ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک
افسانے ۔ سچی کہانیاں لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
افسانے ۔ سچی کہانیاں لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعرات، 11 جولائی، 2024

& آٹے میں نمک۔ افسانہ ۔ سچی کہانیاں۔ قطرہ قطرہ زندگی



آٹے میں نمک

گلی سے ایک بچی کھیلتے ہوئی ان کے گھر آ نکلی اور اس کیساتھ کھیلنے کی ضد کرنے لگی۔
وہ ماں کی طرف درخواست بھری نظروں کے ساتھ دیکھنے لگی۔
 میں تھوڑی دیر اسکے ساتھ کھیل لوں
وہ منمنائی۔۔۔
 نہیں ابھی تمہارا باپ آئے گا تو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا تمہارے۔ خبردار جو گھر سے باہر نکلی۔
 اچھا چلو ہم چھت پر جا کر کھیل لیں۔۔
 اس نے پھر سے درخواست کی
 تو گھر کا کام تو تمہارا باپ کرے گا اس لڑکی کو بولو جائے اپنے گھر۔
 اس نے نفرت تھی اپنی بیٹی کو جھڑک دیا
 اور کمرے میں جا کر اپنے کسی کام میں  مصروف ہو گئی وہ بچی چھوٹی بچی ہی تو تھی۔
 وہ چپکے سے محلے کی بچی کے ساتھ چھت پر جا کر کھیل میں مصروف ہو گئی۔
 ماں کمرے سے باہر نکلی تو اسے صحن میں نہ پا کر آگ بگولا ہو گئی۔
 اس نے چلا چلا کر اس کا نام پکارنا شروع کیا 
 کہاں مر گئی کھوتے کی بچی۔۔
 کہاں دفع ہو گئی۔۔
 ٹہر میں تیرا حشر کرتی ہوں۔۔
 یہ آوازیں سن کر چھت پر کھیل میں مصروف بچی کی جیسے جان ہی نکل گئی
 وہ تیزی سے دوڑتی دوڑتی گرتی پڑتی نیچے کی طرف سیڑھیوں سے اتری۔
 ماں نے اسے پڑوس کی بچی کے سامنے ہی خوب مارنا شروع کر دیا وہ پڑوسن بچی تو ڈر کے مارے بھاگ گئی۔
 لیکن یہ اپنی ماں کے ہاتھ سے بھاگ کر کہاں جاتی۔
 سو خوب مرمت کرنے کے بعد اس نے اسکی ماں نے اسے کچن میں لا کر پٹخا اور بولی
 چل چل کے آٹا گوندھ۔ تجھے پتہ نہیں آٹا تیرا باپ گوندھے گا کیا۔۔
 وہ بری طرح سے گھبرائی ہوئی اور رو رہی تھی
 اس نے جلدی سے پرات  میں اٹا نکالنا شروع کیا ہاتھ دھوئے اور آٹا گوندھتے لگی۔
 جلدی کر آٹا  ٹھہر جائے تو روٹی بھی بنانی ہے ابھی۔
 یہ تیری عیاشیاں ہیں نا یہ تجھے جوتے پڑوائیں گی۔
 پوری رن ہو چلی ہے اور تجھے ابھی تک کام کا نہیں پتہ۔
 وہ 10 سال کی بچی ان باتوں کو نہ سمجھتے ہوئے حیران پریشان کھڑی ہوتی اور سوچتی
 تو کتنی پرانی روح ہے اسے اس کی ماں نے کن کن غلیظ خطابات سے نواز رکھا تھا۔
 وہ اسے کیا سمجھتی ہے کہ وہ واقعی اس کی ماں ہے۔
چھوٹے سے دماغ میں پتہ نہیں کون کون سے خیالات آتے رہتے  اور وہ اپنے آنسو اپنے دوپٹے میں جذب کر کے چولہا جلانے لگی۔
 اس نے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے پیڑے بنانا شروع کئے۔
 اتنے میں اس کا باپ فیاض گھر آ چکا تھا۔
 اسے دیکھتے ہی اس کی ماں نے دو تین پکے سے چانٹے اس کے سر پہ رسید کیئے اور اسے چولہے کے آگے سے  اٹھا کر پیچھے کی طرف پٹخا۔
 پیچھے ہو ہڈ حرام ابھی تک روٹی نہیں بنائی تو نے۔
 وہ جلدی سے پیڑے بنا کر توے پر روٹیاں ڈالنے لگی ٹریے میں کھانا لگا کر اس نے فیاض کے اگے رکھا۔
 وہ جانتی تھی تھوڑی سی بھی دیر ہوئی تو فیاض نے منہ کھول کھول کر وہ وہ مغلظات سنانی شروع کرنی ہیں کہ سارے محلہ پھر سے ایک نیا تماشہ  دیکھے گا۔
فیاض نے روٹی کا لقمہ منہ میں رکھتے ہی تھوک دیا۔
 اپنی بیوی میراں کے منہ پر کھانے کی ٹرے مارتے ہوئے اسے روئی کی طرح دھنک دیا۔
 بدبخت عورت اتنا نمک ہے روٹی میں کہ زہر کر ڈالا ہے۔ تجھے آٹے میں نمک کا بھی اندازہ نہیں ہے نکمی عورت۔
 منہ سے جھاگ اڑاتا ہوا فیاض تو گھر سے باہر نکل گیا،کسی ہوٹل پر کھانا کھانےکو،
  میراں نے دس سالہ بیٹی مومنہ کو بانس کے جھاڑ کے دستے سے مار مار کر ادھ موا کر دیا ۔
گلی کے بچے کے ساتھ کھیلتے ہوئے جو ماں نے اسے گالیوں کے ساتھ پکارا تو ڈر کے مارے آٹا گوندنے سے پہلے اس نے شاید ایک بار شروع میں اور ایک بار شاید بعد میں بھی پھر سے نمک شامل کر دیا اور اسے علم بھی نہ ہو سکا اور یوں آٹے میں نمک زیادہ ہو گیا ۔
 وہ چاہتی تو اسی آٹے کو تھوڑا تھوڑا کر کے دوسرے آٹے میں ملا کر دوبارہ سے گوند سکتی تھی۔
 بغیر نمک کے آٹے میں ملا کر وہ اسے پکا سکتی تھی۔
 آٹا بھی استعمال ہو جاتا اور نمک بھی برابر ہو جاتا۔
 لیکن اس نے ایسا نہیں کیا اس نے اپنے شوہر سے پڑی ہوئی مار کا بدلہ اس بچی سے لینے کے لیئے پہلے تو اسے خوب پیٹا۔
جب تھک گئی تو باقی غصہ اتارنے کے لیئے نمک بھری روٹی کے نوالے بنا بنا کر زبردستی اس کے منہ میں ٹھونسنا شروع کر دیا۔ 
وہ آدھ مری بچی اکھڑے سانسوں کیساتھ ہاتھ جوڑتی رہی۔ معافیاں مانگتی رہی ۔ لیکن میراں  کو اس پر ترس نہ آیا۔
 بلکہ میراں نے  اسے غلیظ ترین گالیوں سے نوازتے ہوئے اگلے سات روز تک اسی آٹے کی روٹی بنا کر کھلائی۔
 کیونکہ میراں تو روزانہ سہیلیوں سے گپیں لگانے بیٹھ جاتی تھی گھر کے سارے کام تو اس بچی مومنہ سے کرواتی تھی۔

 جھاڑو پونچھا آٹا گوندھنا اسکے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کا فرض تھا کیونکہ اسکا جرم تھا کہ وہ اسکی کوکھ سے جنمی تھی۔ 
                 ۔۔۔۔۔۔

جمعرات، 9 نومبر، 2023

& چاند ڈوب گیا ۔ افسانہ۔ سچی کہانیاں۔ قطرہ قطرہ زندگی


چاند ڈوب گیا
 تحریر: 
         (ممتازملک ۔پیرس)

نہ بھئی نہ لڑکی کی ناک دیکھی ہے طوطے جیسی۔  مجھے تو میرے بیٹے کے لیئے ایسی لڑکی دکھاؤ کہ ہر جاننے والے کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں ۔
سکندر کی ماں رقیہ نے لڑکی کی تصویر کو نخوت سے میز پر پٹختے ہوئے کہا ۔۔
رشتے دکھانے والی رضیہ تو جیسے جل بھن کر رہ گئی ۔ اس کے جی میں تو آئی کہ بی بی شہر کی پچاسویں لڑکی ہے جو ایک سے ایک خوبصورت اور قابل تعلیم یافتہ ہے تمہیں دکھا چکی ہوں اور تم ہو کہ پروں پر پانی ہی نہیں پڑنے دیتی۔ لیکن   پھر کچھ سوچ کر خون کے گھونٹ پی کر رہ گئی۔ 
دیکھو رقیہ بہن میں جانتی ہوں کہ صرف میں ہی نہیں ہوں جس سے تم رشتے دیکھ رہی ہو ، بلکہ اس شہر کے ہر میرج بیورو اور ہر رشتے کرانے والی کے پاس سے تمہیں رشتے دکھائے جاتے ہیں ۔ اب تو لوگ تمہارا نام سنتے ہی پہلے ہی منع بھی کر دیتے ہیں کہ نہیں بھائی اس خاتون کو مت لانا اس سے ہم پہلے ہی مل چکی ہیں اس کے تو بہت نخرے ہیں ۔ 
آخر تم ایک ہی بار بتا دو کہ تمہیں اپنے بیٹے کے لیئے کیسی لڑکی چاہیئے ۔ پانچ سال سے تم اس شہر کا ہر گھر گھوم چکی ہو ۔ کہیں دوپہر کے کھانے کھاتی ہو  اور کہیں رات کی دعوتیں اڑاتی ہو۔  
رقیہ بیگم بھڑک کر ہاتھ نچاتے ہوئے بولی آئے ہائے میرا بیٹا کوئی گیا گزرا نہیں ہے چاند کا ٹکڑا ہے ۔اچھا کماتا ہے ۔ گھر بار والا ہے ایسے ہی کوئی بھی بن بتوڑی تھوڑی اٹھا کر لے آؤں گی اپنے بیٹے کے لیئے ۔ 
خدا کا خوف کرو رقیہ بیگم۔ اس تین مرلے کے گھر میں رہتی ہو۔ اور بنگلوں والی لڑکیاں تک تم مسترد کر چکی ہو ۔ بیٹا تمہارا رنگ روپ دیکھ لو تو دوسری بار کوئی ملنا نہ چاہے اور تم ہو کہ ہر ایک کی بیٹی میں عیب نکالتے نکالتے گھر میں بیٹے کو پینتیس سال کا کر چکی ہو۔
ارے پینتیس کا ہے تو کیا ہوا لڑکی تو میں بڑے گھر سے چاند کا ٹکڑا ہی لیکر آؤنگی ۔ جو کار کوٹھی ڈگری سب کچھ لیکر آئے گی اور ہاں دیکھ لینا ہاتھ باندھ کر میرے سامنے چاکری کرے گی ۔۔ بیس سے اوپر تو ایک دن کی بھی نہ ہو۔ ہاں نہیں تو ۔۔۔
ہائیں ۔۔۔
رضیہ کا تو حیرت سے منہ کھلے کا کھلا رہ گیا 
اسے پورا یقین ہو چلا تھا کہ رقیہ بیگم کا دماغی توازن جواب دے چکا ہے ۔ اس نے اپنی چادر سمیٹی اور پلیٹ میں رکھے تینوں سموسے ہاتھ میں اٹھائے اور چلتے ہوئے بولی۔۔۔
اچھا رضیہ بیگم کسی کارخانے میں تمہاری مرضی کی بہو آرڈر پر تیار ہو گئی تو مجھے بھی شادی کی دعوت دینا مت بھولنا۔۔ چلتی ہوں اللہ حافظ
رقیہ نے دروازہ بھیڑتے ہوئے چاہا تو کہ یہی دروازہ اس رقیہ کے سر پر دے مارے لیکن اپنی پیشہ ورانہ مصلحت کے سبب دل مسوس کر رہ گئی۔ 
اس کے جاتے ہوئے سامنے سے رکشے سے اترتا ہوا سکندر ملا ۔ سوکھا سڑا سا، پکا رنگ، اپنی عمر سے بھی دس سال بڑا دکھائی دیتا ہوا۔ یہ مرد اسے لڑکا تو کہیں سے نہیں لگا ۔اسے دیکھتے ہی رضیہ کی آنکھوں میں وہ تمام حسین و جمیل کم سن بہترین تعلیم یافتہ لڑکیوں کے سراپے گھوم گئے جنہیں ایک کے بعد سکندر کی ماں نے اپنے اس چاند سے بیٹے کے لیئے ٹھکرا دیا تھا ۔ جبکہ گھروں میں دو دو چار چار کنواری بیٹیوں کے بیٹھے ہونے کے سبب انکے والدین اس جیسی شکل و صورت اور حیثیت والے کو بھی داماد بنانے کو تیار تھے لیکن رقیہ بیگم شاید اپنے بیٹے کو بیاہنا ہی نہیں چاہتی تھی۔
پچھلے دس سال سے یہی بیٹا لیئے وہ ہر گھر میں کبھی دوپہر اور کبھی شام دعوتیں اڑا رہی تھی شادی کر دیتی تو پھر یہ دعوتوں کے مزے کہاں سے پورے ہوتے۔

رقیہ بیگم خدا کا خوف کرو جس بیٹے پر اتنا گھمنڈ کر رہی ہو اور دوسروں کی عزتیں اچھالتی پھرتی ہو کہیں وہ تمہارے دل کا روگ ہی نہ بن جائے ۔
رضیہ بیگم نے اسے آئینہ دکھانے کی کوشش کی تو رقیہ ںی تو جیسے ہتھے سے ہی اکھڑ گئیں۔
ارے جاؤ جاؤ بڑے آئے ہمیں روگ دینے والے ۔
منیزہ کی بیٹی کو دیکھ کر لٹکتی مٹکتی رقیہ بی  ہر بات میں کیڑے نکالتی ہوئی باہر نکلیں تو اس کی نظر سکندر سے چار ہوئی ۔
 گھر سے باہر کھڑے سکندر پر ایک نظر ڈال کر دوسری نظر جب اپنی بیٹھک کے پردے کے ساتھ لگی کھڑی اپنی حسین اور قابل بیٹی پر نگاہ پڑی تو جیسے کانپ کر رہ گئی ۔ کوئی جوڑ نہیں تھا ان کا انکی بیٹیاں پڑھ لکھ کر کسی قابل بننا چاہتی تھی اور عمیر صاحب کی آنکھوں میں  ان کا گھر بسانے کا سپنا انہیں سونے نہیں دیتا تھا ۔
 دو موٹے موٹے آنسو ان کی آنکھوں سے بے ساختہ بہہ نکلے۔
مغرور رقیہ بیگم نے رکشے والے کو پیسے ادا کیئے اور سڑک پار کرنے کو مڑی ہی تھیں کی سکندر جو اپنے ہی خیالوں میں سڑک پار کر رہا تھا ایک تیرفتار گاڑی کی زد میں آ گیا ۔ گاڑی کی ٹکر سے وہ دور جا گرا رقیہ بیگم کے تو جیسے اوسان خطا ہو گئے ۔
وہ گرتی پڑتی ہانپتی کانپتی اپنے زخمی بیٹے تک پہنچتی کہ وہاں اکٹھی ہوتی بھیڑ میں سے کسی کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ 
بیچارے کو گاڑی نے اڑا دیا۔ موقع پر دم توڑ دیا ہے ۔ پھر بھی اسے ہسپتال پہنچاؤ یار ۔۔
اس کے بعد رقیہ بیگم بیٹے تک پہنچنے سے پہلے ہی بے ہوش ہو چکی تھی۔ 
دونوں کو ایک ہی ایمبولینس میں ہسپتال پہنچایا گیا اس کا غرور چور چور ہو کر لاش کے طور پر اسٹریچر پر تھا تو ماں اس کی موت کا غم اٹھانے کو بیہوش دوسرے سٹریچر پر۔ اس کا کالا مریل بد صورت چاند کا ٹکڑا ڈوب چکا تھا جس نے اسے پچھلے دس سال سے اس شہر کی ہر جوان لڑکی کے گھر کی آنکھ کا تارا اور مہمان خصوصی بنا رکھا تھا ۔ 
               -------

جمعہ، 9 اکتوبر، 2020

● ان ‏بکس ‏/ کالم ‏۔ ‏افسانہ۔۔سچی کہانیاں۔ قطرہ قطرہ زندگی



    

    ان بکس
     تحریر:
        (ممتازملک.پیرس )


پہلے عورت کا لڑکیوں کا  نام اور تصویر دیکھر اسے ان بکس میں   سلام ٹھوکا جائے گا 
دیکھ لیا تو حکم دیا جائے گا 
سلام کا جواب تو دو ۔۔
مسلمان نہیں ہو کیا ۔۔۔
جواب دیدیا تو مزید یارانہ گانٹھنے کا پروگرام شروع ہو جائے گا ۔۔
آپ بہت حسین ہیں 
آپ بہت عظیم ہیں 
میں آپ تو آپ کا فین ہو چکا ہوں 
کیسی ہیں ۔۔۔
کیا کرتی ہیں ۔۔
(ابے اندھے پروفائل دکھائی نہیں دیتی تجھے۔۔۔)
کہدو بھائی معذرت ان بکس میں بات کرنے سے۔۔۔
کیوں نہیں کرنی بات۔۔۔
نہیں کرنی بھائی مرضی۔۔۔
مجھے بھائی کہا ہے اب مجھ سے بات کرو۔۔۔
 بات کرو۔۔
ہیلو۔۔۔
ہیلو۔۔۔۔
کال ملا بیٹھے گا الو ۔۔۔
لکھو کہ کیوں بھائی کس کی اجازت سے کال کی؟
ایسے ہی میرا دل کیا ۔۔۔
اچھا تو اپنی بیگم کا یا بہن کا  نمبر دو تاکہ میں بھی اپنے میاں سے اور بھائیوں سے کہوں کہ اسے کال ملا ملا کر ایسے ہی شوق پورا کریں ۔۔۔
یہ فیملی تک مت جاو 
تو پھر ڈونٹ کال سمجھ نہیں آتی ؟
اتنی پارسا بنی پھرتی ہے تو فیس بک کیوں بنایا ہے ۔۔۔
تم جیسے احمقوں سے گپیں لگانے کے لیئے تو بالکل نہیں بنایا 
فلانی ڈھمکانی بلا بلا بلا 
 اسکے ساتھ ہی اصلی پاکستانی مردانہ ذہنیت کی الٹیاں شروع کر دیگا ۔۔۔
 کسی بھی درجے کی ڈگری ہو۔ کسی بھی عہدے کا ہو ۔ اس حمام میں بھارتی پاکستانی سبھی عالم ،فاضل ، ڈگری ، جاہل سب ننگے ہیں ۔
 ماسوائے آٹے میں نمک جتنے اچھے اور شریف  لوگ چھوڑ کر ۔۔۔
بھارتی تو اس سے بھی چار قدم آگے ہیں 
 انہیں بھائی یا بیٹا کہدو تو ایسا لگے گا جیسے آپ نے ان پر کوئی سانپ چھوڑ دیا ہو ۔
باقاعدہ چلائیں گے میں تمہارا بیٹا ویٹا نہیں ہوں مس ۔۔
دوستی کرنی ہے تم سے ۔۔۔۔
نہ اپنی عمر دیکھتے ہیں نہ سامنے والے کی ۔
نہ اپنا مقام حیثیت اور تعلیم دیکھتے ہیں نہ سامنے والے کا مقام و مرتبہ ۔
بس عورت دیکھی اور رال ٹپکانا شروع ۔۔۔
                     پاکستان زندہ باد

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/