر ساری زندگی لوگوں کے  لیئے بدنامی اور عذاب بن جایا کرتے ہیں ۔ جہاں ان کی دہشت اور  بدنامیوں سے تنگ انکے اپنے بھی انکے نام کیساتھ اپنا نام جوڑنا پسند نہیں کرتے وہاں ان  ناموں کے مسکراتے چراغ ہمیشہ روشنی بکھیرتے رہی گے۔ جگنو بنکر راستہ دکھاتے ہیں گے ۔ کسی نے 4 سال کی عمر سے مزدوری کی ۔ کسی بے جوتے پالش کیئے۔ کسی نے اخبار بیچے۔ کسی نے بسوں میں میٹھی گولیاں بیچیں ۔ کبھی کام نہ ملا تو راتوں کو بھوکے پیٹ میٹھے سپنوں کے سہارے بسر کر لیا۔ لیکن خود کو کبھی کہیں گرنے نہیں دیا ۔چوریاں نہیں کیں ۔ کسی کی جیب نہیں کاٹی ۔ کہیں ڈاکہ نہیں ڈالا ۔ کسی امیر آدمی کی بیٹی کو بہلا ہھسلا کر اسے گھر سے زیورات لانے کا کہہ کر اسے کسی کوٹھے پر  نہیں بیچا ۔ گھر داماد بنکر کسی کے مال مفت پر آرزوں کے مینار کھڑے نہیں کیئے ۔ بلکہ محنت اور ایمانداری کے ساتھ اللہ پر توکل کیئے ہر محنت مشقت کے بعد اپنے شوق میں ہی اپنا رزق تلاش کرتے رہے اور یوں اللہ کو ان پر جب پیار آیا تو اس نے انہیں ان کی نیتوں اورمحبتوں کا ثمر چھپر پھاڑ کر دیا ۔ دنیا میں انہیں ان کے فن مزاح کا وہ مرتبہ عطا کیا کہ جس کا تصور کوئی بڑے سے بڑا اعلی تعلیم یافتہ مزاح نگار بھیں نہیں کر سکتا  ۔ یہ بچے جنہیں اسکول کا منہ بھی دیکھنا نصیب نہیں ہوا تھا انہیں ان کے مطالعے اور لوگوں کو انکی حرکات و سکنات کو پڑھنے اور انہیں اپنے زہن میں اتارنے کی خوبی نے اوج ٹریا تک پہنچا دیا ۔اب جو بھی کوئی مزاح کے میدان میں آئے گا وہ ان سب سے ہی ان کے کام سے سیکھ کر ہی آئے تو آئے وگرنہ ان جیسا کام اب اور کسی کے بس کی بات نہیں ۔ یہ کرم خاص خاص لوگوں ہر ہی ہوا کرتے ہیں ۔اور ایسے لوگ صدیوں ہی میں کہیں پیدا ہوا کرتے ہیں ۔بیمثال ۔ بہترین ۔ نایاب اور کامیاب  لوگ ۔۔۔۔۔۔۔۔
                       ●●●

جمعہ، 28 مئی، 2021

● مسلم ‏اقلیت ‏نظر نہیں ‏آتی؟/ ‏کالم

      
          مسلم اقلیت نظر نہیں آتی؟
         (تحریر:ممتازملک۔پیرس)
             

دنیا بھر میں انسانی حقوق کی ٹھیکیدار تنظیمات کو ہر اقلیت کا اس ملک میں دکھ اور اس پر خوردبینی  زیادتی نظر آ جاتی ہے جہاں  مسلم اکثریت آباد ہے ۔ لیکن دنیا بھر میں مسلمانوں پر بطور اقلیت جو جو خوفناک مظالم ڈھائے جاتے ہیں یا ڈھائے گئے ہیں اس سے یہ تنظیمات خود کو اندھا گونگا اور بہرا کیسے کر لیتی ہیں ؟
کیا پسند کی شادی کر کے مسلم ہونے والی لڑکی کا غم اس سے زیادہ ہے جہاں مسلم عورتوں اور بچیوں کیساتھ اجتماعی زیادتی کے جرائم اعلانیہ کیئے گئے۔ 
کیا کسی غیر مسلم کا کہیں کسی جھگڑے میں مارا جانا اس سے زیادہ بڑی خبر ہے جہاں بیگناہ معصوم لوگوں کو محض مسلم ہونے کی پاداش میں گاجر مولی کی طرح کاٹ کر عالمی میڈیا نے خوب خوب داد سمیٹی؟  
کیا یورپ اور امریکہ جو کسی جھوٹے انسان کو محض غیر مسلم اقلیت کا لیبل دیکر کیش کرانے اور اس مسلم ملک کو بدنام کرنے کی کوشش کرتا ہے اسے کشمیر ، فلسطین اور روہنگیا کے ہاں خوفناک جنگی جرائم  کا شکار ہونے والے یتیم بچے عورتیں مرد  نظر نہیں آتے ؟ 
کیا ببوسنیا اور شام میں قتل ہونے والے مسلمان انسان نہیں تھے؟
کیا یورپ بھر میں امریکہ میں تعصب کے ہاتھوں قتل ہونے والے اور  بے عزت ہونے والے اقلیتوں کا شمار انسانوں میں نہیں ہوتا کیونکہ وہ مسلمان تھے۔ 
کاش کہ عالمی انسانیت کے ٹھیکیدار انسانیت کے عظیم فلسفے میں جانبداری کا زہر نہ گھولتے تو شاید دنیا امن کا گیوارہ ہوتی ۔ 
غیر مسلم قوتوں نے ہمیشہ اقلیتیوں کے لیئے آواز سیاسی شعبدہ بازی کے طور پر اٹھائی ۔ حکومتوں کو بلیک میل کرنے کے لیئے اور اپنے وقتی مفادات کے حصول کے لیئے۔ ورنہ ابو الغریب کی جیل میں صرف مسلمان ہونےکی پاداش میں انسانوں کو غیر انسانی سلوک کا شکار نہ بنایا جاتا ۔ ورنہ افغانستان میں چالیس سال سے انکے قتل عام اور تباہی کو بھی عالمی جرائم میں شمار کیا جاتا اور عالمی طاقتوں کو اس کا جواب اور حساب  دینا پڑتا ۔ 
لیکن مسلمانوں کے لیئے ایک دوسری عدالت کا فیصلہ اور اس کی حقانیت پر انکا یقین ہی انکی اصل طاقت ہے ۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمات اپنی جعلسازی جاری رکھیں ۔ 
دنیا بھرمیں یہ ڈرامہ انسانی حقوق تنظیمات مسلم اقلیتوں کے اوپر ہونے والے  مظالم پر منہ میں گھ گھنیا ڈال کر بیٹھ جاتے ہیں اور جہاں ان کے کانوں پر  ڈالرز اور یوروز کی چوٹ پڑتی ہے تو غیر مسلموں  ہی کیا ان کے کسی کتے کی موت پر آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا ہے ۔ پھر چاہے وہ غیر مسلم خود ہی چیخ چیخ کر کہتا رہے کہ میرے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا لیکن یہ بینڈ خاموش ہونے کا نام نہیں لیتا ۔ جب تک کہ کسی مسلم ملک کو باقاعدہ نشانہ بناا کر اس جرم میں نشان عبرت نہ بنا دیا جائے ۔ اور اس کی عوام کو دنیا بھر میں زرخرید میڈیا کے ذریعے خوب بدنام نہ کر لیا جائے ۔ سچ کہیں تو آج کے دجالی فتنہ پرور میڈیا کا کام ہی مسلمانوں کی نسل کشی اور انہیں ہر لحاظ سے نقصان پہنچانا ہی ہے ۔ کیونکہ اسے چلانے والے غیر مسلم  عالمی اجارہ دار اسے اپنا مذہبی فریضہ سمجھ کر ہی انجام دیتے ہیں ۔ جب مسلمان ایسا کوئی مذہبی فریضہ ادا کرنا چاہے تو اسے دہشت گرد قرار دیکر  دیوار سے لگا دیا جاتا ہے ۔ انسانی حقوق کا نام لیکر ایسا تماشا دنیا کے لیئے کوئی نئی بات نہیں ہے۔
                    ●●●

ہفتہ، 10 اپریل، 2021

● روحانیت ‏سے ‏شیطانیت ‏تک/ ‏کالم


       روحانیت سے شیطانیت تک
         (تحریر: ممتازملک۔پیرس)

دنیا میں ہر انسان بیک وقت دو دنیاوں کا سفر کر رہا ہوتا ہے ۔ ایک اس کی جسمانی دنیا اور ایک اس کی روحانی دنیا ۔
ہر ایک کا سفر دوسرے سے جدا ہوتا ہے ۔ ہر ایک کے درجات دوسرے سے الگ ہوتے ہیں ۔
بہت ممکن ہے ایک ہی ماں کی کوکھ سے جنم لینے والا ایک انسان عظمتوں  کے مینارے تعمیر کر رہا ہو اور اسے لمحے میں اسی  ماں کی دوسری اولاد شیطانیت کو  شرمسار کر رہی ہو۔ 
کچھ لوگوں کا سفر دنیا خریدنے  اور اسے مذید سے مذید تر اپنی جیب میں اور پیٹ میں بھرنے کے لیئے وقف ہوتا ہے ایسا انسان نہ کسی رشتے کا سگا ہوتا ہے اور نہ ہی خدا کی لکھی تقدیر کا قائل۔  اسے بدبخت بھی کہا جا سکتا ہے ۔جو اپنے رشتوں کو اپنے لیئے آہنی دیوار بنانے کے بجائے ریت کی ڈھیری میں بدل لیتا ہے ۔ اور جب بھی مٹھی کھولتا ہے خود کو خالی ہاتھ ہی پاتا ہے ۔
اس عمل میں وہ شیطانی دنیا کے وہ وہ گر آزماتا ہے جو کبھی اسے شرک کا مرتکب کر دیتا ہے اور کبھی کفر کی دنیا کا فرد شمار کروا دیتا ہے ۔ وہ سمجھتا یے میری چالبازیاں میرے جادو ٹونے ، میری لمبی زبان اور میرا گندہ کردار لوگوں کو مجھ سے دہشت زدہ رکھے گا اور یہ کسی حد تک سچ بھی ہے۔  آپ نے اپنے ارد گرد ایسے بہت سے چلتے پھرتے شیطان صفت جسم دیکھے ہونگے جن پر ایک حدیث پاک صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ مفہوم سو فیصد صادق آتا ہے کہ " ایک وقت آئے  گا لوگ دوسروں کی عزت ان کے اچھے کردار اور طرز عمل کی وجہ سے نہیں کرینگے بلکہ انکے شر سے محفوظ رہنے کے لیئے کیا کرینگے ۔ "
یہ خود ساختہ اور نام نہاد کامیاب لوگ ہوتے ہیں ۔ انکی جیب میں پیسہ تو کسی اور کا ہوتا ہے ۔ لیکن پھوں پھاں  انکی زوردار ہوتی ہے ۔ یہ وہ خالی غبارے ہوتے ہیں جنہیں وقت کا بچہ جب چاہے حکم خداوندی سے پھونک مار کر پھلا لیتا ہے اور جب چاہے اسے ایک ہاتھ سے مار کر اسکا زبردست پٹاکا نکال سکتا ہے ۔  

دوسری جانب وہ لوگ جن کا سفر خیر کے لیئے روشنی کی لکیر کے لیئے طے ہوتا ہے ۔ وہ دل کے خالص ہوتے ہیں ۔
 اب ان کا نصیب کہ جسے انہوں نے اپنے نورانی منزل کا چراغ سمجھا وہ آخر میں جا کر ایک ٹرک کی بتی نکلا اور انکی راہ کھوٹی کر گیا ۔ وقت کا یہی تو اچھا پہلو بھی ہے اور برا بھی کہ یہ کبھی پلٹ نہیں سکتا سو اس شخص کے خلوص کے سفر کو کیا خاک میں ملا دیا جائے گا ؟ نور کا متلاشی کیا اندھیروں میں اتار دیا جائے گا ؟ 
نہیں۔۔۔ کیونکہ یہ تو رب العالمیں کی شان کے خلاف ہو جائے گا ۔ جبھی تو وہ فرماتا ہے کہ انما الاعمال بالنیات ۔ یعنی اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ۔ اور یہی بات اس نیک فطرت انسان کی روحانی سربلندی اور ذہنی سکون کے لیئے آب حیات کی سی حیثیت رکھتی ہے ۔ ایسے لوگ بے سکون نہیں ہوتے۔ ہار کر بھی مطمئن ہوتے ہیں کہ ابدی جیت کا وعدہ تو ازلی سے ابدی تک کے مالک نے خود ان سے کر رکھا ہے اور بیشک اس سے بڑا کون ہے اپنے وعدوں کو وفا کرنے والا ، حکومت کرنے والا اور راہنمائی فرمانے والا ۔ انتظار اور یقین کا یہ سفر بیحد صبر آزما تو ہے لیکن بے ثمر کبھی نہیں ہوتا ۔ اسی کو ایمان کہتے ہیں ۔۔
                    ●●●   

اتوار، 7 فروری، 2021

● می ‏لارڈ ‏توجہ ‏فرمائیں/ کالم

        

          
          می لارڈ توجہ فرمائیں  
       (تحریر: ممتازملک.پیرس)



ہم آہ بھی بھرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا 
جس پاکستان کے تھانوں میں عام آدمی صرف چالان نہ بھرنے پر اور ایف آر کٹوانے کے لیئے مہینوں خوار ہو جاتا ہے  جہاں  اپنی سائیکل کا چالان نہ بھر پانے پر معصوم لوگ سالہا سال سے جیلیں کاٹتے ہیں ۔ جہاں کے لائق وکیل اور جج صرف شک کی بنیاد پر ان کی زندگیوں کو تاریخ پر تاریخ کا کھیل بنا کر بیس بیس سال تک کھیلتے ہیں ۔ جہاں پیشی کا مطلب منشی کی جیب گرم کر کے اگلی تاریخ کی بھیک مانگنا ہے جبکہ معلوم ہے کہ اس اگلی تاریخ میں بھی یہ ہی ڈرامہ دہرایا جائے گا ۔ جہاں عام آدمی کو کبھی  جج سے بھی براہ راست اپنا مدعا بیان کرنا توہین عدالت قرار دے دیا جاتا ہے ۔ جہاں لوگ اپنے حق کے چار دن کی پنچایت میں ہو جانے والے فیصلے والے معاملات کے لیئے اپنی گاڑھے خون پسینے کی کمائیاں بھر بھر کر کبھی دیوانے ہو جاتے ہیں کبھی دیوالیہ تو کہیں اپنی جان کی بازی ہار جاتے ہیں لیکن می لارڈ آپ کو کیا پتہ جس قیدی کو کل آپ نے معصوم قرار دیکر اپنی طرف سے بہت مہربانی فرماتے ہوئے صرف 20 ہا تیس سال بعد ہی بری کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے وہ کئی سال قبل ہی اس قید خانے میں اپنی زندگی کی بازی ہار چکا ہے ۔ 
اور آپ کے لیئے وہ قیدی چچچچچچچ کے سوا اور کسی رد عمل کا نہ قائل تھا نہ قابل۔۔
اس ملک میں اگر کوئی خاتون کشمالہ طارق بن جائے تو اس کا بیٹا چاہے نشے میں دھت ہو ، چاہے کسی کی عزت اپنے پیروں میں کچل دے اور چاہے کسی کی جوانیاں زندگیاں اور امیدیں اپنی عالی شان گاڑی کے پہیوں کے نیچے روند جائے ۔ اسے  تو چار ہی گھنٹوں میں ضمانت بھی مل جائے گی اور ہماری پولیس فورس اس کی حفاظت و تواضح بھی فرمائے گی ۔ آخر کو وہ قوم کا عظیم سپوت کچھ "غیر ضروری" لوگوں کو ہی کچل کر آیا تھا۔ بچہ ہے یہ تو بچوں سے ہو ہی جاتا ہے ۔ اتنا پیسہ ہے اتنے اختیارات ہیں  وہ اس وقت میں کام نہیں آئینگے تو اور کس وقت کام آئینگے ۔  وہ نوجوان ہی بیوقوف تھے انہیں معلوم ہونا چاہیئےتھا کہ پاکستان کی سڑکوں اور عدالتوں پر  پہلا حق یہاں کی ایلیٹ ٹائپ ایڈیٹس کلاس کا ہے جو ہمارے مال اور خون نچوڑ نچوڑ کر اسی لیئے تو پیدا کیئے جاتے ہیں کہ  ہم جیسوں کا اس ملک سے صفایا کر سکیں ۔ 
می لارڈ  آپ کی عدالتیں بھی طوائف کے کوٹھے سے کم ہر گز نہیں ہیں یہاں بھی جو نوٹ برساتا ہے گھنگھرو اسی کے لیئے بجتے ہیں اور طوائف کو اس سے کیا کہ نوٹ لٹانے والا کسی کی جیب کاٹ کر لایا ہے یا کسی کی گردن ۔۔۔
می لارڈ فرصت ہو تو کشمالہ طارق جیسی اعلی ہستیوں کے قاتل بیٹے کے ضمانت نامے کے آرڈرز پر چار گھنٹوں میں دستخط کرنے کے بعد ان مقدمات پر بھی رحم کی نظر ضرور ڈال لیجیئے گا جو سالوں سے آپ کی میز پر آتے ہیں اور جاتے ہیں کیونکہ آپ ان کے مقدر میں یہ کالک لکھ چکے ہیں کہ میرے جج ہونے تک تو تم لوگ اس عدالت سے فیصلہ پا کر نہ چھوٹے۔ 
می لارڈ ایک عدالت آپکی پیشی کی بھی منتظر ہے ۔ وہاں آپکو بچانے کے لیئے کون آئے گا؟
وہ کچلے ہوئے لاشے ، جیلوں میں ہی مر چکے معصوم،  عزتیں لٹوائے بیچارے ، مال و دولت گنوائے ہوئے دھوکے کھائے ہوئے بے یارومددگار پاکستانی ان کی آہیں اور سسکیاں انکے برباد خاندان کیا آپ کو دوزخ کی آگ سے باہر نکلنے دینگے ۔ قاضی کے منصب پر بیٹھا ہوا ہر شخص خدا کیوں بن جانا چاہتا ہے ؟ 

                             ●●●

بدھ، 3 فروری، 2021

● جبری انگریزی نصاب/کالم


             جبری انگریزی نصاب
               (تحریر: ممتازملک.پیرس)



ہم تارکین وطن پاکستانی خصوصا شعراء اور لکھاری دنیا بھر میں اردو زبان کی حفاظت اور پھیلاو میں تن من دھن وار رہے ہیں اور پاکستان میں ہمارے بچے انگریزی کے رٹے مار مار کر پاگل ہوئے جارہے ہیں ۔ انگریزی کیا قہر خداوندی ہے اس قوم پر؟
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ اردو کے ملک میں اردو کو بے آبرو کرنے والے لوگ تخت نشیں ہیں ۔ دنیا کی ہر زبان سیکھیں لیکن بطور زبان کے ۔
اسے بطور نظام تعلیم قوم پر مسلط نہ کریں ۔ کیونکہ دنیا کی کسی قوم نے کسی دوسرے کی زبان میں کبھی ترقی نہیں کی ۔ اس کی سب سے بدترین مثال پاکستان اور بھارت ہیں ۔ جو ساری عمر  انگریزی سیکھنے اور پھر انگریزی  کی غلطیاں نکالنے میں گزار دیتے ہیں ۔ یا پھر اس کا طرز زندگی سمجھنے اور اپنانے میں آدھے تیتر آدھے بٹیر بن کر نہ گھر کے رہتے ہیں نہ گھاٹ کے ۔ 
جسم پر پورا تھان لپیٹ کر سر کی ٹنڈ کروا کر ایک موٹی سی ماتھے برابر بندیا لگا کر سگریٹ کے کش لگاتی ہوئی خواتین وحضرات انگریزی فرفر جھاڑتے ہوئے خود کو کس جہان کا باسی ثابت کرنا چاہتے  ہیں ؟ 
شاید اس جہان کا نام ہے کنفیوز نگر
کیونکہ زبان بول چال کی سیکھنا اور بات یے اور زبان کا نظام تعلیم رائج کرنا گویا آپ نے اپنے زندگی کے ہر اثاثے کو ،انداز فکر کو، کھانا پینا رہنا اوڑھنا بچھونا سب کچھ اس تہذیب کے حوالے کر دیا ہے اور خود کو زیرو قرار دیدیا ہے ۔ انگریزی کو بطور زبان ضرور سیکھئے لیکن اس کی تہذیب میں ڈبکیاں مت لگایئے ۔ بس یہی سچائی ہے۔
اگر آپ نے کہا کہ انگلش بین الاقوامی زبان ہے جو ساری دنیا میں بولی جاتی ہے تو یہ بھی آپ کی ہی خام خیالی ہے اور آپ کے ہمخیال لوگوں نے ہی ایسا مفروضہ رائج کر رکھا ہے جبکہ حقیقت میں امریکہ کے چند ممالک اور انگلستان کے علاوہ شاذونادر ہی کسی ملک میں انگریزی بولی جاتی ہے ۔ اور نظام تعلیم تو کسی دوسرے کی زبان میں ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ ہمیں ضرورت ہے اسی لنڈے کی سوچ سے باہر نکلنے کی۔ 
 لیکن
 اسے ایک زبان کے طور پر بطور مضمون رکھنے میں کوئی قباحت نہیں ہے جو کہ لازمی نہیں اختیاری مضمون ہونا چاہیئے ۔
دنیا کا کون سا ترقی یافتہ ملک ہے جس نے اپنے ملک کی زبان کے بجائے دوسرے کے زبان  انگریزی میں ترقی کی ہے پلیز رہنمائی فرمائیں 
کیا فرانس ، جرمنی۔ اٹلی، سپین، سوئزرلینڈ، ناروے ،  ڈنمارک ،چین ، جاپان ، انڈونیشیا   وغیرہ وغیرہ 
اور کیا یہ سب ترقی یافتہ ممالک دوسری زبانوں میں اپنے طلبہ کو تعلیم دیتے ہیں ۔۔؟
وضاحت پلیز

اور اگر کسی کو سیکھنی ہے تو وہ بطور زبان سال بھر کا لینگویج کورس کر کے اسے بول چال کے قابل ہو سکتا ہے ۔ پھر اسے بچوں کی نصابی کتب میں ٹھونس کر انہیں زبردستی پڑھانے کی کیا تک ہے؟
یہ بات درست ہے کہ  آج کی نسل کی تباہی کی وجوہات میں دین سے دوری اخلاقی اقدار کا زوال اورمعاشی اور معاشرتی ناانصافی بڑے اہم عوامل ہیں لیکن ان وجوہات و عوامل کی تہہ میں جائیں تو معلوم ہو گا کہ دین سے دوری کا سبب بچوں کی تعلیم جبرا اس زبان میں دلوانا ہے جس کا ہمارے مذہب سے تہذیب سے معاشرت سے ہر گز کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔ وہاں پر انگریزی زبان کا قہر ہم پر قہر خداوندی ہی تو بن چکا ہے جہاں ہماری عقل پر قفل لگ چکا ہے ۔ اور ہم بے عقل، بے رشدو ہدایت بھاگے جا رہے ہیں بنا کسی منزل کے تعین کے ۔ ہم ہزار سال بھی انگریزی یا کسی اور زبان کے نظام تعلیم کیساتھ علم کے حصول میں دوڑتے رہیں تو بھی کبھی اس کی منزل نہیں پا سکتے اور اگر پالیں تو اپنے سارا تہذیبی دینی سماجی ڈھانچہ تباہ و برباد کر کے بلکہ خس و خاشاک کر کے ۔ کیا ہم یہ قیمت ادا کر کے خوش رہ سکتے ہیں یا آذاد قوم کہلا سکتے ہیں ؟ 

سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے پیارے پاکستان میں کوئی اردو بولنا چاہتا ہے ؟ کیا اردو بولنے والے کو ہندوستانی کا نام نہیں دیتے ہم لوگ ؟ کیا اردو زبان میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ جدید علوم کا ترجمہ کر سکے؟
جی ہاں  آپ کا درد دل آپ کی بات سے چھلکتا ہے ۔ پاکستان میں تحریک نفاذ اردو کے نام سے  تحریک بھرپور انداز میں کام کر رہی ہے اور قانونی طور پر اجراء کا فیصلہ بھی لے چکی ہے لیکن کچھ انگریزوں کے ذہنی غلام جو اپنے بچے پالتے ہی گورا صاب بننے کے لیئے ہیں وہ اسکے عملی نفاذ کی راہ میں سب سے بڑا روڑا ہیں کیونکہ انہیں ہر وقت اپنا بچہ گھوڑے پر سوار گورا صاب دیکھنے کا ارمان ہے اور پاکستانی قوم و  نسل ان کے گھوڑے باندھنے اور رگڑنے والے سائیس کے طور پر چاہیئے ۔ اس  وقت پاکستانیوں کی کمائیوں  کا ستر فیصد اپنے بچے کے منہ میں انگریزی ٹھونسنے اور اسے گورا صاب بنانے کی دوڑ پر خرچ ہو رہا ہے ۔ اور یقین مانیئے دنیا کی ہر زبان کے لفظ  کا ترجمہ کرنے کی صلاحیت اردو زبان   میں بدرجہ اتم موجود ہے ۔ ہم سب اسے غالب کے زمانے کی متروک اردو میں نہ ڈھالیں بلکہ اسے جدید اردو زبان میں (جو کہ رائج الوقت ہے میں) ڈھال کر بہت آسانی سے دنیا بھر کا علم اردو میں منتقل کر سکتے ہیں ۔ آج کمپیوٹر کے زمانے میں ایسا سوال کہ کونسی زبان کس زبان میں ڈھل سکتی ہے ترجمہ ہو سکتی ہے بالکل بچگانہ ہو کر رہ گیا ہے ۔ اصل مسئلہ جو زبان سے منسلک ہے وہ ہے ہماری شناخت اور تہذیب بچانے کا ۔ ۔ ہر زبان اپنی تہذیب آپکو سکھاتی ہے ۔ کوئی بھی زبان زبان کے طور پر سیکھیئے تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن اسے اپنی زندگی کا مقصد بنا کر اپنے گرد آکاس بیل بنا کر لپیٹ لیں گے تو یہ آپ کا سارے کا سارا ورثہ نچوڑ کر پی جائے گی ۔ یعنی گہرائی سے سوچیئے تو قومی  زبان کا نفاذ ہماری نسلوں کی ترقی یا  تباہی کا سوال ہے ۔
ہمارے ملک میں ترقی کے نام پر کمائی کا ستر فیصد حصہ انگریزوں کے نام نہاد پاکستانی  ایجنٹ پاکستانیوں سے نچوڑ رہے ہیں ۔ اور اس کی تہذیبی اور دینی بنیادوں میں انگریزی زبان کے زریعہ ان کی تہذیب کے زہریلے ٹیکے لگائے جا رہے ہیں  اور یہ تمام دولت پاکستان سے باہر  بیرون ملک بھیجی جا رہی ہے ۔ جب تک یہ بیرونی رسد نہیں روکی جائے گی ۔ انگریزی زہر طلب کے نام پر  یونہی بکتا رہیگا ۔ ہماری قوم ہر لحاظ سے تباہ و برباد ہوتی چلی جائے گی اور ہمارے دشمن ہمارا خون چوس چوس کر طاقت حاصل کرتے رہینگے ۔ اخلاقی زوال اور مذہبی تنزلی کی مثالیں ہر روز بلکہ ہر لمحہ ہمارے معاشرے میں ماتم کناں ہیں اور ان سب برائیوں کی جڑ تک جائیں تو اخلاقی اور دینی علوم سے دوری اور دوری کی وجوہات میں سب سے بڑا عذاب  جبری انگزیزی نصاب۔ 
                         ●●●

جمعہ، 22 جنوری، 2021

● تارکین ‏وطن کی ‏جائیداد ‏کے ‏لٹیرے/ ‏کالم ‏



   تارکین وطن کی جائیدادوں پر قبضے 
        (تحریر: ممتازملک.پیرس)



حکومت کی جانب سے تارکین وطن کے 
لیئے فاسٹ ٹریک کے نام سے عدالتی نظام وضح کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ جس کے ذریعے پاکستان میں تارکین وطن کی زمینوں پر ہونے والے قبضے چھڑانے کے لیئے تیس روز کے اندر فیصلہ سازی کو یقینی بنایا جائیگا ۔ یہ قبضے اکثر ان لوگوں کے رشتےداروں یا قبضہ مافیاز کے ذریعے کیئے جاتے ہیں ۔ یا پھر تارکین وطن کی جانب سے جائیدادوں کی فروخت کے لیئے جو بیعانہ وغیرہ لینے کا اختیار کے لیئے مختار نامہ عام دیا جاتا ہے ۔ لیکن افسوس یہی مختار نامہ یا اٹارنی حاصل کرنے والے ہی اس اجازت نامے کو مال مفت دل بیرحم سمجھ کر لوٹنے کا منصوبہ بنا لیتے ہیں۔ کہیں تو وہ ان جائیداوں کو مالک بن کر بیچ ڈالتے ہیں کہیں ان جائیدادوں پر کرائے نامے اپنے نام سے بنوا کر وہ کمائیاں کھانے کا منصوبہ بنا لیتے ہیں اور کہیں وہ انہیں اپنے نام کروا کر مالک بن بیٹھتے ہیں ۔ اور ظلم کی حد تو یہ ہے کہ خصوصی اختیارات میں بھی ان جائیدادوں سے ہونے والی کمائی کا دھیلہ بھی اصل مالک اور تارک وطن تک پہنچنے نہیں دیا جاتا ۔ گویا تارکین وطن وہ گنگا ہے جو ان فراڈیئے قابضین اور دوسروں کے مال پر عیاشی کرنے والے ہڈ حرام پاکستانی عزیزوں رشتے داروں  کے گند دھو دھو کر سیاہ ہو چکی ہے ۔ اس لیئے فاسٹ ٹریک عدالتی نظام جو آجکل اپنی تکمیل اور نفاذ کے آخری مراحل میں ہے تو اس بات پر غور کرتے ہوئے اس کے قوانین بنائے جائیں کہ 
بیشک یہ ایک اچھا اقدام ہو گا لیکن اس فاسٹ ٹریک عدالتی نظام کو صرف زمینوں تک ہی محدود نہ رکھا جائے  بلکہ تارکین وطن کے گھروں اور فلیٹس کے بھی قبضے چھڑائے جائیں ۔ اور مختار نامہ عام دینے کی صورت میں بھی فل اور فائنل فروخت کا حق استعمال کرتے وقت اصل مالک  کو ویڈیو کال کے ذریعے مجسٹریٹ کے سامنے کال پر براہ راست بیان دینے کا پابند کیا جائے  اور تارک وطن مختار نامہ عام یا خاص کال پر مجسٹریٹ کو خود پڑھ کر سنائے اور خود اس کے نام پتہ رابطہ نمبرز بیان کرتے ہوئے اس فروخت کی اجازت دے ۔ ویڈیو کال کی ریکارڈنگ اور سکرین شارٹ کو محفوظ کر کے اس کا عکس اس ڈیل اور مجسٹریٹ کے ریکارڈ کے ساتھ نتھی کیا جائے ۔  تبھی یہ سودا فل اور فائنل ہو اور یہ رقم اصل مالک کے بینک اکاونٹ میں اسی وقت مجسٹریٹ کے سامنے  ٹرانفسر کی جائے اس کے بعد وہ اصل مالک تارک وطن جس کے بھی اکاونٹ میں چاہے 3 روز کے اندر اندر اس رقم کو منتقل کر سکتا ہے ۔ 
اس طرح ہر لمحے اصل مالک تارک وطن اپنی پراپرٹی کی ہر ڈیل میں براہ راست ملوث ہو گا اور بہت زیادہ محفوظ ہو جائے گا ۔ حکومت اس طرح کے مقدمات کو عدالت میں جانے سے روک کر عدالتی  بوجھ کو بھی کم کرنے میں معاون ثابت ہو گی ۔ تارکین وطن میں پاکستان میں زمین جائیداد خریدنے کے رجحان میں  میں تیزی سے کمی آنے کا سبب قابضین کا خوف اور یہی غیر محفوظ کمزور قوانین اور عوامی رویہ ہے جس میں نہ تو ان کی کمائی کو تحفظ حاصل ہے اور نہ ہی گھر بار اور زمینوں کو قبضہ گروپس سے اور رشتےداروں سے ۔ لہذا  ضروری ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا اعتماد بحال کیا جائے اور اس سلسلے میں فوری عملی اقدامات اٹھائے جائیں ۔ بصورت دیگر پاکستانی اپنی گاڑھے خون پسینے کی کمائی پاکستانی ہڈحراموں کے ہاتھوں مزید لٹوانے کو تیار نہیں ہیں ۔ 
                   ●●●

اتوار، 3 جنوری، 2021

● کسان ‏سے ‏گاہگ ‏تک/ ‏کالم

          

           کسان سے گاہگ تک
            (تحریر:ممتازملک.پیرس)




سال بھر کی یا چھ ماہ کی محنت کے بعد ایک کسان اپنا خون پسینہ ایک کر کے جو فصل اگاتا ہے اسے بڑے بڑے مافیاز کوڑیوں کے بھاو اٹھا کر ان کسانوں کو اس بات پر مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ سارا سال عزت سے زندہ رہنے کے بجائے خودکشی کر لیں ۔ ہمارے جنوبی ایشیائی  ممالک میں یہی مافیاز حکومتیں  بناتے بھی ہیں اور حکومتیں چلاتے بھی ہیں ۔ ان پر ہاتھ ڈالنا وہ سوچے جو ان کے ذریعے سے فائدے نہ اٹھا رہا ہو ۔ انہیں ڈاکو مافیاز کے مال پر حکومتیں بنانے والے یہ سوچ بھی کیسے سکتے ہیں ۔ اس لیئے پاکستان میں کسانوں کے حالات آئے روز بد سے بدتر ہوتے چلے گئے ہیں ۔ نتیجہ شہروں کی جانب بڑھتی ہوئی ہجرت ، جب اگانے والے ہی نہ رہیں تو باہر سے مہنگا غلہ خریدنے کے سبب ہوشربا مہنگائی، قابل کاشت رقبے پر مکانات کی تعمیر ، پرانے درختوں کو کاٹ کاٹ کر سیلابی ریلوں کے ساتھ زمینوں کے کٹاو اور آبادیوں کی تباہی ، بے حساب سیلاب  اور بے شمار مسائل کسانوں کی فصلوں کو بروقت اور بہترین قیمت پر نہ اٹھانے کے سبب درپیش آتے ہیں ۔ لیکن ہم سب کانوں میں روئی ٹھونسے ان کے رونے کی آوازوں سے خود کو بےخبر کیئے ہوئے ہیں ۔ ایسے میں جب ہماری حکومتیں بھی ان مافیاز کے ساتھ ساز باز میں شامل ہیں تو بہتر ہو گا کہ کسانوں کو مل کر اپنی تنظیمات بنانی چاہیئیں ۔ جو ان کے مسائل کو تحریری شکل میں لائے ۔ کسانوں کو باقاعدہ رجسٹر کرے انہیں کسان کارڈز دیئے جائیں ۔ جس پر انہیں سستے اور اچھے بیج بروقت ملنے کا انتظام کیا جائے ۔ فصلوں کو بروقت فروخت کرنے کے جدید طریقے اپنائے جائیں ۔ اس سے سب سے پہلے تو ہر کسان کے گھرانے کے ہر فرد کو کام مل سکتا ہے ۔ بجائے اپنی سبزیاں چاول گنا مکئی جوار اور دیگر فصلوں کو حکومتی لٹیرے کارندوں کو بیچنے کے بجائے خود سے ان کی فروخت کے لیئے بازار اور میلے لگائیں ۔ تازہ مال کو خشک کرنے کے مختصر کورسز کیجیئے اور باقی لوگوں کو بھی تربیت دیجیئے تاکہ تازہ فصل بکنے کے بعد بچنے والی فصل کو بڑے بڑے دالانوں، میدانوں  یا اپنے گھروں کی چھتوں پر خشک کرنے کا انتظام کیا جا سکے ۔ ان خشک سبزیوں کو اچھی طرح  پلاسٹک پیکنگ میں محفوظ کرنے کا طریقہ سیکھ کر سارا سال یہ سبزیاں بیچی جا سکتی ہیں اس سے کسان اور گاہگ کے بیچ آنے والے بہت سے ایجنٹس کی جیبوں میں جانے والا ناجائز اور ہوشربا منافع کسان اور گاہک ہی کی جیب میں محفوظ ہو جائے گا ۔ کسانوں کی مختلف گروھ مل کر ان کی فروخت کے لیئے مخصوص بازاروں میں سٹال اور میلے لگا سکتے ہیں ۔ 
ملکی ضروریات کے علاوہ یہی فاضل فصلیں سکھا کر اور جما (فریز) کر کے بیرون ملک بہترین منڈیاں حاصل کی جا سکتی ہیں ۔ جس کا منافع براہ راست ہمارے کسانوں کی جیبوں میں جائے گا اور ملکی ترقی میں اہم کردر ادا کرے گا ۔ اور لوگ اس منافع کو دیکھتے ہوئے کبھی بھی اپنے علاقے چھوڑ کر پیشہ بدلنے اور زمینیں بیچنے کا نہیں سوچیں گے ۔ اگر شہروں جیسی سہولیات جیسے عبادتگاہیں ، پانی بجلی، گیس ، اچھے سکولز، کالجز، ہسپتال ، پکی گلیاں سڑکیں ریسٹورینٹ، شاپنگ اور فوڈ پوائنٹ  انہیں اپنے ہی قصبے اور گاوں میں مل جائیں تو وہاں کی صاف ستھری فضا چھوڑ کر کوئی آلودہ اور  پرشور شہروں کی جانب رخ نہیں کرے گا اور اوپر بیان کی گئی تمام پریشانیاں اور شہروں پر بڑھتا ہوا آبادی کا بوجھ وسائل کی کمی کا رونا خود بخود یہ سلسلہ رک جائے گا ۔ آخر ترقی یافتہ ممالک میں دیہاتوں  سے شہروں کی جانب ہجرت کیوں نہیں کی جاتی ۔ انہیں سہولتوں کے سبب ۔ یاد رکھیئے خوشحال کسان ہی کسی ملک کی زراعت کی ترقی کی علامت ہوتا ہے ۔ 
                          ●●●
        

ہفتہ، 2 مارچ، 2019

عقل کے اندھے متوجہ ہوں



سارے عقل کےاندھےمتوجہ ہوں:
                 (تحریر/ممتازملک ۔پیرس)


جی جی آپ بھی ۔۔ آپ بھی میری طرح ہی عقل کے اندھے ہیں کوئی عقل کل تو ہیں نہیں ۔۔ ذرا بتائیے:
 آپ میں سے کون کون سا مسلمان( یا غیر مسلم بھی) ایسا ہے جو اپنی ماں یا باپ کا نام جوتے پر لکھنا پسند کرتا ہے ؟   وہ جوتے چاہے سونے یا ہیرے سے بنے ہوئے ہی کیوں نہ ہوں،ان جوتے پر لکھنا پسند فرمائے گا ؟؟؟
کیوں سانپ سونگھ گیا پڑھ کر ؟؟؟
جب اپنے والدین کا نام ،جو دنیا میں ہمارے جیسی  گناہگار لوگوں سی زندگی گزار کر رخصت ہوئے ، ہم کسی جوتے پر لکھنا برداشت نہیں کر سکتے تو بتائیے : اس کائنات کو بنانے والی وجہ ، ہم سب کے مسلمان ہونے کی وجہ، ہماری بخشش و نجات کا ذریعہ ، اللہ کی محبوب ترین ہستی  اور امام الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جن پر ہمارے والدین آل اولاد ، جان مال کے بخوشی قربان کر دینے کے جذبے کے بنا ہم مسلمان نہیں ہو سکتے ، اس نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کسی جوتے پر لکھ دیا جائے ،  اور تو اور وہ کلمہ مبارک جس میں اللہ اور رسول اللہ کے نام مبارک کو اللہ پاک نے یکجاء کر دیا، وہ تک عقیدت اور تبرک کے نام پر کس اہتمام سے جوتے پر منقش کروایا جا رہا ہے ۔ بیشمار شرک اور بدعت جو ہم کرتے ہیں وہ تو ہماری جہالت کے تمغے ہیں ہی، لیکن جوتا چاہے کسی کا بھی ہو ، اور کتنا بھی قیمتی ہو، ہوتا تو جوتا ہی ہے ۔ ہم نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم  کے جوتے کو ہی نہیں اس جوتے کی خاک کو بھی اپنے سر پر رکھنا اور منہ پر ملنا بھی ضرور اعزاز سمجھ کر کر سکتے ہیں ۔ کہ یہ اپنی اپنی محبت کا انداز و اظہار ہے ۔ لیکن یہ کیسی محبت ہے کہ ہم دونوں جہانوں کے سردار کے نام کو جوتے پر لکھ کر ان کی عظمت کے گن گائیں ۔ خدا کی مار اس طرح کی محبت ایجاد کرنے والے پر اور ان سب کی عقل پر ماتم جو اس فیشن کو شان سے نبھاتے اور اس کے  درست ثابت کرنے کے لیئے دلیلیں گھڑتے پھرتے ہیں ۔ ۔ہم وہی مسمان ہیں جو ہر روز چیونٹی جیسے کپڑے کے ڈیزائن  میں ، روٹی کے جلے میں ، دنبے اور گائے کی کھال میں دال  سبزی اور فروٹ پر بنے ڈیزائن میں بھی لفظ اللہ اور محمد ص ع و کو پہچانتے اور اسے سنبھال کر فریم میں رکھ لیتے ہیں کہ اس کی بے ادبی نہ ہو۔ ہم مسلم دشمن اور کفار کی بنی چیزوں ان کے پیمپر اور جوتے کے تلوں میں سے اللہ اور محمد ص ع و کا نام ڈھونڈ ڈھونڈ  کر اس کے بائیکاٹ کی مہم چلانے کو مرے جاتے ہیں اور  ان لوگوں کو سزا دلوانا چاپتے ہیں جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان ہی نہیں رکھتے۔ لیکن  خود ہم دن رات ایمان کا ، اسلام کا ڈھول پیٹنے والے اس حد تک بے ادبی اور گناہ میں چلے گئے کہ اللہ اور  اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کے نام مبارک کو (کہ جن پر ہماری جانیں بھی قربان ہیں ) جوتے پر سجا بنا کے موتیوں سے جڑ کر سینہ چوڑا کر کے انہیں سے بخشش و نجات کی بھیک بھی مانگتے ہیں ۔ ارے عقل کے اندھو ۔۔۔آنکھیں کھولو اور استغفار کرو۔۔
شاید پروردگار ہمیں اسی نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے صدقے میں معاف فرما دے ۔ جس کا نام ہمارے دل پر، ہماری روح پر لکھا ہوا ہونا چاہیئے ، وہی نام ہم جوتے کے نقش بنا کر اسے گھروں بازاروں میں سجا سجا کر اس نبی کو کس قدر اذیت پہنچا رہے ہیں ۔ جس نےاپنے قیام میں اپنے سجدوں میں ، اپنی بھوک میں ، اپنے خوشی اور غم میں یہاں تک کہ  اپنی وفات و وصال  کی گھڑی میں بھی "یا اللہ میری امت  کو بخش دے" کی آہ و زاری کی ہو ۔۔کتنا تڑپاتے ہیں ہم اللہ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کو جب اس کے "اللہ ایک ہے "کے پیغام کی دھجیاں اڑاتے ہیں کسی بھی پیر ،بابے ، مولوی اور علامہ کے آگے سر جھکاتے ہیں سجدے کرتے ہیں ۔ اور کتنا تڑپتے ہونگے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جن کا لایا ہوا قران ہم سب سے اونچی شیلف پر رکھ کر بھول جاتے ہیں اور اس کے پڑھنے کا ذمہ کسی مولوی اور عالم کو سونپ دیتے ہیں ۔۔
اور کتنا تڑپتے ہونگے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس گھڑی جب ہم ان کی عقیدت کا نعرہ لگا کر کسی قبر کو سجدہ گاہ بنا لیتے ہیں اور اس دین مبین کو لانے والے کا نام اپنی رضا و رغبت سے اسی کا نام لیکر جوتے پر چپکا دیتے ہیں ۔ اور بڑی شان سے اسے اپنی دیواروں پر سجا دیتے ہیں ۔۔ بے دین اور برائے نام مسلمانوں اپنے اندر کا بت پرست اور ہندو کب مارو گے تم ۔😢
                      ۔۔۔۔۔۔۔



پیر، 25 فروری، 2019

بے حیا والدین کے نام


        بے حیا والدین کے نام 
                       (تحریر/ممتازملک۔پیرس)





اللہ پاک نے بیٹی کو رحمت بنا کر ماں کی کوکھ اور پھر باپ کی گود میں ڈالا . جہاں اسے قبول نہیں کیا جاتا وہ ظلم و ستم کی داستان تو اکثرسنائی دے جاتی ہے لیکن وہ گھرانے جہاں پر الٹرا  ماڈرن  ماں یا خود کو انگریزوں سے بڑا انگریز ثابت کرنے والا باپ گود کی بچی کے لیئے منی  اسکرٹ خریدتے ہیں . بغیر بازو اور ننگی کمر کے ملبوسات پہناتے ہیں . گود کی بچی  ہی کو کیا اکثر 10 ، 12 سال تک کی لڑکیوں کو بھی پاجامے پہنانا غیر ضروری سمجھتے ہیں انہیں نیکریں پہنائے گھماتے ہیں ۔ 
جون جولائی کے موسم میں جب لوگ  ہوا کو ترستے ہیں .  یہ ٹائٹ جینز اور چست مختصر شرٹس میں بیٹیوں  کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں. پھر برائے نام کپڑوں اور دوپٹوں سے بے نیاز یہ لڑکیاں  ہر جگہ جا کر اپنی نسوانیت کا اشتہار لگاتی ہیں تو یہ والدین خود کو ماڈرن ثابت کرنے کے لیئے اسے جائز ثابت کرنے کے لیئے   ایڑی چوٹی کا ذور بھی لگاتے ہیں . کبھی اسے اس کی مرضی قرار دیتے ہیں ،تو کبھی اسے اس کا حق قرار دینے میں زبان تھکاتے ہیں ، کہیں انہیں اپنا مذہب دکھائی دیتا ہے، نہ ہی اپنی معاشرت نظر آتی ہے ۔ جب ان لڑکیوں کیساتھ  کوئی شرمناک واقعہ پیش آ جاتا ہے تو پھر دہائیاں دینے لگتے ہیں کہ لوگ برے ہیں ، معاشرہ گندہ ہے ۔
ایک بچے کی پرورش والدین کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔۔اسے جس ڈھنگ میں وہ چاہتے ہیں ڈھالتے ہیں ۔ جب شروع سے ہی اسے پورے اور ڈھکے ہوئے کپڑوں کا عادی بنائیں گے تو  وہ کتنے بھی آزاد معاشرے میں چلے جائیں، اپنی عزت احترام اور پردے کا مکمل خیال رکھیں گے ۔ کیونکہ یہ  معمول کی بات ان کی عادت میں رچ بس چکی ہو گی ۔ لیکن جب شروع سے ہی اسے لباس کے نام پر دھجیاں پہننے کی عادت ڈالیں گے تو جوان ہو کر تو یہ دھجیاں بھی انہیں بوجھ ہی محسوس ہوں گی ۔ 
 عورت کا مطلب ہی چھپی ہوئی چیز ہے ۔ جب تک یہ چھپی رہتی ہے اپنی قیمت بڑھاتی ہے ۔ اور جیسے ہی بے حجاب ہو جاتی ہے تو کوڑیوں میں تل جاتی ہے ۔ 
کوئی ان سے پوچھے کہ بیٹی تو انہیں  رحمت بنا کر دی گئی تھی اسے چلتی پھرتی گناہوں کی دکان کس نے بنا دیا . ؟
تو افسوس صد افسوس  ہزار بار دل کے انکار پر بھی دماغ سے ایک جواب آتا ہے کہ ان بچیوں کے بےحیا اور  بے شرم والدین نے ...
ہمارے سامنے فل سپیڈ میں گاڑی آ رہی ہو اور سگنل بھی گرین تو کیا ہم بے دھڑک سڑک پر چلنے یا سڑک پار کرنے لگیں گے ....نہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ یقینا حادثہ ہو جائیگا . ... تو پھر یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں یا جس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اس کے بھی کچھ اصول اور ضوابط ہیں جو ہماری ہی حفاظت کے لیئے بنائے جاتے ہیں.  ہم ٹریفک کے اصولوں کو جان جانے کے ڈر سے تو فالو کرتے ہیں  لیکن معاشرتی اور مذہبی اصولوں کو فالو نہیں کرتے عزت جانے کے ڈر سے بھی...
کیا ہم اپنے ہی مذہب سے بھاگنا چاہتے ہیں؟ کچھ لوگ معاشرے میں اس  بغاوت کو اپنی ذہنی تسکین کا زریعہ سمجھتے ہاں ...
ایسی صورت  میں معاشرے کی وہی بگڑی ہوئی اور بھیانک تصویر ہمارے سامنے آتی ہے جس سے آج ہم سب نظر ملانے سے ہچکچا رہے ہیں .
کم لباسی میں آج ایسے مقابلے بازی شروع ہو چکی ہے جیسے کپڑے نہ ہوئے کوئی پنجرہ ہو گیا جس  سے رہائی آج کی عورت کا نصب العین بن چکا ہے یا کچھ والدین کی جانب سے اپنی بیٹیوں سے  محبت کا ثبوت ہی اپنی بیٹی کو کم لباسی کی اجازت  دینا ہے . 
پہلے آستین آدھے ہوئے پھر غائب ہی ہو گئے ،
پہلے گلے بڑے ہوئے، اب تو کندھے بھی کپڑوں سے آذاد ہو گئے، 
پہلے کمر کے نام پر پیٹ ننگے ہوئے پھر تو بلاوز ہی غائب ہو گئے اور کپڑوں کے نیچے پہنے جانے والے( زیر جامے) کپڑوں کے نام پر اوپر آ گئے ،
پہلے پشت سے گلے کم ہوئے پھر پوری پشت ہی غائب تو گئی ،
پاجامے پتلون بنکر ٹخنوں سے اونچے کیا ہوئے  دیکھنے میں وہ ایک لمبی نیکر ہی بن گئے ،
ایوارڈ شوز کے نام پر بے حیائی اور ننگے پن کا جو کنجر خانہ شروع ہوا ہے اس میں ان فنکاروں اور ان کے منتظمین کو ڈوب کر مر جانا چاہئیے جو ننگے  ہو کر اور ننگے کر  کے ایکدوسرے کو  دوسری زبان میں یوں سراہ رہے ہوتے ہیں جیسے اس نے پارسائی کا کوئی امتحان یا پل صراط کا سفر کامیابی سے پار کر لیا ہو ... شیطان کے یہ چیلے دن دہاڑے ہمارے سامنے محو رقص ہیں اور ہم منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر بیٹھے ہیں. کیا مجبوری ہے ہماری یا ہماری حکومتوں کی؟
اگر آپ  کو چلتی گاڑیوں کے سامنے اپنی بیٹیوں کو کھڑا کرنے کا شوق ہے ہی تو خدارا  حادثات کا شکوہ مت کیجیئے.....
سننے والے بھی کانوں پر ہاتھ رکھ لیں گے ۔ کیوں کہ مرنے اور لٹنے والی بصد شوق تباہی کی گاڑی کے سامنے آئی تھی ۔ سو افسوس کیسا ۔  
انا للہ وانا الیہ راجعون اللہ 
حفاظت چاہیئے تو مذہب اور معاشرت کے دائرے میں آجاو ۔۔ورنہ اپنی زبان بھی کاٹ کر پھینک دو ۔ تاکہ شکایت نہ کر سکو۔ 
                    ۔۔۔۔۔

اتوار، 10 فروری، 2019

ماں جو ڈائن بن گئی


           ماں جو ڈائن بن گئی 
                (تحریر/ممتازملک ۔پیرس) 
   
ایک پڑھا لکھا انسان خواہ وہ مرد ہو یا عورت جب اپنے ذہنی انتشار کا خاتمہ مثبت انداز میں  نہیں کر سکتا تو وہ جرائم کا راستہ اپنا لیتا ہے ۔ اور ہر مجرم کے پاس اپنے جرم کی کوئی نہ کوئی تاویل بھی ضرور ہوتی یے ۔ جس سے وہ اپنے دل کو کھوکھلی تسلیاں دیتا رہتا ہے ۔ کہ وہ درست ہے، وہ ٹھیک ہے، باقی سب غلط ہیں ۔ ایسا ہی ایک خوفناک واقعہ پچھلے دنوں کراچی کے ساحل پر پیش آیا جہاں ایک ظالم عورت نے اپنی ہی اولاد کو دو سال کی معصوم بیٹی انعم کو اپنے ہاتھوں گلہ گھونٹ کر سمندر میں ڈبو کر مار ڈالا ۔ 
سنتے آئے ہیں کہ ڈائن بھی کلیجہ چباتے ہوئے سات گھر چھوڑ دیتی ہے ۔ لیکن یہ کیسی بدبخت عورت ہے جس نے ماں کے نام پر بھی کالک مل دی اور اپنا ہی کلیجہ نکال کر چبا ڈالا ۔ کوئی بھی اخلاقی، سماجی یا قانونی  شق اسے نہ تو تحفظ دے سکتی ہے اور نہ ہی اس کے جرم کی نوعیت  کی سنگینی کو کم کر سکتی ہے ۔ ۔ اپنی شادی شدہ زندگی کی کامیابی یا  ناکامی کو ان دونوں افراد کو برابر کا جھیلنا چاہیئے ۔  اس بدبخت باپ راشد کو، جو  اپنی بیوی کو عزت اور تحفظ نہ دے سکا ۔ اسے گھر کی چھت اور دو وقت کی روٹی تک نہ دے سکا ۔ اسے بھی برابر کی سزا ملنی چاہیئے ۔  اس عورت کو جو اپنے شوہر کیساتھ اپنی زندگی ابھی مطمن انداز میں سیٹل نہیں کر پا رہی تھی تو اس نے اس بچی کو دنیا میں لانے کا فیصلہ کیوں کیا ؟ 
اگر کر ہی لیا  تو حالات اس قدر سنگین ہو گئے یا وہ اسقدر مجبور ہو گئی کہ اس بچی کو سنبھالنا اس کے لیئے ممکن نہیں رہا تو کیا اس شہر میں کسی اور بے اولاد کی جھولی میں یہ پھول نہیں ڈالا جا سکتا تھا؟ 
کیا کوئی اور ادارہ  یتیم لاوارث بچوں کا کفیل ہی اس کی کفالت کو موجود نہیں تھا ؟ 
کیا یہ پڑھی لکھی  عورت اس شہر میں  کسی کو نہیں جانتی تھی جو اسے کسی بھی معمولی سی ہی نوکری پر لگوا دیتا ۔ اور جب تک رہنے کا ٹھکانہ نہ ہوتا کسی دارالامان میں ہی اسے رہنے کو جگہ نہ مل پاتی ۔
ہونے کو بہت کچھ ہو سکتا ہے ۔ ماں جو اللہ کی تشبیہہ میں جنم دینے والی اور پالنے والی قرار دی گئی ۔ جس کی گھٹی میں مامتا کے نام پر مہربانی ، قربانی ،ایثار گوندھ دیا گیا ہے وہ اس قدر سفاک ہو جائے کہ محض اپنے شوہر سے بدلہ لینے کے لیئے اپنی ہی کوکھ اجاڑ لے ۔ اپنی اولاد کی قاتلہ بن جائے ۔۔۔ایسی سفاک عورت کو اس معاشرے میں کسی قیمت پر کھلا نہیں چھوڑا جا سکتا ۔ 
ایسی عورت کو سرعام پھانسی ہونی چاہیئے ۔ کیونکہ اگر یہ زندہ رہی  تو کس قدر خوفناک ڈائن ثابت ہو گی ۔ جو عورت اپنی کوکھ سے جنی اولاد کی نہ ہو سکی وہ اس معاشرے میں کسی بھی عہدے یا رشتے میں کس قدر خطرناک ہو گی ۔ یہ غیروں کیساتھ کیا کیا نہیں کرے گی ۔ اس عورت کو سر عام پھانسی کی سزا ملنی چاہیئے ۔  تاکہ آئندہ کے لیئے ایسے جرائم کا راستہ روکا جا سکے ۔ اس کے شوہر کو برابر کی سزا ہونی چاہیئے تاکہ ہمارے معاشرے کا کوئی بھی باپ اپنی ذمہ داریوں سے منہ نہ  موڑ سکے ۔ مجرم مجرم ہوتا ہے اس کی نہ تو کوئی ذات ہوتی ہے ، نہ فرقہ ہوتا ہے، نہ اس کا کوئی مذہب ہوتا ہے ، نہ اس کا کوئی رنگ ہوتا ہے، نہ اس کی کوئی نسل ہوتی ہے اور نہ ہی اس کی کوئی جنس ہوتی ہے ۔ وہ صرف مجرم ہوتا ہے ۔ اور اس کی سزا میں صرف اس کے جرم کی نوعیت کو ہی مد نظر رکھا جانا چاہیئے ۔ تبھی انصاف کے تقاضے پورے کیئے جا سکتے ہیں ۔  
چپ مت رہیں اس بات پر آواز اٹھائیں ۔ اس سے پہلے کہ  کل کو یہ جرم معاشرےکا چلن بن جائے ۔
                     ۔۔۔۔۔۔۔۔

                


ہفتہ، 9 فروری، 2019

● نتھ بنی نکیل / شادی کی رات دولہا کا پہلا خطاب



شادی کی رات دولہا کا پہلا خطاب
   نتھ بنی نکیل
(تحریر: ممتاز ملک. پیرس) 




کسی بھی لڑکی کی زندگی کا سب سے اہم وقت وہ ہوتا ہے جب وہ بڑی امیدوں اور مان کیساتھ کسی فرد کو اپنی زندگی کا ساتھی بنا کر اس کے سنگ آنکھوں میں حسین سپنے سجائے اپنی دنیا بسانے کے لئے روانہ ہوتی ہے.  شادی اس کے لیئے نئی زندگی کا آغاز ہوتی ہے.  وہ اپنے  لیئے ایک سکھی اور مطمئن گھرانے کا خواب لیکر اپنے بابل کی دہلیز سے پاؤں باہر نکالتی ہے.  سچ پوچھیں تو اس کے اس خوبصورت گھرانے کے سپنے  میں اس کے ساتھ صرف  اس کا ہمسفر اور اس کی اولاد ہوتی ہے.  جنہیں وہ ہر سکھ دینا چاہتی ہے.  وہ اس سے منسلک رشتوں سے عزت اور خلوص کا تعلق بنانا چاہتی ہے.  لیکن ایک دیوار کے فاصلے کیساتھ.  وہ اپنے گھر کو اپنی مرضی سے بنانا اور چلانا چاہتی ہے.  
لیکن یہ خواب اکثر  ذیادہ طویل نہیں ہو پاتا کہ شوہر کے گھر کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی کسی نہ کسی بہانے اسے چند گھنٹے قبل نچھاور  ہونے والے  سسرالیوں کی جانب سے پہلا دھچکا پہنچا کر چکنا چور کر دیا جاتا ہے.  جب  نامعلوم وجوہات پر دلہن کے سسرال کی چوکھٹ پر قدم رکھتے ہی ایک کا منہ شمال کی جانب ہوتا ہے اور ایک کا منہ جنوب ک جانب.  اسے گھر دکھانا تو کیا اس کا کمرہ دکھانے کو بھی کوئی بخوشی تیار نہیں ہوتا.  اور اگر کوئی یہ فریضہ انجام دے بھی دے.  تو کمرے میں دولہا صاحب  کا داخلہ ایک اور ڈرامے کیساتھ ہوتا ہے .  اپنی زندگی  کی پہلی  باضابطہ ملاقات میں وہ لڑکی جو اس امید پر ہوتی ہے کہ اس کا شوہر اس سے اپنی محبت کا اظہار کریگا، اسے اپنے ساتھ زندگی کے سفر میں ہر اچھے برے وقت میں ساتھ ہونے کا اعتبار دلائیگا،  اس کی حفاظت کا وعدہ کریگا,  اسے پریشانیوں میں حوصلہ بن کر ساتھ رہنے کا یقین دلائے گا,  اس کی خوشیوں کا ضامن بننے کی امید دلائے گا.... لیکن یہ کیا ؟  وہ تو اکثر گھونگھٹ اٹھانے کی بھی زحمت نہیں کرتا اور  اس پہلی ملاقات میں اسے اس کے فرائض  کی ایک لمبییییییی فہرست سنانے لگا..
سنو میں آج جو کچھ ہوں اپنے والدین کی وجہ سے ہوں... انہوں نے میرے لیئے بڑی قربانیاں دی ہیں.  اب "تمہارا" فرض ہے کہ "تم "ان کا خیال رکھو.  ابّا جی صبح کی چائے چھ بجے پیتے ہیں اس کا خیال رکھنا انہیں ٹھنڈی چائے بالکل پسند نہیں ہے , امّی جی  نے زندگی میں بڑے دکھ اٹھائے ہیں  اب تم نے ان کا خیال رکھنا ہے امّی جی کو ناشتہ صبح آٹھ بجے تیار چاہیئے اس میں کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہئے.. میری بہن نے میرے لیئے بہت کچھ کیا ہے اب تم نے ان کا خیال رکھنا ہے ان کی اجازت کے بنا  گھر میں کوئی کام نہیں ہوتا.  تم بھی ان سے اجازت لیکر ہی ہر کام کرنا.  امّی جی کے سالن میں نمک کم اور ابّا جی کے کھانے میں مرچی کم ڈالنا.  میری بہن پر اس کے سسرال والوں نے بڑے ظلم کیئے ہیں تو وہ دل بہلانے کو مہینے میں اٹھائیس انتیس دن ہمارے پاس   گزار لیتی ہیں . بہت دکھی ہیں.  اس لیئے "تمہیں" ان کی ہر طرح سے دلجوئی کرنی ہے.  
اور ہاں میری دوسری بہن ابھی بچی ہے اس کا کسی بات میں دل نہیں دکھانا.  وہ تو اس گھر میں مہمان ہے اس  لئے  اسے خوامخواہ گھر کے جھمیلوں میں الجھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ابھی پچیس سال کی بھی نہیں ہے امّی جی کی بہت لاڈلی ہے. (بائیس سال کی دلہن صم بکم سن رہی ہے)   اس کے مزاج کے خلاف کوئی بات نہیں ہونی چاہئے.  امّی جی کی جان ہے اس میں.   ہمارے کمرے میں کوئی بھی آئے جائے اس پر میں  کوئی بھی  بات نہیں سنوں گا .. اور ہاں  یہ ذیور صبح ولیمے کے بعد امّی جی کے پاس رکھوا دینا.  محفوظ رہینگے.  اور شادی پر پہلے ہی بہت خرچہ ہو گیا ہے.  میں تو بال بال قرضے میں جکڑا ہوا ہوں اب تم میری بیوی ہو اور تمہارا کام ہے کہ مجھے ان قرضوں سے خلاصی دلاؤ.  وہ ایسے  کہ پہلے تو تم میرا حق مہر معاف کر دو تاکہ میں آج سکون سے سو سکوں. جس روز سے یہ  منحوس حق مہر طے ہوا ہے مجھے تو مالیخولیا ہو گیا ہے.  پلیز میرا حق مہر معاف کر دو میری پریشانی دور کرنا تمہارا فرض ہے.. 
جی ہاں یہ ہوتی ہے مکالمے بازی دیسی دولہا کی پہلی رات اپنی دیسی دلہن سے . یا یوں کہیئے دولہا کا اپنی شادی کی رات دلہن سے پہلا خطاب ...
جس کا اختتام ہوتا ہے اس جملے پر کہ سنو مجھے میری بات پر آگے سے جواب , تکرار یا بحث بالکل پسند نہیں ہے.. اس بات کا خیال رکھنا  😮
جی ہاں واقعی ہر دس میں سے سات گھروں میں یہ ہی سین  فلمایا جاتا ہے.. کیونکہ 
ہمارے معاشرے میں لڑکی پورے خاندان کی نوکرانی کے طور پر جو لائی جاتی ہے ناک میں نتھ کو نکیل کی صورت ڈال کر ...
انسان سمجھ کر لائی جاتی تو اسے بات کرنے کا بھی حق ہوتا اور اختلاف پیش کرنے  کا بھی . 
یہ ہی وجہ ہے کہ جب وہ ان معاملات میں ناک تک آ جاتی ہے تو خود کو مطمئن کرنے کے لیئے چور دروازے  تلاش کرنے لگتی  ہے ..
کبھی تعویذ گنڈوں کی صورت..
کبھی  منہ ماری کی صورت،
کبھی جھوٹ بولنے کی صورت ،
اور کبھی بےوفائی کی صورت ،
جبکہ مرد کھڑا سوچتا رہتا ہے کہ 
ارے یہ بھی کوئی بات تھی کہ تم نے میرے گھر والوں کو جواب دیدیا..
ارے یہ بھی کوئی بات تھی کہ تم نے میری بہن کو ناراض کر دیا..
ارے یہ بھی کوئی بات تھی کہ تم نے منہ پھلا لیا..
تم ہو ہی ناشکری عورت..
تمہیں کسی نعمت کی قدر ہی نہیں
لیکن یہ نہیں بتاتا کہ جو کچھ اس نے خود ساختہ طور پر نعمت قرار دیکر اس کے آگے پیش کر دیا ہے  وہ  اس کی شریک زندگی کے لیئے بھی نعمت ہے یا زحمت ہی زحمت ؟
وقت بدلتا ہے اور نظریات بھی  بدلتے ہیں لیکن اکثر بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے..
یہ سب چیزیں اس وقت اس کا نظریہ بدلتی ہیں جب اس کی اپنی بیٹی کے آگے یہ ساری نعمتیں  پیش کی جاتی ہیں اور وہ خود ہی اسے زحمتیں قرار دے دیتا ہے ...
یقین کیجئے ہمارے معاشرے میں بہت کچھ بدل سکتا ہے اگر صرف مرد اپنی شادی پر وہ سوچ اور احساس اپنا لے جو وہ بیس پچیس سال کے بعد اپنی بیٹی کی شادی کےموقع پر  اپناتا ہے..  اس بیس سال میں  جو حق تلفیاں وہ کسی اور کی بیٹی کو اپنی بیوی بنا کر کر چکا تھا . وہ اس گناہ سے بھی بچ جاتا.  
(نوٹ:یہ تحریر سو فیصد افراد پر لاگو نہیں ہوتی)
                   ۔۔۔۔۔۔
MumtazMalikParis.BlogSpot.com 

جمعہ، 1 فروری، 2019

شکر خدا


شکر خدا
(تحریر:ممتازملک ۔پیرس)

لاہور کے عجائب گھر سے صیہونی دجالی نشانی والا مجسمہ ہٹا دیا گیا ۔  شکر خدا۔۔پاکستانیوں پارٹی بازیوں میں گھسنے کے بجائے اپنے خدا کے خوف اور اس کی مغفرت کو اپنے سامنے رکھو ۔ اور ہر بات پر منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر مت بیٹھ جایا کرو ۔ زندہ ہو تو زندہ قوموں کی طرح اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیا کرو۔ اچھی بات کو بلا امتیاز اچھا ، اور بری بات کو بلالحاظ برا کہا کرو۔ ورنہ کل کو ہماری نئی نسل انہیں ہندو دیوتاوں اور صیہونی دجالوں کے آگے پوجا پاٹ کرتے اور ان کی سالگرہیں مناتے نظر آئینگے ۔ اللہ پاک نے آپ کو والدین کے رتبے پر فائز کیا ہے تو اسکی کڑی جواب طلبی بھی ہونی ہے ۔ یونہی اولادوں کو تباہ ہوتا دیکھ کر خاموش رہنے پر سستے میں نہیں چھوڑ دیئے جاو گے، معاف نہیں کر دیئے جاو گے۔ 
یاد رکھو۔۔۔۔
تقدیرکےقاضی کایہ فتوی ہےازل سے 
ہےجرم ضعیفی کی سزامرگ مفاجات
                    ۔۔۔۔۔۔۔۔


بدھ، 23 جنوری، 2019

میرا خدا ناانصاف نہیں



            میرا خدا ناانصاف نہیں 
                              (تحریر: ممتازملک )




اس پولیس کو  دیکھو پاکستانی غنڈہ پولیس والو۔۔
یہ بھی اسی دنیا میں بستے ہیں، 
اسی زمین کا رزق کھاتے ہیں  ،
یہ سب بھی تنخواہ دار ہیں اور بغیر رشوت کے اپنی تنخواہ کی چادر میں پاوں سمیٹ کر زندگی گزارتے ہیں ،
لیکن جو کچھ یہ کرتے ہیں تمہارے فرشتے بھی شاید اس درجے تک سماجی خدمت کی خ تک بھی نہیں پہنچ سکتے۔ 
کیوں ؟
کیونکہ یہ صرف کلمہ نہیں پڑھتے لیکن یہ ہر کام اسی طرح کرتے ہیں جس طرح ہمیں کلمہ پڑھانے والے نے پسند فرمایا ۔۔
تو پھر جنت کی دعویداری تم جیسے غنڈوں کے لیئے کیوں؟ جن کے سائے میں نہ کسی کی عزت محفوظ ہے ،نہ جان اور نہ مال ۔۔بلکہ ہر بڑے سے بڑے اور چھوٹھے سے چھوٹے جرم کے ڈانڈے جا کر کسی نہ کسی پولیس والے سے ہی ملتے ہیں ۔۔
جبکہ یہ پولیس والے جنت کے حقدار کیوں نہیں ۔۔جو اپنی جان ہتھیلی پر لیئے اپنے ہر شہری کی جان مال اور عزت کا تحفظ کرنے کے لیئے چاک و چوبند اور مستعد رہتے ہیں ۔۔۔
ہم پاکستان میں اپنے گھر والوں ، اپنے بچوں اور خصوصا اپنی خواتین کو گھر سے نکلتے ہوئے لازمی ہدایت کرتے ہیں کہ سنو جہاں کہیں پولیس نظر آئے یا پولیس کا معاملہ ہو تو فورا وہاں سے کھسک جاو، غائب ہو جاو۔ ورنہ تم خطرھ میں پڑ جاو گے۔
جبکہ یہ پولیس، یورپ کی پولیس جسے دیکھ کر ہماری جان میں جان آ جاتی ہے ۔ ہم اپنے بچوں اور عورتوں کو خصوصا یہ کہہ کر گھر باہر بھیجتے ہیں کہ کسی بھی مشکل میں ہو، کوئی پریشان کرے تو جہاں کہیں پولیس نظر آئے تو فورا ان کے پاس پہنچو ۔ تمہاری جان ،مال اور عزت محفوظ ہو جائے گی ۔ اب تم ہی بتاو جنت کس پر واجب ہوتی ہے؟ تم جیسے کلمہ پڑھکر منافقت حرامخوری ،بدکاری ، اورمعصوموں کو قتل کرنے والوں پر ۔۔۔
یا ان بنا کلمہ پڑھے ایماندار، محنتی ، باکردار،اور زندگیاں اور عزتیں بچانے والوں پر ۔۔۔
مجھے پورا  یقین ہے کہ میرا خدا ناانصاف تو ہر گز نہیں ہو سکتا ۔۔
                  ۔۔۔۔۔۔۔

جمعہ، 11 جنوری، 2019

پاس نہیں قریب رہو


   
پاس نہیں قریب رہو
   (تحریر: ممتازملک ۔پیرس)


ایک ماہر نفسیات کا مضمون پڑھنے کا اتفاق ہوا ۔ جس میں ویت نام کی جنگ سے جان بچا کر امریکہ میں آباد ہونے والی خاتون کی کہانی تھی ۔ جس نے چون برس کی عمر میں تین جوان بچوں کے ہوتے، پیار کرنے والے شوہر اور گھر بار کے ہوتے ہوئے بھی خودکشی کر لی ۔ اس کے حالات اور اس کی آخری حرکات و سکنات اور اس کے بیان کو سن کر اس کا اپنا شوہر اور بچے حیرت کے سمندر میں غوطہ زن تھے اور انہیں  معلوم ہوا کہ اصل میں تو وہ اپنی ماں کے اندر کے انسان سے کبھی ملے ہی نہیں ۔ اس کا ایک کامیاب پتھالوجسٹ سے پناہ گزین بننے کا درد،  اس نئے ملک میں انگریزی مکمل لب و لہجے میں نہ سیکھ پانے کی ناکامی کا شدید احساس، اپنے زمانے سے پیچے رہ جانے کا صدمہ اور پھر عراق پر حملے میں روز سامنے آتی اموات، لہو، چیخ و پکار، بچوں کی دلخراش چیخیں ، عورتوں کی بیچارگی و بیحرمتی غرض ہر جنگ میں اپنی ہی بیچارگی اور خوف اسے بار بار ہر روز  مار  ڈالتا۔۔۔درد کے  اس بوجھ کو جسے بالآخر وہ  اٹھا نہ سکی تو خوکشی کی صورت اتار پھینکا ۔ کیونکہ وہ سکون کی نیند سونا چاہتی تھی جو اتنے سالوں میں ان چیخوں کے ہنگام میں ،خوف کے سائے میں وہ کبھی سو نہ پائی ۔ وہ  اتنی ذہنی اذیت میں تھی کہ اسے موت آسان لگی ۔ 
اسکی  زندگی سے یہ سبق ملتا ہے کہ   جنگ ، دہشت،  خوف سبھی انسانوں پر مختلف انداز میں اثرانداز ہوتا یے۔ اسی طرح پڑھے لکھے  ذہین اور کامیاب لوگ جب جنگ کی بھٹی میں جھونکے جاتے ہیں تو ان کی مثال ان لکڑیوں کی سی ہوتی ہے جو سب سے ذیادہ چٹختی ہیں جن کے شعلے اڑ اڑ کر اپنے جلنے کی خبر دیتے ہیں ۔  وہ دوسروں کو اپنے غم اور صدمات سے بچانے کے لیئے اپنے ناکامیوں کے درد کو کبھی کھل کر بیان نہیں کرتے ۔ دنیا سمجھتی ہے کہ اولاد کا رشتہ ہی سب سے قریبی رشتہ ہوتا ہے جبکہ میں سمجھتی ہوں کہ یہ ہی آپ کے احساسات اور جذبات سے  سب سے بے خبر رشتہ ہوتا ہے ۔ بظاہر ہم اپنے ماں باپ کے ساتھ زندگی کے سب سے زیادہ سال گزارتے ہیں لیکن حقیقتا ہم ان کیساتھ زندگی کے سب سے کم گھنٹے گزارتے ہیں ۔ اس سے زیادہ وقت تو شاید ہم اپنے کسی پالتو جانور کیساتھ گزار لیتے ہیں ۔ والدین کی اندر کی خوبیاں، اس اولاد کے  دنیا میں  آنے کے پہلے کی زندگی،  ہنر ، کمالات ، ذہانتیں یہ سب کتنی اولادیں ہیں جو جانتی ہیں ؟ کتنی اولادیں اپنے  والدین کے پاس بیٹھ کر ان کے بچپن ، انکی جوانی اور کیرئیر کر قصے سننا اہم سمجھتے ہیں ؟ بلکہ اکثر وہ کچھ بتانا بھی چاہیں تو اولاد بڑی بے زاری سے انہیں نظرانداز کرتے پہلو بچاتے گزر جاتی ہے ۔
او نو بابا اور نو ماما آپ کو کیا پتہ یہ کیسے ہوتا ہے ؟
چھوڑ دیں ماما یہ آپ نہیں کر سکتیں ۔۔
آپ یہ نہیں سیکھ سکتیں ۔۔۔
کتنا فرق ہوتا یے نا اولاد اور والدین ے رویے میں،  والدین نالائق سے نالائق بچے کو بھی ہمیشہ اس کی صلاحتیوں سے بڑھ کر بتاتے ہیں تم کر سکتے ہیں ۔۔
تم کر لو گے۔۔
تم ذہین ہو ،
تم حسین ہو،
تم سے زیادہ عقلمند اور کوئی نہیں ۔۔
کرو کرو شاباش تم کر لو گے ۔۔
یہ فرق  ہے اولاد اور والدین کے اظہار خیال اور انداز خیال کا ۔۔۔۔ سو ساری دنیا کو دریافت کرنے سے پہلے اپنے گھر والوں کو، اپنے والدین کو، اپنے شوہر کو ،اپنی بیوی کو دریافت کیجیئے کیونکہ آپ کی زندگی میں ڈائناسور  کی تخلیق کو نہ جاننا اتنا بڑا احساس محرومی یا گلٹ نہیں ہو سکتا جتنا بڑا ان رشتوں میں چھپے انسان کو دریافت نہ کر سکنے کا ہو گا ۔ اس لیئے خود کو نزدیک کے رشتے میں چھپے انسان سے متعارف کروائیے۔ یقین جانیئے یہ تجربہ آپ کی اپنی ذات کو بیزاری کے بہت سے اندھیروں سے نکال کر  محبت کی روشنی میں کھڑا کر دیگا ۔ تاکہ کسی کو یہ نہ کہنا پڑے کہ
وہ میرے پاس تھے لیکن میرے قریب نہ تھے

میرے رفیق بہت تھے مگر حبیب نہ تھے 
                   ۔۔۔۔۔۔۔
                  ۔۔۔۔۔۔۔

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/