ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

ہفتہ، 25 مئی، 2013

مردوں میں تیزی سے پھیلتا ہوا مرض ممتاز ملک ۔ پیرس


مردوں میں تیزی سے پھیلتا ہوا مرض
ممتاز ملک  ۔ پیرس


آج کل مردوں میں بڑی ہی تیزی سے ایک مرض پھیلتا جارہا ہے پھیلتا ہی جا رہا ہے ۔ ہمارے آج کے  آرٹیکل کا مقصد بھی یہ ہی ہے کہ ہم آپ کو اس مرض کی وجوہات، علامات اورعلاج  اور ہاں حفاظتی تدابیر سے بھی آگاہ کریں ۔ یعنی آج ہم آگاہی مہم پر ہیں ۔ کیا کہا، کس کی جانب سے ۔ کیا مطلب اب ہمیں کوئی کہے گا نہیں تو ہم کیا ساری عمر کسی مہم پر ہی نہ جائیں ۔ ہاں تو ہم اس مہم پر ہیں ، خود اپنی طرف سے ہی ۔
 اس مرض کی وجوہات میں ریٹائرمنٹ سرفہرست ہے جبکہ بیکاری یا بیروزگاری بھی ہو سکتا ہے ۔ ۔ ایک دو جگہ محلٓے مین مرمت کروانا بھی اسکی اہم وجوہات ہو سکتی ہیں ۔ اپنے آپ کو مُنٓے راجہ کہلانے کا شوق بھی اسکی ایک وجہ ہو سکتی ہے ۔ ایسے مریضوں کے محلٓہ داروں کو چاہیئے کہ انہیں مُنٓے راجہ ہی پکارا کریں تاکہ یہ اپنے تماشے دوسرے محلے میں کر کے اپنے محلے کی بدنامی کا باعث نہ بنیں ۔
   اس مرض کی علامات یہ ہیں کہ مرد سب سے پہلے تانک جھانک میں مبتلا ہوتا ہے ۔ اسے اپنے گھر کی عورت کے سوا دنیا کی ہر عورت مس ورلڈ لگنے لگتی ہے چاہے وہ کالی کلوٹی گندی مندی بدبدبودار جمعدارنی ہی کیوں نہ ہو ۔  موقع ڈھونڈ ڈھونڈ کر خود ہی اپنی بےعزتی کا سامان پیداکرتا رہتا ہے کسی کو کیااپنے دشمنوں کو بھی یہ سامان پیدا کرنے کی تکلیف نہیں دیتا  ۔ اس کام کے لیئے اسکی اپنی حرکتیں جو کافی ہوتی ہیں یعنی کہ موصوف خود کفیل ہوتے ہیں ۔
 دوسرے مرحلے میں جناب کو ایک عدد فیس بُک اکاؤنٹ کی سوجھتی ہے ، یعنی ہری ہری سوجھتی ہے، تو جناب فیس بک پر اپنا اکاؤنٹ بناتے ہیں تو اپنی عمر  کا سال غائب کر کے اور ایک عدد پُرااااااااااااااااانی سی فوٹو کو نیا کر کے لگاتے ہیں اور جب بھی کسی خاتون کے خوبصورت سی پک نظر آئی لگے فورا  اس کو ریکوئسٹ بھیجنے، اس کے بعد اس کا حدود اربعہ جاننے کے لیئے بے چین ہو جائیں گے ۔ یہ اور بات کہ اپنے ہی گھر میں بلکہ اپنے ہی بیڈ روم میں  25 سال سےساتھ رہنے والی خاتون( جو کہ بدنصیبی سے ان کی بیگم جانی جاتی ہیں )انہیں ان تک کا حدود اربعہ تک معلوم نہین ہے۔ شاید اسی لیئے کہتے ہین کہ چراغ تلے اندھیرا ۔  یا پھر بیگم بغل میں اور ڈھنڈھورا فیس بُک میں ۔
 تیسرے درجے میں یہ مرض بڑھتا ہے تو یہ ہی مریض اس خاتون سے لفٹ نہ ملنے کی صورت میں اس خاتون کو جسے فرینڈر بنانا چاہتے ہیں فٹ سے آنٹی کہہ دیتے ہیں ۔ خود کو کم سن ثابت کرنے کے لیئے ۔ اسے کہتے ہیں " چور کی داڑھی میں تنکا"۔
(  ارے مریض برادر فیس بُک رشتہ داریاں بنانے کے لیئے نہیں ہوتا ۔ بلکہ  یہاں لوگ اپنی پسند اور ناپسند کی تحریریں یا تصویریں ایک دوسرے کیساتھ  بانٹتے یا بھیجتے ہیں ۔) لیکن ایسے مریض بیچاری فیس بُک کو بھی اپنے مُحلّے کا تھڑا ہی سمجھ کر ٹھرک جھاڑنے کا زریعہ بنا لیتے ہیں جوابا یا تو ذلیل ہوتے ہیں یا پھر بلاک ۔
   مرض کا اگلا مرحلہ ہوتا ہے خواتین سے ان کا سکائب پر بات کرنے کا اصرار ۔ جس میں یہ کُھل کر اپنی اوقات دکھانا چاہتے ہیں تو مذید شرمندہ کیئے جاتے ہیں ۔
اس مرض کو کہتے ہیں عمر چوری کا مرض جو کہ کبھی خواتین میں بکثرت پایا جاتا تھا ۔ لیکن اب مبارکاں مردوں میں بھی تیزی سے سرایت کر چکا ہے  ۔
 اب ہم آپ کو بتاتے ہیں ایسے مریضوں کا علاج ۔ ایک مرتبہخواتین اور مردوں کی  ایک مشترکہ ادبی نشست میں کسی خاتون نےشاعر مشرق جناب علّامہ اِقبال سے پوچھا کہ جناب خاتون  کی جمع تو ہے خواتین  ۔ تو مرد کی جمع کیا ہوئی   ؟ تو علّامہ اِقبال نے برجُستہ جواب دیا کہ مرد کی جمع ہوئی مۤردُود ۔ یہ سن کر ایک زور دار قہقہہ پڑا ۔ اس سچے لطیفے کی سمجھ ہمیں بھی بڑی دیر سے آئی ۔ 
ایسے مریض مرد سمجھتا ہے کہ فیس بُک شاید اسکے دل کا کوئی راز ہے جسے کوئییییییییییییی نہیں جان سکتا ۔
 جبکہ اسکا علاج یہ ہے کہ اسے کوئی قابل بچہ یا دوست بیٹھ کر سمجھائے کہ بڑۓ ابّا ۔ یا انکل ماموں ایسا بلکل نہیں ہے بلکہ نیٹ کی دنیا اور خاص طور پر فیس بُک کی دنیا ایسے ہی ہے جیسے اللہ پاک نے دو فرشتے منکر نکیر ہمارے کندھوں پر قلم دوات دیکر بٹھا رکھے ہیں کہ ہماری ہر چٓوّل کو نوٹ کریں اسی طرح چند شریر ذہنوں نے فیس بُک بنا دیا تاکہ ہم اپنے کرتُوتوں کو اپنے ہی ہاتھوں اس میں ایڈ کرتے جائیں ۔ اور گندے گندے کمنٹس دیکر یا فیک نک سے آئی ڈیز بنا کر یا گندے واہیات ولگر لائیکز کر کے یہ نہ سمجھیں کہ ہم نے اسے ڈیلیٹ کر دیا تو یہ  بے نام و نشان ہو گیا یا ہم نے اسے پوشیدہ کر دیا تو اب یہ کوئی نہیں جان سکتا ۔ جی نہیں اس میں ہماری ہر کی ہوئی بات شاید ہم تو بھول جائیں لیکن برادر مریض یہ شیطانی جال ہمیں کبھی بھولنے نہیں دیتا ۔
لہذا یا تو نیٹ استعمال کرنا ہے تو اسکی تھوڑی سی سیکھ لیکر اسکا استعمال کریں  اور تہذیب اور شائستگی سے بھی کبھی کبھی اپنی واقفیت کا اظہار کر دیا کریں اس سے آپ کی صحت پر بھی اچھا اثر پڑے گا اور آپ کو جھیلنے والے کی صحت پر بھی ۔ یا پھر جس حساب سے بابوں کے اور شوقین مردوں کی شکایتیں ہو رہی ہیں ۔ایسا نہ ہو کہ ہماری بہنوں کو گھروں مین لیپ ٹاب  پر لکھ کر لگانا پڑے کہ اسے چھچھوروں اور بابوں کی پہنچ سے دور رکھیں ۔
                                     منجانب ۔ تحفظ بچیات و دفعانِ واہیاتیات
                                           ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


منگل، 21 مئی، 2013

عمران خان صاحب اپنی غلطیوں سے سیکھیئے / ممتازملک ۔ پیرس


عمران خان صاحب اپنی غلطیوں سے سیکھیئے

ممتازملک ۔ پیرس


کافی عرصے سے پاکستان میں ایک ایسی پارٹی کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی تھی جو آ کر ملک میں قائم دو پارٹیوں کی اجارہ داری کو توڑ سکے ۔   اپنی 17 سالہ جدوجہد کے بعد اور بلند ارادے اور حوصلے سے بآلاخر تحریک انصاف کی صورت عمران خان نے اپنی پارٹی کو وہ تیسری  پارٹی بنا ہی لیا  جو کہ عوام کی خواہشات کو شرمندء تعبیر کرنے کا عزم لیکر میدان عمل میں کود چکی ہے ۔ آج سے دو سال پہلے عمران خان کی سونامی  کواسوقت ایک بڑا دھکہ لگا جب جوک در جوک دوسری پارٹیز کے ممبران نے اس کا رخ کرنا شروع کیا ۔ اور تحریک انصاف کے نادان مشیروں نے یہ سوچے سمجھے بغیر بھنگڑے ڈالنا شروع کر دیا  کہ جو لوگ بیس بیس سال تک کرسیوں کے مزے لوٹنے کے بعد بھی ملک کے لیئے کچھ اچھا نہ کر سکے اُلٹا ملک کو اربوں روپے کا چونا لگاتے رہے  ۔ وہ  بھلا آپ کی پارٹی کو نوالہ تر سمجھنے کے سوا اور کیا کریں گے ۔   ایک نئی اور ابھی نہ آزمائی ہوئی پارٹی کو شکار کرنے کا منصوبہ اس کے اپنے نادان دوستوں نے بڑی ہی کامیابی کے ساتھ پورا ہونے دیا ۔ نتیجہ کیا نکلا بہت سے وہ مخلص کارکنان جنہوں نے یہ سوچ کر اس  نئی پارٹٰ کو اپنا وقت ، حوصلہ اور طاقت دی کہ کبھی نہ کبھی تو ہمیں بھی اپنے ملک کے لیئے کوئی اچھا کام کرنے کا موقع یہ قوم ضرور دیگی ۔ وہ سب ہی بدظن ہو گئے  ۔ لوگوں کی  امیدوں کا  مورال جو دو سال پہلے ایک دم آسمان کی بلندیوں تک پہنچا ۔ وہ ایک دم سے زمین پر آرہا ۔ اور ایسے نوجوانوں کی اکثریت نے اس پارٹی کا رخ کیا جو بیشک پڑھے لکھے تو بہت تھے لیکن تہذیب اور تمیز سے ان کا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا ۔ انہین فر فر انگریزی بولنی تو آتی تھی لیکن کس سے کیسے بات کرنی ہے اس کی الف بے  سے بھی وہ واقف نہیں تھے  ۔ دوسری جانب عمران خان اس ایکدم کے بہاؤ کو شاید پوری طرح سے سنبھال نہیں پا رہے تھے جسکا ثبوت ان کی پارٹی کے ممبران اور ورکرز کے وقتا فوقتا نظر آنے والی بدتمیزیاں اور بےترتیبیاں تھیں ۔ کہیں پنڈال الٹے ۔   تو کہیں کھانے کی لوٹ مار کی گئی ۔ کہیں کرسیاں اور برتن لوٹ لیئے گئے تو کہیں پارٹی الیکشن کے موقع پر ایک دوسرے کی جم کے دھنائی کی گئی ۔  یہ سب کیا تھا یہ کوئی الزامات نہیں ہیں بلکہ آنکھوں دیکھی کہانیاں ہیں ۔ ہماری بات کا مطلب کہیں بھی تحریک انصاف میں کیڑے نکالنا نہیں ہے بلکہ ایک ایسی پارٹی کو ایک اچھے شہری کے طور پر یہ مشورہ دینا ہے کہ وہ خود اپنے گریبان میں جھانکیں کہ وہ کون کون سی خامیاں رہیں کہ جن کی وجہ سے ایک ایسی پارٹٰ کو جسے کم از کم 100 سے 150 تک نشستیں حاصل کرنی چاہیئں  تھیں وہ صرف 25 سے    35 سیٹوں کے بیچ جھول گئی ۔  کیوں کہ یہ پانچ سال  ہر اس پارٹی کے ایک ایک ممبر کے لیئے ایک ٹرائل پیریڈ ہے جو آئندہ پاکستان میں رہنا چاہتی ہے یا پورے پاکستان پر اپنا سکہ جمانا چاہتی ہے ۔ ایک تو آپ اپنے  ورکرز اور ممبران کو اس بات کا پابند کریں کہ وہ تمیز سے بات کرنے کی عادت ڈالیں اور یہ بات یاد رکھیں کہ پڑھائی لکھائی سرٹیفیکیٹ کی صورت سجانے کا نام نہیں ہے بلکہ اسے عملی طور پر بھی آپ کی بات چیت  ، اخلاقیات اور طور طریقوں میں   نظر آنا چاہیئے ۔  ہر وقت ہر جگہ ہماری ہی مرضی کی بات نہیں ہوتی ہے ۔ اسلیئے جہاں کہیں کسی سے بات کریں تو اتنے اچھے اور مدلل لہجے میں کریں کہ ان کی بات سے کوئی اتفاق کرے یا نہ کرے لیکن ان کے اخلاق کی ایک اچھی چھاپ ضرور اس کے دل پر چھپ جائے ۔ کیوں کہ صرف یہ ہی ایک ایسی صورت ہے جب کوئی شخص آپ کی بات پر غور کرنے پر تیار ہو گا کیوں کہ کوئی بھی شخص زبر دستی ڈنڈے کے زور پر تو اپنی کوئی بات کسی سے کبھی بھی نہیں منوا سکتا ۔ ۔ ہٹ دھرم لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دینا ہی سمجھداری ہے ۔ ویسے بھی پھل دار ڈالیاں جھکی ہوئی ہی اچھی لگتی ہیں ۔ اکڑے ہوئے پیڑوں کے تو سائے نہیں ہوتے ۔ 

،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، 

جمعرات، 16 مئی، 2013

● (7) تیرے نظارے/ شاعری۔ میرے دل کا قلندر بولے


(7) تیرے نظارے



 اے وطن تیرے نظارے اسقدر سستے نہیں

منزلوں تک جو نہ پہنچیں ایسے بھی رستے نہیں 

ہم جنہیں اپنا کہیں وہ جانتے ہیں بات یہ 
دوستوں کی ہم لگامیں پر کبھی کستے نہیں 

جن گھروں میں چین ہواور صحن میں بھی سکھ بسے
ان گھروں میں بھوت  آ کر پھر کبھی بستے نہیں 

اے وطن جو لوگ عزت قرض میں لیتے نہیں
یہ جہاں والے کبھی ان لوگوں پہ ہنستے نہیں 

جن کے پیروں میں نہیں کانٹوں پہ چلنے کی سکت
ایسے لوگوں پر کبھی گُل آ کے برستے نہیں 

کیا بتائیں ہم کہ دنیا پوچھتی ہے ہر جگہ
  چاہنے والے تیرے کیا اس نگر بستے نہیں 

ممتاز تجھ کو خواب کے نذرانے کیوں کر دے سکے
 کیوں کہ میرے ہاتھ یہ اب ریت میں دھنستے نہیں 
●●●
کلام:مُمتاز ملک
مجموعہ کلام:
 میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت:2014ء
●●●

بلی تھیلے سے باہر ۔ کالم



بلی تھیلے سے باہر آہی گئی 
ممتازملک ۔ پیرس


 لیجیئے ملاحظہ فرمایئے کل تک جو باتیں ایم کیو ایم کی جانب سے الزامات کہی جاتی تھیں آج ان تمام باتوں پر انہین کے نام نہاد لیڈر نے مہر تصدیق ثبت کر دی ہے  ۔
بہت سالون سے جو چنگاری الظاف حسین اپنے سینے میں دبائے بیٹھے تھے آج اسے اس لاوے کی  الٹی ہو ہی گئی ۔ایلیکشن تو ایک بہانہ تھا۔ حقیقت میں 25 سال سے الطاف حسین المعروف الطاف بھائی جس محاذ پر تھے اس میں کراچی والوں نے اپنی عزتیں بھی گنوائیں اپنے پیاروں کے لاشے بھی اٹھائے ، بوری بند لاشوں اور نامور لوگون کی ٹارگٹ کلنگ کے زریعے کراچی کو نایاب لوگوں سے پاک کرنے کے سنگین منصوبے بھی بھگتے ۔ اس بار کا ایلیکشن  میڈیا کے انقلاب کا ایک بہت بڑا ٹٰیسٹ کیس تھا ۔  جسے پاکستانی قوم نے اپنی آگاہی کا ثبوت دیتے ہوئے تو پاس کر لیا لیکن جن لوگوں کو پچھلے تماشوں کی عادت تھی ان کا ہاضمہ ضرور خراب ہو گیا ۔   جس پولنگ بوتھ پر چڑیا کو بھی پر مارنے کی اجاذت نہیں دیگئی وہاں پرجعلی ووٹنگ کو کیا کھیل کھیلا گیا   کئی خفیہ موبائل کیمرے اپنی آنکھوں میں ان مناظر کو قید کر رہے تھے جو جعلی کامیابیوں کا رونا روتے نظر آئے ۔ جعلی انگوٹھوں کی بہار بھی دیکھی گئی ۔ پورے پورے رجسٹر پر چند پارٹی کے لٹیرون کو دھڑا دھڑ ٹھپے ۔ انگوٹھے لگاتے واضح دیکھا جا سکتا ہے ۔ یہ بھی اللہ کا کرم ہے کہ دنیا میں کسی کا انگوٹھے کا نقش کسی بھی دوسرے کیساتھ نہیں ملتا ۔اب جب  کہ ایلیکشن کا ایک ایک ایکشن قوم کی نظر میں آ چکا ہے تو ایک جانب تو الطاف حسین نے  نواز شریف کوسارے ملک میں سیٹیں لینے کے باوجود  پنجابی لیڈر کہہ کر اپنے تعصب کا کھلا اظہار کر دیا ۔ دوسری جانب کراچی میں بھی اپنی سیٹس جو غنڈہ گردی کے زریعے جیتی جاتی تھیں وہ بھی جاتے دیکھ کر موصوف اپنا آپہ ہی کھو بھیٹھے اور لگے آئیں بائیں شائیں کرنے ۔ یہ ہی نہیں بلکہ کھلم کھلا ملک توڑنے کی دھمکیاں بھی دینے لگے ۔ بندہ پوچھے جگت بھائی صاحب  آپ بقول اپنے اتنے ہی کامیاب لیڈر اور جماعت کے بانی ہیں تو کیا وجہ ہے کہ آج 25 سال سے بھی ذائد عرصہ سیاست کے میدان میں گزار کر بھی آپ پاکستان کے کسی بھی علاقے میں کھلے بندوں  کوئی بھی سیٹ کیوں نہیں جیت سکے ۔ کیوں کسی اور شہر نے آپ کو اپنے ہاں ترقیاتی کاموں کے لیئے اعتبار سے نہیں نوازا۔ کیوں کوئی بھی شخص آپ کو اپنے علاقے میں نہیں دیکھنا  چاہتا ۔ تو بھائی صاحب یہ کوئی تعصب نہیں ہے بلکہ بہت بڑی سچائی ہے ۔ کہ جان بوجھ کر اپنی موت کو کوئی دعوت نہیں دیتا ۔ لہذا آپ کو بھی کسی نے اپنے شہر میں قبول نہیں کیا کیوں کہ آپ کی جماعت کا ماضی اور  تصور دونوں غنڈہ گردی / بوری بند لاشوں / ٹارگٹ کلنگ /بھتہ خوری / اغواہ برائے تاوان / ٹارچر سیلوں سے اٹا ہوا ہے ۔ ان سب کے باوجود بھی آپ کی خواہش ہے کہ آپ کو قومی لیڈر مان لیا جائے ۔کسی بھی ایشو پر ہر گھنٹے بعد تو آپ کا انکار اور اقرار تک بدل جاتا ہے ۔  آپکا اپنا کوئی دین اور ایمان آج تک نہ تو آپ کی اپنی باتوں میں نطر آیا نہ ہی آپکی پارٹی کے افراد کے قول و فعل میں ۔ اسی لیئے آپ لوگ  اپنا وقار  بھی قائم نہ کر سکے ۔ خود کو جناح کی اولاد کہنے والوں کو شرم آنی چاہیئے  ۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ  جنہوں نے قائد کے شہر کو اسی کے باسیوں کے لہو میں ڈبو دیا اوروہی قاتل شہر  اپنے نام کیساتھ آج بھی قائد کا نام لگاتے ہیں ۔ آج کی تاریخ میں موصوف کی تما م  تقاریر کو اکھٹا کر کے سنا جائے تو صرف ایک ہی بات سامنے آتی ہے ایک ایسے آدمی کا چہرہ سامنے آتا ہے جو اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے نہ تو اسے اس ملک سے محبت تو کیا دوردورتک کوئی ہمدردی ہے نہ ہی  اس ملک کے لوگوں کیساتھ اسکا کوئی درد کا رشتہ ۔ اب وقت آگیا ہے کہ ایسے ادمی کا سختی سے نوٹس لیا جائے اور اس کی موشگافیوں کا بھرپور علاج کیا جائے ۔ اس سے پہلے کہ پھوڑا ناسور  ۔۔بنے اس کا فوری علاج ملک و قوم کے مفاد میں بہت ضروری ہو چکاہے  ۔ خدا کے لیئے اپنے ملک سے محبت کیجیئے ۔ یہ ملک ہی ہماری ماں ہے ۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ اپنے ملک اور اپنی ماں کا دامن جھٹکنے والے نہ تو دنیا میں کامیاب ہوئے نہ ہی انہیں آخرت میں بخشش ملی ۔ اور نہ ہی انہیں تاریخ میں کوئی باعزت مقام ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔




منگل، 7 مئی، 2013

ماؤں کا دن (ایک خاص تقریب) ممتاز ملک ۔پیرس


ماؤں کا دن (ایک خاص تقریب)
ممتاز ملک ۔پیرس





  1. پیرس میں 5 مئی 2013 کو ماؤں کے دن کے سلسلے مین ایک پروقار تقریب کا اہتمام انصاف وویمن ایسوسی ایشن کے تحت کیا گیا ۔ اس پروگرام  میں بین الاقوامی سطح کی نامور شخصیات کی شرکت نے اسے ایک یادگار تقریب بنا دیا ۔  ان کامیاب خواتین مین انگلینڈ سے نور ٹی وی کی میزبان محترمہ سمیہ ناز صاحبہ ، سپین سے  آسے سوپ کی روح رواں ڈاکٹرھما جمشید صاحبہ ، ڈنمارک سے نساء ٹی وی کی منیجنگ ڈائیریکٹر اور معروف شاعرہ محترمہ صدف مرزا صاحبہ اور اٹلی سے دی جزبہ کے چیف ایڈیٹر محترم اعجاز حسین  پیارا صاحب نے خیر سگالی کے جزبے کے تحت خصوصی  شرکت کی ۔ پروگرام کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا اسکے بعد بچوں نے ایک نعت پاک کی سعادت حاصل کی ۔ ایسوایشن کی سربراہ محترمہ شاہ بانو میر صاحبہ نے مہمانان کو خوش آمدید کہا ۔ ڈاکٹر ھما جمشید صاحبہ نے خواتین پر زور دیا کہ ایسے تمام عناصر جو اچھے  گھرون سے تعلق رکھتی ہین اور اپنی خاندانی ذمہ داریون کیساتھ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریان احسن طریقے سے انجام دی رہی ہین ان کے خلاف ایک مخصوص ٹولہ کافی عرصے سے ان کی کردار کشی کرنے مین ایکا کیئے ہوئے ہے ۔ جن کا مقصد صرف اور صرف ایسی خواتین کو اپنی فیلڈ مین کام کرنے سے روکنا ہے جو ان کی کسی بھی قسم کی ناجائز مانگون کو پورا کرنے سے انکار کرتی ہین ۔ انہون نے خواتین پر ذور دیا کہ ایک اچھی مان کے حیثیت سے وہ تب ہی اچھی تربیت کا فریضہ ادا کر سکتی ہین جب کہ وہ خود اپنے حقوق و فرائض سے آگاہ ہون اور ان کا تحفظ کرنا بھی جانتی ہون ۔ ورنہ وہ خواتین کو ان کے کردار پرکیچڑ اچھال کر یون ہی کھڈے لائن لگاتے رہین گے ۔ صدف مرزا صاحبہ نے  فرمایا  پچھلی صدی مین بھی اسی طرح بدنامیون کے بوجھ کے نیچے کئی باکردار خواتین دب کر خود کشی تک کرنے پر مجبور کر دی گئیں  ۔ کیون کہ کسی بھی خاتون اور خاص طور پر اگر وہ ایک ماں ہے تو اس کے لیئے سب ے آسان طریقہ سمجھا جاتا ہے کہ اسے ختم کرنا ہے تو اسے اس کی اولاد کی نظر مین گرا دیا جائے ۔  وہ عورت خود بخود مر جائے گی ۔ لیکن بدمعاشی کی ان مثالون کو ہم اس صدی مین مشعل راہ نہین بننے دینگے ۔ اور ایسے تمام لوگون کا ہر پلیٹ فارم پر محاسبہ کیا جائیگا جو خواتین کو اور ماؤں کو اپنے غلط مقاصد کے لیئے اپنے اشاروں پر چلانا چاہتے ہیں ۔  اس کام کے لیئے خواتین کو یہ بات جاننی ہو گی کہ جدید ٹیکنالوجی کے غلط استعمال سے کی جانی والی گھٹیا کاروائیون کی ہر سطح پر مذمت کی جائے گی ۔  سمیہ ناز صاحبہ نے ایسے لوگون کی کاروائیون کو قابل افسوس قرار دیا ۔ ممتاز ملک نے اپنی کتاب ،،مدت ہوئی عورت ہوئے سے ،،سے اپنی نظم  ،، یہ مائیں کیون مر جاتی ہین ،، پیش کر کے داد سمیٹی ۔ اور ماؤن کو سلام پیش کیا ، انہون نے کہا کہ سب کو اپنی ماں بہت اچھی لگتی ہے ۔ لیکن زندگی کے تین ادوار ہوتے ہین ایک دور جب بچہ ہر طرح  سے ماں کا محتاج ہوتا ہے تو اسکی کل کائینات اسکی ماں ہوتی ہے پھر ٹین ایج آتی ہے تو بچے کو نئی جوانی میں اپنی ماں ہی اپنی دشمن لگنے لگتی ہے  پھر جیسے ہی اس کی یہ عمر بیس بائیس کی حد پار کرتی ہے اور اپنے مان باپ بننے کا زمانہ آتا ہے تو پھر سے اولاد کو شدت سے اپنی ماں کی قربانیوں کو احساس ہونے لگتا ہے ۔ اور یہ محبت عقیدت کا روپ بھی دھار لیتی ہے ، خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ جو ماں باپ کی زندگی میں ہی یہ بات جان لیتے ہین اور ان کی خدمت کا موقع حاصل کر لیتے ہین ۔  محترم اعجاز حسین پیارا نے تمام ماؤں کو خراج عقیدت  پیش کیا ۔  اور تمام ماؤں بہنون کو اس بات کو یقین دلایا کہ ہم لوگ بھائیون کی طرح  اپنی ماؤں بہنون کی عزتون کی حفاطت کرنا جانتے ہین ۔ اور سبھی مرد ابھی اتنے بے غیرت نہین ہوۓ کہ یہ بھول جائین کہ ان کے اپنے گھرون مین بھی مائیں بہنیں بیٹھی ہین اگر آج آپ کسی خاتون کی کردار کشی کرتے ہین تو اصل مین آپ بلا واسطہ اپنے ہی گھر کی خواتیں کو ذلیل کر رہے ہوتے ہین ۔ انہون نے ایسی تمام کاروائیون کی بھر پور مذمت کی ۔ جناب اٖفضل گوندل صاحب نے بھی بہت جذباتی انداز مین ماؤں کو خراج تحسین پیش کیا ۔ اور ایسے لوگون کو شرم دلائی کہ ہر مرد صرف مرد ہی نہین ہوتا بیٹا بھی ہوتا ہے بھائی بھی ہوتا ہے ، باپ بھی ہوتا ہے ، اسے اپنے تمام رشتون کو نبھانا بھی آتا ہے اور جو شخص خواتین کا احترام نہین کرتا تو گویا وہ اپنے گھر میں بھی نہ تو اچھا بیٹا ہو گا ، نہ ہی اچھا بھائی اور نہ ہی اچھا باپ ہو گا ۔   ایک نوجوان مظہر نے  بہت  ہی خوب صورت انداز مین  ماں کی شان میں نظم پیش کی اور آنکھوں کو آبدیدہ کر دیا ۔ بہت سی خواتیں اور بچون نے اپنی ماؤن کی یاد میں خوبصورت باتون کو بانٹا ۔    پروگرام کے آخر میں ڈاکٹر ہما جمشید نے شاہ بانو میر صاحبہ کو چادر اوڑھا کر انہیں عزت دی ۔ صدف مرزا صاحبہ نے بھی دوپٹہ اوڑھا کر انہین ماؤں کی عزت کی حفاظت کے محاز پر انہین اپنے ساتھ کا یقین دلایا   ۔ اور کہا کہ یہ دوپٹہ ان کے لیئے اسلیئے بھی بہت خاص ہے کہ یہ ان کی مرحومہ والدہ کی نشانی تھی جسے وہ اس خاتون کو اس لیئے پیش کر رہی ہیں کہ وہ ان کی نظر مین ماؤں کی عزت کی علامت ہیں ۔  اور اس بات کا بھی یقین دلایا کہ مٹھی بھر بدقماش ٹولے کے ہاتھوں تحریر کے ذرائع کو یرغمال نہیں بننے دیا جائے گا ۔ یوں یہ خوبصورت شام شرپسندون کو یہ پیغام دیتے ہوئے اپنے اختتام کو پہنچی کہ جو اپنی ماں کی عزت کرتا ہے وہ کبھی کسی اور کی ماں بیٹی پر انگلی نہین اٹھا سکتا ۔ 
 ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

جمعہ، 26 اپریل، 2013

دیدوں کا پانی ۔ کالم


دیدوں کا پانی
ممتازملک۔پیرس


 ہم لوگ اس سر زمین سے تعلق رکھتے ہیں جہاں ہمیں شعور کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھتے ہی یہ بات گھول کر پلا دی جاتی ہے  کہ اس دنیا مین کسی بھی لڑکی یا لڑکے  کی ایک ہی بیوی یا ایک ہی شوہر ہوتا ہے باقی دنیا مین کہیں بھی کوئی بھی کسی بھی عمر کا شخص آپ کا باپ یا بھائی ہی ہوتا ہے اور عورت ماں یا بہن ہوتی ہے ۔ لیکن آج دنیا کو کیا ہو گیا ہے ان بیس سالوں کے اندر کیا  لوگوں کے دیدوں کا پانی ہی مر گیا ہے ۔ کہاں ہیں ہماری وہ اعلی شان روایات ۔ کہاں ہے ہمارا وہ معاشرہ کہ جس پر انگریز بھی حیران رہ جاتے تھے کہ کیا ایسا بھی دنیا میں ہو سکتا ہے ۔ کہاں ہیں ہماری وہ پاکیزہ سوچیں ۔ جو غیروں کو ہمارے گھر کا بزرگ  اور بیٹا بنا دیتی تھیں ۔ ہماری مائیں، ہماری  نانایاں، دادیاں سارے محلے کو ایک ہی رعب میں کھینچ کر رکھا کرتی تھیں جہاں کسی پڑوسن کی خالہ جی سے بھی اونچی آواز میں بات کر جاتے تو ابا کے جوتے ہماری تواضع کو کافی ہوا کرتے تھے ۔ جہاں والدین قرآن پڑھانے والی چاچی جی  یا قاری صاحب سے کہا کرتے تھے یہ اب آپ کے حوالے ہے ۔ اس کی ہڈیاں ہماری اور کھال آپ کی ہے ۔   جہان پر میاں بیوی کی شدید سے شدید لڑائی کے بیج بد لحاظ سے بدلحاظ  میان بیوی بھی محلے کے کسی بھی بھائی بہن یا بزرگ کی ایک آواز پر زبان کو دانتوں تلے دبا لیا کرتے تھے ۔   جہاں پر محلے کی ایک لڑکی کی شادی میں سارے محلے کے لڑکے سگے بھائیوں سے بھی بڑھ کر بھائی ہونے کا حق ادا کیا کرتے تھے ۔ جہان ایک کے گھر مہمان آتا تھا تو بنا مانگے، بنا کسے خونی رشتے کے دوسرے پڑوسی کے گھر سے بستر آجایا کرتے تھے ۔ جہاں گھر چھوٹا ہوتا تو ہمسائیوں کی بیٹھکوں کے در اس مہمان کے لیئے کھول دیئے جاتے تھے ۔ جہان پر کوئی پڑوسی کسی پڑوسی کو چاہے چھوٹی سی قولی میں ہی سہی، کچھ بھیجے بغیر کبھی گھر والوں کے لیئے کھانا نہیں نکالتا تھا ۔ جہاں گلی میں مسجد  کے وظیفہ لینے والے کے لیئے سب سے پہلے تازہ روٹی اور سالن، جو بھی بنا ہوتا، نکال کر رکھا جاتا تھا ۔  جہاں پر گھر میں ایک ہی بزرگ جو چیز اپنی بیٹی کے لیئے پسند کرتا تھا تو وہی اپنی بہو کے لیئے بھی لانا اپنا فرض سمجھتا تھا اسی لیئے تو وہ صرف بیٹی کے ہی نہیبں خود بخود اس بہو کے بھی ابا جی بن جایا کرتے تھے ۔ جہاں کنواری بیٹی کو کنواری بیٹی کے آداب سکھایا کرتے تھے تو بیاہی بہو کو بیاہتا فرائض اور حقوق بن مانگے دئے جاتے تھے ۔ جہاں بہنیں بھائیوں کا مان بڑھاتی تھیں، تو بھائی بہنوں کی آبرو بڑھایا کرتے تھے ۔ جہاں کوئی کسی سے اسکی محبت اور خدمت کسی صلے کی تمنا میں نہیں کرتا تھا ۔ محبت تھی بس کیئے جاتا تھا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 کہنے کوتواس وقت ہم لوگ اتنے مالدار نہیں ہواکرتے تھے ۔ لیکن سکون سے سوتے تھے ۔ کہنے کو اسوقت ہم بہت پڑھے لکھے نہیں ہوا کرتے تھے ۔ لیکن آج سے کہیں زیادہ شائستگی رکھتے تھے ۔  کہنے کو اسوقت ہم بہت سمجھ دار نہین تھے لیکن آج سے زیادہ عزت دار تھے ۔ کیون کہ ہماری زندگی  کی ابتداء اور انتہاء بس ایک ہی بات تھی کہ
           ،، ایک کی بیٹی سب کی بیٹی ،اور ایک کی ماں سب کی ماں ،، 
 مجال ہے کہ کوئی اپنے علاقے کی کسی بھی عورت کی طرف نظر اٹھا کر دیکھ لے ۔ حالانکہ اسوقت شاید انہوں نے ساری زندگی مین غور سے اس خاتون کی صورت بھی کبھی نہیں دیکھی ہو گی لیکن بس یہ پتہ ہے کہ یہ خاتون فلاں کے گھر سے آتی جاتی ہیں  اور یہ گھر ہمارے علاقے اور محلے کا حصہ ہے لہذا،، میں خود ساختہ طور پر اب اس بات کا ذمہ دار ہوں کہ اس خاتون کی عزت پر کوئی حرف نہ آئے ورنہ لوگ کیا کہیں گے کہ یہ تو اپنے علاقے کی ماں بیٹی کی عزت کی حفاظت نہ کر سکا یہ کیا اپنے گھر کا مرد  ہوا۔ یہ کیسے ہمارہی بیٹی بیاہ کر لے گیا  تو اس کی حفاظت کرے گا ،،۔ یعنی کسی اور خاتون کی حفاظت کرنا بھی اس کی مردانگی کے لیئے ایک پُرغرور اور فخریہ امتحان ہوا کرتا تھا ۔ جسے اس وقت کا ہر جوان خوشی خوشی دینے کو تیار رہتا تھا ۔ 
لیکن آج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج کیا ہوا آج تو سنا ہے ہم نے بہت مال کما لیا ہے ۔ لیکن ہمین نیند کیوں  نہیں آتی ڈھنگ سے  ۔ آج ہم سائیکل کی جگہ لیٹسٹس ماڈل کی گاڑی میں گھومتے ہیں لیکن ہر وقت کوئی نہ کوئی گلہ کرتے رہتے ہیں ۔ آج ہم پہلے  سے زیادہ پڑھ لکھ گئے ہیں لیکن ایک دوسرے سے بات کرنے کی تمیز ہی بھول گئے ہیں ۔ پہلے ہم بیٹیوں کو کسی بھی محلے دار کے وعدے پر بھیج کر پرسکون ہوتے تھے کہ وہ محفوظ ہوں گی ۔ لیکن آج ہم اپنی بہنوں بیٹیون کو لاکھ حفاظتی حصاروں میں بھی بھیجتے ہین تو تب بھی دل کہیں اٹکا رہتا ہے ۔ کیوں ؟؟؟
 یہ کیا بےکلی ہے ۔ کل کچھ بھی نہیں تھا اور ہم اپنے مان باپ کا دم بھرتے تھے ان کے فرماں بردار تھے  حالانکہ وہ زرا زرا سی بات پر ہماری کھال ادھیڑ دیا کرتے تھے ۔ لیکن پھر بھی ہم ان کے ایک اشارے پر سب کچھ نچھاور کرنے کو تیار رہا کرتے تھے ۔ لیکن  آج
 کیا بات ہے  کہ  ہمارے بیٹیاں بیٹےلاکھ سمجھانے اور سب کچھ منہ سے مانگنے سے پہلے ہی جھولی میں ڈالنے کے باوجود آج ہم لوگوں کے نہ تو تابعدار ہیں نہ ہی وفادار ۔  نہ ہی ہمارے دکھ درد سے خبردار ۔ آپ کیا سمجھتے ہین یہ سب کچھ یونہی بے سبب ہو رہا ہے ۔ نہیں ۔ خدا کی بنائی ہوئی کائنات میں کچھ بھی کبھی بے سبب نہین ہوتا ۔ ہر بات کے پیچھے کوئی ٹھوس لوجک ہوتی ہے ۔ جب تک ہم دوسروں کی بھوک کا خیال کیا کرتے تھے خود ہم بھی کبھی مالی پریشانیوں کا شکار نہیں ہوئے تھے۔ ہمیں بھی کبھی یہ نت نئے عارضے لاحق نہیں ہوئے تھے ۔ جب تک ہم دوسرے کے مہمان کو بھی اپنا ہی مہمان سمجھتے تھے ۔ ان کی رحمتوں سے ہم بھی فیضیاب ہوا کرتے تھے۔ کوئی بنا کسی رشتے کے بھی  اکیلاکبھی  نہیں ہوا تھا  ۔ جبکہ آج ہم نے اپنے ہی بہن بھائیوں تک کو بوجھ سمجھ کر ان سے میٹھی سچی بات کرنا چھوڑدی ہے، تو کیا ہوا بھرے مجمع میں خدا نے ہمیں اکیلا کر دیا ۔اتنے سارے نام نہاد دوستانوں میں بھی ہم کسی کو اپنے دل کا حال سنانے کے لیئے اعتبار نہیں کرپاتے ۔اپنے دکھ کو  کسی کندھے پر بے دھڑک سر رکھ کر آنسوؤں میں بہا نہیں سکتے ۔ جانے کون، کب ،کہاں ، ہماری کسی بھی دکھتی رگ کو اپنا تفریح طبع بنا لے ۔ کیوں کہ ہم نے لوگوں پر بہتان تراشیوں کو اپنا شیوہ جو بنا لیا ۔ ہم نے تہمتوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا  بنا کر اسے اپنے لیئے ایک کے بعد ایک کو گرا کر خود کو خود سے ہی بادشاہ اور بادشاہ گر سمجھ لیا ۔ تو سب سے بڑے بادشاہ نے ہمیں زلتوں کے گڑھے میں دھکیل دیا ۔ ہمارا سکون غارت کر دیا ۔ جب تک ہم دوسرون کی عزتوں کی حفاظت کرتے رہے خدا نے اپنے کرم سے ہماری عزتوں کو بھی اپنی حفاظت  مہیا کی ۔ اور ہمارے دلوں کو ان کی حفاظت کی فکر سے آذاد کر دیا  ۔آج ہم نے دوسروں کی بیٹیوں پر گندی نظریں ڈالنا ۔ اور ٹھرک جھاڑنا  اپنا مشغلہ بنا لیا تو ہماری بیٹیوں کو دوسرے لوگوں کے لیئے خدا نے اسی کام کا بہانہ بنا دیا ۔ یہ ہی تو ہے خدا کا انصاف ۔ خدا پر کسی ایک فرد کی اجارہ داری تو نہیں ہے، جو وہ ایک کی سنے گا تو دوسرے کی ان سنی کر دیگا ۔ وہ سب کا ہے، سب کے دل مین رہتا ہے، سب کی نیتوں کو جانتا ہے ۔ تو جو کچھ آپ کسی کے لیئے پلان کر رہے ہوتے ہیں وہی پلاننگ کہیں کسی اور مقام پر کسی اور کے زہن میں اللہ پاک آپ کے لیئے بھی ترتیب دلوا رہا ہوتا ہے ۔ جلد یا بدیر اسے آپ کے سامنے لاکر آپ کو آپ کے ہی جیسے کسی اور کردار کے ہاتھوں آپ کے انجام تک پہنچانے کیلیئے ۔ کیوں  کہ
،،  آدمی جو دیتا ہے آدمی جو لیتا ہے
 زندگی بھر وہ دعائیں پیچھا کرتی ہیں ،،  
 لہذا یقین مانیں اگر صرف ایک ہی چیز کی ہم نے نے حفاظت کر لی تو ہم لوگوں نے حفاظت کر لی تو اس نام نہاد ترقی یافتہ اور زہنی طور پر اخلاق باختہ بلکہ اخلاقی دیوالیہ دور میں بھی ہم بیفکر ہوکر میٹھی نیند سو سکتے ہیں ۔ بے دھڑک اپنی بہنوں بیٹیوں کو گھروں سے باہر بھیج کر ان کے عزتوں کی حفاظت سے بیفکر بھی ہو سکتے ہیں ۔ بہت ہی آسان بات ہے کہ ہم اپنے دیدوں کے پانی کی حفاظت کرنا پھر سے شروع کر دیں ۔  ہم اپنی نگاہوں اور اپنی زبانوں کو زمانے کی غلاظتوں میں لتھیڑنے سے پرہیز شروع کر دیں ۔ تو دیکھ لیجیئے گا کہ خدا آج بھی وہی ہے جو صدیوں پہلے تھا ۔ خدا کے اس کائینات کو چلانے کے اصول آج بھی وہی ہیں جو لاکھوں سال پہلے تھے ۔ خدا کا کرم اس کی عنایت آج بھی وہی ہے جو کروڑوں سال پہلے تھی ۔ اور ہاں خدا کا غضب بھی آج بھی وہی ہے جو زمانوں پہلے تھا ۔ کیوں کہ یہ اسی کا حکم ہے کہ جو اپنے دو جبڑوں کے بیچ اور اپنی دو ٹانگوں کے بیچ کی حفاظت کر گیا تو گویا خدا اسکا اور وہ خدا کو ہو گیا ۔   
تو کیا خیال ہے آج سے ہی اس کی پریکٹس شروع کر دی جائے ۔ اب یہ فیصلہ آ پکا ہے اس زمانے کی نام نہاد تھڑک بازی کا حصہ بن کر بے سکونی چاہیئے یا ان دو چیزون کی حفاظت کر کے  جہاں بھر کے فکروں سے آزادی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

● ایک تھی عورت / کالم


      

 ایک تھی عورت
ممتازملک۔ پیرس

۔ اپنے ملک میں جس کام کے لیۓ لوگ بھاری بھاری تنخواہوں پر بھی میسر نہیں ہوتے یہا ں فرانس میں اور بھی بہت سے ممالک میں بسنے والے بہت سے بہن بھائ صرف اور صرف پاکستان کی یاد میں اسکی کامیابی کی خواہش میں اپنا تن من دھن لیکر اس کے نام کی سربلندی اور اسکی شہرت کی خرابی کو دور کر کے اس کا نام اجالنے میں مصروف ہیں ۔ بنا کسی صلے اور بنا کسی قیمت کے ۔ لیکن وہیں پر کچھ ایسے شرپسند عناصر بھی ہمیشہ ہی سرگرم عمل رہے ہیں جن کے پاس نہ تو کبھی کوئ لکھنے لکھانے کے حوالے سے کوئ شوق تھا ۔ نہ ہی انہیں لفظوں کے حرمت سے کوئ واسطہ ہے۔  ان کے لیۓ لکھنے لکھانے سے وابسطہ ہر میدان راتوں رات شہرت حاصل کرنے کا ایک آسا ن زریعہ تھا ۔ صحافت کے نام پر اپنے تعلقات سے ایک بیج اور کیمرہ اپنے گلے میں لٹکا کر انہوں نےاسے اہم مقامات اور خاص لوگوں تک پہنچنے کا ایک زریعہ بنا لیا ۔ فرانس میں ایسے لوگوں کی کوئ کمی نہیں ہے جن کا تعلق بہت غریب بلکہ غربت کی سطح سے بھی نیچے کے گھروں سے  رہا ہے ۔ غربت کوئ جرم نہیں ۔ ان لوگوں نے اپنی محنت سے اپنا اور اپنے خاندانوں کا مقدر سنوارہ ہے ۔ جس کے لیۓ وہ مبارکباد کے مستحق ہیں ۔ لیکن وہیں یہاں ایسے چھچھوروں کی بھی کمی نہیں ہے ۔ جنہوں نے اپنے جوانی کی شہرت کے شوق کو پورا کرنے کے لیۓ اب بڑھاپے اور ادھیڑ عمری میں   ایسی گندی مچھلیوں سے روابط بناۓ جو نہ تو اپنے کردار میں پاکیزگی رکھتے تھے نہ ہی ان کی آنکھوں میں  حیا کا کوئ گزر ۔ یہ ہی وہ لوگ ہیں جو دوسروں پر گندگی اچھالنے ، ان کی کردار کشی کرنے اور ایسے تمام شرفاء کا ناطقہ بند رکھنا چاہتے ہیں جو خاموشی سے سر   .جھکاۓ اپنے بامقصد کاموں میں مصروف ہیں  ان لوگون کو بطور خاص اگر وہ ایک خاتون ہین تو نہ صرف انہیں زبانی  تھریڈ کیا جاتا ہے   ۔ بلکہ ان پر  ان کے کردار پر بھی کیچڑ اچھالنے کا کوٰئی موقع ہاتھ سے نہین جانے دیا جاتا ۔ یہ سب کرتے بھی ایسے خواتین اور حضرات  جن کے اپنے کردار نہ صرف مشکوک ہوتے ہین بلکہ وہ انتہاٰئی گھناؤنے کردار کے بھی مالک ہیں ۔ ان لوگوں کے اپنے گھروں مین شاید عورت ایک ہی کام کرتی ہے اسی لیئے جب بھی کسی خاتون کو کسی بھی میدان میں سرگرم عمل دیکھتے ہین انہین بھی اپنے ہاں کی خواتین جیسا سمجھ لیتے ہین ۔ ۔ آج مہینہ بھر سے ان لوگوں نے اخلاق اور تہذیب کی ہر حد ہی پھلانگ لی ہے ۔    ان معزز خواتین کو نہ صرف  کام کی جگہون پر ہیراسمنٹ کا سامنا ہے بلکہ انہیں کھلے لفظوں مین دھمکایا جاتا ہے کہ  ۔یا تو ان کے ساتھ مل کر انہیں جیسے گندے ہو جاؤ یا پھر لکھنے کے میدان کو۔خیرباد کہہ دو  ۔ 
یہ کہانی ہے ایک ایسی عورت کی کہ جسکا جنون ہمیشہ سے پاکستان رہا ہے ۔ پاکستان سے دیادر غیر میں قدم رکھنے سے لیکر اپنے نواسے کو گود میں اٹھانے تک اس نے اپنے الفاظ کو کبھی بھی پاکستان کے پیراۓ سے باہر نہ نکلنے دیا  ۔لیکن  اب تو معاملہ یہان تک پہنچ گیا ہے کہ
 بیس سال سے فیلڈ میں کام کرنے والی اس خاتون کی آواز کے ٹیپ کیئے ہوئے  ٹکڑے  لیکر انہین مکسنگ کے زریعے  ایک انتہاٰئی گھٹیا سٹینڈرڈ  کا سیکس سکینڈل  بنا کر اسے سوغات کی طرح  لوگوں کو پہنچایا جا رہا ہے ۔   جگہ جگہ اسے بدنام کرنے اور اس کے زہناور قابلیتوں کے   توازن اور طاقت کو توڑنے کی انتہائی مذموم اور شرمناک حرکت کی گئی ہے ۔
 ہماری یہ بدنصیبی پہلے  ہی کیا کم ہے کہ ہماری آدھی آبادی کو تعلیم کے اس حق سے ہی محروم رکھا جاتا ہے ۔ جسے حاصل کرنے کا حکم  ہمیں ہمارا مزہب بھی دیتا ہے  ۔اور جو خواتین شومئی قسمت کہ تعلیم حاصل کر بھی لیتی ہیں تو انہین اپنی کسی بھی قابلیت کو اپنی کمیونٹی  کی فلاح کے لیئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوتی ۔جہاں اتنی بڑی آبادی پہلے ہی گھرون میں بیٹھی اپنی ڈگریوں کا اچار ڈال رہی ہے  وہاں  کون نہیں جانتا کہ ہمارے ہاں کسی خاتون کا نام مذاق میں  بھی کسی غیر مرد کیساتھ جوڑ دیا جاۓ  تو اسکے کتنے بھیانک نتائج نکل سکتے ہین طلاق ہو جانا تو معمولی بات ان کی بچوں  کے رشتے داؤ پر لگ جاتے ہیں ۔ ان کی  زندگی دوزخ بنا دی جاتی ہے اور تو اور غیرت میں آ کر انہین قتل بھی کر دیا جاتا ۔ ہے ۔ قارئین آپ ہی بتایۓ ایسے ماحول مین ہماری آدھی سے زیادہ آبادی اپنی تعلیم اور خدادا صلاحیتوں کو  زنگ لگا رہی ہے ۔    وہاں جو چند ذہن اپنی کمیونٹی کی سوچوں کو روشنی  دکھا رہے ہیں انہین بھی نیست و نابود کرنے کا آغاز ہو  چکا ہے ۔  یہ گندی مچھلیاں اور مگر مچھ آخر کب تک  عزت داروں کی پگڑیاں اچھالتے رہیں گے ۔  آج ایک عورت ان کے نشانے پر ہے ، کل کو میری باری ہو گی ، پرسوں آپ کا نمبر ہو گا ۔ یہ سلسلہ چل نکلا تو یاد رکھیئے اس کے نتائج انتہائی خوفناک ہون گے ۔ کل کو غیرت کے نام پر یہان عورتیں اور مرد قتل ہونا بھی شروع ہو جائیں گے ۔ پہلے ہی پاکستانی کیا کم بدنام ہین دنیا میں ، کہ اب ایک نیا طوق اس کے گلے مین ڈالنے کی  منصوبہ بندی شروع کر دی گئی ہے ۔ اس سلسلے کو ابھی قانونی اور اخلاقی طریقے سے نہ روکا گیا تو مرد بھی جان لیں کہ کوئی بھی گندی مچھلی انہین بھی اپنے اشارے پر گندہ کرنے کے لیۓ کسی بھی خاتون کی آوازوں اور تصویروں کیساتھ جوڑ کر اسکے بیوی بچوں کے ساتھ  رشتوں میں دراڑ ڈال سکتی ہے ۔۔ آج میں اسے اپنے حقیقی صحافی برادری کیساتھ مل کر نہ صرف ایسا کرنے اور کروانے والے اور والیوں پر لعنت بھیجتی ہون بلکہ انہین چیلنج کرتی ہون کہ اگر دم ہے اور رتی بھر بھی شرم باقی ہے تو آئیں اور لکھنے اور پڑھنے کے میدان میں ہم سے مقابلہ کریں ۔ اور اپنے آپ کو ہم سے بہت آگے لیجائیں ، بصورت دیگر اپنے آپ کو اپنی حدود کے اندر رکھنے کا اہتمام کریں ۔  اور یاد رکھیں چاند پر تھوکا ہمہشہ تھوکنے والے کے ہی منہ پر آ کر گرتا ہے ۔ ۔ خدا کی لاٹھی  بے آواز ہوتی ہے اور فرانس کی پولیس کی کاروائی کو بھی غلطی سے  بھی پاکستانی پولیس کا معاملہ نہ سمجھنا ۔ کیوں کہ یہ معاملہ اگر پولیس مین چلا گیا تو سارے گندے اور گندیاں بے نقاب ہو جائیں گے ۔  اور معاملہ سائیبر کرائم تک چلا گیا تو پھر کسی کے بھی بس کا نہین رہے گا اور اس تمام کروائی کے ذمہ دار وہ بدبخت لوگ ہوں گے جو جیب سے پیسے لگا کر دوسروں کی عزتیں اچھالنا پسند کرتے ہین ۔ یہ ہی پیسہ خدا کے نام پر کسی اچھے کام میں کسی مسجد میں ، کسی یتیم کی شادی میں لگایا ہوتا تو مرنے کے بعد بھی اپنے لیئے صدقئہ جاریہ کا بہانہ بنا لیتے ۔ لیکن شاید سچ ہی کہتے ہین حرام کا مال حرام کی طرف ہی جاتا ہے ، اور مان باپ کے بے ادب لوگ دنیا مین بھی ذلیل ہوتے ہیں اور آخرت میں بھی برباد۔ یہ سوال کسی ایک عورت کی عزت کا نہیں ہے بلکہ ہمارے مجموعی ملکی اور  اور مذہبی وقار کا بھی ہے ۔ عورت ہو یا مرد اگر وہ حلالی ہے تو اسکی عزت ایک جیسی ہی اہمیت رکھتی ہے ۔ ورنہ کسی بے غیرت کے لیۓ عورت کیا اور مرد کیا ۔اسے کسی بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔  آپ نے جنگلی گلاب تو دیکھے ہوں گے جو ایک ایک شاخ پر گچھے کے گچھے لگے ہوتے ہیں دور سے دیکھنے میں بہت خوبصورت بھی لگتے ہین لیکن ایک تو انکی عمر کم ہوتی ہے دوسرا وہ خوشبو سے بھی خالی ہوتے ہیں جبکہ اصلی گلاب بھی آپ نے ضرور دیکھے ہوں گےجو پورے پورے کاتٹون سے بھرے  پودے پر ایک ایک کر کے ہی کھلتے ہین لیکن ان کی خوشبو کو کوسوں دور سے بھی محسوس کیا جا سکتا ہے ۔ اور یہ خوشبو  انکے شاخ سے ٹوڑنے کے بعد بھی کافی عرصے تک سب کو مہکاتی ہے ۔ اس کی عمر بھی ایک رات کی نہیں ہوتی ۔ بلکہ کئی دن تک ہوتی ہے ۔ جسے توڑ کر جہاں رکھیں گے وہ جگہ بھی ہمیشہ مہکتی رہے گی ۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

اتوار، 7 اپریل، 2013

● (10) سچائی/ شاعری ۔میرے دل کا قلندر بولے


(10) سچائی




 لہجوں کے بدلنے میں بھلا دیر کیا لگتی
ہم نے تو نظارے بھی بدلتے ہوئے دیکھے

تُو آگ کی فطرت سے شکایت نہ کیا کر
پانی میں بھی پتھر ہیں پگھلتے ہوئے دیکھے

اجناس کی صورت ہمیں بکتے وہ دکھے ہیں
پھولوں کے بچھونوں پہ جو پلتے ہوئے دیکھے

عُشاق کو رستے کی مشقت سے بھلا کیا
بے فکر وہ انگاروں پہ چلتے ہوئے دیکھے

کچھ راز ہیں قدرت کی ہی اسرار پسندی
صحرا میں بھی چشمے ہیں ابلتے ہوئے دیکھے

ممتاز جنہیں زعم تھا خوش بختی پہ اپنی
ہاتھ ایسے سر راہ ہیں ملتے ہوئے دیکھے
                      ●●●
کلام:مُمتاز ملک
مجموعہ کلام:
 میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت:2014ء
●●●

بدھ، 3 اپریل، 2013

کھاۓ لاہور اور روۓ پنجاب / ممتازملک ۔ پیرس



کھاۓ لاہور اور روۓ پنجاب
ممتازملک ۔ پیرس


پاکستان کا ایک بازو جن حرکتوں کی وجہ سےٹوٹا آج پھر ہم اپنے ملک کو اسی دوراہے پر لا کر کھڑا کر چکے ہیں ۔ اسوقت بھی الزام تھا کہ ملک کا ایک حصہ دوسرے حصے کے وسائل کو کھا رھا ہے ۔ افسوس آج بھی ملک کا ایک حصہ اپنے پورے صوبے کے وسائل کو ہڑپ کر کے اسے سارے ملک کے سامنے مجرم بنا کر کھڑا ہونے پر مجبور کر رھا ہے لیکن مجال ہے کہ کاغذی شیروں کے کانوں تک جہاں پناہ کے آگے کی کوئ صدا پہنچ رہی ہو ۔ حالانکہ وقت نے ان شہنشاہی پسند بھائیوں کو ایک سنہری موقع عنایت کیا کہ وہ ایک ہی صوے میں سہی مگر اتنا اچھا ترقیاتی کام کر کے دکھاتے کہ باقی تمام ملک اس بات کی خواہش کرتا کہ کاش یہ ہی پارٹی ان کے پورے ملک کا نظام بھی چلاتی ۔ اور حکومت میں آکر اس ملک کو کامیابی کی منزلوں تک لیجاۓ ۔ مگر نہیں یہاں تو معاملہ ہی الٹ گیا ہے ۫ضیاء الحق کی ڈکٹیٹر شپ میں پروان چڑھنے والا یہ پودا نہ تو دو دو بار حکومت میں آنے کے باوجود ملکی سطح پر عوام کے آگے اپنا کوئ قد کاٹھ بڑھا سکا نہ ہی اپنے دماغ کو لاہور سے آگے لیجا سکا ۔ پاکستان کی بڑی بدنصیبی یہ ہی ہے کہ ایک پارٹی لاڑکانہ کے نام پر سندھ کارڈ کی بدمعاشی کرتے نہیں تھکتی تو دوسری تخت لاہور کے شاہی محلوں سے آگے سوچنے کے قابل 30 سال بعد بھی نہ ہو سکی ۔اندھوں میں کانا راجہ کے مصداق بنے دو گروپس 40 سال سےعوام کا خون چوسنے میں مصروف ہیں ۔ ایک نوجوان نے جب ہم سےیہ سوال کیا کہ کسی صوبے کو سب سے ذمہ دار عہدہ کون سا ہے تو ہم نے جواب دیا کہ وزیر اعلی ، اس پر اس نوجوان نے جواب دیا کہ نہیں نہیں بھئ وزیر اعلی تو پرانے کونسلر کی نئ تشریح ہے پنجاب کا تو 30 سال سے کوئ وزیر اعلی ہی نہیں ہے ایک شہر لاہور ہےجہاں وزیر اعلی ٹائپ کا کوئ کونسلر ہے جو کبھی کبھار نالیاں سڑکیں وغیرہ بنواتا ادھڑواتا رہتا ہے ۔ لیکن ہم بھی پنجاب میں رہتے ہیں ہمارا بھی کوئ ایسا ہی وزیر اعلی ہونا چاہیۓ ، ایک لمحے کو یہ بات شاید آپ کو مذاق لگے لیکن غور کریں تو یہ ہی بات کسی آنے والے خطرے کی گھنٹی بھی ہے جہاں لاہوری راج نے شدت سے اپنے ہی صوبے میں احساس محرومی پیدا کر دیا ہے ۔ پورے صوبے کے وسا ئل کوایک ہی شہر پر کسی نہ کسی بہانے خرچ کیا جا رہا ہے ۔ صوبہ بہاولپور پر اعتراض کرنے والے ڈریں اسوقت سے جب پنجاب کا ہر شہر اپنی بقا ء کے لیۓ خود کو صوبہ بنانےکی کوئ تحریک شروع کر دے لہذا ہر صوبے کی حکومت کسی بھی ایک شہر پر توجہ دینے کی بجاۓ ہر شہر اور گاؤں کی ترقی کے لیۓ تمام تر وساائل بروۓ کار لاۓ ۔اور اس احساس محرومی کا ازالہ کرے تاکہ عوام کو آۓ روز احتجاج کرنے کی ضرورت ہی نہ محسوس ہو ۔ جان مال اور عزت کا تحفظ کسی بھی ملک میں اس کی حکومت کی ذمہ داری ہوتا ہے کوئ احسان نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

بدھ، 27 مارچ، 2013

سفیر پاکستان / کالم


سفیر پاکستان
جناب غالب اقبال صاحب
خوش آمدید
(تحریر/ممتاز ملک ۔ پیرس)

             غالب اقبال صاحب 
     
23 مارچ 2013 کے موقعے پر تقاریب کا سلسلہ تمام ممالک میں جاری ہے دو بہت ہی خاص تقاریب میں جن میں ایک منعقد ہوئ ادارہ منہاج القران جبکہ دوسری تقریب کا انعقاد صبرینہ ہال میں ہال کے مالک جانے پہچانے راجہ اظہر صاحب نے کیا ۔ان تقریبات میں ہمیں بھی
چند ماہ قبل فرانس میں تعینات کیۓ گۓ سفیر محترم جناب غالب کمال صاحب کو دیکھنے سننے کا موقع ملا ۔ ویسے تو کسی سفیر کی تعیناتی ہم تارکین وطن کے لیۓ نہ تو کوئ نئ بات ہے نہ ہی انوکھی ۔ لیکن اس بار شاید کوئ خاص بات ہے ۔ جس نے سب کو اپنی جانب متوجہ کیا ، وہ یہ کہ آپ یہاں پہلے سفیر ہیں جو اتنی آسانی سے یہاں پاکستانیوں کو دستیاب ہو رہے ہیں ورنہ تو پاکستانی سفیروں کی شہرت بھی ہمارے سیاستدانوں سے کوئ زیادہ مختلف نہیں رہی ہے ۔ جو پاکستان میں حد درجہ بدنام ہو جاۓ یا پھر متنازعہ یا پھر سیاسی تحفہ دیناہو یا پردہ پوشی کی ضرورت ہو تو اسے سفیر بنا کر بھیج دیا جاتا ہے کہ جاؤ اور اب باہر جا کر اپنے ملک کی مٹی پلید کرو ۔ پھر یہاں سواۓ موج مستی یا پاکستان کا پیسہ برباد کرنے کے سوا ہم نے اکثر سفیروں کو کچھ کرتے دیکھا بھی نہیں ہے ،اس لیۓ آپ کی تعیناتی اور خوش اخلاقی ہمارے لیۓ ایک خوش گوار حیرت کا باعث بنی ہے ۔ آپ نے اپنی مختصر اور جامع تقاریر میں جو جو اعلانات کیۓ وہ سب ہمارے ہی پرانے مطالبات رہے ہیں ، ہمیں خوشی ہے کہ آپ نے ان آسانیوں کو فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے جن میں خاص یہ ہیں ،
ایمبیسی سے گھر تک کوریئر سروس کے زریعے ڈاکومنٹس       کا پہنچانا ،                                                               
ایمبیسی کے عملے کی بدتمیزیوں کو قابو کرنے کے لیۓ     شکایت بکس کی تنصیب ،                                         
 24 گھنٹے کے اندر شکایت پر ایکشن لینا ،                       
ایک ہی مقام پر تمام پاکستانیوں کے لۓ قومی پروگرامز کا اہتمام ،                                                                  
          ،پاکستانیوں کے نام نمبرز اور پتوں کا باقاعدہ اندراج 
پاکستان کے بارے میں مضمون نویسی کا مقابلہ ،             
یہ تمام باتیں اور نہایت مختصر نوٹس پر آپ کا کمیونٹی تقاریب میں شامل ہونا آپ کو ایک دم سے پاکستانیوں کے نزدیک لے آیا ہے ۔ امید کرتے ہیں کہ یہ سب باتیں زبانی جمع خرچ ہی نہیں رہیں گی بلکہ آپ کے ہاتھوں عملی صورت میں جلد ہی ہم سب کے سامنے آئیں گی ۔ ان پروگرامز میں خواتین کے بیٹھنے کے لیے زیادہ بہتر انتطامات کی بھی امید کرتے ہیں، اور کمیونٹی کے مردوں کو پابند کیا جاۓ کہ وہ کسی بھی ایسی تقریب کو صرف مردوں تک محدود رکھنے کی بجاۓ اسے اپنی فیمیلیز کے ساتھ تشریف لا کر ایک مکمل پروگرام بنانے میں اپنا کردار ادا کریں کیوں کہ پھر یہ ہی لوگ روتے ہوۓ نظر آتے ہیں کہ ہمارے بچے پاکستاں سے کوئ دلچسپی نہیں رکھتے ۔ جب تک ان مردوں کو یہ احساس نہیں دلایا جاۓ گا کہ ملکی اور دینی دونوں ہی پروگرامز میں خواتین اور بچوں کی شرکت خود آپ کی شرکت سے بھی زیادہ ضروری ہے تب تک یہ پروگرامز اپنے مقاصد حاصل ہی نہیں کر سکتے ۔ اور ہم آپ سے اُمید رکھتے ہیں کہ ایسا کر کے آپ ایک صحت مند اور خوبصورت روایت کی بنیاد رکھیں گے ۔ او رہم آپ کو اسم با مُسمی سفیر کے طور پر بھی ہمیشہ یاد رکھیں گے انشاء اللہ ۔ ہماری دعائیں بھی آپ کے ساتھ ہیں اور تعاون بھی ۔ آپ کی ایک بات جو ہم سب کو بہت اچھی لگی اور ہم بھی اپنے پاکستانی بہن بھایئوں سے یہ ہی درخواست کرینگے کہ وہ عام طور پر بھی اور خاص طور پر جب بھی کسی دفتری کام کے لیۓ رابطہ کریں تو براۓ مہربانی جھوٹ مت بولیں ، کیوں کہ کئ بنتے بنتے کام ہم نے صرف جھوٹ کی وجہ سے ایسے بگڑے دیکھے ہیں کہ کئ سچ مل کر بھی پھر اس جھوٹ کی تلافی نہیں کر پاتے ہیں ۔ ہم سب امید کرتے ہیں کہ آپ اسی محبت اور خلوص کے ساتھ ہم لوگوں کے ساتھ کسی بھی مشکل میں کھڑے ہوں گے او ر ہمیں فرانس میں پاکستان یا پاکستانیوں سے متعلق درپیش مسائل کو حل کرنے میں رہنمائ فراہم کرتے رہیں گے ۔ اور قائد اعظم کا یہ فرمان بھی ہمیشہ یاد رکھیں گے کہ،، سیاستدان تو آج ہیں کل نہیں ہیں لیکن بیورو کریٹس اور افسران یاد رکھیں کہ انہوں نے اس ملک کی خدمت بیس ، پچیس سال تک کرنی ہے ۔ اس لیۓ آپ کو ایمان دار رہنا ہے ۔ اس لیۓ اب پاکستان کی عزت آپ کے ہاتھ میں ہے اور ہمارا دل یہ سمجھنا چاہتا ہے کہ یہ محفوظ ہاتھوں میں ہے ۔ آپ کے تمام اچھے ارادوں میں خدا آپ کو کامیاب کرے ۔ آمین                                              ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ہفتہ، 16 مارچ، 2013

ونڈر لینڈ کی سیر


ونڈر لینڈ کی سیر
ممتاز ملک ۔ پیرس

کون کہتا ہے کہ ہم اس دنیا میں اپنی مرضی سے کچھ نہیں کر سکتے ۔ آیۓ ہم آپ کو متعارف کرواتے ہیں ایک ایسی جگہ سے جہاں آپ جب چاہیں دن کو رات اور رات کو دن بنا سکتے ہیں ۔ جہاں چوروں کو شاہ بنانے کا ہر ہنر آپ کو سکھایا جاۓ گا ۔ بم بنانے سے لیکر بم چبانے تک کے تمام راز بتاۓ جائیں گے ۔ راتوں رات بڑے سے بڑے قاتل کو کسی بھی حکومت میں کیا ایوان صدر تک میں پہنچانے کی مکمل معلومات بہم پہنچائ جائیں گی ۔ جن عورتوں کو آپ نے اختیارات دیۓ ہوۓ ہیں ان پر اپنا سارا غیض وغضب نکا لنے کے لیۓ اس سر زمین کا دورہ کیجیۓ اور جہاں جب جس عورت کو چاہے وہ کسی بھی رشتے میں ہو گھما گھما کر لگانے کے سارے گر آزمائیں ۔ کسی کی مجال ہے جو آپ پر آنکھ بھی اٹھا لے ۔ بچوں کو جہاں چاہیں جس طرح چاہیں اپنے مصرف میں لائیں چاہیں تو استاد کا لبادہ اوڑہ کر چاہیں تو مولوی صاحب بن کر ۔
ارے یہ ہی کیا آپ جب چاہیں 50 ، 50 کروڑ روپیہ تو مذاق ہی مذاق میں معاف کروا سکتے ہیں ۔ فیکٹریوں اور کارخانوں کواتنی جلدی بنائیں اور ملکیت میں لیں کہ اتنی دیر میں بانس بھی نہین بڑھتا ہو گا جتنی جلدی آپ کے کارخانوں کی تعداد بڑھے گی ۔ ہے کوئ ا یسا ملک اس جہاں میں کہ جہاں پیدا ہوتے ہی بچہ اپنے باپ سے بھی زیادہ مالدار ہو ؟ نیہیننننننننننننننننن نہیں نا لیکن ہم آپ کو بتاتے ہین ایسے ہی ملک کا پتہ ۔ جہان آپ کا بچہ پیدا ہونے سے پہلے ہی کسی بھی شہر کا کنفرم گورنر ہو سکتا ہے ، وزیر اعلی ہو سکتا ہے جناب پراٰئم منسٹر ہو سکتا ہے ، صدر تک ہو سکتا ہے ۔ آُپ کا کچھ بھی بننے کا ارادہ ہو بس سوچیۓ دو چار دو نمبریۓ ساتھ ملایئے ایک ہاتھ میں شراب اور ایک ہاتھ میں شباب کی انگلی پکڑیۓ اور داخل ہو جائے اس ونڈر لینڈ میں ۔ پرچون فروش ہیں تو جب اور جتنا چاہے کنکر پتھر پیس کر دالوں مصالحوں میں ملائیۓاور کئ گنا منافع کمایۓ۫ ایوریج ہم نہیں بتائینگۓ گے کہ کتنا۔ کیوں کہ یہ تو عام اور فضول ملکوں کا معیار ہے کہ جہاں ایک بار قیمتیں اعلان ہوئیں تو اس کے بعد سال بھر کے لیۓ ترقی کاہر موقع ہی موقوف ہو جاۓ ۔ نہیں جی ہم ایسا کیوں کریں ۔ ہمارا ونڈر لینڈ زندہ باد ۔ مہینے تو کیا ہر گھنٹے کے بعد جب آپ کا جی چاہے جتنا چاہے ریٹ بڑھائیں کسی کی مجال ہے جو آپ کی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکاۓ ۔دوا فروش ہیں تو اپنے گھر کیا گھر کے ٹوائلٹ ہی میں دوا کے نام پر گند بنا کر یا زہر بنا کر منہ مانگی قیمت پر بیچیں اور مزے کریں ۔کہاں دنیا بھر میں ایڑی چوٹی کا زور لگا کر ایک عدد ریوالور رکھنے کی اجازت لیتے ہیں آپ ۔ ہمارے ونڈر لینڈ میں چلیۓ ریوالور کیا راکٹ لانچر بھی سڑکوں میں رکھے پیاز آلو کی طرح اسی کے ریٹ پر خرید کر اور بیچ کر دیتے ہیں ۔ ملازم کو تنخواہ نہیں دینا چاہتے تو بلے بلے بلے نہ دیں جی کسی بھی سردار ، وڈیڑے لٹیرے سے یارانہ گانٹیھۓ اور اس کے بیگار کیمپ سے جتنے چاہیئں مفتے غلام حاضر ۔ اور تو اور قانون سے دل بھر مذاق کیجیۓ ۔ ۔کھلواڑ کیجیۓ ۔ جہاں جو لکھا ہو اس کی کھل کر خلاف ورزی کیجیۓ ۔ ورنہ کوئ آپ کو ڈرپوک ہی نہ سمجھ لے نا ۔ ارے آپ کوئ ڈرپوک تھوڑی ہیں ۔ جیسے یہ باقی دنیا والے ڈرپوک ہیں آپ تو شی یییییییییییییییییییییییی جوان ہیں جی ۔جب چاہیں جہاں چاہیں قانون توڑیں ۔ آخر کو قانون بنایا ہی کس لیۓ جاتا ہے اسی لیۓ نہ کہ آپ جیسے معصوم سے بھاگڑ بلے اس سے کھیلیں ۔ تو جناب کھیلیں کھیلیں جم جم کھیلیں ۔ اس ملک میں ایک ایک شہر میں آپ کی حفاظت کے لیۓ ایسے پہلوان رکھے گۓ ہیں کہ جن کی صحت کا خیال رکھنے کے لیۓ سپیشل حمام بناۓ گۓ ہی ں ، اور مزےکی بات جانتے ہیں کیا ہے ۔ مزے کی بات یہ کہ اس حمام میں سسسسسسسسسسسسسسسسب ننگے ہیں ۔
ششششششششششششش اس ونڈر لینڈ کا نام ارے آپ بھی بڑے چالاک ہیں ہمارے بتاۓ بنا ہی سمجھ گۓ ۔ جی ہاں تو نعرہ لگایۓ ۔
ونڈر لینڈ زندہ باد ۔ پاکستان پائندہ باد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات، 7 مارچ، 2013

رپورٹ ۔ ممتاز ملک ۔ پیرس ... یوم اقبال اور ادارہ منھاج القران





+++ قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان نے نگراں وزیراعظم کے لئے 3نام تجویزکر دیے،رسول بخش پلیجو، جسٹس ریٹائرڈ ناصر اسلم زاہد اور جسٹس ریٹائرڈ شاکر اللہ جان شامل +++ سید منورحسن کی ترک وزیراعظم رجب طیب اردگان سے انقرہ میں ملاقات +++ مسلم لیگ ن کے ہوتے ہوئے پرویزمشرف کے جانشین جمہوریت اورمعیشت کوتختہ مشق نہیں بناسکتے، زرداری لیگ نے پانچ سال میں جوکچھ بویاوہ انہیں کاٹناپڑے گا، راجہ رحیل جنجوعہ +++ ایم کیو ایم اورپی پی پی کراچی حالات کی ذمہ دارہیں،انسانی جانوں پر سیاست کی جارہی ہے،دونوں پارٹیاں کراچی کا امن تباہ کررہی ہیں اورلوٹ کھسوٹ کا بازارگرم کیاہواہے،چوہدری منورگوندل ایڈووکیٹ +++ ایم کیو ایم فاشسٹ گروہ ہے جسے انسانی اور جمہوری اقدار سے کوئی سروکار نہیں ،گن پوائنٹ پر کراچی میں ڈاکہ زنی کا مینڈیٹ پاکستان کیلئے انتہائی خطرناک ہوگا، ٹرین مارچ کے شرکاء کا خطاب +++ پیپلزپارٹی بلوچستان کے سابق صوبائی صدر لشکری رئیسانی سمیت 22رکنی وفد ن لیگ میں شامل،بلوچستان کوسیاسی بحران کاسامنا ہے، نواز شریف کی قیادت پر اعتماد کااظہار +++
رپورٹ ۔ ممتاز ملک ۔ پیرس ... یوم اقبال اور ادارہ منھاج القران
ادارہ منہاج القران میں منہاج ٹی وی پر دنیا بھر میں براہ راست ٹیلی کاسٹ کرنے کے لیۓ نو نومبر 2012 کو لاکورنیوو کے ادارے میں یوم اقبال کے موقع پر ایک خاص تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں منہاج القران کی تنظیمات کے علاوہ بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی ، تقریب کی نظامت علامہ اقبال اعظم صاحب نے کی ۔ پروگرام کی خاص بات یہ تھی کہ تمام پروگرام کو اقبال ہی کی شاعری سے آراستہ کیا گیا تھا جس نے پروگرام کو بہت ہی دلکش بنا دیا ۔ پروگرام کا آغاز علامہ اعظم نے اس شعر سے کیا ۔کہ ،
فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا
نہ ہو نگاہ میں شوخی تو دلبری کیا ہے
تلاوت کلام پاک کا شرف انتہائ خوش الہان قاری صداقت کو حاصل ہوا جن کی تلاوت سننے والوں کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے ۔ ماشااللہ ۔ یوتھ لیگ کے نوجوانوں عامر ، یسین ، اور رضوان نے حمد خودی کا سر نہاں پیش کی ۔ اس کے بعد نعت رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیش کی گئ ۔عامر بٹ نے فرنچ زبان میں اقبال کے فلسفۂ خودی پر روشنی ڈالی ۔بلال بٹ نے بہت ہی خوبصورت انداز میں کلام اقبال ،، اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو ،، پیش کیا ۔
امیر یورپ علامہ حسن میر قادری صاحب نے اپنے مخصوص اور نپے تلے انداز میں اقبال کی زندگی اور فکر پر روشنی ڈالی ۔ اور علامہ اقبال کو خاموش عاشق رسول صلہ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خطاب دیا ۔ جن کے ایک ایک لفظ میں خدا اور رسول کی محبت اور قوم کی بے حسی کا درد چھلکتا ہے ۔ جنہوں نے مسلمانان ہند کو ایک حسین ملک کا خواب دیا ۔ جسے قائد اعظم نے پاکستان کی صورت میں قوم کی بیمثال قربانیوں کے ساتھ دنیا کے نقشے پر نمودار کر کے ایک حقیقت کی صورت میں ڈھال دیا ۔ اور آج اسی خوشبو کو لیکر شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری پاکستانی قوم کو اس غلیظ سیاسی نظام سے نکالنے کے لۓ 23 دسمبر 2012 کو پاکستان تشریف لے جا رہے ہیں جہاں مینار پاکستان پر اس تحریک کا پہلاعوامی جلسہ کیا جاۓ گا اور اس کے بعد اس بیداری تحریک کو ملک بھر میں بھیلا دیا جاۓ گا ۔ تاکہ لوگوں کے اندر ووٹ کے استعمال اور رہنماؤؤن کے چناؤ کے کے بارے میں شعور پیدا کیا جا سکے ۔ اس کے علاوہ شیخ الاسلام کے حالیہ دنوں میں ہونے والی نوبل پرائز کے لیۓ نامزدگی پر بھی مبارکباد دی گئ ۔
پروگرام کے آخر میں اقبال کی روح کے لیۓ ایصال ثواب کیا گیا اور پاکستان کی سلامتی کے لیۓ دعاۓ خیر کی گئ ۔ مہمانوں کی تواضح کے لیۓ کھانے کا اہتمام بھی کیا گیا تھا ۔

FacebookFlickrYoutube

دنیا ٹی وی لائیو

ہمارے ہاں 55 مہمان آن لائن ہیں




پیرس: ممتاز ملک کی کتاب کی تقریب رونمائی ۔ رپورٹ



  1. پیرس: ممتاز ملک کی کتاب کی تقریب رونمائی منہاج القرآن کے عہدیداروں کا خطاب

  2. 04 دسمبر 2011

پیرس (صاحبزادہ عتیق الرحمن حمن سے) ادارہ منہاج القرآن فرانس کی ذیلی تنظیم پاکستان جرنلسٹ فورم کے زیر اہتمام ایک تقریب کاانعقاد کیا گیا جس میں سابق جنرل سیکریٹری ادارہ منہاج القرآن محترمہ ممتاز ملک کی شاعری کی کتاب \\\"\\\" مدت ہوئی عورت ہوئے " کی تقریب رونمائی ہوئی۔ یہ تقریب صرف فیمیلیز کے لئے مخصوص تھی اور بیشتر حضرات اپنی فیمیلیز کے ہمراہ تشریف لائے لیکن ادارہ منہاج القرآن کے چند ممبران کو خصوصی رعائیت دی گئی۔ تقریب کا باقاعدہ آغازتلاوت کلام پاک سے کیا گیا ۔ بچیوں نے نہایت خوبصورت انداز میں نعت رسول مقبول پیش کی اور حاضرین سے بھرپور داد حاصل کی ۔صدر ادارہ منہاج القرآن فرانس عبدالجبار بٹ نے اپنے خطاب میں خواتین کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو کر کام کرنے پر مبارکباد پیش کی اور محترمہ ممتاز ملک صاحبہ کی بامقصد اور اصلاحی شاعری کو سراہتے ہوئے انہیں مبارکباد پیش کی ۔امیر یورپ ادارہ منہاج القرآن علامہ حسن میر قادری نے اس تقریب کو آغاز سے انجام تک ایک بامقصد اورمکمل پروگرام قراردیتے ہوئے کہا کہ یہ پہلا پروگرام وہ دیکھ رہے ہیں جس میں کسی کی برائی یا عیب جوئی نہیں کی گئی بلکہ سب کو ملانے کی ساتھ دینے کی باتیں ہوئی۔ ادارہ منہاج القرآن فرانس کی ذیلی تنظیم پاکستان جرنلسٹ فورم کے اعزازی چئیرمین اور پاکستان عوامی تحریک فرانس کے جنرل سیکریٹری چوہدری محمد اعظم نے اپنے خطاب میں ممتاز شاعرہ ممتاز ملک صاحبہ کو ان کی کتاب کی رونمائی کے موقعہ پر نیک خواہشات کا اظہار کیا اور بہترین شاعری پر انکو مبارکباد دی ،۔ انہوں نے اپنے خطاب میں پاکستان جرنلسٹ فورم کے ممبران کو خصوصی تاکید کی اور کہا کہ وہ دیارِ غیر میں رہتے ہوئے مثبت صحافت کریں اور ایسی صحافت سے اجتناب کریں کہ جس سے کمیونٹی میں انتشار پیدا ہو ، اور ہمیں پاکستانی کمیونٹی کے سامنے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے۔ تقریب سے پاکستان جرنلسٹ فورم کے ایگزیکٹو ممبراور صدر منہاج میڈیا کو آرڈینیشن بیورو یورپ راو خلیل احمدنے کہا کہ محترمہ ممتاز ملک صاحبہ کی شاعری اپنے اندر جامعیت اور مقصدیت لیے ہوئے ہے ۔پاکستان جرنلسٹ فورم کے ایگزیکٹو ممبر مرزا خالد بشیر اور آصف القادری نے اپنے خطاب میں ایسی تقریبات کے انعقاد کو حوصلہ افزا قرار دیا اورممتاز ملک صاحبہ کو ان کی شاندار شاعرانہ خدمات پر خراجِ تحسین پیش کیا ۔ تمام مقررین نے ایسے شاندار پروگرام کے انعقادپرمبارکباد دیتے ہوئے اس کو ایک مکمل فیملی پروگرام قرار دیا اور اس کا سہرا سینئیر رکن پاکستان جرنلسٹ فورم محترمہ شاہ بانومیر کے سر باندھا اورمحترمہ شاہ بانو میر صاحبہ کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ ان کی سربراہی میں خواتین ونگ مزید بہترین پروگرامز کا انعقاد کرے گا۔

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/