موسم نہیں ہے
سمندر کی طغیانیاں کہہ رہی ہیں
ابھی پار اترنے کا موسم نہیں ہے
تواتر سے آتے ہوئے بین سن کر
سمجھ پاؤں دھرنے کا موسم نہیں ہے
ابھی جنتی موت سے لڑ رہے ہیں
ابھی سج سنورنے کا موسم نہیں ہے
بہت جان لیوا ہے رخصت کا منظر
زباں سے مکرنے کا موسم نہیں ہے
یہ کس نے کہا ہے کہ خاموش رہ کر
کوئی وار کرنے کا موسم نہیں ہے
گلوں کو زبردستی کچلا گیا ہے
خوشی سے بکھرنے کا موسم نہیں ہے
ابھی کام کرنے کے کتنے ہیں ممتاز
یہ جاں سے گزرنے کا موسم نہیں ہے
-----
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں