ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک
افسانے ۔ سچی کہانیاں لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
افسانے ۔ سچی کہانیاں لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

منگل، 20 اگست، 2024

& اندھی محبت۔ افسانہ۔ سچی کہانیاں۔ قطرہ قطرہ زندگی


        اندھی محبت
   

وہ جس راستے سے اپنے سلائی سکول جاتی تھیں وہاں عین اسی لمحے کوئی اور بھی منتظر دکھائی دیتا ۔
 یوں تو وہ سرتاپا  بڑی سی سیاہ چادر میں ڈھکی ہوتیں  ۔ لیکن اسکے گورے ہاتھوں اور کاجل لگی آنکھوں  نے منور کو جیسے اسکا دیوانہ بنا دیا تھا ۔ 
وہ ہر روز اپنا ہر ضروری کام چھوڑ کر ٹھیک نو بجے اس راستے میں اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیئے  کھڑا رہتا ۔ 
سی ایس ایس کی پڑھائی اور پھر اپنی بینک کی ملازمت کے لیئے شہر میں آنے والے اس نوجوان کا تعلق یوں تو بہت کھاتے پیتے گھرانے سے تھا۔
 اپنے خاندان کے کالے کلوٹے مرنجاں مرنج افراد میں یہ گول مٹول گورا چٹا بچہ سب کے لیئے گویا اللہ نے کوئی تحفہ بھیجا تھا ۔ بڑے چاو سے اسکے ماں باپ اور ددھیال ننھیال نے صلاح مشورے کے بعد اس کا نام منور رکھا ۔ وہ تھا بھی  روشن اور منور چہرے والا ۔۔
 بچپن سے ہی بہت حسین، بلا کا ذہین ۔
 سارا گاوں سارا خاندان  اس کی نفاست اور ذہانت پر حیران ہوا کرتا اور اکثر اس کی ماں سے مذاق کرتے کہ بھابی جی سچ بتا کیا کھا کر یہ چاند کا ٹکڑا پیدا کیا ہے ۔۔
وہ سادہ سی دیہاتی خدمتگزار اور ملنسار رشیداں بی بی ہنس کر آسمان کی جانب منہ کر کے کہتی کہ
 کے دساں اللہ سوہنے دی دین ہے ۔ ایہہ سوہنا پت میری جھولی وچ پا کے میکوں لگے اس میکوں میڈھی کسے بڑی خاص نیکی دا انعام جیوندیاں جی دے چھوڑیا اے۔ 
(یعنی کیا بتاوں یہ اللہ سوہنے کی دین ہے ۔ کہ یہ پیارا بیٹا میری جھولی میں ڈال کے مجھے لگتا ہے کہ اس نے میری کسی خاص نیکی کا انعام مجھے جیتے جی ہی دیدیا ہے ۔ )
منور حسین ہی نہیں بے حد ذہین بھی تھا۔ سکول سے لے کر کالج تک ہر جماعت میں اس نے نمایاں نمبروں کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔
 پورے خاندان کا واحد لڑکا تھا جو ہر کلاس میں ایک ہی بار میں اور وہ بھی اتنے شاندار نمبروں سے پاس ہوا ہو۔
 اور سب سے زیادہ پڑھا لکھا۔
 اس نے جب شہر جا کر اعلی تعلیم کی خواہش کی تو سارے خاندان نے، اس کے ماں باپ نے اس پر دلی خوشی کا اظہار کیا ۔
یوں وہ سب  کی اجازت سے شہر میں ایک کمرہ کرائے پر لے کر رہنے لگا ۔
اس میں کوئی بری عادت نہیں تھی۔ وہ بہت نفیس لڑکا تھا۔ سیگرٹ تک پینا اسے پسند نہیں تھا۔
 ہر کسی سے اخلاق سے بات کرنا اس کی عادت تھی ۔ وہ جہاں رہتا، جہاں جاتا ہر کسی کو اپنا گرویدہ بنا لیتا۔ ہر کوئی اس سے دوستی کرنا چاہتا۔ وہ ہر کسی کی مدد کو تیار رہتا۔  اسکی زندگی مالی طور پر آسان  اور آسودگی تھی۔ 
 اس لیئے اسے مجبورا بھی کبھی کچھ نہیں کرنا پڑا۔ 
جو کیا شوق سے کیا ذوق سے کیا اور اسی  مالی آسودگی کی وجہ سے اکثر دوستوں کی مدد بھی کیا کرتا۔
 یوں وہ سب کا چہیتا بنا رہا۔
وہ اپنی موٹر سائیکل سٹارٹ کر رہا تھا۔
جس وقت چار پانچ لڑکیوں کا ایک گروپ گپ شپ لگاتے ہنستے مسکراتے پاس سے گزرا۔
 تقریبا سبھی نے بڑی چادریں اوڑ رکھی تھیں اور چہرے ڈھک رکھے تھے۔
 ان سب میں گورے گورے ہاتھ اور کالی کاجل لگی بڑی بڑی انکھوں پر جیسے اس کی نگاہ ٹک سی گئی۔
 جانے کیوں وہ اسے دیکھتا چلا گیا۔ حالانکہ اس کے گورے پاؤں ہاتھ اور انکھوں کے سوا کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
 لیکن وہ جیسے ان آنکھوں میں ڈوبتا چلا گیا۔
 ان آنکھوں کی مسکراہٹ نے جیسے اس پر اپنی پسندیدگی بیان کی ہو، اور آگے کی طرف نکل گئی۔
 بس پھر کیا تھا اب ان آنکھوں کی دید کے لیئے ہر روز منور اسی وقت منتظر رہنے لگا۔۔۔
کالی چادر سے جھانکتی کاجل لگی وہ کالی آنکھیں اور بیگ کندھے سے لٹکائے اس کے وہ گورے ہاتھ گویا اس کی زندگی کا مقصد بن گئے تھے ۔ 
اس نے محلے میں رہنے والے اپنے ایک دوست کے ذریعے اس کی ماں سے یہ معلوم کروایا کہ اس لڑکی کے گھر کا پتہ کریں۔
 وہ اسے رشتہ بھیجنا چاہتا ہے۔
 محلے کی ہر گھر میں ہر ماں اور ہر لڑکی اس سے رشتہ کرنے کی خواہش تھی۔
 لیکن اس کی نظر ٹکی بھی تو اس لڑکی پر جسے اس نے کبھی دیکھا تک نہیں۔
  دو ایک روز میں اس کے دوست کی ماں نے اس کی ساری معلومات کیں۔ اور بتایا کہ وہ چھ بہنیں اور ایک بھائی ہیں ۔
 صرف ایک بڑی بہن کافی سالوں سے بیاہی ہوئی ہے۔ بھائی نکما ہے اور چھوٹی بہنیں پڑھ رہی ہیں
 جبکہ یہ لڑکی زیادہ پڑھ نہیں سکی اس لیئے سلائی کا کورس کرنے جاتی ہے۔
 اس نے دوست کی ماں کو خالہ جی کہہ کر مجبور کیا کہ میں اپنے والدین کو لانا چاہتا ہوں ان کے گھر ۔
کسی طرح سے بات چلائیے۔
 بالآخر لڑکی کی ماں کے نے جب سنا کہ اتنا حسین پڑھا لکھا نوجوان خوبصورت تمیزدار اپنے رشتے کے لیئے ان کے گھر کا منتظر تھا۔
 یہ سن کر پاری کی ماں ہکی بکی رہ گئی۔
 ایسا رشتہ تو وہ خواب میں بھی نہیں سوچ سکتی تھی۔
 پھر جب وہ لوگ ان کے گھر باقاعدہ اپنی بیٹے کی خواہش پر رشتہ لے کر آئے تو بہت حیران ہوئی۔
 جب کہ پاری ان کے سامنے بھی تقریبا گھونگھٹ نکال کر اور خود کو ڈھک کے، ان کی خاطر مدرات میں پیش پیش ہوتی۔
 وہ تو منور کو دیکھ چکی تھی اور دل و جان سے اس پر فدا بھی ہو چکی تھی، لیکن خود کبھی وہ کھل کر ان کے سامنے نہیں آئی۔
لیکن ان کی خاطر مدارت میں اس نے کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
 منور کے ماں باپ یہی سوچ کر دیوانے ہو رہے تھے کہ
 واہ شہر میں رہنے والی لڑکی چاہے کرائے کے گھر میں ہی رہتی تھی۔ مالی طور پر بے حد کمزور ہی کیوں نہیں تھے۔ لیکن گوری چٹی شہری لڑکی ان کی بہو بننے جا رہی ہے اور کتنی تمیزدار ہے کتنی خاطر کرتی ہے ان کی کتنی عزت کرتی ہے۔
 یہ بات بھی ان کے لیئے کافی تھی۔
 وہ سب گہرے سانولے اور کالے رنگ کی کھال کے ساتھ آنے والے ایک اچھے خاندان کے کھاتے پیتے ایسے لوگ تھے جنہیں اگر الگ سے دیکھا جاتا تو کوئی بھی نہیں مان سکتا تھا کہ یہ لوگ کسی کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتے ہوں گے۔
 مسکین سی شکلوں والے سادہ سے مزاج کے لیکن لیکن بہترین مالی حیثیت کے لوگ اس لڑکی کی شرم و حیا سمجھتے ہوئے اس پر لٹو ہو چکے تھے۔
وہ جب کبھی آتے ڈھیروں ڈھیر سوغاتیں گاؤں سے لے کر آتے۔
کسی چیز کی ان کے گھر کبھی کمی نہ ہونے دیتے۔ جبکہ پاری کی ماں منع کرتی رہتی
 کہ اتنا مت لے کر آئیے۔
میں یہ بوجھ نہیں اٹھا سکتی اور میں آپ کے مقابلے کی نہیں۔
 لیکن انہوں نے کہا
 نہیں بہن جی ہمیں صرف آپ کی بیٹی کا رشتہ چاہیئے۔ ہمیں آپ سے اور کچھ نہیں چاہیئے۔
تن کے دو کپڑے بھی ہمارے گھر کے ہوں گے۔ ہمیں ان کی ضرورت بھی نہیں۔ بس آپ ہمارے بیٹے کی خواہش ہمیں دے دیجئے۔
پاری کی بیوہ ماں کے لیئے یہ رشتہ جیسے اللہ نے ایک نعمت بنا کر بھیج دیا ہو۔
 وہ جو ہر مہینے دو کمروں کے گھر کے  کرائے کے لیئے پریشان رہا کرتی تھی۔
 اس بیوگی میں پانچ پڑھنے والی بیٹیوں کا ساتھ،  ایک نکما بیٹا جو سارا دن آوارہ گردی سے باز نہ آتا۔
ایسے میں ایسا رشتہ اور ایسے اچھے لوگ اس کے لیئے اللہ کا کوئی انعام تھے جیسے۔
تحفے تحائف کا سلسلہ  رکنے کا نام نہیں لیتا تھا ۔ آئے دن  پاری کے گھر پر اس کی ہونے والی سسرال سے کوئی نہ کوئی  گاوں کی سوغات لیئے آ موجود ہوتا ۔
 زلیخا جیسی بیوہ عورت، چھ بیٹیوں اور ایک نالائق بیٹے کے گھر پر تو منور کا رشتہ گویا رحمت خداوندی ہو گیا تھا   ۔ 
وہ ہزار بار بھی منع کرتی تو بھی ہونے والی اتنی بڑی زمیندار سسرال سے خالی ہاتھ آنا کوئی کیسے گوارہ کرتا ۔۔ 
کبھی گنے کا موسم ہے تو گنے کے ڈھیر اور بوری بھر گڑ ، کبھی چاول کی بوری ،کبھی موسمی پھل گویا انہیں تو جیسے زلیخا کے گھر  کچھ بھیجنے کا بہانہ ہی چاہیئے تھا ۔
پاری ان کے لیئے چائے اور کھانے کا اہتمام اپنی ماں کے کہنے پر کرتی اور کھانا پیش بھی کرتی تو ایک لمبا سا گھونگھٹ ضرور تانے رکھتی ۔
 اس کی اس ادا کو اس کے سادہ لوح  سسرال نے اس کی حیاداری کی اعلی مثال قرار دیا ۔ 
ورنہ آج کے اس جدید اور بے حیا دور میں جہاں ہر لڑکی چٹک پٹک کر اپنے بر ڈھونڈتی پھرتی ہے وہاں ایسی  شرم و حیا کا تصور بھی محال تھا ۔ 
اس کا سسرال دیہاتی سادہ لوح اسکی اسی پر فدا تھا کہ ان کے چاند سے بیٹے کو گوری چٹی شہری لڑکی وہ بھی ایسی جو ان کے شہزادے کو بھی پسند تھی مل گئی ۔ اور کیا چاہیئے تھا ۔ 
منور جو پہلے ہی ایک بینک میں اچھے عہدے پر کام کر رہا تھا لیکن سی ایس ایس کی پڑھائی مکمل کرتے ہی سال بھر کے اندر اس نے شادی کے لیے اصرار کرنا شروع کیا۔
 
زلیخا جو پریشان تھی کہ بیٹی کو کیا دے کر رخصت کرے گی
 انہوں نے یہ کہہ کر اس کی ساری پریشانی دور کر دی کہ
 ہمیں بیٹی کے سوا کچھ نہیں چاہیئے۔
 ان کے گاؤں سے رواج تھا کہ بارات میں صرف مرد ہی آیا کرتے تھے۔
 مردوں کا ایک گروہ آیا ۔
لڑکے کے ساتھ نکاح کی ایک سادہ سا رسم ہوئی اور یوں لڑکی گاڑی میں بیٹھ کر رخصت ہو گئی۔
 ولیمے کے روز خواتین جو اپنے گھروں میں اپنے گاؤں میں بیٹھی دلہن کے انتظار میں تھیں۔ سارا دن رونق میلہ انہوں نے وہاں اپنے گھر میں کرنا تھا۔ 
خوب ڈھول ڈھمکے ہوئے ۔
رونق میلہ لگا اور یوں زمیندار صاحب کے بیٹے کی بارات کو  لے کر اوردلہن کو حجلہ عروسی تک  پہنچا کر اپنے گھروں کو رخصت ہوئیں ۔
 آج منور کی زندگی کا یادگار دن تھا۔
 وہ دو سال سے اس انتظار میں تھا۔ کہ کب یہ چاند اس کے گھر میں اترے گا ۔
اس کا تجسس اور شوق دیدار تھا کہ جانے کس درجے تک پہنچ چکا تھا۔
 کمرے میں قدم رکھتے ہی اس کے خواب سمٹی سمٹائی  دلہن کی صورت اس کے پلنگ  پر موجود تھے۔ جنہیں وہ آج تعبیر دینے جا رہا تھا۔
 اس نے بڑے چاؤ کے ساتھ اپنے ہاتھ میں ایک خوبصورت سا سونے کا سیٹ ڈبے میں دیکھا اور دلہن کو منہ دکھائی کے لیئے دینے آگے اس خوبصورت منقش پلک پہ جا بیٹھا۔
 پاری نے کچھ ادا دکھائی۔
 شرمانے کی ادائیں دکھانے کے بعد جس وقت اس نے اس کو سیٹ پیش کیا اور یوں جب اس نے گھونگٹ پلٹا تو ،منور کی دنیا جیسے کسی دھماکے میں اڑ گئی ہو۔ اس کے خواب بکھر گئے۔ 
 یہ کیا ہوا گورے چٹے ہاتھوں اور اور سفید پیروں اور بڑی بڑی انکھوں میں جب پورا چہرہ مجسم تھا۔ 
وہ حیران پریشان ایک دم سے اچھل کر پلنگ سے دور جا گرا ۔ 
پاری حیرت سے اسے دیکھنے لگی
 کیا ہوا آپ کو۔۔ وہ پریشان ہو بولی
 تم تم کون ہو۔۔۔
منور نے اجنبیت سے پوچھا
 میں ۔۔۔ میں آپ کی بیوی پاری۔۔۔
اس نے رسان سے کہا
 نہیں نہیں  تم وہ نہیں ہو سکتی۔ وہ تو کوئی اور لڑکی تھی۔
وہ اٹک اٹک کر بولا
 نہیں وہ میں ہی تھی
 وہ ہکا بکا پریشان اس 35 سے 40 سال کی لگ بھگ اس خاتون  کو دیکھ رہا تھا جس کے چہرے پر جھریاں نمودار ہونا شروع ہو چکی تھی۔ دانت نسبتا باہر کو آتے ہوئے۔۔۔
 
شاید یہ غربت کا اثر تھا یا اس کے اتنے زیادہ دبلے پتلے ہونے کی وجہ سے وہ اپنی عمر سے بھی کہیں بڑی دکھائی دے رہی تھی۔
 25 سال کے لڑکے کے لیے 35، 40 سال کی ایک خاتون کا یہ ساتھ کسی جھٹکے سے کم نہیں تھا ۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ پوچھتی کہتی۔
 منور تیزی سے کمرے سے باہر نکل گیا 
وہ پریشان ہو چکی تھی۔۔
 بیٹھی کی بیٹھی رہ گئی
 وہ جانتی تھی کہ اگر منور نے اسے دیکھ لیا تو وہ کبھی اسے اپنائے گا نہیں۔
 یہی سوچ کر وہ لمبا سا گھونگھٹ نکالے رکھتی۔
 اس نے اپنی محبت میں خود غرضی دکھائی اور عمر شکل صورت ہر چیز کو پیچھے کر بس اس کی دلہن بننے کی چاہ میں اس نے اس کے ساتھ پردے کا کھیل کھیلا۔
 اب کیا تھا منور دیوانوں کی طرح اس گلی کے چکر لگانے لگا جہاں اس کی تمام خالہ زاد بہنوں نے سب نے مل کر اس کے خواب جگائے تھے اور اس کے ذہن میں ایک حسین خاکہ ابھارا تھا۔
 پاری نہ شکل صورت کی پاری تھی۔ نہ عمر میں اس کے برابر کی تھی۔ نہ ہی تعلیم میں، بمشکل پانچویں جماعت پڑھی تھی۔ جسے وہ دسویں بارویں سمجھ کر نظر انداز کر رہا تھا۔ 
کوئی بات نہیں کچھ کم پڑھی ہے تو کیا ہوا لیکن یہاں تو وہ بالکل انپڑھ تھی۔
 چار پانچ سال سکول جانے کے باوجود بھی پڑھائی میں اسکی دلچسپی نہ ہونے کے سبب اس کی ماں نے سکول چھڑوا دیا ۔
غربت کی وجہ سے، اس کی شادی نہ ہونے کی وجہ سے سالہا سال سے وہ گھر میں بیٹھی گھرداری کر رہی تھی۔
 لیکن اب منور کیا کریں اس کے خاندان میں عورت کی بہت عزت تھی کسی بھی مرد کے لیئے۔
 وہ اسے چھوڑ نہیں سکتا تھا لیکن وہ اسے اپنا بھی نہیں سکتا تھا۔
 اس کا دل اس کا دماغ ایک عجیب شش و پنج میں پڑ چکے تھے وہ اس عورت کا کیا کرے جو اس کی سیج پر آ بیٹھی تھی۔
 وہ ساری رات ان گلیوں کے چکر کاٹتا رہا دیوانہ وار صبح لوگوں نے اسے دیکھا کہ دولہا اپنے گاؤں سے باہر شہر میں گلیوں میں اس لڑکی کی ماں اور خالہ کے گھروں کے باہر گھوم رہا ۔
لٹا ہوا چہرہ ، کھلا گریبان، اجڑے ہوئے بال۔۔
 ہر ایک نے اس کو بربادی کی داستان سمجھ کر دیکھا۔
 صبح جب  پاری کی خالہ اپنے گھر سے باہر نکل کر دودھ لے رہی تھی تو وہ ان کے گھر میں داخل ہو گیا۔

وہ  دھاڑے مار مار کر رونے لگا۔
 انہیں پوچھنے لگا 
میں نے آپ کے ساتھ کیا دشمنی کی، کیا غلط کیا،
 یہ کون ہے جس سے میری شادی ہوئی ہے۔
 انہوں نے کہا یہ وہی لڑکی ہے جس کے لیئے تم بے قرار تھے۔ تم نے رشتہ بھیجا تھا۔ تمہارے ساتھ کوئی دھوکہ نہیں ہوا۔
 نہیں یہ دھوکہ ہے میں نے اسے لڑکی سمجھا۔
 لیکن یہ تعلیم شکل صورت سٹیٹس کسی لحاظ سے میرے قابل نہیں 
 اسے اپنی صورت مجھے دکھانی چاہیے تھی ۔
میرے ماں باپ کو دکھانی چاہیئے تھی۔
 وہ اپنے ماں باپ کو کس منہ سے کہتا کہ میں نے لڑکی کا چہرہ تک نہیں دیکھا اور میں اپ کو وہاں رشتے کے لیئے بھیج رہا ہوں۔
 پاری کی خالہ اور اس کی بیٹیاں شرمسار سر جھکائے بیٹھی تھیں۔
 بڑوں نے بیچ میں پڑ کر اسے سمجھایا کہ
 بیٹا جو کچھ ہوا اسے اپنا نصیب سمجھو۔ یہ بہت اچھی لڑکی ہے تم اس کے ساتھ خوش رہو گے۔
 لیکن وہ تو اپنے کمرے تک جانے کو تیار نہیں تھا۔
 اس کے اپنے ماں باپ اس ساری صورتحال سے بے خبر تھے۔
 لیکن پاری کی ماں اس کی خالہ اور اس کی سب کزن جانتی تھیں کہ رات اس لڑکے پر کیا قیامت گزر گئی۔
 لہذا سمجھا بجھا کر اس کی منت سماجت کر کے اسے اس لڑکی کو اپنانے پر مجبور کیا گیا۔
 کافی دن گزر گئے اور جانے کس وقت کس کیفیت میں اس نے اس لڑکی کو اپنے نزدیک آنے دیا ۔
جس میں اس سے زیادہ اس پاری کی کوششیں تھیں۔
 اس نے اتنی محبت سے گھر کے لوگوں کا دل جیتا ۔
ہر کام اپنے ہاتھ میں لیا ۔ ہر کسی سے اتنی میٹھی زبان سے تعلق استوار کیا کہ جنہوں نے دیکھ کر اس کو حیرت کا اظہار بھی کیا اس کی جوڑی کو حیرت سے دیکھا بھی۔ ان رشتہ داروں نے بھی اس لڑکی کی اچھی عادتوں کو بے حد پسند کیا۔
 اس نے چند ماہ میں پورے خاندان کو اپنا گرویدہ بنا لیا ۔ چھوٹا بڑا ہر کوئی اس کی تعریف کرتے نہ تھکتا ۔
کئی ماہ کے بعد بالآخر اس کے ہاتھ کے بنائے اچھے کھانے ، اس کی صفائی ستھرائی، نفاست ، ادب آداب،  جی سے ہر بات شروع کر کے جی پر ختم کرنے والی پاری نے اس کے دل میں جگہ بنانی شروع کر دی۔
 مجبورا ایک روز وہ اسے اپنے قریب کر ہی بیٹھا۔
یوں سال بعد سب کو پاری کے امید سے ہونے کی خبر نے  خاندان بھر کو خوش کر دیا ۔ 
جب کہ وہ خود حیران تھا کہ وہ اسے کیسے اپنا سکتا تھا ۔
لیکن جو ہونا تھا وہ ہو چکا تھا ۔
جلد ہی اللہ تعالی نے اسے ایک خوبصورت سے بیٹے سے نوازا ۔
جو بالکل اپنے باپ کی کاپی تھا ۔
ویسا ہی گورا چٹا ، حسین خوبصورت پیارا سا بیٹا گود میں اٹھا کر اس کے جیسے بہت سارے گلے دور ہو گئے۔
 وہ جو اللہ سے ناراض ہو رہا تھا۔ وہ اللہ سے راضی ہو گیا اس نے اپنی بیوی کو واقعی دل سے اپنا لیا۔
 جس نے دو سالوں میں خاندان کے کسی شخص کو کوئی شکایت نہ ہونے دی۔
 یہ بہت مشکل کام تھا لیکن پاری نے اپنی اچھی عادتوں سے انہیں اپنا لیا۔
 اور انہوں نے پاری کو اپنے دل میں جگا دی۔
 اس کے ماں باپ کی آج بھی اتنی عزت تھی ۔
اس کے بہن بھائیوں کے لیئے اسی طرح سے گاؤں سے سوغاتیں بھیجی جاتی،  کوئی بھی فصل آتی، کوئی نیا موسم آتا۔ 
وہ جانتے تھے کہ مالی طور پر اس کی ماں اور بہنوں کی حالت اچھی نہیں۔ انہوں نے انہیں اپنے گھر کے بچوں کے ساتھ ہر تحفہ دیا  جاتا۔
 ان کی ہر خوشی غمی میں سب سے آگے کھڑے ہوتے۔
وقت گزرتا گیا اس کے قدم جب سے ہی گھر میں پڑے ، منور کی ترقی ہوتی چلی گئی اس نے دن دونی رات چوگنی ترقی کی۔
 وہ عبادت گزار تھی۔ سگھڑ تھی ۔سلیقہ مند تھی۔ ایک مرد کو اس سے زیادہ اور کیا چاہیئے تھا۔
 اس نے سوچ لیا تھا یہ کتنی بھی حسین ہوتی شکل تو ایک دن ڈھل جاتی ہے۔ لیکن عادتیں ، فطرت اور کردار جو ہمیشہ ساتھ چلتا ہے۔
 ان سب امتحانوں میں وہ پاس ہو چکی تھی۔ اللہ نے اسے چار حسین بیٹوں سے نوازا۔
 اس نے اپنے بیٹوں کی تعلیم پر بہت توجہ دی۔
 پاری خود جو تعلیم سے محروم رہ گئی تھی۔
 بہت ساری زندگی کی مجبوریوں کے سبب، 
 لیکن اس نے اپنے بچوں کی پڑھائی پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا۔
 بچے بھی باپ جیسے ذہین نکلے اور یوں یہ خوبصورت سا گھرانہ جو شہر منتقل ہو چکا تھا۔
آج جب بینک کی جانب سے ملی ہوئی کوٹھی میں شفٹ ہوئے کافی سال ہو چکے تھے۔
 بچے اعلی سکولوں میں پڑھ رہے تھے اب وہی منور اسی پاری کا دیوانہ تھا۔
 اب وہ بھول چکا تھا کہ اس کی شکل، اس کا سٹیٹس ، اس کی تعلیم کیا ہے،
 وہ صرف یہ جانتا تھا کہ اس کی بیوی بہترین ہے۔ بہت اچھی انسان ہے۔ بہت اچھی ماں ہیں ۔ بہت اچھی بیوی ہے۔ بہت اچھی بہو ہے ۔
ہر رشتے میں وہ بہت اچھی تھی۔
 آج سالوں بعد جب پاری نے اپنے بیٹے کو دیکھا جو آج دلہا بنا ڈاکٹر بیٹا جو جو آج ایک ڈاکٹر لڑکی کو ہی بیاہ کر لا رہا تھا۔
 اپنے شوہر کے ساتھ کھڑی اس نے اللہ کا شکر ادا کیا۔
 پروردگار تو  امتحان میں تو ڈالتا ہے مگر کسی کی ہمت سے زیادہ نہیں۔
 وہ جو 35 40 سال کی عمر تک سوچتی تھی شاید اس کی زندگی میں کوئی ساتھی نہیں لکھا۔
 کوئی اسے پسند نہیں کرے گا لیکن اس کی اچھی عادات نے،  اچھے اخلاق نے،  اس کے سگھڑاپے نے، اس کی میٹھی زبان نے، اس کے لیئے خوشیوں کے ہر دروازے کو کھول دیا۔
ہر رشتے کو، ہر راستے کو آسان کر دیا۔
 سچ کہا ہے کچھ برداشت کرنے کے بعد ہی بہت سا انعام ملتا ہے اور  پاری وہ یہ انعام پا چکی تھی۔
وہ بہت حسین ہوتی ،  کم سنی میں منور جیسا آئیڈیل جیون ساتھی پا بھی لیتی لیکن آج اس میں موجود تمام۔خوبیوں سے خالی ہوتی تو کیا وہ ایک کامیاب زندگی گزار پاتی۔
آج اس کے بیٹے بھی بچوں والے تھے ۔ وہ منور کیساتھ ریٹائرمنٹ کا کامیاب بڑھاپا گزار رہی تھی ۔ اور ہر پل دونوں اپنے رب کا شکر بجا لاتے نہ تھکتے۔۔۔۔
                    ۔۔۔۔۔۔۔۔



بدھ، 7 اگست، 2024

& بوجھ بانٹو۔ افسانہ۔ سچی کہانیاں ۔ قطرہ قطرہ زندگی


   
         بوجھ بانٹو


وقت بہت تیزی سے بدل رھا ہے وقت کے تقاضے بھی بدل رہے ہیں ۔ کل تک جو باتیں اتنی ضروری نہیں سمجھی جاتی تھیں آج وہ زندگی کی ضرورت بن چکی ہیں ۔ اس بات کو اب کم تعلیم یافتہ لوگوں نے بھی قبول کرنا شروع کر دیا ہے ۔ 
مثلا۔۔۔

 کل تک ہمارے ہاں جو خاتون بھی  گاڑی چلاتی تھی اسے بہت ہی آزاد خیال بلکہ ہاتھ سے نکلی ہوئ عورت سمجھا جاتا تھا ۔ زیادہ دور نہ جائیں بیس سال پیچھے چلتے ہیں ۔ کسی بھی لڑکی نے میٹرک کیا ،ہانڈی روٹی بنانے کے قابل ہوئ تو بہت بڑی بات تھی مناسب رشتے کیۓ اور لڑکی اپنے گھر کی ہوئ ۔اللہ اللہ خیرصلہ ۔لیکن پھر ماحول نے کروٹ لی ۔
میڈیا کا سیلاب آگیا ۔معلومات نے طوفان کی سی تیزی سے گھروں کا رخ کیا ۔ زندگی کا انداز بدلنے لگا ۔ خواہشوں نے نۓ رنگ ڈھنگ اپنانے شروع کیۓ ۔زندگی رو ٹی کپڑا اور مکان کے دائرے سے باہر نکل کر مقابلے کی دوڑ میں شامل ہو گئ ۔خوب سے خوب تر کی جستجو نے اسے اور بھی ہوا دی ۔ آج یہ بات پہلے سے بھی زیادہ ضروری لگنے لگی ہے کہ ہماری آدھی آبادی جو گھر بیٹھ کر یا تو آبادی بڑھاتی ہے یا پھر شام کو تھکے ہارے مردوں کے گھر آنے پر ان کے لیۓ مسائل بڑھانے کی وجہ بنتی ہے اس آدھی آبادی کو بھی اب قومی ترقی کے دھارے میں شامل کیا جاۓ ۔ نوجوانوں سے جب بھی میری ملاقات ہوتی ہے میرے مشاہدے اور تجربے کو ایک نئ راہ ملتی ہے ۔انہی نوجوانوں کی کہانیوں میں سے ایک کہانی آج آپ کے ساتھ بھی بانٹ رہی ہوں جس نے مجھے بھی بہت کچھ سکھایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ ایک نوجوان لڑکی نے مجھے اپنے تجربے سے آگاہ کرتے ہوۓ بتایا کہ
،، میں بہت ہی زیادہ لاڈلی بھی تھی اور فضول خرچ بھی ۔ ہمارے بابا جان نے ہمیں ہر منہ مانگی چیز لا کر دی ، میرے لیۓ یہ بہت ہی آسان سی بات تھی کہ یہاں میں کوئ فرمائش کرتی ہوں وہاں وہ پوری ہو جاتی ہے اس لیۓ کسی چیز کے ملنے کے بعد کبھی تو میں اسے ریجیکٹ کر دیا کرتی تھی تو کبھی وہ مہنگی سے مہنگی چیز بھی کسی کو اٹھا کر دے دیا کرتی تھی ۔ پھر اتفاق سے ایک سال یونیورسٹی کے داخلوں کا ٹائم کسی وجہ سے لیٹ ہو گیا اور بروقت فارم نہ ملنے کی وجہ سے مجھے یونیوورسٹی کا وہ سال داخلہ نہ مل سکا تو میں نے بوریت سے بچنے لیۓ بابا جان کی دکان پر جانے کا فیصلہ کیا ،۔ بظاہر یہ ایک ٹائم پاس فیصلہ تھا مگر میں نہیں جانتی تھی کہ میرے اس فیصلے سے میری سوچ کا دھارا بدل جاۓ گا یا میری زندگی کا انداز بدل جاۓ گا ۔ صبح بابا جان کے ساتھ چھ بجے اٹھناتھا پھر ایک گھنٹے کے اندر دکان کا رخ کیا سارا دن باباجان کے ساتھ دکان کے کاؤنٹر پر کبھی، تو کبھی سامان لگانے کے لیۓ ریک سیٹ کرنے والے کی مدد کرنا، دکان پر آنے والے سامان کا حساب کتاب ، ساتھ ساتھ کسٹمر کو بھی  خریداری میں کسی بھی چیز ک لیئے گائیڈکرنا۔۔۔۔۔۔ ا اُفففففففففففففففففففففففففففففف
شام تک تو میری ہڈیاں بھی بجنے لگیں ۔ اس روز بابا جان نے مجھے میری دن بھر کی دیہاڑی کے پیسے [جو کہ ہمارے دوسرے ملازم کو بھی جتنے ملتے ہیں اس کے برابر تھے ] میرے ہاتھ پر رکھے تو یقین جانیۓ اس وقت جو میری حالت تھی میں اس خوشی کو بیان نہیں کر سکتی ۔یہ پیسے میری روز کے جیب خرچ کے دسویں حصے کے برابر بھی نہیں تھے ۔لیکن میرے لیۓ وہ پیسے کسی خزانے سے کم نہیں تھے اور اس سے بھی زیادہ وہ پیسے میرے لیۓ کتنے مقدس تھے جو میرے اپنے ہاتھ کی حلال کی کمائ تھے جنہیں دیکھ کر آج مجھے میرے بابا جان سے اور بھی زیادہ محبت اور عقیدت محسوس ہوئ اور ان کی اب تک کی ساری تھکن کوایک ہی پل میں میری رگ و پے نے بھی محسوس کر لیا ۫ ۔ اور اس کمائ کو خرچ کرنے کا خیال میرے لیۓ بلکل بھی اچھا نہیں تھا ۔ اور میں نے اس سے کچھ بھی خریدنے سے انکار کر دیا ۔ یہاں تک کہ باباجان نے اپنے پاس سے بھی کچھ خرید کر دینے کو کہا تو میں نے صاف انکار کر دیا کیوں کہ مجھے اس مشقت کا احساس ہو چکا تھا جو ان پیسوں کو کمانے کے لیۓ اٹھائ جاتی ہے وہ دن میری زندگی میں فضول خرچی کا آخری دن ثابت ہو ا ۔میں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ اگر ایک دن کے کام کا تجربہ جب مجھے اتنا کچھ سکھا سکتا ہے تو پھر مجھے ہر روز زندگی سے کچھ سیکھنا ہے ۔؛ آج میں پڑھ بھی رہی ہوں اور کام بھی کر رہی ہوں اپنے بابا کی کمائ کو ضائع کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی اور ہر کام کرنے والے کی عزت کرتی ہوں ۔ اور اپنے بہن بھائیوں کو بھی پیسہ سوچ سمجھ کر استعمال کرنے کا مشورہ دیتی ہوں ۔ ،،

دیکھاآپ نے ایک تجربہ آپ کی سوچ کو کہاں سے کہاں لے جاتا ہے ۔ یہ ہی تجربہ اب ہماری پوری قوم کو کرنے کی ضرورت ہے ۔
کیوں ہم عورتوں کو اپنی آدھی سے زیادہ آبادی کو بچے بم ب آنے اور فساد بونے کے لیئے گھریلو کاموں کے نام پر مخصوص کیئے رکھیں گے۔ 
تو۔کیا وہ۔منہ اٹھا کر صبح صبح مردوں کے ساتھ جا کر دھکے کھانا شروع کر دیں اس کی ماں نے غصے سے اس کی طرف گھورتے ہوئے دیکھا اور پوچھا
 ارے نہیں امی میرا یہ مطلب بالکل نہیں ہے کہ ہر بندہ یہی کام کرے، لیکن  کچھ تو پریکٹیکل کرے۔
 اپنی پڑھائی کے لیے اور پھر ہانڈی روٹی اور چولہے کے علاوہ بھی،  یہ کام کوئی بھی کر سکتا ہے۔
 اور عورت اور مرد کی اس میں کوئی تخصیص نہیں ہے جو فارغ ہے جس کا جی جا رہا ہے وہ بنا دیتا ہے ۔
باقی اس دنیا کے سسٹم کو چلانے کے لیے جن لوگوں کی ضرورت ہے اس میں عورت اور مرد کو دونوں کو برابر آگے بڑھنا ہوگا۔دونوں کو اللہ نے مختلف صلاحیتوں سے نواز رکھا ہے ۔گھر میں بیٹھ کر بھی مختلف کام ہو سکتے ہیں۔ لیکن کچھ کرو تو سہی ۔۔۔

جب تک خواتین کام کاج کے میدان میں قدم نہیں رکھیں گی وہ کبھی بھی اپنے باپ بھائی ، شوہر یا بیٹے کی کمائی سے ہمدردی نہیں کر سکتیں ۔
کیا مطلب ؟
امی نے حیرت سے سوال داغا۔
دیکھیں نا امی ۔۔بہنوں کو شوق ہوتا ہے کہ سہیلیوں میں شو مارنے کے لیئے بھائیوں کے پیسوں کو زیادہ سے زیادہ کہاں کھپانا ہے ۔ 
ماں کو فکر ہوتی ہے کہ بیٹا بہت کما رہا ہے تو کیسے کیسے بیٹیوں کو بھرا جاۓ ۔
بیوی کو فکر ہوتی ہے کہ کیسے اپنے میاں کی کمائی میں سے اپنے میکے والوں کو موج کرائی جاۓ ۔
گویا قُربانی کا دُنبہ بنتا ہے وہ اکیلا کمانے والا مرد ۔
 یہ سب کیا ہے ؟
کوئی مانے نہ مانے لیکن 80 فیصد خواتین ہمارے معاشرے میں یہ ہی سب کچھ کر رہی ہیں۔
اب تمہیں کیا الہام ہوا ہے 80 فیصد کا ؟ جو دعوی کر رہی ہو۔۔۔
 آپ اپنی ملنے والیوں، رشتے دار عورتوں میں سے یہ شرح نکال کر دیکھ لیجیئے۔
لیکن اس میں قصور ان خواتین کا بھی زیادہ نہیں ہے ۔ 
جو بھی شخص جب فارغ بیٹھا ہو اور اسے ہر چیز بنا محنت کے مل رہی ہو تو وہ اسے اجاڑنے میں کبھی بھی کوئی تردد نہیں کرے گا ۔
اسے معلوم ہی نہیں ہے کہ یہ سب بنانے کے لیئے، کمانے لیئے کیا کیا محنت کی گئی ہے ۔
 ہم تو اس معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں کہ جہاں لوگ لیڈی ڈاکٹر کا رشتہ بھی صرف لوگوں میں اپنا ایمج بنانے کے لیئے لیتے ہیں ۔ اور بیاہ کرتے ہی اس لڑکی کو پریکٹس تک کرنے کی اجازت تک نہیں دی جاتی ۔
 کیا نرسزز ۔ کیا ٹیچرز، ، ٹیکنیشنز ،ایم بی اے ہو یا ماسٹرز ۔ رشتہ لینے کے لیئے تو یہ ڈگری ایمپورٹنٹ ہے۔ لیکن اس لڑکی کے اسی شعبے میں اسکے کام کرنے سے ان کی توہین ہوتی ہے ۔
اب یہ روش بدلنے کا وقت آگیا ہے اگر ہمارے ہاں کے مردوں کو اپنا بوجھ کم کرنا ہے اور سب سے اہم ذہنی بیماری اور دل کے دوروں سے بچنا ہے تو اپنا معاشی بوجھ بانٹنا ہو گا ۔
 اب وہ زمانہ نہیں ہے کہ محدود ضرورت تھی سو ایک آدمی کی تنخواہ میں پوری حویلی کے نکمے پل جایا کرتے تھے۔ 

 اپنے ہاں کی خواتین کو فضول قسم کے جھگڑوں اور مصروفیات سے بچانا ہے تو انہیں نہ صرف تعلیمی میدان میں آگے لائیں بلکہ انہیں پروفیشنل ڈگریز دلوائیں تاکہ انہیں کام کر کے پیسے کی ویلیو کا احساس ہو۔ اس سے فضول خرچی میں بھی خاطر خواہ کمی ہو گی ۔ًمحلّوں اور خاندانوں کے جھگڑوں میں خاطر خواہ کمی ہو گی ۔اور آپ کے گھر کی اور ملک کی آمدنی میں اور سکون میں بھی اضافہ ہو گا ۔ وقت کے ساتھ ہمیں اپنے طرز زندگی میں بھی مثبت تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے ۔ارتقاء اسی کا نام ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہم ہر اچھی چیز کو اپنائیں اور ہر بری عادت اور رواج کو خدا حافظ کہیں ۔
 اگر ایسا نہیں کیا گیا تو ہمیں اپنا جہاں بدلنے کے لیۓ اور کتنے حادثوں اور قتل و غارت اور مفلسی کی راہ دیکھنا ہے ۔ فیصلہ ہم سب کو کرنا ہے کیوں کہ ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔
اس نے مڑ کر دیکھا 
وہ کب سے جا چکی تھی۔
  ۔                ۔۔۔۔

ہفتہ، 27 جولائی، 2024

& چوزہ۔ افسانہ۔ قطرہ قطرہ زندگی

چوزہ
افسانہ:
 (ممتازملک ۔پیرس)

تپتی ہوئی دوپہر میں وہ چھوٹی سی بچی جس کی عمر بمشکل سات یا آٹھ برس ہوگی، 
چھت کے گرم فرش پر خود کو بچاتے ہوئے ننگے پیر بھاگ رہی ننگے تھی۔ 
اس کا باپ ہاتھ میں پانی بھرنے کا پلاسٹک کا پائپ لیئے اسے تاک تاک کر نشانے پر پیٹ رہا تھا۔
ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے ایک جلاد کی روح اس میں سرایت کئے ہوئے تھی۔ پڑوسی وقفے وقفے سے بچی کے رونے کے شور پر اپنی دیواروں سے جھانک جھانک کر چھپ جاتے۔
یہ آج محلے میں سب سے مذیدار خبر بننے جا رہی تھی اس لیئے سبھی اس کا بھرپور مزہ لے رہے تھے۔
کسی ایک کو بھی اس بچی کی تکلیف نہ دکھائی دی نہ سنائی دی۔
سب نے اپنے کان اور آنکھیں شاید اپنے ہاتھوں پھوڑ رکھی تھیں ۔ 
وہ بچی جو بار بار روتے اور پٹتے ہوئے چلا رہی تھی اس امید سے کسی بھی جھانکتے ہوئے کو سر اٹھا کر فریاد بھری نظروں سے دیکھتی کہ کوئی تو اسے اس قصائی سے بچا لے
 لیکن افسوس ۔۔۔
 تماش بینوں میں کوئی بھی انسان نہیں تھا ۔ 
اس کے جسم پر پائپ کے نیل بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ 
دیکھنے والوں میں کوئی نہیں مان سکتا تھا کہ یہ بچی اس جلاد کی اپنی بچی  ہے۔
اسی چھت پر اپنے ڈربے سے باہر گھومتے چھوٹے چھوٹے کمزور سے چوزے بھی بھاگ رہے تھے جو یہ تماشہ دیکھ کر حیران تھے ۔
 اس باپ کو یہ خیال تک نہیں تھا کہ یہاں یہ چھوٹے چھوٹے چوزے بے زبان جانور بھی اسے دیکھ رہے ہیں۔ یہ اسکے ڈر سے بھاگ رہے ہیں بلکہ وہ اپنی نشانے سادھے جا  رہا تھا، 
لیکن وہ بچی دھوپ میں جلتے فرش پر پیر یہ سوچ کر  رکھ رہی تھی کہ کوئی چوزہ اس کے پاؤں کے نیچے نہ آ جائے۔
 ابو جی مجھے معاف کر دو۔ 
پتہ نہیں وہ ننھے ننھے ہاتھ باندھے کس جرم کی معافی مانگ رہی تھی۔
 دائیں بائیں گھروں میں سے کوئی نہ کوئی چھت پر سے جھانک کر اس تماشے کو انجوائے کر رہا تھا،
اسے روک کر کوئی بھی اس ظالم کی قہر کا شکار ہونے کو تیار نہیں تھا۔ 
 لیکن پھر وہی ہوا جس سے وہ بچی بچنا چاہتی تھی ایک طرف باپ شکاری، پلاسٹک کے موٹے پائپ سے اسے پیٹے جا رہا تھا،
 اور ایک طرف وہ معصوم چوزوں کو بچانے کے لیئے اپنے پاؤں سہج سہج کر آگے بڑھا کر خود کو بھی بچانا چاہتی تھی اور ان چوزوں کو بھی،
 لیکن ایک معصوم سا چوزا اس کے پیروں کے نیچے آ ہی گیا۔
 اس نے اپنی آنکھوں سے مڑ کر دیکھا تو اس معصوم سے چوزے کی انتڑیاں باہر آ چکی تھیں۔
 وہ اپنے درد کو بھول کر اس چوزے کے درد میں اور زور سے رونے لگی۔ 
وہ خود کو قاتل سمجھنے لگی۔
یہ قتل بھی اس کے باپ نے اسی کے حساب میں لکھ دیا ۔ اس کے موت کے جرم میں اسے مزید کتنی دیر تک اپنی کھال ادھڑوانی پڑی۔
اس کے معصوم سے دل میں اس چوزے کی قبر بن گئی۔
 اس روز وہ چوزہ نہیں مرا بلکہ اس کے دل سے اس کے باپ کی محبت کا جنازہ بھی نکل گیا۔
                   -----

جمعرات، 11 جولائی، 2024

& آٹے میں نمک۔ افسانہ ۔ سچی کہانیاں۔ قطرہ قطرہ زندگی



آٹے میں نمک

گلی سے ایک بچی کھیلتے ہوئی ان کے گھر آ نکلی اور اس کیساتھ کھیلنے کی ضد کرنے لگی۔
وہ ماں کی طرف درخواست بھری نظروں کے ساتھ دیکھنے لگی۔
 میں تھوڑی دیر اسکے ساتھ کھیل لوں
وہ منمنائی۔۔۔
 نہیں ابھی تمہارا باپ آئے گا تو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا تمہارے۔ خبردار جو گھر سے باہر نکلی۔
 اچھا چلو ہم چھت پر جا کر کھیل لیں۔۔
 اس نے پھر سے درخواست کی
 تو گھر کا کام تو تمہارا باپ کرے گا اس لڑکی کو بولو جائے اپنے گھر۔
 اس نے نفرت تھی اپنی بیٹی کو جھڑک دیا
 اور کمرے میں جا کر اپنے کسی کام میں  مصروف ہو گئی وہ بچی چھوٹی بچی ہی تو تھی۔
 وہ چپکے سے محلے کی بچی کے ساتھ چھت پر جا کر کھیل میں مصروف ہو گئی۔
 ماں کمرے سے باہر نکلی تو اسے صحن میں نہ پا کر آگ بگولا ہو گئی۔
 اس نے چلا چلا کر اس کا نام پکارنا شروع کیا 
 کہاں مر گئی کھوتے کی بچی۔۔
 کہاں دفع ہو گئی۔۔
 ٹہر میں تیرا حشر کرتی ہوں۔۔
 یہ آوازیں سن کر چھت پر کھیل میں مصروف بچی کی جیسے جان ہی نکل گئی
 وہ تیزی سے دوڑتی دوڑتی گرتی پڑتی نیچے کی طرف سیڑھیوں سے اتری۔
 ماں نے اسے پڑوس کی بچی کے سامنے ہی خوب مارنا شروع کر دیا وہ پڑوسن بچی تو ڈر کے مارے بھاگ گئی۔
 لیکن یہ اپنی ماں کے ہاتھ سے بھاگ کر کہاں جاتی۔
 سو خوب مرمت کرنے کے بعد اس نے اسکی ماں نے اسے کچن میں لا کر پٹخا اور بولی
 چل چل کے آٹا گوندھ۔ تجھے پتہ نہیں آٹا تیرا باپ گوندھے گا کیا۔۔
 وہ بری طرح سے گھبرائی ہوئی اور رو رہی تھی
 اس نے جلدی سے پرات  میں اٹا نکالنا شروع کیا ہاتھ دھوئے اور آٹا گوندھتے لگی۔
 جلدی کر آٹا  ٹھہر جائے تو روٹی بھی بنانی ہے ابھی۔
 یہ تیری عیاشیاں ہیں نا یہ تجھے جوتے پڑوائیں گی۔
 پوری رن ہو چلی ہے اور تجھے ابھی تک کام کا نہیں پتہ۔
 وہ 10 سال کی بچی ان باتوں کو نہ سمجھتے ہوئے حیران پریشان کھڑی ہوتی اور سوچتی
 تو کتنی پرانی روح ہے اسے اس کی ماں نے کن کن غلیظ خطابات سے نواز رکھا تھا۔
 وہ اسے کیا سمجھتی ہے کہ وہ واقعی اس کی ماں ہے۔
چھوٹے سے دماغ میں پتہ نہیں کون کون سے خیالات آتے رہتے  اور وہ اپنے آنسو اپنے دوپٹے میں جذب کر کے چولہا جلانے لگی۔
 اس نے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے پیڑے بنانا شروع کئے۔
 اتنے میں اس کا باپ فیاض گھر آ چکا تھا۔
 اسے دیکھتے ہی اس کی ماں نے دو تین پکے سے چانٹے اس کے سر پہ رسید کیئے اور اسے چولہے کے آگے سے  اٹھا کر پیچھے کی طرف پٹخا۔
 پیچھے ہو ہڈ حرام ابھی تک روٹی نہیں بنائی تو نے۔
 وہ جلدی سے پیڑے بنا کر توے پر روٹیاں ڈالنے لگی ٹریے میں کھانا لگا کر اس نے فیاض کے اگے رکھا۔
 وہ جانتی تھی تھوڑی سی بھی دیر ہوئی تو فیاض نے منہ کھول کھول کر وہ وہ مغلظات سنانی شروع کرنی ہیں کہ سارے محلہ پھر سے ایک نیا تماشہ  دیکھے گا۔
فیاض نے روٹی کا لقمہ منہ میں رکھتے ہی تھوک دیا۔
 اپنی بیوی میراں کے منہ پر کھانے کی ٹرے مارتے ہوئے اسے روئی کی طرح دھنک دیا۔
 بدبخت عورت اتنا نمک ہے روٹی میں کہ زہر کر ڈالا ہے۔ تجھے آٹے میں نمک کا بھی اندازہ نہیں ہے نکمی عورت۔
 منہ سے جھاگ اڑاتا ہوا فیاض تو گھر سے باہر نکل گیا،کسی ہوٹل پر کھانا کھانےکو،
  میراں نے دس سالہ بیٹی مومنہ کو بانس کے جھاڑ کے دستے سے مار مار کر ادھ موا کر دیا ۔
گلی کے بچے کے ساتھ کھیلتے ہوئے جو ماں نے اسے گالیوں کے ساتھ پکارا تو ڈر کے مارے آٹا گوندنے سے پہلے اس نے شاید ایک بار شروع میں اور ایک بار شاید بعد میں بھی پھر سے نمک شامل کر دیا اور اسے علم بھی نہ ہو سکا اور یوں آٹے میں نمک زیادہ ہو گیا ۔
 وہ چاہتی تو اسی آٹے کو تھوڑا تھوڑا کر کے دوسرے آٹے میں ملا کر دوبارہ سے گوند سکتی تھی۔
 بغیر نمک کے آٹے میں ملا کر وہ اسے پکا سکتی تھی۔
 آٹا بھی استعمال ہو جاتا اور نمک بھی برابر ہو جاتا۔
 لیکن اس نے ایسا نہیں کیا اس نے اپنے شوہر سے پڑی ہوئی مار کا بدلہ اس بچی سے لینے کے لیئے پہلے تو اسے خوب پیٹا۔
جب تھک گئی تو باقی غصہ اتارنے کے لیئے نمک بھری روٹی کے نوالے بنا بنا کر زبردستی اس کے منہ میں ٹھونسنا شروع کر دیا۔ 
وہ آدھ مری بچی اکھڑے سانسوں کیساتھ ہاتھ جوڑتی رہی۔ معافیاں مانگتی رہی ۔ لیکن میراں  کو اس پر ترس نہ آیا۔
 بلکہ میراں نے  اسے غلیظ ترین گالیوں سے نوازتے ہوئے اگلے سات روز تک اسی آٹے کی روٹی بنا کر کھلائی۔
 کیونکہ میراں تو روزانہ سہیلیوں سے گپیں لگانے بیٹھ جاتی تھی گھر کے سارے کام تو اس بچی مومنہ سے کرواتی تھی۔

 جھاڑو پونچھا آٹا گوندھنا اسکے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کا فرض تھا کیونکہ اسکا جرم تھا کہ وہ اسکی کوکھ سے جنمی تھی۔ 
                 ۔۔۔۔۔۔

جمعرات، 9 نومبر، 2023

& چاند ڈوب گیا ۔ افسانہ۔ سچی کہانیاں۔ قطرہ قطرہ زندگی


چاند ڈوب گیا
 تحریر: 
         (ممتازملک ۔پیرس)

نہ بھئی نہ لڑکی کی ناک دیکھی ہے طوطے جیسی۔  مجھے تو میرے بیٹے کے لیئے ایسی لڑکی دکھاؤ کہ ہر جاننے والے کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں ۔
سکندر کی ماں رقیہ نے لڑکی کی تصویر کو نخوت سے میز پر پٹختے ہوئے کہا ۔۔
رشتے دکھانے والی رضیہ تو جیسے جل بھن کر رہ گئی ۔ اس کے جی میں تو آئی کہ بی بی شہر کی پچاسویں لڑکی ہے جو ایک سے ایک خوبصورت اور قابل تعلیم یافتہ ہے تمہیں دکھا چکی ہوں اور تم ہو کہ پروں پر پانی ہی نہیں پڑنے دیتی۔ لیکن   پھر کچھ سوچ کر خون کے گھونٹ پی کر رہ گئی۔ 
دیکھو رقیہ بہن میں جانتی ہوں کہ صرف میں ہی نہیں ہوں جس سے تم رشتے دیکھ رہی ہو ، بلکہ اس شہر کے ہر میرج بیورو اور ہر رشتے کرانے والی کے پاس سے تمہیں رشتے دکھائے جاتے ہیں ۔ اب تو لوگ تمہارا نام سنتے ہی پہلے ہی منع بھی کر دیتے ہیں کہ نہیں بھائی اس خاتون کو مت لانا اس سے ہم پہلے ہی مل چکی ہیں اس کے تو بہت نخرے ہیں ۔ 
آخر تم ایک ہی بار بتا دو کہ تمہیں اپنے بیٹے کے لیئے کیسی لڑکی چاہیئے ۔ پانچ سال سے تم اس شہر کا ہر گھر گھوم چکی ہو ۔ کہیں دوپہر کے کھانے کھاتی ہو  اور کہیں رات کی دعوتیں اڑاتی ہو۔  
رقیہ بیگم بھڑک کر ہاتھ نچاتے ہوئے بولی آئے ہائے میرا بیٹا کوئی گیا گزرا نہیں ہے چاند کا ٹکڑا ہے ۔اچھا کماتا ہے ۔ گھر بار والا ہے ایسے ہی کوئی بھی بن بتوڑی تھوڑی اٹھا کر لے آؤں گی اپنے بیٹے کے لیئے ۔ 
خدا کا خوف کرو رقیہ بیگم۔ اس تین مرلے کے گھر میں رہتی ہو۔ اور بنگلوں والی لڑکیاں تک تم مسترد کر چکی ہو ۔ بیٹا تمہارا رنگ روپ دیکھ لو تو دوسری بار کوئی ملنا نہ چاہے اور تم ہو کہ ہر ایک کی بیٹی میں عیب نکالتے نکالتے گھر میں بیٹے کو پینتیس سال کا کر چکی ہو۔
ارے پینتیس کا ہے تو کیا ہوا لڑکی تو میں بڑے گھر سے چاند کا ٹکڑا ہی لیکر آؤنگی ۔ جو کار کوٹھی ڈگری سب کچھ لیکر آئے گی اور ہاں دیکھ لینا ہاتھ باندھ کر میرے سامنے چاکری کرے گی ۔۔ بیس سے اوپر تو ایک دن کی بھی نہ ہو۔ ہاں نہیں تو ۔۔۔
ہائیں ۔۔۔
رضیہ کا تو حیرت سے منہ کھلے کا کھلا رہ گیا 
اسے پورا یقین ہو چلا تھا کہ رقیہ بیگم کا دماغی توازن جواب دے چکا ہے ۔ اس نے اپنی چادر سمیٹی اور پلیٹ میں رکھے تینوں سموسے ہاتھ میں اٹھائے اور چلتے ہوئے بولی۔۔۔
اچھا رضیہ بیگم کسی کارخانے میں تمہاری مرضی کی بہو آرڈر پر تیار ہو گئی تو مجھے بھی شادی کی دعوت دینا مت بھولنا۔۔ چلتی ہوں اللہ حافظ
رقیہ نے دروازہ بھیڑتے ہوئے چاہا تو کہ یہی دروازہ اس رقیہ کے سر پر دے مارے لیکن اپنی پیشہ ورانہ مصلحت کے سبب دل مسوس کر رہ گئی۔ 
اس کے جاتے ہوئے سامنے سے رکشے سے اترتا ہوا سکندر ملا ۔ سوکھا سڑا سا، پکا رنگ، اپنی عمر سے بھی دس سال بڑا دکھائی دیتا ہوا۔ یہ مرد اسے لڑکا تو کہیں سے نہیں لگا ۔اسے دیکھتے ہی رضیہ کی آنکھوں میں وہ تمام حسین و جمیل کم سن بہترین تعلیم یافتہ لڑکیوں کے سراپے گھوم گئے جنہیں ایک کے بعد سکندر کی ماں نے اپنے اس چاند سے بیٹے کے لیئے ٹھکرا دیا تھا ۔ جبکہ گھروں میں دو دو چار چار کنواری بیٹیوں کے بیٹھے ہونے کے سبب انکے والدین اس جیسی شکل و صورت اور حیثیت والے کو بھی داماد بنانے کو تیار تھے لیکن رقیہ بیگم شاید اپنے بیٹے کو بیاہنا ہی نہیں چاہتی تھی۔
پچھلے دس سال سے یہی بیٹا لیئے وہ ہر گھر میں کبھی دوپہر اور کبھی شام دعوتیں اڑا رہی تھی شادی کر دیتی تو پھر یہ دعوتوں کے مزے کہاں سے پورے ہوتے۔

رقیہ بیگم خدا کا خوف کرو جس بیٹے پر اتنا گھمنڈ کر رہی ہو اور دوسروں کی عزتیں اچھالتی پھرتی ہو کہیں وہ تمہارے دل کا روگ ہی نہ بن جائے ۔
رضیہ بیگم نے اسے آئینہ دکھانے کی کوشش کی تو رقیہ ںی تو جیسے ہتھے سے ہی اکھڑ گئیں۔
ارے جاؤ جاؤ بڑے آئے ہمیں روگ دینے والے ۔
منیزہ کی بیٹی کو دیکھ کر لٹکتی مٹکتی رقیہ بی  ہر بات میں کیڑے نکالتی ہوئی باہر نکلیں تو اس کی نظر سکندر سے چار ہوئی ۔
 گھر سے باہر کھڑے سکندر پر ایک نظر ڈال کر دوسری نظر جب اپنی بیٹھک کے پردے کے ساتھ لگی کھڑی اپنی حسین اور قابل بیٹی پر نگاہ پڑی تو جیسے کانپ کر رہ گئی ۔ کوئی جوڑ نہیں تھا ان کا انکی بیٹیاں پڑھ لکھ کر کسی قابل بننا چاہتی تھی اور عمیر صاحب کی آنکھوں میں  ان کا گھر بسانے کا سپنا انہیں سونے نہیں دیتا تھا ۔
 دو موٹے موٹے آنسو ان کی آنکھوں سے بے ساختہ بہہ نکلے۔
مغرور رقیہ بیگم نے رکشے والے کو پیسے ادا کیئے اور سڑک پار کرنے کو مڑی ہی تھیں کی سکندر جو اپنے ہی خیالوں میں سڑک پار کر رہا تھا ایک تیرفتار گاڑی کی زد میں آ گیا ۔ گاڑی کی ٹکر سے وہ دور جا گرا رقیہ بیگم کے تو جیسے اوسان خطا ہو گئے ۔
وہ گرتی پڑتی ہانپتی کانپتی اپنے زخمی بیٹے تک پہنچتی کہ وہاں اکٹھی ہوتی بھیڑ میں سے کسی کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ 
بیچارے کو گاڑی نے اڑا دیا۔ موقع پر دم توڑ دیا ہے ۔ پھر بھی اسے ہسپتال پہنچاؤ یار ۔۔
اس کے بعد رقیہ بیگم بیٹے تک پہنچنے سے پہلے ہی بے ہوش ہو چکی تھی۔ 
دونوں کو ایک ہی ایمبولینس میں ہسپتال پہنچایا گیا اس کا غرور چور چور ہو کر لاش کے طور پر اسٹریچر پر تھا تو ماں اس کی موت کا غم اٹھانے کو بیہوش دوسرے سٹریچر پر۔ اس کا کالا مریل بد صورت چاند کا ٹکڑا ڈوب چکا تھا جس نے اسے پچھلے دس سال سے اس شہر کی ہر جوان لڑکی کے گھر کی آنکھ کا تارا اور مہمان خصوصی بنا رکھا تھا ۔ 
               -------

جمعہ، 9 اکتوبر، 2020

● ان ‏بکس ‏/ کالم ‏۔ ‏افسانہ۔۔سچی کہانیاں۔ قطرہ قطرہ زندگی



    

    ان بکس
     تحریر:
        (ممتازملک.پیرس )


پہلے عورت کا لڑکیوں کا  نام اور تصویر دیکھر اسے ان بکس میں   سلام ٹھوکا جائے گا 
دیکھ لیا تو حکم دیا جائے گا 
سلام کا جواب تو دو ۔۔
مسلمان نہیں ہو کیا ۔۔۔
جواب دیدیا تو مزید یارانہ گانٹھنے کا پروگرام شروع ہو جائے گا ۔۔
آپ بہت حسین ہیں 
آپ بہت عظیم ہیں 
میں آپ تو آپ کا فین ہو چکا ہوں 
کیسی ہیں ۔۔۔
کیا کرتی ہیں ۔۔
(ابے اندھے پروفائل دکھائی نہیں دیتی تجھے۔۔۔)
کہدو بھائی معذرت ان بکس میں بات کرنے سے۔۔۔
کیوں نہیں کرنی بات۔۔۔
نہیں کرنی بھائی مرضی۔۔۔
مجھے بھائی کہا ہے اب مجھ سے بات کرو۔۔۔
 بات کرو۔۔
ہیلو۔۔۔
ہیلو۔۔۔۔
کال ملا بیٹھے گا الو ۔۔۔
لکھو کہ کیوں بھائی کس کی اجازت سے کال کی؟
ایسے ہی میرا دل کیا ۔۔۔
اچھا تو اپنی بیگم کا یا بہن کا  نمبر دو تاکہ میں بھی اپنے میاں سے اور بھائیوں سے کہوں کہ اسے کال ملا ملا کر ایسے ہی شوق پورا کریں ۔۔۔
یہ فیملی تک مت جاو 
تو پھر ڈونٹ کال سمجھ نہیں آتی ؟
اتنی پارسا بنی پھرتی ہے تو فیس بک کیوں بنایا ہے ۔۔۔
تم جیسے احمقوں سے گپیں لگانے کے لیئے تو بالکل نہیں بنایا 
فلانی ڈھمکانی بلا بلا بلا 
 اسکے ساتھ ہی اصلی پاکستانی مردانہ ذہنیت کی الٹیاں شروع کر دیگا ۔۔۔
 کسی بھی درجے کی ڈگری ہو۔ کسی بھی عہدے کا ہو ۔ اس حمام میں بھارتی پاکستانی سبھی عالم ،فاضل ، ڈگری ، جاہل سب ننگے ہیں ۔
 ماسوائے آٹے میں نمک جتنے اچھے اور شریف  لوگ چھوڑ کر ۔۔۔
بھارتی تو اس سے بھی چار قدم آگے ہیں 
 انہیں بھائی یا بیٹا کہدو تو ایسا لگے گا جیسے آپ نے ان پر کوئی سانپ چھوڑ دیا ہو ۔
باقاعدہ چلائیں گے میں تمہارا بیٹا ویٹا نہیں ہوں مس ۔۔
دوستی کرنی ہے تم سے ۔۔۔۔
نہ اپنی عمر دیکھتے ہیں نہ سامنے والے کی ۔
نہ اپنا مقام حیثیت اور تعلیم دیکھتے ہیں نہ سامنے والے کا مقام و مرتبہ ۔
بس عورت دیکھی اور رال ٹپکانا شروع ۔۔۔
                     پاکستان زندہ باد

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/