ایک شہباز کو چڑیا سے لڑا رکھا ہے
وقت نے سبکو کٹہرے میں کھڑا رکھا ہے
بارہا شکر میرے رب کا ادا کرتی ہوں
ظرف میرا میرے دشمن سے بڑا رکھا ہے
آتے جاتے ہوئے نظروں کا تصادم تھا جہاں
اسی چلمن میں میرا دل بھی اڑا رکھا ہے
اپنی تیاری مکمل ہو وگرنہ سن لو
ممتحن نے وہاں پرچہ بھی کڑا رکھا ہے
زندگی نادر و نایاب سا الماس مگر
دیکھ لے وقت کے پیتل میں جڑا رکھا ہے
جتنی جلدی ہو ثمر بار کرو بار دگر
صبر کا پھل وجہ تاخیر سڑا رکھا ہے
چاہے ظالم کہو چاہے ہو مہربان یہ وقت
اس نے ہر پہلو پہ نظروں کو گڑا رکھا ہے
جانتا ہے وہ جبھی اپنے مفادات کے سنگ
اس نے ہر بات کا مخصوص دھڑا رکھا ہے
آرزوؤں سے زیادہ ہی ملا ہے ممتاز
راہ مشکل ہے میرے سر پہ گھڑا رکھا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔