غضب داستاں
عجب ان کہی کی غضب داستاں ہے
کہ ہر لو کے آگے دھواں دھواں ہی ہے
یہ تقدیر بھی کیا تماشا دکھائے
کہاں اسکو جانا تھا پہنچا کہاں ہے
کبھی اسکو دیکھا تو سوچا تھا میں نے
نہیں میری منزل یہ اسکا جہاں ہے
بنا سوچے سمجھے جو وارد ہوا ہے
کسی بدگماں کا وہ سچا گماں ہے
بتاتی ہے ممتاز یہ عمر رفتہ
حقیقت سے ذیادہ تخیل جواں ہے
۔۔۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں