ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک
افسانہ/ ‏ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
افسانہ/ ‏ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ہفتہ، 26 اگست، 2023

میں مائی تو بابا/ افسانہ


میں مائی تو بابا
افسانہ:
(ممتازملک ۔پیرس)


کافی دنوں سے کسی نے ہمارے ہاں چکر نہیں لگایا فضل دین نے رشیدہ سے سوال کیا ۔ میں کیا کہوں میاں ۔ ہم تم بڈھوں سے گپ لگانا آج کے لوگوں کو ہی نہیں اپنی جنی اولاد کو بھی وقت کا زیاں لگتا ہے تو انہیں اپنا قیمتی وقت گزارنے کے نت نئے مشغلے ہر زمانے میں مل ہی جاتے ہیں ۔ 
لیکن پہلے تو ایسا نہیں تھا رشیدہ ۔ ہم تو اپنے بڑوں کے پاس بیٹھ کر ان سے زندگی کی گھتیاں سلجھانے کا علم مفت میں حاصل کیا کرتے تھے ۔ پھر آج بوڑھوں اور بزرگوں کی باتیں بیکار کیسے ہو سکتی ہیں ۔
آخر ہم نے بھی اسی دنیا کے دشت کی سیاحی کی ہے جسے لوگ زندگی کہتے ہیں ۔ کیا ہمارے پاس جوانوں کو سکھانے کو دینے کو کچھ بھی نہیں ہے جو اس کھاٹ پر پڑے پڑے اپنی موت کا انتظار کرتے رہیں ۔
فضل دین کی آواز میں آنسووں کی نمی گھل گئی ۔ وہ خاموش ہوا تو رشیدہ نے اس کی چارپائی کی پائننی پر بیٹھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اسے دلاسا دیا ۔ اس کا کمبل اچھی طرح سے اوڑھا دیا ۔
کیوں ہر روز ایک سی باتیں سوچ کر اپنا دل جلاتے ہو۔ 
ہم بوڑھے میاں بیوی ہی ایکدوسرے کے دوست بھی ہیں اور غمگسار بھی ۔ ہمارا دو کمروں کا یہ کچا پکا جھونپڑا ہمارا مقدر ہے ۔ اگر اس کی جگہ عالیشان بنگلہ ہوتا تو ہمارے بچے بھی بھاگ بھاگ کر آتے بلکہ یہیں ڈیرا ڈال لیتے ۔ایکدوسرے کو اس بنگلے پر قبضہ کرنے کے لیئے مار ڈالتے ۔ عدالتوں میں گھسیٹتے ۔ ایکدوسرے کا حق کھانے کو ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ۔ میں آج اگر زیوروں سے لدی ہوئی ہوتی، چار ملازم میرے آگے پیچھے جی حضوری کرتے تو میں مائی نہیں ہوئی ۔ میڈم ہوتی ماں جی ہوتی ۔ بیگم صاحبہ ہوتی۔ پرانے بوسیدہ کپڑوں میں میں مائی اور تو بابا ۔ بس یہی ہماری اوقات ہے ۔ بہت گزر گئی تھوڑی باقی ہے وہ بھی کٹ ہی جائے گی ۔ 
رشیدہ  نے لکڑی کے چولہے پر  چڑھی ہانڈی میں پانی چڑھا رکھا تھا مگر اس میں ڈالنے کے لیئے اس نے ایک ایک ڈبہ الٹ دیا دال کے کچھ دانے بھی نہ پا کر پریشانی سے فضل دین کو دیکھا جو چارپائی پر گھسے ہوئے کمبل میں اپنے بوڑھے وجود کو گرمانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا ۔
کافی دنوں سے اس کے چاروں کڑیل جوان بیٹوں کی جانب سے بھی انکی کوئی خیر خبر نہیں لی گئی تھی ۔ پاس پڑوس والوں کو بھی کبھی اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ آکر جھانک ہی لیں کہ انہیں کسی مدد یا چیز کی ضرورت تو نہیں ہے ۔  پہلے لوگ کتنے اچھے ہوتے تھے ایکدوسرے کا حال سے باخبر رہنا اپنا فرض سمجھتے تھے ۔ نیکی کرنے کے مواقع ڈھونڈا کرتے تھےاور آج ۔۔۔فضل دین نے بات ادھوری چھوڑ دی ۔ ایک ہوک سے اس کے دل سے نکل کے کہیں ہوا میں تحلیل ہو گئی۔
ہمدرد تو آج بھی ہیں لوگ لیکن فضل دین میں نے تو یہ جانا ہے کہ یہ بے اولاد بڑے فائدے میں رہتے ہیں ۔ لوگوں کی ہمدردیاں بھی انہیں حاصل ہوتی ہیں اور مدد کو بھی تیار رہتے ہیں ۔ ایک ہم اولاد والے ہی زیادہ دربدر ہوتے ہیں ۔
فضل دین نے اسے چونک کر دیکھا 
وہ کیسے رشیدہ؟
دیکھو نا بے اولاد کو لوگ بے سہارا سمجھتے ہیں حالانکہ نہ انہوں نے کوکھ میں اولاد کا بوجھ اٹھایا ،نہ انکی گندگیاں صاف کیں ، نہ ان پر اپنی جوانی اور پونجی لٹائی ، نہ ان کی خاطر آدھا پیٹ سوئے ۔ ساری عمر صرف اپنے اوپر ہی خرچ کیا ، اپنے لیئے جیئے اور پھر بھی زمانے بھر کی ہمدردیاں سمیٹ لیں اور ایک ہم ہیں اولاد والے جنہیں یہ سارے ستم سہہ کر خون پسینے سے اس اولاد کو پروان چڑہایا اور بڑہاپے میں آکر ان کی ملاقات کے وقت کا انتظار کرتے ہیں جیسے قیدی جیل میں اور بوڑھے زندگی میں ۔ کہ کسی کی دید ہو جائے ۔ کوئی ہمیں راشن پانی ہی ڈال دے کہ  جب تک ہم مر نہیں جاتے یہ کمبخت پیٹ تو کھانے کو بار بار مانگتا ہی ہے ۔ 
رشیدہ نے اپنے گھسے ہوئے ملگجے دوپٹے سے آنسو پوچھتے اور فضل دین سے  چھپاتے ہوئے کہا۔
کڑیل جوان اولادوں کا لیبل ہمارے ماتھے پر ایسا چپکتا ہے کہ سارا معاشرہ ہماری خبر لینی ہی چھوڑ دیتا ہے ۔ کوئی نہیں جاننے کی زحمت کرتا کہ ہم کس حال میں ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں اولادیں جوان ہو گئی ہیں اور  میاں بیوی خوب مزے اور آرام میں ہیں ۔ اور یہاں اولاد سمجھتی  ہے مائی بابا کو نئے کپڑے مت لے کر دینا کل کو مر گئے تو خوامخواہ ہی پیسے ضائع ہو جائینگے ۔کون پہنے کا انکے جوٹھے کپڑے ۔۔۔رشیدہ کے اس استفسار نے فضل دین کا دل دہلا دیا ۔


بابا فضل دین  نے چھت کی جانب نظریں اٹھائیں اور اللہ سے فریاد کی یا اللہ ہمیں بہت سا مال دے تاکہ اس بے بسی سے تو نجات ملے ۔ اپنے رشتے تو اس کی بو سونگھتے ہوئے یہاں پر دکھائی دیں ۔
کافی دیر سے خود کو روکے ہوئے مشکل ہو گیا تو باہر نکل کر اسے پیشاب کرنے کو جانا ہی پڑا۔  فارغ ہوتے ہی اس کی نظر وہاں  رکھے ایک مرتبان جیسے برتن پر نظر پڑی۔  اس کا ڈھکن اٹھا کر دیکھا تو وہ ذیورات سے بھر ہوا تھا ۔
اس نے  ہنس کر آسمان کی جانب دیکھا اور جانے کس لمحے اور لہجے میں خدا سے مخاطب ہوا کہ الہی تو بھی مجھے بوڑھا اور لاچار بنا کر اب میرے ساتھ مذاق کرتا ہے تو جانتا ہے یہ مٹکا میں کیا ہم دونوں میاں بیوی بھی اٹھا کر  اپنے گھر تک نہیں لیجا سکتے  تو یہاں دینے کا کیا مقصد ؟  ترساتا یے تو بھی مجھے ۔ ان داتا دینا ہے تو دے مجھے۔ لاچار کرنے والے اس بستر تک محدود کرنے والے مجھے یہ سب چاہیئے پر میرے ہی بستر پر میری ہی چارپائی پر چاہیئے ۔ اور تو یہ کر سکتا ہے کیسے ؟ یہ میں نہیں جانتا ۔ 
یہ عجیب سی فرمائش کر کے فضل دین گھر کے دروازے کی جانب چل پڑا ۔ گھر میں داخل ہوتے ہی ہنستے ہوئے بیوی رشیدہ سے مخاطب ہوا 
یہ اللہ کو بھی ہم جیسے لوگوں کیساتھ مذاق کرنا اچھا لگتا ہے کیا ۔
کیوں بھی کیا ہو گیا ؟ 
تو بابا فضل نے مٹکے کی کہانی سنا ڈالی۔
دیوار کے پار سے ایک راہگیر نے ان میاں بیوی کی گفتگو سن لی۔ اسے مٹکے کی لالچ نے اس جگہ جا کر دیکھنے پر مجبور کیا ۔
وہاں واقعی مٹکا موجود تھا۔ اس نے جیسے ہی مٹکے کا ڈھکن اٹھایا بھڑوں کے گروہ نے اسے کاٹ لیا ۔ غصے اور درد کے مارے اس کا برا حال ہو گیا ۔ اس نے اس بابا سے بدلہ لینے کا سوچا اور مٹکا فورا ڈھانپ دیا ۔ اٹھایا اور بابا فضل کے جھونپڑے کی جانب چل دیا ۔ اس نے گھر میں داخل ہونے را راستہ دیکھا تو ایک چمنی دکھائی دی ۔ اسے بابا کی آواز اسے کے نیچے باتیں کرتے سنائی دی تھی۔ اس نے سوچا آج اس بابے کو بھی بھڑوں کے کاٹے سے جھوٹ بولنے پر سزا دونگا۔ 
ادھر بابا فضل نے رشید سے کہا بجلی لوگ کوئی دو چار لکڑیاں تو جلا دے اس انگیٹھی کو بھی آگ کی تپش یاد دلا دے ۔ 
رشیدہ  بولی لکڑی کا بھاؤ بھی معلوم ہے کیا ۔ ۔۔ بھول جاؤ کہ ہم کبھی انگیٹھی بھی گرم کیا کرتے تھے۔ ہاں کل سے یہ مٹی کا چولہا انگیٹھی کی جگہ پر رکھ دونگی اس ایک پنتھ دو کاج اسی طرح ہو جائے گا ۔ 
ابھی یہ بات ہو رہی تھی کہ اس راہگیر نے وہ مٹکا دھن کھسکاتے ہوئے چمنی پر الٹ دیا ۔۔
یہاں بابا جی پر چمنی سے چھنتے ہوئے سونے کے زیورات کی  بارش  ہونے لگی ۔ 
رشیدہ رشیدہ دیکھ تو دینے والے نے ہمیں نواز دیا ۔۔۔ رشیدہ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔ راہگیر جو سزا دینے آیا تھا وہ مٹکا چمنی پر الٹا کر رکھتے ہی بھاگ چکا تھا اور مائی اور بابا کی قسمت بدل چکی تھی ۔
اللہ نے ہر ایک کا نصیب اسی کو دینا ہے کوئی کسی سے اس کا مقدر نہیں چھین سکتا۔ 
                 ........

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/