ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جمعرات، 16 مئی، 2013

بلی تھیلے سے باہر ۔ کالم



بلی تھیلے سے باہر آہی گئی 
ممتازملک ۔ پیرس


 لیجیئے ملاحظہ فرمایئے کل تک جو باتیں ایم کیو ایم کی جانب سے الزامات کہی جاتی تھیں آج ان تمام باتوں پر انہین کے نام نہاد لیڈر نے مہر تصدیق ثبت کر دی ہے  ۔
بہت سالون سے جو چنگاری الظاف حسین اپنے سینے میں دبائے بیٹھے تھے آج اسے اس لاوے کی  الٹی ہو ہی گئی ۔ایلیکشن تو ایک بہانہ تھا۔ حقیقت میں 25 سال سے الطاف حسین المعروف الطاف بھائی جس محاذ پر تھے اس میں کراچی والوں نے اپنی عزتیں بھی گنوائیں اپنے پیاروں کے لاشے بھی اٹھائے ، بوری بند لاشوں اور نامور لوگون کی ٹارگٹ کلنگ کے زریعے کراچی کو نایاب لوگوں سے پاک کرنے کے سنگین منصوبے بھی بھگتے ۔ اس بار کا ایلیکشن  میڈیا کے انقلاب کا ایک بہت بڑا ٹٰیسٹ کیس تھا ۔  جسے پاکستانی قوم نے اپنی آگاہی کا ثبوت دیتے ہوئے تو پاس کر لیا لیکن جن لوگوں کو پچھلے تماشوں کی عادت تھی ان کا ہاضمہ ضرور خراب ہو گیا ۔   جس پولنگ بوتھ پر چڑیا کو بھی پر مارنے کی اجاذت نہیں دیگئی وہاں پرجعلی ووٹنگ کو کیا کھیل کھیلا گیا   کئی خفیہ موبائل کیمرے اپنی آنکھوں میں ان مناظر کو قید کر رہے تھے جو جعلی کامیابیوں کا رونا روتے نظر آئے ۔ جعلی انگوٹھوں کی بہار بھی دیکھی گئی ۔ پورے پورے رجسٹر پر چند پارٹی کے لٹیرون کو دھڑا دھڑ ٹھپے ۔ انگوٹھے لگاتے واضح دیکھا جا سکتا ہے ۔ یہ بھی اللہ کا کرم ہے کہ دنیا میں کسی کا انگوٹھے کا نقش کسی بھی دوسرے کیساتھ نہیں ملتا ۔اب جب  کہ ایلیکشن کا ایک ایک ایکشن قوم کی نظر میں آ چکا ہے تو ایک جانب تو الطاف حسین نے  نواز شریف کوسارے ملک میں سیٹیں لینے کے باوجود  پنجابی لیڈر کہہ کر اپنے تعصب کا کھلا اظہار کر دیا ۔ دوسری جانب کراچی میں بھی اپنی سیٹس جو غنڈہ گردی کے زریعے جیتی جاتی تھیں وہ بھی جاتے دیکھ کر موصوف اپنا آپہ ہی کھو بھیٹھے اور لگے آئیں بائیں شائیں کرنے ۔ یہ ہی نہیں بلکہ کھلم کھلا ملک توڑنے کی دھمکیاں بھی دینے لگے ۔ بندہ پوچھے جگت بھائی صاحب  آپ بقول اپنے اتنے ہی کامیاب لیڈر اور جماعت کے بانی ہیں تو کیا وجہ ہے کہ آج 25 سال سے بھی ذائد عرصہ سیاست کے میدان میں گزار کر بھی آپ پاکستان کے کسی بھی علاقے میں کھلے بندوں  کوئی بھی سیٹ کیوں نہیں جیت سکے ۔ کیوں کسی اور شہر نے آپ کو اپنے ہاں ترقیاتی کاموں کے لیئے اعتبار سے نہیں نوازا۔ کیوں کوئی بھی شخص آپ کو اپنے علاقے میں نہیں دیکھنا  چاہتا ۔ تو بھائی صاحب یہ کوئی تعصب نہیں ہے بلکہ بہت بڑی سچائی ہے ۔ کہ جان بوجھ کر اپنی موت کو کوئی دعوت نہیں دیتا ۔ لہذا آپ کو بھی کسی نے اپنے شہر میں قبول نہیں کیا کیوں کہ آپ کی جماعت کا ماضی اور  تصور دونوں غنڈہ گردی / بوری بند لاشوں / ٹارگٹ کلنگ /بھتہ خوری / اغواہ برائے تاوان / ٹارچر سیلوں سے اٹا ہوا ہے ۔ ان سب کے باوجود بھی آپ کی خواہش ہے کہ آپ کو قومی لیڈر مان لیا جائے ۔کسی بھی ایشو پر ہر گھنٹے بعد تو آپ کا انکار اور اقرار تک بدل جاتا ہے ۔  آپکا اپنا کوئی دین اور ایمان آج تک نہ تو آپ کی اپنی باتوں میں نطر آیا نہ ہی آپکی پارٹی کے افراد کے قول و فعل میں ۔ اسی لیئے آپ لوگ  اپنا وقار  بھی قائم نہ کر سکے ۔ خود کو جناح کی اولاد کہنے والوں کو شرم آنی چاہیئے  ۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ  جنہوں نے قائد کے شہر کو اسی کے باسیوں کے لہو میں ڈبو دیا اوروہی قاتل شہر  اپنے نام کیساتھ آج بھی قائد کا نام لگاتے ہیں ۔ آج کی تاریخ میں موصوف کی تما م  تقاریر کو اکھٹا کر کے سنا جائے تو صرف ایک ہی بات سامنے آتی ہے ایک ایسے آدمی کا چہرہ سامنے آتا ہے جو اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے نہ تو اسے اس ملک سے محبت تو کیا دوردورتک کوئی ہمدردی ہے نہ ہی  اس ملک کے لوگوں کیساتھ اسکا کوئی درد کا رشتہ ۔ اب وقت آگیا ہے کہ ایسے ادمی کا سختی سے نوٹس لیا جائے اور اس کی موشگافیوں کا بھرپور علاج کیا جائے ۔ اس سے پہلے کہ پھوڑا ناسور  ۔۔بنے اس کا فوری علاج ملک و قوم کے مفاد میں بہت ضروری ہو چکاہے  ۔ خدا کے لیئے اپنے ملک سے محبت کیجیئے ۔ یہ ملک ہی ہماری ماں ہے ۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ اپنے ملک اور اپنی ماں کا دامن جھٹکنے والے نہ تو دنیا میں کامیاب ہوئے نہ ہی انہیں آخرت میں بخشش ملی ۔ اور نہ ہی انہیں تاریخ میں کوئی باعزت مقام ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/