ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک
پبلشڈ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
پبلشڈ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

منگل، 27 اگست، 2024

دوستا ۔ اردو شاعری

دوستا
کلام/ممتازملک۔پیرس 


ہم تیری یاد میں، کس جگہ آ گئے 
تو نے مڑ کر نہ دیکھا،  ہمیں دوستا


جستجو کے  سویرے، بسر ہو گئے
خواہشوں کی ہر اک، شام ڈھلنے لگی
دل سے آہوں کی صورت، اٹھا ہے دھواں  
آنکھ سے اشک بن کر، نکلنے لگی

ہم تو شاید یہاں، بے وجہ آ گئے 
تو نے مڑ کر نہ دیکھا ، ہمیں دوستا


مسکرانا ہماری تو، فطرت میں تھا 
اور ستانا تیری ،عادتوں کا ثمر
مسکرانا ہمارا ، قضاء ہو  گیا 
اور ستانا تیرا ، ہو گیا پر اثر

زندگی سے ہوئے، جب خفا آ گئے 
تو نے دیکھا نہ مڑ کر، ہمیں دوستا 


تجھکو احساس اسکا ، زرا بھی نہیں 
 بیوفائی ہے تیری،  کرامت نہیں 
جھوٹ کے پاوں ، ممتاز ہوتے نہیں 
دوستی کا نہیں سر، قیامت نہیں

خود سے آنے لگی، ہے حیا آ گئے
تو نے دیکھا نہ مڑ کر، ہمیں دوستا
۔۔۔۔۔۔۔۔

منگل، 4 اگست، 2020

میرا کیا ہو گا۔ شاعری ۔ پبلشڈ



کیا ہو گا 
ممتاز ملک . پیرس 


میں نے تو کھول کےرکھدی ہے حقیقت ،میری 
تو جو ہر بھید چھپائے گا، میرا کیا ہو گا

میرے ہر گیت کی ہر تان، تیرے نام سے ہے
تو الگ گیت جو گائے گا ،میرا کیا ہو گا

چھوڑ کے سارا جہاں ہم نے ، تجھے ساتھ لیا
ساتھ جو تو نہ نبھائے گا ،میرا کیا ہو گا

تیری ہر بات قسم کھانے کی ،محتاج ہے کیوں 
نہ یقیں پھر بھی جو آئیگا  ،میرا کیا ہو گا

وہی بہتر ہے تیرے واسطے مجھ سے زیادہ 
کوئی احساس دلائیگا ،میرا کیا ہو گا 

تجھ سےوابستہ کوئی رشتہ، تیرے رشتے سے
مجھ کو دن رات ستائے گا ،میرا کیا ہو گا

میری چاہت کی جلن میں،کوئی جادو ٹونہ
کر کے تعویذ جلائے گا، میرا کیا ہو گا

دل کی دیوار پہ کھینچیں ہیں 
لکیریں اتنی 
تو نہ گر انکو مٹائے گا ، میرا کیا ہو گا

اب کوئی چہرہ کرے قید، تو آواز کوئی 
قید  آواز سنائے گا، میرا کیا ہو گا

ماسوا میرےکسی اور کو، اےدوست اگر 
کہہ کے ممتاز بلائیگا، میرا کیا ہو گا
●●●






x

اتوار، 7 جون، 2020

● ◇ جا میں نے تجھے آزاد کیا / نظم ۔ جا میں نے تجھے آزاد کیا





جا میں نے تجھے۔۔۔۔۔
                   آزاد کیا



جب میری محبت کی تیری
نظروں میں کوئی قیمت ہی نہیں
اظہار کا میرے  تیرے لیئے
معنی ہی نہیں وقعت ہی نہیں
جب میری حفاظت نے تجھ کو
اس درجہ ہے بیزار کیا
کہ تونے ہی میری چاہت کو
رسوا یوں سر بازار کیا
کیوں بے قدرے کے خاطر یوں
یہ وقت اپنا برباد کیا
جا میں نے تجھے ۔۔۔۔۔۔۔۔آزاد کیا

موتی کے کھلائے تھے دانے
مخمل میں تجھے ملبوس کیا
پیروں میں تیرے یہ دل تھا میرا
کوئی  اشک تیرا گرنے نہ دیا
لے میں نے محبت کے اپنے
اس پنجرے کا در کھول دیا
اب تجھ کو اجازت ہے اس کی
پرواز جہاں کر بول دیا
جانے پہ تیرے سننا ہم نے
نہ شکوہ نہ فریاد کیا
جا میں نے تجھے۔۔۔۔۔ آزاد کیا

اب پر تیرے کمزور نہیں
مجھ میں سننے کا زور نہیں
کہ قید کیا میں نے تجھ کو
یہ سنکر دل بیزار ہوا
احساس ہوا ہے شدت سے
غلطی تھی میری جو پیار ہوا
جو چاہے جہاں چاہے جاکر
تو اپنا بسیرا اب کر لے
بیکار ہی اپنے آپ کو یوں
چاہت میں تیری ناشاد کیا
جا میں نے تجھے۔۔۔۔ آزاد کیا
          جا میں نے تجھے۔۔۔۔ آزاد کیا

                          ●●●


اتوار، 10 مئی، 2020

& ہر ماں کے نام/ اردو شاعری ۔ ماں۔ اور وہ چلا گیا




            (ہر ماں کے نام)

ماں کے پیروں کے نیچے سے 
میں نے جب بھی خاک اٹھائی 
  ہر اک پل میں جنت پائی 

جس نے بھی یہ موقع پا کر 
ہاتھوں سے یہ خاک گنوائی 
 خواری کاٹی دھول اڑائی 

ماں کو گھر سے باہر کر کے
اپنی ہی اولاد کے ہاتھوں
اپنے گھر میں قبر بنائی 

چاہےخوشی ہو یا پھر غم ہو
ہو مسکان یا آنکھ یہ نم ہو
ماں کی ہر دم یاد ہے آئی

وہ نہ ہوا ممتاز کسی کا 
ہو نہ سکا جو  اپنی ماں  کا 
کوئی نہیں اس سا ہرجائی

            (کلام: ممتازملک.پیرس)


ہفتہ، 11 اپریل، 2020

● عمر جیسا مسلمان ۔ شاعری ۔ پبلشڈ






دنیا میں تھا اللہ کی برہان ،کہاں ہے ؟
نہ جانےعمر(رض) جیسامسلمان،کہاں ہے؟

بھوکاتونہیں سویا میرےملک میں کوئی 
ہر لمحہ اسی پر ہو پریشان، کہاں ہے ؟

ہر ایک کےدر پہ گیاخادم کی سی صورت
جو پشت پہ لادے کھڑا سامان،کہاں ہے؟

جو رات کو بستر پہ کبھی سو نہیں پائے
بتلاو ایسا وقت کا سلطان، کہاں ہے؟ 

اسلام کی خاطر جسے اللہ سے مانگا 
آقا کی دعاوں کا وہ ارمان ،کہاں ہے ؟

ممتاز کسی طور دکھے موت سے پہلے 
کہہ پاوں عمر جیسا مسلمان ،کہاں ہے ؟
۔۔۔۔۔۔

اتوار، 30 جون، 2019

سمجھ جائے






کاش ایسا بھی کوئی وقت آئے
میں کہوں اور تو سمجھ جائے
زندگی زلف میری بن جائے
انگلیوں  سے تیری سلجھ جائے
            (کلام/ممتازملک ۔پیرس)

پیر، 22 اپریل، 2019

● (16) ہر آنکھ تماشائی ہے / شاعری ۔ سراب دنیا



(16) ہر آنکھ تماشائی ہے

 
رنگ ہی رنگ ہے رعنائی ہی رعنائی ہے 
دیکھنے کو جسے ہر آنکھ تماشائی ہے 

جذبہ دشت نوردی میرا اعزاز رہا
زندگی آج اندھیروں سے نکل آئی ہے

کون کہتا ہے کہ محروم تمنا ہو جا
روشنی کے لیئے ترسی ہوئی بینائی ہے 

خوش نہیں تیری محبت میں یہ دنیا گم ہے 
  غم کہ کرنی تھی جسے بس وہی ہرجائی ہے

اے ہوا عشق میرا تیرا قرضدار ہوا
راستے سے  تُو میرے دھول اڑا آئی ہے

درد کی لہر میں دیکھے ہیں کبھی وہ لمحے
موت کے بین میں جب گونجتی شہنائی ہے

فیصلے سارے ہی انصاف نہیں پا سکتے
کچھ تو درپردہ خیالات کی شنوائی ہے

میری گلیوں میں کیا سورج نے چراغاں کرنا
جگنؤوں سے ہی میرے دل نے ضیاء پائی ہے

ہم حیادار تھے الزام یہی تھا تو سن 
بے حیا لوگوں سے ہم نے یہ حیا پائی ہے
اب نہ حیران ہوئی اور نہ نمناک ہوئی
آنکھ سے کتنے حوادث  کی شناسائی ہے

اب تو ممتازبدل جائے مقدر تیرا
ٹوٹنے کو تیرے حالات کی انگڑائی ہے
●●●
    کلام : ممتازملک
      مجموعہ کلام:سراب دنیا
اشاعت:2020ء
●●●


بدھ، 17 اپریل، 2019

● (19) میرا محور بدل گیا / شاعری ۔ سراب دنیا


(19) میرا محور بدل گیا



❤خواہش بدل گئی میرا زیور بدل گیا 
جب سے بنی ہوں ماں میرا محوربدل گیا


❤دکھ دوسروں کے مجھ سے جدا اب نہیں رہے
لہجہ بدل گیا میرا تیور بدل گیا


❤دھڑکن کی گونج میں بڑی طاقت سی آ گئی
انداز ہی دعاؤں کا یکسر بدل گیا


❤اللہ سے کچھ مزید ہی قربت سی ہو گئی
جیسے کہ دوستی کا تصور بدل گیا


❤بھرپور تھا مگر اسی اک پھول کے آتے
جیسے کوئی درخت تناور بدل گیا


❤مجھ کو یقین آنے لگا اپنی ذات پر
پہلے تھا بے یقین جو باور بدل گیا


❤گویا عبادتوں کا ثمر مجھکو مل گیا
چاہت بدل گئی میرا دلبر بدل گیا


❤بہتات تھی جووقت کی قلت میں ڈھل گئی
میری حیات کا سبھی منظر بدل گیا


❤ممتاز ذمہ داریاں بڑھنے لگیں میری 
رکھنا یہ میرے ہاتھ کا سر پر بدل گیا
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام:
سراب دنیا 
اشاعت:2020ء
●●●

بدھ، 20 مارچ، 2019

● (81) یہ دنیا کی نشانی ہے / شاعری ۔ سراب دنیا


       

      (81)  دنیا کی نشانی ہے
          

جہاں امید ہوتی ہے وہیں پر ٹوٹتا ہے دل 
اسی کا نام دنیا ہے یہ دنیا کی نشانی ہے

ہماری ماں کہا کرتی تھی اکدن جان جاو گے
اسی سچ کو جسے سمجھا کہاوت اک پرانی ہے

نہیں تھے ہم تو وہ سب تھے نہیں ہونگے تو بھی ہونگے  
یہ سورج چاند اور تارے  مگر جاں آنی جانی ہے

تمناؤں کے شیشے پر جمی ہے دھول  برسوں کی 
جوانی میں سمجھتے ہو کہ جیون جاودانی  ہے

نئی صبحییں طلوع ہونگی نئے اب رت جگے ہونگے
پرانی یاد کاہے کو تمہیں دل سے لگانی ہے

ہر اک یہ ہی سمجھتا ہے وہی تو بس انوکھا ہے 
انوکھا ہے سفر اسکا ، انوکھی زندگانی ہے 

یہ عزت تھال میں رکھ کر کسی کو بھی نہیں ملتی 
 تمہیں گر چاہیئے تو پھر تمہیں یہ خود کمانی ہے 

وہ جس کے بل پہ جیتی تھی کبھی ہاری لڑائی تب
 تمہیں اک بار پھر سے اب  وہی  ہمت  دکھانی ہے

نہیں تھا وقت جس کے پاس ہم سے بات کرنے کا 
 ہمارا سوچنا اسکو  کہانی اک سنانی ہے 

اگر ہم سے صلاح کرتے کبھی وہ مشورہ کرتے 
بتاتے بات الجھی ہو تو بھر کیسے بنانی ہے 

اسی دھرتی پہ رہتے ہو، مسائل پیش آئینگے
نہ تم راجہ ریاست کے نہ ہی وہ ماہ رانی ہے 

یہ ہی تو سوچ کر ممتاز آتی ہے ہنسی ہمکو 
ہمیں  احمق سدا ٹھہرے یہ دنیا تو سیانی  ہے
                   ●●●

کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام:
سراب دنیا 
اشاعت:2020ء
●●●

ہفتہ، 19 جنوری، 2019

میرے ہاتھوں میں تتلی ہے




*میری مٹھی میں تتلی ہے جگنو ہیں ستارے ہیں 
مگر پھر بھی تہی داماں مقدر کیوں ہمارے ہیں 

*کبھی گرنا پڑے  تو سب نقاب اترے ہوئے دیکھو
کوئی کتنے کرے دعوے سبھی جھوٹے سہارے ہیں 

*انوکھے کھیل ہم سے زندگی نے خوب کھیلے ہیں 
وہی غیروں میں جا بیٹھے جو کہتےتھے تمہارے ہیں 

*اندھیرے اور اجالے میں بدل جاتے ہیں سائے بھی 
تو پھر کیسے نہ یہ بدلیں کہ بے بس ہیں بیچارے ہیں 

* ہم اکثر چاہ کر بھی کام نہ ممتاز آ پائے 
یہ ہی ہے شومئی قسمت سبھی قسمت کے مارے ہیں 
                        ۔۔۔۔۔

اتوار، 6 جنوری، 2019

رنگ بتا ۔ اردو شاعری

رنگ بتا
کلام/ممتازملک ۔پیرس 


اے میرے ہم سفر زمانہ شناس
مان جاونگی میرا رنگ بتا

کیا کوئی بےوفائی کا لمحہ 
وہ جو بیتا تمہارے سنگ بتا

تو میرے میں تیرے لیئے راضی 
مجھکو آجائے ایسا ڈھنگ بتا

کیوں ہے مایوس ان جھمیلوں سے
زندگی نے کیا ہے تنگ بتا

آئینہ ہوں تمہاری ذات کا میں 
بن تیرے ہے کوئی ترنگ بتا

ہم کو اک دوسرے سے ملتی ہے 
یہ جو جینے کی ہے امنگ بتا

ساری باتیں ہیں صرف قصے ہیں 
کون چاہت میں ہے ملنگ بتا

کیا نہیں ساحلوں پہ اڑتی ہوئی
تیرے ہاتھوں کوئی پتنگ بتا

اک سہارا تیرا ہی کافی ہے 
کیوں نہ ممتاز ہو دبنگ بتا
۔۔۔۔۔۔۔

اتوار، 13 مئی، 2018

مجھے جو معتبر کر دے / شاعری



مجھے جو معتبر کر دے 
ممتاز ملک. پیرس 

کڑکتی دھوپ میں سایہ❤
اندھیروں میں اجالا ہے
کوئی ثانی نہیں اس کا. ❤     
مجھےجس ماں نے پالا ہے

محض اک سیپ تھی میں تو❤
گوہر اُس نے نکالا ہے
ہمیشہ مشکلوں میں جس نے❤   
اس  دل کو سنبھالا ہے

مجھے جو معتبر کر دے ❤
میری ماں کا حوالہ ہے
مجھے ممتاز کرنے کو ❤         
دعاؤں کا وہ ہالہ ہے


بدھ، 5 اپریل، 2017

کیوں لگتا ہے ...


         
  کیوں لگتا ہے
کلام/ممتازملک۔پیرس 


 مجھکوکیوں لگتاہےمیرا،آناپہلی   بار نہیں ہے
 اپنےسرجولے بیٹھے ہیں،پھولوں کا وہ ہار نہیں ہے 

 کیسا گلہ اور کیسا شکوہ اپنے زخموں پر چُپ رہنا
خاموشی سے درد کا سہنا،کیا یہ کارو کار نہیں ہے

ہرپل مجھکو نئی تمّنا،ہر پل خواہش شاباشی کی
 اے دل مجھ کوسچ کہناکہ، کیا یہ کاروبار نہیں ہے


دنیا میں آنے سے پہلے کیا تم کو معلوم نہیں تھا
یہ توجگہ ہےصرف سزاکی،کوئی کسی کا یار نہیں ہے

ایک دفعہ جب اس رستے پر چلنا عادت ہو جائے
 منزل کو پا لینا پھر تو،اتنا بھی دشوار نہیں ہے

 عمل سے خالی ہےتو کیاہے، رِیت نرالی ہے تو کیا ہے
  تم اک اچھے قصّہ گو ہو،ہم کو تو انکار نہیں ہے

ہاں اب ہم مصروف بہت ہیں،لوگوں سے بھی کم ملتے ہیں
 تم سے بھی اب مل نہ پائیں، ایسی مارا مار نہیں ہے 

نہ کوئی رنجش ہے ان سے ,نہ کوئی مُمّتاز بھرم
اپنے بیچ میں ٹکرانےکو،اب کوئی دیوار نہیں ہے

بدن کی تیری ساری چوٹیں، خوش ہوں کہ اب دورہوئیں
  لیکن اس سے زیادہ خوش کہ روح تیری بیمار نہیں ہے 
          ..........................          

منگل، 2 دسمبر، 2014

تہمتیں لگاتے ہو


تہمتیں
(کلام/ممتازملک۔پیرس)





 تہمتیں لگاتے ہو تہمتیں لگانے دو
 شرم کسطرح آئے ہو سکے تو آنے دو

 کتنے سال بھٹکے تھےجوشقیں بنانے کو
 عزتیں نہ دے پائیں وہ  شقیں  مٹانے  دو

 روشنی ضروری ہے یہ خبر تو ہےہمکو 
 جو کبھی نہ بجھ  پائیں وہ  دیئے جلانے دو 

بھول بیٹھے ہو اپنی جو روایتیں تم سب
گر سکھانے آئے ہیں ہمکو وہ سکھانے دو


             ۔۔۔۔۔۔۔۔

منگل، 10 ستمبر، 2013

شعر



شعر


دکھ کا اک سمندر ہے
درد کا یہ سیپی ہے
ڈھونڈ کے جو لاتے ہیں 
آنسوؤں کا موتی ہے 
جس کو شعر کہتے ہیں 


جمعہ، 16 اگست، 2013

● (74) اپنے حق کے لیئے/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے



(74) اپنے حق کیلیئے




اپنے حق کیلیئے آواز اُٹھائی ہوتی
کاش یہ شرم کے پردے تو اتارے ہوتے 

زیست بنتی نہ کبھی جستجوۓ لاحاصل
پھر یہ ممکن تھا کہ طوفاں میں کنارے ہوتے

رات کی گود سے گر مانگ کے لاۓ ہوتے 
چاند تارے بھی تیرے دوش پہ وارے ہوتے

روشنی کم نہیں گھر میں تیر ے ہونے دیتے
کاش آنچل میں میرے اتنے ستارے ہوتے

آنکھ کے پانی کو شبنم کا سا عنواں دیکر
چند پھولوں کے ہی چہرے تو نکھارے ہوتے

دوسروں کیلیئے جو درد کا درماں بنتے
خود بھلا درد میں ممّتاز بیچارے ہوتے
●●●
کلام: مُمتاز ملک 
مجموعہ کلام:
 میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: 2014ء
●●●

● (50) کاریگری/ شاعری ۔ میرے دل۔کا قلندر بولے




(50) کاریگری


ہر کاریگری تیری ہوتی ہے بیمثال
کچھ رنگ چراتی ہوں کچھ لیتی ہوں اشکال

فطرت کے سبھی رنگوں کو آنکھوں میں سمو کر
جتنی ہو ضرورت اسے لیتی ہوں وہاں ڈھال

کس درجہ ہے بھرپور یہ قدرت کی صناعی
محدود میری عقل عطا تیری باکمال

ہر چیز اپنے اپنے مدارج میں ہے پابند
انسان ہی حیلوں سے چلے روز نئی چال

مشکل میں تیرے سامنے گردن کو جھکائے
آسانیوں میں جھکنا تصور بھی ہے محال

خواہش کا سفر اتنا بھی آسان نہیں ہے
باطن کا گلا گھونٹ کے کونے میں کسی ڈال

سویا ہے ضمیر اس لیئے دھیرے سے چلا کر
ممتاز اگر جاگا تو کر بیٹھے گا سوال
●●●
کلام: مُمتاز ملک 
مجموعہ کلام:
 میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: 2014ء
●●●

● (70) گُل نہ مار/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے



(70) گُل نہ مار


کانٹوں کا احتساب ہے پھولوں کا انتظار
یوں گل اُٹھا کے نہ تُو میرے زخمی دل پہ مار

گر آج ہیں نصیب سے راہیں جُدا جُدا
ممکن ہے کل یہ وقت نگاہوں کو کر دے چار 

کچھ تو لحاظ بات میں لہجے میں چھوڑیئے
اس سے ذیادہ جھیل نہ پائیگا دل بیمار

سوچوں کو انتخاب کا موقع تو دیجیئے
جس میں حقیقتوں کے مناظر ہیں بیشُمار

وابستہ تیری ذات سےغم پہلے کم نہ تھے
مجھ کوتیرے وجود سے ملتی ہےصرف ہار

انہونیوں نے راستے گھر کے بتا دیئے
ممتاز ہونیوں نے کبھی کا دِیا تھا مار

●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: 2014ء 
●●●  

● (68) خود کو بڑا کر/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے




(68) خود کو بڑا کر


محبوب ہیں جو اسکے کبھی ان میں جگہ پا 
لاچار سے لوگوں میں نہ یوں خود کو بڑا کر

جو کہ ہیں طلب گار جاہ و ہشم انہیں کہہ
ان عاشق دنیا کے نہ تو در پہ پڑا کر

بے مایہ یہ جھنجھٹ ہیں تو بے فیض کلامی
بچنا ہے تو تُو ذہن پہ پہرے کو کڑا کر

ہر چیز اپنی جا پہ ہی اچھی نظر آئے
ہیرے کو کبھی جا کے نہ پیتل میں جڑا کر 

ہاتھوں کو بنا کاسہ نہ آ نکھوں کو سوالی
نہ اپنی خودی کو یوں فقیروں میں کھڑ اکر

ہر ایک کو ہے اپنے اصل پر ہی پلٹنا
دیوار کے لکھے کو شب و روز پڑھا کر

جتنا بھی ہے منظور خدا وہ ہی ملے گا
مُمتاز مقدر کی لڑائی نہ لڑا کر

●●●
کلام: مُمتازملک
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: 2014ء
●●●

● (67) سچا ہی تو تنہا ہے/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے



(67) سچا ہی تو تنہا ہے


سچا ہی تو تنہا ہے جھوٹے کے ہیں یار کئی 
پھر بھی اس سے ڈرتے ہیں کتنے ہیں لاچار بھئی

بے پیندے کے لوٹوں جیسا ان کا حال سدا رہتا ہے 
پھر بھی جون نہ بدلیں اپنی ذہنی ہیں بیمار کئی

جیسی ہیں بے وقت نمازیں ایسی ان کی توبہ ہے
راتوں کو بھی اٹھ اٹھ کر ہیں کتنے ٹکریں مار کئی

اک بات انہیں سمجھادے کوئی اک رستہ دکھلا دے کوئی
اک تنہا ہی ہے سچا ہے نہیں اسکے لیئے منجدھار بھئی

بس فرض ادا کرتے جاؤ یہ حکم ہے جسکا اسکے لیئے
ان لوگوں نے کیا دینا ہے ہر روز کریں تکرار نئی

یا بیٹھے گا یا بہہ جائیگا بس آگ کی لو کو کم کر دو
یہ جوش ابلتے شیر سا ہے نہ ان میں پھونکیں ماربھئی

  بدمست جوانی میں انکو کب ہوش ہے یہ ڈھل جائے گی    
  ممّتاز جو اچھی بات کرے یہ لے آئیں تلوار نئی    
         
  ●●●    
     کلام/مُمّتازملک 
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
                  ●●●                                                                         

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/