ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک
سچ تو یہ ہے۔ کالمز لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
سچ تو یہ ہے۔ کالمز لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

منگل، 4 مارچ، 2014

فیصلہ آپ پر ہے۔ کالم ۔ سچ تو یہ ہے




فیصلہ آپ پر ہے
ممتازملک۔ پیرس


 انسان کی تخلیق کی کہانی پڑھیں یا دنیا کی تاریخ پہ نظر ڈالیں  ہر جگہ یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ ہمم ہمیشہ ہی ایک میل ڈومینیٹنگ سوسائٹی کا حصہ رہیں ہیں ، یہ دنیا یورپ کی مادر پدر آزاد سوسائٹی ہو یا انڈو پاک اور ایشینز کی مختلف رنگوں میں بٹی ہوئی معاشرت ۔ زمین پر انسانی تخلیق نے لاکھوں کروڑوں سال کا سفر مکمل کر لیا لیکن ہم آج بھی اسی بات میں الجھے ہوئے ہیں کہ یہ عورت ہے یہ مرد ہے ، جسم کی قید سے ہم اپنی سوچوں کو کبھی آذاد ہی نہیں کروا سکے ۔ ہم نے اپنی ذمہ داریوں کو عورت اور مرد کی گردان سے باہر کبھی نکلنے ہی نہیں دیا ۔  یورپ کو یہ بات سمجھ میں آئی تو اس نے دہائیوں پہلے اس کا علاج اپنے معاشرے کو سیکس فری کر کے نکالا ۔ تاکہ مرد و عورت  جو دن کےکئی گھنٹے اس سوچ وبچار میں گنوا دیتا ہے کہ میں نے یہ جسم کیسے حاصل کرنا ہے اس کے لیئے جسم اتنا ارذاں کر دو کہ وہ اسے حاصل کرنے کی فکر سے ہی آزاد ہو جائے ۔ اب یہ ایک اور بحث ہے کہ اس کے مالی فوائد و ترقی تو ہو گئی لیکن انہیں اس کی معاشرتی کیا کیا قیمت ادا کرنی پڑی ۔۔ ۔۔۔۔۔ جبکہ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم  نے خواتین کو دو گروہوں میں بانٹ دیا ہے ایک وہ جو گھر میں بیٹھی ہوئی خاتون خانہ سے تو یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ، خوب پڑھی لکھی ہو ، سر پہ دوپٹہ رکھنے والی ایک مکمل نوکرانہ مزاج رکھتی ہو جسے یہ بات بلکل یاد نہیں ہونی چاہیئے کہ اس کی کھوپڑی کے اندر بھی ایک دماغ یا اس کے سینے میں بھی ایک دل ہے جو اچھی بری باتوں پر کوئی عزت یا بے عزتی محسوس کرتا ہےجو اپنی بھی کوئی رائے رکھتا ہے یو اس کا اپنا بھی کوئی نقطء نظر ہو سکتا ہے ۔اس کی پسند کو کسی بھی صورت اپنے مرد کی سوچ سے مختلف ہونے کا کوئی حق نہیں ہے۔  وہ ہر خوبی رکھتی ہو لیکن ہمارے آگے چوں بھی نہ کرے ، ان کے گھر کی ہر ذمہ داری کو ہماری  مرضی سے ادا کرنے والی ہوں یہ ہے ہماری ایک گھر میں رکھی عورت کے لیئے ٹیپیکل سوچ  ۔ جبکہ دوسری جانب ہم نے وہ الٹرا موڈ خواتین رکھ دیں  جو کسی بھی عمر سے تعلق رکھتی ہوں کوئی بھی ہنر ان میں ہو یا نہ ہو ہاں یہ خوبی ان میں ضرور ہونی  دوپٹے اور حجاب کی قید سے آذاد ہوں ۔ نئے نئے بے حیائی کے حربےفیشن کے نام سے آزماتی ہوں ۔ ان کے بدن کا اتار چڑھاؤ ان پر نمایاں کرتی ہوئی بےحیا لباسی سے کرتی ہوں ۔ جنہیں دیکھ کر ہمارے سستی سوچ کے حامل مردوں کو اپنی آآنکھیں سینکنے کا موقع ملتا رہے ۔  ہم ان پر اپنی کمائی لٹانا بھی پسند کریں ان کے جلوؤں کے لیئے انہیں عہدے بھی یہ سوچ کر پیش کرتے رہیں کہ وہ اس کے لائق بھی ہیں کہ نہیں ۔ ایسی خواتین کو گھر بار والا بھی نہیں ہونا چاہیئے ورنہ کہیں ہمیں اس کے عوض اپنے ہی دانتوں کی قربانی نہ دینی پڑ جائے ۔ لہذا انہیں محبوبہ کٹیگری میں ڈالا جاتا ہے ۔ یہ بھول کر کہ کل ہم اپنی اولادوں کے لیئے آنے والی تاریخ کے لیئے کیا کالک اپنے منہ پر پوت رہے ہیں ۔ وہی بات کہ کل کس نے دیکھا ہے ؟   اب اس سارے گھپلے میں یہ بات ان کے دماغ سے نکل جاتی ہے کہ باہر کی دنیا میں خواتین کا ایک تیسرا طبقہ بھی ہے جو پوری جانفشانی کیساتھ سرگرم عمل ہے ۔ اور پوری ایمانداری کیساتھ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں اور خاص طور پر صحافت کے میدان میں مضبوطی کیساتھ موجود ہے جو نہ صرف اپنے گھروں کو عزت سے چلا رہی ہیں بلکہ کمیونٹی میں بھی باعزت مقام رکھتی ہیں ۔  جن کے کام سے نہ تو یہ بھائی صاحبان انکار کر سکتے ہیں نہ ہی انہیں نظر انداز ۔ انہیں باجی باجی بھی کہتے ہیں ۔ لیکن اس سے آگے آتے ہی ان کے تمام خوبیوں کو ٹھٹھے میں اڑا دیتے ہیں اور اپنی مردانگی کو شاید تسکین پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں  ۔ اور کیوں کہ یہ خواتین ناجائز رویوں کو برداشت نہیں کرتیں نہ ہی مردانہ ڈیمانڈذ کو اہمیت دیتی ہیں لہذا ان کی ساری کارکردگی کو بڑی بے شرمی کیساتھ بے وقعت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ جس پر صرف ان عقل کے اندھوں سے ہمدردی ہی کی جا سکتی ہے پاکستانیوں نے پاکستان میں تو عورت پسندی میں اپنا لوہا منوایا ہی ہے جس کا انجام ساری دنیا دیکھ رہی ہے لیکن کم از کم پاکستان سے باہر تو ایسی بے حیا مقابلہ بازی سے احتراز کریں ۔ آج جو لوگ کسی بھی ذمہ  داری پر ہیں انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ کل انہیں وقت کو اپنے ان تمام اختیارات کا جواب دینا ہو گا اور آپ کی اولادوں کو بھی آپ پر فخر کرنے یا افسوس کرنے کا موقع آپ کے آج کے یہ کام دیں گے اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ انہیں پاکستان میں رہنے والوں کی طرح وراثتی بے شرمی ، بددعائیں اور گالیاں دینا چاہتے ہیں یا عزت ووقار اور فخر کا احساس ۔ کیوں کہ وقت جیسا بھی ہو اس کی اچھی بات بھی یہ ہے اور بری بات بھی یہ ہی ہے کہ یہ گزر جاتا ہے ۔ اب اسے کیسے گزارنا ہے  چند لمحوں یا سالوں کی عیاشی میں یا ہمیشہ کی بعد از مرگ کی بھی عزت اور احترم کیساتھ ۔ آنکھیں کھولیئے اور اپنے ظرف کو وسیع کیجیئے ۔ کیوں کہ آنکھیں بند کر لینے سے حقیقت نہیں بدلا کرتی ۔ لیکن ایک وقت آتا ہے کہ  آپ خود اپنی ہی نظروں میں گر جاتے ہیں ۔ تو اپنی خودی کو بھی بلند کیجیئے اور اپنی ذمہ داریوں سے بھی انصاف کیجیئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/