ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک
اشاعت 2024ء لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
اشاعت 2024ء لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعرات، 26 جون، 2025

◇ نہ ‏جایا ‏کر ‏تو/ اردو ‏شاعری ‏۔ اور وہ چلا گیا ۔ اشاعت 2024ء


نہ جایا کر تو 

گھر سے غم لیکے کہیں اور نہ جایا کر تو
 رب کو سجدوں میں سبھی حال سنایا کر تو

اثر اس کا جو تجھے کرنا ہے زائل تو سن
چلتے پانی میں یہ تعویذ بہایا کر تو 

دولت درد فراوانی سے ملتا ہے جنہیں 
انکو بتلاو کہ دکھیوں پہ لٹایا کر تو 

اتنے سستے نہیں ہر ایک پہ وارے جائیں 
کسی اچھے کے لیئے اشک بچایا کر تو

جسکے ہاتھوں میں شفا رکھی ہے تیری خاطر
زخم اپنے یہ وہیں جا کے دکھایا کر تو 

نفرتیں سخت بنا دیتی ہیں چہرے ممتاز 
اپنے ہونٹوں پہ تبسم کو سجایا کر تو 
●●●

بدھ، 31 جولائی، 2024

تبصرہ۔ ممتاز منور انڈیا۔ اور وہ چلا گیا۔ اشاعت 2024ء


ممتاز شاعرہ ممتاز ملک

کرونا وبا کے دوران ایک مثبت بات یہ ہوئی کہ آن لائن مشاعروں کا دور شروع ہو گیا۔ دنیا بھر کے مختلف ممالک کے شعراء سے متعارف ہونےکا موقع ملا۔ انھیں میں سے ایک باوقار شخصیت ہیں ممتاز ملک ۔
جن کا تعلق پیرس سے ہے۔ حسین و جمیل، شگفتہ مزاج ,زندہ دل اور زندگی سے بھر پور۔ بہترین ناظمہ۔
 ان کی نظامت میں مشاعرہ پڑھنے   کا لطف ہی کچھ اور ہے۔ آپ  ادبی تنظیم "راہ ادب فرانس " کی بانی اور روح رواں ہیں۔ جس کے تحت آپ اردو اور پنجابی عالمی مشاعرے منعقد کرواتی رہتی ہیں۔ اپنی خوبصورت ادا سےاور دلفریب ترنم میں جب آپ اپنا کلام پیش کرتی ہیں تو سامعین مسحور ہو جاتے ہیں۔ جتنے خوبصورت  طریقے سے کلام کی ادائیگی ہوتی ہے اتنا ہی خوبصورت ان کا کلام ہوتا ہے۔ ان کا شعری مجموعہ"اور وہ چلا گیا" ابھی ابھی موصول ہوا۔ ممتاز صاحبہ کے حکم کی تعمیل میں اس کتاب کے تعلق سے  اپنے خیالات پیش خدمت ہیں۔
اس کتاب کو ادارۀ اردو سخن ڈاٹ کام نے شائع کیا ہے ۔ 200 صفحات پر مبنی اس کتاب کا انتساب بھی دلچسپ ہے۔ جس کو أپ نے "وطن عزیزکی فلاح و بہبود کے لۓ سوچنے والوں کے نام" کیا ہے۔ کیونکہ آپ خود بھی معاشرے کی فلاح و بہبود کے بارے میں نہ صرف سوچتی ہیں بلکہ اس میدان میں فعال بھی ہیں۔ جس کی جھلک  ان کے کلام میں بھی نظر أتی ہے ۔ وہ کہتی ہیں

ناچتی پھرتی ہے یہ نسل نو
کجھ تو ان میں فنون رہنے دو

یہ شعر بھی ملاحظہ کریں

گھر میں ہی انصاف کی پامالیاں ہونے لگیں
داغ سینے کے زمانے کو دکھانے پڑ گئے

ممتاز صاحبہ اج کے دور کی خاتون ہیں۔ تعلیم یافتہ، اپنا ذہن، اپنی راۓ رکھنے والی۔ اپنے وجود کی اہمیت جتانا خوب جانتی ہیں۔کہتی ہیں

چوڑیاں چھوڑ کے ہتھیار  اٹھایا میں نے 
نہ سمجھ تو اسے بیکار اٹھایا میں نے

 اسی طرح وہ اپنے أپ کو کسی سے کمتر نہیں سمجھتیں۔  بلکہ برابری کا درجہ چاہتی ہیں۔

تمہارے رنج و غم اپنے جگر میں پالتی ہوں
میں ہمدم ہوں محض اک شوق رکھوالی نہیں ہوں

کہیں کہیں ان کی شاعری میں زمانے سے شکایت کا رنگ بھی نظر آتا ہے۔ وہ کہتی ہیں

یہ مطلب پرستوں کی دنیا ہے پیارے
یہاں زندگی کون ہنس کے گزارے
یہاں پر خوشی میں تو ہنستے ہیں سارے
مگرساتھ روتے نہیں ہیں ہمارے

انہیں اپنے دوستوں سے بھی گلہ ہے کہ

اپنے ہی رلاتے ہیں اپنے ہی ستاتے ہیں
غیروں میں کہاں دم تھا کہ آنکھ کو نم کرتے

 آج کل کے حالات پر بھی وہ گہری نظر رکھتی ہیں اورفرماتی ہیں

ہے تم پر فرض پہلا،  پرورش اچھی کرو ان کی
جنم دیتے ہی جن کو تم ، لگاتے ہو کمانے پر

ان شکوے شکایات کے باوجود آپ نہایت پر امید ہیں

جہاں کوئی نیا أباد کر لیں
یہ دنیااب پرانی ہو گئی ہے

 اور یہ بھی ملاحظہ کریں

رات کے بعد ممتاز دن آئیگا 
سوچ نہ دن کے آگے محض رات ہے

آپکی شاعری کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کو پڑھنے کے بعد قاری کے ذہن پر ایک مثبت تاثر چھا جاتا ہے ۔ شاعر کا کمال ہی یہی ہے کہ وہ اپنے قاری کی سوچ کوصحیح اور مثبت سمت دے ۔
اس کتاب کی اشاعت پر میں ممتاز صاحبہ کو دلی مبارک باد پیش کرتی ہوں اور دعا گو ہوں

اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
 ڈاکٹر ممتاز منور
صدر
انجمن ترقی اردو( ہند)
پونے. . . .  انڈیا
                 ۔۔۔۔۔۔۔

بدھ، 24 جولائی، 2024

تبصرہ ۔ رحمان امجد مراد ۔ اور وہ چلا گیا ۔ اشاعت 2024ء



تبصرہ: رحمان امجد مراد سیالکوٹ 
لکھاری۔  40 کتب

شعر اور فرد کے مابین استوار ہونے والے رشتوں میں سب سے واضح اور معتبر رشتہ "لاشعور" کی سطح پر قائم ہوا کرتا ہے۔ شعری زبان اور ہیئت (form) کی تفہیم فوری طور پر "شعور" کی مرہون منت ہی سہی لیکن متن( text) کی(application) ہمیشہ "لاشعور" بلکہ اگر صحیح اصطلاح اپنائی جائے تو "اجتماعی لاشعور " کے وسیع و عریض علاقے پر ہوتی ہے ۔ یوں بھی جدید نفسیات کے مطابق افہام کی اصل سطح "اجتماعی لاشعور" کی انہی یادداشتوں سے عبارت ہے۔  تخلیق سے اظہار تک کے تمام مراحل سہل نہیں ۔ نہ جانے کتنے ہی ہفت خواں سر کرنے کے بعد شاعر اس اقلیم سخن تک رسا ہوتا ہے
 جہاں اسے لفظ کا اصل فطری لحن نصیب ہوتا ہے اور بقول غالب~
 بے نشہ کس کو طاقت آشوب آگہی
 بہرحال سخن کے حوالے سے کام پہلے بھی ہوتا رہا ہے۔ (اگرچہ نہ ہونے کے برابر صحیح ) اور آج بھی اس سلسلے میں انفرادی سطح پر بہت سے لوگ مصروف کار ہیں۔ آج اس قبیلے کی ایک فرد سے آپکو ملوانا چاہتا ہوں۔ اس کے کہے ہوئے شعروں میں، اس کے برتے ہوئے لفظوں میں، دھیما سا سہی لیکن ایک نیا ذائقہ آپ کو ضرور ملے گا۔
 >ساری دنیا کو لے کے کیا کرنا
 صرف میرا، میرے خدا ہو جا

>جب سے چوما ہے میں نے صحن حرم
 بے قراری سے میں قرار میں ہوں
 محترمہ ممتاز ملک کی ذات اور شاعری میں جو باتیں مشترک ہیں اور ان میں سب سے اہم بات کسی اور کو اپنا گرویدہ بنانے کی خصوصیت ہے۔ جس طرح محترمہ ممتاز ملک سے ملنے والا شخص ان سے متاثر ہوتا ہے بلکہ دوسری تیسری ملاقات میں ان کے گنوں کو پوری طرح جان جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح ان کی شاعری فوری طور پر ذہنوں پر حاوی ہو کر اپنی موجودگی کا اظہار کرتی ہے۔ ( یہ میرا خیال ہے) آئیے محترمہ ممتاز ملک کے آئینے کے سامنے کچھ وقت گزارتے ہیں۔۔۔
* ہم نہ آتے جو یہاں کون بتاتا ہم کو
 کس کی اوقات ہے کیا آ کے یہاں جان لیا 

*کھردری کھردری اداسی ہے
 مخملی مخملی خماری ہے 

*ساری دنیا کی اذیت سے تقابل کرتے
 اس کا ہر لفظ جہاں بھر سے تھا بھاری ہم

* محرومیوں کا درد یا احساس کی کمی ہے
 سوچوں کے آئینوں پر اک گرد سی جمی ہے 

*دھڑکنیں ہو گئیں ساقط تیرے جاتے جاتے
 کس طرح تجھ کو میری جان بھلائیں گے ہم

* اگر ہر شعر کو اکائی سمجھا جائے تو اس کتاب میں شامل اکثر غزلیں ایک بالغ نظر حساس شخصیت کی زندگی میں لمحہ لمحہ رنگ بدلتی رتوں اور تیور بدلتے رشتوں کی رپوتاژ بھی کہلا سکتی ہیں دراصل ۔۔۔۔۔ 
سچا تخلیق کار وہی ہوتا ہے جو اپنی داخلی واردات کے ساتھ ساتھ خارجی معاملات و مشاہدات کو بھی پیرایئہ اظہار دینے کا ہنر رکھتا ہو۔
محترمہ ممتاز ملک پر یہ نقطہ یقینا منکشف ہو چکا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں مذکورہ بالا دونوں جہتیں موجود ہیں اور لطف یہ کہ تمام تر فنی باریکیوں کے ساتھ ۔۔
چند مثالیں ملاحظہ ہوں ۔۔۔
*میرے ہاتھوں میں چھپے راز بتانے والے
 اب کہاں ملتے ہیں وہ ساتھ نبھانے والے

 *ہرگز یہ سمجھنا یہاں دشوار نہیں ہے
 اس ملک سے کوئی بھی وفادار نہیں ہے

* گھلی ہیں سسکیاں ہر ایک لے میں 
 یہی اس گیت کا رنگ طرب ہے

* کیا خوشی کبھی تذکرہ کرتا
 یہ تو پہلو میں غم کی سوتی ہے 

* لب پہ نغمے وصال کے لیکن
 آنکھ میں ہے جدائی کا موسم

 اس کتاب کی بیشتر غزلوں میں شاعرہ کی ٹریٹمنٹ میں نہایت سادگی نظر آئے گی۔ اس کی زبان میں محاورے سے زیادہ روزمرہ کا لہجہ استعمال ہوتا ہے۔  محترمہ ممتاز ملک اور لفظوں کے درمیان بڑی بے تکلفی ہے اور یہ بڑی اہم چیز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے ہاں جیتی جاگتی اور سانس لیتی زندگی دکھائی دیتی ہے۔
* وہ بھی تجھ کو بچا نہیں سکتے 
جی اٹھے ہیں جو تیرے آنے پر

* گر بجھا سکتے نہیں، اچھا ہے تم دور رہو 
مت بھڑکتے ہوئے، شعلوں کو ہوا دو جا کر

* بہت قابل جسے مانا جہاں نے
 ناکارہ کر کے چھوڑا ہے کسی نے

* دبا کے درد کو مسکان کوئی کم تو نہیں 
اسے اسی میں تو بے حد کمال گزرا ہے 

*نظروں سے لوگ پوچھتے ہیں سجتا دیکھ کر 
کس کو سنگھار اپنا دکھائیں تیرے بغیر

* لب نہ کہہ پائیں وہ آنکھوں سے عیاں ہوتی ہے
 ہر محبت میں عقیدت یہ کہاں ہوتی ہے
 ہم نے محسوس کیا خود کو بھی بے بس اس جاء
 والہانہ سی یہ زنجیر جہاں ہوتی ہے

* جب ضرورت ہو مجھے یاد بھی کر لیتا ہے
 بن ضرورت کے نہیں وقت گنوانے والا 

* معاملہ اتنا بھی آسان نہیں ہے صاحب
 جتنے انسان نے آسان سمجھ رکھا ہے

* ہم زندگی کی بھیڑ میں گم کس قدر ہوئے 
کھینچا ہے واپسی نے بھی فرمان کی طرح

* جو کچھ گزر رہی ہے اس سے نظر چرا کر
 کچھ اور ہی دکھانا , آسان نہیں ہوتا 

*زندگی میں سکون رہنے دو
 تھوڑا تھوڑا جنون رہنے دو 
ہو چکا ہے جو رب کی رحمت سے 
تم بھی اس کو ملعون رہنے دو

 زندگی کی کڑوی اور سنگین حقیقتوں کی نقاب کشائی محترمہ ممتاز ملک کے مزاج کا حصہ ہے۔ وہ تخیل پرست نہیں بلکہ جو کچھ اپنے سامنے دیکھتی ہے اس کو اپنے شعر کا موضوع بناتی ہے۔  خارجی حالات کو دیکھ کر جو باتیں اس کے ذہن میں آتی ہیں۔ انہی کی تفصیل اور جزئیات کو پیش کرتی ہیں۔ اس کی شاعری میں عذاب زیست کے سارے باب کھلے نظر آتے ہیں۔  محترمہ ممتاز ملک جذبوں کا جوڈو کھیلنا جانتی ہیں ۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں زندگی کی بڑی بڑی حقیقتوں کو بیان کر جاتی ہیں۔ دراصل اس نے چھوٹی باتوں میں ہی زندگی کی حقیقتوں کو دیکھا ہے ۔ اس لیے وہ ہر اس چیز کو ٹٹولتی ہے جس پر ہاتھ ڈالنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ فنی اعتبار سے وہ اپنا جواب آپ ہے۔۔۔ وہ حساس اور بے باک ہونے کے ساتھ ساتھ غیور بھی ہے۔ اس کے شعری سٹائل میں سادگی اور پرکاری کے ساتھ تیکھا پن اور نوک پلک کی درستی بڑی مٹھاس کے ساتھ بھری ہوئی ہے۔ وہ دو مصروں میں بے تکلفی کے ساتھ سارے گن ظاہر کر دیتی ہے۔ وہ شعر بازوں اور شعر گروں سے الگ تھلگ رہ کر اپنے فیصلے صادر کرنے کی عادی ہے۔ اس لیے وہ اکثر فیصلے درست کرتی ہے۔ وہ بڑی سے بڑی ٹریجڈی کو سہولت کے ساتھ ایک شعر میں بیان کر سکتی ہے۔ اس کی شاعری مخملی ملائم کے ساتھ کلف کیئے ہوئے کاٹن کی طرح کھنک اور اینٹھتی ہوئی اکڑ بھی موجود ہے۔
" اور وہ چلا گیا"  کا عنوان ہی اپنے اندر بے پناہ درد اور معنویت رکھتا ہے۔ اس بات سے قطع نظر یہ مصرع جس شعر یا غزل سے لیا گیا ہے۔ اس کا موڈ کیا ہے ۔ ہمارے نزدیک ہر مصر ایک الگ اور آزاد بلاز کی حیثیت رکھتا ہے، اور ایک اکائی کی حیثیت سے ہر مصرع شاعرہ کی مکمل تحلیل نفسی کا تقاضا کرتا نظر آتا ہے۔ کم از کم میرا تو یہی خیال ہے۔ آپ بھی اس کتاب کے ٹائٹل کو کچھ وقت الگ سے ضرور دیں۔
 محترمہ ممتاز ملک کے بقول~

ہم کو بھی سانس لینے کو، تازہ ہوا ملے 
گل سے گلوں سے، ہم کو لگاوٹ نصیب ہو
 میں محترمہ ممتاز ملک کو ان کے پابچویں  اردو شعری مجموعہ کلام " اور وہ چلا گیا "
کی تخلیق پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں 
" اللہ کرے زور قلم اور زیادہ"
 دعاگو 
رحمان امجد مراد
 بانی اور چیئرمین کرائیڈن اکیڈمی سیالکوٹ 
0321.6151642

منگل، 16 جنوری، 2024

جاری ہے۔ اردو شاعری ۔اور وہ چلا گیا۔ اشاعت 2024ء


جاری ہے


یہ بگولوں نے دی خبر ہم کو
دل کے صحرا میں رقص جاری ہے
 
کھردری کھردری  اداسی ہے
مخملی مخملی خماری ہے

ہاتھ باندھے کھڑے ہیں دیوانے 
دل کی دنیا پہ وجد طاری ہے

اس نے لفظوں کا صور پھونکا ہے
اب سنبھلنا تو اضطراری ہے

یہ تو پہلے سے طے تھا کیوں اس پر
ہائے دل ایسی بیقراری ہے

یہ محبت کا وہ وظیفہ ہے
 جو الٹ جائے پھر تو بھاری ہے

میں نے پرہیز جب نہیں رکھا
درد میرا تو اختیاری ہے

مجھ کو ممتاز کر کے تنہا کر
واہ کیسی یہ غمگساری ہے

    --------      

جمعہ، 5 جنوری، 2024

* وردان کی طرح۔ اردو شاعری ۔ اور وہ چلا گیا ۔ اشاعت 2024ء


عرفان کی طرح


ہیجان کی طرح کبھی عرفان کی طرح
ہر اک کتاب زیست ہے گردان کی طرح 

اتنے تو خوش نصیب نہ تھے خواب میں بھی ہم
ہمکو ملا ہے تو کسی وردان کیطرح 

ہم زندگی کی  بھیڑ میں گم اس قدر ہوئے
کھینچا ہے واپسی نے بھی فرمان کی طرح

اللہ کا قرب چاہنے کی چاہ ہو چلی 
رستہ نہ روکیئے میرا شیطان کی طرح

جب سے خرید لایا وہ انگیٹھی اک نئی
اس میں یہ دل سلگتا ہے لوبان کی طرح

طعنے و تشنیع سارے کتابوں میں بند کر
اک ایک ورق ہم نے پڑھا گیان کی طرح

ایسے گرے ہیں عرش سے مٹی کی گود میں
بھٹکے ہوئے وجود کو فیضانِ کی طرح

ہر پل ہمارے مد مقابل ہے زندگی 
ہم کو ملی ہے زیست بھی میدان کی طرح 

گر کر سنبھلنے کا جو سبق بھولتا نہیں 
دوڑے لہو میں ہمت مردان کی طرح 

یہ سوچنے کی بھول نہ کرنا کہ قرض تھا
ممتاز نے یہ دی ہے  وفا دان کی طرح

---------




شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/