اندھی محبت
وہ جس راستے سے اپنے سلائی سکول جاتی تھیں وہاں عین اسی لمحے کوئی اور بھی منتظر دکھائی دیتا ۔
یوں تو وہ سرتاپا بڑی سی سیاہ چادر میں ڈھکی ہوتیں ۔ لیکن اسکے گورے ہاتھوں اور کاجل لگی آنکھوں نے منور کو جیسے اسکا دیوانہ بنا دیا تھا ۔
وہ ہر روز اپنا ہر ضروری کام چھوڑ کر ٹھیک نو بجے اس راستے میں اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیئے کھڑا رہتا ۔
سی ایس ایس کی پڑھائی اور پھر اپنی بینک کی ملازمت کے لیئے شہر میں آنے والے اس نوجوان کا تعلق یوں تو بہت کھاتے پیتے گھرانے سے تھا۔
اپنے خاندان کے کالے کلوٹے مرنجاں مرنج افراد میں یہ گول مٹول گورا چٹا بچہ سب کے لیئے گویا اللہ نے کوئی تحفہ بھیجا تھا ۔ بڑے چاو سے اسکے ماں باپ اور ددھیال ننھیال نے صلاح مشورے کے بعد اس کا نام منور رکھا ۔ وہ تھا بھی روشن اور منور چہرے والا ۔۔
بچپن سے ہی بہت حسین، بلا کا ذہین ۔
سارا گاوں سارا خاندان اس کی نفاست اور ذہانت پر حیران ہوا کرتا اور اکثر اس کی ماں سے مذاق کرتے کہ بھابی جی سچ بتا کیا کھا کر یہ چاند کا ٹکڑا پیدا کیا ہے ۔۔
وہ سادہ سی دیہاتی خدمتگزار اور ملنسار رشیداں بی بی ہنس کر آسمان کی جانب منہ کر کے کہتی کہ
کے دساں اللہ سوہنے دی دین ہے ۔ ایہہ سوہنا پت میری جھولی وچ پا کے میکوں لگے اس میکوں میڈھی کسے بڑی خاص نیکی دا انعام جیوندیاں جی دے چھوڑیا اے۔
(یعنی کیا بتاوں یہ اللہ سوہنے کی دین ہے ۔ کہ یہ پیارا بیٹا میری جھولی میں ڈال کے مجھے لگتا ہے کہ اس نے میری کسی خاص نیکی کا انعام مجھے جیتے جی ہی دیدیا ہے ۔ )
منور حسین ہی نہیں بے حد ذہین بھی تھا۔ سکول سے لے کر کالج تک ہر جماعت میں اس نے نمایاں نمبروں کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔
پورے خاندان کا واحد لڑکا تھا جو ہر کلاس میں ایک ہی بار میں اور وہ بھی اتنے شاندار نمبروں سے پاس ہوا ہو۔
اور سب سے زیادہ پڑھا لکھا۔
اس نے جب شہر جا کر اعلی تعلیم کی خواہش کی تو سارے خاندان نے، اس کے ماں باپ نے اس پر دلی خوشی کا اظہار کیا ۔
یوں وہ سب کی اجازت سے شہر میں ایک کمرہ کرائے پر لے کر رہنے لگا ۔
اس میں کوئی بری عادت نہیں تھی۔ وہ بہت نفیس لڑکا تھا۔ سیگرٹ تک پینا اسے پسند نہیں تھا۔
ہر کسی سے اخلاق سے بات کرنا اس کی عادت تھی ۔ وہ جہاں رہتا، جہاں جاتا ہر کسی کو اپنا گرویدہ بنا لیتا۔ ہر کوئی اس سے دوستی کرنا چاہتا۔ وہ ہر کسی کی مدد کو تیار رہتا۔ اسکی زندگی مالی طور پر آسان اور آسودگی تھی۔
اس لیئے اسے مجبورا بھی کبھی کچھ نہیں کرنا پڑا۔
جو کیا شوق سے کیا ذوق سے کیا اور اسی مالی آسودگی کی وجہ سے اکثر دوستوں کی مدد بھی کیا کرتا۔
یوں وہ سب کا چہیتا بنا رہا۔
وہ اپنی موٹر سائیکل سٹارٹ کر رہا تھا۔
جس وقت چار پانچ لڑکیوں کا ایک گروپ گپ شپ لگاتے ہنستے مسکراتے پاس سے گزرا۔
تقریبا سبھی نے بڑی چادریں اوڑ رکھی تھیں اور چہرے ڈھک رکھے تھے۔
ان سب میں گورے گورے ہاتھ اور کالی کاجل لگی بڑی بڑی انکھوں پر جیسے اس کی نگاہ ٹک سی گئی۔
جانے کیوں وہ اسے دیکھتا چلا گیا۔ حالانکہ اس کے گورے پاؤں ہاتھ اور انکھوں کے سوا کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
لیکن وہ جیسے ان آنکھوں میں ڈوبتا چلا گیا۔
ان آنکھوں کی مسکراہٹ نے جیسے اس پر اپنی پسندیدگی بیان کی ہو، اور آگے کی طرف نکل گئی۔
بس پھر کیا تھا اب ان آنکھوں کی دید کے لیئے ہر روز منور اسی وقت منتظر رہنے لگا۔۔۔
کالی چادر سے جھانکتی کاجل لگی وہ کالی آنکھیں اور بیگ کندھے سے لٹکائے اس کے وہ گورے ہاتھ گویا اس کی زندگی کا مقصد بن گئے تھے ۔
اس نے محلے میں رہنے والے اپنے ایک دوست کے ذریعے اس کی ماں سے یہ معلوم کروایا کہ اس لڑکی کے گھر کا پتہ کریں۔
وہ اسے رشتہ بھیجنا چاہتا ہے۔
محلے کی ہر گھر میں ہر ماں اور ہر لڑکی اس سے رشتہ کرنے کی خواہش تھی۔
لیکن اس کی نظر ٹکی بھی تو اس لڑکی پر جسے اس نے کبھی دیکھا تک نہیں۔
دو ایک روز میں اس کے دوست کی ماں نے اس کی ساری معلومات کیں۔ اور بتایا کہ وہ چھ بہنیں اور ایک بھائی ہیں ۔
صرف ایک بڑی بہن کافی سالوں سے بیاہی ہوئی ہے۔ بھائی نکما ہے اور چھوٹی بہنیں پڑھ رہی ہیں
جبکہ یہ لڑکی زیادہ پڑھ نہیں سکی اس لیئے سلائی کا کورس کرنے جاتی ہے۔
اس نے دوست کی ماں کو خالہ جی کہہ کر مجبور کیا کہ میں اپنے والدین کو لانا چاہتا ہوں ان کے گھر ۔
کسی طرح سے بات چلائیے۔
بالآخر لڑکی کی ماں کے نے جب سنا کہ اتنا حسین پڑھا لکھا نوجوان خوبصورت تمیزدار اپنے رشتے کے لیئے ان کے گھر کا منتظر تھا۔
یہ سن کر پاری کی ماں ہکی بکی رہ گئی۔
ایسا رشتہ تو وہ خواب میں بھی نہیں سوچ سکتی تھی۔
پھر جب وہ لوگ ان کے گھر باقاعدہ اپنی بیٹے کی خواہش پر رشتہ لے کر آئے تو بہت حیران ہوئی۔
جب کہ پاری ان کے سامنے بھی تقریبا گھونگھٹ نکال کر اور خود کو ڈھک کے، ان کی خاطر مدرات میں پیش پیش ہوتی۔
وہ تو منور کو دیکھ چکی تھی اور دل و جان سے اس پر فدا بھی ہو چکی تھی، لیکن خود کبھی وہ کھل کر ان کے سامنے نہیں آئی۔
لیکن ان کی خاطر مدارت میں اس نے کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
منور کے ماں باپ یہی سوچ کر دیوانے ہو رہے تھے کہ
واہ شہر میں رہنے والی لڑکی چاہے کرائے کے گھر میں ہی رہتی تھی۔ مالی طور پر بے حد کمزور ہی کیوں نہیں تھے۔ لیکن گوری چٹی شہری لڑکی ان کی بہو بننے جا رہی ہے اور کتنی تمیزدار ہے کتنی خاطر کرتی ہے ان کی کتنی عزت کرتی ہے۔
یہ بات بھی ان کے لیئے کافی تھی۔
وہ سب گہرے سانولے اور کالے رنگ کی کھال کے ساتھ آنے والے ایک اچھے خاندان کے کھاتے پیتے ایسے لوگ تھے جنہیں اگر الگ سے دیکھا جاتا تو کوئی بھی نہیں مان سکتا تھا کہ یہ لوگ کسی کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتے ہوں گے۔
مسکین سی شکلوں والے سادہ سے مزاج کے لیکن لیکن بہترین مالی حیثیت کے لوگ اس لڑکی کی شرم و حیا سمجھتے ہوئے اس پر لٹو ہو چکے تھے۔
وہ جب کبھی آتے ڈھیروں ڈھیر سوغاتیں گاؤں سے لے کر آتے۔
کسی چیز کی ان کے گھر کبھی کمی نہ ہونے دیتے۔ جبکہ پاری کی ماں منع کرتی رہتی
کہ اتنا مت لے کر آئیے۔
میں یہ بوجھ نہیں اٹھا سکتی اور میں آپ کے مقابلے کی نہیں۔
لیکن انہوں نے کہا
نہیں بہن جی ہمیں صرف آپ کی بیٹی کا رشتہ چاہیئے۔ ہمیں آپ سے اور کچھ نہیں چاہیئے۔
تن کے دو کپڑے بھی ہمارے گھر کے ہوں گے۔ ہمیں ان کی ضرورت بھی نہیں۔ بس آپ ہمارے بیٹے کی خواہش ہمیں دے دیجئے۔
پاری کی بیوہ ماں کے لیئے یہ رشتہ جیسے اللہ نے ایک نعمت بنا کر بھیج دیا ہو۔
وہ جو ہر مہینے دو کمروں کے گھر کے کرائے کے لیئے پریشان رہا کرتی تھی۔
اس بیوگی میں پانچ پڑھنے والی بیٹیوں کا ساتھ، ایک نکما بیٹا جو سارا دن آوارہ گردی سے باز نہ آتا۔
ایسے میں ایسا رشتہ اور ایسے اچھے لوگ اس کے لیئے اللہ کا کوئی انعام تھے جیسے۔
تحفے تحائف کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لیتا تھا ۔ آئے دن پاری کے گھر پر اس کی ہونے والی سسرال سے کوئی نہ کوئی گاوں کی سوغات لیئے آ موجود ہوتا ۔
زلیخا جیسی بیوہ عورت، چھ بیٹیوں اور ایک نالائق بیٹے کے گھر پر تو منور کا رشتہ گویا رحمت خداوندی ہو گیا تھا ۔
وہ ہزار بار بھی منع کرتی تو بھی ہونے والی اتنی بڑی زمیندار سسرال سے خالی ہاتھ آنا کوئی کیسے گوارہ کرتا ۔۔
کبھی گنے کا موسم ہے تو گنے کے ڈھیر اور بوری بھر گڑ ، کبھی چاول کی بوری ،کبھی موسمی پھل گویا انہیں تو جیسے زلیخا کے گھر کچھ بھیجنے کا بہانہ ہی چاہیئے تھا ۔
پاری ان کے لیئے چائے اور کھانے کا اہتمام اپنی ماں کے کہنے پر کرتی اور کھانا پیش بھی کرتی تو ایک لمبا سا گھونگھٹ ضرور تانے رکھتی ۔
اس کی اس ادا کو اس کے سادہ لوح سسرال نے اس کی حیاداری کی اعلی مثال قرار دیا ۔
ورنہ آج کے اس جدید اور بے حیا دور میں جہاں ہر لڑکی چٹک پٹک کر اپنے بر ڈھونڈتی پھرتی ہے وہاں ایسی شرم و حیا کا تصور بھی محال تھا ۔
اس کا سسرال دیہاتی سادہ لوح اسکی اسی پر فدا تھا کہ ان کے چاند سے بیٹے کو گوری چٹی شہری لڑکی وہ بھی ایسی جو ان کے شہزادے کو بھی پسند تھی مل گئی ۔ اور کیا چاہیئے تھا ۔
منور جو پہلے ہی ایک بینک میں اچھے عہدے پر کام کر رہا تھا لیکن سی ایس ایس کی پڑھائی مکمل کرتے ہی سال بھر کے اندر اس نے شادی کے لیے اصرار کرنا شروع کیا۔
زلیخا جو پریشان تھی کہ بیٹی کو کیا دے کر رخصت کرے گی
انہوں نے یہ کہہ کر اس کی ساری پریشانی دور کر دی کہ
ہمیں بیٹی کے سوا کچھ نہیں چاہیئے۔
ان کے گاؤں سے رواج تھا کہ بارات میں صرف مرد ہی آیا کرتے تھے۔
مردوں کا ایک گروہ آیا ۔
لڑکے کے ساتھ نکاح کی ایک سادہ سا رسم ہوئی اور یوں لڑکی گاڑی میں بیٹھ کر رخصت ہو گئی۔
ولیمے کے روز خواتین جو اپنے گھروں میں اپنے گاؤں میں بیٹھی دلہن کے انتظار میں تھیں۔ سارا دن رونق میلہ انہوں نے وہاں اپنے گھر میں کرنا تھا۔
خوب ڈھول ڈھمکے ہوئے ۔
رونق میلہ لگا اور یوں زمیندار صاحب کے بیٹے کی بارات کو لے کر اوردلہن کو حجلہ عروسی تک پہنچا کر اپنے گھروں کو رخصت ہوئیں ۔
آج منور کی زندگی کا یادگار دن تھا۔
وہ دو سال سے اس انتظار میں تھا۔ کہ کب یہ چاند اس کے گھر میں اترے گا ۔
اس کا تجسس اور شوق دیدار تھا کہ جانے کس درجے تک پہنچ چکا تھا۔
کمرے میں قدم رکھتے ہی اس کے خواب سمٹی سمٹائی دلہن کی صورت اس کے پلنگ پر موجود تھے۔ جنہیں وہ آج تعبیر دینے جا رہا تھا۔
اس نے بڑے چاؤ کے ساتھ اپنے ہاتھ میں ایک خوبصورت سا سونے کا سیٹ ڈبے میں دیکھا اور دلہن کو منہ دکھائی کے لیئے دینے آگے اس خوبصورت منقش پلک پہ جا بیٹھا۔
پاری نے کچھ ادا دکھائی۔
شرمانے کی ادائیں دکھانے کے بعد جس وقت اس نے اس کو سیٹ پیش کیا اور یوں جب اس نے گھونگٹ پلٹا تو ،منور کی دنیا جیسے کسی دھماکے میں اڑ گئی ہو۔ اس کے خواب بکھر گئے۔
یہ کیا ہوا گورے چٹے ہاتھوں اور اور سفید پیروں اور بڑی بڑی انکھوں میں جب پورا چہرہ مجسم تھا۔
وہ حیران پریشان ایک دم سے اچھل کر پلنگ سے دور جا گرا ۔
پاری حیرت سے اسے دیکھنے لگی
کیا ہوا آپ کو۔۔ وہ پریشان ہو بولی
تم تم کون ہو۔۔۔
منور نے اجنبیت سے پوچھا
میں ۔۔۔ میں آپ کی بیوی پاری۔۔۔
اس نے رسان سے کہا
نہیں نہیں تم وہ نہیں ہو سکتی۔ وہ تو کوئی اور لڑکی تھی۔
وہ اٹک اٹک کر بولا
نہیں وہ میں ہی تھی
وہ ہکا بکا پریشان اس 35 سے 40 سال کی لگ بھگ اس خاتون کو دیکھ رہا تھا جس کے چہرے پر جھریاں نمودار ہونا شروع ہو چکی تھی۔ دانت نسبتا باہر کو آتے ہوئے۔۔۔
شاید یہ غربت کا اثر تھا یا اس کے اتنے زیادہ دبلے پتلے ہونے کی وجہ سے وہ اپنی عمر سے بھی کہیں بڑی دکھائی دے رہی تھی۔
25 سال کے لڑکے کے لیے 35، 40 سال کی ایک خاتون کا یہ ساتھ کسی جھٹکے سے کم نہیں تھا ۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ پوچھتی کہتی۔
منور تیزی سے کمرے سے باہر نکل گیا
وہ پریشان ہو چکی تھی۔۔
بیٹھی کی بیٹھی رہ گئی
وہ جانتی تھی کہ اگر منور نے اسے دیکھ لیا تو وہ کبھی اسے اپنائے گا نہیں۔
یہی سوچ کر وہ لمبا سا گھونگھٹ نکالے رکھتی۔
اس نے اپنی محبت میں خود غرضی دکھائی اور عمر شکل صورت ہر چیز کو پیچھے کر بس اس کی دلہن بننے کی چاہ میں اس نے اس کے ساتھ پردے کا کھیل کھیلا۔
اب کیا تھا منور دیوانوں کی طرح اس گلی کے چکر لگانے لگا جہاں اس کی تمام خالہ زاد بہنوں نے سب نے مل کر اس کے خواب جگائے تھے اور اس کے ذہن میں ایک حسین خاکہ ابھارا تھا۔
پاری نہ شکل صورت کی پاری تھی۔ نہ عمر میں اس کے برابر کی تھی۔ نہ ہی تعلیم میں، بمشکل پانچویں جماعت پڑھی تھی۔ جسے وہ دسویں بارویں سمجھ کر نظر انداز کر رہا تھا۔
کوئی بات نہیں کچھ کم پڑھی ہے تو کیا ہوا لیکن یہاں تو وہ بالکل انپڑھ تھی۔
چار پانچ سال سکول جانے کے باوجود بھی پڑھائی میں اسکی دلچسپی نہ ہونے کے سبب اس کی ماں نے سکول چھڑوا دیا ۔
غربت کی وجہ سے، اس کی شادی نہ ہونے کی وجہ سے سالہا سال سے وہ گھر میں بیٹھی گھرداری کر رہی تھی۔
لیکن اب منور کیا کریں اس کے خاندان میں عورت کی بہت عزت تھی کسی بھی مرد کے لیئے۔
وہ اسے چھوڑ نہیں سکتا تھا لیکن وہ اسے اپنا بھی نہیں سکتا تھا۔
اس کا دل اس کا دماغ ایک عجیب شش و پنج میں پڑ چکے تھے وہ اس عورت کا کیا کرے جو اس کی سیج پر آ بیٹھی تھی۔
وہ ساری رات ان گلیوں کے چکر کاٹتا رہا دیوانہ وار صبح لوگوں نے اسے دیکھا کہ دولہا اپنے گاؤں سے باہر شہر میں گلیوں میں اس لڑکی کی ماں اور خالہ کے گھروں کے باہر گھوم رہا ۔
لٹا ہوا چہرہ ، کھلا گریبان، اجڑے ہوئے بال۔۔
ہر ایک نے اس کو بربادی کی داستان سمجھ کر دیکھا۔
صبح جب پاری کی خالہ اپنے گھر سے باہر نکل کر دودھ لے رہی تھی تو وہ ان کے گھر میں داخل ہو گیا۔
وہ دھاڑے مار مار کر رونے لگا۔
انہیں پوچھنے لگا
میں نے آپ کے ساتھ کیا دشمنی کی، کیا غلط کیا،
یہ کون ہے جس سے میری شادی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا یہ وہی لڑکی ہے جس کے لیئے تم بے قرار تھے۔ تم نے رشتہ بھیجا تھا۔ تمہارے ساتھ کوئی دھوکہ نہیں ہوا۔
نہیں یہ دھوکہ ہے میں نے اسے لڑکی سمجھا۔
لیکن یہ تعلیم شکل صورت سٹیٹس کسی لحاظ سے میرے قابل نہیں
اسے اپنی صورت مجھے دکھانی چاہیے تھی ۔
میرے ماں باپ کو دکھانی چاہیئے تھی۔
وہ اپنے ماں باپ کو کس منہ سے کہتا کہ میں نے لڑکی کا چہرہ تک نہیں دیکھا اور میں اپ کو وہاں رشتے کے لیئے بھیج رہا ہوں۔
پاری کی خالہ اور اس کی بیٹیاں شرمسار سر جھکائے بیٹھی تھیں۔
بڑوں نے بیچ میں پڑ کر اسے سمجھایا کہ
بیٹا جو کچھ ہوا اسے اپنا نصیب سمجھو۔ یہ بہت اچھی لڑکی ہے تم اس کے ساتھ خوش رہو گے۔
لیکن وہ تو اپنے کمرے تک جانے کو تیار نہیں تھا۔
اس کے اپنے ماں باپ اس ساری صورتحال سے بے خبر تھے۔
لیکن پاری کی ماں اس کی خالہ اور اس کی سب کزن جانتی تھیں کہ رات اس لڑکے پر کیا قیامت گزر گئی۔
لہذا سمجھا بجھا کر اس کی منت سماجت کر کے اسے اس لڑکی کو اپنانے پر مجبور کیا گیا۔
کافی دن گزر گئے اور جانے کس وقت کس کیفیت میں اس نے اس لڑکی کو اپنے نزدیک آنے دیا ۔
جس میں اس سے زیادہ اس پاری کی کوششیں تھیں۔
اس نے اتنی محبت سے گھر کے لوگوں کا دل جیتا ۔
ہر کام اپنے ہاتھ میں لیا ۔ ہر کسی سے اتنی میٹھی زبان سے تعلق استوار کیا کہ جنہوں نے دیکھ کر اس کو حیرت کا اظہار بھی کیا اس کی جوڑی کو حیرت سے دیکھا بھی۔ ان رشتہ داروں نے بھی اس لڑکی کی اچھی عادتوں کو بے حد پسند کیا۔
اس نے چند ماہ میں پورے خاندان کو اپنا گرویدہ بنا لیا ۔ چھوٹا بڑا ہر کوئی اس کی تعریف کرتے نہ تھکتا ۔
کئی ماہ کے بعد بالآخر اس کے ہاتھ کے بنائے اچھے کھانے ، اس کی صفائی ستھرائی، نفاست ، ادب آداب، جی سے ہر بات شروع کر کے جی پر ختم کرنے والی پاری نے اس کے دل میں جگہ بنانی شروع کر دی۔
مجبورا ایک روز وہ اسے اپنے قریب کر ہی بیٹھا۔
یوں سال بعد سب کو پاری کے امید سے ہونے کی خبر نے خاندان بھر کو خوش کر دیا ۔
جب کہ وہ خود حیران تھا کہ وہ اسے کیسے اپنا سکتا تھا ۔
لیکن جو ہونا تھا وہ ہو چکا تھا ۔
جلد ہی اللہ تعالی نے اسے ایک خوبصورت سے بیٹے سے نوازا ۔
جو بالکل اپنے باپ کی کاپی تھا ۔
ویسا ہی گورا چٹا ، حسین خوبصورت پیارا سا بیٹا گود میں اٹھا کر اس کے جیسے بہت سارے گلے دور ہو گئے۔
وہ جو اللہ سے ناراض ہو رہا تھا۔ وہ اللہ سے راضی ہو گیا اس نے اپنی بیوی کو واقعی دل سے اپنا لیا۔
جس نے دو سالوں میں خاندان کے کسی شخص کو کوئی شکایت نہ ہونے دی۔
یہ بہت مشکل کام تھا لیکن پاری نے اپنی اچھی عادتوں سے انہیں اپنا لیا۔
اور انہوں نے پاری کو اپنے دل میں جگا دی۔
اس کے ماں باپ کی آج بھی اتنی عزت تھی ۔
اس کے بہن بھائیوں کے لیئے اسی طرح سے گاؤں سے سوغاتیں بھیجی جاتی، کوئی بھی فصل آتی، کوئی نیا موسم آتا۔
وہ جانتے تھے کہ مالی طور پر اس کی ماں اور بہنوں کی حالت اچھی نہیں۔ انہوں نے انہیں اپنے گھر کے بچوں کے ساتھ ہر تحفہ دیا جاتا۔
ان کی ہر خوشی غمی میں سب سے آگے کھڑے ہوتے۔
وقت گزرتا گیا اس کے قدم جب سے ہی گھر میں پڑے ، منور کی ترقی ہوتی چلی گئی اس نے دن دونی رات چوگنی ترقی کی۔
وہ عبادت گزار تھی۔ سگھڑ تھی ۔سلیقہ مند تھی۔ ایک مرد کو اس سے زیادہ اور کیا چاہیئے تھا۔
اس نے سوچ لیا تھا یہ کتنی بھی حسین ہوتی شکل تو ایک دن ڈھل جاتی ہے۔ لیکن عادتیں ، فطرت اور کردار جو ہمیشہ ساتھ چلتا ہے۔
ان سب امتحانوں میں وہ پاس ہو چکی تھی۔ اللہ نے اسے چار حسین بیٹوں سے نوازا۔
اس نے اپنے بیٹوں کی تعلیم پر بہت توجہ دی۔
پاری خود جو تعلیم سے محروم رہ گئی تھی۔
بہت ساری زندگی کی مجبوریوں کے سبب،
لیکن اس نے اپنے بچوں کی پڑھائی پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا۔
بچے بھی باپ جیسے ذہین نکلے اور یوں یہ خوبصورت سا گھرانہ جو شہر منتقل ہو چکا تھا۔
آج جب بینک کی جانب سے ملی ہوئی کوٹھی میں شفٹ ہوئے کافی سال ہو چکے تھے۔
بچے اعلی سکولوں میں پڑھ رہے تھے اب وہی منور اسی پاری کا دیوانہ تھا۔
اب وہ بھول چکا تھا کہ اس کی شکل، اس کا سٹیٹس ، اس کی تعلیم کیا ہے،
وہ صرف یہ جانتا تھا کہ اس کی بیوی بہترین ہے۔ بہت اچھی انسان ہے۔ بہت اچھی ماں ہیں ۔ بہت اچھی بیوی ہے۔ بہت اچھی بہو ہے ۔
ہر رشتے میں وہ بہت اچھی تھی۔
آج سالوں بعد جب پاری نے اپنے بیٹے کو دیکھا جو آج دلہا بنا ڈاکٹر بیٹا جو جو آج ایک ڈاکٹر لڑکی کو ہی بیاہ کر لا رہا تھا۔
اپنے شوہر کے ساتھ کھڑی اس نے اللہ کا شکر ادا کیا۔
پروردگار تو امتحان میں تو ڈالتا ہے مگر کسی کی ہمت سے زیادہ نہیں۔
وہ جو 35 40 سال کی عمر تک سوچتی تھی شاید اس کی زندگی میں کوئی ساتھی نہیں لکھا۔
کوئی اسے پسند نہیں کرے گا لیکن اس کی اچھی عادات نے، اچھے اخلاق نے، اس کے سگھڑاپے نے، اس کی میٹھی زبان نے، اس کے لیئے خوشیوں کے ہر دروازے کو کھول دیا۔
ہر رشتے کو، ہر راستے کو آسان کر دیا۔
سچ کہا ہے کچھ برداشت کرنے کے بعد ہی بہت سا انعام ملتا ہے اور پاری وہ یہ انعام پا چکی تھی۔
وہ بہت حسین ہوتی ، کم سنی میں منور جیسا آئیڈیل جیون ساتھی پا بھی لیتی لیکن آج اس میں موجود تمام۔خوبیوں سے خالی ہوتی تو کیا وہ ایک کامیاب زندگی گزار پاتی۔
آج اس کے بیٹے بھی بچوں والے تھے ۔ وہ منور کیساتھ ریٹائرمنٹ کا کامیاب بڑھاپا گزار رہی تھی ۔ اور ہر پل دونوں اپنے رب کا شکر بجا لاتے نہ تھکتے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔