تیرے نشانے پر
ہم نے ڈالی نظر زمانے پر
دل میرا ہے تیرے نشانے پر
کیوں ہو حیران یہ تو ہونا تھا
ایک فتنے کے شاخسانے پر
وہ بھی تجھ کو بچا نہیں سکتے
جی اٹھے ہیں جو تیرے آنے پر
وہ نظر ڈالے جسکا نام لکھا
اس جھلکتے ہوئے پیمانے پر
تیر برسے ہیں اشک کی صورت
بات بدلی نہیں گھمانے پر
دھوپ پر بھی خراج لگتا ہے
بل ہے سورج کے اس خزانے پر
اب نہ ہم سے کرو یہ فرمائش
ٹیکس لگتا ہے مسکرانے پر
قصد کرنا ہے واپسی کا عبث
سزا لازم ہے جی لگانے پر
اک دکھاوا بھروسہ مجبوری
رنج ممتاز آزمانے پر
۔۔۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں