ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

بدھ، 20 مارچ، 2019

● (81) یہ دنیا کی نشانی ہے / شاعری ۔ سراب دنیا


       

      (81)  دنیا کی نشانی ہے
          

جہاں امید ہوتی ہے وہیں پر ٹوٹتا ہے دل 
اسی کا نام دنیا ہے یہ دنیا کی نشانی ہے

ہماری ماں کہا کرتی تھی اکدن جان جاو گے
اسی سچ کو جسے سمجھا کہاوت اک پرانی ہے

نہیں تھے ہم تو وہ سب تھے نہیں ہونگے تو بھی ہونگے  
یہ سورج چاند اور تارے  مگر جاں آنی جانی ہے

تمناؤں کے شیشے پر جمی ہے دھول  برسوں کی 
جوانی میں سمجھتے ہو کہ جیون جاودانی  ہے

نئی صبحییں طلوع ہونگی نئے اب رت جگے ہونگے
پرانی یاد کاہے کو تمہیں دل سے لگانی ہے

ہر اک یہ ہی سمجھتا ہے وہی تو بس انوکھا ہے 
انوکھا ہے سفر اسکا ، انوکھی زندگانی ہے 

یہ عزت تھال میں رکھ کر کسی کو بھی نہیں ملتی 
 تمہیں گر چاہیئے تو پھر تمہیں یہ خود کمانی ہے 

وہ جس کے بل پہ جیتی تھی کبھی ہاری لڑائی تب
 تمہیں اک بار پھر سے اب  وہی  ہمت  دکھانی ہے

نہیں تھا وقت جس کے پاس ہم سے بات کرنے کا 
 ہمارا سوچنا اسکو  کہانی اک سنانی ہے 

اگر ہم سے صلاح کرتے کبھی وہ مشورہ کرتے 
بتاتے بات الجھی ہو تو بھر کیسے بنانی ہے 

اسی دھرتی پہ رہتے ہو، مسائل پیش آئینگے
نہ تم راجہ ریاست کے نہ ہی وہ ماہ رانی ہے 

یہ ہی تو سوچ کر ممتاز آتی ہے ہنسی ہمکو 
ہمیں  احمق سدا ٹھہرے یہ دنیا تو سیانی  ہے
                   ●●●

کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام:
سراب دنیا 
اشاعت:2020ء
●●●

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/